Search This Blog

Wednesday 23 May 2012

خودی کا پیام بر آیت اللہ خامنہ ای اقبال کے شیدائی

خودی کا پیام بر
آیت اللہ خامنہ ای اقبال کے شیدائی

شاعر مشرق ،مفکر اسلام علامہ سر محمد اقبال ؒنہ صرف بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک انقلابی پیغام دے گئے ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ میں عالم انسانیت کے لئے جو پیغامات پنہاں ہیں ان سے امت مسلمہ کے سبھی مسالک اور مکاتب فکر کے علماء دانشور اہل فکر اور سیاستدان استفادہ کرتے ہیں اور علامہ مرحومؒ کو گرانقدر الفاظ میں خراج عقید ت پیش کرتے ہیں۔ علامہ مرحومؒ نے نہ صرف اردو میں بلکہ فارسی میںبھی شاعری کی ہے ۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران میں، جہاںفارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے ،کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالیٰ نے علامہ اقبالؒ کے بارے میںجو تاثرات پیش کئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے علماء اور وہاں کے دیگر لوگ علامہ مرحوم کو کس قدر و منزلت سے دیکھتے ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے یہ تاثرات علامہ اقبال کے متعلق شاید ان کے اس شعر    ؎
تہران ہوگر عالم مشرق کا جینوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
کو داد تحسین کے طور پیش کئے ہیں کیونکہ علامہ اقبالؒ کی ایران کے متعلق قیاس آرائی صحیح ثابت ہورہی ہے ۔ لہٰذامیں آیت اللہ خامنہ ای کے ان تاثرات کو تمام مسلمانوں کی جانکاری کے لئے قلمبند کرنا مفید سمجھتا ہوں
اپنے تاثرات میں آیت اللہ موصوف فرماتے ہیں ’’ میںآج اقبال ؒ کی قدر دانی دیکھ رہا ہوں تو میرے دل میں ان کے تئیں جوش ولولہ زیادہ اُبھرتا ہے ۔ علامہ اقبال ؒ چمکتی ہوئی چنگاری تھے جو گھٹن کے ماحول کے تاریک ایام میں اپنے اشعار پند ونصائع اور فکر کے ذریعے ہمارے دلوں سے ناامیدی دور کرتے تھے اور ہماری نگاہوں کے سامنے ایک روشن مستقبل کا خاکہ اُبھرتا تھا ۔ ہم ان سے بہت پہلے روشناس ہوئے ۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے محبوب ملک ایران میں سامراج کی منحوس پالسیوں کا تسلط اس بات کا سبب بنا کہ علامہ اقبال ؒہر گز ایران نہ آسکیں ۔خوش قسمی سے علامہ اقبالؒ کی آرزو یعنی اسلامی جمہوریت نے ہمارے ملک ایران میںعملی شکل اختیار کی ہے ۔ آیت اللہ فرماتے ہیںکہ ’’ علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی انسانی اور اسلامی غفلت سے بہت غمگین رہتے تھے اور اسلامی معاشروں کی معنوی ذلت اور نا امید ی کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی سب سے بڑی آرزو جو ان کے کلام اور تصانیف میں صاف نظر آتی ہے یہ تھی کہ وہ دنیا میں ایک ایسی قوم کو دیکھیں جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نظام قائم کرنے کی آرزو مند ہواور ہماری قوم نے علامہ اقبالؒ کی اس آرزو کو عملی جامہ پہنایا ۔ آج ہمیں موقعہ ملا کہ عصر حاضر کی اس عظیم المرتبت شخصیت اور پر عزم انقلابی کے اسلامی تخیلات کو اجاگر کیا جائے ۔ آیت اللہ مانتے ہیں کہ علامہ اقبال ؒتاریخ اسلام کی نمایاںگہری اور اعلیٰ پایہ کی شخصیات میں شامل ہیں وہ ایک فلسفی ، عالم اور بلند مرتبہ کے شاعر ہیں ۔ ان کا فارسی کلام میری نظر میں شعری معجزہ ہے  کیونکہ فارسی میں شعر کہنے والوں میں اقبالؒ کی خصوصیات سے زیادہ ہے  وہ ایک عظیم حریت پسند تھے ۔ انگریز ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنے لئے دیگر اقوام کے مقابلے میں زیادہ دشمن سمجھتے تھے۔انگریزوں نے۱۸۵۷؁ء سے ہی مسلمانوں کی سر کوبی کے لئے سنگد لانہ حربے استعمال کئے ، مالی اور ثقافتی لحاظ سے ان پر دبائو ڈالا گیا۔ سماجی شعبوں میں ان کی تحقیر کی گئی ۔ ان کو ملازمتوں سے محروم کیا گیا۔ مسجدوں اور دینی درسگاہوں کو چلانے والے تمام موقوفات کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ ہندو تاجروں کو ور غلا یا گیاکہ مسلمانو ںکو بھاری قرضے دے کران کی جائیدادوں کو ضبط کریں۔ مگر پھر بھی ہندوستانی مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جذبہ مقابلہ ختم نہ ہوسکا۔ ہندوستانیوںکو مسلمانوں کے عظیم احسانات فراموش نہیں کرنے چاہیں ۔آیت اللہ فرماتے ہیں علامہ اقبال ۱۹۰۸ء کے آخری ایام میں جب یورپ سے واپس وطن لوٹے ان کے ہم عصر روشن خیال اور ہمنوا مغربی تہذیب پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ہندوئوں نے انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں سے پہلے ہی میل ملاپ قائم کیا تھا۔ صنعت ثقافت اور انتطامی امور میں ہندوئوں کو خاصا عمل دخل پیدا ہوا تھا۔ جس وجہ سے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں سے بھی مسلمانوں کو تکالیف اُٹھانے پڑتے تھے۔ مسلمانوں میں روشن خیال لوگ مغرب پرست تھے جب کہ عام لوگ غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ہندوستان میں، چند حریت پسند علماء جن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ابو الکلام آزاد قابل ذکر ہیں ،پیش پیش تھے ۔ اسلام اس وقت سیاسی علیحدگی اور اقتصادی بحران میں تھا۔مسلمان ہندوستانی معاشرہ کے تاریک ترین دور سے گذررہے تھے ۔ اسی مایوس کن صورتحال میں علامہ اقبالؒ نے فلسفہ خودی کی مشعل روشن کی۔ چونکہ پورے عالم اسلام میں ایسی ہی صورت حال تھی ۔ لہذا علامہ اقبال نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے اس فلسفہ خودی کے ذریعے ایڈریس کیا ۔جہاں تک میرا خیال ہے علامہ اقبالؒ کے ذہن میں خودی کا مسئلہ پہلے ایک انقلابی فکر کی شکل میں آیا، بعد میں اس فکر کو انہوںنے فلسفیانہ بنانے کی کوشش کی ۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کو اس وقت اسی فکر کی ضرورت تھی ۔ بعد میں اپنی اس فلسفیانہ فکر کو انہوںنے آرزو اورتمنا کا لباس پہنایا۔ کیونکہ علامہ اقبالؒ سمجھتے تھے کہ ایک انسان کی زندگی کا دار مدار آرزو مند ہونے پر ہے۔ انہوںنے اسی مفہوم کو بہت وسیع اور گہرے لطیف انداز میں بیان کیاہے ۔ انہوںنے آنحضور ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے ان سے والہانہ عشق پیدا کرنے پر زور دیا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی کو ئی ایسی نظم یا ایسا شعر ان کے سامنے سنایا جاتا جس میں آنحضورؐکا اسم پاک آتا تو اقبالؒ کی آنکھوں سے بے اختیا ر آنسوجاری ہوجاتے ۔ وہ پیغمبر اکرم ؐکے سچے عاشق تھے ۔ آیت اللہ فرماتے ہیں کہ اسرار خودی کا ایک باب یہ بھی ہے کہ جب ایک فرد یا قوم نیاز مندی کا ہاتھ پھیلاتی ہے تو اس فرد یا قوم کی خودی کمزور پڑ جاتی ہے  اور وہ مستحکم نہیں رہ سکتی ۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی امت کا وجود میں آنا ایک آسان کام نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ صرف افراد کا ایک جگہ جمع ہونے سے نہیں بلکہ وحدت فکر و عمل سے ایک قوم اور ملت وجود میں آجاتی ہے ۔ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ بنیادی فکر نبوتؐ کی فکر ہے   کیونکہ یہ اجتماعی فکر عطا کرتی ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے اچھے اور دلچسپ موضوعات پر اس قدر گفتگو کی ہے کہ انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کس کو فوقیت دی جائے کس کو نہیں ۔آیت اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ان کا پورا کلام شائع ہونے سے ہی انسان میںمکمل فکر اجاگر ہوسکتی ہے ۔ ان کے کلام کو مختلف مسلم ممالک ایران پاکستان افغانستان عراق وغیرہ جہاں جہاںلوگ فارسی سمجھتے ہوں ،میں شائع کرنا چاہئے  کیونکہ ان کے پندرہ ہزار اشعار میں نو ہزار صرف فارسی میں ہیں ۔ آیت اللہ فرماتے ہیں جب سے میں علامہ اقبالؒ کے کلام سے واقف ہوا ہوں،محسوس یہی کیا ہے کہ ان کے کلام میں شرح اور وضاحت کی کافی ضرورت ہے ۔ اقبال کے پیغام خودی کو ہمارے ملک ایران میں جس انداز سے لوگوں نے حقیقت کی دنیا میں عملی جامہ پہنایا ہے باقی مسلم دنیا میں بھی خودی کا یہ مفہوم اسی انداز سے سمجھا جانا چاہئے۔ علامہ اقبالؒ کی وفا ت ۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ اگر چہ تب سے آج تک اس طویل عرصہ کے دوران ان کے نام پر ایران میں بہت سارے سمینار ہوئے ، کتابیں لکھی گئیں مگر وہ سب تشنہ طلب رہے ۔ آیت اللہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری قوم ان کی اصلی فکر اور والہانہ عشق سے نا آشنا ہی رہی ۔ اور وہ اس کی تلافی چاہتے ہیں اور خواہش ظاہر کر رہے ہیں کہ شعرا ،مصنّفین ،صحافی، ادباء اور سرکاری وغیر سرکاری ادارے ان کی عظیم شاعری کی تشہیر کرنے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے ان کی عظیم المرتبت شخصیت کو دنیا میں زندہ رکھیں ۔ ان کے کلام کو کورس کی کتابوں میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ آخر پر وہ دو اہم نکتوںکا ذکر کرنا علامہ اقبالؒ کے حوالے سے ضروری سمجھتے ہیں جن میں پہلا نکتہ پاکستان کے قیام سلسلے کے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبالؒ کی جاودانی نصیحت جو انہوںنے ۱۹۳۰ میں اِلہ آباد کانفرنس میںپیش کی تھی کو ۱۷ سال بعد عملی جامہ پہنایا ۔ پاکستان کا قیام بر صغیر کے مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ اور احیاء کاضامن بنا ۔ دوسرا نکتہ یہ کہ مغربی ثقافت تمدن اور اُفکار کی تعلیم حاصل کرنے میں اپنی عمر کا اہم حصہ صرف کرنے کے باوجود علامہ اقبالؒ زاہد اور عابد ثابت ہوئے   جو میل جول میں اسلامی اعمال و آداب سے سر شار تھے ۔وہ ایک عبادت گذار ، قرآن شناس ، تہجدگذار اور پر ہیز گار مسلمان تھے۔ قرآن پر ان کا مکمل اعتقاد تھا اور رسول اکرم ﷺ کے تئیں والہانہ عشق تھا۔اسلامی علوم کی کتابیں خریدنا چاہتے تھے ۔ وہ عارفانہ سوز و گدازرکھنے والے کفایت شعار تھے ۔آیت اللہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ ایرانی عوام میں خودی اور اسلامی تشخص کی احساس مندی اور لا شر قیہ و لا غربیہ کی پالیسی بالکل علامہ اقبالؒ کی نظریات کی عکاسی کرتی ہے ۔ آیت اللہ موصوف اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم امت اسلامیہ کیلئے علامہ اقبالؒ کے عظیم حق کو اداکرسکیں ۔
 (نوٹ: فاضل مضمون نگار سرینگر ٹائمز کے نائب مدیر ہیں)
رابطہ:9797015579

No comments:

Post a Comment