برما میں خون کی ہولی
Anaiza Ch
میرے قلم اٹھانے کا مقصد کسی ذات پہ تنقید نہیں، کسی مذہب پر تذکرہ یا کسی کلچر کو فروغ دینا نہیں بلکہ میں مخاطب ہوں اپنی قوم کے ان تمام افراد سے جو مسلمان ہیں اور جس کے عوض ان پہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں حق کیلئے لڑنے کی ذمہ داری، باطل کے مخالف کھڑے ہونے کی ذمہ داری، زیادتی کے خلاف احتجاج کی ذمہ داری، مظلوم کے لئے آواز اٹھانے کی ذمہ داری ، ظالم کے جبر کو مات دینے کی ذمہ داری۔
میں مخاطب ہوں ان تمام مسلمانوں سے جن کا عقیدہ اسلام ہے جو صاحبِ ایمان ہیں جوخوف خدارکھتے ہیں جن کے دلوں میں رحم ہے ان کے سامنے میرا مقصد ‘اس سوال کو اٹھانا ہے جس کی شدت سے میرا جسم لرز جاتا ہے جو میرے ذہن میں ابھرتے ہی میرے جگر کو چیر جاتا ہے جو میرے سینے میں کسی آبلے کی طرح دکھ رہا ہے جس کا درد مجھے اس بات پہ اکساتا ہے کہ میں آواز اٹھاؤں اس خون کی ہولی کے خلاف جو برما کے مسلمانوں کے ساتھ کھیلی جارہی ہے۔ جن کا مسلمان ہونا ہی ان کے لئے جرم ٹھہرا۔تاریخ گواہ ہے ایسے بے شمار عظیم مسلمانوں کے خون کی جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کو سینچا اور بلند رکھا۔ ایسے تمام عناصراور ناپاک قوتیں جو اسلام اور اس سے جڑے مسلمانوں کے خون سے کھیلنے کی کوشش کرتی ہیں وہ اپنے ناپاک مقاصد میں نہ آج تک کامیاب ہیں نہ تھیں اور نہ کبھی کل ہوں گی۔
برما(میانمر)جس کی کل آبادی پچہتر ملین ہے جس میں سے مسلم آبادی صرف اعشاریہ سات ملین ہے۔ برما (میانمر) میں بدھ ازم کی اکثریت ہے۔ زیادہ تر آبادی رکھائین، شان مون اورکیرن وغیرہ کی ہے۔ برما مسلمانوں کے آباؤاجداد زیادہ تر ترکی، ارب،فارسی،چین اور انڈیا سے تعلق رکھتے تھے جن سے برمامسلمانوں کی نسل کشی ہوئی۔ برما کا اکثریتی علاقہ ارکان ہے جسے1962 میں آرمی نے قبضے میں لے لیا تھا اور تب سے اب تک وہاں کے مسلمان مختلف مظالم کا شکار ہیں حتیٰ کے وہاں کے مسلمانوں کے فون استعمال کرنے پر بھی پابندی ہے برما میں مسلمانوں کے لئے لفظ’شہری’ استعمال کرنا وہاں کسی مزاح سے کم نہیں جس کاثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ وہاں کی نوبل انعام یافتہ” آنگ سا ن سو” کہتی ہیںکہ وہ برما کے مسلمانوںکو برما کا شہری تصورنہیںکرتیں۔ لندن سکول آف اکنامکس یوکے کے ایک دورے پہ انہوں نے بیان دیا کہ”رونگھیا مسلمان مستقل رہائشی تو مانے جاسکتے ہیں مگر شہری نہیں”۔
برما کے لبرل لوگوں کی رائے جب وہاں کے مسلمانوں کے لئے ایسی ہے تو پھر مجھے ا ور آپ کو یہ سوچنے اور اندازہ لگانے میں وقت نہیں لگے گا کہ وہاں کے عام لوگ پھر برما مسلمانوں کیلئے کیا ہی اچھی رائے رکھتے ہوں گے اور انہیں کیا ہی خوب عزت دیتے ہوں گے۔
صرف اتنانہیں برمامسلمانوں کے لئے برماحکومت نے وائٹ کارڈ جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کی حیثیت مہمان شہری کی ہو گی یہاں تک کہ شادی جو ہر انسان کابنیادی حق ہے جس کی اجازت دنیا کا ہر مذہب دیتا ہے اس کے لئے بھی برما مسلمانوں کیلئے انوکھی پابندی عائد ہے وہ شادی کرنے سے پہلے برما حکومت سے اجازت لیں۔ اس کے بغیر وہ شادی نہیں کر سکتے اور برما کی شاطر حکومت کے سامنے جب ایسی کوئی درخواست پیش کی جاتی ہے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کئی سال تک اسے منظور نہیں کیا جاتا۔ تاکہ مسلمانوں کی نسل کشی کو روکاجاسکے جس کے نتیجے میں برما مسلمانوں کی بیٹیاں ساری زندگی گھر ہی رہ جاتی ہیں اور ایسے وہ
جون2012ء سے شروع ہونے والی اس خون کی ہولی نے کئی بے گناہ مسلمانوں کوصفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے جن کی جانیں اتنی ہی قیمتی تھیںجتنی میری یا آپ کی۔3جون2012ء کو گیارہ معصوم مسلمان جو بس میں سوارہو کررونگھیا جا رہے تھے انہیں بس سے اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیسا قہر ہے یہ؟ کیا آپ کا دل نہیں کانپتا؟ ذرا سوچئے اور اندازہ لگائیے ان مسلمانوں کے احساسات کا جن کی معصوم اور نازک بیٹیوں کی عزت ان کے سامنے پامال کردی جاتی ہے جن مسلمانوں کی غیرت کو چند لمحوں میں پاؤں تلے روند ھ دیا جاتا ہے جن کے تن سے لباس نوچ لیا جاتا ہے جن کے سر سے چھت کھینچ لی جاتی ہے وہ سب ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ذمہ دار کون؟قصور وار کون؟خون کی ہولی کب تک؟ ہمارا خون کس کے سر ؟کیا مسلمان ہونا جر م ٹھہرا؟ ذرہ سوچئے یہ وہی انسان ہیں جس کے بارے میں ”علی ارشد گیلانی” کے ایک کلام میں کہتے ہیں کہ
چاک آنکھوں سے عجب خواب ِ پریشان دیکھا
گویا ہر شخص کو دست و گریباں دیکھا
میں نے تہذیب و تمدن کے گراں ملبے پر
رات ابلیس کو بحالت ِ خندان دیکھا
جس کے قدموں پہ فرشتوں نے جبیں رکھی تھی
بے کفن پڑا چوراہے میں وہ انساں دیکھا
میں نے شو رِ رودادِ ستم کیا تو بہ ت
شاہ جی جس کو بھی دیکھا انگشتِ بدنداں دیکھا
ارکان میں کئی ہفتوں سے ہر طرف آگ جلتی نظر آتی ہے مسلمانوں کو ان کے گھروں سمیت زندہ جلا دیا گیا ہے پانچ سو سے زائد مسلمان گاؤں جلا دئیے گئے ہیں ۔ برما کے مسلما ن نس بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ آکر پناہ لے رہے ہیںبنگلہ دیش میں دو لاکھ سے اور تھائی لینڈ میں ایک لاکھ سے زائد مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش، تھائی لینڈ نے مزید مسلمان مہاجرین کوپناہ دینے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے برما میں موجود مسلمان برما حکومت کاجبر سہنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں زندگی کی تمام بنیا د ی سہولتوں سے محروم کر دیا گیاہے اور ان سے ان کا علاقائی تشخص چھیننے کیلئے بھی کئی حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔میں چاہتی ہوں کہ ان کے سوالوں کاجواب دیا جائے یہ خاموشی جو پورے میڈیا پہ چھائی ہے اسے توڑا جائے ایسا میڈیا جو وینا ملک کی کسی بھی موومنٹ کوسنسنی خیز بنا کرپیش کرتا ہے جو راجیش کھنہ کی موت کو توسرخیوں میں لپیٹ کرنشرکرتا ہے مگر اس اہم موضوع پہ بات کرنا ان کیلئے اتنا غیر اہم کیوں ہوگیا ہے؟ یہاں میڈیا کہاں ہے؟ یہاں میڈیا اتنا سست کیوں ہو گیا ہے؟ حکمران کہاں ہیں ؟
پوری عالمی برادری امن کے سرپرست، انسانی حقوق کو ریپریزینٹ کرنے والی این جی اوز ، سچ کا پرچار کرنے والے وہ تمام بڑے اینکرز جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں وہ سب کہاں ہیں؟ وہ سب اتنے بے گناہ مسلمانوں کے قتل پہ خاموش کیوں ہیں ؟ اب پاکستانی میڈیا یہ سب سکرین پہ کیوں نہیں دکھا رہا؟ آخر یہ خاموشی کیوں؟ جبکہ مشرکوں نے مسلمانوں کے خون سے کھیلنے کو مشغلہ بنا رکھا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں میرے ملک کا میڈیا میرے لوگ کہاں مصروف ہیں؟ تمام اسلامی ممالک خاموش بنے تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں؟خدارا اٹھیے اور اس کے لیے عملی اقدام کیجئے وہاں کے مسلمانوں کو ہماری ضرورت ہے ان کی قوت بنئے۔ ان کے لئے آواز بلند کیجئے ان کے حق کیلئے بولئے اور کتنے مسلمانوں کویہ سب ہنا ہو گا۔ عراق، ایران، ، افغانستان، فلسطین، چیچنیا ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں مسلمانوں کے خون سے زمین کو سرخ کر دیا جاتا ہے اب کتنے اور مسلمانوں کو قربانی دینا ہو گی۔کیونکہ خدا تبارک وتعالیٰ کے نزدیک کسی ایک بے گناہ کی جان لینا پوری نوع انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ اس لئے آئیے اور اس پہ سوچئے اس پہ بات کیجئے اس کیلئے آواز اٹھائیے اور اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کیجئے۔ کل کو روز محشر میں اگر ہم سے سوال کر لیا گیا کہ ان معصوم مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہم نے اپنا کردار کہاں تک ادا کیا توخدانخواستہ ان معصوم جانوں کے قتل کے عوض ہم بھی قصور وار نا ٹھہرا دئیے جائیں ۔
No comments:
Post a Comment