Search This Blog

Monday 30 December 2013

اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین Islam daheshatgardi ya ek Misali deen

غلام نبی کشافیؔ
’’اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘؟

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
یہ عنوان ایک کتاب کا نام ہے جس کے مصنف کوئی عالم دین یا کوئی مسلم دانشور نہیں بلکہ ہندو اسکالر اور صوفی سنت جناب سوامی لکشمی شنکر اچاریہ ہیں۔ موصوف کی پیدائش ۱۹۵۳ء میں اُتر پردیش کے ضلع کانپور میں ایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد جناب سیتا رام ترپاٹھی اور والدہ محترمہ کوشلیا دیوی ٹیچر تھے۔ سوامی جی نے کانپور اور الٰہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ٹھیکیداری کے پیشہ سے جڑ گئے۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی انھوں نے مادیت کو چھوڑ کر روحانیت کی طرف رُخ کرلیا۔ اس درمیان اسلام کے خلاف کئے جارہے پروپگنڈے سے متاثر ہو کر سوامی جی نے ایک کتاب ’اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘ لکھی۔ ہندو حلقوں میں کتاب کی زبردست پذیرائی ملنے کے بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ The History of Islamic Terrorism کے نام سے ممبئی سے شائع ہوا۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا ہندی ایڈیشن لکھنو سے شائع ہوا تھا۔ لیکن بعد میں حق کا علم ہونے پر سوامی جی نے اس پہلی کتاب پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہندی زبان میں ایک اور کتاب ’’اسلام آتنک یا آدرش‘‘لکھی جو لکھنو سے شائع ہوئی اور اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘ کے نام سے بھی لکھنو سے شائع ہوا ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں میرے ایڈرس پر بھی اس کتاب کی ایک کاپی موصول ہوئی ہے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۱۰۴ ہے۔ مجھے یہ کتاب موضوع و مضمون کے اعتبا رسے اس قدر پسند آئی کہ میں نے اسے ایک ہی نشست میں پڑھ لیا۔ یہ کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور اسلامی جہاد کی حقیقت سمجھنے کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کا پسِ منظر اور اس کے لکھنے کے وجوہات اور محرکات کے بارے میں مصنف کتاب جناب سوامی لکشمن شنکر اچاریہ ایک جگہ ’جب میںحق سے آشنا ہوا‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’کئی سال قبل میں نے ’’دینک جاگرن‘‘ (ہندی اخبار) میں جناب بلراج مدھوک کا مضمون ’’فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ پڑھا تھا، اس مضمون میں ہند و مسلم فسادات ہونے کے اسباب قرآن مجید میں کافروں سے لڑنے کے لیے اللہ کے فرمان بتائے گئے تھے۔ مضمون میں قرآنِ مجید کی آیتیں بھی درج کی گئی تھیں۔
اس کے بعد دہلی سے شائع کردہ ایک پمفلٹ (پرچہ) ’’قرآن کی چوبیس آیتیں‘‘ جو دیگر مذاہب کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتی ہیں کسی شخص نے مجھے دیا۔ اسے پڑھنے کے بعد میرے دل میں طلب پیدا ہوئی کہ میں قرآن پڑھوں۔ اسلامی کتابوں کی دکان سے قرآن کا ہندی ترجمہ مجھے ملا۔ قرآن مجید کے اس ہندی ترجمہ میں وہ سبھی آیتیں ملیں جو پمفلٹ میں درج تھیں اس لیے میرے دل میں یہ غلط تصور قائم ہوا کہ تاریخ میں ہندوراجاؤں او رمسلم بادشاہوں کے درمیان جنگ میں ہوئی مار کاٹ اور آج کے فرقہ وارانہ فسادات، دہشت گردی کا سبب اسلام ہے۔ دماغ میں غلط فہمی بیٹھ چکی تھی۔ اس لیے ہر دہشت گردانہ واقعہ مجھ کو اسلام سے وابستہ دکھائی دینے لگا۔
اسلام، تاریخ اور آج کے واقعات کو جوڑتے ہوئے میں نے ایک کتاب لکھ ڈالی، اسلامی دہشت گردی کی تاریخ، جس کا انگریزی ترجمہ The History of Islamic Terrorism کے نام سے سُدرشن پرکاشن، سیتا کنج، لبرٹی گارڈن، روڈ نمبر ۳، ملاڈ (مغرب) ممبئی ۴۰۰۰۶۴ سے شائع ہوا۔
حال ہی میں میں نے اسلام دھرم کے عالموں کے بیانات کو پڑھا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام تو محبت،خیر سگالی اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔ کسی بے گناہ کو قتل کرنا اسلام دھرم کے منافی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتوے بھی جاری ہوئے۔
اس کے بعد میں نے قرآنِ مجید میں جہاد کے متعلق وارد آیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مسلم علماء سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ قرآن مجید کی آیتیں اس وقت کے مختلف حالات کے تناظر میں نازل ہوئیں۔ اس لیے قرآن مجید کے صرف ترجمے ہی کو نہ دیکھ کر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کون سی آیت کس حالت اور سیاق میں اتری۔ تبھی اس کا صحیح مفہوم اور مقصد کا پتا چل پائے گا۔
ساتھ ہی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا گیا تھا۔ اس لیے قرآن کو صحیح معنی میں جاننے کے لیے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
مسلم علماء نے مجھ سے کہا کہ اسلام کے متعلق صحیح معلومات نہ ہونے کے سبب لوگ قرآن مجید کی مقدس آیتوں کا مطلب سمجھ نہیں پاتے۔ اگر آپ نے پورے قرآن مجید کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔
مسلم علماء کے مشوروں کے مطابق میں نے سب سے پہلے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا مطالعہ کیا۔ سیرت کی اس کتاب (جیونی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصنف محمد عنایت اللہ سبحانی مترجم نسیم غازی فلاحی) کامطالعہ کرنے کے بعد اس نظریئے سے جب خلوص نیت کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ از اول تا آخر کیا تو قرآن مجید کی آیتوں کا صحیح مطلب اور مقصد میری سمجھ میں آنے لگا۔
حق کے واضح ہونے کے بعد اپنی بھول کا احساس ہوا کہ میں لاعلمی کے سبب غلط فہمی کا شکار تھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنی مندرجہ بالا کتاب ’’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ‘‘ میں دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا ہے جس کا مجھے بے حد افسوس اور دلی قلق ہے۔میں اللہ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اور سبھی مسلمان بھائیوں سے علی الاعلان اجتماعی طور پر معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں لکھے بولے ہوئے الفاظ کو واپس لیتا ہوں، عوام سے میری اپیل ہے کہ ’’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ‘‘ (The History of Islamic Terrorism) نامی میری کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسے صفر سمجھیں‘‘۔ (ص: ۹تا۱۱)
علمی اور اخلاقی دنیا میں سب سے بڑا اور سخت مرحلہ وہ ہوتا ہے جب آدمی کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اصل میں یہ صاحب عزیمت لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ میں نے اس طرح کے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اپنی غلطی مان کر معافی مانگیں۔ سوامی جی نے اس سلسلہ میں ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔
کتاب کے صفحہ ۷ پر ’’چند اسلامی اصطلاحات‘‘ کے عنوان کے تحت ’’ایمان، اہل کتاب، کافر، رسول، نبی اور جہاد کے لغوی اور اصطلاحی معانی بتائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ’’کافر‘‘ کی وضاحت سوامی جی اس طرح فرماتے ہیں۔
’’کافر، کفر کرنے والا یعنی انکار کرنے والا، سچائی کو چھپانے وال، ناشکرا، وہ لوگ جو ان سچائیوں کو ماننے اور قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جن کی تعلیم خدا کے پیغمبر نے دی ہے۔ ’کافر‘ لفظ لغوی اعتبار سے اسم صفت ہے، یہ ہتک آمیز لفظ نہیں ہے۔ قرآن میں جہاں بھی خدا اور اس کی تعلیمات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والوں کے لیے ’کافر‘ لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اس کامقصد گالی، نفرت اور تذلیل نہیں، بلکہ ان کے انکار کرنے کے سبب اظہار حقیقت کے لیے ایسا کہا گیا ہے، کافر، لفظ ہندو کا مترادف بھی نہیں جیسا کہ غلط پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کافر، لفظ کا تقریباً ہم معنی ’ناستک‘ ہے اسلام کی نگاہ میں کسی شخص کے بھی اس انکار کے سبب نہ تو اسے اس دنیا میں کوئی سزا دی جاسکتی ہے اور نہ کسی انسانی حق سے اسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ وہ دنیاوی معاملات میں مساوی حقوق رکھتا ہے۔
ہر دھرم میں اُس دھرم کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے لیے الگ الگ مخصوص الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہند دھرم میں ان لوگوں کے لیے ناستک، اناریہ، اسبھیہ، دسیو اور ملیچھ الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ جو ہندو دھرم کے پیرو نہ ہوں‘‘۔
اور اسی طرح جہاد کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’جہاد، انتھک جد وجہد کرنا، مقصد کے حصول کے لیے پوری طاقت لگادینا، جنگ کے لیے قرآن میں ’’قتال‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاد کا مفہوم قتال کے معنی میں کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ جو شخص سچائی کے فروغ کے لیے اپنے مال، اپنے قلم، اپنی زبان وغیرہ سے کوشش میں مصروف ہو اور اس کے لیے خود کو تھکاتا ہو، وہ جہاد ہی کررہا ہے۔ سچائی کے لیے جنگ بھی کرنی پڑسکتی ہے اور اس کے لیے جانوں کو قربان بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی جہاد کا ایک حصہ ہے۔ جہاد کو اس وقت اسلامی جہاد کہا جائے گا جبکہ وہ خدا کے لیے ہو اور خدا کی ہدایت کے موافق ہو، نہ کہ مال و دولت کے حصول کے لیے‘‘۔ (ص: ۷،۸)۔
آگے پھر ایک عنوان ایک ’’منصوبہ بند سازش‘‘ کے تحت ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ ہندوستان سمیت دنیا میں اگر کہیں بھی دھماکہ ہوا یا کسی فرد یا افراد کا قتل ہوا اور اس حادثے میں اتفاق سے کوئی مسلمان شامل ہوا تو اسے اسلامی دہشت گردی سے موسوم کیا گیا۔
تھوڑی ہی مدت میں میڈیا سمیت کچھ طاقتوں نے اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اسے خوبصورت منصوبہ بندی کے ذریعے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح میں تبدیل کردیا۔ اس منصوبہ بند سازش کے تحت کئے گئے اس پروپگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کہیں بھی بم دھاکہ ہوجائے تو اسے فوراً اسلامی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اسی ماحول میں پوری دنیا میں عوام کے درمیان میڈیا کے ذریعے سے اور مغربی دنیا سمیت کئی الگ الگ ممالک میں الگ الگ زبانوں میں سینکڑوں کتابیں لکھ لکھ کر اس بات کو پھیلایا گیا کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑ اسلام ہے۔ اس غلط پروپگنڈے میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ کی آیتیں مسلمانوں کو حکم دیتی ہیں کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں یعنی کافروں سے لڑیں۔ انھیں بے رحمی سے قتل کریں۔ یا انھیں خوف زدہ کر کے زبردستی مسلمان بنائیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں، یہ جہاد ہے اور اس جہاد کرنے والوں کو اللہ جنت عطا کرے گا۔ اس طرح منصوبہ بند طریقے سے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اسے بے گناہوں کا قاتل دہشت گرد مذہب قرار دے دیا گیا اور جہاد کا مطلب دہشت گردی بتایا گیا‘‘۔ (ص: ۱۲)
آگے پھر سوامی جی نے اسلام کے تئیں بنیادی ماخذ قرآن، سیرت نبوی اور احادیث کو بنیاد بنا کر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے تاہم انھوں نے قرآن سے استدلال و استشہاد کرنے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مقدسہ پر ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سوانح حیات‘‘ کے عنوان کے تحت انتہائی جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ دوران مطالعہ یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم کسی مسلم مصنف کی نہیں بلکہ ایک ایسے ہندو مصنف کی کتاب کو دیکھ رہے ہیں کہ جو کبھی خود اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر افشانی او رہرزہ سرائی کرتے تھے اور دہشت گردی کا رشتہ اسلام اور مسلمانوں سے جوڑتے تھے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرت طیبہ کو صرف ۱۳ صفحات میں اس طرح سمیٹ دیا ہے کہ جیسے کہتے ہیں کہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ سیرت طیبہ کے اس مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں :’’پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا مقصد اصلی دنیا میں سچائی اور امن کا قیام اور دہشت گردی کی مخالفت ہے۔ لہٰذا اسلام کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اگر کوئی (تشدد کا) واقعہ ہوتا ہے تو اس کواسلام سے یا پوری مسلم امت سے جوڑا نہیں جاسکتا‘‘۔ (ص: ۲۶)
صفحہ ۲۷ تا ۳۳ تک ’’اسلام او ردہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ایک پُر مغز اور بصیرت افروز مضمون ہے۔ جس میں سوامی جی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام دہشت گردی کا نام ہے یا پھر وہ ایک مثالی دین؟ اس سلسلہ میں وہ قرآن کی چند آیات پیش کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک مثالی اور امن پسند دین ہے اور انھوں نے اس مضمون میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی سورتوں اور آیتوں کا پس منظر جانے بغیر قرآن کا مطالعہ نہ کریں او رنہ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھیں کیا کرنا چاہے؟ آگے پھر تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید کاترجمہ کرتے وقت اس بات کا خاص لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ کسی بھی آیت کا مفہوم ذرا بھی تبدیل نہ ہونے پائے۔ کیونکہ کسی قیمت پر بھی تبدیلی روا نہیں۔ اس لیے الگ الگ زبانوں میں الگ الگ مترجموں کے لکھے ہوئے ترجمے کا مفہوم ایک ہی رہتا ہے۔ غیر مسلم بھائی اگر اس ترجمے کے مشکل الفاظ کو نہ سمجھ پائیں تو وہ --- مولانا محمد فاروق خان کا ترجمہ کردہ ’’پوتر قرآن‘‘ (ہندی) کا بھی سہارا لے سکتے ہیں‘‘۔ (ص: ۲۷)
مزید آگے پھر درجنوں آیات کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قرآن کے تعلیمات میں کہیں پر بھی دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں ملتا ہے۔ جیسا کہ وہ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور قرآن مجید کی ان آیتوں کو دیکھنے کے بعد واضح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قرآن کی تعلیمات میں کہیں بھی دہشت گردی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی ناقص معلومات رکھنے والے ہی لاعلمی کے سبب اسلام کو دہشت گردی (آتنک واد) سے جوڑتے ہیں‘‘۔ (ص: ۳۳)
صفحہ ۳۴تا ۶۰ ’’قرآن کی وہ چوبیس آیتیں‘‘ کا مضمون ہے جس میں سوامی جی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کی جن چوبیس آیات کو لے کر بعض غیر مسلم دانشور یہ شوشہ پھیلاتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی (آنتک واد) پھیلاتا ہے اور وہ قرآن کی ان آیات کو ان کے سیاق سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ پوری آیت بھی نقل نہیں کرتے ہیں اور پھر ان کی من مانی تاویل و تعبیر کرتے عام ہندؤوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے مصنف کتاب سوامی جی نے اپنے اس مضمون میں ان تمام چوبیس آیات کو ان کے سیاق اور پسِ منظر کے ساتھ نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان آیات کا کسی مفروضہ اسلامی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مصنف کتاب اپنے بارے میں خود ہی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ کیسے غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کے آغاز ہی میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کچھ لوگ قرآن کی ۲۴ آیتوں والا ایک پمفلٹ کئی برسوں سے ملک کے عوام کے درمیان تقسیم کررہے ہیں جو ہندوستان کے تقریباً سبھی علاقائی زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ اس پمفلٹ کا عنوان ہے ’’قرآن کی کچھ آیتیں جو ایمان والوں (مسلمانوں) کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے کا حکم دیتی ہیں‘‘ جیسا کہ کتاب کی ابتداء میں ’جب میں حق سے آشنا ہوا‘ میںمیںنے لکھا ہے کہ اس پرچہ کو پڑھ کر میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا‘‘۔ (ص: ۳۴)
اس کے بعد قرآن کی ان چوبیس آیات کی وضاحت تفصیل کے ساتھ کرتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’عوام ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں، جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے اس طرح کے کاموں سے ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ کیا نہیں جانتے کہ دوسروں سے عزت پانے کے لیے پہلے خود دوسروں کی عزت کرنی چاہئے۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے خلوصِ دل سے قرآن کو اچھی طرح پڑھ لیں اور اسلام کو جان لیں، پھر اس کے بعد ہی اسلام پر تنقید و تبصرہ کریں ورنہ نہیں‘‘۔ (ص: ۵۹)
اسی طرح صفحہ ۶۱ تا ۷۷ تک ’’قرآن کی اعلیٰ تعلیمات‘‘ کے عنوان سے بھی ایک جامع مضمون پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس مضمون کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفِ کتاب نے قرآن کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور انھوں نے اپنے مضمون میں درجنوں قرآنی آیات کا ترجمہ دیا اور واضح کیا کہ اسلام نہ صرف مثالی اور عدل پر مبنی دین ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ فلاح انسانیت کے لیے قابل عمل نمونہ صرف اسلام میں ہے۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ اسلام کے اعلیٰ ترین نظام عدل کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اسلام کے اعلیٰ ترین نظام عدل کے سبب ہی اسلامی ملکوں میں (جہاں یہ نظام نافذ ہے) قتل، ڈکیٹی، راہ زنی، عصمت دری، زنا اور چوری وغیرہ نہیں ہے۔ دنیا کے لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں کہ دو بئی، ایران، عراق، سعودی عرب، کویت وغیرہ مسلم ممالک میں جمعہ کی اذان ہوتے ہی دکاندار اپنی اپنی دکانوں میں کروڑوں کی قیمت کا کنٹلوں سونا چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے چل دیتے ہیں، دکان میں کسی کے نہ رہنے پر بھی کبھی کوئی چوری نہیں ہوتی۔ آج ساری دنیا میں نوجوانوں کو افیون سے بنی نشیلی دوائیں ڈس رہی ہیں۔ لیکن یہ اسلامی نظام عدل کا ہی کمال ہے کہ اسلامی نظام عدل کا نفاذ کرنے والے ممالک ان سماجی برائیوں سے محفوظ ہیں‘‘۔ (ص: ۷۳)
اسی طرح صفحہ ۷۸تا ۸۰ تک ایک مضمون ’’پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور ہدایات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں سوامی جی نے واضح کردیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احادیث اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے احکام و تعلیمات کا ہی نام اسلام ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے بہت سی مستند حدیثیں بخاری شریف کے حوالے سے نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ اسلام کا پیغام سچائی اور انسانیت کا پیغام ہے اور اس میں دہشت گردی کی تعلیم دی گئی ہے او رنہ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق۔ چنانچہ مضمون کے آخر میں سوامی جی تحریر فرماتے ہیں:
’’اس سے خود بہ خود ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں کہیں بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی مخالفت ہی ہے اور جہاد دہشت گردی نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے دہشت گردی کے خلاف ایک کوشش ہے۔
جیسے میں نے اپنی کتاب ’’اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘‘ (اسلامی دہشت گردی کی تاریخ) میں ہندو راجاؤں و مسلم بادشاہوں کے درمیان جنگ میں ہوئے خون خرابے کا ذکر کیا تھا اس کے بارے میں اب میری سمجھ میں آیا ہے کہ خون ریزی جنگ کی تھی، خاص فرد کی تھی نہ کہ اسلام کی، جنگ کے دوران میں ایسے خون خرابے ہر ملک میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے تاریخ میں سکندر سے لے کر ہٹلر تک یہی کرتے رہے، اپنے ملک ہندوستان میں اشوک کی کلنگ فتح میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے، ان کے ان دہشت گردانہ کاموں کے لیے ان کا دھرم (دین) مجرم نہیں ہے۔ مسلم بادشاہوں کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا‘‘۔ (ص: ۸۰)
صفحہ ۸۱ تا ۹۸ تک ایک مضمون ’’سنساتن ویدک اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں سوامی جی نے ہندو دھرم کی قدیم کتابوں کے حوالے سے ہندو دھرم اور اسلام کے درمیان توحید کے معاملے میں حیرت انگیز یکسانیت و مماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح انھوں نے واضح کردیا ہے کہ ہندو دھرم کی اصل توحید ہے۔ لیکن بعد میں توحید کی جگہ شرک اور بہت سے خداؤں کا غلط نظریہ داخل ہوگیا ہے۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’یہاں بدقسمتی کی بات ہے کہ توحید کی اس حقیقت کو بتلانے والے سنساتن ویدک دھرم آج کتابوں میں ہی سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اس کی جگہ شرک اور بہت سے خداؤں کا غلط نظریہ داخل ہوگیا ہے۔ یہاں آج بھی نئے نئے دیوتا، خدا کے نئے نئے اوتار بنتے جارہے ہیں۔ اگر ٹی وی یا کسی فلم میں کسی شخص کو ایشور کا اوتار بنادیا جائے، بڑائی کا پرچار کردیا جائے تو یہاں عوام اس کی پوجا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے کئی کئی تو خود کو مجسم خدا ہی کہتے پھر رہے ہیںاور عوام ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ باطل اور جھوٹ کا جتنا بول بالا ہمارے یہاں ہے اتنا کہیں نہیں ہے۔ خدا سب کو عقل سلیم دے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ اپنی عقل و شعور دونوں سے ہی کام نہیں لے رہے ہیں‘‘۔ (ص: ۹۳)
سنساتن دھرم (یعنی قدیم ہندو مذہب) کی بنیادی کتابوں -وید، اُپ نشد، گیتا - کی شکل میںموجود ہے اور ان کتابوں میں توحید کا تصور پایا جاتا ہے مگر ان میں بہت سے غلط چیزیں شامل ہونے کی وجہ سے اب ان کے ماننے والوں میں شرک، بت پرستی اور کروڑوں خداؤں کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو ہندو دھرم کے ماننے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے دھرم میں اصل میں ایک ہی خدا کا تصور پایا جاتا ہے۔اس طرح لوگوں کے لیے سوامی جی کی یہ کتاب چشم کشا بھی ہے اور لائق مطالعہ بھی۔
صفحہ ۹۹ پر ’’ہم سب کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف کتاب نے واضح کیا ہے کہ اسلام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ وہ انسانیت کے لیے ہے اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔ نیز انھوں نے واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیںہے اور یہ بھی بتایا کہ دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی بڑی منصوبہ بند سازش کی جارہی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ دہشت گرد اگر مسلمان ہی ہوتے تو دہشت گردانہ حملے مسلمانوں پر نہ ہوتے۔ حیدر آباد کی مکہ مسجد اور مالیگاؤں (مہاراشٹر) کی عید گاہ پر یہ حملے نہ ہوتے اور آگے مزید لکھتے ہیں۔
’’مسلم مدرسوں او ردینی وسماجی تنظیموں نیز مسلم علماء کے بارے میں یہ غلط پروپگنڈہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی پر لوگوں کو ابھارتے ہیں۔ اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے میں نے تقریباً تمام معروف سماجی و دینی مسلم تنظیموں کا مطالعہ کیا۔ لیکن وہاں مجھے کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی موید نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسوں میں دہشت گرد بنائے جاتے ہیں۔ مدرسوں میں بنائے گئے ان دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے لیے میں لکھنو میںقائم مدرسہ ندوہ کالج سمیت کئی دیگر مدرسوں میں گیا۔ لیکن وہاں دہشت گردی کی جگہ پر مجھے امن وسلامتی، نظم وانصرام، تہذیب، بڑوں کا احترام اور انسانیت کے تئیں محبت دیکھنے کو ملی--- یہ کتاب لکھنے سے پہلے ہی متعدد مسلم علماء سے میں مل چکا تھا۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی الحسنی الندوی (علی میاں) کے ذریعہ قائم کردہ پیام انسانیت فورم نے ملک کے مختلف حصوں میں سیمینار منعقد کئے، جن میں انسانیت پر اظہار خیال کرنے کے لیے مجھے مدعو کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف مسلم تنظیموں اور اداروں نے بھی مجھے اپنے عوامی پروگرواموں میں اظہارِ خیال کا موقع دیا۔ ان سبھی مواقع پر میں بہت سے علماء سے ملا۔ ان سبھی علماء کی سادگی، شرافت اور انسانیت کے لیے ان کے دل کی تڑپ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مسلم سماجی و دینی تنظیموں او رمسلم علماء سے ملنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کے درمیان جان بوجھ کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘‘۔ (ص: ۱۰۰)
غرض یہ کہ زیر نظر کتاب ’’اسلام دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘ نہ صرف اول سے آخر تک بلکہ اس کی ایک ایک سطر اور اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف غیر مسلم بھائیوں کو بلکہ عام مسلمانوں کو بھی کرنا چاہئے۔ سوامی جی نے اپنی اس کتاب کو جس محنت وعرق ریزی او رخلوص و محبت سے لکھا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرکے عام مسلمانوں سے معافی بھی مانگی ہے۔ اس سے انھوں نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے دل بھی جیتے ہیں تو وہاں دوسری طرف انھوں نے اپنے سچے اور سلیم الفطرف انسان ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب کے لکھنے پر سوامی جی خراج تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
لیکن آخر پر میں اپنے دل کی بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ سوامی جی نے اپنی اس کتاب کو جس تحقیق و جامعیت کے ساتھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلام کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا ہے اور اسلام کے آفاقی و الہامی دین ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اسے دین انسانیت اور نجات کا ذریعہ بھی قرار دیا ہے بلکہ کتاب کے مطالعہ کے دوران سطور کے ساتھ بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فطرت سلیمہ شرک و بت پرستی اور ایک سے زائد خداؤں کے تصور سے بھی آیا کرتی ہے۔ اس طرح اس ساری تفصیل و صورت حال کو دیکھنے کے بعد میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ سوامی جی کو اسلام قبول کرکے اپنے ایمان او راعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی اخروی ابدی و دائمی زندگی کو کامیاب او رجنت الفردوس میں اپنی جگہ یقینی بنانا چاہئے۔لیکن یہ سب تو اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے تاہم ایک بندے کو بھی حق کی تلاش میں کوشش کرنی چاہئے۔ اور میں دعا کرتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ سوامی جی کو قرآن کی اس آیت کا حقیقی مصداق بنا کر انھیں قبولِ اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمائے۔
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۝۰ۚ (الانعام: ۱۲۵)
پس اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔
فکر عقبیٰ نہ خوف خدا ہے
کیسا نادان وہ آدمی ہے
شرک کرتا ہے زندگی بھر لیکن
سوچتا ہے کہ جنت ملے گی

حکومت کا قیام - اسلامی نقطہ نظر ---- ایک مطالعہ

crtsy: Munsif Hyderabad

Ye Shahdat gahe ulfat mein qadam rakhna hai یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

crtsy: Munsif Hyderabad

Half Alfuzul ki Zarurat حلف الفضول کی ضرورت

crtsy: Munsif daily Hyderabad

Saturday 7 September 2013

ADB ادب

ادب

…شاہنواز فاروقی …

اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانیت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملتوں کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ اسلامی تہذیب کے دائرے میں موجود ادب کی روایت کو دیکھاجائے تو اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن آج مسلم معاشروں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ کروڑوں پڑھے لکھے کہلانے والے افراد بھی چاقو مارنے کے انداز میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ادب کا فائدہ کیا ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جائے اور اسے کیوں پڑھا جائے…؟
فائدے کے اس سوال کا تعلق عصر حاضر کی اس عمومی معاشرتی صورت حال سے ہے جس میں پیسہ اعلان کیے بغیر معاشرے کا خدا بن کر بیٹھ گیا ہے اور کروڑوں لوگ اعلان کے بغیر اس کی پوجا کررہے ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق اور اس کے مطالعے کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھانے والے دراصل شاعروں ادیبوں کی معاشی حالت اور ادب کے مطالعے کے معاشی اور سماجی فائدے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک ایسی فضا میں ادب کیا مذہبیت تک ’’افادی‘‘ ہوجاتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہبیت کا ایک پہلو افادی ہوتا جارہا ہے۔ لیکن بعض لوگ جب ادب کے فائدے کا سوال اٹھاتے ہیں تو وہ دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زندگی میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔ اس کا وظیفہ یا Function کیا ہے اور کیا ادب کی تخلیق اور اس کا مطالعہ معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔؟ جہاں تک پہلی قسم کے لوگوں کے سوال کے جواب اور اس مسئلہ کے طے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے شاعروں، ادیبوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی طرح ہمارے بینک شاعروں ادیبوں کو لاکھوں روپے کے مشاہرے پر ملازم رکھنے لگیں تو ادب کی افادیت کے سلسلے میں سوال اٹھانے والے اپنے بال بچوں کو شاعر ادیب بنانے کے لیے بیتاب ہوجائیں گے البتہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو معاشرے میں ادب کے کردار یا اس کے وظیفے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوال کا قدرے تفصیل سے جواب دینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ ہمارے زمانے میں ادب کیا مذہب کے حقیقی کردار کی تفہیم بھی دشوار ہوگئی ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔؟
اسلامی تہذیب میں ادب کی حیثیت مذہب کے تو سیعی دائرے کی ہے۔ ہماری تہذیب میں ادب نہ کبھی معنی کا سرچشمہ رہا ہے نہ وہ کبھی مذہب سے جدا ہوا ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں ایک زمانہ وہ تھا جب ادب کی ضرورت ہی کا انکار کردیا گیا اور پھر ایک دور وہ آیا جس میں کہا گیا کہ مذہب ختم ہوگیا اب ادب مذہب کی جگہ لے گا۔ ہماری تہذیب میں ادب کے حوالے سے یہ افراط وتفریط کبھی موجود نہیں رہی۔ اس لیے کہ اسلامی تہذیب میں معنی کا چشمہ مذہب ہے چنانچہ ہماری تہذیب میں ادب کا کام یہ ہے کہ وہ معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنائے۔ ادب کے اس کردار نے ہماری روایت میں حقیقت اور مجاز یا Reality اور Appearance کی اصطلاحوں کو جنم دیا ہے اور ہمارے یہاں بڑا ادب اس کو سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت حقیقت اور مجاز سے متعلق ہو۔ ہماری تہذیب میں حقیقت کا مطلب خدا اور مجاز کا مطلب ایک سطح پر انسان اور دوسری سطح پر یہ پوری مادی کائنات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت اور مجاز میں تعلق کیا ہے؟ ہماری تہذیبی اور ادبی روایت میں مجاز حقیقت کا جلوہ، اس کی علامت اور اس کا ایک اشارہ ہے اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ انسان مجاز کے ذریعے حقیقت سے رشتہ استوار کرتا ہے۔ اس کا فہم حاصل کرتا ہے۔ اس طرح مجاز کی محبت بھی حقیقت کی محبت بن جاتی ہے۔ ہمارے ادب میں محبت اور ہوس کی اصطلاحیں مروج ہیں۔ محبت کو اچھا اور ہوس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ مگر لوگ ان اصطلاحوں کے فرق پر مطلع نہیں ہیں۔ محبت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مجاز کے وسیلے سے بیک وقت مجاز اور حقیقت دونوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے برعکس محبت ہوس سے اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب انسان صرف مجاز میں الجھ کر رہ جائے اور مجاز کے ذریعے حقیقت سے تعلق پیدا نہ کر پائے یا اسے مجاز میں حقیقت کا جلوہ نظر آنا بند ہوجائے۔ ایک شعر ہے۔
ہر بو الہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ شعور حسن صرف مجاز تک محدود ہوگیا ہے اور نظر کی اس کوتا ہی نے محبت کو ہوس میں تبدیل کردیا ہے لیکن ہوس میں مبتلا لوگوں کو اس کا ادراک نہیں چنانچہ وہ ہوس پرستی کو بھی محبت سمجھے چلے جارہے ہیں۔ ہماری شاعری بالخصوص غزل کی شاعری اور داستان کی روایت کا کمال یہ ہے کہ اس نے حقیقت اور مجاز کی یکجائی اور پیشکش کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ اتنا بڑا تخلیقی اور تہذیبی کارنامہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کارنامے کے ذریعے معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنایا گیا ہے۔ ہماری غزل کی شاعری کا قابل ذکر حصہ حقیقت اور مجاز کی وحدت کا حامل ہے اور داستانوں میں ایک سطح پر روحانی تجربے کا بیان ہے اور دوسری سطح پر عام کہانی کا بیان ہے۔ لیکن ادب معلوم کو محسوس مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور کیسے بناتا ہے؟ اس کی ایک مثال اقبال کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں مومن اور شاہین دو تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اقبال نے جذبے، احساس اور مخصوص تہذیبی اور تاریخی تناظر کے ذریعے انہیں کروڑوں لوگوں کا تجربہ بنادیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پردے پر مومن اور شاہین ٹھیک اسی طرح طلوع ہوتے ہیں جیسے سینما کے پردے پر ہیروز نمودار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک اور مثال قرۃ العین کے ناول ہیں۔ تاریخ ایک فلسفہ اور ایک مجرد تصور ہے۔ لیکن قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ انسانی کرداروں ان کی آرزئوں تمنائوں اور عمل کی صورت میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جبلت اور جعلی اخلاقیات دو تصورات ہیں لیکن غلام عباس نے اپنے معرکہ آراء افسانے آنندی میں اخلاقیات اور جبلت کی کشمکش اور جبلت کی جعلی اخلاقیات پر فتح کے حوالے سے ایک شہر آباد ہوتا دکھا دیا ہے۔ معلوم کو محسوس، مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنانے کی اس اہلیت کی وجہ سے ادب کو باقی تمام علوم وفنون پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن ادب کی اہمیت کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔
سلیم احمد نے کہا ہے۔
کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
یہ اخبار کی رسائی اور نارسائی دونوں کا بیان ہے۔ اخبار اور ادب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اخبار ظاہر کا ادب اور ادب باطن کا اخبار ہے۔ ظاہر کا ادب صرف یہ بتاسکتا ہے کہ ظاہر میں کیا ہورہا ہے لیکن انسان، معاشرے اور تہذیب کے باطن کی خبردینا صرف ادب کا کام ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے معاشرے میں جدیدیت کی پہلی اور سب سے بڑی علامت ہیں لیکن سلیم احمد نے اپنی کتاب غالب کون میں دکھایا ہے کہ وہ زندگی جس کا تجربہ آج ہم کررہے ہیں اس کا شعور غالب کے یہاں بہت پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح اقبال نے عہد غلامی میں اسلام اور مسلمانوں کے عروج کے ترانے گائے ہیں اور جس وقت یہ ترانے تخلیق ہورہے تھے بہت سے لوگ انہیں ’’مجذوب کی بڑ‘‘ سمجھتے تھے لیکن حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اقبال کا تخلیقی تصور اس دنیا کو وضاحت کے ساتھ دیکھ رہا تھا جو ابھی پیدا ہونی تھی۔ دوستو وسکی کا زمانہ روسی انقلاب سے پہلے کا زمانہ ہے لیکن دوستو وسکی کے ناولوں میں انقلاب کی چاپ کو صاف طور پر سنا جاسکتا ہے۔ ادب کے متن یا Text کی کثیر الجہتی یا Multi Dimensionality ادب کا ایک اور بہت بڑا امتیاز ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ تمام علوم اپنی روایت اور اپنے مخصوص تناظر کی پاسداری کرتے ہیں۔ نفسیات، نفسیات کی روایت اور تناظر کو کام میں لاتی ہے۔ عمرانیات اپنی مخصوص روایت اور تناظر کی اسیر ہوتی ہے لیکن ادب تجربے کی تشکیل اور ابلاغ کے سلسلے میں بے انتہاء وسیع المشرب ہوتا ہے چنانچہ ادب میں مذہب، فلسفے، نفسیات، عمرانیات اور طبیعات کے دھارے باہم مدغم ہو کر ایک نئی صورت اختیار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کام شاعری میں بھی ہوتا ہے اور افسانے اور ناول میں بھی۔ یہاں تک کہ ادب کی اعلیٰ تنقید بھی ادب کی وسیع المشربی سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو اردو ادب میں فراق، عسکری اور سلیم احمد اور انگریزی میں ڈی ایچ لارنس اور ٹی ایس ایلیٹ کی تنقید پڑھنی چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تنقید کو بھی تہذیبی بنا دیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کی معنویت اور قوت کا اظہار یا تو مذہب میں ہوتا ہے یا ادب میں۔ اعلیٰ مذہبی اور ادبی متن کا فرق یہ ہے کہ مذہبی متن قاری کو لفظ اور معنی کی گہرائی سے آشنا کرتا ہے اور ادبی متن لفظ اور معنی کے تنوع سے۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مذہب اور ادب کے مطالعے کے بغیر کسی کو زبان آجائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ادب بالخصوص شاعری کا ترجمہ ممکن نہیں مگر لوگ اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ ادب کے دو پہلو ہیں ایک تفہیمی اور دوسرا تاثیری۔ تفہیم کا تعلق خیال سے ہوتا ہے اور خیال کا ترجمہ بڑی حد تک ممکن ہے مگر تاثیر کا تعلق کسی زبان کی پوری تہذیب، تاریخ، اظہار کے سانچوں اور اسالیب سے ہے چنانچہ اس کا ترجمہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔


عقیدۂ ختم نبوت ایمان کی خشت اول


مولانا حافظ عبدالرحمان سلفی …

قال تعالیٰ! ترجمہ: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے ہیں) اور اللہ ہر شے سے (خوب) واقف ہے (الاحزاب پ۲۱۔ آیت ۴۰)
امام الابنیاء سید المرسلین ختمی مرتبت محمد رسولؐ پر بحیثیت آخری پیغمبر عقیدہ وایمان پر مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپؐ کے بعد قیامت تک اب کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں ظلی نہ بروزی اور نہ ہی کسی دوسرے معانی ومفہوم میں کہ جس پر نبی کا اطلاق ہوتا ہو۔ دور رسالت وصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ جہاں رب تعالیٰ ے واحد یکتا ہونے پر ایمان کامل رکھتی ہے بعینہ شافع محشر ساقی کوثر محمدؐ کے خاتم النبین ہونے پر بھی غیر متزلزل ایقان رکھتی ہے۔ آپؐ کے بعد کسی بھی معانی میں دعوائے نبوت کرنے والا کذاب واجب القتل اور محبوب رب العالمینؐ کی نبوت ورسالت کی آخری چادر عصمت پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا شخص مردود، جہنمی اور اہل اسلام کے نزدیک یہودو نصاریٰ سے بدتر قابل نفرین گردانا جاتا ہے۔ ہمیشہ اہل اسلام اور ان کی حکومتوں نے ایسے تاپنجار ظالموں کی نہ صرف سرکوبی کی بلکہ ان کے مقتدا سمیت تمام ماننے والوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا اور انہیں نابود کیا۔ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود سب سے پہلے اس بے ایمان کی سرکوبی کے لیے اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں دستہ روانہ فرمایا اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اسی طرح دیگر جھوٹے مدعیان نبوت اسودحسنیٰ ودیگر خاتون کا بھی لحاظ کیے بغیر تمام جھوٹے پیغمبروں کا انجام موت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے بغیر اسلام کا تصور حیات ہی نہیں کیا جاسکتا لہٰذا امت مسلمہ کے کسی بھی مکتبہ فکر نے تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی سمجھوتا نہیں کیا کیونکہ عقیدۂ ختم نبوت اہل اسلام کی شہہ رگ حیات ہے یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جو قرآن مجید واحادیث شریفہ سے قطعی ثابت ہے اور پوری امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ سورۃ احزاب کی آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ محمدؐ تم مردوں میں سے کسی کے والد نہیں یعنی آپؐ کے بعد کوئی کھڑا ہو کر یہ دعویٰ نہ کرسکے کہ چونکہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا یا پوتا ہوں لہٰذا میں بھی نبوت میں کسی طرح شریک ہوںیا خونی رشتے کی بناء پر مجھے بھی نبوت میں شراکت کا کوئی حق حاصل ہے۔ اسی طرح خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا کہ آپؐ تو اللہ کے پیغمبر اور تمام انبیاء کی نبوت پر مہر ہیں یعنی اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ ہے۔ ترجمہ! ابی بن کعبؓ راوی ہیں! کہ نبی کریمؐ نے فرمایا میری مثال دیگر انبیاء میں ایسی ہے جیسے کسی نے ایک اچھا کامل گھر بنایا لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگوں نے اس کی عمارت کو پسند کرلیا لیکن خالی جگہ پر تعجب کیا پس وہ خالی جگہ میں نے آکر پرُکردی۔ میرے آنے کے بعد نبوت کا محل مکمل ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ نبوت کی عمارت اب قیامت کے لیے کامل ہوچکی اور اس میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
برصغیر میں انگریز کی آمد نے جہاں مسلمانوں کے لیے سیاسی و اقتصادی تباہی و بربادی کا سامان کیا۔ وہیں اسلام کے پاکیزہ چہرہ کو داغدار کرنے کے لیے (معاذ اللہ) کئی سازشیں تیار کی گئیں تاکہ ایک جانب وحدت امت پارہ پارہ ہو تو دوسری جانب اہل اسلام ان کے پیدا کردہ فتنوں کی سر کوبی میں مصروف ہو کر انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی سے صرف نگاہ پر مجبور ہوجائیں۔ اندرونی خلفشار اہل اسلام کو اپنے مسائل میں الجھائے رکھے اور سامراج ہندوستان کی دولت سمیٹ کر اپنے ملک میں جمع کرتا رہے۔ اس کے لیے انگریزی سامراج نے جہاں دیگر ہتھکنڈے اختیار کیے وہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں فتنہ اکبر کھڑا کیا تاکہ اس عظیم فتنے کے وجود سے وحدت امت پارہ پارہ ہو جائے۔ انگریزی سامراج کے زیر سایہ یہ فتنہ خوب پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی تاہم علماء اسلام نے اس کذاب و دجال کی عقدہ کشائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ سب سے پہلے اسلامیان برصغیر کو آگاہ کرنے اور کفر سے بچانے کے لیے ممتاز عالم دین مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے اس مردود کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور کفر کا فتویٰ صادر کرکے امت کو اس نئے چیلنج سے آگاہ کیا۔ اسی طرح چونکہ انگریزی حکومت تھی لہٰذا اسلامی سزا جاری نہیں ہوسکتی تھی البتہ علمی میدان میں اہل اسلام نے اس مردود کا خوب مقابلہ کیا۔ مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا مردود سے دو سو سے زائد مناظرے کیے اور بحمداللہ تعالیٰ ہر معرکہ میں کامیاب و کامران رہے۔ یہاں تک کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے زچ ہو کر مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ کو مباہلہ کا چیلنج دے ڈالا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں موت دے تا کہ حق ظاہر و غالب ہو اور باطل ذلیل و رسوا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرؐ کی ختم نبوت کی آبرو کی اس طرح لاج رکھی کہ مردود مرزا لاہور میں بیماری میں مبتلا ہو کر بیت الخلا میں واصل جہنم ہوا اور مناظر اسلام کئی برس زندہ رہے یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا ثناء اللہ امر تسری پاکستان ہجرت کرکے سرگودھا میں تشریف لے آئے اور 1949ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرزا مردود کے واصل جہنم ہونے کے بعد اس کی ذریت و جماعت اجتماعی توبہ کرکے رجوع اسلام کرتی اور فتنہ انگیزی سے باز آجاتی تاہم اس گروہ نے پاکستان بننے کے بعد سر ظفر اللہ جس نے بد بختوں کی سر پرستی میں خوب پر پرُزے نکالے اور اہم عہدوں پر قابض ہوگئے یہاں تک کہ 1952ء اور 1973ء میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں چلیں اور ہزاروں علماء کرام و عوام نے نہ صرف جانوں کے نذرانے پیش کیے اور پابند سلاسل کیے گئے لیکن قیام پاکستان کے بعد اس سو سالہ گمراہ فتنہ کو بھٹو مرحوم نے علماء کرام کے دبائو مرزا ناصر احمد سے قومی اسمبلی میں مناظروں میں کامیابی کے بعد بالآخر ستمبر میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور انہیں مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیا گیا۔ البتہ آج بھی یہ گمراہ ٹولہ اپنی سر گرمیوں سے باز نہیں آیا۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں اور امریکا و یورپ وغیرہ میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام کو رسوا کر رہا ہے۔ اندرونی سطح پر بدین تھرپار کر، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کے پسماندہ علاقوں میں ان پڑھ غریب مسلمانوں کو روپے پیسے کا لالچ اور بیرون ملک ویزوں کی آفر دے کر عیسائیت و قادیانیت اسلام و پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ شدید ضرورت ہے کہ پاکستانی مسلم حکومت ان پر کڑی نگارہ رکھے اور ان گمراہ کافر گروہوں کو تبلیغ سے قانوناً روکا جائے تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی چالبازیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین
بہ شکرءیہ جسارت

Friday 6 September 2013

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

فتنے فساد، عذاب، قتل خون ریزی…!

کالم نگار  |  طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)


ابو برزہ اسلمی صحابی ؓ کے پاس کچھ لوگوں نے یزید کی بیعت کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’عرب کے لوگو!  تم جانتے ہو (نبی کریمؐ کی نبوت سے) پہلے تمہارا کیا حال تھا، جہاں بھر کے ذلیل و خوار اور گمراہی کا شکار پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کے طفیل سے اور اپنے پیغمبر برحق کے صدقے سے تم کو اس بری حالت سے نجات دی، یہاں تک کہ تم اس مرتبے کو پہنچے کہ دنیاکے حاکم اور سردار بن گئے، پھر اس دنیا نے تم کو خراب کر دیا، دیکھو یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے (مروان) دنیا کے لئے لڑتا ہے اور یہ خارجی لوگ جو تمہارے گردا گرد ہیں، خدا کی قسم یہ بھی دنیا کے لئے لڑتے ہیں، آج کے منافق کم بخت ان منافقوں سے بھی بدتر ہیں جو نبی کریمﷺ کے زمانے میں تھے، وہ تو اپنا نفاق چھپاتے تھے، یہ تو اعلانیہ نفاق کرتے ہیں۔ نفاق تو نبی کریمﷺ کے زمانے تک تھا، اللہ آپؐ کو بتلا دیتا تھا کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن اس زمانہ میں تو یا آدمی مومن ہے یا کافر (بخاری،کتاب الفتن)۔ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور مصیبتوں کا شکوہ کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا ’’اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ اس سے بھی بدتر ہو گا اور اسی طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے مل جائو گے‘‘۔ (بخاری) 
ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر لکھتے لکھتے جب انگلیاں شل ہوجائیں توتفاسیر و احادیث کی کتب کھول کر بیٹھ جاتی ہوں۔ مسلمانوں پر عذاب کی جو صورتحال بن چکی ہے، اس سے نجات کا واحد راستہ اللہ اور اس کے نبیؐ کے گھر کو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ایک ہی گلہ رہا ہے کہ یہودو نصاریٰ ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور امت مسلمہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر موجودہ حالات کے تناظر میں نہ تو مسلمان امت ہونے  کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نہ یہودو نصاریٰ اکیلے ان کے خلاف متحد ہیں، الا ما شا ء اللہ مسلمان حکومتیں یہودو نصاریٰ کے ساتھ کھڑی ہیں، یہی نہیں یہود و نصاریٰ کو نہ صرف اپنے مسلمان بھایئوں کے خلاف بمباری پر اکسا رہی ہیں بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کر رہی ہیں۔ انگریز اقوام کی عراق پر حملے کی طرح شام پر حملے کی شدید مخالفت نے انگریز سرکار کو امریکہ کی منصوبہ بندی کا حصہ بننے سے روک دیا، ادھر امریکی عوام نے بھی شام پر حملے کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جس کے بعد اوباما حکومت بھی احمقانہ اقدام اٹھانے سے پہلے کانگریس کی منظوری کی منتظر ہے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سرکار بھی شام پر حملے کو محض دھمکیوں تک محدود رکھے گی لیکن سعودی عرب امریکی سرکار کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے حق میں نہیں۔ مذہبی منافرت کو سیاسی ایشو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم لوگ اللہ کے رسولﷺ کی خبروں سے زیادہ میڈیا کی خبروں پر یقین کرنے لگے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی پیشگوئیوں سے زیادہ نجومیوں، بابوں اور نام نہاد عالموں کی پیشگوئیوں پر اعتقاد کرنے لگے ہیں۔ ایک آج کا زمانہ ہے کہ بری سے بری خبر سن کر بھی لوگوں کو کچھ نہیں ہوتا اور ایک وہ زمانہ تھا جب اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی خبروں اور پیشگوئیوں کو سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’زمانہ جلدی گزرنے لگے گا اور نیک اعمال گھٹ جائیں گے اور بخیلی دلوں میں سما جائے گی اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور قتل خون ریزی بہت ہو گی‘۔ (بخاری) حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں ٹپک رہے ہیں‘ (بخاری ) ام المومنین زینب بن جحشؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرمﷺ سوتے سے جاگے، آپؐ کا منہ گھبراہٹ سے سرخ تھا، فرمانے لگے ’ایک بلا ہے جو نزدیک آن پہنچی عرب کی خرابی ہونے والی ہے‘ ام المومنین حضرت زینب ؓ نے عرض کیا ’یا رسول اللہؐ! کیا نیک لوگوں کے رہنے پر بھی ہم ہلاک ہو جائیں گے(اللہ کا عذاب اترے گا ؟) آپ ؐ نے فرمایا’ہاں جب برائی بہت پھیل جائے گی (بخاری ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا ’کوئی تم میں سے کوئی اپنے بھائی پر ہتھیار نہ اٹھائے کہ مسلمان کو مار کر وہ دوزخ کے گڑھے میں جا گرے‘۔ ایک مقام پر حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا‘(بخاری)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مختلف مقام پر فرمایا کہ ’’کئی ایسے فتنے ہوں گے جن میں بیٹھ رہنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے جو شخص ان فتنوں کو جھانکے گا وہ ان میں مبتلا ہو جائے گا ،ایسے وقت میں جو شخص پناہ کی جگہ پائے وہاں پناہ پکڑے‘‘۔ (بخاری)

Tuesday 3 September 2013

نعت نگار شعراء کا اظہار عجز

نعت نگار شعراء کا اظہار عجز

ڈاکٹر عزیز احسن

ایک محفل میں اجمل سراج سے میرے مضمون’’تخلیقی ادب اور نعتیہ ادب کی موجودہ صورتِ حال‘‘ کے حوالے سے گفتگو چلی تو انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر سنایا:
شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
وہ محفل تو برہم ہوگئی لیکن اجمل سراج کے سنائے ہوئے شعر نے مجھے فکر و خیال کے نئے سفر پر روانہ کردیا۔
اس شعر میں رضوی صاحب نے کہنا یہ چاہا ہے کہ نعت کہتے ہوئے اپنی محدودات، زبان کی بے بضاعتی، مقامِ رسالت کا عدم عرفان اور آپؐ کے شایانِ شان الفاظ رقم کرنے کی صلاحیت کا فقدان، یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ اس منزل پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نعت کہنا ہی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ ہمارے کرم فرما احمد صغیر صدیقی نے اپنے طنزیہ لہجے میں ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’شاعر کیا یہ کہنا چاہتا ہے کہ نعتیہ شاعری مت کرو؟‘‘
’’چپ ہوجائیے‘‘ میں جو بات کی گئی ہے اس کا اصل مقصد سوچ میں کھو جانا ہے۔
کارل پوپر نے کہا تھا ’’معنی اور صداقت کے مابین ایک گہری مماثلت ہے‘‘۔ (فلسفہ، سائنس اور تہذیب ص 75)
یہاں ہمیں ’’چپ ہوجائیے‘‘ کے مشورے کا ماخذ صوفیانہ روایت کے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ انتظار حسین نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’خاموشی کی واردات تصوف میں اپنی منزل آپ ہے۔ خاموشی کی واردات ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘
(علامتوں کا زوال)
چنانچہ رضوی صاحب کے مشورے کو تخلیقی ادب میں نئے کلام کا خیمہ سمجھنا چاہیے۔
بات یہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے حوالے سے جو بات بھی کی جاتی ہے اس کو سند کی کسوٹی پر کسا جاتا ہے یا ایسا کرنا چاہیے۔ جبکہ شاعر صرف اپنے لمحاتی رجحان یا موڈ کو شعری جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اُس وقت اس کے سامنے نہ تو مذہبی روایات ہوتی ہیں اور نہ ہی تاریخ و سِیَر کی کتب کے اسباق اسے ازبر ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا مطالعہ بھی ہر شاعر کا علماء کی سطح کا نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے بیشتر شعراء نے نعتیہ ادب تخلیق کرتے ہوئے اظہارِ عجز کا نقش بھی شعری صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ اہلِ علم کے سامنے اپنی کسی نادانستہ لغزشِ بیاں کا جواز پیش کرسکیں اور حشر میں بھی اپنی قلم کاری کی بے احتیاطیوں کے معاملے میں کچھ رعایت حاصل کرسکیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی تو ماشاء اللہ دینی اسکالر ہیں۔ انہیں تو عربی زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل ہے۔ عربی کے توسط سے قرآن ِ کریم اور احادیثِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مضامین کی آگاہی اور مدحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں انہیں خاص بصیرت بھی حاصل ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’’تنقیدی شعور‘‘ کا بھرپور اظہار کرنے کے لیے یہ فرما رہے ہیں کہ
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
یعنی ذرا سوچیے کہ آپ کو کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے؟
یہ مصرع اگر خودکلامی کے انداز میں پڑھا جائے تو شاعر کی خود احتسابی یا خود ترغیبی (self suggestion)کا غماز ہے، اور اگر شاعر کی طرف سے مشورہ تصورکیا جائے تو یہ ایسے قارئین کے لیے قولِ زریں ہے جو شعر کہنے کی صلاحیت کو کافی سمجھ کر نعتیہ ادب تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گویا خورشید رضوی کے اس مصرع میں ادب کی سماجی حیثیت کا بھرپور اظہار ہوا ہے، کیوں کہ ادب ’’روحِ عصر‘‘ کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ آج نعتیہ ادب کی تخلیق، تخلیقی ادب کی نمایاں صفت ہے اور اسی لیے اس کی تخلیق میں تربیت کا عنصر داخل کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ ان کے مشورے سے جو نعتیہ ادب تخلیق ہوگا وہ حقیقی معانی میں نیا کلام ہوگا۔ جدید ذہنوں کو حُبِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے جوڑنے والا کلام!
ڈاکٹر خورشید رضوی کے ایک شعر سے گفتگو آگے بڑھی تو مجھے خیال آیا کہ میں ان کی مذکورہ نعت کے اشعار بھی نقل کردوں اور اپنے پچھلے مضمون کی فکری رو کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسے کچھ اشعار بھی پیش کردوں جن میں شعراء نے اپنے عجزِ بیاں کا اظہار کیا ہے۔
مطلع کے بعد خورشید رضوی کہتے ہیں:
سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں
اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جایئے
یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں
ہوسکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے
اے زہے قسمت کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ
فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جائیے
اے زہے قسمت اگر دشتِ جہاں میں آپؐ کے
نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہوجائیے
پچھلے مضمون میں میرا روئے سخن ان شعراء یا تُک بند مدح گزاروں کی طرف تھا جو صرف اپنے جذبات کو رہنما بناکر شعر گوئی کرتے رہتے ہیں اور زبان، بیان اور موضوع کی جان کاری کی بالکل پروا نہیں کرتے…آج میرا ارادہ ہے کہ کچھ شعراء کا تنقیدی شعور ان کے شعروں کی روشنی میں پیش کروں تاکہ میرے مخاطب کچھ فنی بصیرت حاصل کرنے کی طرف بھی دھیان دے سکیں!
چنانچہ اب ایسے اشعار کا انتخاب پیشِ خدمت ہے جن میں شعراء نے عجزِ بیاں کا پیرایہ اپنایا ہے۔
نزاکتِ خیال اور لفظوں میں شبیہ تراشی (imagery)  کا عمل دیکھنا ہو تو ذرا صبیح رحمانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس میں ثنائے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال نے شاعر کے آبگینۂ فکر کو پگھلا کے رکھ دیا ہے:
صبیح ان کی ثنا اور تُو کہ جیسے برف کی کشتی
کرے سورج کی جانب طے سفر آہستہ آہستہ
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے منسوب یہ مشہور شعر تو آپ نے سنا ہی ہوگا:
لا یمکن الثناء کما کانہ حقہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اس شعر کے پہلے مصرع میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و توصیف کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے…دوسرے مصرع میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ کریم کی ذات کے بعد کائنات کی سب سے بزرگ ہستی صرف حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ والا صفات ہے۔
آج کے موضوع کے حوالے سے درجِ بالا شعر کا صرف پہلا مصرع ہی پیشِ نظر رکھنا ہوگا کیوں دوسرے مصرع کی شعری تمثیلات پیش کرنے کے لیے تو دفتر درکا ر ہیں۔
تو آئیے نعتیہ ادب کے خزانے سے اظہارِ عجز کے چند موتیوں کی تاب و تب دیکھتے ہیں:
خدا در انظار حمد ما نیست
محمدؐ چشم بر راہِ ثنا نیست
خدا مدح آفرینِ مصطفیٰؐ بس
محمد حامد حمدِ خدا بس
مناجاتے اگر باید بیاں کرد
بہ بیتے ہم قناعت میتواں کرد
محمد از تو می خواہم خدا را
الٰہی از تو حب مصطفیٰؐ را
دگر لب وا مکن مظہر فضولیست
سخن از حاجت افزوں تر فضولیست
حضرت میرزا مظہر جانِ جاناں کے درجِ بالا اشعار کامنظوم ترجمہ پروفیسر سحر انصاری نے بڑی خوبی سے کیا ہے۔ دل چاہتا ہے وہ بھی آپ ملاحظہ فرمالیں:
ہماری حمد کا طالب خدا نئیں
محمد چشم بر راہِ ثنا نئیں
خدا ہے محوِ حمد مصطفے بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
دعا کی ہو اگر خواہش ہی ایسی
قناعت چاہیے اس شعر پر ہی
رہوں خواہاں محمد سے خدا کا
خدا سے وصف حب مصطفیٰ کا
نہیں مظہر مناسب بالارادہ
سخن کرنا ضرورت سے زیادہ
(میرزا مظہر جانِ جاناں؍سحر انصاری…نعت رنگ 3)
میرزا مظہر جانِ جاناں، تصوف کی روایت کے علم بردار تھے، اس لیے وہ بھی نعتیہ شعر کہنے کے لیے کچھ پابندیاں لگانے کے حق میں تھے۔ امت کا زوال اسی طرح شروع ہوا تھا کہ دعوے بہت تھے لیکن عمل ناپید تھا اور مظہر جانِ جاناں باتوں کے آدمی نہیں تھے۔ وہ حقیقی معانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی استدعا کرتے تھے کہ حضور! مجھے اللہ تک پہنچادیجیے!…اور اللہ تعالیٰ سے ان کی دعا یہی ہوا کرتی تھی کہ ’’میرے دل کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھردے!‘‘۔یہ بھی خیال رہے کہ ان کے ہاں حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد قلب و روح میں بس جانے والی خوشبو کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی وہ شکل بھی تھی جو ’’حبِ رسولؐکا خود اظہار ہوا کرتی ہے۔ان کی فکر عملی جامہ پہن کر ان کی ذات اور ان کے حلقے کے لوگوں کے لیے تحریک (movement) بن چکی تھی۔وہ صرف نظری طورپر حبِ رسولؐ کے خواہاں اور پِرْچارَک یا مُبَلِّغْ نہیں تھے۔ ان کی مثال اقبال کے اس شعر سے دی جاسکتی ہے:
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نَم
بہرحال نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے مظاہر دیکھیے!
لکھوں نعت اس کی میں کس طرح ساری
براق ایک ادنیٰ تھا جس کی سواری
(سعادت یار خاں رنگین دہلوی)
خدا تیرا معرف ہے ملک تیرے موصف ہیں
نہیں حد بشر کہنا ترے اوصافِ بے حد کا
(شیخ امام بخش، ناسخ لکھنوی)
غالبؔ ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
ترجمہ:
غالب، خدا پہ چھوڑ دی مدحت رسولؐ کی
آگاہ بس وہی تو ہے شانِ حضورؐ سے
(اسلم انصاری)
حریف نعت پیمبر نہیں سخن حالی
کہاں سے لائیے اعجاز اس بیاں کے لیے
(الطاف حسین حالی)
حق گزار مدح او کس نیست جز یزدان پاک
رائے من ایں شد و شد روح الامیں ہم رائے من
کارِ نعت مصطفیؐ را بر خدا بگزاشتم
نعت شہؐ او خوب کردن میتواند جائے من
(میرا خیال تھا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کا حق سوائے اللہ کے کوئی ادا نہیں کرسکتا۔تو جبریلِ امین نے بھی میری رائے کی تائید فرمائی۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کا کام اللہ پر چھوڑا، کیوں کہ وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت خوب بیان فرماتا ہے …میں نہیں)
(مولیٰنا احمد حسن محدث بچھرایونی نیازی)
ارادہ جب کروں اے ہم نشیں مدح پیمبر کا
قلم لے آؤں پہلے عرش سے جبریل کے پر کا
(آغا شاعر قزلباش دہلوی)
مدحت شاہِ دو سرا مجھ سے بیاں ہو کس طرح
تنگ مرے تصورات پست مرے تخیلات
(نواب بہادر یار جنگ، خلق)
ہفت افلاک سے یا کاہکشاں سے لاؤں
نعت کہنے کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں
دل میں ہے مدحتِ حضرتؐ کی تمنا لیکن
روئے قرطاس پہ کیا عجزِ بیاں سے لاؤں
(رفعت سلطان)
ثنا تیری بیاں کیا ہو، صفت تیری رقم کیا ہو
نہ اس قابل زباں نکلی، نہ اس لائق قلم نکلا
(آزاد بیکانیری)
مرے بیان و زباں کی بساط ہی کیا ہے
ترے جمال کی تعریف خود خدا نے کی
(ازہر درانی)
عجز ادراک سے ہے تیری ثنا کا آغاز
کس کو دعویٰ ہے کہ سمجھا ہے وہ رتبہ تیرا
کس عبارت سے کریں تیرے شمائل کا بیاں
کون لکھ سکتا ہے لفظوں میں سراپا تیرا
(اسلم انصاری)
مجھ کو اس بزم میں کیا جرأت گویائی ہو
جس میں حسانؓ کی گفتار بھی شرمائی ہو
(محمد افضل کوٹلوی)
شرط لازم ہے جو اوصافِ نبیؐ کی خاطر
وہ جزالت نہ فصاحت نہ بلاغت اپنی
ہاتھ آیا کوئی پیرایۂ اظہار کہاں
ہوسکی قید نہ الفاظ میں چاہت اپنی
(سید انور ظہوری)
نعت کہنے کو جب بھی اٹھایا قلم
میرے جذبات کو جانے کیا ہوگیا
خامشی لب پہ مدحت سرا ہوگئی
اشک آنکھوں میں حرفِ دعا ہوگیا
(انور جمال)
یہاں پھر ذرا ’’خاموشی‘‘ کا ادراک کیجیے اور اس بنیادی نکتے کوذہن میں لائیے کہ ’’خاموشی کی واردات، ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘۔
ثنا خواں کس طرح ہو کوئی اس محبوبؐ یکتا کا
زباں میں یہ کہاں قدرت، قلم کو یہ کہاں یارا
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
ورائے فکر و نظر اس کی رفعتوں کے مقام
جو ایک گام میں طے کرگیا نظر کی حدود
ثنائے خواجہؐ کروں یہ کہاں بساط مری
کہ میرا فکر بھی عاجز، خیال بھی محدود
(حافظ لدھیانوی)
کیوں کر حیاتؔ اس کی تعریف کوئی لکھے
خلاق ہر دو عالم خود جس کا مدح خواں ہے
(حیات وارثی لکھنوی)
میری کہاں بساط، کہوں نعت مصطفیٰؐ
جو شعر بھی ہوا ہے، ہوا آپ کے طفیل
(خالد شفیق)
کس رخ سے تیری مدح ترے مدح جو کریں
کس تار سے حروف کے دامن رفو کریں
(خالد احمد)
ان کا کرم نہ کرتا اگر رہبری خلیل
مقدور کب تھا مجھ کو ثنائے حضورؐ کا
(مفتی خلیل خاں برکاتی)
ثنا کس منہ سے ہو خورشیدؔ ان کی
خدائے پاک جن کا مدح خواں ہے
(خورشید ایلچ پوری)
کہاں سے لاؤں زبان و قلم کے پیمانے
ہے بیکراں تری عظمت، مری نظر محدود
(احسان دانش)
تری نعت اور روحیؔ تہی فکر
تری محفل میں کیا بندہ چلے گا
(روحی کنجاہی)
نعت اس کی کہاں، کہاں یہ زباں
ہاں نکلتی ہے صرف دل کی بھڑاس
(صبا اکبر آبادی)
تیری توصیف کہاں اور کہاں میرا قلم
فکر ناقص مرا، تو مظہر اسرار قدم
(طاہر شادانی)
یوں تو کہنے کو کہیں سینکڑوں نعتیں طاہرؔ
کون سی نعت کہی آپ نے شایانِ رسولؐ
(طاہر سردھنوی)
ذکرِ پاک ان کا اور تو فضلیؔ
بے ادب سیکھ عشق کے آداب
(فضل احمد کریم فضلی)
دامنِ نعت کے قابل کوئی گوہر لائے
کون ایسا ہے جو مٹھی میں سمندر لائے
(قیصر بارہوی)
تصویر تحیر ہے عالم یارائے بیاں زیبا ہی نہیں
امکان ثنائے ختم رسلؐ لفظوں میں سما سکتا ہی نہیں
(ہوش ترمذی)
دل نعتِ رسولِ عربی کہنے کو بے چین
عالم ہے تحیر کا زباں ہے نہ قلم ہے
(مولیٰنا مفتی محمد شفیع)
بندۂ عاجز، فقیرِ کج بیاں
کیا کرے گا مدح ممدوح خدا
(ڈاکٹر سید انعام احسن، فقیر)
منزلِ نعتِ نبی افسرؔ نہ ہم سے طے ہوئی
پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اڑ گئے ادراک کے
(منظور احمد صدیقی، افسر امروہوی)
مدحِ سرکارؐ ہے کس کے امکان میں
آپؐ کی مدحتیں تو ہیں قرآن میں
(محشر بدایونی)
نعت سرکارِ دو عالم کی میں لکھوں کیونکر
میں گنہگار، وہ معصوم، میں عامی، وہ رسول
(راغب مرادآبادی)
ان کی مدحت کا جریدہ نہ مکمل ہو گا
جتنے ممکن ہیں شماروں پہ شمارے لکھنا
(رازؔ کاشمیری)
جب ان کی ثنا کا وقت آیا
لفظوں کا وجود ڈگمگایا
(شمس قادری)
تیری توصیف کو تحریر میں لاؤں کیسے
حسن خورشید کو آئینہ دکھاؤں کیسے
(صفدر صدیق رضیؔ)
مجال انسان کی کیا ہے کہ ہو مداح حضرت کا
کلام اللہ جب ناطق ہوا خوئے محمدؐ کا
(شیخ امیر الدین آزاد)
لکھوں کس طرح نعتِ مصطفٰےؐ کیا میرا رتبہ ہے
خدا قرآن میں تعریف ان کی آپ کرتا ہے
(محمد اشفاق علی اشفاق)
جز خداوند دو عالم کس سے مدحت ہوسکے
وصف میں ان کے سبھی جن و بشر ناچار ہیں
(خواجہ احمد شمسؔ)
رفعت کو دیکھتے ہوئے اٹھتی نہیں نگاہ
کیا وصفِ حدِ عظمتِ آقاؐ کریں گے ہم
(محمد سعادت حسین، شیداؔ)
یہ نام وہ ہے کہ جس کی ثنا نہیں ممکن
کہ آپ کہتا ہے سبحان، یارسول اللہ
(مرزا عباس بیگ، عباس)
نور ہے خالق کا اور ممدوح خالق کا ہے وہ
خلق کا منہ مدح کہنے کے بھی کب قابل ہوا
(محمد حسن علمیؔ)
صفت لکھنے کو نور مصطفیٰؐ کی
زباں لاؤں کہاں سے میں خدا کی
(سید محسن علی، محسنؔ)
جو ان کا حق تعالیٰ مدح خواں ہے
لکھوں میں نعت، کیا تاب و تواں ہے؟
(سید سلطان احمد، نامی)
نعتیہ ادب کی تخلیق کے اس میدان میں شاعرات بھی پیش پیش رہی ہیں اس لیے ان کے بھی کچھ اشعار ملاحظہ فرمالیجیے:
میں کس طرح سے نام شہ دو سرا کا لوں
بہر کلام لفظ نہ طاقت سخن میں ہے
(بیگم سلطانہ ذاکر، اداؔ)
بشر کیا خدا بھی ہے جس کا ثنا خواں
کروں اس کی توصیف میں کس زباں سے
(قمر سلطانہ سید)
ہو بشر سے کس طرح وصف محمدؐ کا بیاں
کس طرح سے بند کوزے میں ہو بحرِ بے کراں
(نور بدایونی)
ادا حق مدحت خیرالبشر ہو کس طرح نوریؔ
تُو حافظ ہے نہ رومی ہے نہ سعدی ہے نہ جامی ہے
(مسرت جہاں نوری)
اوصاف بیاں آپؐ کے کس طرح ہوں مجھ سے
کیا منہ جو کروں مدحت سردارِ دو عالم
(شاہد سلطانہ، نازؔ)
نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے بے شمار اشعار ملے۔ تقریباً ہر شاعر نے نعت کہنے میں اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا ہے۔لیکن عاصیؔ کرنالی نے ایک جدا انداز اور منفرد آہنگ میں اپنی بے بضاعتی کو فکری اور تخلیقی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ اردو نعتیہ شعری سرمائے میں اس سے بہتر عجزِ بیاں کی مثال ملنا مشکل ہے۔وہ کہتے ہیں:
ثنائے خواجہ میں اے ذہن! کوئی مضموں سوچ
جناب! وادیٔ حیرت میں گم ہوں، کیا سوچوں!
زبان! مرحلۂ مدح پیش ہے، کچھ بول
مجالِ حرف زدن ہی نہیں ہے کیا بولوں؟
قلم! بیاضِ عقیدت میں کوئی مصرع لکھ
بجا کہا، سر تسلیم خم ہے کیا لکھوں؟
شعور! ان کے مقامِ پیمبری کو سمجھ
میں قید حد میں ہوں وہ بے کراں میں کیا سمجھوں؟
خرد! بقدرِ رسائی تو ان کے علم کو جان
میں نا رسائی کا نقطہ ہوں ان کو کیا جانوں؟
خیال! گنبدِ خضریٰ کی سمت اُڑ پر کھول
یہ میں ہوں اور یہ مرے بال و پر ہیں، کیا کھولوں؟
طلب مدینے چلیں نیکیوں کے دفتر باندھ
یہاں یہ رختِ سفر ہی نہیں ہے کیا باندھوں؟
نگاہ دیکھ ! کہ ہے روبرو دیارِ جمال
ہے ذرہ ذرہ یہاں آفتاب، کیا دیکھوں؟
دل! ان سے حرفِ دعا، شیوۂ تمنا مانگ
بِلا سوال وہ دامن بھریں تو کیا مانگوں؟
حضورؐ! عجزِ بیاں کو بیاں سمجھ لیجے
تہی ہے دامنِ فن، آستاں پہ کیا لاؤں؟
(ڈاکٹرعاصی کرنالی)
عجز ِ بیاں کی شعری بنت میں ہر شاعر کے ہاں ایک ہی خیال الفاظ کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے یعنی ’’میں اس قابل نہیں ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کہہ سکوں‘‘۔
درجِ بالا اشعار میں چونکہ ایک ہی خیال کی تکرار ہے اس لیے یاس یگانہ چنگیزی جیسے مزاج کے ناقدینِ فن فوراً تاریخِ ادب کی ورق گردانی پر توجہ دیں گے اور پھر متقدمین کی شعری نظیریں ملاحظہ فرما کر متاخرین پر سرقے کا الزام لگا دیں گے۔ لیکن آج کے شعری ذوق اور تنقیدی رجحان سے آگاہ اہلِ نظر اس شعری سرمائے کو متنی ہم رشتگی یا بین متنیت (intertextuality)کے تناظر میں دیکھیں گے۔

اظہارِ عجز کے اتنے مظاہر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی لاشعور تقریباً ہر شاعر کو نعتیہ ادب تخلیق کرنے کے مرحلے پر متنبہ کرتا ہے کہ ’’نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے‘‘…اور جو لوگ اس روایت سے انحراف کرتے ہیں وہ ادبی روایت سے عدم آگاہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ان کا یہ رویہ خود ان کے لیے باعث ِخسران اور نعتیہ ادب کی تخلیق کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے۔