نیل کے ساحل سے تابہ خاک کا شغر
…افشاں مراد ؤ…
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
ایسے ہی وقت کے لیے شاعر نے یہ بات کہی تھی کہ تمام امت مسلمہ جسدِ واحد ہے۔ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم تڑپنے لگتا ہے اور اس تکلیف اور اذیت کو محسوس کرتا ہے، جیسا کہ آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ بحیثیت مسلم امہ مصر‘ شام‘ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق یا پھر پاکستان میں، جہاں جہاں مسلمان تکلیف میں ہیں ہم ان کی تکلیف اور اذیت کو اپنے جسم، اپنی روح پر محسوس کرتے ہیں۔
آج ہمارے اپنے ملک میں رہنے بسنے والے بہت سے صحافی اور سیاستدان جو کہ یو ایس ایڈ پر پل رہے ہیں، وہ ہم جیسے لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ہم دو لاکھ شامیوں کا قتل عام بھول جائیں کیونکہ وہ میرے ملک کے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رابعۃ العدویہ کی مسجد کے ساتھ جلنے والی لاشیں بھول جائو کیونکہ وہ 5000 کلومیٹر دور ہیں۔
سات سمندر پار بیٹھے امریکا کی جنگ اپنے گھر کھینچ کر لانے والے روشن خیال کہتے ہیں: افغانی مائوں کی تڑپ اور چیخوں کو بھول جائو۔ ملالہ ملالہ کا راگ الاپنے والے کہتے ہیں کہ ان شامی معصوم پھولوں کو بھول جائو جن کو کیمیکل بمباری کے ذریعے تڑپا تڑپا کر شہید کردیا گیا۔
جبکہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ امت جسدِ واحد کی طرح ہے، ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔‘‘
پھر میں اپنے بھائیوں‘ بہنوں‘ مائوں‘ بیٹوں کے گرنے والے خون کے ہر قطرے پر کیوں نہ روئوں‘ کیوں نہ چلاّئوں‘ کیوں نہ آہیں بھروں… صرف اس لیے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں؟ اس وقت مصر اور شام میں ہمارے بہن بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ جس طرح توڑے جارہے ہیں وہ قابلِ شرم‘ قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت ہے۔
تقریباً دو ماہ سے جس طرح مصر میں زندگی مفلوج ہے وہ کیا اقوام عالم کو نظر نہیں آرہی؟ جس طرح مصر میں اخوان المسلمون کے نہتے کارکنان کو وہاں کی سیکورٹی فورسز بکتربند گاڑیوں تلے روند رہی ہیں، ان پر گولیاں برسا رہی ہیں، کیا دنیا کی تمام مہذب اقوام و ممالک اندھے ہیں؟ کیا انہیں وہ لاشیں، وہ زخمی، وہ سسکتے، بلکتے، کراہتے لوگ نظر نہیں آرہے جو اپنے پیاروں کی لاشیں لیے تدفین کے انتظار میں بیٹھے ہیں؟ اب تک تقریباً پانچ ہزار افراد اس سفاکیت اور ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں، لیکن لوگوں کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس وحشیانہ کارروائی کے نتیجے میں مصر کے کتنے جید عالم، مفسرینِ قرآن اور علمائے دین شہادت کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرحمن العویس بھی اس حملے میں ختم ہوگئے جوکہ جامعہ قاہرہ میں تفسیر اور علومِ قرآنی کے پروفیسر اور ہزاروں علماء اور اسکالرز کے استاد تھے۔ اس کے علاوہ کتنے ہی صحافی‘ کتنے ہی عالم‘ کتنے ہی مرد و زن ان وحشیانہ کارروائیوں میں کام آگئے۔
قاہرہ اور نصر سٹی کے درجنوں خاندان ایسے ہیں جن کا کوئی فرد اب زندہ نہیں بچا۔ مسجد رابعۃ العدویہ اور مسجد قاہرہ کو بھی سیکورٹی فورسز نے شہید کردیا۔ قرآن پاک کے نسخوں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس ظلم و سفاکیت کی مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ السعود الشریم اور سعودی عرب کے مذہبی اسکالر شیخ محمد عریفی اور عالم اسلام کے سب سے بڑے عالم دین یوسف القرضاوی نے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ شیخ شریم نے مصر کی فوج کے ہاتھوں نشانہ بننے والے اسلام پسندوں کو افضل ترین شہید قرار دیا ہے۔ اس وقت بھی مسجد رابعہ العدویہ کے قریب الایمان مسجد میں سینکڑوں لاشیں تدفین کی منتظر ہیں۔
اخوان المسلمون نے قاہرہ میں گزشتہ تقریباً دو ماہ سے جاری دھرنے کو ختم کروانے کے لیے پولیس ایکشن کے نتیجے میں اپنے کارکنان کی شہادت کے خلاف جمعہ کو دوسری مرتبہ ’’یوم الغضب‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا، اور نماز جمعہ کے بعد قاہرہ سمیت ملک بھر سے 28 ریلیاں نکالی گئیں۔ اس سے قبل حسنی مبارک کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران 28 فروری 2011ء کو اخوان المسلمون نے ’’یوم الغضب‘‘ منایا تھا۔ اب یہ دوسرا ’’یوم الغضب‘‘ منایا گیا۔
محمد مرسی 30 جون 2012 ء کو انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک کے پہلے منتخب صدر بنے تھے۔ مگر ان کی صدارت کے ایک سال بعد ہی ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کی اسلام پسند پالیسیوں نے اسرائیل‘ امریکا اور ان کے حامی ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا، جس کی وجہ سے ملک میں یہ انارکی پھیلائی گئی۔ مرسی کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مرسی کی حکومت معاشی اور سیکورٹی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے مرسی کو یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ جبکہ مرسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ان کو مزید وقت دینا چاہیے۔ مگر 3جولائی کو غیرقانونی طور پر مرسی کا تختہ الٹ کر فوجی بغاوت کی گئی اور اس کے بعد مصر میں عبوری حکومت بنادی گئی، اور اس کے بعد 47 دن کے پُرامن دھرنے کے مظاہرین پر گولیاں برسادی گئیں۔ اخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر عبدالبدیع نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جتنے چاہے افراد ہلاک کرو، ہم یہاں سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ا س آپریشن میں ڈاکٹر بدیع کا بیٹا اور پوتا بھی شہید ہوچکے ہیں، خود ڈاکٹر بدیع کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس کے ساتھ معروف اخوانی رہنما محمد البلتاجی کی صاحبزادی اسماء البلتاجی اور سابق وزیر ثقافت احمد عبدالعزیز کی صاحبزادی حبیبہ بھی سیکورٹی فورسز کا نشانہ بن چکی ہیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوچکی ہیں۔
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے اخوان المسلمون پر مصری افواج کی سفاکیت اور اس پر عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے کردار کو اسلامی دنیا کے لیے المیہ قرار دیا ہے، جبکہ ترکی نے اخوان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اوباما نے بھی مصری فوج کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ ڈنمارک نے بھی مصر کی امداد روک دی ہے‘ مگربدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح اِس دفعہ بھی OIC اس صورت حال پر دم سادھے ہوئے ہے اور سعودی عرب نے مصر میں جاری آپریشن کی حمایت کی اور مصری فوج کو 5 ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور کویت نے مصر کی عبوری حکومت کو تیل اور گیس سمیت 12 ارب ڈالر مالیت قرضے اور گرانٹس دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اس سے عرب دنیا کی بے حسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مصر کی اس صورت حال نے تمام مسلمان ممالک کو بے چین و مضطرب کردیا ہے اور مصری فوج کے ظلم و سفاکیت نے چنگیز و ہلاکو خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت OIC اور اقوام متحدہ کا یہ فرض ہے کہ وہ مصر میں جمہوری حکومت بحال کروائیں، اور اتنے لوگوں کے قتل کے جرم میں جنرل السیسی کا کورٹ مارشل کرکے اس کو تختہ دار پر چڑھایا جائے۔
No comments:
Post a Comment