Search This Blog

Wednesday 13 February 2019

ریاست حیدرآباد اور اہل دکن کی حرمین شریفین کے لئے ناقابل فراموش خدمات - توسیعی لکچر

ریاست حیدرآباد اور اہل دکن کی حرمین شریفین کے لئے ناقابل فراموش خدمات
اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن کے زیر اہتمام جناب احمد علی کا توسیعی خطاب
حیدرآباد ۔  آصف جاہی سلاطین نے خدمات حرمین شریفین کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔دکن خصوصاً حیدرآباد کی عوام نے بھی اس کی سعادت حاصل کی۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور و مورخ و ماہر آثار قدیمہ جناب احمد علی ، کیوریٹر نظام میوزیم ، ڈائرکٹر ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد  و سابق کیوریٹر سالار جنگ میوزیم نے اپنے توسیعی خطاب بعنوان ''نظام دکن اور ریاستِ حیدرآباد کی خدمات حرمین شریفین'' کیا۔یہ خطاب اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن حیدرآباد کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سلاطین کی خدمات حرمین شریفین کی فہرست بہت طویل ہے۔ سلطان محمود غزنوی اور تمام مغل سلاطین بھی اس خدمت میں شامل رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے اورنگ ذیب عالمگیر کا ذکر کیا۔سلاطین آصف جاہی نے عازمین حج کی رہائش کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں 26 رباطیں قائم کیں۔ اور ساتھ ہی حرمین کے منتظمین کے لئے تحائف اور وہاںکے مساکین کی امداد ل کھول کر فرمائی۔ باب توبہ پر سونے کی سیڑھیاں بنوائیں جو آج بھی حرم میوزیم میں محفوظ ہیں ۔ مقام ابرہیم کی موجودہ حالت میں تنصیب بھی انہیں کا کارنامہ ہے۔ حرمین شریفین میں سب سے پہلے برقی روشنی لئے جرمنی سے جنریٹر منگوائے ۔ منی اور عرفات میں حجاج کے لئے طعام اور ٹھنڈے پانی کا نظم کیا۔ ان سب کا اہتمام صرف خاص سے کیا جاتا تھا۔ جناب احمد علی نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے دیگر حکمرانوں اور نوابین نے جیسے نواب بھوپال، نواب جوناگڑھ وغیرہ نے بھی اپنے علاقہ کے حجاج لئے رباطیں قائم کیں جو آج بھی موجود ہیں۔ لیکن سلاطین آصف جاہی کی قائم کردہ رباطیں حرم سے بلکل متصل تھیں۔ شاہ  عبدالعزیز بن سعود کے زمانے میںان میںسے 22 رباطوں کو مسجد حرام میں شامل کرلیا گیا۔ انہوں نے تمام آصف جاہی سلاطین بلخصوص پانچویں حکمران افصل الدولہ بہادر ،میر محبوب علی خان اور آصف سابع میر عثمان علی خان کی خدمات حرمین کا تفصیلی ذکر کیا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب حرمین کے انتظام سے خلافت عثمانیہ کو بیدخل کیا گیا تو ایک ہنگامی صورتحال پید ہوگئی تھی۔ اس وقت آصف سابع نے حرمین کے سالانہ اخراجات کی ذمہ داری  قبول کی۔ حکمرانوں کے علاوہ دکن خصوصاً حیدرآباد کے مخیر امراء ، نوابین اور عام شہریوں نے بھی حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز حاصل کیا۔ ان میں پائگاہ کے امراء  اور خان بہادر علاء الدین قابل ذکر ہیں۔ حرمین شریفین کے باشندگان  کے روزگار اور معاش کے لئے انجمن دستی پارچہ بافی حرمین شریفین قائم کی اور اس کے ذریعہ کارخانوں کا قیام عمل میں آیا۔حیدرآباد میں بہت سی ایسی وقف املاک  تھیں جن کی آمدنی حرمین شریفین کے لئے روانہ کی جاتی تھی۔  خدمت کا یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد کے بعد بھی جاری رہا۔ اپنے اس پرمعلومات خطاب کے اختتام پر ایک اہم امر پر توجہ دلاتے ہوئے آپ نے کہا کہ موجودہ دور میں توسیع حرم کے منصوبہ میں رباط سمیت بہت سی وقف جائددایں سعودی حکومت نے حاصل کر لیں۔ اور ان کا خطیر معاوضہ محفوظ ہے ۔ اس کی جانب توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس معاوضہ کے بدلے قدیم ریاست حیدرآباد میں شامل اضلاع کے حجاج اور موتمرین کے لئے ایک عظیم رباط کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
جناب عمر علی خان، صدر اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن حیدرآباد نے اپنے صدارتی خطاب میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب احمدعلی صاحب نے کا یہ ایک تاریخی خطاب ہے۔ خدمات حرمین اہلیان دکن کے لئے ایک اعزاز ہے۔ ہمارے نیک دل حکمرانوں اور عوام نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرایا جائے۔ حیدرآباد  رباط کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ اس سے اہلیان دکن مزید استفادہ کر سکیں۔ ساتھ ہی حیدرآباد و اضلاع میں واقع وقف املاک  کے بہتر استعمال کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وقف بورڈ کو فعال کردار اد کرنے کی ضروت ہے۔
اس اہم تاریخی نشست کا آغاز قاری محمد مسفر حسین کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ جناب شاہنواز ہاشمی نے نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا۔ جناب ایاز الشیخ ، نائب صدر، اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن ، حیدرآباد نے فاضل مقرر کا استقبال کیا اور اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ یہ ادارہ اقبال اکیڈمی کے اشتراک سے اسلامی تاریخ، تہذیب و تمدن پر مشتمل سرگرمیوں میں پچھلے اٹھارہ سال سے مصروف  عمل ہے۔ جناب ولی سکندر ، معتمد اسٹڈی سرکل اقبال اکیڈمی نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ جناب محمد عمر، لائبررین اقبال اکیڈمی نے شکریہ ادا کیا۔ اس اہم خطاب میں حیدرآباد و اکناف سے اہل علم و دانش کی کثیر تعداد شریک تھی۔ لکچر ہال اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کر رہا تھا۔ خطاب کے بعد شرکاء نے فاضل خطیب سے سوالات کئے اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ یہ لکچر ڈیکن ڈائجسٹ نیٹورک کے تعاون سے انٹرنیٹ پر راست نشر کیا گیا۔ ملک و بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ناظرین نے اس سے استفادہ کیا۔ اس لکچر کی ویڈیو اقبال اکیڈمی کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ہے۔