برما…امت کا تصوراورگہراہوگیا
مظفر اعجاز
- دنیابھرمیں اگرکسی کے لیے کوئی قانون نہیں ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ بلکہ یوں کہاجائے کہ کسی کے خلاف سب متفق ہیں تو وہ مسلمان ہیں۔ برماکے صدر تھین سین نے کہاہے کہ اراکانی مسلمان برما کے شہری نہیں ملک چھوڑدیں۔ مسلمان مہاجر بستیوں میں پناہ لے کر ہی بچ سکتے ہیں۔ یہ سوال تو الگ اٹھا رکھیں کہ برمی صدرنے مسلمانوں کے بارے میں جو کہاہے وہ درست ہے کہ نہیں لیکن اس سے پہلے ذرابرما کے بارے میں کچھ معلومات تازہ کرلی جائیں تو بہترہوگا۔ شاید برمی صدر اس تاریخی حقیقت سے واقف نہیں ہوں گے۔(بلکہ ہوں گے) کہ برما میں 1055عیسوی میں برمی بادشاہت کے قیام سے پہلے بھی 9 ویں صدی میں مسلمان برمامیں موجود تھے۔ لہذا اس حقیقت سے توکوئی انکارنہیں کرسکتا کہ برمی بادشاہت سے قبل برما میں مسلمان آباد تھے۔ برما میں مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ تاریخی بنیادوں پر حل کیاجائے تو شاید بہت سے برمی حکمران مسلمانوں کے مقابلہ میں برماکی شہریت سے ہی خارج ہوجائیں ۔ خود برمی حکومت کی مردم شماری کے مطابق برمامیں 5 فیصد مسلمان ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے اورامریکی محکمہ خارجہ نے 2006ء میں اس مردم شماری کے نتائج کو غلط قراردیا تھا اور کہا تھا کہ برمامیں غیربودھوں کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہی مسلمانوں کا بھی دعویٰ ہے کہ برمامیں ہماری آبادی 20 فیصدکے قریب ہے۔ بس سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ برمی صدریہ کہنے والے کون ہیں کہ مسلمانوںکو صرف پناہ گزین کیمپوں میں پناہ مل سکتی ہے۔ اوربرمامیں ان کی حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں۔ اقوام متحدہ کامندوب یہ سن کر خاموش کیوں رہا ‘اس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی‘ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اور انسانی حقوق کے قوانین کے تحت بھی کسی بھی ملک کی سرزمین پربسے ہوئے لوگوں کی زندگی جان ومال کا تحفظ اس حکومت کی ذمہ داری ہے ‘اگرچہ وہ اس ملک کے شہری نہ ہوں۔ اقوام متحدہ کے مندوب نے اگر برما کی فوجی حکومت کے 1974ء کے قانون کو تسلیم کرلیاہے کہ برمی روہنگیا مسلمان برماکے شہری نہیں ہیں تو پھرسوال پیدا ہوتاہے کہ اقوام متحدہ نے برماکی سابق فوجی حکومتوں کے کون کون سے قوانین کو تسلیم کیاہے۔ کوئی امریکی برما میں مقیم ہو اور اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو اس پر جو وہ حملہ آورہوں تو کیا برمی حکومت یہی کہے گی کہ چونکہ یہ برما کے شہری نہیں اس لیے ان کی جان کا تحفظ ہمارے ذمہ نہیں ہے۔ ظاہری بات ہے برمی حکومت اور امرکی حکمرانوں کی نوراکشتی کے باوجود یہ نہیں کہاجاسکتا۔ برمامیں مسلمانوں پر مظالم کا تعلق نہ تو فوجی حکمرانوں کے قانون سے ہے اورنہ روہنگیا اور ارکان مسلمانوں کے علیحدہ ریاست بنانے کی کوشش سے ہے۔ کہا یہ جاتاہے کہ مسلمان اراکان ریاست علیحدہ بناناچاہتے تھے اس لیے ان کے خلاف برمی بودھ مشتعل ہوجاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو 17 ویں صدی میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہواتھا۔ جب شاہجہاں کا بیٹا شاہ شجاع اورنگزیب سے شکست کھاکر برما فرارہواتھا۔ عدم تشدد کے پرچارک بودھ بادشاہ نے اس مفرورکی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اس سے پناہ کے عوض اس کی دولت اور بیٹی مانگ لی تھی۔ انکارپر اس بودھ بادشاہ نے ’’عدم تشدد‘‘ کے فلسفے پرعمل کرتے ہوئے شاہ شجاع کے تمام ساتھیوں کا قتل عام کرادیا۔ یہ 17 ویں صدی کا قتل عام آخری نہیں تھا اس وقت سے آج تک کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہتاہے۔ اور برمامیں جسے بودھ ریاست قراردیاجاتاہے عدم تشدد کا فلسفہ سرچڑھ کر بول رہاہے اور تازہ وارداتوں میں بھی عدم تشدد کے پرچارکونے 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہیدکردیا ہے اور 90 ہزار سے زائدبنگلہ دیش فرارہوچکے ہیں۔ اراکان برمی مشرقی بنگال سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان ہیں انہیں روہنگیا کہا جاتا ہے جہاں تک علیحدہ ریاست بنانے کی کوشش کے الزام کا تعلق ہے تو اس کی تاریخی حیثیت بھی یہی ہے کہ جس علاقے اراکان پرمشتمل علیحدہ مسلم ریاست بنانے کی کوشش کا الزام ہے یہ 1784ء میں آزاد ریاست تھی۔ اور اس علاقے میںمسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پھرایک آزاد ریاست کی تاریخی حیثیت کو بحال کرنا جرم کیسے ہوگیا۔ یہ توتاریخی طورپر اس خطے کے رہنے والوں کا حق ہے۔ لیکن جدید دنیا کے انسانی حقوق کے چیمپئنوں کے نزدیک مسلمانوں کے لیے یہ جرم ہے انڈونیشیا میں مشرقی تیموراورسوڈان کے جنوب میں عیسائی ریاست بنانا وہاں رہنے والوں کا حق ہے۔ کا اپنی ریاست کے لیے ووٹ دینا آپس کا معاملہ ہے اور فلسطین پریہودیوں کا قبضہ ان کا حق ہے۔ افغانستان سے روسیوں کے انخلا کے بعد اس جنگ میں حصہ لینے والے برمی مسلمانوں کی وطن واپسی پر بھی برمی فوجی حکمران خوفزدہ تھے چنانچہ انہوں نے حفاظت خود اختیاری کے تحت مسلمانوں کے خلاف پھرکریک ڈائون شروع کردیا۔ اصل بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔ کہ جن لوگوں کا تعلق امت سے ہے۔ ان کو کہیں پنپنے نہ دو۔ چونکہ علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد والی مسلم لیگ کی کانفرنس میں برمی مسلمان شریک ہوئے اوربرمی مسلم کانگریس قائم کی تھی۔ یہ امت کا ہی تصورتھا۔ اب برماکے مسلمانوں کے خلاف لایعنی الزامات کی بنیادپر جو مہم جاری ہے وہ صرف امت مسلمہ کا حصہ ہونے کی بناپر ہے۔ برماکے مسلمانوں کے خلاف اس قدرننگی جارحیت کے باوجود اقوام متحدہ او آئی سی اوردیگر اداروں کی محض رسمی کارروائی امت مسلمہ ہی کو دعوت دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور امت کے اس گرانقدرحصے کی مدد کے لیے نکل پڑے۔
|
No comments:
Post a Comment