Search This Blog

Sunday, 27 May 2012

اصحاب رسول کی معاشی زندگی ۔ حضرت عمر فاروق ؓ

اصحاب رسول کی معاشی زندگی ۔ حضرت عمر فاروق ؓ

-عابد علی جوکھیو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار عظیم المرتبت صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ امیرالمومنین بننے کے بعد بھی انتہائی سادہ زندگی گزار کر امت کو سادگی اور قناعت کا درس دیا کہ یہ امت دنیوی جاہ و جلال سے بچ کر اپنی حقیقی منزل کی تیاری کرے۔ آپ کا نام عمرؓ اور فاروق لقب ہے، آپ قریش کی شاخ بنی عدی سے تعلق رکھتے تھے اور آٹھویں پشت میں آپ کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ آپ کی مدتِ خلافت 13ھ تا 24ھ رہی۔ آپ کی خلافت کے دوران ہونے والی فتوحات اور اسلامی سرحدوں میں مسلسل اضافہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور اسی طرح عدلِ فاروقی بھی ہمارے ہاںمشہور ہے، لیکن ہم یہاں حضرت عمرؓ کی معاشی اور خانگی زندگی کے متعلق چند واقعات بیان کریں گے، جن سے نصف دنیا پر حکمرانی کرنے والے عادل حکمران کی معاشی اور خانگی زندگی کے متعلق آگاہی حاصل ہوگی کہ اصل کامیابی دنیوی طاقت، جاہ و منصب نہیں، بلکہ حقیقی کامیابی اپنے آپ کو دنیوی آلائشوں سے پاک رکھنا ہے۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ قبولِ اسلام اور ہجرت کے معاملے میں بہت سے لوگوں کو حضرت عمر ؓ پر فوقیت حاصل تھی لیکن زہد و قناعت میں وہ سب سے آگے تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو کچھ مال دینا چاہا تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند موجود ہیں جو اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے لے لو، پھر تمہیں اختیار ہے کہ اسے اپنے پاس رکھو یا صدقہ کردو۔ اگر انسان کو بے طلب مال مل جائے تو اسے لے لینا چاہیے۔ (ابو دائود) حضرت عمر ؓ نے کبھی بھی نرم کپڑا نہیں پہنا۔ بدن پر بارہ بارہ پیوند لگے کپڑے، سر پر پھٹا ہوا عمامہ اور پائوں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں۔آپ ؓ اسی حالت میں قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے ملتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓاور حضرت حفصہ ؓ نے آپؓ سے کہا کہ امیرالمومنین اب اللہ نے ہمیں کشادہ حال کردیا ہے، بادشاہوں کے سفراء اور عرب کے وفود آتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنی طرزِ معاشرت میں تبدیلی لانی چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ افسوس تم دونوں امہات المو منین ہوکر مجھے دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو۔ عائشہؓ ! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ جب آپ کے گھر میں صرف ایک کپڑا ہوتا تھا جس کو دن کو بچھاتے اور رات کو اوڑھتے تھے۔ حفصہؓ! تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے بستر کو دوہرا کرکے بچھایا اور اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر سوتے رہے۔ بلالؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حفصہ! تم نے یہ کیا کیا کہ بستر کو دوہرا کردیا کہ میں صبح تک سوتا رہا۔ مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق! اور بستر کی نرمی کی وجہ سے تم نے مجھے غافل کردیا۔ (کنزالعمال۔ ج 6، ص 350) ایک دفعہ اپنا کرتا ایک شخص کو دھونے اور پیوند لگانے کے لیے دیا۔ اُس نے اس کے ساتھ ایک نرم کپڑے کا کرتا پیش کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کردیا اور اپنا کرتا لے کر کہا: اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ (کنزالعمال) ایک مرتبہ کپڑوں کے متعلق حضرت حفصہ ؓ نے گفتگو کی تو فرمایا کہ مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا۔ حضرت انسؓ بن مالک کا بیان ہے کہ میں نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ آپؓ کے کرتے کے مونڈے پر تہہ بہ تہہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ (موطا امام مالک) حضرت عمرؓ نے اسی وظیفہ پر اکتفا کیا جو صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے لیے مقرر کیا تھا۔ چنانچہ آپ اسی پر رہے اور آپ کو سخت حاجتوں کا سامنا ہوا تو مہاجرین کی ایک جماعت جمع ہوئی۔ ان اصحاب شوریٰ میں حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ حضرت زبیرؓ نے کہا: اگر ہم لوگ حضرت عمرؓ سے کچھ زیادتی کے لیے کہیں جس کو وہ اپنے وظیفہ میں زیادہ کرلیں (تو کیسا ہے؟) حضرت علیؓ نے فرمایا: میں تو پہلے ہی سے اس بات کا سوچ رہا تھا۔ لہٰذا ہم کو (حضرت عمرؓ کے پاس لے چلو۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا: وہ عمرؓ ہیں! آئو ذرا ہم تحقیق کرلیں کہ حضرت عمرؓ کا عندیہ کیا ہے؟ ہم لوگ حضرت حفصہؓ کے پاس چلیں اور ان سے چھپ کر پوچھیں۔ چنانچہ یہ حضرات حضرت حفصہؓ کی خدمت میں آئے کہ آپ حضرت عمرؓ کو ایک جماعت کی طرف سے یہ خبر پہنچائیں اور ان سے کسی کا نام نہ لیں مگر یہ کہ وہ دریافت کریں (تو بتادیں) اور یہ لوگ حضرت حفصہؓ کے پاس سے (یہ کہہ کر) چلے گئے۔ چنانچہ حضرت حفصہؓ اس بارے میں حضرت عمرؓ سے ملیں، پس انھوں نے حضرت عمرؓ کے چہرے میں غصہ کے آثار دیکھے اور پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ حضرت حفصہؓ نے کہا: میرے لیے ان کے (نام) بتانے کی کوئی سبیل نہیں جب تک میں آپ کی رائے نہ جان لوں۔ فرمایا: اگر میں جان لیتا کہ وہ کون لوگ ہیں تو ان کے چہرے بگاڑ دیتا، تُو میرے اور ان کے درمیان ہے، تجھے میں خدا کی قسم دیتا ہوں۔ سب میں بہتر وہ کون سا کپڑا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے گھر میں رکھ چھوڑا تھا؟ حضرت حفصہؓ نے فرمایا: دو کپڑے گیرو میں رنگے ہوئے جن کو آپؐ وفد سے ملاقات کے لیے پہنتے اور جنہیں پہن کر آپؐ جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: اور کون سا کھانا اعلیٰ درجہ کا آپؐ نے تیرے پاس پایا؟ کہا: وہی ہماری جَو کی روٹی جس پر ہم جب وہ گرم ہوتی اپنی کپی کا تلا نچوڑ دیتے اور اس کو ہم چکنا مالیدہ بنالیتے، ہم اس سے کھاتے اور اس سے آپؐ کو کھلاتے، اور اس کھانے کو بہت عمدہ سمجھتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کون سا بستر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس بچھایا کرتے تھے جو زیادہ نرم ہوتا؟ حضرت حفصہؓ نے کہا: ہمارا ایک موٹا کمبل تھا‘ جس کو ہم گرمیوں میں چوہرا کرلیتے تھے اور اسے اپنے نیچے بچھا لیتے تھے، اور جب سردی ہوتی تھی‘ آدھا بچھا لیتے تھے اور آدھا اوڑھ لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے حفصہؓ ان لوگوں کو میری جانب سے یہ بات پہنچادینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اندازہ مقرر کرگئے ہیں اور آپؐ نے زیادتی کے لیے اس کا محل مقرر کردیا ہے، اور امید (آخرت) ہی پر آپؐ نے کفایت فرمائی، اور بے شک میں نے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔ پس خدا کی قسم میں بھی مالِ زائد کو اس کے محل پر رکھوں گا‘ اور میں بھی اللہ کی امید پر کفایت کروں گا۔ میری اور میرے دونوں صاحب (حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ) کی مثال ان تین آدمیوں جیسی ہے جو ایک راستے پر چلے‘ پہلا چلا اور وہ توشہ لے گیا، پس منزل پر پہنچ گیا۔ اس کے پیچھے دوسرا اُس کے راستے پر چلا، یہ بھی اُس تک پہنچ گیا۔ پھر تیسرا ان دونوں کے پیچھے چلا، اگر ان کے طریقے کو پکڑے رہا اور ان کے زادِ راہ پر راضی رہا تو ان دونوں کے ساتھ مل جائے گا، اور انھی کے ساتھ رہے گا، اور اگر ان دونوں کے طریقے کے خلاف چلا تو ان دونوں کے ساتھ نہیں مل سکتا۔ (کما فی المنتخب الکنز ج 4، ص408) حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ میں بصرہ کی جامع مسجد کی ایک مجلس میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ اصحابِ رسول حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زہد کا تذکرہ کررہے ہیں اور ان چیزوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن سے اللہ پاک نے ان دونوں کے سینے کو اسلام کے لیے کھولا، اور ان دونوں حضرات کے حسنِ سیرت کا بیان کررہے ہیں۔ چنانچہ میں بھی اس مجمع کے قریب بیٹھ گیا۔ اس مجمع میں احنفؓ بن قیس تمیمی بھی لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگوں کو حضرت عمرؓ نے ایک سریہ (جنگ) میں عراق کی طرف روانہ فرمایا‘ اللہ پاک نے ہمارے ہاتھوں عراق اور فارس کے شہر فتح کرائے۔ ہم نے وہاں فارس اور خراسان کی چاندی پائی، اس کو ہم نے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اس سے ہم نے اپنے لباس بنوائے، پس جب ہم حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے ہم سے اپنا چہرہ پھیرلیا اور بات نہ کی‘ یہ بات حضراتِ صحابہ کرامؓ پر نہایت گراں گزری، چنانچہ ہم آپؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کے پاس آئے۔ یہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ہم پر امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی جانب سے جو سختی پیش آئی اس کی ہم نے ان سے شکایت کی‘ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ امیرالمومنین نے تم پر وہ لباس دیکھا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ آپؐ کے بعد والے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو۔ یہ سن کر ہم اپنے مکان واپس آئے اور جو لباس ہمارے اوپر تھا، ہم نے اسے اتارا، اور ہم حضرت عمرؓ کے پاس اسی لباس میں آئے کہ جس میں وہ ہمیں دیکھا کرتے تھے، تو حضرت عمرؓ نے کھڑے ہوکر ہم لوگوں میں سے ایک ایک آدمی کو سلام کیا اور ہم میں سے ایک ایک آدمی سے معانقہ کیا‘ جیسے کہ اس سے پہلے ہم کو دیکھا ہی نہ تھا‘ ہم نے آپؓ کے سامنے مالِ غنیمت پیش کیا تو آپؓ نے اس کو ہم لوگوں میں برابر تقسیم کردیا۔ ان کے سامنے مالِ غنیمت میں وہ ٹوکریاں بھی نکلیں جن میں خبیص (چھوارے اور گھی وغیرہ سے بنا ہوا حلوہ) کی سرخ و سفید قسمیں رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے اس کو چکھا، اس کا مزا اچھا اور خوشبو اچھی پائی تو ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: خدا کی قسم اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تم میں سے بیٹا باپ سے اور بھائی بھائی سے اس کھانے پر ضرور لڑے گا۔ پھر آپؓ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ یہ ان لوگوں کی اولاد کی طرف پہنچایا جائے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مہاجرین اور انصار میں سے شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور واپس چلے گئے۔ آپؓ کے پیچھے صحابہ کرامؓ آپؓ کے نقش قدم پر چلے اور صحابہؓ نے کہا کہ اے مہاجرین و انصار کی جماعت اس آدمی کے زہد کو اور اس کے حلیہ کو نہیں دیکھتے ہو؟ اس نے ہم لوگوں کے لیے ہمارے نفسوں کو حقیر کردیا جب سے کہ اللہ پاک نے اس کے ہاتھوں پر کسریٰ اور قیصر کے شہر فتح کیے اور مشرق و مغرب کی دونوں طرفیں۔ عرب اور عجم کے وفود اس کے پاس آتے ہیں اور اس پر یہ جبہ دیکھتے ہیں جس پر بارہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت! کاش کہ تم ان سے پوچھتے۔ اور تم لوگ بڑے ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اور غزوات میں رہے ہو، اور تم سبقت لے جانے والے مہاجرین اور انصار میں سے ہو کہ یہ اپنا جبہ کسی نرم کپڑے کا بنالیں جس میں ذرا ان کا منظر ہیبت ناک ہو اور صبح و شام ان کے پاس ایک لگن کھانے کی آئے جسے یہ کھائیں، اور جو مہاجرین و انصار میں سے حاضر ہوں وہ کھائیں‘ سب نے بالاتفاق سن کر یہی کہا کہ اس کام کے لیے تو سوائے حضرت علیؓ بن ابی طالب کے اور کوئی موزوں نہیں‘ اس لیے کہ وہ تمام لوگوں میں سے حضرت عمرؓ کے سامنے جرأت سے کام لے سکتے ہیں اور حضرت عمرؓ ان کے داماد بھی ہیں‘ یعنی حضرت علیؓ کی بیٹی بھی حضرت عمرؓ کے نکاح میں ہے، یا اس کام کے لیے جرأت ان کی بیٹی حفصہؓ کرسکتی ہیں، وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور حضرت عمرؓ ان کی بات مان بھی لیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے حضرت علیؓ سے بات چیت کی۔ انھوں نے کہا کہ میں یہ کام کرنے والا نہیں۔ تم لوگ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مدد لو‘ وہ امہات المومنین ہیں، حضرت عمرؓ پر جرأت کرسکتی ہیں۔ حضرت احنفؓ بن قیس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ سے کہا، کہ یہ ایک ہی جگہ جمع تھیں… تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: میں امیرالمومنین سے اس بات کو پوچھ لوں گی۔ حضرت حفصہؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ وہ کبھی بھی راضی نہ ہوں گے اور ابھی تم پر یہ بات واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ یہ دونوں امیرالمومنین کے پاس آئیں۔ آپؓ نے ان دونوں کو اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اے امیرالمومنین! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ آپ سے بات کروں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ام المومنین! کہیے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور رضوان کی طرف اپنا راستہ اختیار کیا اور دنیا کا ارادہ نہیں کیا اور نہ دنیا نے آپؐ کا ارادہ کیا‘ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرکے چل دیے اور جھوٹوں کو موت کے گھاٹ اتار گئے اور باطل لوگوں کی دلیلوں کو ناکارہ کرگئے‘ اپنی رعایا میں انصاف پھیلا گئے، سب میں تقسیم برابر رکھی اور اللہ پاک کی رضا مندیاں ہمیشہ ان کے سامنے رہیں۔ اللہ پاک نے ان کو اپنی رحمت اور اپنی رضوان کی طرف اٹھالیا اور انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچے بلند مقام پر ملا دیا۔ نہ انھوں نے دنیا کا ارادہ کیا اور نہ دنیا نے ان کا۔ اور اللہ پاک نے آپؓ کے ہاتھوں کسریٰ اور قیصر کے خزانے اور ان کے شہر فتح کرائے اور آپؓ کی طرف ان کے مال بھیجے اور آپؓ کی اطاعت مشرق اور مغرب نے کی‘ ہم اللہ سے اور زیادتی کی اور اسلام میں تائید کی امید رکھتے ہیں۔ عجم کے ایلچی اور عرب کے وفود آپؓ کے پاس آتے ہیں اور آپؓ کے پاس ٹھیرتے ہیں، اور آپؓ پر یہ جبہ ہے جس میں آپؓ نے بارہ پیوند لگا رکھے ہیں۔ پس اگر آپؓ اس جبہ کو نرم کپڑے سے بدل دیتے جس میں آپؓ بھاری بھرکم اور مہیب دکھائی دیتے، اور صبح ایک لگن کھانے کی آپؓ کے سامنے آتی اور شام کو ایک لگن کھانے کی آتی‘ آپؓ کھاتے اور مہاجرین وانصار میں سے جو اُس وقت ہوتے وہ کھاتے (تو نہایت مناسب تھا)۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بہت روئے‘ اس کے بعد فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیہوں کی روٹی سے دس دن یا پانچ دن یا تین دن پیٹ بھرا ہے؟ یا شام اور صبح کا کھانا ایک دن میسر آیا ہے؟ یہاں تک کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے مل گئے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: نہیں۔ پھر حضرت حفصہؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتی ہو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھانا ایسی میز پر پیش کیا گیا ہو جو زمین سے ایک بالشت اونچی ہو‘ آپؐ تو کھانے کے لیے حکم دیتے تھے، وہ زمین پر رکھ دیا جاتا تھا اور میز کے لیے حکم دیتے تھے وہ اٹھا دی جاتی تھی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ دونوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم یہی بات ہے۔ اس کے بعد آپؓ نے دونوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہو اور امہات المومنین ہو، اور تم دونوں کا تمام مومنین پر حق ہے، اور میرے اوپر تو خاص طور سے، اور تم دونوں مجھے دنیا میں رغبت دلانے آئی ہو؟ میں جانتا ہوں بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُون کا ایسا موٹا جبہ پہنا ہے‘ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کھال کو اس کے کھردرے پن سے کھجایا ہے‘ کیا تم دونوں اس بات کو جانتی ہو؟ ان دونوں نے کہا: خدا کی قسم ہاں۔ اس کے بعد آپؓ نے فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عبا پر جو ایک تہہ والی ہوتی، سو رہا کرتے تھے؟ اور اے عائشہؓ تمہارے گھر میں تو ٹاٹ تھا جو دن میں بیٹھنے کا فرش ہوتا اور رات میں سونے کے لیے بچھونا۔ ہم آپؐ کے پاس جاتے‘ چٹائی کا نشان آپؐ کے پہلو پر دیکھتے۔ اور کیا اے حفصہؓ تُو نے مجھ سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ تُو نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بستر نرم کردیا تھا‘ آپؐ نے اس کی نرمی پائی اور سوگئے اور آپؐ کی آنکھ بجز حضرت بلالؓ کی اذان کے نہیں کھلی تو آپؐ نے تجھ سے اے حفصہ کہا تھا کہ اے حفصہ تُو نے کیا کیا؟ تُو نے اس رات بستر دوہرا کردیا؟ یہاں تک کہ مجھے صبح تک نیند گھیرے رہی۔ مجھے دنیا سے کیا غرض؟ اور مجھے کیا ہوگیا کہ تُو نے اے حفصہ! مجھے نرم بستر کی وجہ سے نماز سے غافل کردیا؟ (حضرت عمرؓ نے کہا) اے حفصہ کیا تُو نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے تھے؟ آپؐ نے بھوکا رہ کر شام کی، اور سجدہ میں سورہے‘ اور ہمیشہ آپؐ رکوع اور سجدہ کرتے اور روتے اور رات اور دن کے اوقات میں گڑگڑاتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور رضوان کی طرف اٹھالیا۔ عمر نہ اچھا کھانا کھائے گا اور نہ نرم کپڑا پہنے گا۔ اس کے لیے اپنے دونوں ساتھیوں کا اسوہ (عمل) کافی ہے، اور نہ سوائے نمک اور روغنِ زیتون کے کسی دو سالن کو جمع کرے گا، اور میں گوشت مہینہ میں صرف ایک مرتبہ کھائوں گا، خواہ قوم کو یہ باتیں کتنی ہی ناپسندیدہ ہوں۔ یہ دونوں آپؓ کے پاس سے نکلیں اور اس کی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ اسی طرح بسر اوقات کی‘ یہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل سے جا ملے۔ (کذافی منتخب کنزالعمال۔ ج 4، ص 408)

No comments:

Post a Comment