مصر: اخوان ایوانِ صدارت میں
عبدالغفار عزیز
کہنے کو تو یہ ایک لفظ تھا لیکن مصر میں یہ ایک مکمل پیغام اور ایک قومی تحریک بن گیا۔ فُلُول، یعنی شکست خوردہ اور فاسد ٹولے کی باقیات۔ اس وقت مصر میں کسی شخص یا گروہ کے لیے فُلُول کا لیبل لگ جانے سے زیادہ معیوب اور باعثِ عار بات شاید کوئی نہ ہو۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس ایک لفظ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لَا لِلْفُلُول کا نعرہ اس قدر زباں زد عام ہوگیا کہ اگر کہیں صرف ’لا‘ ہی لکھا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ ڈکٹیٹر کی باقیات کو مسترد کیا جارہا ہے۔ ۲۴جون ۲۰۱۲ء کو مصری تاریخ کے پہلے حقیقی صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہورہا تھا تو ملک کے ہر شہر اور قصبے کی طرح قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے اور پورے میدان میں ایک بڑے بینر پر صرف ’لا‘ ہی پڑھا جارہا تھا۔ کئی جملوں پر لکھی پوری عبارت پڑھنے کا تکلف کیے بغیر ہی ’لا‘ پورا پیغام واضح کررہا تھا۔
مصری تاریخ میں یہ پہلے صدارتی انتخاب تھے کہ جس کے نتائج انتخاب سے پہلے ہی معلوم نہ تھے۔ مصر ہی نہیں اکثر عرب انتخابات میں حکمران ۹ء۹۹فی صدووٹ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے۔ عوامی انقلابات نے لوگوں کو پہلی بار اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا۔ یہ حقیقت ہر مخلص اور بے تعصب مسلمان کے لیے باعث طمانیت ہے کہ ان پہلے آزادانہ انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسلامی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
الاخوان المسلمون مصر کے اُمیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدر مملکت جیت، خطے میں دیگر تمام کامیابیوں کا تاج ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقیناًپورے مشرق وسطیٰ میں مصر کی مرکزی حیثیت ہے۔ مصر میں فی الحال تمام تر اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ اخوان کے صدارتی اُمیدوار کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اندرون ملک مخالفین سے زیادہ مصر کے تمام بیرونی دشمن بے تاب تھے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۱۳اُمیدوار تھے۔ حسنی مبارک کا آخری وزیراعظم اور ۱۰سال تک اس کا وزیر ہوا بازی رہنے والا لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق وہ اکلوتا اُمیدوار تھا جس پر انتخابی مہم کے دوران ملک کے اکثر اضلاع میں عملاً جوتوں کی بارش ہوئی۔حتیٰ کہ وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن کے باہر بھی ’ پُرجوش ‘جوتا باری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُمیدواروں میں اگرچہ طویل عرصے تک حسنی مبارک کا وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل رہنے والا عمروموسیٰ بھی تھا۔ ایک سابق انٹیلی جنس چیف حسام خیر اللہ بھی تھا۔ ناصری ذہن کا سرخیل حمدِین صبَّاحی اور بائیں بازو کے کئی دیگر اُمیدوار بھی تھے، لیکن ۱۳اُمیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی نفرت کا سامنا جنرل شفیق ہی کو کرنا پڑا۔ اس سب کچھ کے باوجود جب پہلے مرحلے کے نتائج آئے تو جنرل صاحب سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرے مرحلے میں مقابلہ ان کے اور پہلے نمبر پر آنے والے اخوان کے اُمیدوار ڈاکٹر محمدمُرسی کے مابین ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ۵۰فی صد ووٹ حاصل کرنے کی شرط بھی نہیں ہے اور اگر فلول کا لیبل سجائے جنرل صاحب، ایک ووٹ بھی زیادہ لے گئے تو وہ مصر کے آیندہ صدر ہوں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق کا دوسرے نمبر پر آجانا، جہاں سب کے لیے باعث حیرت تھا وہیں مصر کے ازلی دشمن ’اسرائیل‘ کے لیے یہ اُمید کی اہم نوید تھی۔ اسرائیلی ذمہ داران حسنی مبارک کے دور کو اسرائیل کے لیے ’اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ احمد شفیق کا نام دوسرے مرحلے میں آگیا تو اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور حالیہ نائب وزیراعظم نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانے کی واپسی کی اُمیدیں جوان ہوگئی ہیں‘‘۔ سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف عاموس یادلین گویا ہوئے: ’’ سقوطِ مبارک کے بعد اسرائیل کے گردو نواح میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آسکتی تھی کہ ترکی یا ایران جیسی کسی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر مصر کوئی اسرائیل دشمن بلاک نہ تشکیل دے دے۔ احمد شفیق کی جیت کی صورت میں ایسا ہر امکا ن ختم کیا جاسکتاہے ‘‘ - اعلیٰ تعلیم کے اسرائیلی وزیر گدعون ساعر نے کہا: ’’مبارک نظام کے اہم رکن جنرل شفیق کی جیت سے عالمِ عرب کی اجتماعی سوچ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔اس جیت سے ان عرب حکومتوں کے خلاف عوامی انقلاب کی خواہش دم توڑ جائے گی کہ جن کا باقی رہنا ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ضامن ہے‘‘- سابق وزیر دفاع بنیامین الیعازر جو حسنی مبارک کے قریبی احباب میں شمار ہوتا تھا نے تبصرہ کیا: ’’شفیق کی جیت کا مطلب ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنا گیس سپلائی کا معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا۔ امریکا جنرل شفیق کو بآسانی قائل کرلے گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا تبصرہ تھا ’’مبارک کے بغیر مصر ہمارے لیے کسی ایٹمی خطرے سے بھی بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کم از کم چار بریگیڈ فوج مصری سرحدوں پر کھڑی کرنا پڑے گی۔ اب یہ خطرہ ٹلنے کی اُمید ہے‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں نے انقلاب مصر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں ۳۰؍ ارب ڈالر اضافے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ملک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
لبنان سے شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ الأمان نے اسرائیلی ذمہ داران کے درج بالا تبصروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان بیانات میں ’’اسرائیلی قومی سلامتی کے تحقیقاتی ادارے کے رکن جنرل (ر) رون ٹیرا کا یہ فرمان بھی شامل ہے کہ ’’مبارک دور نے اسرائیل کو مثالی اسٹرے ٹیجک شراکت عطا کی۔ اس شراکت داری کی بنیاد پر ہم ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء غزہ پر حملہ آور ہوسکے۔ اگر مصری انتخابات میں مبارک کے ساتھیوں کے بجاے کوئی،نیشنلسٹ، اسلامسٹ، حتیٰ کہ کوئی لبرل شخص بھی برسر اقتدار آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ عرب ملکوں پر حملے کی اسرائیلی صلاحیت انتہائی کمزور ہوجائے گی‘‘۔
ان تمام بیانات اور تبصروں کے مطالعے کے بعد اب اندازہ لگائیے کہ جنرل شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے ہوں گے۔ غریب اور اَن پڑھ ووٹروں کے ووٹ خریدنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خزانوں کے منہ کھل گئے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اخبارات نے اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کی شدید ترین یلغار کردی۔ اخوان کی طرف سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ جنرل شفیق کے حق میں فوج، پولیس اور مختلف ایجنسیوں کے تقریباً ۱۵لاکھ ان افراد کے ووٹ بھی ڈلوائے گئے جنھیں ووٹ کا حق نہیں تھا۔
اخوان سے ان کی جیت چھیننے کے لیے جو دیگر ناپاک ، مہیب اور خطر ناک اقدامات اٹھائے گئے ان میں ایک سرفہرست اقدام یہ تھا کہ پولنگ سے صرف ڈیڑھ دن پہلے، یعنی ۱۴جون کی شام، چند ماہ پہلے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا ہر سیاسی کارکن اور ووٹر کو پیغام دیا گیا کہ اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہمیں جس آخری حد تک بھی جانا پڑا، ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹ ضائع نہ کرو، اخوان کواقتدار میں آنے کی اجازت کسی صورت نہ ملے گی۔ اسی دوران میں ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گذشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے سنے جانے والے مقدمے کا فیصلہ اچانک ۲جون کو سنادیا گیا۔ ۳۰سال سے سیاہ و سفید کے مالک حکمران کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس مرحلے پر فیصلہ سنانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ حسنی مبارک کے خلاف پائی جانے والی گہری عوامی نفرت کو تسکین پہنچاتے ہوئے ،اسے فوجی کونسل اور اس کے نمایندہ سمجھے جانے والے صدارتی اُمیدوار کے حق میں ہموار کیا جائے۔
صرف قرآن کریم کا فرمان ہی ازلی و ابدی سچی حقیقت ہے کہ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵:۴۳ ) ’’حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ یہ تمام حکومتی چالیں بھی چلنے والوں کی گردن کا پھندا بن گئیں۔ اگر ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل جنرل شفیق کے بجاے کوئی بھی اور اُمیدوار ہوتا،تو عوام کی اتنی اکثریت کبھی اخوان کے اُمیدوار کے گرد اکٹھی نہ ہوپاتی۔ جنرل شفیق کو سامنے دیکھ کر ابوالفتوح جیسے مضبوط اُمیدوار کو بھی مجبوراً اور علانیہ طور پر ڈاکٹر مرسی کی حمایت کرنا پڑی اور بڑی تعداد میں حمدین صباحی کے ووٹرز بھی ان کے ساتھ آگئے۔ اگرچہ خود حمدین نے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عملاً جنرل شفیق کو فائدہ پہنچایا۔ اس دوران ایک دل چسپ اشتہار سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اخوان کے اُمیدوار کی جہازی سائز تصویر تھی اور اس پر لکھا تھا:أنا مش اخوان، ہأدعم دکتور مرسی، ’’میں اخوانی نہیں لیکن میں ڈاکٹرمرسی کو ووٹ دوں گا‘‘۔ اسی طرح حسنی مبارک کو سزا دینے کا ’اعزاز‘ بھی عوام کی نظر میں عبوری حکومت کا جرم ٹھیرا۔ فیصلہ سنتے ہی وسیع و عریض کمرۂ عدالت میں بیٹھے سیکڑوں وکلا اور شہداء کے ورثا نے نعرہ لگایا: الشعب یرید تغییر القضاء، عوام عدلیہ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور پھر ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع ہوگئے کہ سیکڑوں افراد کے قاتل حسنی مبارک کوبا سہولت عمر قیدنہیں، پھانسی دو۔
رہا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو اگرچہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا لیکن اس نے بھی عوام کو مایوس کرنے اور اخوان کا ساتھ چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے کے بجاے انھیں اس بات پر یکسو کردیا کہ اگر عوامی فیصلے کی حفاظت کرنا ہے تو باقیات کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا پورا فیصلہ ہی مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ قومی اسمبلی یعنی ’مجلس الشعب‘ کے انتخاب کے لیے ضابطہ کار، عسکری کونسل اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے طے پایا تھا۔ اس متفق علیہ ضابطے کے مطابق ۴۹۸سیٹوں پر مشتمل ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو تہائی سیٹیں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے رکھی گئیں اور ایک تہائی براہِ راست انفرادی اُمیدواروں کے لیے۔ ووٹنگ تین مرحلوں میں ہوئی، ہر مرحلے کے دو اَدوار تھے۔ اس طرح کاغذات نامزدگی داخل کروانے، انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ مکمل ہونے کا عمل کئی ماہ جاری رہا۔ پھر ارکان اسمبلی کی باقاعدہ حلف برداری ہوئی اور دستور سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ لیکن اچانک دستوری عدالت میں ایک اعتراض داخل کیا گیا، کہ انفرادی نشستوں پر اُمیدواروں نے پارٹیوں کی طرف سے نہیں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا تھا۔ اور پھر پولنگ سے عین ڈیڑھ دن قبل،۳/۱ارکان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے نومنتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان ہی دستوری عدالت کے سربراہ بھی ہیں۔ بالفرض اگر کچھ ارکان کا انتخاب واقعی خلاف ضابطہ تھا، تب بھی صرف ان ارکان کا انتخاب دوبارہ کروایا جاسکتا تھا۔ کروڑوں عوام کے ووٹ، اربوں روپے کے اخراجات اور پوری قوم کے کئی ماہ، یعنی کروڑوں گھنٹے صرف کرکے منتخب ہونے والی پہلی حقیقی اسمبلی تحلیل کرنے کا جواز بدنیتی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ساری بحث صرف قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے بارے میں تھی، لیکن بات پوری پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھیلائی جاتی رہی حالانکہ ۲۷۰؍ارکان پر مشتمل، عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی مجلس شوریٰ (یعنی سینٹ) جوں کی توں موجود، بحال اور فعال ہے اور اس میں بھی اکثریت اخوان اور حزب النور ہی کی ہے۔
اخوان نے اس نازک موقع پر انتہائی صبر و حکمت کا ثبوت دیا۔ ’پارلیمنٹ‘ تحلیل کردینے کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ ممکن تھا کہ لوگ فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجائیں۔ فوج انھیں کچلنے کے لیے قوت استعمال کرے اورپھر ان فسادات کی آڑ میں صدارتی انتخاب کا پورا عمل ہی لپیٹ دیا جائے۔ اخوان نے دستوری عدالت کا فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے ایک اصولی اعلان کیا کہ اس وقت کسی دستوری شق میں کسی بھی فرد یا ادارے کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہماری ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہنی چاہیے۔ لوگ میدان تحریر کی طرف ملین مارچ کرنے کے بجاے، پولنگ سٹیشنوں کی طرف لانگ مارچ کریں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔ پھر جیسے ہی ووٹنگ کا عمل تکمیل کو پہنچا اور پورے ملک کے پولنگ سٹیشنوں سے نتائج کی سرکاری دستاویزات جاری ہوگئیں، تو میدان التحریر سمیت ملک کے کونے کونے میں بڑے مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہم اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔
گنتی کے پہلے روز ہی نتائج واضح ہوگئے تھے، متعدد بار جیل جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی تقریباً ۱۰لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ایک کروڑ ۳۲لاکھ ۳۰ہزار ایک سو ۳۱ووٹ (۷۳ء۵۱)لے کر جیت گئے تھے۔ لیکن اچانک جنرل شفیق نے دعویٰ شروع کردیا کہ وہ ۵۲فی صد ووٹ لے کر جیتے ہیں اور اصل نتیجہ سرکاری نتیجہ ہو گا۔ سرکاری نتائج ۲۱جون کو آنا تھے، لیکن عین آخری لمحے چیف الیکشن کمشنرنے عذر پیش کیا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹوں پر اعتراضات سامنے آگئے ہیں،اور ان اعتراضات کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔ ’’فلول‘‘ کے دعوے اور سرکاری نتائج میں تاخیر سے عوام پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ الجزائر کے انتخابات یاد آنے لگے اور انقلاب کے ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دینے لگے، تو عوام مزید جوش و جذبے سے میدان التحریر میں جمع ہونے لگے۔ ۱۸جون سے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ۲۴جون کی شام تک نتائج کے انتظار نے، شرکا کی تعداد بلامبالغہ کئی ملین تک پہنچا دی۔
بالآخرڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا،اور مصر ہی میں نہیں، پورے خطے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ میدان التحریر میں نعروں کے ساتھ ہی ساتھ شرکا نے عید کی تکبیرات شروع کردیں۔ اللّٰہ اکبر ۔۔اللّٰہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر..... ان کا کہنا تھا کہ یہ عید الدیمقراطیۃ ، ’’عید جمہوریت ہے‘‘۔خوشی کے ان تمام جذبات سے اہم بات یہ ہے کہ ان شرکا نے اپنا یہ دھرنا تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے کہ جب تک نومنتخب اسمبلی بحال کرنے اور فوجی کونسل کے بلاحدود اختیارات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے اسی ہنگامے میں، فوجی عبوری کونسل کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی نے ایک ’ضمنی دستوری اعلان‘ جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے اکثر اختیارات یا تو خود حاصل کرلیے ہیں یا انھیں فوجی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔اس اعلان کے مطابق فوجی عبوری کونسل کو اسمبلی کی عدم موجودگی میں مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔کونسل کو ہرطرح کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے فوجی افسروں کے تقرر و ترقی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔اسمبلی کی منتخب کردہ دستور ساز کمیٹی کے بجاے نئی کمیٹی مقرر کرنے اور اس کی سفارشات آجانے کے ۱۵روز کے اندر اندر ان پر عوامی ریفرنڈم کرواتے ہوئے ملک کا نیادستور بنا دینے کے لیے روڈمیپ دے دیا گیا ہے۔بندوق کے زور پر بننے والے عبوری کونسل کے سربراہ کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر مملکت کے برابر حقوق و اختیاردیتے ہوئے،کسی بھی دستوری شق پر اعتراض کرنے اور اسے واپس پارلیمنٹ بھجوانے کا حق دے دیا گیا ہے ۔ اور پارلیمنٹ کے اصرار کرنے کی صورت میں اس شق کو دستوری عدالت کو بھجوانے کا حکم جاری کیا گیاہے۔
اس وقت میدانوں میں بیٹھے لاکھوں عوام اس دستوری اعلان کی منسوخی اور اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر فوجی کونسل ملک کو پھر سے تباہی کے گڑھے میں پھینک دینے پر مصر نہ ہوئی، تو اسے بالآخر عوام کے مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ عوام کے لیے قوت واعتماد کا اصل سہارا رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ا سی ذات نے ڈاکٹر مرسی کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچادیا ہے۔نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقع پر کہے جانے والے یہ الفاظ متعدد بار دہرائے: ’’لوگو مجھے تمھارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو‘‘ ۔انھوں نے قومی اوربین الاقوامی امور پر دوٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہا :’’ میں کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں پوری مصری قوم کا نمایندہ ہوں، تم سب میرے لیے برابر ہو۔میرے حامی ،میرے مخالف،مسلم ،مسیحی، سب میرے لیے یکساں ہیں۔
ڈاکٹر مرسی کی پوری تحریک کا شعار تھا: النہضۃ ارادۃ الشعب، نہضت عوام کا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی لکھا تھا: مصر کی تعمیرو ترقی،اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔واضح رہے کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اور عالمی یونی ورسٹیوں سے انجینیرنگ میں ڈاکٹریٹ بھی کی ہوئی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ ہم سب سے برابری اور انصاف کی بنیاد پر باہمی تعلقات مستحکم کریں گے۔ قومی مفادات کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔ پھر دوٹوک انداز میں کہا: ’’ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ، لیکن کسی کو بھی اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔ انھوں نے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا:’’ میرے عزیز ہم وطنو! میں تمھارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا‘‘۔تقریر ختم ہونے کے چند منٹ بعد صدر محمد مرسی کے بیٹے عبد اللہ محمد مرسی نے فیس بُک پر پیغام لکھتے ہوئے کہا : ’’ بابا! یقیناًہم صرف اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے، اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریں گے‘‘۔
جب بیٹا بھی باپ اور صدر مملکت کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے مشروط کر دے، توپھر رب ذوالجلال کی رحمتیں اورنصرت بھی یقیناًشامل حال ہوتی ہیں ۔ وہی تو ہے جو اقتدار دیتا اورچھینتا ہے ، عزت دیتا یا ذلت کے گڑھوں میں پھینک دیتا ہے ( قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ اٰلِ عمران۳:۲۶)
No comments:
Post a Comment