Search This Blog

Friday 4 May 2012

اسلام کی ’’آفاقیت‘‘ اور دیگر مذاہب کی ’’مقامیت‘‘ کے نتائج

اسلام کی ’’آفاقیت‘‘ اور دیگر مذاہب کی ’’مقامیت‘‘ کے نتائج


-شاہنواز فاروقی
مذہب انسان کی سب سے بڑی قوت ہے، لیکن اگر مذہب کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا اور سمجھا نہ جائے تو مذہب کی قوت ملّتوں اور امتوں کی سب سے بڑی کمزوری بن جاتی ہے۔ مذاہبِ عالم کی تاریخ کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص زمانے یا ایک مخصوص علاقے اور ایک مخصوص قوم کے لیے پیغمبر مبعوث فرمائے۔ لیکن دنیا کی کئی ملّتوں اور امتوں نے اپنے مذہب کی مقامیت اور اس کی مخصوص زمانیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور انہوں نے کسی جواز کے بغیر اپنے مذہب کو لازمانی اور لامکانی یا آفاقی سمجھنے اور باور کرانے کی غلطی کا ارتکاب کیا۔ اس طرزفکر نے مختلف مذاہب کی تاریخ میں کم و بیش یکساں منفی نتائج پیدا کیے ہیں۔ ہندوازم دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک مقامی مذہب تھا اور ایک مخصوص زمانے کے لیے آیا تھا۔ ہندو ازم کی مقامیت اور زمانیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہندوازم میں سمندر پار کا سفر ’’حرام‘‘ تھا۔ بہت سے لوگ ہندوازم کی اس تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن ان کا مذاق ان کی کم فہمی کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ ہندوازم مقام اور ایک مخصوص زمانے کا اسیر تھا اور اس نے اپنے سفر میں ایک ایسی تہذیب پیدا کی تھی جو خود کو خودمکتفی یا Self Suffecient سمجھتی تھی۔ لیکن ہندوازم کی اس مقامیت اور مخصوص زمانیت نے ہندوازم کو مذاہب کی روایت سے یکسر بیگانہ کردیا اور اسے تصورِ توحید سے کاٹ کر مشرکانہ مذہب میں تبدیل کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مذہب کی اتنی بڑی تخریب کو قبولِ عام بھی حاصل ہوگیا۔ ہندوئوں نے ہندوازم کی مقامیت اور زمانیت کو تسلیم کرلیا ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے پیغمبر اور نئی شریعت کا انتظار کرتے۔ ہندوازم کی حقیقی تعلیمات کے اعتبار سے ہندوازم میں ذاتوں کا نظام یا Cast System کوئی بری چیز نہیں تھا۔ برہمن، کشتری، ویش اور شودر نسلی نہیں بلکہ روحانی یا نفسیاتی حقیقت کے مختلف نام تھے۔ برہمن وہ تھا جس کی روحانی استعداد سب سے زیادہ تھی اور وہ اس بنیاد پر کتابِ مقدس کی تشریح و تعبیر کا حق رکھتا تھا۔ کشتری بہادری اور جسمانی قوت کی علامت تھا اور ریاست چلانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے موزوں تھا۔ ویش انسانوں کی وہ قسم تھی جو غیرمعمولی ’’عقلِ معاش‘‘ رکھتی تھی اور تجارت کے لیے بہترین تھی۔ شودر وہ تھا جو صرف جسمانی محنت کرسکتا تھا۔ لیکن ہندوازم کی مقامیت اور زمانیت نے ذاتوں کے نظام کو ایک نسلی نظام بناکر رکھ دیا، اور ’’نسلی برہمنوں‘‘ نے نسلی شودروں کی زندگی اجیرن کردی۔ ہندوئوں کی مقامیت زدگی اور زمانیت زدگی نے ان کی قوت ِمزاحمت کو شل کردیا۔ چنانچہ ہندوستان میں عرب آئے، مغل آئے، انگریز آئے لیکن ہندو ان میں سے کسی کی مزاحمت نہ کرسکے۔ ہندوئوں کے ان امراض نے ہندوازم کو عصر کے چیلنجوں کا جواب دینے کے لائق نہ چھوڑا، چنانچہ ہندوازم گزشتہ ایک ہزار سال میں عصر کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت متعین کرنے میں ناکام ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہندوئوں کی مذہبی فکر تقریباً فنا ہوگئی ہے اور انہوں نے گزشتہ صدیوں میں ہندوازم کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے کوئی بڑا کام پیش نہیںکیا۔ یہاں تک کہ ان کی مذہبی زبان سنسکرت تقریباً مُردہ زبان بن کر رہ گئی ہے۔ ہندوازم دنیا کے تین بڑے مذاہب میں سے ایک ہے مگر دنیا میں ہندوستان کے سوا نہ اس کا کوئی تہذیبی مرکز ہے نہ سیاسی مرکز۔ عیسائیت کا معاملہ بھی ہندوازم سے زیادہ مختلف نہیں۔ عیسائیت کے علَم بردار عیسائیت کو ایک آفاقی مذہب کہتے ہیں، مگر عیسائیت بحیثیت ِمجموعی یورپ کا ’’نسلی تجربہ‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ یورپ کا روحانی مرکز ویٹی کن یورپ میں ہے۔ عیسائیت کے سب سے بڑے فرقے کا پوپ ہمیشہ سفید فام یورپی ہوتا ہے۔ عیسائیت کو سرمائے اور مشنریز کا غالب حصہ یورپ اور سفید فام امریکہ سے فراہم ہوتا ہے۔ ہندوازم میں تو خیر صرف پیدائشی ہندو ہی ’’ہندو‘‘ ہوسکتا ہے، عیسائیت تبدیلیٔ مذہب کی قائل ہے لیکن عیسائیت کی طویل تاریخ میں Converts کو کبھی مرکزی یاقائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا جاسکا۔ عیسائیت کی مقامیت اور زمانیت نے اسے کبھی عصر کے چیلنج کا جواب دینے کے قابل نہیں ہونے دیا۔ یورپ میں سائنس کو عروج حاصل ہوا تو عیسائیت نے سائنسی نظریات کو خلاف ِمذہب قرار دیا اور سائنس دانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ سائنس دانوں پر تشدد کیا گیا، انہیں زندہ جلایا گیا، ان کو اپنے نظریات واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن سائنس کی قوت کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی، اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ عیسائیت نے جدیدیت کے مختلف عقائد سے سمجھوتے کی راہ اختیار کی، یہاں تک کہ عیسائیت جدیدیت کے مقابلے پر یکسر پسپا ہوگئی اور اس نے جدیدیت کے غلبے کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ چنانچہ پوری عیسائی دنیا میں عیسائیت لوگوں کا انفرادی معاملہ ہے اور اس کا اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عیسائیت کا پہلا طرزعمل بھی غلط تھا اور دوسرا طرزعمل بھی صحیح نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیت بدلتے ہوئے حالات میں خود کو ازسرنو دریافت یا Re-Invent کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ عیسائیت میں خود کو ازسرنو دریافت کرنے کا امکان ہی نہیں تھا۔ عیسائیت ایک زمانی اور مکانی حقیقت تھی، لیکن عیسائیت کے علَم بردار آج بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہودیت کا معاملہ تو بالکل ہی واضح ہے۔ یہودیت ایک نسلی سلسلہ ہے۔ یہودی پیدائشی یہودی ہوتے ہیں۔ لیکن یہودیوں نے اپنی مقامیت اور مخصوص زمانیت کا سب سے زیادہ انکار کیا ہے۔ اس کی دو بڑی شہادتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہودی مزاج میں سازش کا عنصر بڑھتا چلا گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آفاقیت اور لازمانیت جو یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں کی گئی اسے انہوں نے مکروفریب اور سازش کے ذریعے تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ یہودیوں کے بارے میں دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں جادو کی سب سے بڑی روایت پیدا کی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی اپنے غلبے اور تسلط کو یقینی بنانے اور خود کو لازمانی اور لامکانی ثابت کرنے کے لیے شیطان تک کی مدد لینے سے گریزاں نہیں ہیں۔ ہندوئوں کی مذہبی زبان سنسکرت تھی جو مُردہ ہوچکی ہے۔ عیسائیوں کی مذہبی زبان لاطینی تھی جو اَب تقریباً ایک مُردہ زبان ہے۔ یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی تھی، اور عبرانی بھی ایک مُردہ زبان ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہودیوں نے اسرائیل میں عبرانی کو مار مار کر زندہ کرلیا ہے۔ لیکن یہ جدید عبرانی ہے، اس کا تعلق بول چال سے ہے، اس میں نیا مذہبی لٹریچر پیدا نہیں ہورہا۔ اسلام ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے آیا ہے، اور وہ اپنی اس لازمانیت اور لامکانیت اور آفاقیت کو ہر زمانے اور دنیا کے مختلف خطوں میں دریافت کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ ایک وقت تھا کہ اسلام کا روحانی اور سیاسی مرکز مکہ اور مدینہ تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ بغداد مسلمانوں کا روحانی، علمی اور سیاسی مرکز بن گیا۔ اسلام برصغیر میں آیا اور اس نے یہاں ’’ہند اسلامی تہذیب‘‘ کا تجربہ خلق کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام نے برصغیر کی مقامیت کو اپنی آفاقیت کے ساتھ آمیز کرکے دکھادیا۔ یہاں تک کہ دلّی اسلام کے تین بڑے روحانی، علمی اور سیاسی مراکز میں سے ایک بڑا مرکز بن کر ابھرا اور چھ سو سال تک اپنی بہاریں دکھاتا رہا۔ مسلمان اسپین پہنچے تو وہاں انہوں نے اسلام کی آفاقیت کو یورپ کی مقامیت کے ساتھ ملاکر ایک نیا تہذیبی نمونہ خلق کیا۔ اسلام نے افریقہ اور چین میں بھی یہی کیا۔ اِس وقت بھی اسلام کی آفاقیت خود کو یورپ اور امریکہ کی مقامیت میں دریافت کرکے دکھا رہی ہے، اور یہ کام ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب اسلام کو دنیا میں سیاسی یا عسکری غلبہ حاصل نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام حقیقی معنوں میں ایک لازمانی اور لامکانی مذہب ہے اور اس کا مزاج واقعتاً آفاقی ہے۔ اسلام کی لازمانیت اور لامکانیت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے کبھی عصر کے چیلنجوں سے گریز نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کا جواب دیا ہے۔ امام غزالیؒ کے زمانے میں یونانی فلسفہ عصر کا سب سے بڑا چیلنج تھا، اور امام غزالیؒ نے تن تنہا اس چیلنج کا مقابلہ کیا۔ عصرِ حاضر میں سوشلزم اور لبرل ازم چیلنج بن کر ابھرے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اقبالؒ، مولانا مودودیؒ، حسن البنائؒ اور سید قطب شہیدؒ جیسی شخصیات پیدا کردیں جنہوں نے ان چیلنجوں کا بھرپور جواب دیا اور امت ِمسلمہ میں ان نظریات کے فروغ کے امکانات معدوم ہوگئے۔ گزشتہ تیس سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مسلم ریاستوں نے عصر حاضر کے عسکری چیلنجوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں مگر اسلام نے ان چیلنجوں کی بے مثال مزاحمت کی ہے اور افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکہ کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ اسلام کی مذہبی زبان عربی ہے، اس لیے کہ قرآن و حدیث کا سرمایہ اسی زبان میں ہے۔ لیکن اگر صرف عربی اسلام کی مذہبی زبان رہتی تو اسلام اپنی لازمانیت، لامکانیت اور آفاقیت کو بہ تمام و کمال ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اسلام جزیرہ نمائے عرب سے نکلا تو دیکھتے ہی دیکھتے فارسی عربی کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی مذہبی اور تہذیبی زبان بن کر ابھری، یہاں تک کہ فارسی نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ شاعری کی عربی روایت بھی اس کے آگے کچھ نہیں ہے۔ برصغیر میں طویل عرصے تک مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی زبانیں عربی اور فارسی رہیں، مگر ان زبانوں میں مقامیت کی کامل بازیافت ممکن نہیں تھی، چنانچہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کے اجتماعی شعور نے ایک نئی زبان اردو تخلیق کرڈالی، اور اس زبان نے صرف دوسو سال میں شاعری اور مذہبی ادب کا اتنا بڑا سرمایہ تخلیق کرڈالا کہ دنیا کی لسانی تاریخ میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

No comments:

Post a Comment