Search This Blog

Sunday, 20 May 2012

آسٹریلیا میں مسلمانوں کی آمد

آسٹریلیا میں مسلمانوں کی آمد


-عبدالخالق بٹ
آسٹریلیا سے مسلمانوں کا تعلق یورپی دریافت سے بھی بہت پہلے سے قائم تھا۔ انڈونیشیا کے مسلم تاجر بہت پہلے سے شمالی آسٹریلیا کے مقامی قبائل کے ساتھ تجارت کررہے تھے۔ اس کے علاوہ انڈونیشیائی ماہی گیر آسٹریلیا کے شمالی ساحلوں کے ساتھ ساتھ پائی جانے والی مخصوص مچھلی ’’سینڈ فش‘‘ کا شکار کرتے تھے جس کی چین میں بہت طلب تھی۔ انڈونیشیائی مسلمانوں سے تال میل کے اثرات صرف ان کی زبان پر ہی نہیں پڑے بلکہ ان کی زبان، آرٹ اور ثقافت پر نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ان انڈونیشیائی تاجروں نے یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں کرکے ان لوگوں سے نسبتی رشتے بھی قائم کیے۔ اس خطے میں غیر انڈونیشیائی مسلمانوں کی آمد کا سبب اہلِ برطانیہ ہیں، جنہوں نے اس سرزمین پر قبضے کے ساتھ ہی اپنی نوآبادیاں قائم کرنا شروع کیں اور اس سلسلے میں انہیں جب تعمیر وترقی کے لیے افرادی قوت کی ضرورت پیش آئی، ایسے میں برطانوی حکومت کے تحت افریقی مزدوروں کا جو پہلا قافلہ یہاں پہنچا وہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ برطانیہ کے زیر تسلط افریقہ کے ساحلی علاقوں، جزائر اور ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں افغان کب پہنچے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اول اول 1838ء کے لگ بھگ یہاں افغان آئے، تاہم اس بارے میں جو بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر معدنیات کی تلاش اور تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا تو اس کام کے لیے برطانوی ہند سے اونٹوں کے ساتھ ساتھ افغان ساربان بھی ’’درآمد‘‘ کیے گئے۔ افغان ساربانوں نے1860ء سے 1930ء تک آسٹریلیا کے دوردراز علاقوں میں کام کیا۔ یہ تمام لوگ جنہیں ’’افغان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، افغانستان سے تعلق نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان میں سے بہت سوں کا تعلق برطانوی ہند کے اُن شمال مغربی علاقوں سے تھا جواب پاکستان کا حصہ ہیں۔ افغان ساربانوں کا پہلا گروہ مشہور مہم جو ’رابرٹ او‘ ہارابرک‘ (مئی 1820-21ء تا جون 1861ئ) اور ’ولیم جان ویلز‘ (جنوری1834ء تا جون/ جولائی1861ئ) کے ہمراہ اُن کی مشہور زمانہ ’’تلاش مہم‘‘ کے سلسلے میں جون 1860ء میں بذریعہ بحری جہاز میلبورن پہنچا۔ اس قافلے میں کل 8 افراد اور 24 اونٹ شامل تھے۔ جب کہ 31 ساربانوں پر مشتمل دوسرا گروپ 1966ء میں ’’تھامس ایلڈر‘‘ کی زیر نگرانی آسٹریلیا پہنچا۔ چونکہ وسطی آسٹریلیا جغرافیائی اور موسمی اعتبار سے نسبتاً کٹھور خطہ ہے، ایسے میں وہاں نقل و حمل کے لیے اونٹ کسی بھی دوسرے جانور سے بہتر ذریعہ تھے، یہی وجہ تھی کہ 1920ء تک آسٹریلیا میں اونٹ اور ساربانوں کی آمد جاری رہی، اس عرصے میں ان اونٹوں کی تعداد کم وبیش بیس ہزار تک پہنچ چکی تھی، جبکہ خیال ہے کہ اس دور میں 3000 افغان آسٹریلیا میں موجود تھے، یہ لوگ زیادہ تر ’’ایلس اسپرنگ‘‘ اور نارتھ ٹریٹری کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ ان افغانوں نے آسٹریلیا میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں، مگر اس کے باوجود انہیں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ یہ اپنے مذہب اور بودو باش میں اہلِ یورپ سے مختلف تھے۔ جدید ذرائع نقل وحمل کی ایجاد کے ساتھ ہی اونٹوں اور ساربانوں کی افادیت یکسر ختم ہوگئی، اس صورت حال میں کوششوں کے باوجود ان افغانوں کو شہریت نہیں دی گئی، چنانچہ کچھ واپس لوٹ آئے جب کہ کچھ نے سفید فام خواتین سے شادی کرلی، مگر ان کی اولادیں غیر اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کی وجہ سے بتدریج مرتد ہوگئیں۔ آسٹریلوی قوانین کے مطابق ایک طویل عرصہ تک یہاں صرف سفید فام باشندوں کو آباد ہونے کی اجازت تھی، چنانچہ یوگوسلاویہ، لبنان اور دیگر یورپی ممالک سے آنے والوں میں (سفید فام) مسلمان بھی شامل تھے۔ تاہم 1973ء میں نسلی امتیاز پر مبنی یہ پالیسی ختم کردی گئی جس کے بعد ترکی، ہندوستان اور پاکستان سمیت بہت سے ایشیائی ممالک کے مسلمان روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں یہاں پہنچے۔ میلبورن میں نسبتاً زیادہ مسلمان آباد ہیں جو البانیہ، مصر، پاکستان، ہندوستان، لبنان، ترکی، یوگوسلاویہ اور ملائیشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭ آسٹریلیا کے اصل وارث بہت سے محققین کا خیال ہے کہ آسٹریلیا میں انسانی قدم چالیس ہزار سے پچاس ہزار سال قبل پہنچے، جب کہ بعض محققین کا اندازہ دراز ہوکر سوا لاکھ سال قبل تک پہنچا ہوا ہے۔ عمومی خیال ہے کہ یہ تمام لوگ ایک ہی وقت میں جبکہ سمندروں میں پانی کی سطح زیادہ نہیں تھی، افریقہ سے آسٹریلیا پہنچے۔ جبکہ محدود طور پر یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ مختلف ادوار میں یہاں آئے۔ ان باشندوں کی قدامت کے متعلق خیال ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا میں پائے جانے والے عظیم الجثہ جانوروں (Australian megafauna) کا عہد بھی دیکھا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شکار پر گزارا کرتے تھے۔ یہ عموماً خوراک کی دستیابی اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی جانب سفر کرتے رہتے تھے۔ ان کے بود وباش میں بظاہرکوئی فرق نہ ہونے کے باوجود ان کی زبانوں اور ثقافت میں فرق نمایاں تھا۔ ان کی زیادہ آبادی دریائے مُرے کی مشرقی اور مغربی وادی میں پائی جاتی تھی۔ 1788ء میں یورپین کی آمد کے وقت ان کی آبادی تقریباً 315,000 تھی، جو آج 750,000 ہے، جبکہ کچھ ماہرین کے مطابق ان کی آبادی ایک ملین (دس لاکھ) ہوچکی ہے۔ یہ لوگ 250 قبائل میں تقسیم ہیں، جن میں سے بہت سے باہم حلیف ہیں۔ یہ سب مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ فی زمانہ ان کے بعض قبائل 5یا 6افراد اور بعض 30 یا 40 افراد پر مشتمل ہیں۔ زبانیں:یورپین کی آمد کے وقت یہ لوگ 250 زبانیں بولتے تھے جن میں سے آج بہت سی زبانیں یا تو دم توڑ چکی ہیں یا قریب المرگ ہیں۔ سفید لوگوں کے کالے قانون کے نتیجے میں بچ رہ جانے والے قبائلی اس وقت صرف 15زبانیں بولتے ہیں۔ مرکزی جامع مسجد ایڈیلیڈ اس مسجد کی تعمیر1888ء میں عمل میں آئی۔ یہ کسی بھی بڑے شہر میں واقع سب سے قدیم مسجد ہے۔ اس میں میناروں کا اضافہ 1903ء میں کیا گیا۔ یہاں زیادہ رونق عام طور پر ماہِ رمضان میں ہوتی ہے، کیونکہ اس دوران ’’بروکن ہل‘‘ اور ’’کیل گورلی‘‘ کے مسلمان بھی یہاں آتے ہیں۔ 1890ء میں یہاں 80 افغانوں کا اجتماع ریکارڈ کیا گیا۔

No comments:

Post a Comment