Search This Blog

Friday 6 September 2013

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

کالم نگار  |  طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)


ابو برزہ اسلمی صحابی ؓ کے پاس کچھ لوگوں نے یزید کی بیعت کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’عرب کے لوگو!  تم جانتے ہو (نبی کریمؐ کی نبوت سے) پہلے تمہارا کیا حال تھا، جہاں بھر کے ذلیل و خوار اور گمراہی کا شکار پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کے طفیل سے اور اپنے پیغمبر برحق کے صدقے سے تم کو اس بری حالت سے نجات دی، یہاں تک کہ تم اس مرتبے کو پہنچے کہ دنیاکے حاکم اور سردار بن گئے، پھر اس دنیا نے تم کو خراب کر دیا، دیکھو یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے (مروان) دنیا کے لئے لڑتا ہے اور یہ خارجی لوگ جو تمہارے گردا گرد ہیں، خدا کی قسم یہ بھی دنیا کے لئے لڑتے ہیں، آج کے منافق کم بخت ان منافقوں سے بھی بدتر ہیں جو نبی کریمﷺ کے زمانے میں تھے، وہ تو اپنا نفاق چھپاتے تھے، یہ تو اعلانیہ نفاق کرتے ہیں۔ نفاق تو نبی کریمﷺ کے زمانے تک تھا، اللہ آپؐ کو بتلا دیتا تھا کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن اس زمانہ میں تو یا آدمی مومن ہے یا کافر (بخاری،کتاب الفتن)۔ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور مصیبتوں کا شکوہ کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا ’’اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ اس سے بھی بدتر ہو گا اور اسی طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے مل جائو گے‘‘۔ (بخاری) 
ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر لکھتے لکھتے جب انگلیاں شل ہوجائیں توتفاسیر و احادیث کی کتب کھول کر بیٹھ جاتی ہوں۔ مسلمانوں پر عذاب کی جو صورتحال بن چکی ہے، اس سے نجات کا واحد راستہ اللہ اور اس کے نبیؐ کے گھر کو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ایک ہی گلہ رہا ہے کہ یہودو نصاریٰ ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور امت مسلمہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر موجودہ حالات کے تناظر میں نہ تو مسلمان امت ہونے  کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نہ یہودو نصاریٰ اکیلے ان کے خلاف متحد ہیں، الا ما شا ء اللہ مسلمان حکومتیں یہودو نصاریٰ کے ساتھ کھڑی ہیں، یہی نہیں یہود و نصاریٰ کو نہ صرف اپنے مسلمان بھایئوں کے خلاف بمباری پر اکسا رہی ہیں بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کر رہی ہیں۔ انگریز اقوام کی عراق پر حملے کی طرح شام پر حملے کی شدید مخالفت نے انگریز سرکار کو امریکہ کی منصوبہ بندی کا حصہ بننے سے روک دیا، ادھر امریکی عوام نے بھی شام پر حملے کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جس کے بعد اوباما حکومت بھی احمقانہ اقدام اٹھانے سے پہلے کانگریس کی منظوری کی منتظر ہے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سرکار بھی شام پر حملے کو محض دھمکیوں تک محدود رکھے گی لیکن سعودی عرب امریکی سرکار کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے حق میں نہیں۔ مذہبی منافرت کو سیاسی ایشو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم لوگ اللہ کے رسولﷺ کی خبروں سے زیادہ میڈیا کی خبروں پر یقین کرنے لگے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی پیشگوئیوں سے زیادہ نجومیوں، بابوں اور نام نہاد عالموں کی پیشگوئیوں پر اعتقاد کرنے لگے ہیں۔ ایک آج کا زمانہ ہے کہ بری سے بری خبر سن کر بھی لوگوں کو کچھ نہیں ہوتا اور ایک وہ زمانہ تھا جب اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی خبروں اور پیشگوئیوں کو سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’زمانہ جلدی گزرنے لگے گا اور نیک اعمال گھٹ جائیں گے اور بخیلی دلوں میں سما جائے گی اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور قتل خون ریزی بہت ہو گی‘۔ (بخاری) حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں ٹپک رہے ہیں‘ (بخاری ) ام المومنین زینب بن جحشؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرمﷺ سوتے سے جاگے، آپؐ کا منہ گھبراہٹ سے سرخ تھا، فرمانے لگے ’ایک بلا ہے جو نزدیک آن پہنچی عرب کی خرابی ہونے والی ہے‘ ام المومنین حضرت زینب ؓ نے عرض کیا ’یا رسول اللہؐ! کیا نیک لوگوں کے رہنے پر بھی ہم ہلاک ہو جائیں گے(اللہ کا عذاب اترے گا ؟) آپ ؐ نے فرمایا’ہاں جب برائی بہت پھیل جائے گی (بخاری ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا ’کوئی تم میں سے کوئی اپنے بھائی پر ہتھیار نہ اٹھائے کہ مسلمان کو مار کر وہ دوزخ کے گڑھے میں جا گرے‘۔ ایک مقام پر حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا‘(بخاری)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مختلف مقام پر فرمایا کہ ’’کئی ایسے فتنے ہوں گے جن میں بیٹھ رہنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے جو شخص ان فتنوں کو جھانکے گا وہ ان میں مبتلا ہو جائے گا ،ایسے وقت میں جو شخص پناہ کی جگہ پائے وہاں پناہ پکڑے‘‘۔ (بخاری)

No comments:

Post a Comment