Search This Blog

Friday 18 May 2012

اسلام بمقابلہ نام نہاد آزادخیالی


اسلام بمقابلہ نام نہاد آزادخیالی


اسلام ازم یا پولٹیکل اسلام دو ایسی اصطلاحات ہیں جن کا استعمال پوری دنیا میں کیا جاتا ہے تاکہ اسلام بحیثیت مذہب اور اسلام بحیثیت نظریۂ کے بیچ فرضی فرق ’’واضح‘‘ ہو جائے۔ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہوگئی ہے جو گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی ہے کہ وہ اسلام بحیثیت مذہب کے پیروکار ہیں، نہ کہ بحیثیت نظریہ کے۔ مسلمانوں کا یہ گروہ ان ’’روشن خیال مغربیوں ‘‘کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ سمجھتا ہے جنہوں نے ’’روشن خیالی‘‘ کو مذہب کے مقابلے میں حیثیت تک لاکھڑا کر دیا ہے۔’’اسلام ازم‘‘ پر ان لوگوں کا اعتراض صرف یہ ہے کہ یہ لوگوں کو واپس وسطی زمانے دور کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ان کی نظروں میں نشاۃ ثانیہ کافی تگ و دو قتل و غارت کے بعد پہلے یورپ میں اور بعد میں پوری دنیا میں واقع ہوا ہے اور اس لحاظ سے ’’اسلام ازم‘‘ پورے Enlightenmentکے لئے سم قاتل ثابت ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامی سکالروں جیسے سیدقطبؒ، سید مودودیؒ، راشد الغنوشی، یوسف القرضاوی وغیرہ نے اسلام کو بنیادی طور پر ایک ’’سیاسی منصوبے‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔تمام ’’روشن خیال‘‘ بلالحاظ مذہب و ملت اس بات پر متفق ہیں کہ ’’اسلام ازم‘‘ اور جمہوریت قطعی طور پر غیر اہم آہنگ ہیں۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ قرار دیا جاسکتا ہے جیسے اتفاقِ رائے (اجماع)، اجتہادتصور،شوریٰ وغیرہ لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اسلام کو جمہوریت کے ساتھ کیوں ہم آہنگ ہونا چاہئے؟ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اسلام کا روپ دھارن کرے تو تسلیم کریں گے نہ کہ یہ کہ اسلام ہی جمہوریت کا روپ لے!یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ ہوتا ہے۔ اسلام اور لبرل ازم دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ نہ ’’اسلام‘‘ مغربی معنوں میں کوئی ’’مذہب‘‘ ہے اور نہ ہی Islamismمغربی معنوں میں کوئی ’’نظریہ‘‘ ہے بلکہIslamism اسلامی سکالروں کی یہ کوشش ہے کہ کیسے عقیدہ اسلام کو جدید زمانے کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکے اور کس طرح اسلام کو آفاقی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اگر ’’روشن خیال‘‘ لوگ اسے ’’نظریہ‘‘ کہیں تو نظریہ ہی سہی۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے جس اختلاف رائے کو یہ مغربی جمہوریت کی روح قرار دیتے۔ اسی اختلافِ رائے کو اسلامی سکالروں کے معاملے میں رد کر دیتے ہیں۔ ان سکالروں کے بیچ ایک اسلامی ریاست کے معاملے میں چھوڑے بڑے اختلافات کو اس چیز کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ ان (اسلامی سکالروں) کے پاس مارکسسٹوں کی طرح ریاست اور سماج پر ہر قسم کی تنقید موجود ہے لیکن خود جمہوریت اور روشن خیالی کے مقابلے میں کوئی قابل قبول نعم البدل دینے سے قاصر ہیں بلکہ یہ ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ لبرل تہذیب انسانی ارتقاء کی آخری انتہا ہے۔ ان لبرلوں کی مانگ یہ ہے کہ ان کو لبرل الفاظ میں بولا جائے کہ ایک اسلامی ریاست اور سماج کے خدوخال کیسے ہوں گے؟ کیونکہ ان کے پاس ’’غیر روشن خیال‘‘ شعور ہے ہی نہیں جس سے کسی اورقسم کی تہذیب یا رائے ان کی سمجھ میں آ سکے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے بڑے سکالروں جیسے جے ایس مل ، رابرٹ نوزک، بنتھم وغیرہ کے بیچ بڑے اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ بھی انتہائی بنیادی نکات میںجیسے ایک ریاست کا جائزہ دائرہ اختیار، انصاف، آزادی اور خوشحالی وغیرہ لیکن اس کو Liberalism کی روح سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’تاریخ کی انتہا‘‘ کے ساتھ ساتھ دوہرا معیار اورمنافقت بھی انتہا کو پہنچی ہے۔جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی طاقتوں کی جیت نے اس سلسلے میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اخوان المسلمون، لنہضہ اور النور جیسی جماعتوں کی کامیابی سے لبرل دنیا خوفزدہ ہے اور اب نت نئے بہانے تلاش کر کے ان کو رد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ’’لبرل انتہا پسندی‘‘ کا سارا پول کھل جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لبرل ازم نے اپنے اس ’’شاندار‘‘ ماضی کو خیرباد کیا ہے جس میں دوسروں کی آواز کو سنا اور تسلیم کیا جاتاتھا اور جس میں اختلافِ نظریہ کی ایک اہمیت ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں پہ یہ اپنے ہی ماضی کو غلط پیش کر رہے ہیں۔ ہماری نظروں میںیہی تاریخ کی انتہا ہے اور یہی ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ شروع ہونے کا باعث بنے گا۔

No comments:

Post a Comment