Search This Blog

Saturday 7 September 2013

ADB ادب

ادب

…شاہنواز فاروقی …

اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانیت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملتوں کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ اسلامی تہذیب کے دائرے میں موجود ادب کی روایت کو دیکھاجائے تو اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن آج مسلم معاشروں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ کروڑوں پڑھے لکھے کہلانے والے افراد بھی چاقو مارنے کے انداز میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ادب کا فائدہ کیا ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جائے اور اسے کیوں پڑھا جائے…؟
فائدے کے اس سوال کا تعلق عصر حاضر کی اس عمومی معاشرتی صورت حال سے ہے جس میں پیسہ اعلان کیے بغیر معاشرے کا خدا بن کر بیٹھ گیا ہے اور کروڑوں لوگ اعلان کے بغیر اس کی پوجا کررہے ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق اور اس کے مطالعے کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھانے والے دراصل شاعروں ادیبوں کی معاشی حالت اور ادب کے مطالعے کے معاشی اور سماجی فائدے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک ایسی فضا میں ادب کیا مذہبیت تک ’’افادی‘‘ ہوجاتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہبیت کا ایک پہلو افادی ہوتا جارہا ہے۔ لیکن بعض لوگ جب ادب کے فائدے کا سوال اٹھاتے ہیں تو وہ دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زندگی میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔ اس کا وظیفہ یا Function کیا ہے اور کیا ادب کی تخلیق اور اس کا مطالعہ معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔؟ جہاں تک پہلی قسم کے لوگوں کے سوال کے جواب اور اس مسئلہ کے طے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے شاعروں، ادیبوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی طرح ہمارے بینک شاعروں ادیبوں کو لاکھوں روپے کے مشاہرے پر ملازم رکھنے لگیں تو ادب کی افادیت کے سلسلے میں سوال اٹھانے والے اپنے بال بچوں کو شاعر ادیب بنانے کے لیے بیتاب ہوجائیں گے البتہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو معاشرے میں ادب کے کردار یا اس کے وظیفے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوال کا قدرے تفصیل سے جواب دینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ ہمارے زمانے میں ادب کیا مذہب کے حقیقی کردار کی تفہیم بھی دشوار ہوگئی ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔؟
اسلامی تہذیب میں ادب کی حیثیت مذہب کے تو سیعی دائرے کی ہے۔ ہماری تہذیب میں ادب نہ کبھی معنی کا سرچشمہ رہا ہے نہ وہ کبھی مذہب سے جدا ہوا ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں ایک زمانہ وہ تھا جب ادب کی ضرورت ہی کا انکار کردیا گیا اور پھر ایک دور وہ آیا جس میں کہا گیا کہ مذہب ختم ہوگیا اب ادب مذہب کی جگہ لے گا۔ ہماری تہذیب میں ادب کے حوالے سے یہ افراط وتفریط کبھی موجود نہیں رہی۔ اس لیے کہ اسلامی تہذیب میں معنی کا چشمہ مذہب ہے چنانچہ ہماری تہذیب میں ادب کا کام یہ ہے کہ وہ معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنائے۔ ادب کے اس کردار نے ہماری روایت میں حقیقت اور مجاز یا Reality اور Appearance کی اصطلاحوں کو جنم دیا ہے اور ہمارے یہاں بڑا ادب اس کو سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت حقیقت اور مجاز سے متعلق ہو۔ ہماری تہذیب میں حقیقت کا مطلب خدا اور مجاز کا مطلب ایک سطح پر انسان اور دوسری سطح پر یہ پوری مادی کائنات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت اور مجاز میں تعلق کیا ہے؟ ہماری تہذیبی اور ادبی روایت میں مجاز حقیقت کا جلوہ، اس کی علامت اور اس کا ایک اشارہ ہے اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ انسان مجاز کے ذریعے حقیقت سے رشتہ استوار کرتا ہے۔ اس کا فہم حاصل کرتا ہے۔ اس طرح مجاز کی محبت بھی حقیقت کی محبت بن جاتی ہے۔ ہمارے ادب میں محبت اور ہوس کی اصطلاحیں مروج ہیں۔ محبت کو اچھا اور ہوس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ مگر لوگ ان اصطلاحوں کے فرق پر مطلع نہیں ہیں۔ محبت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مجاز کے وسیلے سے بیک وقت مجاز اور حقیقت دونوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے برعکس محبت ہوس سے اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب انسان صرف مجاز میں الجھ کر رہ جائے اور مجاز کے ذریعے حقیقت سے تعلق پیدا نہ کر پائے یا اسے مجاز میں حقیقت کا جلوہ نظر آنا بند ہوجائے۔ ایک شعر ہے۔
ہر بو الہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ شعور حسن صرف مجاز تک محدود ہوگیا ہے اور نظر کی اس کوتا ہی نے محبت کو ہوس میں تبدیل کردیا ہے لیکن ہوس میں مبتلا لوگوں کو اس کا ادراک نہیں چنانچہ وہ ہوس پرستی کو بھی محبت سمجھے چلے جارہے ہیں۔ ہماری شاعری بالخصوص غزل کی شاعری اور داستان کی روایت کا کمال یہ ہے کہ اس نے حقیقت اور مجاز کی یکجائی اور پیشکش کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ اتنا بڑا تخلیقی اور تہذیبی کارنامہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کارنامے کے ذریعے معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنایا گیا ہے۔ ہماری غزل کی شاعری کا قابل ذکر حصہ حقیقت اور مجاز کی وحدت کا حامل ہے اور داستانوں میں ایک سطح پر روحانی تجربے کا بیان ہے اور دوسری سطح پر عام کہانی کا بیان ہے۔ لیکن ادب معلوم کو محسوس مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور کیسے بناتا ہے؟ اس کی ایک مثال اقبال کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں مومن اور شاہین دو تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اقبال نے جذبے، احساس اور مخصوص تہذیبی اور تاریخی تناظر کے ذریعے انہیں کروڑوں لوگوں کا تجربہ بنادیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پردے پر مومن اور شاہین ٹھیک اسی طرح طلوع ہوتے ہیں جیسے سینما کے پردے پر ہیروز نمودار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک اور مثال قرۃ العین کے ناول ہیں۔ تاریخ ایک فلسفہ اور ایک مجرد تصور ہے۔ لیکن قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ انسانی کرداروں ان کی آرزئوں تمنائوں اور عمل کی صورت میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جبلت اور جعلی اخلاقیات دو تصورات ہیں لیکن غلام عباس نے اپنے معرکہ آراء افسانے آنندی میں اخلاقیات اور جبلت کی کشمکش اور جبلت کی جعلی اخلاقیات پر فتح کے حوالے سے ایک شہر آباد ہوتا دکھا دیا ہے۔ معلوم کو محسوس، مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنانے کی اس اہلیت کی وجہ سے ادب کو باقی تمام علوم وفنون پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن ادب کی اہمیت کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔
سلیم احمد نے کہا ہے۔
کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
یہ اخبار کی رسائی اور نارسائی دونوں کا بیان ہے۔ اخبار اور ادب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اخبار ظاہر کا ادب اور ادب باطن کا اخبار ہے۔ ظاہر کا ادب صرف یہ بتاسکتا ہے کہ ظاہر میں کیا ہورہا ہے لیکن انسان، معاشرے اور تہذیب کے باطن کی خبردینا صرف ادب کا کام ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے معاشرے میں جدیدیت کی پہلی اور سب سے بڑی علامت ہیں لیکن سلیم احمد نے اپنی کتاب غالب کون میں دکھایا ہے کہ وہ زندگی جس کا تجربہ آج ہم کررہے ہیں اس کا شعور غالب کے یہاں بہت پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح اقبال نے عہد غلامی میں اسلام اور مسلمانوں کے عروج کے ترانے گائے ہیں اور جس وقت یہ ترانے تخلیق ہورہے تھے بہت سے لوگ انہیں ’’مجذوب کی بڑ‘‘ سمجھتے تھے لیکن حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اقبال کا تخلیقی تصور اس دنیا کو وضاحت کے ساتھ دیکھ رہا تھا جو ابھی پیدا ہونی تھی۔ دوستو وسکی کا زمانہ روسی انقلاب سے پہلے کا زمانہ ہے لیکن دوستو وسکی کے ناولوں میں انقلاب کی چاپ کو صاف طور پر سنا جاسکتا ہے۔ ادب کے متن یا Text کی کثیر الجہتی یا Multi Dimensionality ادب کا ایک اور بہت بڑا امتیاز ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ تمام علوم اپنی روایت اور اپنے مخصوص تناظر کی پاسداری کرتے ہیں۔ نفسیات، نفسیات کی روایت اور تناظر کو کام میں لاتی ہے۔ عمرانیات اپنی مخصوص روایت اور تناظر کی اسیر ہوتی ہے لیکن ادب تجربے کی تشکیل اور ابلاغ کے سلسلے میں بے انتہاء وسیع المشرب ہوتا ہے چنانچہ ادب میں مذہب، فلسفے، نفسیات، عمرانیات اور طبیعات کے دھارے باہم مدغم ہو کر ایک نئی صورت اختیار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کام شاعری میں بھی ہوتا ہے اور افسانے اور ناول میں بھی۔ یہاں تک کہ ادب کی اعلیٰ تنقید بھی ادب کی وسیع المشربی سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو اردو ادب میں فراق، عسکری اور سلیم احمد اور انگریزی میں ڈی ایچ لارنس اور ٹی ایس ایلیٹ کی تنقید پڑھنی چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تنقید کو بھی تہذیبی بنا دیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کی معنویت اور قوت کا اظہار یا تو مذہب میں ہوتا ہے یا ادب میں۔ اعلیٰ مذہبی اور ادبی متن کا فرق یہ ہے کہ مذہبی متن قاری کو لفظ اور معنی کی گہرائی سے آشنا کرتا ہے اور ادبی متن لفظ اور معنی کے تنوع سے۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مذہب اور ادب کے مطالعے کے بغیر کسی کو زبان آجائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ادب بالخصوص شاعری کا ترجمہ ممکن نہیں مگر لوگ اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ ادب کے دو پہلو ہیں ایک تفہیمی اور دوسرا تاثیری۔ تفہیم کا تعلق خیال سے ہوتا ہے اور خیال کا ترجمہ بڑی حد تک ممکن ہے مگر تاثیر کا تعلق کسی زبان کی پوری تہذیب، تاریخ، اظہار کے سانچوں اور اسالیب سے ہے چنانچہ اس کا ترجمہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔


عقیدۂ ختم نبوت ایمان کی خشت اول


مولانا حافظ عبدالرحمان سلفی …

قال تعالیٰ! ترجمہ: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے ہیں) اور اللہ ہر شے سے (خوب) واقف ہے (الاحزاب پ۲۱۔ آیت ۴۰)
امام الابنیاء سید المرسلین ختمی مرتبت محمد رسولؐ پر بحیثیت آخری پیغمبر عقیدہ وایمان پر مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپؐ کے بعد قیامت تک اب کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں ظلی نہ بروزی اور نہ ہی کسی دوسرے معانی ومفہوم میں کہ جس پر نبی کا اطلاق ہوتا ہو۔ دور رسالت وصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ جہاں رب تعالیٰ ے واحد یکتا ہونے پر ایمان کامل رکھتی ہے بعینہ شافع محشر ساقی کوثر محمدؐ کے خاتم النبین ہونے پر بھی غیر متزلزل ایقان رکھتی ہے۔ آپؐ کے بعد کسی بھی معانی میں دعوائے نبوت کرنے والا کذاب واجب القتل اور محبوب رب العالمینؐ کی نبوت ورسالت کی آخری چادر عصمت پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا شخص مردود، جہنمی اور اہل اسلام کے نزدیک یہودو نصاریٰ سے بدتر قابل نفرین گردانا جاتا ہے۔ ہمیشہ اہل اسلام اور ان کی حکومتوں نے ایسے تاپنجار ظالموں کی نہ صرف سرکوبی کی بلکہ ان کے مقتدا سمیت تمام ماننے والوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا اور انہیں نابود کیا۔ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود سب سے پہلے اس بے ایمان کی سرکوبی کے لیے اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں دستہ روانہ فرمایا اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اسی طرح دیگر جھوٹے مدعیان نبوت اسودحسنیٰ ودیگر خاتون کا بھی لحاظ کیے بغیر تمام جھوٹے پیغمبروں کا انجام موت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے بغیر اسلام کا تصور حیات ہی نہیں کیا جاسکتا لہٰذا امت مسلمہ کے کسی بھی مکتبہ فکر نے تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی سمجھوتا نہیں کیا کیونکہ عقیدۂ ختم نبوت اہل اسلام کی شہہ رگ حیات ہے یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جو قرآن مجید واحادیث شریفہ سے قطعی ثابت ہے اور پوری امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ سورۃ احزاب کی آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ محمدؐ تم مردوں میں سے کسی کے والد نہیں یعنی آپؐ کے بعد کوئی کھڑا ہو کر یہ دعویٰ نہ کرسکے کہ چونکہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا یا پوتا ہوں لہٰذا میں بھی نبوت میں کسی طرح شریک ہوںیا خونی رشتے کی بناء پر مجھے بھی نبوت میں شراکت کا کوئی حق حاصل ہے۔ اسی طرح خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا کہ آپؐ تو اللہ کے پیغمبر اور تمام انبیاء کی نبوت پر مہر ہیں یعنی اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ ہے۔ ترجمہ! ابی بن کعبؓ راوی ہیں! کہ نبی کریمؐ نے فرمایا میری مثال دیگر انبیاء میں ایسی ہے جیسے کسی نے ایک اچھا کامل گھر بنایا لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگوں نے اس کی عمارت کو پسند کرلیا لیکن خالی جگہ پر تعجب کیا پس وہ خالی جگہ میں نے آکر پرُکردی۔ میرے آنے کے بعد نبوت کا محل مکمل ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ نبوت کی عمارت اب قیامت کے لیے کامل ہوچکی اور اس میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
برصغیر میں انگریز کی آمد نے جہاں مسلمانوں کے لیے سیاسی و اقتصادی تباہی و بربادی کا سامان کیا۔ وہیں اسلام کے پاکیزہ چہرہ کو داغدار کرنے کے لیے (معاذ اللہ) کئی سازشیں تیار کی گئیں تاکہ ایک جانب وحدت امت پارہ پارہ ہو تو دوسری جانب اہل اسلام ان کے پیدا کردہ فتنوں کی سر کوبی میں مصروف ہو کر انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی سے صرف نگاہ پر مجبور ہوجائیں۔ اندرونی خلفشار اہل اسلام کو اپنے مسائل میں الجھائے رکھے اور سامراج ہندوستان کی دولت سمیٹ کر اپنے ملک میں جمع کرتا رہے۔ اس کے لیے انگریزی سامراج نے جہاں دیگر ہتھکنڈے اختیار کیے وہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں فتنہ اکبر کھڑا کیا تاکہ اس عظیم فتنے کے وجود سے وحدت امت پارہ پارہ ہو جائے۔ انگریزی سامراج کے زیر سایہ یہ فتنہ خوب پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی تاہم علماء اسلام نے اس کذاب و دجال کی عقدہ کشائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ سب سے پہلے اسلامیان برصغیر کو آگاہ کرنے اور کفر سے بچانے کے لیے ممتاز عالم دین مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے اس مردود کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور کفر کا فتویٰ صادر کرکے امت کو اس نئے چیلنج سے آگاہ کیا۔ اسی طرح چونکہ انگریزی حکومت تھی لہٰذا اسلامی سزا جاری نہیں ہوسکتی تھی البتہ علمی میدان میں اہل اسلام نے اس مردود کا خوب مقابلہ کیا۔ مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا مردود سے دو سو سے زائد مناظرے کیے اور بحمداللہ تعالیٰ ہر معرکہ میں کامیاب و کامران رہے۔ یہاں تک کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے زچ ہو کر مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ کو مباہلہ کا چیلنج دے ڈالا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں موت دے تا کہ حق ظاہر و غالب ہو اور باطل ذلیل و رسوا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرؐ کی ختم نبوت کی آبرو کی اس طرح لاج رکھی کہ مردود مرزا لاہور میں بیماری میں مبتلا ہو کر بیت الخلا میں واصل جہنم ہوا اور مناظر اسلام کئی برس زندہ رہے یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا ثناء اللہ امر تسری پاکستان ہجرت کرکے سرگودھا میں تشریف لے آئے اور 1949ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرزا مردود کے واصل جہنم ہونے کے بعد اس کی ذریت و جماعت اجتماعی توبہ کرکے رجوع اسلام کرتی اور فتنہ انگیزی سے باز آجاتی تاہم اس گروہ نے پاکستان بننے کے بعد سر ظفر اللہ جس نے بد بختوں کی سر پرستی میں خوب پر پرُزے نکالے اور اہم عہدوں پر قابض ہوگئے یہاں تک کہ 1952ء اور 1973ء میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں چلیں اور ہزاروں علماء کرام و عوام نے نہ صرف جانوں کے نذرانے پیش کیے اور پابند سلاسل کیے گئے لیکن قیام پاکستان کے بعد اس سو سالہ گمراہ فتنہ کو بھٹو مرحوم نے علماء کرام کے دبائو مرزا ناصر احمد سے قومی اسمبلی میں مناظروں میں کامیابی کے بعد بالآخر ستمبر میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور انہیں مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیا گیا۔ البتہ آج بھی یہ گمراہ ٹولہ اپنی سر گرمیوں سے باز نہیں آیا۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں اور امریکا و یورپ وغیرہ میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام کو رسوا کر رہا ہے۔ اندرونی سطح پر بدین تھرپار کر، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کے پسماندہ علاقوں میں ان پڑھ غریب مسلمانوں کو روپے پیسے کا لالچ اور بیرون ملک ویزوں کی آفر دے کر عیسائیت و قادیانیت اسلام و پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ شدید ضرورت ہے کہ پاکستانی مسلم حکومت ان پر کڑی نگارہ رکھے اور ان گمراہ کافر گروہوں کو تبلیغ سے قانوناً روکا جائے تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی چالبازیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین
بہ شکرءیہ جسارت

Friday 6 September 2013

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

کالم نگار  |  طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)


ابو برزہ اسلمی صحابی ؓ کے پاس کچھ لوگوں نے یزید کی بیعت کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’عرب کے لوگو!  تم جانتے ہو (نبی کریمؐ کی نبوت سے) پہلے تمہارا کیا حال تھا، جہاں بھر کے ذلیل و خوار اور گمراہی کا شکار پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کے طفیل سے اور اپنے پیغمبر برحق کے صدقے سے تم کو اس بری حالت سے نجات دی، یہاں تک کہ تم اس مرتبے کو پہنچے کہ دنیاکے حاکم اور سردار بن گئے، پھر اس دنیا نے تم کو خراب کر دیا، دیکھو یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے (مروان) دنیا کے لئے لڑتا ہے اور یہ خارجی لوگ جو تمہارے گردا گرد ہیں، خدا کی قسم یہ بھی دنیا کے لئے لڑتے ہیں، آج کے منافق کم بخت ان منافقوں سے بھی بدتر ہیں جو نبی کریمﷺ کے زمانے میں تھے، وہ تو اپنا نفاق چھپاتے تھے، یہ تو اعلانیہ نفاق کرتے ہیں۔ نفاق تو نبی کریمﷺ کے زمانے تک تھا، اللہ آپؐ کو بتلا دیتا تھا کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن اس زمانہ میں تو یا آدمی مومن ہے یا کافر (بخاری،کتاب الفتن)۔ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور مصیبتوں کا شکوہ کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا ’’اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ اس سے بھی بدتر ہو گا اور اسی طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے مل جائو گے‘‘۔ (بخاری) 
ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر لکھتے لکھتے جب انگلیاں شل ہوجائیں توتفاسیر و احادیث کی کتب کھول کر بیٹھ جاتی ہوں۔ مسلمانوں پر عذاب کی جو صورتحال بن چکی ہے، اس سے نجات کا واحد راستہ اللہ اور اس کے نبیؐ کے گھر کو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ایک ہی گلہ رہا ہے کہ یہودو نصاریٰ ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور امت مسلمہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر موجودہ حالات کے تناظر میں نہ تو مسلمان امت ہونے  کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نہ یہودو نصاریٰ اکیلے ان کے خلاف متحد ہیں، الا ما شا ء اللہ مسلمان حکومتیں یہودو نصاریٰ کے ساتھ کھڑی ہیں، یہی نہیں یہود و نصاریٰ کو نہ صرف اپنے مسلمان بھایئوں کے خلاف بمباری پر اکسا رہی ہیں بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کر رہی ہیں۔ انگریز اقوام کی عراق پر حملے کی طرح شام پر حملے کی شدید مخالفت نے انگریز سرکار کو امریکہ کی منصوبہ بندی کا حصہ بننے سے روک دیا، ادھر امریکی عوام نے بھی شام پر حملے کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جس کے بعد اوباما حکومت بھی احمقانہ اقدام اٹھانے سے پہلے کانگریس کی منظوری کی منتظر ہے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سرکار بھی شام پر حملے کو محض دھمکیوں تک محدود رکھے گی لیکن سعودی عرب امریکی سرکار کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے حق میں نہیں۔ مذہبی منافرت کو سیاسی ایشو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم لوگ اللہ کے رسولﷺ کی خبروں سے زیادہ میڈیا کی خبروں پر یقین کرنے لگے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی پیشگوئیوں سے زیادہ نجومیوں، بابوں اور نام نہاد عالموں کی پیشگوئیوں پر اعتقاد کرنے لگے ہیں۔ ایک آج کا زمانہ ہے کہ بری سے بری خبر سن کر بھی لوگوں کو کچھ نہیں ہوتا اور ایک وہ زمانہ تھا جب اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی خبروں اور پیشگوئیوں کو سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’زمانہ جلدی گزرنے لگے گا اور نیک اعمال گھٹ جائیں گے اور بخیلی دلوں میں سما جائے گی اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور قتل خون ریزی بہت ہو گی‘۔ (بخاری) حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں ٹپک رہے ہیں‘ (بخاری ) ام المومنین زینب بن جحشؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرمﷺ سوتے سے جاگے، آپؐ کا منہ گھبراہٹ سے سرخ تھا، فرمانے لگے ’ایک بلا ہے جو نزدیک آن پہنچی عرب کی خرابی ہونے والی ہے‘ ام المومنین حضرت زینب ؓ نے عرض کیا ’یا رسول اللہؐ! کیا نیک لوگوں کے رہنے پر بھی ہم ہلاک ہو جائیں گے(اللہ کا عذاب اترے گا ؟) آپ ؐ نے فرمایا’ہاں جب برائی بہت پھیل جائے گی (بخاری ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا ’کوئی تم میں سے کوئی اپنے بھائی پر ہتھیار نہ اٹھائے کہ مسلمان کو مار کر وہ دوزخ کے گڑھے میں جا گرے‘۔ ایک مقام پر حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا‘(بخاری)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مختلف مقام پر فرمایا کہ ’’کئی ایسے فتنے ہوں گے جن میں بیٹھ رہنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے جو شخص ان فتنوں کو جھانکے گا وہ ان میں مبتلا ہو جائے گا ،ایسے وقت میں جو شخص پناہ کی جگہ پائے وہاں پناہ پکڑے‘‘۔ (بخاری)

Tuesday 3 September 2013

نعت نگار شعراء کا اظہار عجز

نعت نگار شعراء کا اظہار عجز

ڈاکٹر عزیز احسن

ایک محفل میں اجمل سراج سے میرے مضمون’’تخلیقی ادب اور نعتیہ ادب کی موجودہ صورتِ حال‘‘ کے حوالے سے گفتگو چلی تو انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر سنایا:
شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
وہ محفل تو برہم ہوگئی لیکن اجمل سراج کے سنائے ہوئے شعر نے مجھے فکر و خیال کے نئے سفر پر روانہ کردیا۔
اس شعر میں رضوی صاحب نے کہنا یہ چاہا ہے کہ نعت کہتے ہوئے اپنی محدودات، زبان کی بے بضاعتی، مقامِ رسالت کا عدم عرفان اور آپؐ کے شایانِ شان الفاظ رقم کرنے کی صلاحیت کا فقدان، یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ اس منزل پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نعت کہنا ہی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ ہمارے کرم فرما احمد صغیر صدیقی نے اپنے طنزیہ لہجے میں ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’شاعر کیا یہ کہنا چاہتا ہے کہ نعتیہ شاعری مت کرو؟‘‘
’’چپ ہوجائیے‘‘ میں جو بات کی گئی ہے اس کا اصل مقصد سوچ میں کھو جانا ہے۔
کارل پوپر نے کہا تھا ’’معنی اور صداقت کے مابین ایک گہری مماثلت ہے‘‘۔ (فلسفہ، سائنس اور تہذیب ص 75)
یہاں ہمیں ’’چپ ہوجائیے‘‘ کے مشورے کا ماخذ صوفیانہ روایت کے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ انتظار حسین نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’خاموشی کی واردات تصوف میں اپنی منزل آپ ہے۔ خاموشی کی واردات ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘
(علامتوں کا زوال)
چنانچہ رضوی صاحب کے مشورے کو تخلیقی ادب میں نئے کلام کا خیمہ سمجھنا چاہیے۔
بات یہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے حوالے سے جو بات بھی کی جاتی ہے اس کو سند کی کسوٹی پر کسا جاتا ہے یا ایسا کرنا چاہیے۔ جبکہ شاعر صرف اپنے لمحاتی رجحان یا موڈ کو شعری جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اُس وقت اس کے سامنے نہ تو مذہبی روایات ہوتی ہیں اور نہ ہی تاریخ و سِیَر کی کتب کے اسباق اسے ازبر ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا مطالعہ بھی ہر شاعر کا علماء کی سطح کا نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے بیشتر شعراء نے نعتیہ ادب تخلیق کرتے ہوئے اظہارِ عجز کا نقش بھی شعری صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ اہلِ علم کے سامنے اپنی کسی نادانستہ لغزشِ بیاں کا جواز پیش کرسکیں اور حشر میں بھی اپنی قلم کاری کی بے احتیاطیوں کے معاملے میں کچھ رعایت حاصل کرسکیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی تو ماشاء اللہ دینی اسکالر ہیں۔ انہیں تو عربی زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل ہے۔ عربی کے توسط سے قرآن ِ کریم اور احادیثِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مضامین کی آگاہی اور مدحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں انہیں خاص بصیرت بھی حاصل ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’’تنقیدی شعور‘‘ کا بھرپور اظہار کرنے کے لیے یہ فرما رہے ہیں کہ
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
یعنی ذرا سوچیے کہ آپ کو کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے؟
یہ مصرع اگر خودکلامی کے انداز میں پڑھا جائے تو شاعر کی خود احتسابی یا خود ترغیبی (self suggestion)کا غماز ہے، اور اگر شاعر کی طرف سے مشورہ تصورکیا جائے تو یہ ایسے قارئین کے لیے قولِ زریں ہے جو شعر کہنے کی صلاحیت کو کافی سمجھ کر نعتیہ ادب تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گویا خورشید رضوی کے اس مصرع میں ادب کی سماجی حیثیت کا بھرپور اظہار ہوا ہے، کیوں کہ ادب ’’روحِ عصر‘‘ کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ آج نعتیہ ادب کی تخلیق، تخلیقی ادب کی نمایاں صفت ہے اور اسی لیے اس کی تخلیق میں تربیت کا عنصر داخل کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ ان کے مشورے سے جو نعتیہ ادب تخلیق ہوگا وہ حقیقی معانی میں نیا کلام ہوگا۔ جدید ذہنوں کو حُبِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے جوڑنے والا کلام!
ڈاکٹر خورشید رضوی کے ایک شعر سے گفتگو آگے بڑھی تو مجھے خیال آیا کہ میں ان کی مذکورہ نعت کے اشعار بھی نقل کردوں اور اپنے پچھلے مضمون کی فکری رو کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسے کچھ اشعار بھی پیش کردوں جن میں شعراء نے اپنے عجزِ بیاں کا اظہار کیا ہے۔
مطلع کے بعد خورشید رضوی کہتے ہیں:
سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں
اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جایئے
یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں
ہوسکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے
اے زہے قسمت کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ
فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جائیے
اے زہے قسمت اگر دشتِ جہاں میں آپؐ کے
نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہوجائیے
پچھلے مضمون میں میرا روئے سخن ان شعراء یا تُک بند مدح گزاروں کی طرف تھا جو صرف اپنے جذبات کو رہنما بناکر شعر گوئی کرتے رہتے ہیں اور زبان، بیان اور موضوع کی جان کاری کی بالکل پروا نہیں کرتے…آج میرا ارادہ ہے کہ کچھ شعراء کا تنقیدی شعور ان کے شعروں کی روشنی میں پیش کروں تاکہ میرے مخاطب کچھ فنی بصیرت حاصل کرنے کی طرف بھی دھیان دے سکیں!
چنانچہ اب ایسے اشعار کا انتخاب پیشِ خدمت ہے جن میں شعراء نے عجزِ بیاں کا پیرایہ اپنایا ہے۔
نزاکتِ خیال اور لفظوں میں شبیہ تراشی (imagery)  کا عمل دیکھنا ہو تو ذرا صبیح رحمانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس میں ثنائے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال نے شاعر کے آبگینۂ فکر کو پگھلا کے رکھ دیا ہے:
صبیح ان کی ثنا اور تُو کہ جیسے برف کی کشتی
کرے سورج کی جانب طے سفر آہستہ آہستہ
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے منسوب یہ مشہور شعر تو آپ نے سنا ہی ہوگا:
لا یمکن الثناء کما کانہ حقہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اس شعر کے پہلے مصرع میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و توصیف کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے…دوسرے مصرع میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ کریم کی ذات کے بعد کائنات کی سب سے بزرگ ہستی صرف حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ والا صفات ہے۔
آج کے موضوع کے حوالے سے درجِ بالا شعر کا صرف پہلا مصرع ہی پیشِ نظر رکھنا ہوگا کیوں دوسرے مصرع کی شعری تمثیلات پیش کرنے کے لیے تو دفتر درکا ر ہیں۔
تو آئیے نعتیہ ادب کے خزانے سے اظہارِ عجز کے چند موتیوں کی تاب و تب دیکھتے ہیں:
خدا در انظار حمد ما نیست
محمدؐ چشم بر راہِ ثنا نیست
خدا مدح آفرینِ مصطفیٰؐ بس
محمد حامد حمدِ خدا بس
مناجاتے اگر باید بیاں کرد
بہ بیتے ہم قناعت میتواں کرد
محمد از تو می خواہم خدا را
الٰہی از تو حب مصطفیٰؐ را
دگر لب وا مکن مظہر فضولیست
سخن از حاجت افزوں تر فضولیست
حضرت میرزا مظہر جانِ جاناں کے درجِ بالا اشعار کامنظوم ترجمہ پروفیسر سحر انصاری نے بڑی خوبی سے کیا ہے۔ دل چاہتا ہے وہ بھی آپ ملاحظہ فرمالیں:
ہماری حمد کا طالب خدا نئیں
محمد چشم بر راہِ ثنا نئیں
خدا ہے محوِ حمد مصطفے بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
دعا کی ہو اگر خواہش ہی ایسی
قناعت چاہیے اس شعر پر ہی
رہوں خواہاں محمد سے خدا کا
خدا سے وصف حب مصطفیٰ کا
نہیں مظہر مناسب بالارادہ
سخن کرنا ضرورت سے زیادہ
(میرزا مظہر جانِ جاناں؍سحر انصاری…نعت رنگ 3)
میرزا مظہر جانِ جاناں، تصوف کی روایت کے علم بردار تھے، اس لیے وہ بھی نعتیہ شعر کہنے کے لیے کچھ پابندیاں لگانے کے حق میں تھے۔ امت کا زوال اسی طرح شروع ہوا تھا کہ دعوے بہت تھے لیکن عمل ناپید تھا اور مظہر جانِ جاناں باتوں کے آدمی نہیں تھے۔ وہ حقیقی معانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی استدعا کرتے تھے کہ حضور! مجھے اللہ تک پہنچادیجیے!…اور اللہ تعالیٰ سے ان کی دعا یہی ہوا کرتی تھی کہ ’’میرے دل کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھردے!‘‘۔یہ بھی خیال رہے کہ ان کے ہاں حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد قلب و روح میں بس جانے والی خوشبو کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی وہ شکل بھی تھی جو ’’حبِ رسولؐکا خود اظہار ہوا کرتی ہے۔ان کی فکر عملی جامہ پہن کر ان کی ذات اور ان کے حلقے کے لوگوں کے لیے تحریک (movement) بن چکی تھی۔وہ صرف نظری طورپر حبِ رسولؐ کے خواہاں اور پِرْچارَک یا مُبَلِّغْ نہیں تھے۔ ان کی مثال اقبال کے اس شعر سے دی جاسکتی ہے:
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نَم
بہرحال نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے مظاہر دیکھیے!
لکھوں نعت اس کی میں کس طرح ساری
براق ایک ادنیٰ تھا جس کی سواری
(سعادت یار خاں رنگین دہلوی)
خدا تیرا معرف ہے ملک تیرے موصف ہیں
نہیں حد بشر کہنا ترے اوصافِ بے حد کا
(شیخ امام بخش، ناسخ لکھنوی)
غالبؔ ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
ترجمہ:
غالب، خدا پہ چھوڑ دی مدحت رسولؐ کی
آگاہ بس وہی تو ہے شانِ حضورؐ سے
(اسلم انصاری)
حریف نعت پیمبر نہیں سخن حالی
کہاں سے لائیے اعجاز اس بیاں کے لیے
(الطاف حسین حالی)
حق گزار مدح او کس نیست جز یزدان پاک
رائے من ایں شد و شد روح الامیں ہم رائے من
کارِ نعت مصطفیؐ را بر خدا بگزاشتم
نعت شہؐ او خوب کردن میتواند جائے من
(میرا خیال تھا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کا حق سوائے اللہ کے کوئی ادا نہیں کرسکتا۔تو جبریلِ امین نے بھی میری رائے کی تائید فرمائی۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کا کام اللہ پر چھوڑا، کیوں کہ وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت خوب بیان فرماتا ہے …میں نہیں)
(مولیٰنا احمد حسن محدث بچھرایونی نیازی)
ارادہ جب کروں اے ہم نشیں مدح پیمبر کا
قلم لے آؤں پہلے عرش سے جبریل کے پر کا
(آغا شاعر قزلباش دہلوی)
مدحت شاہِ دو سرا مجھ سے بیاں ہو کس طرح
تنگ مرے تصورات پست مرے تخیلات
(نواب بہادر یار جنگ، خلق)
ہفت افلاک سے یا کاہکشاں سے لاؤں
نعت کہنے کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں
دل میں ہے مدحتِ حضرتؐ کی تمنا لیکن
روئے قرطاس پہ کیا عجزِ بیاں سے لاؤں
(رفعت سلطان)
ثنا تیری بیاں کیا ہو، صفت تیری رقم کیا ہو
نہ اس قابل زباں نکلی، نہ اس لائق قلم نکلا
(آزاد بیکانیری)
مرے بیان و زباں کی بساط ہی کیا ہے
ترے جمال کی تعریف خود خدا نے کی
(ازہر درانی)
عجز ادراک سے ہے تیری ثنا کا آغاز
کس کو دعویٰ ہے کہ سمجھا ہے وہ رتبہ تیرا
کس عبارت سے کریں تیرے شمائل کا بیاں
کون لکھ سکتا ہے لفظوں میں سراپا تیرا
(اسلم انصاری)
مجھ کو اس بزم میں کیا جرأت گویائی ہو
جس میں حسانؓ کی گفتار بھی شرمائی ہو
(محمد افضل کوٹلوی)
شرط لازم ہے جو اوصافِ نبیؐ کی خاطر
وہ جزالت نہ فصاحت نہ بلاغت اپنی
ہاتھ آیا کوئی پیرایۂ اظہار کہاں
ہوسکی قید نہ الفاظ میں چاہت اپنی
(سید انور ظہوری)
نعت کہنے کو جب بھی اٹھایا قلم
میرے جذبات کو جانے کیا ہوگیا
خامشی لب پہ مدحت سرا ہوگئی
اشک آنکھوں میں حرفِ دعا ہوگیا
(انور جمال)
یہاں پھر ذرا ’’خاموشی‘‘ کا ادراک کیجیے اور اس بنیادی نکتے کوذہن میں لائیے کہ ’’خاموشی کی واردات، ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘۔
ثنا خواں کس طرح ہو کوئی اس محبوبؐ یکتا کا
زباں میں یہ کہاں قدرت، قلم کو یہ کہاں یارا
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
ورائے فکر و نظر اس کی رفعتوں کے مقام
جو ایک گام میں طے کرگیا نظر کی حدود
ثنائے خواجہؐ کروں یہ کہاں بساط مری
کہ میرا فکر بھی عاجز، خیال بھی محدود
(حافظ لدھیانوی)
کیوں کر حیاتؔ اس کی تعریف کوئی لکھے
خلاق ہر دو عالم خود جس کا مدح خواں ہے
(حیات وارثی لکھنوی)
میری کہاں بساط، کہوں نعت مصطفیٰؐ
جو شعر بھی ہوا ہے، ہوا آپ کے طفیل
(خالد شفیق)
کس رخ سے تیری مدح ترے مدح جو کریں
کس تار سے حروف کے دامن رفو کریں
(خالد احمد)
ان کا کرم نہ کرتا اگر رہبری خلیل
مقدور کب تھا مجھ کو ثنائے حضورؐ کا
(مفتی خلیل خاں برکاتی)
ثنا کس منہ سے ہو خورشیدؔ ان کی
خدائے پاک جن کا مدح خواں ہے
(خورشید ایلچ پوری)
کہاں سے لاؤں زبان و قلم کے پیمانے
ہے بیکراں تری عظمت، مری نظر محدود
(احسان دانش)
تری نعت اور روحیؔ تہی فکر
تری محفل میں کیا بندہ چلے گا
(روحی کنجاہی)
نعت اس کی کہاں، کہاں یہ زباں
ہاں نکلتی ہے صرف دل کی بھڑاس
(صبا اکبر آبادی)
تیری توصیف کہاں اور کہاں میرا قلم
فکر ناقص مرا، تو مظہر اسرار قدم
(طاہر شادانی)
یوں تو کہنے کو کہیں سینکڑوں نعتیں طاہرؔ
کون سی نعت کہی آپ نے شایانِ رسولؐ
(طاہر سردھنوی)
ذکرِ پاک ان کا اور تو فضلیؔ
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
(فضل احمد کریم فضلی)
دامنِ نعت کے قابل کوئی گوہر لائے
کون ایسا ہے جو مٹھی میں سمندر لائے
(قیصر بارہوی)
تصویر تحیر ہے عالم یارائے بیاں زیبا ہی نہیں
امکان ثنائے ختم رسلؐ لفظوں میں سما سکتا ہی نہیں
(ہوش ترمذی)
دل نعتِ رسولِ عربی کہنے کو بے چین
عالم ہے تحیر کا زباں ہے نہ قلم ہے
(مولیٰنا مفتی محمد شفیع)
بندۂ عاجز، فقیرِ کج بیاں
کیا کرے گا مدح ممدوح خدا
(ڈاکٹر سید انعام احسن، فقیر)
منزلِ نعتِ نبی افسرؔ نہ ہم سے طے ہوئی
پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اڑ گئے ادراک کے
(منظور احمد صدیقی، افسر امروہوی)
مدحِ سرکارؐ ہے کس کے امکان میں
آپؐ کی مدحتیں تو ہیں قرآن میں
(محشر بدایونی)
نعت سرکارِ دو عالم کی میں لکھوں کیونکر
میں گنہگار، وہ معصوم، میں عامی، وہ رسول
(راغب مرادآبادی)
ان کی مدحت کا جریدہ نہ مکمل ہو گا
جتنے ممکن ہیں شماروں پہ شمارے لکھنا
(رازؔ کاشمیری)
جب ان کی ثنا کا وقت آیا
لفظوں کا وجود ڈگمگایا
(شمس قادری)
تیری توصیف کو تحریر میں لاؤں کیسے
حسن خورشید کو آئینہ دکھاؤں کیسے
(صفدر صدیق رضیؔ)
مجال انسان کی کیا ہے کہ ہو مداح حضرت کا
کلام اللہ جب ناطق ہوا خوئے محمدؐ کا
(شیخ امیر الدین آزاد)
لکھوں کس طرح نعتِ مصطفٰےؐ کیا میرا رتبہ ہے
خدا قرآن میں تعریف ان کی آپ کرتا ہے
(محمد اشفاق علی اشفاق)
جز خداوند دو عالم کس سے مدحت ہوسکے
وصف میں ان کے سبھی جن و بشر ناچار ہیں
(خواجہ احمد شمسؔ)
رفعت کو دیکھتے ہوئے اٹھتی نہیں نگاہ
کیا وصفِ حدِ عظمتِ آقاؐ کریں گے ہم
(محمد سعادت حسین، شیداؔ)
یہ نام وہ ہے کہ جس کی ثنا نہیں ممکن
کہ آپ کہتا ہے سبحان، یارسول اللہ
(مرزا عباس بیگ، عباس)
نور ہے خالق کا اور ممدوح خالق کا ہے وہ
خلق کا منہ مدح کہنے کے بھی کب قابل ہوا
(محمد حسن علمیؔ)
صفت لکھنے کو نور مصطفیٰؐ کی
زباں لاؤں کہاں سے میں خدا کی
(سید محسن علی، محسنؔ)
جو ان کا حق تعالیٰ مدح خواں ہے
لکھوں میں نعت، کیا تاب و تواں ہے؟
(سید سلطان احمد، نامی)
نعتیہ ادب کی تخلیق کے اس میدان میں شاعرات بھی پیش پیش رہی ہیں اس لیے ان کے بھی کچھ اشعار ملاحظہ فرمالیجیے:
میں کس طرح سے نام شہ دو سرا کا لوں
بہر کلام لفظ نہ طاقت سخن میں ہے
(بیگم سلطانہ ذاکر، اداؔ)
بشر کیا خدا بھی ہے جس کا ثنا خواں
کروں اس کی توصیف میں کس زباں سے
(قمر سلطانہ سید)
ہو بشر سے کس طرح وصف محمدؐ کا بیاں
کس طرح سے بند کوزے میں ہو بحرِ بے کراں
(نور بدایونی)
ادا حق مدحت خیرالبشر ہو کس طرح نوریؔ
تُو حافظ ہے نہ رومی ہے نہ سعدی ہے نہ جامی ہے
(مسرت جہاں نوری)
اوصاف بیاں آپؐ کے کس طرح ہوں مجھ سے
کیا منہ جو کروں مدحت سردارِ دو عالم
(شاہد سلطانہ، نازؔ)
نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے بے شمار اشعار ملے۔ تقریباً ہر شاعر نے نعت کہنے میں اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا ہے۔لیکن عاصیؔ کرنالی نے ایک جدا انداز اور منفرد آہنگ میں اپنی بے بضاعتی کو فکری اور تخلیقی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ اردو نعتیہ شعری سرمائے میں اس سے بہتر عجزِ بیاں کی مثال ملنا مشکل ہے۔وہ کہتے ہیں:
ثنائے خواجہ میں اے ذہن! کوئی مضموں سوچ
جناب! وادیٔ حیرت میں گم ہوں، کیا سوچوں!
زبان! مرحلۂ مدح پیش ہے، کچھ بول
مجالِ حرف زدن ہی نہیں ہے کیا بولوں؟
قلم! بیاضِ عقیدت میں کوئی مصرع لکھ
بجا کہا، سر تسلیم خم ہے کیا لکھوں؟
شعور! ان کے مقامِ پیمبری کو سمجھ
میں قید حد میں ہوں وہ بے کراں میں کیا سمجھوں؟
خرد! بقدرِ رسائی تو ان کے علم کو جان
میں نا رسائی کا نقطہ ہوں ان کو کیا جانوں؟
خیال! گنبدِ خضریٰ کی سمت اُڑ پر کھول
یہ میں ہوں اور یہ مرے بال و پر ہیں، کیا کھولوں؟
طلب مدینے چلیں نیکیوں کے دفتر باندھ
یہاں یہ رختِ سفر ہی نہیں ہے کیا باندھوں؟
نگاہ دیکھ ! کہ ہے روبرو دیارِ جمال
ہے ذرہ ذرہ یہاں آفتاب، کیا دیکھوں؟
دل! ان سے حرفِ دعا، شیوۂ تمنا مانگ
بِلا سوال وہ دامن بھریں تو کیا مانگوں؟
حضورؐ! عجزِ بیاں کو بیاں سمجھ لیجے
تہی ہے دامنِ فن، آستاں پہ کیا لاؤں؟
(ڈاکٹرعاصی کرنالی)
عجز ِ بیاں کی شعری بنت میں ہر شاعر کے ہاں ایک ہی خیال الفاظ کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے یعنی ’’میں اس قابل نہیں ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کہہ سکوں‘‘۔
درجِ بالا اشعار میں چونکہ ایک ہی خیال کی تکرار ہے اس لیے یاس یگانہ چنگیزی جیسے مزاج کے ناقدینِ فن فوراً تاریخِ ادب کی ورق گردانی پر توجہ دیں گے اور پھر متقدمین کی شعری نظیریں ملاحظہ فرما کر متاخرین پر سرقے کا الزام لگا دیں گے۔ لیکن آج کے شعری ذوق اور تنقیدی رجحان سے آگاہ اہلِ نظر اس شعری سرمائے کو متنی ہم رشتگی یا بین متنیت (intertextuality)کے تناظر میں دیکھیں گے۔

اظہارِ عجز کے اتنے مظاہر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی لاشعور تقریباً ہر شاعر کو نعتیہ ادب تخلیق کرنے کے مرحلے پر متنبہ کرتا ہے کہ ’’نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے‘‘…اور جو لوگ اس روایت سے انحراف کرتے ہیں وہ ادبی روایت سے عدم آگاہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ان کا یہ رویہ خود ان کے لیے باعث ِخسران اور نعتیہ ادب کی تخلیق کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے۔