رمضان کی حکمتیں اور آداب
ذکی الرحمن غازی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُعْطِیَتُ أُمَّتِی خَمَسُ خِصَالٍ لَمْ تُعْطَھَا أُمَّۃٌ مِنْ قَبْلِھِمْ: خَلُوْفُ فَمِ الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ المِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَھُمْ المَلاءِکۃُ حتٰی یُفْطِرُوْا، وَ ےُزَیّنُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کُلَّ یَوْمَ جَنَّتَہُ ثُمَّ یَقُوْلُ: یُوِشِکُ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ یُلْقُوا عَنْھُمُ المَؤُنَۃَ وَاَلْأَذَیٰ وَیَصِیْرُوْا اِلَیْکَ، وَتُصْفَدُ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْن فَلَا یَخَلُصُوْا اِلٰی مَا کَانُوْا یَخْلُصُوْنَ اِلَیْہِ فِیْ غَیْرِہٖ، وَیَغْفَرُ لَھُمْ فِی آخِرِ لِیْلَۃٍ، قِیْلَ: یَارَسُولَ اللّٰہ ھِیَ لَیْلَۃُ القَدْرِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنَّ العَامِلَ اِنَّمَا یُوْفّیٰ أَجْرُہُ اِذَا قَضٰی عَمَلَہُ (مسند احمد، ج۲،ص۲۹۲)ماہِ رمضان میں میری امت کو پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، اور یہ شرف کسی دوسری امت کو نصیب نہیں ہوا۔ روزے دار کے منہ کی بو(خلوف)اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ فرشتے افطارکے وقت تک روزہ داروں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کی آرایش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عنقریب میرے نیک بندے اپنی مشقتیں وتکالیف چھوڑکر تیرے پاس آنے والے ہیں۔ سرکش شیطانوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور وہ بقیہ ایام کی طرح اثرانداز نہیں ہوپاتے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ کی آخری شب تمام روزہ داروں کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ سوال کیا گیا :کیا وہ آخری رات شبِ قدر ہے؟ آپؐ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اس لیے کہ مزدور کو اس کی اُجرت کام ختم کرنے پر ملتی ہے۔
رمضان کے انعامات
اس حدیث کی روشنی میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
۱۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ رب العزت کو مشک کی خوشبو سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ منہ کی یہ بو معدے کے غذا سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور عامۃ الناس میں اس کو ناپسندیدہ بھی خیال کیاجاتا ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجود اللہ کی طاعت وعبادت سے ترکیب پاتا ہے۔ کوئی بھی بظاہر معیوب چیز اگر عبادت وطاعتِ الٰہی کے باعث وجود میں آتی ہے تواللہ کو محبوب ہوتی ہے۔ کثرتِ سجود کی وجہ سے پیشانی پر پڑ جانے والے سیاہ نشان کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہے، ایک آنسو کا وہ قطرہ جو اللہ کی خشیت سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں بہے۔ اور دو نشانوں میں سے ایک وہ نشان جو جہاد کے لیے جانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ دوسرا وہ نشان جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادایگی کی وجہ سے [جسم] پر پڑ جائے‘‘ (ترمذی:۱۶۶۹مع تحسین البانیؒ ۔کتاب الجہاد،ابن ابی عاصمؒ :۱۰۸)۔ روزِ قیامت شہداے اسلام کا خونِ شہادت سے شرابور میدانِ حشر میں آنے کا بیان کہ’’اس کے زخم سے خون رِس رہا ہوگا، اس کا رنگ خون کا ہوگا لیکن خوشبو مشک جیسی ہوگی‘‘ (بخاری، ۵۵۳۳، مسلم،۴۹۷۰)۔ نیز عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا غبارآلود وپراگندہ حال حجاجِ کرام کو دیکھ کر ملائکہ کے سامنے اظہارِ فخر کرنا کہ ’’دیکھو میرے ان بندوں کو جو بکھرے بالوں اور غبارآلود قدموں کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں‘‘۔ (مسند احمد،۷۰۸۹، ابنِ حبان،۱۸۸۷، ۳۸۵۲)۔ یہ سب اسی اصول کی توضیحی مثالیں ہیں۔
۲۔ ملائکہ کے محوِ استغفار رہنے کا مطلب ہے کہ چونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے معزز ومکرم اور ہرطرح کی سرتابی وعصیان سے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے روزے داروں کے حق میں ان کی دعاے استغفار قبولیت کالازمی قرینہ ہے۔ مزید یہ کہ ملائکہ کا صائمین کے لیے استغفار پر مقرر کیا جانا روزے داروں کی بلندیِ درجات کی دلیل ہے۔ مغفرت کے معنی ہوتے ہیں دنیا وآخرت میں گناہوں کی پردہ پوشی۔ تمام بنی آدم چونکہ تھوڑے بہت خطاکار ضرور ہوتے ہیں، اس لیے سترِذنوب سے کسی متنفس کو استغناء نہیں ہو سکتا۔
۳۔ اللہ رب العزت کا روزانہ جنت کی آرایش کرنا اس لیے ہوتاہے کہ صالح نفوس میں اس جنت میں رسائی کا جذبہ ورغبت پیدا ہو۔ مشقتوں وتکالیف سے مراد دنیا کی مصائب و تکالیف اور مشاغل ومصروفیات ہیں، اور ان کے ترک سے مراد ایسے اعمالِ صالحہ کی طرف متوجہ ہوجانا ہے جو دنیا وآخرت کی سعادت کے ضامن اور دائمی عزت وسلامتی کے کفیل ہوتے ہیں۔
۴۔ شیاطین کو بیڑیاں پہنانے سے مراد یہ ہے کہ اس ماہ میں اللہ کی طرف سے خیر کی توفیق اور اس پر اعانت وتائید عام ہوجاتی ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ صالحین کی حیات ومعمولات میں نمایاں طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
۵۔ اس ماہ کی آخری شب میں تمام روزہ داروں کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ دوسری روایت میں تمام اُمتِ محمدیہؐ کی مغفرت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس مہینے کی آخری رات میں اُمت محمدیہؐ کی مغفرت فرماتا ہے‘‘۔(اخبار مکۃ، الفاکہیؒ ، ۱۵۷۵،سنن بیہقی،۱۱۸۷)۔ دونوں احادیث کے الفاظ کی تطبیق سے مترشح ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان میں امتِ محمدیہؐ کا مکمل وجود صائمین کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور یہ غیر متصور ہے کہ کوئی شخص اس ماہ میں اسلام کا دعوے دار بھی ہو اور روزہ دار نہ ہو۔
بندگانِ خدا کی عمومی مغفرت کا یہ انعامِ خداوندی تین طرح سے ہوتا ہے۔ اولاً: اللہ رب العزت نے اس ماہِ مبارک میں ایسے اعمالِ صالحہ مشروع فرمائے جو بندگانِ خدا کی مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنتے ہیں۔ ثانیاً:عملِ صالح کی توفیق دینا خالصتاً اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت واختیار میں ہے، جس کی نوازش بذاتِ خود ایک بڑا احسان ہے۔ ثالثاً:نیک عمل پر کثیر اجر سے نوازنا، بایں طور کہ ایک نیکی ۱۰سے لے کر ۷۰۰گنا یا اس سے بھی زیادہ شمار کی جائے، صرف اور صرف فضلِ رحمن ورحیم ہے۔
۶۔جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابجولاں کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری، ۱۸۹۹، مسلم، ۱۰۷۹)
۷۔ایمان، اخلاص اور بہ نیتِ اجر و ثواب روزے رکھنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپؐ کاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۱، مسلم،۱۷۵)
۸۔ ایمان، اخلاص اور بہ نیتِ اجر و ثواب عبادت و قیامِ لیل کرنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپؐکاارشاد ہے:’’جس نے رمضان میں ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۳۷، مسلم،۱۷۴)
۹۔ اس ماہ میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (القدر۹۷:۱) یا لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ (الدخان۴۴:۳) کے نام سے موسوم کی گئی۔ شبِ قدر کی فضیلت کی تفصیل میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔چنانچہ اس رات کا حصول اور اس میں عملِ صالح کی توفیق پا لینا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپؐکا ارشاد ہے: ’’جس نے شبِ قدرمیں ایمان اوراجر وثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۱، مسلم،۱۷۵)
۱۰۔رمضان میں صدقہ کرنا افضل ترین ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں:’’اللہ کے رسولؐ لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض تھے۔ اور آپؐ کی سخاوت اس وقت اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی جب آپؐ رمضان میں حضرت جبریل ؑ سے ملاقات فرماتے تھے۔ آ پؐ کا رمضان میں معمول ہوتا تھا کہ آپؐ روزانہ جبریل ؑ کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے۔ ان ایام میں آپؐ کی جود و سخا وت، بارش لانے والی ہواؤں کو مات دیتی تھی‘‘ (بخاری،۶، مسلم،۵۰)۔ دوسری روایت میں ہے کہ ’’اس دوران آپؐ سے کچھ بھی مانگا جاتا، آپؐانکار نہ فرماتے‘‘۔ (مسند احمد،ج۱،ص ۲۳۱)
۱۱۔ اس ماہ میں ایک عمرہ کاثواب حج کے برابر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:’’رمضان کا عمرہ، حج کے برابر ہے‘‘۔ (بخاری،۱۷۸۲)۔ دوسری روایت میں اسے حج کے مانند بتایا گیا ہے جو خود آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ادا کیا گیا ہو۔ (ابوداؤد،۱۹۹۰)
صومِ رمضان کی خصوصیات و امتیازات
۱۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کو تمام سابقہ امتوں پر فرض رکھا ہے۔ ارشادِ باری ہے:یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔
یہاں تین چیزیں قابلِ غور ہیں:
ا۔ آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اعزاز و تکریم کی بات ہے، لیکن ساتھ ساتھ ا س طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ایمان کی صفت سے متصف ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ دیے گئے حکم کو خوش دلی سے قبول کیا جائے اور حتی الامکان اس پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔
ب۔ ’’روزہ سابقہ تمام امتوں پر بھی فرض تھا ‘‘بتانے سے اہلِ ایمان کی دل داری اور ان کو ترغیب دینا مقصود ہے۔ مشہور مفسرحضرت عبدالرحمن سعدی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس جملے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ روزہ اُن دینی اوامر میں سے ہے جو ابتداے آفرینش سے ہی خلقِ خدا کی اصلاح وتربیت کے لیے ناگزیر رہے ہیں۔ نیز اس کے ذریعے اُمتِ مسلمہ میں دیگر امتوں کے بالمقابل نیک کاموں میں جذبۂ مسابقت کواُبھارا گیا ہے۔ مزید اس بات کا اشارہ ہے کہ فریضۂ صیام کی مشقت مخصوص تم پر ہی نہیں ڈالی گئی ہے‘‘۔ (تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المناّن، ص ۲۲۰)
ج۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کے معنی لحاظ کرنے کے ہیں۔ اس کے مفہوم میں طاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابواور شبہات سے بچنا شامل ہے۔ مختصرالفاظ میں، اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کا حصول تقویٰ کی روح ہے۔
۲۔روزہ گناہوں کے کفارے اور کوتاہیوں کی مغفرت کا کارگر وسیلہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:’’پانچوں نمازیں، جمعہ(کی نماز) دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک درمیان میں (واقع ہونے والے گناہوں) کا کفارہ کرتے ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے‘‘ (مسلم، ۵۷۴)۔ مزیدآپؐ کاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘ (بخاری،۱۹۰۱۔ مسلم،۱۷۵) ۔ ایمان واحتساب کا مطلب ہے کہ اللہ پر ایمان رکھا جائے اور روزوں کی فرضیت پر رضامندی کا اظہارہو، بایں طور کہ فریضۂ صیام کودل سے ناپسند نہ کیا جائے اور نہ اس پرموعود اجروثواب کے تئیں ہی کسی قسم کیشک میں مبتلا ہوا جائے۔
۳۔روزے کا اجر وثواب کسی مخصوص تعداد کے ساتھ مقید نہیں، بلکہ اس پر بے حد وحساب اجر کا وعدہ ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آدم زاد کا ہر عمل اس کے لیے ہے سواے روزے کے، کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ روزہ ایک ڈھال ہے، جب تمھارے روزے کا دن ہو تو لازم ہے کہ تم گالم گلوچ اور شور شرابہ کرنے سے اجتناب کرو۔ اب اگر کوئی گالی دینے یا جھگڑا کرنے پر شدت سے اُکسائے توکہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزے دار کے لیے دو فرحتوں کا حصول طے ہے: ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو اسے فرحت حاصل ہوتی ہے، دوسرے جب وہ اپنے رب کے حضور باریاب ہوگا تواسے روزے کی فرحت محسوس ہوگی‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۴، مسلم،۲۷۶۰)
یہاں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
ا۔روزے کو اللہ رب العزت نے اپنی ذات سے مخصوص کارِ ثواب بتایا جوروزے کی فضیلت پر دلیل ہے، کیونکہ اسلامی عبادات میں روزہ تنہا ایسی عبادت ہے جو صرف بندے اور رب کے مابین انجام پاتی ہے اورکسی تیسرے واسطے یا وسیلے کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ اس اختصاص کا فائدہ بقول حضرت سفیان بن عیینہؒ یہ ہے کہ روزِ قیامت جب بندے کا محاسبہ ہوگااور گناہوں کی پاداش میں اس کے نیک اعمال سلب ہوچکیں گے، تو بالآخر اللہ تعالیٰ روزے کا اجر اپنے ذمے لے کر سارے گناہوں کی مغفرت فرمادیں گے اور روزے ہی کے سبب بندے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوجائے گا۔
ب۔اللہ تعالیٰ نے روزے کی جزا کو اپنی ذات سے منسوب کیا ہے جو عزت وکرامت کی بات ہے۔ دیگر صالح اعمال کی جزاوثواب میں کمیت کا اعتبار کیا گیا ہے اگرچہ وہ ایک نیکی کے بدلے ۱۰یا ۷۰۰یا اس سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہو۔ لیکن روزے اور صبر کو اس کلیے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ صبر کی تین اقسام ہوتی ہیں:اولاً:طاعات کی ادایگی پر صبر کرنا۔ ثانیاً:محرمات ومنہیات سے اجتناب پر صبر کرنا۔ ثالثاً:عسر ویسر، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی اقدار پر صبر کرنا۔ روزے میں صبر کی یہ تینوں قسمیں بہ تمام وکمال پائی جاتی ہیں۔ ارشادِ باری ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ (الزمر۳۹: ۱۰)’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
ج۔روزہ ڈھال ہے جو روزے دار کو لغویات وفواحش کے حملوں سے محفوظ ومامون رکھتی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’روزہ ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ نارِ دوزخ سے بچتا ہے‘‘۔ (مسند احمد، ۱۵۲۹۹)
د۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں۔ پہلی طیباتِ دنیا: کھانا، پینا اور مناکحت کے مباح ہونے سے، اور دوسری روزِ محشر میں صائمین کے داخلے کے لیے مخصوص باب الریان سے جنت میں داخل ہوتے ہوئے۔ (بخاری،۱۸۹۷، مسلم،۲۴۱۸)
ھ۔حدیث میں اشارہ ہے کہ کسی کے برانگیختہ کیے جانے پر اسے بتا دے کہ میری طرف سے جوابی ردِ عمل نہ ہوناکمزوری یا خوف کی بنا پر نہیں، بلکہ صرف روزے کے احترام ووقار کی وجہ سے ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّءَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ oوَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o(حم السجدہ ۴۱:۳۴۔۳۵)’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جوبڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔
۴۔روزہ قیامت کے دن روزے داروں کی شفاعت کرے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو غذا اور خواہشاتِ نفس سے دور رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات میں سونے سے باز رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا:تب ان دونوں کی شفاعت مان لی جائے گی‘‘۔ (مسند احمد، ۶۶۲۶، مستدرک حاکم،۲۰۳۶)
روزے کی حکمتیں
۱۔ روزے کی اولین و اعلیٰ ترین حکمت یہ ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذریعے اپنے ایمان کی سچائی، عبودیت کا کمال اور محبتِ الٰہی کی پاسداری کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ بھی یہی ہے کہ حکمِ الٰہی کے تحت جائز طیبات سے منہ موڑ لینا اور جن چیزوں کی محبت فطرتِ انسانی میں پیوستہ رکھی گئی ہے ان کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھنا، بندگی کی معراج اور کمالِ عبودیت ہے۔
۲۔تقویٰ کا حصول بھی روزے کی مشروعیت کا اہم سبب ہے۔ ارشادِ باری ہے:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کے معنی لحاظ کرنے کے ہیں۔ اس کے مفہوم میں طاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابواور شبہات سے بچنا شامل ہے۔ مختصراً ،اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کا حصول تقویٰ کی روح ہے۔ اسی لیے روزے دار کو تلقین کی گئی ہے کہ کسی بھی ردِعمل سے پہلے سوچ لے کہ وہ روزے دار ہے۔
۳۔روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے قلبِ انسانی کا رجحان ذکرِ الٰہی اور آیاتِ باری تعالیٰ میں تفکر وتدبر کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’آدم زاد نے سب سے بُرا جو برتن بھرا، وہ اس کا پیٹ ہے۔ ابنِ آدم کے لیے چند ایسے چھوٹے لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور اگر ناگزیر ہی ہے تو پھر(پیٹ کا) تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو اور تہائی حصہ پینے کے لیے اور تہائی حصہ سانس لینے کے لیے‘‘ (مسند احمد،۱۷۲۲۵، ابن ماجہ، ۳۳۴۹)۔ مشہور تابعی حضرت ابو سلیمان دارانیؒ فرماتے ہیں: ’’نفس اگر بھوک پیاس میں مبتلا ہو تو دل میں رقت و خشیت پیدا ہوجاتی ہے، اور اگر شکم سیری وآسودگی ہوجائے تو قلبی بصیرت جاتی رہتی ہے۔ ‘‘
۴۔روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس حکمِ شرعی کی بجاآوری کے نتیجے میں اللہ کے دولت مند بندوں کو مال کی نعمت کا کماحقہ احساس وادراک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دلوں میں شکروسپاس کا داعیہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی اہلِ ثروت وغنا کو اپنے مفلس وتنگ دست دینی بھائیوں کی زبوں حالی کس مپرسی سے بھی آگاہی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس ماہِ مبارک میں بالخصوص مسلم معاشرے کا عمومی مزاج ہمدردی وغم گساری کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولؐ کی جود وسخاوت اس ماہ میں ابربردار ہواؤں کو مات دیتی تھی۔
۵۔روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس فریضۂ خداوندی کی تعمیل کے نتیجے میں انسان کو نفس پر کامل ضبط اور بے مہار خواہشات وجذبات پر قابو حاصل ہوجاتا ہے۔ جہاں حال یہ ہوکہ نفس امارہ مسلسل برائی پر اکسارہا ہے اور شیطان کا عمل دخل انسانی شریانوں میں خون کی مانند جاری وساری ہے(بخاری،۲۰۳۸، مسلم،۸۵۰۷) ،اگر خوش نصیبی اور فضلِ خداوندی سے کچھ ایام کی بھوک پیاس کے بدلے میں ایسا وسیلہ ہاتھ آجائے جس کی بدولت نفسِ امارہ اور شیطانِ لعین کو مغلوب کیا جا سکتا ہے، تو یہ سودا کسی طور پر بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو سکتا۔
۶۔روزے کی حکمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے نفسِ انسانی کا کبر وغرور پاش پاش ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اعترافِ حق اور تواضع جیسی صفاتِ حمیدہ لے لیتی ہیں۔ دراصل روزہ جن چیزوں (اکل، شرب، مناکحت)سے امتناع کا نام ہے، اگر غور کیا جائے تو عام انسانی تگ ودو اور جہد وجستجوکا مطمح ومقصود انھی چیزوں کاحصول ہوتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ کوشش وکاوش کے بعد ان کی حصولیابی نفسِ انسانی میں ایک قسم کی تعلّی واستکبار پیدا کر دیتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے بسااوقات عصیان وسرکشی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ روزے کا اصل وظیفہ یہی ہے کہ وہ نفسِ انسانی سے مباح طیبات کی محبت کو بھی کم یا ختم کر دیتا ہے۔
۷۔روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس پر مداومت کی وجہ سے بھوک پیاس کے باعث انسانی جسم میں خون کی شریانیں سکڑ کر تنگ ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں جسمِ انسانی میں شیطان کا عمل دخل کمزور ہوجاتا ہے۔ صحیحین میں اللہ کے رسولؐ سے مروی ہے کہ شیطان انسان کے اندر خون کے بہاؤ کی مانند موجود رہتا ہے (بخاری،۲۰۳۸، مسلم،۸۵۰۷)۔ چنانچہ روزے کی وجہ سے شیطانی وساوس اور شہوات وغضب کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے مناسب عمر میں مختلف مالی وخانگی اعذار کے باعث شادی نہ کر سکنے والے نوجوانوں کو روزے کا التزام کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی کی وجہ سے نگاہیں نیچی اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ البتہ جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ روزوں کا التزام کرے کیونکہ روزہ شہوتِ نکاح کوکاٹ دیتا ہے‘‘۔ (بخاری،۵۰۶۵، مسلم، ۳۴۶۴)
۸۔روزے کی حکمتوں میں سے وہ طبی فوائد اور صحت وتندرستی سے متعلق منفعتیں بھی ہیں جو ضمناً فریضۂ صوم کی ادایگی کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ غذا کی مقدار کوحدِ اعتدال پر لانا، معدے کی قوتِ ہاضمہ کو ایک متعینہ مدت کے لیے آرام دینا، بعض مضرت رساں فضلات اور نقصان دہ رطوبتوں کو جسم میں سرایت ہونے سے روک دینا وغیرہ ،اسی حکمت کے ضمن میں آتے ہیں۔
روزے کے واجب آداب
۞ نمازوں کی باجماعت ادایگی کا اھتمام: رمضان میں پنج وقتہ فرض نمازوں کوان کے ارکان و شرائط اور واجبات و مستحبات کے ساتھ عام مساجد میں باجماعت ادا کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ روزے کا اہم ترین مقصد تقویٰ کا اولین اظہار بھی نمازوں کی پابندی ومحافظت میں پنہاں ہے۔ نمازوں کو ضائع کرنا یا باجماعت نماز کی ادایگی میں لاپروائی برتنا تقویٰ کے منافی اور موجبِ عقوبت ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا oاِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْءًاo(مریم ۱۹:۵۹۔۶۰)’’پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کرلیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہوگی‘‘۔ علاوہ ازیں نمازِ خوف (النساء۴: ۱۰۲)کی مشروعیت خو د اس امرپر دال ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام ختم نہیں کیا جاسکتا۔ عہدِ صحابہؓ میں جماعت کی نماز کے ترک کو منافقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’ہماری راے تھی کہ جماعت سے اختلاف وہی منافق کر سکتا ہے جس کا نفاق مشہور و معروف ہو‘‘۔ (مسلم،۱۵۲۰)
۞ قولی وفعلی محرمات سے کامل اجتناب: روزے کے تعلق سے درج ذیل محرمات پر سخت نکیر وارد ہوئی ہے:
۞ کذب بیانی ودروغ گوئی: رسولؐ اللہ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص جھوٹ بولنے، اس کو پھیلانے اور جہالت کی باتوں کو ترک نہیں کرتا تو(وہ جان لے کہ)اللہ رب العزت کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ(اُس کی خاطر)اپنے کھانے پینے کو ترک کرے‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۳)
۞ غیبت: غیبت کا مطلب ہے کسی کی غیر موجودگی میں اس کا اس انداز میں تذکرہ کیا جائے کہ اگر اسے معلوم ہوتو ناگوار گزرے۔ یہ ناپسندیدہ تبصرہ خواہ جسمانی عیوب پر کیا جائے، مثلاً اندھا، بہرا، یک چشم وغیرہ کہا جائے یا اخلاقی ومعنوی عیوب پر کیا جائے، مثلاً احمق، فاسق، پاگل وغیرہ کہا جائے، غیبت شمار ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ذکر کردہ عیب زیرِ بحث شخص میں پایا ہی جائے۔ اللہ کے رسولؐ سے غیبت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا:’’غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو کہ وہ اسے ناپسند کرے۔ آپؐ سے کہا گیا کہ اگر وہ بات فی الواقع اس شخص میں موجود ہو؟آپؐ نے فرمایا:یہ غیبت تب ہی ہے، جب کہ تمھارا قول اس کے بارے میں سچا ہو، بصورتِ دیگر تم نے اس پر بہتان باندھنے کا گناہ کیا ہے‘‘ (مسلم،۶۷۵۸)۔ قرآن کریم میں اس گناہ پرجس انداز میں نکیر کی گئی ہے وہ اپنے آپ میں سلیم الفطرت نفوس کے لیے درسِ عبرت وموعظت کا حامل ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o(الحجرات۴۹: ۱۲)’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟دیکھو تم خوداس سے گھن کھاتے ہو، اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے ‘‘۔
۞ چغل خوری: عربی میں نمیمہ کا مطلب ہے شخص ’الف‘ نے شخص ’ب‘ کے بارے میں جو تبصرہ کیا تھا کوئی سُننے والا جا کراُسے شخص ’ب‘ کے گوش گزار کر دے۔ یہ مکروہ عمل کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیونکہ یہ چیز افراد ومعاشرے میں فساد پھیلانے کے مترادف اورتفریق بین المسلمین کا سبب بنتی ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ oہَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِیْمٍ (القلم، ۶۸:۱۰۔۱۱)’’ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔ ‘‘اللہ کے رسولؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’چغلیاں لگانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔(بخاری، ۶۰۵۶، مسلم،۳۰۳)
۞ دہوکا دہی کرنا: روزے دار کو چاہیے کہ اپنے جملہ تجارتی واخلاقی معاملات میں دھوکا دہی جیسے کبیرہ گناہ سے مکمل طور پر گریز کرے۔ غش یا دھوکا دہی کا وجود تجارتی امور، مثلاً بیع وشراء، اجارہ وصناعت اور رہن ومداینت میں بھی ہوتا ہے اور انفرادی واجتماعی امور میں پیش کیے جانے والے مشوروں اور ہدایات ونصائح میں بھی۔ اس کبیرہ گناہ کے عام ہونے سے معاشرے میں باہمی تعاون واعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور بندگانِ خدا کے رزق سے برکتیں اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس مذموم طریقے سے حاصل کی ہوئی کوئی بھی کمائی حرام اور رحمتِ ربانی سے دور کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص بھی غش وفریب دہی کرے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔ (مسلم،۲۹۵)
۞ آلاتِ لہو و لعب سے شغل کرنا: موسیقی کے جملہ وسائل وآلات بذاتِ خود تو حرام ہیں ہی ،لیکن ان کی حرمت اس وقت اور سنگینی ونحوست اختیار کر لیتی ہے جب ان کے ساتھ ہیجان انگیز وخوشنما آوازوں کے نغمات کو بھی شامل کر لیا جائے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُواً اُولٰٓءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ(لقمٰن ۳۱:۶)’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑادے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور عکرمہؒ ، سعید بن جبیرؒ ، مجاہدؒ ، حسن بصریؒ وغیرہ اعلام صحابہؓ وتابعین نے آیتِ بالا میں مذکور’’ لہو الحدیث ‘‘سے مراد غناوموسیقی ہی کو لیا ہے (ابنِ کثیر، ج۶، ص ۳۳۰۔۳۳۱)۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میری امت میں ایسے لوگ رونما ہوں گے جو زنا، ریشمی لباس، شراب نوشی اور آلاتِ غنا کو حلال کرلیں گے‘‘(بخاری، ۵۵۹۰)۔آج ہمارے معاشرے کی صورت حال یہی ہو گئی ہے۔ غنا وموسیقی کا وہ طوفانِ بدتمیزی ہرآن وہر جہت جاری ہے کہ خاصے اہلِ علم حضرات بھی اس کی حرمت وشناعت سے واقفیت کے باوجود اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ واللّٰہ المستعان۔
روزے کے مستحب آداب
۱۔ رات کے آخری پھر سحری کہانا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں حدِ فاصل سحری تناول کرنا ہے‘‘۔(مسلم،۲۶۰۴، نسائی،۲۱۶۶)۔آپ نے سحری میں کھجور تناول کرنے کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے: ’’مومن کی بہترین سحری کھجور ہے‘‘۔ (ابوداؤد،۲۳۴۷)۔سحری کی برکت کے حصول کی خاطر سحری ضرور کھائی جائے اگرچہ مقدار بے حد کم ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’سحری برکت ہی برکت ہے، لہٰذا اسے ترک نہ کرو اگر چہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ پیا جائے۔ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ سحری کھانے والوں پر سلام ودرود بھیجتے ہیں‘‘ (مسند احمد،۱۱۱۰۱)۔ سحری کھانے میں حکمِ رسولؐ کی اتباع کا جذبہ رکھنا چاہیے نہ کہ روزے کے لیے حصولِ قوت وطاقت کا۔ سحری کھانے میں حتی الامکان تاخیر کرنی چاہیے۔ سحری اس وقت تک کھائی جا سکتی ہے جب تک کہ طلوعِ فجر کا براہِ راست اُفق میں مشاہدہ ہوجائے یا کسی قابلِ اعتماد وسیلہ، مثلاً اذان یا سائرن وغیرہ سے اعلان ہوجائے۔ سحری کے بعد دل میں روزے کی نیت کر لینی چاہیے، زبان سے روزے کی نیت کرنا شریعت میں ثابت نہیں۔
۲۔ افطار میں جلدی کرنا: غروبِ آفتاب کا علم براہِ راست مشاہدے سے یا کسی قابلِ اعتماد ذریعے (اذان، اعلان)سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’میرے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں‘‘ (مسند احمد، ۷۲۴۰، ترمذی، ۷۰۰)۔ افطار میں سنت یہ ہے کہ تازہ کھجوریں استعمال کی جائیں، وہ میسر نہ ہوں تو سوکھی کھجوریں استعمال کی جائیں، اور اگر وہ بھی دستیاب نہ ہوں تو پانی سے روزہ افطار کیا جائے‘‘ (مسند احمد،۱۲۶۹۸،ابوداؤد،۲۳۵۸، ترمذی:۶۹۶)۔اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ مل سکیں تو کسی بھی حلال قابلِ اکل شے سے روزہ افطار کیا جاسکتاہے۔
۳۔افطار کے وقت دعا کا اہتمام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’روزے دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی‘‘ (ابن ماجہ، ۱۷۵۳)۔ روزے دار کو چاہیے کہ افطار کے وقت اپنے لیے، اہلِ خانہ کے لیے اور تمام امتِ مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کرے۔
۴۔ کثرت سے تلاوتِ قرآن، اذکارِ مسنونہ اور خیرات کا اہتمام: اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن، مسنون اذکار واوراد، مأثور دعاؤں، مسنون نمازوں اور خیرات وصدقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ نے پوچھا:تم میں سے آج کون روزے دار ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے پھر پوچھا: تم میں سے کون آج کسی جنازے کے ساتھ چلا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں نے ایسا کیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا:تم میں سے آج کسی نے مسکین کو کھانا کھلایا؟حضرت ابوبکرؓ نے پھر فرمایا:میں نے ایسا کیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا:تم میں سے کسی نے آج کسی مریض کی عیادت کی ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: میں نے ایسا کیا ہے اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا:یہ صفات کسی انسان میں جمع نہیں ہوتیں مگر اسی لیے کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے‘‘ (مسلم،۲۴۲۱)۔ واضح رہے کہ روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ،۱۷۵۲)
۵۔روزے کی توفیق ملنے پر شکرگزاری: روزے کی ادایگی کی توفیق پانے پر اللہ رب العزت کے احسانات و انعامات کا استحضار کرنا اور اس کے نتیجے میں شکرگزاری وکسر نفسی کا اظہار و اقرار کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میں نے(خواب میں) اپنی امت کے ایک فرد کو دیکھا کہ وہ مارے پیاس کے ہانپ رہا ہے اور جب بھی وہ کسی حوض کے پاس جاتا ہے اس کو روک کر کھدیڑ دیا جاتا ہے۔ تب رمضان کے روزے آتے ہیں اور اس کو پلاکر سیراب کرتے ہیں‘‘۔ (طبرانی،۱۲۵۶۳)
_______________
مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ سے وابستہ ہیں
No comments:
Post a Comment