Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

یہ ہراوّل دستے

یہ ہراوّل دستے


حالت جنگ میں آج کی زمینی فوج کی تربیت اور صف بندی کے بارے میں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں لیکن ماضی بعید کی جنگی تربیت کے سلسلے میں مجھے یہ معلوم ہے کہ ترتیب اس طرح سے ہوتی تھی : - ہراوّل ،اوّلین صفیں،قلب یعنی درمیانی صفیں ، عقب یعنی آخری صفیں۔میمنہ یعنی دایاں پہلو ۔ میسرہ یعنی بایاں پہلو…جنگ شروع ہونے سے پہلے ہر دو افواج کے چند پہلوان قسم کے سپاہی آمنے سامنے آکر پنجہ آزمائی اور زور آزمائی کرتے تھے ۔جو گرتا تھا وہ مرتا تھا ۔اس کے بعد اصل جنگ شروع ہوتی تھی جس میں طاقتور کی جیت ہوتی تھی اور کمزور کی ہار ۔ ہر اوّل دستے فوج سے آگے ہوتے تھے جن میں بہت زیادہ سپاہی نہیں ہوتے تھے لیکن اُن کے ذمے طرح طرح کے کام ہوتے تھے جن میں دُشمن کو اپنے پیچھے کی فوج کی طاقت وقوت کا عندیہ دینا بھی ہوتا تھا ۔ ان کے عندیات خاصی اہمیت کے حامل ہوتے تھے ۔ ان ہر اوّل دستوں کو ’’مقدمتہ الجیش‘‘ بھی کہا جاتا تھا یعنی لشکر کا مقدمہ!
ہم زندہ لوگ فی الوقت زندگی کے میدان جنگ میں ہیں۔اس جنگ میں فطرت اور قدرت ہماری حریف ہے ۔ قدرت حتمی طور سے ناقابل شکست ہے ۔لیکن بجائے اس کے کہ ہم قدرت کی لامتناہی قوت کا اندازہ کرکے دوچار ہاتھ چلا کر سپر انداز ہوجائیں اور اپنی شکست تسلیم کریں ، ہم اسے آنکھیں دکھارہے ہیں ۔اگر ہم شکست تسلیم کرکے خراج ادا کرنے کی روش اختیار کرتے تو ہماری مملکت محفوظ رہ سکتی تھی اور یہ پسپائی بڑی کامیابی اور سرخروئی ہوتی کیونکہ قدرت سے لڑکر اسے شکست دینا کسی جن وانس کے بس کی بات نہیں ۔اس محاذ پر جوجھکا وہ سرفراز ہوگیا اور جس نے ’’راج ہٹ ‘‘ کا طریقہ اپنایا،مسمار ہوکے رہ گیا ۔ لیکن ہم قدرت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرکے طبلِ جنگ بجا چکے ہیں ۔ نہ بجاچکے ہوتے تو………۔
مالِ فَے کو ذاتی جائیداد نہ سمجھتے ۔امانت میں خیانت نہ کرتے ۔ زکوٰۃ کو فرض کے بجائے تاوان نہ سمجھتے ۔تعلیم فقط دنیای مفادات کے لئے حاصل نہ کرتے ۔بیوی کی اطاعت وعزت اور ماں کی بے عزتی نہ کرتے ۔ دوست کو قریب اور باپ کو دُور نہ کرتے ۔مساجد میں شورشرابہ اور دھینگا مشتی نہ کرتے ۔اللہ کے نافرمان لوگ ہمارے سردار نہ بنتے ۔ گھٹیا قسم کے لوگ ہمارے سر چڑھ کر نہ بولتے ۔ انسان کی عزت اُس کے شر کے خوف سے نہ کرتے ۔ گانے بجانے والی عورتوں اور مزامیر(آلاتِ موسیقی ) کی کثرت نہ ہوتی۔شراب بے دریغ نہ پی جاتی ۔ گزرے ہوئے نیک لوگوں کی تذلیل نہ کی جاتی !! وغیرہ ۔
آج حال یہی ہے اور بلاشک یہی ہے ۔ اس لئے قدرت نے بھی ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے لیکن اُس کا ظرف چونکہ وسیع، مملکت عظیم ترین اور فوج بے اَنت ہے ، اس لئے فی الحال اپنے ہر اوّل دستے بھیج رہی ہے کہ شاید ہمیں اُس کی طاقت وعظمت کا اندازہ ہواور ہم توبہ کرلیں ۔ خشک سالی ، برف وباراں کی شدت ، ہوائوں کا خلافِ معمول وموسم ورود، سردی گرمی کی شدت ، نت نئی بیماریوں کا ظہور،خوف وخطر ک افراط، ظلم کی انتہا وغیرہ سامنے کی مثالیں ہیں ۔ اکتوبر 2005ء کا آدم خور زلزلہ اور مارچ 2012ء کی بے موسم مسلسل آندھی ہی ہمارے لئے چشم کشا ہوسکتی تھی ۔لیکن کیا کیا جائے کہ ہم نے متنبہ نہ ہونے کی جیسے قسم کھائی ہے ۔ زلزلے او ربے رنگ آندھی تو آچکی ۔کیا اب ہمیں ایک بڑے زلزلے اور سُرخ آندھی کا انتظار ہے جس میں قدرت کا رحیمانہ رُخ قاہرانہ بھی ہوسکتاہے ۔ اگر ہمارا شعار اب بھی نہ بدلا تو ہمیں اپنا بوریا بسترہ گول کرکے رکھ لینا چاہئے تاکہ اُس کے آسمان کے نیچے سے بوقتِ ضرورت بھاگ کر نکل سکیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آسماں ہرجگہ اُسی کا ہے !! اس ضمن میں ذیل کی حدیث مبارکہ ہماری توجہ چاہتی ہے:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ …رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مالِ فَے کو ذاتی دولت سمجھاجانے لگے ، امانت غنیمت سمجھ کر دبالی جائے ،زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے ،تعلیم دین کے علاوہ (دنیا کے لئے) حاصل کی جائے ،انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور ماں کو ستائے ، دوست کو قریب اور باپ کو دُور کرے ، مسجدوں میں (دنیاکی باتوں)کا شور ہونے لگے، قبیلوںکے سردار نافرمان لوگ بن جائیں اور گھٹیا قسم کے لوگ قوم کے سردار بن جائیں ، انسان کی عزت اُس کی شرارتوں کے خوف سے کی جائے ، گانے بجانے والی عورتوں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے ،شرابیں پی جانے لگیں ، بعد میں آنے والے لوگ پچھلے (نیک)لوگوں پر لعنت کرنے لگیں…تو اُس وقت تم سُرخ آندھیوں اورزلزلوں کا انتظار کرو اور زمین میں دھنس جانے ، صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری اُن نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے درپے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور پے در پے دانے گرنے لگیں !‘‘۔
-----------------------------
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)
 ای میل : armukhlis1@gmail.com  
موبائل: 9797219497

اسکولوں میں دینی نصاب رائج کــرنے کــی ضرورت

اسکولوں میں دینی نصاب
رائج کــرنے کــی ضرورت

آج کل ہم بچے بہت مصروف ہوتے ہیں۔ صبح اسکول، شام میں ٹیوشن اور رات میں ہوم ورک۔ ہمیں کھیلنے کودنے کے لئے بھی وقت نہیںملتا‘‘۔یہ آج ہر گھر کا المیہ ہے۔جب ایک بچے کا سارا وقت دنیا کی تعلیم پر صرف ہوگا تو نتیجہ بھی دنیا پرستی ہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ آج کل دینی تعلیم محض ظاہر کے چند عقائد کو ازبر کرانے اور قرآن کی تجوید سکھانے تک محدود ہوگئی ہے۔ نہ بچوں کو دینی عقائد کا فلسفہ پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں قرآن کی تعلیمات کا علم۔ سیکھنے کی یہ عمر چھلکا کھانے تک محدود ہو جاتی ہے اور مغز تک رسائی نہیں ہوپاتی۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیم کے لئے ایک آسان نصاب ترتیب دیا جائے جو اتنا آسان ہو کہ ہر گھر کے پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ اس نصاب میں قرآن کی عربی کے ساتھ ساتھ قرآن کے بیان کردہ قصے ہوں تاکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے انہیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر راغب کیا جائے۔ اس کے نصاب میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سیرت کے واقعات ہوں جن سے اخلاقیات کی تربیت دی جاسکے۔اس نصاب میں سبق آموز داستانیں ہوں جن سے نصیحت حاصل کی جاسکے۔ غرض یہ نصاب تعلیم اور تربیت پر مبنی مواد کا ایک مرقع ہو جس میں اسلام کے ظاہر کیساتھ ساتھ اس کے باطنی پہلو کو بھی اجاگر کرے۔جموں و کشمیر میں اس حوالے سے اب تک کوئی بھی مربوط سسٹم نہیں بنایا گیا ہے۔یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی کسی بھی سرکار کے پاس تعلیم سے متعلق کبھی کوئی پالیسی ہی نہیں رہی ہے، موجودہ دور، جسے سائینسی علوم کا دور کہا جاتا ہے میں اگر ان ترقی پذیر ممالک کا تجزیہ کریں جو اس وقت سائینسی علوم کو آگے لے جارہے ہیں، میں بھی پہلے اپنی مادری زبان اور اپنے عقیدے کے حساب سے تعلیم دینا لازمی مانا گیا ہے۔لیکن یہاں تو بالکل اس کے برعکس ہے، دینی تعلیم تو ہم گھر پر حاصل کرتے ہیں وہ بھی کسی مولوی صاحب سے جو ہمیں قرآن پڑھانے آتے ہیں، لیکن اسلامی تاریخ کے بارے میں ہم بالکل کورے کے کورے رہ جاتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا اگر سکولوں میں ہی ہم اسلامی تاریخ اور دینی علوم سے بھی روشناس ہوتے جس طرح دیگر علوم سے ہمیں واقف کرایا جاتا ہے تو دین کو غلط طرح سے پیش کرنے کوششیں بھی ناکام ہوتی، نیز ایک ایسی نئی نسل تیار ہوتی جو آگے چل کر پوری ریاست کے لئے مشعل راہ ہوتی۔یہی بچے بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجینئر، بیرو کریٹ اور جج بنتے اور یوں نہ سرکاری طور پر کورپشن ہوتا، نہ عام لوگوں کو کسی قسم کی کوئی مشکل پیش آتی ۔، نہ ایسے سیاست دان پیدا ہوتے جو لوگوں کو دھوکہ دیتے اور نہ ہی کبھی کسی کو زک پہنچانے کی کوئی کوشش کی جاتی۔ریاست میں دینی تعلیم تو دور کی بات ہے یہاں تو سرکاری سکولوں کی حالت ہی خراب کردی گئی ہے، اس قدر معیار گرا دیا گیا ہے کہ کو ئی بھی شخص اپنا بچہ وہاں ڈالنے کے لئے ہی تیار ہیں۔رہی بات انگلش میڈیم سکولوں کی ،ان میں اردواور کشمیری زبانیں جو ہماری مروجہ اور مادری زبانیں ہیں  بھی مشکل سے ہی پڑھائی جاتی ہیں، اسلامیات یا پھر دینیات تو دور کی بات ہے۔آج کل جہاں سرکاری طور پرانگلش میڈیم سکولوں کی ہی پشت پناہی کی جاتی ہے وہیں والدین کی جانب سے صرف بچوں کو بڑے بڑے سکولوں میں داخلہ دلانا ہی اپنی منزل بنائی گئی ہے،عام سرکاری سکولوں کا تعلیمی معیار اگر بہتر بنایا جاتااورمروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر دینی تعلیم بھی دی جاتی تو یقینی طور پر ایک ایسی نئی نسل سامنے آتی جو نہ صرف معاشرے میں موجود امیر اور غریب کا تفرق مٹاتی بلکہ اس معاشرے کو ہی بہتر بنایا جا سکتا تھااور ہم سب اخلاقی قدروں کے محافظ بن سکتے تھے۔، لیکن اس کی طرف توجہ دینا تو درکنار سرکاری سطح پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں دینی تعلیم پر مبنی ایک نصاب رائج کیا جائے تاکہ ہم دنیاوی و دینی دونوں طرح کی تعلیم سے خود کو آراستہ کرسکیں۔
ادفر نثار
سوپور
courtesy Kashmir Uzma Srinagar

کھجوردل کا سرور

کھجوردل کا سرور
مکمل غذاء لاجواب دوا

سائنسدانوں کاخیال ہے کہ کھجور،نباتاتی نامPhoenix dactylifera دنیا کا وہ واحد پھل ہے جسے انسان ساری زندگی غذا کے طور پر استعمال کرتے ہوئے تندرست وتوانا رہ سکتا ہے ورنہ کوئی بھی دوسرا پھل غذامیں اکیلا ہی کسی شخص کو زیادہ عرصہ تک صحت مند نہیں رکھ سکتا۔ قرآنی ارشادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے متعدد بار ان احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان کو عطا کئے ہیں ان پھلوں میں یوں تو انگور، انجیر، انار اور زیتون کا تذکرہ بار بار آیا ہے لیکن جس پھل اوردرخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ ہے کھجور، اس کا بیان نخل، النخیل (جمع) اور نخلۃ  (واحد) کے ناموں سے بیس مرتبہ (قرآن کریم) میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر  سورۃ النحل کی آیت نمبر67 میں ارشاد ہوا ہے… ترجمہ :اورکھجور اور انگوروں کے پھلوں میں بھی تمہارے لئے سبق ہے، تم ان سے نشہ کی چیزیں اور کھانے کی عمدہ چیزیں بناتے ہو، بیشک اس میں (بڑی) نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
کھجور کے بے مثال طبی فوائد ہیں۔سردی اور بلغم کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں کھجور کھانامفید ہے۔ یہ دماغ کا ضعف مٹاتی ہے اور یادداشت کی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔ قلب کو تقویت دیتی ہے اور بدن میں خون کی کمی کودور کرتی ہے گردوں کو قوت دیتی ہے۔ سانس کی تکالیف میں بالعموم اوردمہ میں بالخصوص سود مند ہے۔ کھانسی بخار اور پیچش میں اس کے استعمال سے افاقہ ہوتا ہے۔ یہ دفع قبض کے ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔ قوت باہ کو بڑھانے میں مدد گار ہے۔ حضور اکرم نے فرمایا ہے کہ کھجور (رطب۔تمر) بہترین غذا اوردوا ہے۔ اسی لئے روزہ داروں کو افطار میں کھجور کے مستقل استعمال کی تاکید کی گئی ہے اور اس ضمن متعدد نبی کریم کے ارشادات ہیں۔ ذیل میں چند منتخب احادیث نبوی پیش کی جاتی ہیں جن میں کھجوروں کی  اہمیت بیان فرمائی گئی۔
ارشادات رسول بسلسلہ کھجور (عربی۔ تمر۔ نخل۔ رطب)
۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جو مرد مومن کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی پتیاں بھی نہیںجھرتیں، بتا وہ کون سا درخت ہے۔ ’’خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجور (نخل) کادرخت ہے۔ (راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ، بخاری، مسلم)
 ۲رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبح نہار منہ کھجوریں (تمر) کھایا کرو کہ ایسا کرنے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ۔ (راوی حضرت عبداللہ بن عباسؓ۔مسند فردوس)
۳رسول اللہ ؐپکی ہوئی تازہ کھجور (رطب) سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اگر وہ نہ ہوتو پرانی کھجور (تمر) سے اور اگر وہ بھی نہ ہو تو پانی اور ستو سے۔ (راوی۔ حضرت انس بن مالکؓ)
۴رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’برنی کھجور ایک عمدہ دوا ہے‘‘۔ راوی حضرت ابوہریرہؓ۔ ذہبی راوی۔ حضرت انس بن مالکؓ ابن السنی، ابو نعیم،راوی حضرت ابی سعید الخدریؓ۔ ابو نعیم)
۵رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کھجور(رطب) کھانے سے قولنج نہیں ہوتا۔ (راوی حضرت ابو ہریرہؓ۔ ابو نعیم)
۶رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ’’اس عظیم عجوہ کھجور میں بیماری سے شفا ہے۔نہار منہ کھانے سے یہ زہروں کا تریاق ہے‘‘۔ (راوی حضرت عائشہ۔ مسلم)
۷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’عجوہ کھجور جنت سے ہے۔ اس میں زہر سے شفا ہے‘‘۔ (راوی،حضر عبداللہ بن عباسؓ۔ ابن النجار)
 ۸رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس کسی نے مدینہ کے دوپہاڑوں کے درمیان کی وادی میں پیدا ہونے والی کھجوروں میں سے سات کھجوریں نہار منہ کھائیں۔ اسے شام ہونے تک کوئی زہر اثر نہ کرے گا اور جس نے شام کو کھائیں وہ صبح تک مامون رہے گا‘‘۔ (راوی حضرت عامبر بن سعیدؓ۔مسند احمد)
۹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’رات کاکھانا ہرگز نہ چھوڑو۔ خواہ ایک مٹھی کھجور ہی کھا لو۔ رات کا کھانا چھوڑنے سے بڑھاپا طاری ہوتا ہے‘‘۔ (راوی، حضرت جابر بن عبداللہؓ، ابن ماجہ، راوی حضرت انس بن مالکؓ، ترمذی)
۱۰نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ روزہ دار عجوہ کھجور یا کسی اور کھجور سے روزہ کھولے۔ (ذہبی)
 ۱۱نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس گھر میں کھجور ہواس گھر والے بھوکے نہیں‘‘۔(راوی حضرت عائشہ صدیقہؓ۔ مسلم)
۱۲ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ہم نے ان کی خدمت میں مکھن اورکھجوریںپیش کیں، کیونکہ ان کومکھن کے ساتھ کھجوریں پسند تھیں۔ (راوی حضرت بسرؓ کے صاحبزادے ابو دائود، ابن ماجہ)
۱۳حضرت ابو اسید الساعدی نے اپنی شادی کے ولیمہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا۔ ان کی بیوی خدمت کرتی رہیں اور آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم کو کیا پلایا ،انہوںنے رات کو مٹی کے ایک کونڈے میں کھجوریں بھگو کر رکھیں۔ صبح آپ کو یہ پانی پلایا گیا۔ (راوی حضرت سہل بن سعدؓ الساعدی۔ بخاری)
 ۱۴میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کھجوروں (رطب) کے ساتھ کھیرے (قثائ) کھا رہے تھے۔ (راوی۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ، بخاری،مسلم ابن ماجہ، ترمذی)
 ۱۵میں نے (شادی سے قبل) کھیرے (قثائ) اور کھجور (رطب) کھائے اور میں خوب موٹی ہوگئی۔ (راوی۔ حضرت عائشہؓ، بخاری، مسلم،نسائی، ابن ماجہ)
 ۱۶رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعی (زبیب) اور کھجور (تمر) بیک وقت کھانے سے منع فرمایا۔ (راوی۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ۔بخاری، راوی عبداللہ بن ابی قتادہؓ،ترمذی نسائی)
۱۷میں بیمار ہوا۔ میری عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ انہوںنے اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھا تو ہاتھ کی ٹھنڈک میری ساری چھاتی میں پھیل گئی، پھر فرمایا کہ دل کا دورہ پڑا ہے۔ حارث بن کلدہ (طبیب) سے، جو ثقیف میں ہے رجوع کرو، چاہئے کہ سات عجوہ کھجوریںکوٹ کر کھلائی جائیں۔ (راوی۔حضرت سعدبن ابی وقاصؓ۔ ابو دائود، مسند احمد، ابو نعیم)
۱۸رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صہیب سے فرمایا  :  ’’تم کھجوریں کھا رہے ہو جب کہ تمہاری آنکھیں دکھ رہی ہیں‘‘۔ (راوی۔حضرت صہیبؓ۔ طبری)
۱۹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت علی ان خوشوں سے کھجور کھانے لگے پھر آپ نے حضرت علی سے فرمایا علی تم بس کرو۔ اس لئے کہ تم ابھی کمزور ہو اور بیماری سے اٹھے ہو۔ (راویہ حضرت ام المنذر بنت قیس انصاریہؓ۔ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، مسند احمد)
 ۲۰رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے صبح مدینہ کی سات کھجوریں (عجوہ) کھالیا وہ اس دن زہر (سم) اور سحر سے محفوظ رہے گا۔ (راوی۔حضرت سعد بن ابی وقاص بخاری، مسلم، حضرت عامر سعد۔ ابودائود)
            دنیا میںسب سے زیادہ کھجور پیدا کرنے والے دس ممالک:عراق، سعودی عرب،مصر، ایران، متحدہ عرب امارات، الجیریا، پاکستان، سوڈان اور لبیا۔
…………
     mihfarooqi@gmail.com

تدبر بھی کیا تونے؟؟

تدبر بھی کیا تونے؟؟
زند گی اک سفر ہے سہا نا

 ہم لو گو ں کو یہ دنیا بہت بھلی پیاری لگتی ہے ،دنیا والے ہمیں بہت عزیز ہیں ،دنیا کے دھندے ،دنیا کی  رنگینیاں ،رونقیں ،رشتے ناتے ،سب بہت دل لبھانے والے ہیں مگر یہ دنیا اپنی تمام تر خوب صورتی کے باوجود لا ئق ِمحبت نہیں ہے ۔یہ نہایت فریب کے ساتھ عروج وزوال کے کھیل کھیلتی ہے ۔یہ بے وفا کبھی کسی ایک کی نہ ہو سکی ۔دنیا کی حقیقت قرآن کے نزدیک لہوو لعب یعنی کھیل تما شے کی  چیز ہے ۔یہ دنیا کی زندگی چند روزہ فائدہ اٹھانے کی شیٔ ہے اور جو آخرت ہے وہی ہمیشہ رہنے والی ہے ۔اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ یہ زندگی کھیل تماشے کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک متعین ہدف اورمقررہ مقصد ہے ۔ یہ وقت جو بغیر کسی وقفے کے گزرتا ہے ،یہ لمحے جو پل پل میں ختم ہو رہے ہیں ،یہ سانسیں جو لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہی ہیں ،اگر ان کی حیثیت کو نظر میں رکھیں تو یہ تسلیم کرنے میں پس وپیش نہ ہو گا کہ زندگا نی کی قدر کرنی چاہیے ،بالکل ایسے جیسے امتحان سے پہلے کا وقت قابل قدر ہو تا ہے بعد میں تو صرف افسوس ہی رہ جاتا ہے ۔اسی طرح زندگی کے ہر لمحے کی قدر کریں ۔اس زندگی کا وقت بھی انتہائی مختصر ہے اور اس سفر کی حقیقت بزرگوں نے اس مثال سے سمجھایا ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کا ارادہ کرکے گاڑی میں بیٹھے ،گاڑی کچھ دیر چلنے کے بعد ایک جگہ پر محض کچھ دیر کے لئے ٹھہرتی ہے تاکہ مسافر کچھ دیر آرام کریں اور اپنے مختصر تقاضے پورے کر سکیں ،یعنی اگر کسی کو قضائے حاجت ہے تو کر سکے یا کسی نے اگر پانی وغیرہ پینا ہے تو پی سکے تاکہ آگے کا سفر آسان ہو مگر انہی مسافروں میں سے کوئی مسافر یہ سوچے کہ میں اس جگہ پر جہاں گاڑی کچھ دیر کے لئے رکی ہو ،مکان کی تعمیر کا پلان بنالوں یا اپنے مستقل قیام کے بارے میں سوچوں تو ہر کوئی ذی حس اس کو بے وقوف کہے گا ۔کیوں کہ اس کی منزل وہ ہے نہیں جہاں گاڑی  نے کچھ دیر کے لئے پڑآؤ ڈالا ہے بلکہ اس کی منزل تو وہ ہے جہاں پر اس نے اپنے کسی کام کی غر ض سے جانا ہے ۔بعینہ اسی زندگی کی مثال بھی ہے کہ یہ ایک گاڑی ہے جو چلتے ہوئے اگلے سفر کی تیاری کے لئے کسی مخصو ص جگہ پر کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئی ہے۔اب یہاں پر صرف اور صرف اگلے سفر کی تیاری کرنی ہے تاکہ اچھی طرح اپنی منزل پر پہنچاجائے ۔اس لئےہمیں غور وفکر کرنا چاہیے کہ ہماری اصل منزل آخرت کی منزل ہے جس کی ہم نے اس زندگی میں تیاری کرنی ہے۔غالبؔ نے سفر زندگی کے اس آ یٔنے کا یو ں شاعرانہ انداز میں مشا ہدہ کیا ہے  ؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آ گے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
شاعر لو گ کیا کہتے ہیں جڑوری نہیں کہ ان کے وادات قلبی کے ساتھ ہر ایک کو اتفاق ہو۔ زندگی ہمارے نزدیک ایک بڑی نعمت اور عظیم اما نت ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے کی قدر کریں ،گناہوں سے بچتے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کریں ،ذکرِ الہی ،نیک لوگوںکی صحبت ،نماز کی پابندی، نیک کا مو ں کی انجا م دہی، ایک دوسرے کے دکھ درد کو با نٹنے کی انسانی خدمت، بلا کسی بھیدبھاؤ کے اوروں کے کام آ نے کا بے لو ث جذ بہ، یہ چند ایسے افعال ہیں جو ہمیں زندگی کی مٹھاس کا مزا چوسنے، گناہوں سے بچنے اور اسلام کی رحمتو ں سے مستفید ہو نے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح گناہوں اور غلط کا ریو ں سے سے بچنے کا ایک آزمودہ نسخہ ذکرِ آخرت ،موت کی سختی اور قبر کے عذاب کو ہمہ وقت یاد کرنا ہے۔پتھر سے پتھر دل بھی اس ذکر  الہٰی سے موم ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ نہ کوئی خوشی پائیدار ہے نہ کوئی غمِ دائمی ہے ۔ ہم ہر موقع پر موت کو سامنے رکھیں کیو ںکہ یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے ،یہ زندگی کا سچا ہم سفر ہے ،زندگی کے ہر قدم کے ساتھ اٹھنے والا دوسرا قدم موت کا ہے ۔جس دن موت کا قدم زندگی سے پہلے اٹھا وہ دن ،وہ لمحہ ،وہ قدم زندگی کا آخری قدم ہو گا ۔ اللہ عز وجل کاارشاد ہے :’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری طرف لوٹ کر آؤگے۔‘‘ یہ خدائے جبار وقہار کا فیصلہ ہے ،اس کے ساتھ ہی ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکالیف کو صبر وحوصلے کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے کیوں کہ کوئی تکلیف ،موت کی تکلیف سے بڑ ھ کر نہیں ہے ۔
ہم لوگ اکثر الاوقات دکھ،صدمے یا تکلیف میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ حالت جو بھی ہو ہمیں صبر و سکو ن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے ان لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو بسترِمرگ پر کئی سالوں سے پڑے رہنے کے با وجود صبر کا دامن نہیں چھو ڑتے ہیں ۔جب کبھی ہمارا پا لا تکلیفوں سے پڑ ے تو اس وقت ہماری نگاہ میں سا مانِ راحت رہناچاہیے ۔مثلا اگر سردی سے تکلیف ہو رہی ہے تو ہم بآ سانی گرمی کا سامان کر سکتے ہیں اور اسی طرح اگر گرمی سے تنگ ہو رہے ہیں تو ٹھنڈک کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ہا ں یہ صورت بھی کبھی لا حق ہو سکتی ہے کہ راحت کا ساما ن نہ ہو سکے تو اس حال میں تقدیر الہٰی پر راضی برضا ہو نا تو کل اورتدبر کا تقاضا ہے۔ عام حالا ت میں ہم آ سائش کا ساما ن خود کو جوں تو ں بہم پہنچا سکتے ہیں۔ضروت کے اعتبار سے ہم اپنا آب وہوا تبدیل کر سکتے ہیں ،اپنے اردگرد کا ماحول بدل سکتے ہیں ، اپنے پیاروں سے مل کر تنہا ئی کا منفی احساس کم کر سکتے ہیں ،معصوم بچوں کے ساتھ کچھ وقت کاٹ  کر دنیا کی پر یشانیو ں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں ۔ تاہم عا  لم برزخ کا تصور کیجیے جہاں ہمارے اپنے ہی اعمال کے طفیل کبھی نہ بدلنے والے حالات سے ہما را سامنا ہوگا۔  یہ با ت محتاج تشریح نہیں کہ انسان چاہے کتنی غذائیں کھالے ،کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرلے ، کتنا ہی سامان دفاع پل پل اپنے پا س جمع رکھے ، وہ وقتِ مقررہ سے ایک لمحہ بھی زیادہ نہیں جی سکتا اور وہ کتنی ہی کوشش کر لے ،کتنا ہی زور لگا لے ،اپنے وقت سے ایک منٹ بھی پہلے نہیں مر سکتا ۔زندگی اور موت بلا شرکتِ غیرے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے ۔   اس اصول کو مان کر چلنے والے حا لا ت کی بر ہمی یا ان کی مو افقت کو پر کا ہ کی بھی اہمیت نہیں دیتے، ان کی توقعات اور امیدوں کا سارا دار ومدار اللہ کی مشیت سے جڑا ہو تا ہے۔ اس لئے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور مہلتوں میں گم گشتہ راہ ہ ہو کر خدا کے حکم سے روگردانی کر نے کا گناہ نہیں کر نا چا ہیے بلکہ اپنے آ پ کوصراط مستقیم  پر رکھنے کے لئے ہمیں قیامت کی علامات کو یاد رکھنا ہوگا ،جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ کو باہر نکال پھینکے گی،جب زمین ہموار کر دی جائے گی ،جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے جھڑپڑیں گے اور جب دریا بہہ کر ایک دوسرے میں مل جائیں گے اور جب قبر یں اُکھیڑ دی جائیں گی ،جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بے نور ہو جائیںگے اور جب پہاڑ چلائے جائیں تو خود سوچیے اس وقت کا عالم کیا ہو گا؟ا ہم سب خالق کائنات کی عدالت میں اپنا اپنا سروس بک یا نا مۂ اعمال لے کر حاضر ہو ں گے ۔ یہ ہماری جوابدہی کا دن ہو گا ، ہما رے گنا ہو ںاور ثوابو ں کو اللہ کی میزان میں وزن دینے کا وقت ہو گا ، ہما ری د و لت، شہرت ، اثر ورسوخ ، چا لا کی، چا پلو سی ، چرب زبا نی، ڈنڈی ماری، جھو ٹ ، مکرو فریب کا سارا ڈھکو سلہ دھڑام سے کر جا ئے گا۔ اور اللہ کا عد بے لا گ ہو گا ۔ اس عدالتی کارروائی میں کا میاب ہو نے کے لئے رب کا ئینات ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے   ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
کوئی بھی انسان جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو یہ وقت اس کی سعادت وشقاوت کو اس کے نامہ اعمال میںدرج کرنے کی گھڑی ہوتی ہے ۔اگر ایک نوجوان سنجیدگی کے ساتھ اس دور کے شروع ہی میں اپنا مقصدِ حیات سمجھ لے اور اسی کی تکمیل کے لئے پوری طرح اپنی جوانی، صلا حیتوں اور جسما نی قویٰ کو نیک عملی اور بلند کردار میں کھپا لے تو زندگی میں گریڈ پرمو شن اورکامیابی کا رزلٹ سننے کے تمام جا ں گداز مرحلے بڑی آسانی کے ساتھ طے کئے جا سکتے ہیں بلکہ وہ اللہ کی با رگاہ میں قبو لیت کی خلعت سے فضل وکمال کے اعلی درجے تک پہنچ سکتا ہے ، البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نعمتِ خداوندی کی قدرو قیمت سمجھتے ہوئے شباب کا قیمتی دور گزارا جا ئے ۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ہماری ریاست کانوجوان مغرب کے نت نئے فتنہ انگیز تما شوں کے سمندر میں ڈوبا ہواہے۔ شایدزندگی کا مقصد اس نے محض یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ رنگ رلیاں منانے کے لئے ہے اور وہ اپنی قیمتی جوانی کو غلط  رُخ اختیار دے رہا ہے۔ کر رہے ہیں ۔ ہماری ریاست میں مختلف النوع جلسے جلوس اور کا نفر نسیں تو روز ہو رہی ہیں مگر اصلاحِ معاشرہ یا جوانوں کو سنبھا لنے سدھا رنے کے نام سے کوئی اجلا س ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ لہٰذا والدین ،مساجد کے ائمہ ،مدارس کے علماء کرام ، سما جی اصلاح کارو ں، معزز شہریوں نیز مبلغین ، دانشوروں ، شعراء وادیبو ںاور صحا فیو ں کی یہ نا قابل التواء ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی الا مکا ن نوجوانو ں کو زندگی کے سہا نے سفرکا اصل مفہوم سمجھا نے ، اس کے آداب اور اصو لو ں پر چلا نے، برائیوں سے بچا نے ا ور اچھا ئیو ں کو اپنا نے اور اس کا ر گا ہ ِحیا ت کے ہر امتحا نی پر چے میں اول آ نے کا ہنر اور فن کاسلیقہ سکھا ئیں ۔ اس کے لئے ہر طرح کی کا وشو ں کی اشد ضرو ر ت ہے ۔ اگر اس اہم اصلا حی مشن کی ذمہ داریو ں سے دامن جھا ڑ گئے تو نتیجہ بھیانک ہوگا ۔ خود اصلا ح یا فتہ جوانوں کو حالاتِ حاضرہ پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے کہ کہاں برائیا ں کہا ں پنپ رہی ہیں اور ان کا فی الفور ازالہ کر نے میں واضح حکمت عملی کے ساتھ سدّباب کر نے میں انہیں آ گے آ نا چا ہیے تاکہ ہماری حیا ت اجتما عی کا سفر خو شحا لی اورکا میا بی کے سفینہ میں آ رام سے جا ری رہے اور ہم سب  خود سدھر کر آنے والی نسلوں کے لئے منزل آ شنا ئی کاباد نما بن سکیں۔ البتہ ہمیں یہ با ت گرہ میں باندھ لینی چا ہیے کہ ہماری زندگی کا سفر، اس کے ہر پڑاؤ  اور ہرابتلا ء وآ زما ئش میں کا میابی کے لئے زاد راہ قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے حا صل کیا جا ئے تو یہ سارا سفرآ رام واطمینان سے گزر جا ئے گا۔ با لفا ظ دیگرانسانی زندگی کے دنیو ی سفر کا نچو ڑرضائے الہی  اور اتبا ع رسول ؑکا حصول ہو تو ہر قدم پر مز ے ہی مزے ہیں بلکہ ہر سانس کا میا بی کا اعلا ن ہے  ؎
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
………
shahzadanwari@yahoo.in
Courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

نینوٹیکنالوجی :دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟

نینوٹیکنالوجی :دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟


نینو ٹیکنالوجی مادہ کی نینواسکیل پر جوڑ توڑ کوکہتے ہیں۔ اگر ہم تین یا چار اٹیم کو ایک قطار میں رکھ کر اس قطار کی لمبائی ناپیں تو وہ ایک عام میٹر کا ایک اربواںحصہ ہوگی جسے ہم نینو میٹر کہتے ہیں۔
اس لیے اگر ہم ایسی مادی چیزیں ایجاد کریں جن میں ہم اٹیم کو ایک مقررہ جگہ نصب کریں۔ آخر الامر نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ایسی ایجاد کرنا جس کے کام کرنے کے لیے ہر اٹیم کا ہردفعہ اس مقررہ جگہ پر موجود ہوتا ضروری ہے۔اس کاریگری کا نام نینو ٹیکنالوجی ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے نینو ٹیکنالوجی نے جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اس سے صاف لگنے لگا تھا کہ بیسویں صدی کے آخری سالوں میں انفارمیشن ٹیکنولوجی نے جو بڑا انقلاب پیدا کیا تھا، اکیسویں صدی میں نینو ٹیکنالوجی اس سے بڑا انقلاب لائے گا۔ ایسا انقلاب جو ہر صنعت اور زندگی کے ہر معاملے کو ایک نئی زمین پر لاکر کھڑا کرے گا۔
آئی ٹی نے واقعی سب کچھ بدل ڈالا۔ غور کرنے پر پتہ چلے گا کہ اب کچھ بچا ہی نہیں جس تک آئی ٹی کی رسائی نہ ہو۔ آج کی معیشتی مندی نے جہاں اور صنعتوں کی ترقی پر بریک لگایا ہے، وہیں آئی ٹی پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کا حال یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہر ٹیکاولوجی بدل دے گی۔اس ٹیکنالوجی کا مستقبل بہت ہی روشن مانا جارہا ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال بار بار اٹھنے لگا ہے کہ اس تکنیک سے بنے پیداوار کتنے محفوظ ہیں۔ کئی خاص ریسرچوں اور مختلف ملکوں کی حکومتی رپورٹوں میں اس کے حفاظتی پہلو پر شک ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ٹی کی طرح نینو بھی دنیا بھر میں حکومتی اختیارات سے دور رہی۔ لیکن اب اس پر کچھ قوانین لاگو کرنے کی بات چل رہی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے صحت اور ماحول کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نینورامیٹریل کچامال اور اصل وہ ساری چیزی ہیں جو جاندار اور بے جان کے پیدائش میں خاص بلڈنگ بلاگ یا مکان میں استعمال ہونے والی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نینو میں مادہ کا استعمال بہت ہی چھوٹی سطح پر ہوتا ہے۔ ایک نینو میٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے، یعنی ہائیڈروجن کے دس ایٹم ایک کے بعد ایک جوڑیں تو وہ ایک نینو میٹر ہوگا۔ ایک ڈی این اے مالیکویل ڈھائی نینو میڑ ہوتا ہے۔
خون کا ایک خلیہ پانچ ہزار نینو میٹر کا ہوتا ہے اور انسان کے ایک اکیلے بال کی موٹائی 80ہزار نینو میٹر ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نینو انجینئرنگ میں کس طرح انتہائی چھوٹی سطح پر کام ہوتا ہے۔ نینو میں مادہ کا انتہائی چھوٹا سائز تو ہوتا ہی ہے اس کے صفات بھی بدل جاتے ہیں۔ تابنے کو نینو کے درجہ پر لانے پر وہ اتنا لچیلا ہوجاتا ہے کہ کمرے کی حرارت پر ہی اسے کھینچ کر عام تانبے کے مقابلے میں پچاس گنا لمبا تار بناسکتے ہیں۔ نینو کے درجے پر سیدھی سادی بے ضرر چیزیں بھی بہت زہریلی ہوسکتی ہیں۔
اس کے ذریعے جاندار خلیوں اور دوسرے ماددوں کو بے جان ایٹموں کے ساتھ جوڑ کر کئی چیزیں بنائی جارہی ہیں۔ آج اس ٹیکنالوجی سے تیار کئے گئے سامان بازار میں آنے لگے ہیں۔ چائے، کافی اور کھانے پینے کے چیزوں کے گرنے سے پڑنے والے نشان نہیں قبول کرنے والے کپڑے اور دوا سے لے کر سنگار ‘فیشن’ کی چیزیں تک بننے لگی ہیں۔
ایسا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس طرح سے بنی دوا یاں کریم جسم کے کچھ خلیوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کرسکتے ہیں، ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا بلڈ برین بیرئر نام کی اس چیز کو ختم کرسکتے ہیں۔ دماغ اور خون کے درمیان بنائی گئی نازک سی اس سرحد کو پار کرنا ادویات کے لئے مشکل ہے۔ کھانے پینے اور ادویات میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال ہونے پر جہاں خوش ہونے والے بہت ہیں، وہیں سائنسدانوں اور ماحولیات کا خیال کرنے والوں کو فکر ہورہی ہے۔
ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ ٹیکنالوجی جتنی زیادہ طاقتور ہوتی ہے، انسانی معاشرے پر اس کے اثرات بھی اتنے ہی ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ سٹین فورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر پال سیفو کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم نینو ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پالیسیاں وضع کریں۔
ان کا خیال ہے کہ ’’گذشتہ پچاس برسوں میں ہمیں ایٹم بم اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے جو سبق حاصل ہوئے ہیں، وہ بہت اہم ہیں۔ ہم نے پہلے ایٹم بم بنایا اور پھر ہم نے ضابطے بنائے تا کہ لوگ اندھا دھند بم برسانا نہ شروع کر دیں۔ اور ہم اب بھی نہیں جانتے کہ اِس کہانی کا اختتام کہاں ہو گا۔نئی ٹیکنالوجیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔ لیکن ان تمام باتوں کو جاننے کے باوجود نینو ٹیکنالوجی کو اہمیت دی جا رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کے نقصانات کے مقابلے میں فائدے زیادہ ہیں۔
 جومصنوعات اس ٹیکنالوجی سے بنائی جاسکتی ہیں ان میں بڑے کمپیوٹینگ پاور کمپوٹر ، لوہے سے دس گنی مضبوط دھاتیں لیکن اس سے کئی زیادہ ہلکی، بائیلوجیکل اور فوڈ ٹشّو۔
یہ تمام مصنوعات بہت ہی سستی ہوں گی کیونکہ وہ مالیکیولر مشین سے بنائی جائیں گی۔ ان کو بنانے کا مواد ضائع شدہ اشیاء یا مٹی سے ہوگا۔ اور توانائی سورج سے۔ اس ضائع شدہ اشیاء اور مٹی کے اٹیم کی ترتیب کو تبدیل کرکے فائدہ مند چیزیں بن سکتی ہیں۔جس طرح درخت اور کھیتی باڑی میں مٹی، پانی اور سورج سے ملنے والی توانائی کے ساتھ اٹیم کی ترتیب کے تبدیل ہونے کی وجہ سے لکڑی اور اناج بنتا ہے۔
اس وقت مالیکیوکر مشین زندہ سیل میں ہیں اور نینالوجیسٹ قدرت اور نشونما ہیں۔ حقیقت میں یہ قدرتی تبدیلیاں ہم نقل کرنا چاہتے ہیں۔
اس بات کو سمجھنے میں کافی ترقی ہوچکی ہے کہ مالیکول کو کس طرح جوڑا اور ترتیب دیا جائے تاکہ کہ وہ ا یک پیچ در پیچ بناؤٹ میں تبدیل ہوجائیں۔ بہت سے سائنس داں ‘‘ نینو اسٹرکچرز‘‘ کو بنانے میں مشغول ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کچھ سالوں میں ‘‘مالیکیولر الیکٹرانکس‘‘ بہت چھوٹے کمپیوٹر سرکیٹس اور سنسر بنانے لگے گی۔ سائنس دانوں نے اب ایسی مائکرواسکوپس بنالیں ہیں جن کی مدد سے وہ نہ صرف اٹیموں کو ایک دوسرے سے علاحیدہ دیکھ سکتے ہیں بلکے سائنس دان ان ایٹموں کو ترتیب بھی دے سکتے ہیں۔
ریچرڈ فینمین پہلا سائنس دان تھا جس نے1969 میں کیل ٹیک میں امریکن فزیکل سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کے ایٹموں کو مخصوص ترتیب میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ اْنیس سوچھیاسی میں جب اریک ڈریکسلر ( جو فورسائٹ انسٹی ٹیوٹ کے چیرمین ہیں) ایم۔آئی۔ٹی میں تھے انہوں نے انجن آف کرِیشن لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا کہ اس سب کا کیا مطلب ہے۔ اْس وقت سائنس دانوں میں اس طرح کی سوچ کے لیے تیار نہیں تھے۔ مگر نینواسٹرکچر اور مالِکیولر الیکٹرانکس میں ترقی ہونے سے اس اب ایسی سوچ کو قبول کیا جاتا ہے۔
ہمارے گھروں میں نینو ٹیکنالوجی سے کئی تبدیلیاں آئیں گی۔ بیس پچیس سال میں مضبوط اشیاء ، پاور فل کمپیوٹروں اور ساتھ ساتھ مینوفیکچرینگ کی قیمت کم ہونے سے چھوٹے مگر اسمارٹ مٹیریل سے مکانات بنائے جائیں گے۔ جن کی دیواریں چھپ سکیں گی۔ ٹی وی کاغذ سے بھی پتلے، خود بخود صاف ہونے والے فرش ، گھر کے کچرے کواسمبلروں کی مدد سے دوسری قابل استعمال اشیا جیسے صاف پانی اور غذا میں تبدیلی ممکن ہوجائیگی۔
 اگر آپ کا علاقہ زلزلے کا شکار ہوا ہے تو سمارٹ مضبوط اشیاء سے بنے گھراپنے آپ کو ٹھیک کرلیں گے۔ گھر میں موجود چیزیں ہمارے موڈ اور ضروریات کے مطابق تبدیل ہوسکیں گی۔ گھر کی تمام اشیاء مائیکرو ویو کے برابر مالیکیولر مینوفیکچرینگ سسٹم سے بنا سکیں گے۔ کاروں میں حفاظتی چیزیں ہوں گی۔ ہوا میں معلق ننی منی مشین ہوں گی جو حادثے کے دوران آپ کے اردگرد پھیل کر آپ کو چوٹ لگنے سے بچائیں گی۔ کاریں خود کو درست کرلیں گی۔ بلکہ ان کو چلانے کی بھی ضرورت ختم ہوجائیگی۔ اور وہ اپنا ایندھن خود بنائیں گی۔
نینو مشین ہمارے سبزے کو نقصان دینے والے کیڑوں سے بچائیں گی۔ نینوں مشین ان کیڑوں کو کھا جائیں گی جو نقصان دہ ہیں۔ ہم اپنی فضا کو صاف کرسکیں گے۔ ہم تمام زمینوں کے اجزا صحیح کرسکیں گے تاکہ ہر زمین کاشت کاری کے قابل ہوسکے۔ہم نابود ہوئے نباتات اور حیوانوں کو پھر سے لاسکیں گے۔ اوزون گیس کی سطح کو درست کرسکیں گے اور نیوکلیر وسٹ کا مسلہ حل ہوجائے گا۔
نینوٹیکنالوجی میں چیزیں بنانے کے لیے سب سے مفید ایٹم ‘‘ کاربن‘‘ ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ بھی کاربن سے بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ ‘‘ گرین ہاوس افیکٹ‘‘ ہے نینو ٹیکنالوجی سے آب و ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مفید ہوا میں تبدیل کیا جاسکے گا۔
 مالیکیولر مینوفکچرینگ چیزوں کی ساخت میں ایٹموں کو ترتیب دیتی ہے۔اس طرح کی مینوفکچرینگ میں کوئی ویسٹ نہیں پیدا ہوگا۔
نینو ٹیک کی بایوٹیکنالوجی میں حد سے زیادہ استعمال ہوگا۔ ہمارے اپنے جسم کے سیل کے برابر مائکرواسکاپک مشین ہماری بدن کے اندر سفر کرسکیں گی اور ہماری بیماریوں سے متعلق معلومات جمع کریں گی۔ اور پھرمالیکیولرسرجری کی مدد سے ان کو درست کرسکیں گی۔ وائرس ، بِکٹیریا، کنسرسیل کی شناخت کر کے ان کو بغیرصحت مند ٹیسو پر اثر انداز ہوئے نکالا جاسکے گا۔ مالیکول کے تنظیم کو صحیح کرکے عمر کو بھی ساکن کیا جاسکے گا۔ اور ہم خیالات کے ذریعہ ہمارے جسم کے اندر کی نینو مشینوں سے بات کرسکیں گے۔ کچھ لوگ اپنے فطری عضلہ کو مضبوط مادہ سے تبدیل کرنا چائیں گے تاکہ وہ جہازوں سے کود سکیں اور زمین پر قدم رکھیں اور چلنے لگیں۔ یا ایک تیرنے والا اپنے جسم میں غیرفطری بلڈ سیل میں اتنی آکسیجن جما کرسکے کے وہ پانی کی سطح کے نیچے آدھے گھنٹے رہ سکے۔
نینو ٹیکنالوجی ہمارے دماغ کا حصہ بن جائے گی۔ نینو ٹیکنالوجسٹوں کا کہنا ہے ایک دن لائبری آف کانگرس کی ساری کتابیں بدن کے ایک سیل کے برابر کمپیوٹر میں رکھی جاسکیں گی۔ یہ کمپیوٹر انسانی دماغ کی طرح ہوگا۔ شروع شروع میں ایسے کمپیوٹر ہماری جلد کو اسکرین کی طرح استعمال کریں گے۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ دماغ سے بغیر کسی ذرائع کے بات چیت کریں گے۔ ہر انسان کے پاس تمام علم ہوگااور اس کا دماغ آج کے انسان سے میں زیادہ نالج رکھے گا۔
بعض سائنسدان کا کہنا ہے آنے والے دس سالوں میں ہم اسمبلر کا پہلا ماڈل بنالیں گے۔ بعض سائنسدان کا کہنا ہے کے ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ مگر ہرسائنسدان اس بات پر متفق ہے کہ ہم نینوٹیکنالوجی کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم ان اسملبر سے پیچیدہ نینو روباٹ بنائیں گے۔ یہ سافٹ وئیر انجینئروں پر منحصرہوگا یا کتنی جلدی ہم ارٹی فیشیل انٹیلی جنس رکھنے والے کمپیوٹر بناتے ہیں۔  

Monday 30 July 2012

فتح سندھ‘ اسباب ‘ واقعات اور ثمرات

فتح سندھ‘ اسباب ‘ واقعات اور ثمرات


 عبدالخالق بٹ
عرب کے بادیہ نشینوں کے ہاتھوں کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ اسلامی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا بھی غیر معمولی واقعہ ہی، اس ضمن میں عہدِ فاروقی ؓ میںایران سے ہونے والی جنگوں میں ”نہاوند “ کے معرکے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جنگ نہاوند ایران میں ساسانی اقتدار کو بچانے کی آخری کوشش تھی، قبلِ ازیں پے درپے شکستوں نے شاہ ایران کو بوکھلادیا تھا، لہٰذا اُس نے مشرق میں اپنی باجگزار ریاستوں (جو مکران وسندھ سے لیکر سراندیپ تک پھیلی ہوئی تھیں) سے فوجی امداد طلب کی اور اس کے لیے سندھ، خراسان اور حلوان کے حکمرانوں کو باقاعدہ خطوط ارسال کیے۔کسریٰ ایران کے ان خطوط کا جواب سندھ کی جانب سے فوجی امداد کی صورت میں دیا گیا، چنانچہ سن21ھ میں برپا ہونے والی جنگِ نہاوند میں سندھ کے راجے اور اُن کی سپاہ بھی شامل تھی، مورخین کی تصریح کے مطابق سندھ کی اس فوج میں زُط (جاٹ/جٹ/جت)، میداور سیابجہ اقوام کے جنگجو شامل تھے۔ جنگِ نہاوند کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں رہا اور اس جنگ میں سندھ و مکران کی شرکت نے مسلمانوں کو ان علاقوں کی جانب متوجہ کردیا۔ خیال ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب سندھ کے راجے مسلمانوں کے مقابلے میں ایران کے معاون و مددگار بنی، چنانچہ حاکم بحرین و عمان حضرت عثمان بن ابی العاصی ثقفی ؓ نے اپنے بھائیوں حضرت مغیرہ بن ابی العاصی ثقفی ؓ اور حکم بن ابی العاصی ثقفی ؓ کی سرکردگی میںبراہ سمندر ایک چھاپہ مار مہم روانہ کی، جو دیول/دیبل (کراچی/ٹھٹھہ)، تھانہ (ممبئی) اور بھڑوچ (گجرات) کے سواحل پر کامیاب حملوں کے بعد واپس لوٹی۔ سندھ سے عربوں کا یہ واسطہ کوئی نیا نہیں تھا عرب قبل از اسلا م بھی سندھ سے واقف تھے اور اسے ہند سے الگ ایک علیحدہ خطے کے طور پر جانتے تھے تاہم سندھ سے عربوں کی یہ واقفیت محاربانہ نہیں بلکہ تاجرانہ تھی۔ سندھ میں تیار ہونے والا کپڑا عرب میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا اور سندھ کی نسبت سے مسّند، مسّندیہ، سَنَد اور سند کہلاتا تھا۔ بہر کیف اب جب کہ سندھ کے راجا ایران کے مجوسیوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھے ایسے میں مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں، اسی لیے مسلم سپاہ نے کرمان اور سجستان کی فتح کے بعد مکران کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ عہدِ فاروقی ؓمیں مکران کی پہلی فتح عمل میں آئی اور اس باب میں حیران کُن اور دلچسپ بات یہ کہ جب مسلم سپاہ مکران پر حملہ آور ہوئی تو اہل مکران کے دفاع کے لیے سندھ کا ”راجہ راسل“ اپنی فوج کے ساتھ مسلمانوں کے مدمقابل آیا مگر وہ مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں کی تاب نہ لاسکا لہٰذا اُس نے میدان جنگ سے فرار میں ہی عافیت جانی۔ جب حضرت عمرؓ کو اس فتح کا حا ل معلوم ہوا تو آپ نے بذریعہ خط امیرلشکر حکم بن عمرو اور سہیل بن عدی کو دریا سندھ کے پار اُترنے سے روک دیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے ساتھ ہی اہلِ مکران نے سرکشی کی راہ اختیار کی مگر حضرت عثمانؓ کے بروقت اقدام نے اس بغاوت کو فرو کردیا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہاں ایک بار پھر خروج و بغاوت نے سر اُٹھایا مگر اہلِ مکران کو اس بار بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی، حضرت علیؓ کے نامزد کردہ سپہ سالارحارث بن مرہ عدی نے نا صرف اس فتنے پر قابو پالیا بلکہ مکران سے آگے بڑھ کر قیقان (گیگان/قلات کا قدیم نام) کے علاقے پر بھی قابض ہوگئی، اس طرح قیقان(قلات) پہلی مرتبہ اسلامی عملداری میں شامل ہوا۔ گو کہ خاص حدود ایران میں کسریٰ کا زور ٹوٹ چکا تھا تاہم مشرق میں سندھ کے علاقے ”قندابیل“ کو ایران کے فوجی مستقر کی حیثیت حاصل تھی (قندابیل آج کل صوبہ سندھ کے شمال میں قلات کے علاقہ میں واقع ہے اور ”گنڈاوہ“ کے نام سے جانا جاتا ہی) اسی لیے حضرات عمر ؓ نے اس جانب توجہ کی تاہم ناسازگار حالات نے انھیں اس پر حملے سے روکے رکھا۔ 30ھ میں اسلامی افواج نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے سندھ کے شہر ”فہرج“ پر قبضہ کرلیا۔ اس کامیابی کا سہرا ربیع بن زیاد کے سر رہا۔ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے مکران اور اُس کے ملحقہ علاقہ جات مکران، قیقان اور قندابیل میں 36ھ سی38ھ کے دوران میں کئی مرتبہ بغاوتیں ہوئیں جنھیں ناکام بنادیا گیا۔ 41ھ میں جب کہ حضرت امیرمعاویہؓ کا دور حکومت تھا سندھ میں ایک اہم کامیابی شہر ”ارمائیل/ارمِئیل“ کی فتح کی صورت میں ہوئی۔ سمندر سے نصف فرسخ کی دوری پر واقع یہ ایک بہت بڑا شہر تھا، آج کل اس شہر کو ”ارمن بیلہ“ کہتے ہیں، یہ علاقہ قلات میں ”لسبیلہ“ کا صدر مقام ہے اور کراچی سے ساٹھ میل دور شمال میں واقع ہے۔ 53ھ میں والی سجستان عباد بن ابوسفیان نے سندھ سے متصل سوراشٹر ( گجرات) پر کئی ایک حملے کیے۔ 78ھ میں محمد بن حارث علافی اور اُس کے بھائی معاویہ بن حارث علافی نے اسلامی عملداری میں شامل مکران و سندھ کے علاقوںمیں سر کشی اور بغاوت کا بازار گرم کردیا اور امیر سندھ سعید بن اسلم کلابی کو شہید کرکے مذکورہ علاقوں پر قابض ہوگئے۔ علافیوں کی اس سرکشی کے خلاف خلافتِ بنوامیہ کے مشرقی علاقوں کے گورنر حجاج بن یوسف نے 79ھ میں مجاعہ بن سِعر تمیمی کو مقررکیا، جنھوں نے علافیوں کے فتنے کا خاتمہ کردیا تاہم اس بغاوت کے سرخیل علافی برداران فرار ہوکر سندھ کے راجہ داہر کی پناہ میںآگئے۔ علافیوں کے خلاف کامیاب کارروائی کے ایک سال بعد ہی مجاعہ بن سِعر تمیمی کا انتقال ہوگیا، جس پر حجاج بن یوسف نے 80ھ میں محمد بن ہارون بن ذراع نمیری کو مکران وسندھ کا والی مقررکیا اور انھیں خصوصی ہدایت کی کہ وہ مجاعہ کے ادھورے کا م کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سعید بن اسلم کلابی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ محمد بن ہارون نے مکران وسندھ کی ولایت پر مقرر ہوتے ہی راجہ داہر سے اسلامی مملکت کے باغی محمد بن حارث علافی اور معاویہ بن حارث علافی کی حوالگی کامطالبہ کیا، مگر راجہ داہر نے کوئی مثبت جواب دینے کے بجائے باغیوں کی حوالگی سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے راجہ داہر کے عزائم کو بے نقاب کر دیا اور یہ کہ سراندیپ (سری لنکا) کے راجہ نے سراندیپ میںانتقال کرجانے والے عرب تجار کے ورثہ کو، جن میں بچے اور خواتین شامل تھیں ایک خصوصی جہاز میں عراق روانہ کیا، جہاز جب دیبل کی حدود میں پہنچا تو اسے دیبل کے ”مید“ قبیلے سے تعلق رکھنے والے بحری قزاقوں نے لوٹ کر اُس پر سوار بچوں اور خواتین کو گرفتار کرلیا۔ جذبہ خیر سگالی پر مبنی یہ ایک بین الاقوامی سفارت تھی جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے قزاقوں نے رخنہ اندازی کی تھی۔ اس واقعہ نے اہل عراق میں غم وغصہ کی لہر دوڑادی، چنانچہ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر سے ان قزاقوں کے خلاف اقدام اوراسیران کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن اس بار بھی راجہ داہر نے اپنی پُرانی روش کا مظاہرہ کیا اور یہ کہہ کر کہ ”بحری قزاق میرے بس میں نہیں ہیں“ لیٹروں کے خلاف کارروائی صاف انکار کردیا۔ حجاج بن یوسف نے معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کے لیے راجہ داہر کو پیش کش کی کہ اگر وہ چاہے تو ڈاکوو ¿ںکے خلاف اس کی مدد کے لیے مسلمان فوج بھیجی جاسکتی ہے جو راجہ داہر کی کمان میں ہی ڈاکوو ¿ں سے لڑے گی، مگر اس پیش کش کو راجہ نے درخوراعتناءنہ جانتے ہوئے لٹیروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے صاف انکار کردیا۔ راجہ داہر کے عدم تعاون پر حجاج بن یوسف نے ڈاکوو ¿ں کے خلاف ازخود کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے عبیداللہ بن النبہان کی سربراہی میں ایک مہم دیبل بھیجی، مگر یہ مہم ناکام رہی اور عبیداللہ بن النبہان اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ اسی کے فوراً بعد بدیل بن طہفہ البجلی کی سر کردگی میں تین ہزار سپہ پر مشتمل لشکر سندھ پہنچا جس نے نیرون (حیدرآباد) پر حملوں کا آغاز کیا ہی تھا کہ راجہ داہر نے اپنے بیٹے ”جے سیہ“ کی قیادت میںچار ہزارکا لشکر ڈاکوو ¿ں کی مدد کے لیے بھیج دیا، جس کے نتیجے میں اسلامی فوج دوطرفہ حملوں کی زد میں آگئی اور بدیل بن طہفہ بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئی، اور یوں راجہ داہر کی مداخلت سے یہ دوسری مہم بھی بے نتیجہ رہی۔ خلافتِ بنو امیہ دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی اسی لیے نیرون کے حکام کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اسلامی حکومت اس واقعہ پر شدید ردعمل ظاہر کرے گی، اسی لیے نیرون کے حاکم ”سندر“ نے راجہ کے علم میں لائے بغیر حجاج کے یہاں اپنا ایک سفیر روانہ کیا اور بدیل بن طہفہ کے واقعہ پر معذرت اور امان طلب کی اور ساتھ ہی سالانہ خراج کی ادائی کا وعدہ بھی کیا۔ حجاج نے سندر کی معذرت اور پیش کش قبول کرتے ہوئے اسے پروانہ امن لکھ دیا۔ راجہ داہر کی جانب سے باغیوں کی عدم حوالگی اور ڈاکوو ¿ں کی پشت پناہی نے حجاج بن یوسف کو مضطرب کردیا چنانچہ اس نے خلیفة المسلمین عبدالملک بن مروان سے راجہ داہر کے خلاف راست اقدام کی اجازت چاہی، مگر خلیفہ نے مصلحتاً اجازت دینے سے انکار کردیا، تاہم اس کے کچھ عرصہ بعد 86ھ میں ولید بن عبدالملک کے سریرآراءخلافت ہونے پر حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجہ داہر کے خلاف کارروئی کی اجازت حاصل کر لی۔ مرکز سے اجازت ملتے ہی حجاج بن یوسف نے بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں شروع کر دیں، راستے کی صعوبتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے خشکی کے راستے حملہ آور ہونیوالی فوج کے لیے ضرورت کے ہر سامان، حتیٰ کہ سرکہ میں بھیگو کر سائے میں خشک کی گئیں روٹیاں اور سوئی دھاگہ تک، کی فراہمی یقینی بنائی گئی، دوسری جانب براستہ سمندر حملہ آور ہونے والے بیڑے کی تیاری کے لیے اپنے وقت کے ماہر جہاز رانوں کی خدمات حاصل کی گئیں، پھر ان سب انتظامات کے ساتھ اس مہم کی سربراہی کے لیے بنو ثقیف کے ہونہار سپوت محمد بن قاسم کا انتخاب کیا گیا جو ان دنوں فارس کے کُردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کے بعد ”رے“ کی مہم پر روانہ ہونے کو تھا۔ محمد بن قاسم نے تیاریاں مکمل ہوتے ہی اپنے مستقر (شیراز) سے روانگی کا آغاز کیا۔ وہ مکران سے ہوتے ہوئے فنزپور (غالباً پنج گور) پہنچے اور اسے فتح کرنے کے بعد ”ارمائیل“ کی جانب رُخ کیا جو ایک مرتبہ پھر سرکشی کی راہ پر تھا، ارمائیل کی مقرر فتح کے بعد محمد بن قاسم رمضان 93ھ بروز جمعہ دیبل پہنچ گئی، اورٹھیک اسی دوران اسلامی بحری بیڑہ بھی دیبل کی بندرگاہ میں داخل ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے فوری کارروائی کے طور پر شہر پناہ کے گرد خندق کُھدوا کر اُس کے گردا گرد نیزے گاڑھ دئے جن پر اسلامی پھریرا لہلہا رہا تھا، اور ہر نیزے کے نیچے ایک ایک سپاہی متعین تھا۔ اسلامی لشکر زبردست آلاتِ حرب وضر ب سے لیس تھا، اس سامان میں”عروس“ نامی ایک قوی ہیکل منجنیق بھی تھی جسے پانچ سوافراد مل کر چلاتے تھے۔ دیبل کے محاصرے کے دوران محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ اہلِ دیبل کے حوصلے شہر کے مرکزی مندر پر نصب جھنڈے کی وجہ سے قائم ہیں اگر کسی طور یہ جھنڈا سر نگوں ہوجائے تو اہلِ شہر کی ہمت خود ہی پست ہو جائے گی۔ یہ جھنڈا مندر پر نصب ایک لٹھ پر آویزاں تھا، جو اس قدر بڑا تھا کہ جب تیز ہوا چلتی تو یہ سارے شہر پر لہرانے لگتا تھا۔ اسی لیے یہاں کے شہریوں کا عقیدہ تھا کہ جب تک اُن پر یہ جھنڈا سایہ فگن رہے گا کوئی انھیں گزند نہیں پہنچا سکتا۔ جھنڈے کے متعلق اہل شہر کی ضعیف الاعتقادی کا علم ہوتے ہی محمد بن قاسم نے ”عروس“ نامی منجنیق کو شہر کے مشرقی جانب نصب کرنے کا حکم دیا تاکہ یہاں سے جھنڈے کو باآسانی نشانہ بنایا جا سکے اور شہریوں کا جانی نقصان بھی کم سے کم ہو۔ منجنیق کے نصب ہوتے ہی جھنڈے پر سنگ باری شروع کردی گئی اور آن کی آن میں جھنڈا سرنگوں ہو گیا، جھنڈے کا گرنا تھا کہ اہلِ شہر مشتعل ہو کر حملہ آور ہوئے مگر انھیں مسلم سپاہ کے بھرپور جواب نے پلٹنے پر مجبو ر کردیا۔ محمد بن قاسم اور اُس کی افواج پر اہلِ دیبل کی کمزوری عیاں ہوچکی تھی لہٰذا انھوں نے پہلے سے بڑھ کر حملہ کیا اور سیڑھیوں کی مدد سے فصیل پر چڑھ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دیبل شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا، تاہم راجہ داہر دیبل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے پرسر پیکار جنگجوو ¿ں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور عام شہریوں کے لیے مکمل امان اور مذہبی آزادی کا اعلان کیا، اسی کے ساتھ ہی شہر میں مسجدکا قیام عمل میں آیا اور چار ہزار مسلمانوں کو یہاں بسایا گیا، یہ سارے امور تین دن میں انجام دینے کے بعد محمد بن قاسم نے نیرون (حیدرآباد) کا سفر اختیار کیا۔ نیرون میں حجاج بن یوسف کے پروانہ امن کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا، دوسری طرف نیرون کے حاکم ”سندر“ نے شرائط کے ضمن میں مکمل وفاداری کا ثبوت دیا۔ محمد بن قاسم نیرون سے ”سیہان“ روانہ ہوا، راستے میں آنے والے کئی چھوٹے شہروں نے صلح وامان کی درخواست کی جو قبول کرلی گئی، ”سیہان“ بھی کسی بڑی مزاحمت کے بغیر فتح ہوگیا۔ محمد بن قا سم نے ”سیہان“ سے علاقہ کچھ (سوراشٹر) کا رُخ کیا جو راجہ راسل کی عملداری میں تھا اور جہاں دیبل کا مفرور راجہ داہر پناہ گزیں تھا، یہاں راجہ داہر نے ایک ہولناک جنگ کا سامان مہیا کر رکھا تھا، اس کی فوج میں 27منتخب جنگی ہاتھی تھی، سندھ کے راجوں مہاراجوں کے یہاں جنگی ہاتھیوں کے میدان جنگ میں اُترنے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جو ہاتھی زیادہ بہادر ہوتا تھا اس کی سونڈ میں کٹار باندھ دیا جاتا تھا اور پوری سونڈ زرہوں سے چھپادی جاتی تھی، نیز اس کے پورے جسم پر لوہے کی زرہیں اور میخیں ہوتی تھیں اور اس کے گرد پانچ سو پیدل سپاہیوں کی فوج ہوتی تھی، اس حساب سے صرف ستائیس جنگی ہاتھیوں کے ہمراہ تیرہ چودہ ہزار سپاہی موجود تھی، سوار اور پیدل فوج اس کے علاوہ تھی۔ کچھ (سوراشٹر) میںدونوں افواج کئی ماہ تک ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہیں، بالآخر جب معرکہ بپا ہوا تو یہ فتح سندھ کا سب سے ہولناک معرکہ ثابت ہوا، راجہ داہر ہاتھی پر سوار فوج کی قیادت کررہا تھا اُس کے ہمراہ ٹھاکروں کی فوج تھی، اثناءجنگ راجہ کا ہاتھی مہابت سے بے قابو ہوگیا نتیجتاً راجہ کو ہاتھی سے کودنا پڑا، جس پر قبیلہ بنو طے کے قاسم بن ثعلبہ بن عبداللہ بن حصن طائی نے راجہ داہر کا کام تمام کردیا۔ راجہ کے مارے جانے پر اُس کی فوج میں ابتری پھیل گئی اور وہ ”ارور“ اور ”برہمن آباد“ کی سمت فرار ہوگئی۔ کچھ (سوراشٹر) کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ”ارور“ کا رُخ کیا جسے ”الور اور اروڑ“ بھی کہتے ہیں، اور جو رائے خاندان کے راجوں کا پایہ تخت تھا، یہاں کسی سخت معرکے کے بغیر کامیابی حاصل ہوئی، محمد بن قاسم نے دیگر مفتوح شہروں کی طرح یہاں بھی انتظامی امور انجام دیی، یہاں سے فارغ ہونے پر مسلم سپاہ نے ”برہمن آباد“ پر یلغار کی جہاں راجہ داہر کی فوج کا بقیہ حصہ چھپا بیٹھا تھا۔ ”برہمن آباد“ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے بنا لڑے مصالحت کی بنیاد پر ”ساوندری، بسمد، الرور اور بغرور“ کے شہروں پر فتح پائی۔ 94ھ میں محمد بن قاسم کی فوج کامقابلہ راجہ داہر کے بیٹے ”راجہ چچ“ سے ہوا، جس میں راجہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 95ھ میں محمد بن قاسم نے ملتان کاقصد کیا جہاں ایک سخت محاصرے کے بعد حاکم ملتان نے شہر کے دراوزے کھول دیے۔ ملتان کی فتح کے محمد بن قاسم نے ایک بار پھر جنوب کا رُخ کیا، جہاں ”الرور اور بغرور“ میں مسلم فوجوں کچھ دن آرام کے بعد سوراشٹر کے مشہور شہر بیلمان (بھیلمان) کا سفر اختیار کیا، محمد بن قاسم کو یہاں بھی کسی مزاحمت کے بغیر فتح حاصل ہوئی اور اہل شہر نے اسلامی افواج کی بالادستی قبول کرلی۔ محمد بن قاسم بیلمان (بھیلمان) کے بعد ”کیرج“ پہنچا جہاں اُس کا مقابلہ ”راجہ دوہر“ سے ہوا، اسلامی افواج اس معرکے میں بھی فتحیاب ہوئیں اور ”کیرج“ بھی اسلامی عملداری میں آگیا۔ محمد بن قاسم کی پے بہ پے کامیابیوں نے فتح سندھ کا باب مکمل کردیا اور یوں اس خطے کو سر زمین ہند میں ” باب الاسلام“ یعنی ”اسلام کا دورازہ “ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ محمد بن قاسم نے مفتوح علاقوں میں بہترین حسنِ سلوک اور زبردست انتظامی قابلیت کا مظاہرہ کیا، جو اُس کی ہر دلعزیزی کا باعث بنا۔ اب سندھ ایک وسیع و عریض اسلامی مملکت کا حصہ تھا، چنانچہ یہا ں بھی علم و حکمت اور صنعت وحرفت کو خوب فروغ حاصل ہوا اور یہاں کے باشندوں نے عرب پہنچ کر مختلف علوم و فنون میں خوب نام پیدا کیا۔ ذیل میں ایسے ہی چند افراد کا تذکرہ پیش ہی: ابو معشر سندھی: ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن دوسری صدی ہجری میں حدیث کے مشہور راویوں میں سے ہیں، اپنے وطن سندھ کے انتساب سے ” سندی“ اور جائے قیام کی نسبت سے ”مدنی “ کہے گئے۔ ابنِ ندیم کے مطابق ”وہ تاریخ و سیر کے عارف اور محدثین میں سے ایک تھی، اُن کی کچھ کتابیں ہیں جن میں سے ایک کتاب ’المغازی‘ ہے“ ابوعبدالملک بن معشر سندھی : ابوعبدالملک، ابو معشر سندھی کے لائق صاحبزادے اور اپنے عہد کے ممتاز اہلِ علم میں تھی، خلیفہ مہدی انہیں مدینہ منورہ سے بغداد لے آیا تھا۔ امام اوزاعیؒ: شیخ الاسلام عبدالرحمٰن بن عمرو امام اوزاعی ؒ نسلاً سندھی تھی، آپ اُن آئمہ اسلام میں سے ہیں جو فقہ کے ایک مذہب کے بانی بنے اور شام اور اُندلس میں عرصہ دراز تک اُن کے پیروکاروں کی کثیر تعداد موجود رہی۔ تاریخِ فقہ اسلامی میں یہ مذہب آج تک معروف ہے۔ حافظ ابو محمد خلف بن سالم سندھی: ابو محمد خلف بن سالم سندھی مشہور حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔آپ سادہ منش اور مختلف علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ ابوالعباس فضل بن سکین بن سحیت سندھی: ابو العباس فضل بن سکین بن سحیت سندھی کا شمار بھی معروف راویانِ حدیث میں ہوتا ہے۔ ابو نصر فتح بن عبداللہ سندھی: ابو نصر فتح بن عبداللہ سندھی آل حکم کے موالی میں تھی، جنھوں نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔ آپ نے علوم فقہ وکلام میں بڑانام پیدا کیا۔ ابو العطاءسندھی: ابو العطا ءکا نام عربی ادب میں محتاجِ تعارف نہیں، آپ نے عربی ادب میں ایسا کمال پیدا کیا کہ قادرالکلام عرب شعراءمیں جگہ پائی۔ امام داو ¿د: امام داو ¿د کا شمار مشہور ترین محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ کی مرتب کردہ ”سنن ابو داو ¿د“ صحاح ستہ میں شامل ہے۔ آپ کا تعلق پاکستان کے موجودہ علاقہ خضدار یا قلات سے بیان کیا جاتا ہے۔

Sunday 29 July 2012

مت رو برما کے مسلمانو

مت رو برما کے مسلمانو

مت رو برما کے مسلمانو یہ عالمی غفلت نیا انسانی وطیرہ نہیں انسانی خون کی ارزانی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کئے جاتے ہیں کرہ ارض کے محافظ اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک خون کا دریا اپنی سرحدیں توڑ کر نہ بہہ نکلے ،خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کے عظیم دماغ مل کر سوچتے ہیں کہ اس واقعہ پر کیا اقدام کیا جائے؟ وہ سوچتے ہیں اور انسانی خون خدا کی زمین کو لالہ زار کرتا ہے ۔
ایک عام فارمولے کے مطابق ساری دنیا کی نظریں امریکا پر جاکر رک جاتی ہیں کہ امریکا ہی اس قضیہ کا حل نکالے گا۔اور دوسری طرف ہمارے مذہب کے محافظDefender of the faith طاقتور مسلمان ممالک جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحر ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے ہم اپنی اپنی راج دھانیوں میں شانت سے براجمان ہیں اور دشت اور بحر ظلمات سے سراسر یک طرف اس سوچ میں غلطیاں ہیں کہ اپنے ملک میں دنیا کی اونچی عمارت اور دنیا کا سب سے لمبا ائر پورٹ تعمیر کریں ان کی لاتعلقی نئی نہیں اور ان کے ہونٹوں پر ثبت مہر بھی نئی نہیں۔
آج برما کا شمالی صوبہ ارکان مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے آج برما کی مسلمان عورتوں اور بچیوں کی عصمت وعفت درندہ صفت برمی فوج اور پولیس کے ہاتھوں ارزاں ہے اور ان کی بارکوں میں عصمت دری کے اعداد پر بازیاں لگائی جارہی ہیں اور دنیا خاموش ہے برما لہو لہو ہے اور دنیا خاموش ہے تشدد سے مخلوق اپاہج ہوچکی ہے دنیا خاموش ہے۔
ایک اخباری اندازے کے مطابق روہنگ یاس میں 650 لاشیں پڑی ہیں 1200کے قریب برمی مسلمان لاپتہ ہیں 80ہزار لوگ بے در ہیں اور دنیا خاموش ہے وہ باہمت جنہوں نے اس جاگتی جہنم سے فرار کی راہ اختیار کی تو ان پر بنگلہ دیش کی سرحدیں بند کردی
گئیں بنگلہ دیش بلبلا اٹھا کہ بنگلہ دیش مزید مہاجرین کو پناہ دینے سے معذور ہے اس وقت بنگلہ دیش میں 2لاکھ سے زیادہ برمی مسلمان پناہ گزیں ہیں ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بنگلہ دیش محدود ذرائع کا ملک ہے ، بنگلہ دیش کو مدد کی ضرورت ہے اور دنیا خاموش ہے اب ذرا سوچئے کہ اگر برمی مسلمان پناہ گزیں انڈیا کا رخ کریں تو کیا انڈیا اپنی سرحدیں کھول دے گا ؟
ایک خبر کے مطابق صرف ایک ہفتہ قبل برمی ملٹری اور پولیس نے مل کر تقریباً ایک سو نوجوان مسلمان برمیوں کو زیر حراست لیا اور ان پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر کا جرم عائد کرکے ان کو پابند سلاسل کردیا اور آج وہ سو کے سو نوجوان لاپتہ ہیں اور دنیا خاموش ہے ایک ریڈیو خبر کے مطابق برما سے بھاگنے والے پچاس برمی مسلمان ایک کشتی میں سوار بنگلہ دیش کے رخ جارہے تھے ، برمی ہیلی کاپٹر کی گولیوں کی بوچھاڑ میں سارے قتل ہوئے اور کشتی ڈوب گئی اور دنیا خاموش ہے ۔ آج برما کے بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی بہت سی تاویلیں کی جاری ہیں ۔ حتیٰ کہ برما کی محبوب اور مقبول حزب اختلاف کی لیڈرانگ سان سوکی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس حقیقت سے آنکھیں پھیر لیں اور کہا کہ انہیں اس معاملے کا مکمل علم نہیں ۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ روہنگ یاس کے بیشتر باشندے برمی شہری نہیں ہیں ۔ غضب خدا کا وہ برمی شہری نہ سہی کیا ہم برمی حکومت سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ انسان بھی نہیں ؟
مت روبرما کے مسلمانو تاریکیاں تمہارا مقدر ہیں آج برما کے ساحلوں پر کئی فاطمہ اذیت سے سسک رہی ہیں ہم اس ایک فاطمہ کو یاد کررہے ہیں جو لہولہان زخمیوں کولیبیا کے صحرا میں پانی پلانے کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی ہوئی اور اقبال بلبلا اٹھے
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
مت رو برما یہ گرم گرم لہو تمہاری تقدیر ہے
مت رو برما یہ عالمی بے اعتنائی تیرا زیور ہے
مت رو فاطمہ اب تمہارے لئے کوئی محمد بن قاسم نہیں آئیگا مت رو ظلم کے تیروں سے چھلنی انسانو اب کوئی طارق بن زیاد نہیں آنے والا ۔مت رو برما اب انسان اور خدا کے درمیان فاصلے طویل ہوگئے ہیں۔
زمین پہ اب نہیں اترے گا کوئی پیغمبر
جہان آدم وحوا سنوارنے کے لئے
یہاں محمدؐ و گوتم ،مسیح وکنفیوشس
جلا چکے ہیں بہت آگہی فروز دیئے

جمال

جمال

شاہ نواز فاروقی 
-انسان کی زندگی میں حسن و جمال کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ ان کے بغیر زندگی کو زندگی کہنا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے جمال کا مظہر ہے۔ اگر یہ جمال انسان کے اندر اور باہر موجود نہ ہو اور انسان کو شعوری یا لاشعوری طور پر اس کا احساس نہ ہو تو وہ خودکشی کرلے۔ انسان میں حسن وجمال کی طلب اتنی بنیادی ہے کہ اس کی تسکین عقل کے تقاضوں اور ان کی تسکین سے زیادہ اہم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عقل کے تقاضوں اور ان کی تسکین کی نوعیت اکتسابی ہے، اور جمالیاتی تقاضوں کی نوعیت وہبی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عقل کا تعلق صرف ذہن سے ہے جبکہ جمالیات کا تعلق انسان کے پورے وجود سے ہے۔ چنانچہ جمالیاتی تقاضوں کی تسکین دراصل انسان کے پورے وجود کی تسکین ہے۔ یعنی جمالیاتی تقاضوں کی تسکین میں روح، قلب، نفس اور جبلتوں سب کی تسکین شامل ہے۔ ہمارے دین کی تعلیم یہ ہے کہ جنت کا حصول اور جہنم سے نجات انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جس کو جنت میسر آئی وہ کامیاب ہوا، اور جو جہنم کا مستحق قرار دیا وہ خسارے میں رہا اور مارا گیا۔ لیکن جب اہلِ جنت‘ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم خوش ہو اور کیا تمہیں سب کچھ عطا ہوگیا ہے؟ اہلِ جنت کہیں گے کہ بیشک ہم خوش ہیں اور تمام نعمتیں ہمیں میسر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ سب سے بڑا انعام ابھی باقی ہے اور یہ انعام ’’دیدارِ الٰہی‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ کہیں گے اور خود کو اہلِ جنت پر ظاہر کردیں گے اور اہلِ جنت اپنے رب کو اس طرح دیکھ سکیں گے جس طرح وہ چاند کو دیکھتے ہیں۔ اہلِ جنت جمالِ الٰہی کو سامنے دیکھیں گے تو اس میں محو ہوجائیں گے اور انہیں محسوس ہوگا کہ جنت کی تمام نعمتیں بھی دیدارِ الٰہی کے ایک لمحے کے برابر نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اہلِ جنت کا مرتبہ زمین پر موجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مرتبے سے بڑھ جائے گا، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی خواہش کی اور انہیں جواب ملا کہ تم مجھے دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اصرار کیا اور اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی نے کوہِ طور کو جلا دیا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ اہلِ جنت میں اپنے دیدار کو برداشت کرنے کی استعداد پیدا کردیں گے، اور اس دیدار کا ایک لمحہ جنت کی تمام نعمتوں اور لذتوں سے بڑھ جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ صرف جنت کا نہیں ہے، اس دنیا میں بھی جمالِ الٰہی کے مظاہر کا انسان پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے۔ جمال کا اثر کہیں عقل سے بڑھ کر عقل بن جاتا ہے، کہیں فہم سے بڑھ کر فہم میں تبدیل ہوجاتا ہے، کہیں تحرک سے بڑھ کر تحرک یعنی Motivation کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہم جمال کے اثرات پر اس طرح غور نہیں کرتے جس طرح دوسری چیزوں مثلاً دولت‘ اقتدار اور جسمانی قوت وغیرہ کے اثرات پر غور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں انبیاء و مرسلین کے قصے بیان فرمائے ہیں اور ان میں حضرت یوسف ؑ کے قصے کو احسن القصص یا سب سے حسین قصہ قرار دیا ہے، حالانکہ اس قصے کا مرکزی حوالہ حضرت یوسف ؑ اور زلیخا کی کہانی ہے۔ اس کہانی کی ابتداء زلیخا کے اس خواب سے ہوئی جس میں اس نے حسنِ یوسف کو مجسم صورت میں دیکھا۔ حضرت یوسف ؑ بازارِ مصر میں نیلام ہوئے اور زلیخا نے انہیں خرید لیا۔ بلاشبہ زلیخا حضرت یوسف ؑ کی محبت میں مبتلا ہوئی۔ حضرت یوسف ؑ کا خواب اس نے خود نہیں دیکھا تھا بلکہ یہ خواب اسے ’’دکھایا‘‘ گیا تھا، اور اس کی دو وجوہ تھیں، ایک یہ کہ جمالِ یوسف کے غیر معمولی اثرات کو ظاہر کیا جائے اور حضرت یوسف ؑکے دامن کی حرمت ثابت کی جائے، اور یہ دونوں کام بہ تمام و کمال ہوئے۔ زلیخا نے حضرت یوسف ؑ کے لیے جال بچھایا اور حضرت یوسف ؑ توفیقِ الٰہی سے جال سے نکل بھاگے۔ لیکن جب حضرت یوسفؑ سے زلیخا کی محبت کا چرچا طبقۂ امراء کی عورتوں میں عام ہوگیا تو زلیخا نے انہیں محل میں بلایا اور چھریوں سے میوے کترنے کے لیے دے دیے اور اچانک حضرت یوسف ؑ کو ان کے سامنے بلالیا۔ طبقۂ امراء کی عورتوں نے جمالِ یوسف ؑ دیکھا تو محویت میں چھریوں سے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ اس پر غالب نے یہ بے مثال شعر کہا ہے: سب رقیبوں سے ہیں ناخوش پر زنانِ مصر سے ہے زلیخا خوش کہ محوِ مالِ کنعاں ہوگئیں غور کیا جائے تو حضرت یوسف ؑ اور زلیخا کے قصے کے تین پہلو اہم ہیں: (1) جمال کا تجربہ عمر اور طبقے کی نفسیات سے ماوراء ہے ۔ ورنہ حضرت یوسف ؑ عمر میں زلیخا سے بہت چھوٹے اور زلیخا کے ’’زر خرید غلام‘‘ تھے۔ (2) جمال کا مشاہدہ اور تجربہ رقابت کی نفسیات کو بھی معطل کرسکتا ہے۔ (3) جمال انسان کے فہم و شعور پر غالب آکر خود فہم و شعور بن سکتا ہے۔ لیکن ہماری تہذیب میں جمال کا تجربہ صرف ظاہری حسن و جمال تک محدود نہیں، بلکہ ہمارا دین ہمارے باطن کو بھی حسین وجمیل دیکھنا چاہتا ہے، مثلاً نماز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرلیا کرو۔‘‘ (31:7) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کون ہے جو اللہ کو حسین قرض دے‘‘۔ اور مسلمان جب اپنے کسی بھائی سے کسی کی وفات پر تعزیت کرتے ہیں تو اس کے لیے صرف صبر کی دعا نہیں کرتے بلکہ ’’صبرِ جمیل‘‘ کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے جمال کا شعور صرف انسانوں میں نہیں پایا جاتا بلکہ حیوانات بھی ایک درجے میں اس شعور کے حامل ہیں۔ چکور ایک پرندہ ہے اور وہ چاند کے حسن کا عاشق ہے۔ چاند تکمیل کے آخری مراحل میں حسین تر ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی چکور کی دیوانگی بڑھ جاتی ہے۔ چکور چاند کے حسن میں جذب ہوجانے کے لیے چاندنی راتوں میں چاند کی طرف پرواز کرتا ہے۔ وہ فضا میں بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کی قوتِ پرواز محدود ہوتی ہے۔ وہ تھوڑی ہی دیر میں اڑتے اڑتے بری طرح تھک جاتا ہے، اس کے بازو شل ہوجاتے ہیں اور وہ چاند کی محبت میں فنا ہوجاتا ہے۔ بلبل کے لیے پھول میں ایک حسن ہے اور وہ پھول کا عاشق ہے۔ بلبل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گلاب کے پھول کے گرد منڈلاتے منڈلاتے اس کے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ گلاب کا کانٹا اس کے سینے میں اتر جاتا ہے اور بلبل کی موت واقع ہوجاتی ہے، اور سرخ گلاب کی سرخی گویا بلبل کے خون سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تشبیہ ’’شاعرانہ‘‘ مگر ’’بامعنی‘‘ ہے۔ پتنگے اور شمع کی محبت اس اعتبار سے ایک داستان ہے کہ فارسی اور اردو شاعری کی روایت میں شمع اور پروانہ دو بنیادی کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پتنگے کے عشق اور اس کی حسن پرستی کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ پتنگا شام گئے پیدا ہوتا ہے‘ وہ ساری رات شمع کے گرد منڈلاتا ہے اور صبح ہونے سے پہلے جل کر شمع پر جان دے دیتا ہے۔ سلیم احمد کا ایک شعر ہے: پروانے کے جینے کا اسلوب پسند آیا شب رقصِ جنوں کرنا اور صبح کو جل جانا اہم بات یہ ہے کہ شمع اور پروانہ حقیقت بھی ہیں اور علامت بھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی نظم شمع اور پروانہ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے: پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں؟ یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟ سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تُو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا آزارِ موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟ شعلے میں تیرے زندگیٔ جاوداں ہے کیا؟ غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو گرنا ترے حضور میں اُس کی نماز ہے ننھے سے دل میں لذتِ سوز و گداز ہے کچھ اس میں جوشِ عاشق حسنِ قدیم ہے چھوٹا سا ’’طُور تُو‘ یہ ذرا سا کلیم ہے پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’’جگنو‘‘ بھی اہمیت کی حامل ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جمال ہر شے میں جلوہ گر ہے۔ اقبال نے کہا ہے: ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی پروانے کو تپش دی جگنو کو روشنی دی رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی چمکاکے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی رنگیں کیا سحر کو بانکی د لہن کی صورت پہنا کے لال جوڑا شبنم کو آر سی دی سایہ دیا شجر کو‘ پرواز دی ہوا کو پانی کو دی روانی موجوں کو بے کلی دی یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کادن وہی ہے جو رات ہے ہماری حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ‘ یاں دردکی کسک ہے اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل‘ بُو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہوگیا ہے وحد ت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے شعورِ جمال کی رسائی اتنی ہے کہ سمندر چاند کے حسن سے متاثر ہوتا ہے اور اس میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر دیگر مخلوقات کے لیے جمال اتنا اہم ہے تو اشرف المخلوقات یعنی انسان کے لیے کتنا اہم ہوگا! لیکن بدقسمتی سے اربوں انسان حقیقی شعورِ جمال سے ان معنوں میں محروم ہوچکے ہیں کہ وہ جمالِ الٰہی کو فراموش کرکے صرف مجازی حسن کے اسیر ہوگئے ہیں اور یہ اصل کو بھول کر نقل کو اختیار کرلینا ہے۔

شاعری اور مصوری

شاعری اور مصوری

- رضی مجتبیٰ

چوںکہ دو اجزا مصوری اور شاعری میں مشترک ہیں یعنی image (شبیہ) اور idea (خیال) اس لیے ہم ان دو اجزائے ترکیبی کے حوالے سے اس موضوع پر اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔ شاعری اور پینٹنگ دونوں امیج اور آئیڈیا کی ہم آہنگی کو حاصل کرنے کی اَن تھک کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس بیاںمیں جو کلیدی لفظ ہے وہ ہے Image۔ اس لفظ کی تشریح یوں تو اصطلاحات اور انسلاکات کے ذریعے اوراق کے انبار پر کی جاتی ہے لیکن بہت سلیس اور مختصر انداز میں یہ کہیں گے کہ امیج وہ شے ہے جو خیالات، محسوسات، جذبات کو تجریدی زبان میں بیان نہیں کرتی بلکہ ان کو زندہ تجربات اور زندگی کی طرح متحرک بیان کرتی ہے۔ کیا شاعری اور کیا مصوری دونوں اپنے objectکو اسی طرح تجرید سے بہت دور رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ زندگی اور نیچر میں پایا جاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اور نیچر دونوں ہی میں پہلے ہی سے پینٹنگز اور شاعری پائی جاتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمیں مصوروں یا شاعروں کی ضرورت ہی کیا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ نیچر اور زندگی میں گو شاعری اور مصوری دونوں موجود ہیں لیکن ایک دوسرے سے بالکل لا تعلق۔ بس مصور اور شاعر کا یہی کمال ہے کہ وہ اس لاتعلقی کو ہم آہنگی میں تبدیل کردیتا ہے۔ مصور رنگوں اور خطوط کی مدد سے اور شاعر الفاظ کی مدد سے جن میں استعارے اور تشبیہات سبھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات یہ بھی کہتا چلوں کہ بڑے آرٹسٹ، جیسے دوستوئیفسکی، ہنری جیمز اور مارسل پروست،اور شاعروں میں راں بو اور ایذرا پائونڈ اس لاتعلقی میں بھی ایک ایسا تعلق ڈھونڈ لیتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے! پائونڈـ کی ایک سڑک پر اچانک لوگوں کے نظر آنے کو یہ تشبیہ کہ جیسے ڈال سے پتے پھوٹ نکلے ہوں، کس قدر خیال اور امیج کی ہم آہنگی کی تصویر ہے! اس کا یہ کہنا اسی لیے تو ن م راشد نے گرہ میں باندھ لیا تھا کہ"straight to the thing" یعنی جس چیز کو بیان کرنا چاہتے ہو بغیر کسی آرائش یا جمالیاتی گوٹا کناری لگائے، اس چیز کو بیان کرنا سیکھو۔ ادب، آرٹ، مصوری کا اوّلیں مقصد یہ ہے کہ وہ زندگی کے ان مظاہرات کو پیش کریں یا ان کو اپنا موضوع بنائیں جو ہر انسان کے لیے دل چسپی کا باعث ہو (کیا ہم اس کو آفاقیت کہہ سکتے ہیں؟)۔ زندگی کا اور نیچر کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان کا اس کے اطراف کی اشیا اور واقعات سے تعلق کو ہی مرکز بنا لیا جائے بلکہ اس زندگی میں انسان کی درونی زندگی بھی برابر کی شامل ہے۔ کبھی کبھی انسان خوابوں میں زندہ رہتا ہے اور اسی کو حقیقت سمجھتا ہے۔ کچھ دیر ہی کے لیے سہی، اس کو خواب میں بھی وہ معروضیت نظر آتی ہے جو ہماری جیتی جاگتی زندگی کی شناخت ہے۔ یہ کیفیتیں اگر بہت haunting (دل گداز) ہوں توکیا مصوری اور کیا شاعری دونوں ہی کو بہت محبوب ہوتی ہیں اور دونوں اصناف ان کو اپنا موضوع بنا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری شا عری اور مصوری کی نئی تعریف تخیل کو بھی بہت اہمیت دیتی ہے۔ لیکن اس فرق کو نہیں بھولنا چاہیے کہ شاعری آرٹ یا مصوری کی نسبت لازمی طور پر اشیا اور موٹفس کی وہ صورتیں پیش کرتی ہیں جس کا essence (جوہر) سے تعلق ہوتا ہے۔ ایک اور بہت اہم فرق دونوں اصناف میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب کہ آرٹ جس میں مجسمہ سازی اور پینٹنگ دونوں ہی شامل ہیں، اپنے موضوع کے اظہار کے لیے جتنی تفصیلات اور جزئیات کو پیش کرتے ہیں، شاعری اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ بہت سی تفصیلات کو تج کر وہ صرف ان جزئیات سے وابستہ رہتی ہے جن سے صرف اور صرف essence اجاگر ہوتا ہے۔ خود لفظ concept (مجرد خیال) میں سوائے ان تفصیلات کے جو موضوع کے جوہر سے متعلق ہیں اور کوئی دوسرا پہلو شامل نہیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ کے اس بات کو ختم کرتے ہیں کہ حقیقت خوابوں سے کہیںبرتر ہوتی ہے اور essesntial مقاصد انوکھے دعووں سے کہیں بلند۔ میں نے اس بحث کو اچانک ایک مختصر جملے میں سمیٹ دیا۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس سے کالم میں غرابت جنم لیتی ہے۔ مگر یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ موضوع کلی طور پر غرابت سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا اور نہ اسے یہ کوشش کرنی چاہیے۔ جن کو سنجیدہ موضوعات کے مطالعے سے دل چسپی ہے، غرابت ان کو مطالعے پر مجبور کرتی ہے اور ان کے ادراک کے دائرے کو وسیع۔ اب آئیے ایک مرتبہ ہم پھر شاعری اور مصوری کی باہمی مماثلت کے لیے، والس اسٹیونز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسٹیونز نے شاعری اور پینٹنگ کے روابط پر اپنا پہلا لیکچر نیویورک میٹروپولیٹن میوزیم میں ۱۹۵۱ء میں دیا تھا۔ اس لیکچر میں اس نے شاعری اور مصوری کے درمیا ن کئی خصوصیات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہوگی، اگر انسان، جس میں شاعر بھی شامل ہے، آرٹ پر مختلف فنون کے انحصار کو نظر انداز کردے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، اس کے اس لیکچر کا Crescendo (زور) اس بات پر تھا کہ اب جب کہ انسان سے تمام اعتبارات چھن گئے، اس کے پاس ایک ہی مداوا اس زیاں کا رہ گیا ہے اور وہ ہے’’تخیل‘‘۔ والس کا استدلال یہ ہے کہ چوںکہ شاعری اور مصوری تصور اور حقیقت کے juncture (مرحلے) کے درمیان تخلیق ہوتے ہیں۔ یہ دونوں فنوں ایک پیمبرانہ قامت کو چھوتے ہیں اور انسان کی ذات کی ایک زندہ علامت بن جاتے ہیں۔ جہاں اب سوائے انسان کی ذات کچھ بھی نہیں— اور وہ بھی اگر باقی رہ سکے تو۔ اسٹیونز کا شاعری اور آرٹ کا یہ نقطئہ نظر اپنے ہم عصر شعرا سے خاصا الگ تھا، مثلاً ولیم کارلوس ولیم، جو اپنی شاعری کو پینٹنگ کا نعم البدل بنانا چاہتا تھا۔ اسٹیونز کے لیے شاعری اور پینٹنگ میں ربط نظریاتی طور پر تھا، تکنیکی طور پر نہیں۔ مغربی روایات نے لوگوں کو اس بات کا عادی بنا دیا تھا کہ وہ کسی مخصوص نظم سے کسی مخصوص پینٹنگ کا موازنہ کریں۔ اسٹیونز نے اس روایت سے بغاوت کی۔ اسٹیونز کا یہ اعتراض اس بات پر اپنی اساس رکھتا تھاکہ وہ انفرادی یا چند گنی چنی تصاویر کے اثر کے تحت اپنی شاعری کا وجدان حاصل نہیں کرتا بلکہ پینٹنگ کی کل تاریخ اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اسٹیونز کا یہ کہنا تھا کہ اکثر اوقات شعرا کو بھی وہی یا اسی قسم کے مسائل در پیش ہوتے ہیں جیسا کہ مصوروں کو۔ اس لیے ضروری ہے کہ شعرا بہت انہماک سے پینٹنگ کی تاریخ اور اس کے لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ اسٹیونز کی شاعری کو جس نظم نے سب سے زیادہ متاثر کیا اس نظم کا عنوان تھا، The Man with the blue Guitar (نیلا گٹار بجاتا ہوا سازندہ)۔ تصویر پکاسو کے اس قول پر منحصر ہے کہ مصوری ایک ملبے کا ڈھیر ہوتی ہے۔ یہ نظم بھی گویا ملبے کا ایک ڈھیر ہے اور ملبے کا یہ ڈھیر ہمارے ہی وجودوں سے عبارت ہے۔ گویا ہماری سوسائٹی بھی ملبے کا ایک ڈھیر ہے۔ پکاسو کے اس قول کو اسٹیونز نے ایک میگزین cahiers d'arts (یعنی آرٹ کی بیاض) میں پڑھا۔ پھر اس نظم کو پڑھا اور آخر میں کہنے لگا کہ کیا پکاسو کے قول کا مطلب یہ نہیں کہ چوںکہ یہ نظم پینٹنگ سے متاثر ہوکر لکھی گئی، اس لیے یہ نظم بھی ملبے کا ایک ڈھیر ہے؟ بظاہر آپ کو یہ بات بہت بے تکی لگے گی مگر اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو شاعری اور مصوری دونوں کے عمق میں مخفی سر رئیلزم کو تلاش کرنا ہوگا پھر یہ بات مصوری کی تاریخ اور مختلف تحریکوں کی ایک کڑی بن کر بہت بامعنی ہو جائے گی۔ اسی سلسلے میں اگر مصوری اور فلسفے اور نفسیات کے روابط کی بات بھی کرلی جائے تو بے جا نہ ہوگی۔ کے لیے تو کیا مصوری کیا شاعری اور کیا میوزک سب ہی کچھ اس حقیقت سے فرار ہے جو انسان کے تخیل اور اس کی دبی ہوئی خواہشوں کے خوابوں اور سرابوں کی طرح خوب صورت نہیں۔مگر فرائڈ کھینچ تان کر اپنی نفسیاتی تھیسس کو ثابت کرتا رہا چوںکہ مصوری، شاعری یا فکشن میں ہم اکثر دبی ہوئی خواہشوں کے فرار سے زیادہ فن کار کو ان کی جستجو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بڑی بڑی مثالیں دوستوئیفسکی، مارسل پروست اور راسین کی ہیں۔ مصوری اور آرٹ کے تعلق کا اعتراف مشہورِ زمانہ مصور Delacroix (دلاکغوا) نے اپنی ایک تصویر میں علامتی انداز میں کیا۔ اس تصویر میں خود دلاکغوا سقراط کے مجسّمے کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ یہ تصویر آپ کو افلاطون کے مکالموں پر مشتمل کتاب میں بہ آسانی مل جائے گی۔ بات کو طول دیے بغیر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آرٹسٹ بنیادی طور پر وہ شخص ہوتا ہے جو ماورائیت کا متوالا ہوتا ہے (اور جوں ہی ہم ماورائیت کی بات کرتے ہیں ہم فلسفے کے شعبے میں داخل ہو جاتے ہیں) اسی ماورائیت کے عشق میں کیا شاعر، کیا مصور دونوں اس حقیقت سے منہ پھیر لیتے ہیں جو ان کے خوابوں اور ان کے تصورات کو غارت کر دیتی ہے اور ان کے حسین خوابوں کو روند کر ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ اگر ہم F.H.Bradley کی کتاب Appearance and Reality تو ہماری ہمدردیاں فن کار کے سوا کسی اور کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتیں۔ شاعر مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جو اپنا خام مواد اپنے اطراف کی دنیا سے منتخب کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو یہ raw material بے ساختہ تخلیق کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ اب یہی دیکھیے کہ اطراف سے لیے ہوئے مواد سے گوئٹے نے ’’فائوسٹ‘‘ تخلیق کیا اور شیکسپیئر نے ’’ہیملٹ‘‘۔ بات در اصل یہ ہے کہ وہ شاعر جو اپنا خام مواد بے ساختہ یا اپنے تخیل اور وجدان کی مدد سے حاصل کرتا ہے، اس قسم کی شاعری میں سارا تاثر اظہار کی خوب صورتی میں مضمر ہوتا ہے۔ یہ شعرا لا شعور کی تاریک گہرائی میں ڈوب کر کسی آفاقی انسانی تصادم کو جو کسی بھی چیزسے ہوسکتا ہے، کسی چمکتے دمکتے موتی کی طرح لاشعور کی تاریک گہرائی سے نکالتا ہے۔ اور قاری اس تخلیق کو پڑھ کر بے ساختہ یہ کہہ اٹھتاہے کہ یہ میں ہوں جسے شاعر نے دیکھا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں یقینا حقیقت اور تخلیق کا سنگم پایا جاتاہے۔ اسی سلسلے میں ہم ہائیڈیگر کے شاعری پر خیالات بھی بیان کر سکتے ہیں مگر وہ اپنی طوالت کے سبب اس کالم کی تنگنائے میں نہیں سموئے جا سکتے۔ ہائیڈیگر کی نظر میں شاعرانہ تخیل ایسا تخیل نہیں ہوتا جس میں تصورات یا خیالات محض تصورات اور خیالات کی حد تک محدود ہوں بلکہ ان میں ایک اَن جانی اور اجنبی دنیا کی جھلک ہوتی ہے یا تصویر یعنی ہائیڈیگر بھی شاعری اور مصوری کے تعلق کا قائل ہے۔ اب آئیے اس کالم کا اختتام خود مشہور شاعروں کی آرا پر کرتے ہیں۔ روبرٹ کریلے کہتا ہے کہ جب کہ کم تر درجے کے شاعر اپنی نظموں کے عنوان ڈھونڈتے ہیں، اعلیٰ درجے کے شاعر اپنی نظموں کا رشتہ ان پینٹنگز سے جوڑتے ہیں جن سے الفاظ اور پینٹنگ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کینتھ پیچن کہتا ہے کہ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعری کے الفاظ میرے برش کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک نا معلوم مبصر کا قول ہے کہ ہمارے بہت سے شاعروں نے اچھی شاعری کرنا جب سیکھی، جب انھوں نے مصوروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ یہ اقوال پڑھنے کے بعد اور سارے کالم کا تجزیہ کرنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ شاعری اور مصوری میں ایک قریبی تعلق ہے۔ دور کیوں جائیے، میرؔ کا یہ شعر شاعری اور مصوری کے تعلق کو کس خوب صورت طریقے سے اجاگر کرتا ہے:
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے