امن کا مہینہ رمضان المبارک
- محمد آصف اقبال
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر کام، اس کے لیے ہے، مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن فحش بات نہ کرے، شور نہ کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی لڑے تو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی مہک اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: جب افطار کرتا ہے تو افطار پر خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہوگا‘‘ (الفتح الربانی: ترتیب مسند احمد)۔ حدیث نبویؐ کی روشنی میں رمضان کے مہینہ کی فضیلت، روزہ کی اہمیت اور اس کے فوائد، اللہ سے قربت اور اس کے مخصوص حکم کی بجاآوری کے نتیجہ میں رب العالمین کی تجلی اور اس سے حاصل ہونے والی لا محدود خوشی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان کے لیے روزہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ اس کی فلاح، ترقی اور ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ روزہ کے دوران اس کی شخصیت خود اس کے لیے اور عالم انسانیت کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنتی ہے وہیں اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر انسان کا ارتقاء رک جاتا ہے، وہ ترقی نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اللہ کا قرب حاصل کر پاتا ہے۔ حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ جب تم روزہ کی حالت میں ہو اور کوئی تم سے بد کلامی کے ساتھ پیش آئے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ میں روزہ سے ہوں۔ روزہ سے ہوں یعنی اس حالت میں نہیں ہوں کہ تم سے تمہارے اس غلط رویہ کا غلط انداز سے جائز بدلہ لوں بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم روزہ جیسی مخصوص عبادت میں خلل نہ ڈالو۔ میرا تعلق اس وقت راست اللہ سے منسلک ہے اور میں دوران ِعبادت اس تعلق کو منقطع نہیں کرنا چاہتا۔ روزہ دن بھر کی عبادت: ہم جانتے ہیں کہ جب بندہ نماز میں اللہ کے سامنے ظاہری و باطنی طور پر تعلق استوار کر لیتا ہے تو دورانِ نماز وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا، اللہ کی جانب رخ کرنے کے بعد اِدھر اُدھر نہیں دیکھتا، اگر کوئی بدکلامی کرنے یا لڑنے جھگڑنے پر آجائے تو بحالت نماز اس سے پرہیز کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح روزہ کی حالت میں بھی بندہ عبادت میں ہوتا ہے، اللہ سے اس کا تعلق استوار ہو چکا ہوتا ہے، لہٰذا روزہ کی حالت میں وہ لڑائی جھگڑے، بدکلامی وغیرہ سے پرہیز کرتا ہے اور اپنی عبادت میں خلل ڈالنے والوں سے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میں روزہ سے ہوں یا میں روزہ دار ہوں۔ سلامتی ہو تم پر اور اللہ تعالی تم کو ہدایت عطا فرمائے۔ اگر ایک مرتبہ ایسا کرنے پر وہ اپنے رویہ سے گریز نہیں کرتا تو اس کو دوبارہ متوجہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روزے کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ نفسانی شہوت سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کر دینا نہیں، بلکہ دوسرے گناہوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھی بچانا ہے۔ حدیث میں روزے کے ڈھال ہونے کا بیان ہے اور کہا گیا کہ جب تم روزے سے ہو تو فحش بات نہ کرو اور شور و شغب نہ کرو۔ پھر جب تم کو پرہیز کرنے کی عادت ہو جائے گی تو یہی تمہاری ڈھال ہوگی جو تمہاری حفاظت کرے گی ہر اس برائی سے جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ منع کرتا ہے۔ رمضان کے عشروں کی حقیقت: رمضان کے مہینہ کو اللہ رب العزت نے تین عشروں میں تقسیم کیا ہے۔ اور ہر عشرہ (دس دن) کی خاص فضیلت رکھی ہے۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا عذاب جہنم سے نجات کا ہے۔ پہلے عشرہ کی ابتدا ہی سے اللہ رب العالمین کی بے انتہا رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ جس کا ظاہری مشاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والا ہر عام و خاص بندہ اللہ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کو اس مشینی دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور انسان مادّی ترقی کے لیے جنونی حد تک سرگرم عمل ہے، اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس بھنور سے نکل کر نیکی کے موسمِ بہار میں عبادت کی جانب راغب ہو، نیکی کے کام انجام دے، روزے داروں کا روزہ کھلوائے، برائیوں اور معصیت کے کاموں سے پرہیز کرے، غریبوں، مسکینوں، حاجتمندوںکی مدد کرے، بے انتہا فیاضی کا مظاہرہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں سمیٹتا چلا جائے۔ اس طرح جب وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا اور اللہ کی عبادت کو شعوری طور پر انجام دینے والا بن جائے گا تو نہ صرف رحمت بلکہ اس کی مغفرت بھی کی جائے گی۔ صراط مستقیم پر خود چلنے اور معاشرہ میں لوگوں کو تعاون کرنے کے نتیجہ میں جو معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے اس کا لازمی تقاضہ ہے کہ ایسے افراد کو جہنم سے بچا لیا جائے۔ مزید اس آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی، آئندہ اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے طریقہ پر استوار کرنے کا عہد، قرآنِ حکیم کا مطالعہ، یہ سب مل کر اس کے لیے نجات کا سامان بہم پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے مہینہ کے اختتام پر اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خار دار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقویٰ ہے اور اس ہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوی دوا ہے جس کے اندر خدا ترسی و راست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشو و نما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کر سکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج (ثواب) اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہو کر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رتجگے کے سوا اور کچھ نہیں پا سکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنٰی ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں‘‘ (متفق علیہ)۔ عبادات کی حکمت: اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں ان میں حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پر خصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندے کی کامیابی اور سعادت دارین کا موجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ خلوصِ نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کا بنیادی محرک رضائے الٰہی نہ ہو تو اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتا بلکہ عبادات میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔ آخری بات یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہیں۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں، بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات و فوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پر اس کا براہ راست مثبت اثر ہوتا ہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساںہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی امی ؐ کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور بندشیں کھولتا ہے، جن میں جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف:۷:۱۵۷)۔
رمضان کا پیغام: معلوم ہوا کہ یہ مہینہ ہدایت حاصل کرنے اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کا ہے۔ اس ماہ مبارک میں معاشرہ میں ایک ایسی فضاء قائم ہو جاتی ہے جس میں ہر طرف بندے سکون و عافیت اور محبت و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور بدکلامی سے گریز کرتے ہیں، آپس میں ملتے جلتے اور روزہ داروں کے افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی نہ صرف تلاوت کرتے ہیں بلکہ اس کا شعوری طور پر مطالع کرتے ہیں۔ قرآنی احکامات کو اپنی زندگی میں رائج کرتے ہیں اور تقویٰ کی صفت سے ہمکنار ہونے کی مکمل سعی و جہد کرتے ہیں۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں لے آتے ہیں جو اسلامی معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ برادرانِ وطن کے لیے بھی یہ پیغام پیش کرتا ہے کہ اگر اسلام کے مطابق زندگی کو ڈھال لیا جائے تو یہ سکون و عافیت کی فضاء جو چہار جانب محسوس کی جارہی ہے وہ آئندہ دنوں میں بھی برقرار رہ سکتی ہے بشرطیکہ جس طرح رمضان میں شب و روز گزارے ہیں اسی طرح سال کے گیارہ مہینوں میں بھی ان پر عمل کیا جاتا رہے۔
|
No comments:
Post a Comment