Search This Blog

Wednesday, 25 July 2012

ختراعی صلاحیت جس نے مشتاق کو مزدور سے معروف بنا دیا

اختراعی صلاحیت
جس نے مشتاق کو مزدور سے معروف بنا دیا

کہتے ہیں ضرورت ایجادات کی ماں ہوتی ہے۔یہ قول بالکل صحیح ہے ،زندگی انسان کو کبھی کسی ایک ایسے موڈ پر لے آتی  ہے جہاں اس کی ضروریات تمام حدیں پار کرتی ہیں اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ذرخیز ذہن پر زور دیکر کچھ ایسا سوچتا ہے جس کے نتائج مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں ایک مثبت اور عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے اور اس طریقے وہ ایسی چیز ایجاد کرتا ہے جس کے ا ستعمال سے کروڑوں لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔جموں وکشمیر ریاست میں بھی ایسے ذرخیز ذہنوں کی کوئی کمی نہیں ہے جنہیں حالات اور ضروریات نے کچھ ایسی چیزیں ایجاد کرنے کی ترغیب دی جن کے بارے میں اکثر لوگ کبھی سوچ بھی نہیں  سکتے ۔گزشتہ کئی دہائیوں کے نا مساعد وحالات نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کر دیا اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورتحال میں تخلیقی ذہن رکھنے والے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ  سکے لیکن مشکلات اور مسائل کے باجود بھی وادی کے دور دراز علاقوںکے اختراعی ذہن رکھنے والے افراد نے ایسی چیزیں ایجاد کیں جن کی طرف انہیں مجبوریوں نے دھکیل دیا تھا۔جنوبی کشمیر کے ایک دور دراز علاقہ کریری ڈورو  کا مشتاق احمد مزدوری کا کام کرتا تھا جس دوران اسے اکثر بجلی کے کھمبوں اور درختوں پر چڑھنا پڑتا تھا ۔مشتاق سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کوئی ایسا آلہ موجود نہیں ہے جس کی مدد سے وہ آسانی سے کھمبے پر چڑ ھ سکے لیکن جب اسے جواب نفی میں ملا تو اُس نے خود ہی ایک ایسا آلہ بنانے کی ٹھان لی جس میں مسلسل کوششوں کے بعد وہ اس چھوٹے سے آلے جس کا نام اُس نے Pole Climberرکھا ،کو بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اُس کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ وہ کئی اور جہتوں کی طرف بھی دیکھنے لگا۔بعد میں اُس نے  اخروٹ توڑنے کی مشین بھی بنائی۔مشتاق احمد کی ان دونوں ایجادات کو بھارت کی ریاست گجرات کی ایک کمپنی نے ایک معاہدے کے تحت حاصل کر کے انہیں تیار کرنے اور بازار میں فروخت کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔مشتاق احمد نےنہ تو  کسی بڑی یونیورسٹی سے کوئی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے اور نہ ہی اُس نے کسی ایسے گھرانے میں جنم لیا جہاں اُسے صرف عیش و آرام موج مستی نصیب ہوتی۔مشتاق نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا اور بڑی مشکل سے آٹھویں جماعت تک اپنی تعلیم حاصل کی لیکن وہ ریاست کے ایک بہترین انویٹر کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اُس کی ایجادات کو لیکر کئی ملی نیشنل کمپنیاں مشتاق کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔1982میں کریری میں پیدا ہوئے مشتاق احمد نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن اپنے والد غلام نبی ڈار کی بے وقت موت مشتاق کے تعلیمی سفر میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر آگئی اور ابھی تک وہ رکاوٹ ختم نہیں ہوسکی۔مشتاق احمد کا کہنا ہے ’’اپنے والد کو کھونے کے بعد میں نے سب کچھ کھودیا،کسی نے مجھے تعلیم جاری رکھنے میں مدد نہیں کی حتیٰ کسی نے ہمت دلانے کے لئے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہیں کیا اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا جذباتی واقعہ ہے جسے میں شاید زندگی بھر کبھی بھول نہیں سکتا‘‘۔ایک طرف والد کی موت کی وجہ سے مشتاق اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکا وہیں دوسری طرف مجبوریوں نے اسے ایجادات کی دنیا میں پہنچا دیا ۔مشتاق کو اگر چہ جموں وکشمیر میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے لیکن وہ بلا شک مقامی اور قومی ا نگریزی اور اردو اخبارات کے علاوہ ٹیلی ویژن چینلوں کی توجہ اپنی جانب متوجہ کرانے میں کامیاب ہوا۔مشتاق کی انویشن کے بارے میں نہ صرف ہندستان بلکہ بیرون ممالک چین اور کوریا لوگوں نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ اگر مشتاق کو کسی ادارے کی طرف سے معاونت نہیں ملتی تو اُس کی انویشن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔یونیورسٹی سائنس انسٹرو منٹیشن سنٹر(یو ایس آئی سی)کشمیر یونیورسٹی،نیشنل انویشن فائونڈیشن احمد آبا د اور گیان سیل نے مشتاق کی ان ایجادات کو عملی شکل دینے اور اُسے بازار تک پہنچانے میں ہر ممکن تعاون فراہم کیا ہے ۔مشتاق کا کہنا ہے’’اگر این آئی ایف اور یو ایس آئی سی کشمیر یونیورسٹی نے مدد نہیں کی ہوتی تو میری ایجادات کی کمرشلائزینگ ممکن نہیں تھی‘‘۔یونیورسٹی سائنس انسٹرو منٹیشن سنٹر(یو ایس آئی سی)کشمیر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر غلام محی الدین بٹ کا کہنا ہے ان کا شعبہ نیشنل انویشن فائونڈیشن آف انڈیا کی معاونت سے اختراعی ذہن رکھنے والے افراد کی مدد کر کے اُن کی ایجادات کو کمپنیوں کے ذریعہ تیار کراتے ہیں ۔اب اختراعی ذہن رکھنے والے نئے لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور حال ہی میں جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے نصف درجن افراد کو راشٹر پتی بھاون دلی میں منعقدہ تقریب پر انہیں صدر جمہوریہ نے انعامات سے نوازا ۔جموں وکشمیر میں اگرچہ مقامی سطح پر ان ایجادات کو تیار کرنے کیلئے ابھی کوئی ایسی کمپنی موجود نہیں ہے تاہم بازار میں ایسی چیزوں کی مانگ کو دیکھ کرملی نیشنل کمپنیاں سامنے آرہی ہیں جبکہ یونیورسٹی کی کوششوں کی وجہ سے نئی نئی ایجادات بھی سامنے آنے لگی ہیں۔پروفیسر غلام محی الدین بٹ کے مطابق ’’ہم نے کئی کلابوریٹرس تعینات کئے ہیں جو گائوں گائوں جاکر اختراعی ذہن رکھنے والے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں ‘‘۔کسی نے سچ کہا ہے ’’ دماغ کوئی برتن نہیں جسے بھر دیا جائے بلکہ یہ ایک ایسی قندیل ہے جسے روشن رکھاجائے‘‘۔مشتاق احمد نے اپنے دماغ کو استعمال کر کے نہ صرف اس کو روشن کیا بلکہ ایک واضح پیغام بھی دیا کہ عدم توجہ کے شکار اختراعی ذہن رکھنے والے لوگوں کی طرف توجہ نہ دینا ایک بڑی غلطی ہوسکتی ہے۔  

No comments:

Post a Comment