Search This Blog

Friday 5 January 2018

عہد خلفائے راشدین میں امن و رواداری ۔ Peaceful period of guided Caliphs

ہماری زندگی ایک ندی کی طرح بہتی رہتی ہے

ہماری زندگی ایک ندی کی طرح بہتی رہتی ہے۔ البتہ موسموں کے اعتبار سے اس کی رفتار میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔ اس کے ہاں ایک تسلسل، ایک روانی اور ایک فطری بہاؤ ہے، چنانچہ ہم اسے ہفتوں، مہینوں اور عشروں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ آپ ماضی میں جو کچھ بو چکے ہیں، اس کی فصل آپ مستقبل میں کاٹیں گے۔ اسلامی تعلیمات میں ایک ایک لمحہ شمار ہوتا ہے کہ اس کا حساب یومِ آخرت کو دینا ہو گا۔ اس لیے ہر شب سونے سے پہلے اپنا احتساب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ آج کے دن کتنے حقوق العباد ادا کیے اور رَب عرش کریم کے حضور کس خضوع و خشوع سے پیش ہوئے۔ زندگی اگر اس انداز سے منظم کر لی جائے، تو منصوبہ بندی کے لیے مہینوں اور برسوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور اپنی ذمہ داریوں اور آرزوؤں کا ایک پروگرام ازخود ترتیب پاتا ہے جس پر عمل درآمد کا شعور پوری طرح بیدار اور ضوفشاں رہتا ہے۔ یہی شعور آپ کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے اور اس کے صحیح استعمال سے جو خوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس پر آپ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں اور خود احتسابی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر نیا روز ایک نئے سال کی حیثیت سے طلوع ہوتا ہے۔
الطاف  حسین قریشی

بن الہیثم ایک عظیم مسلمان سائنس دان ۔ Al-Haitam a great scientist




ابن الہیثم
ایک عظیم مسلمان سائنس دان

(امیر سیف اللہ سیف)
یورپی ماہرین عام طور پر یہ باور کراتے ہیں کہ نشاط ثانیہ کے دور کے تمام عرصے میں دنیا میں کوئی بڑی سائنسی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مغربی یورپ کی حد تک تو اس بیان میں حقیقت ضرور ہے کیونکہ اس عرصے میں تمام مغربی یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات دنیا کے دوسرے حصوں اور خاص طور پر عرب دنیا کی حد تک قطعی غیر حقیقی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ مغربی مورخین اپنےحسد اور تعصب کے باعث اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکا ر کرتے ہیں یا کم از کم اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جوتحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ ترقی یافتہ سائنس کے لئے بنیادبنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور میں مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی اور ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الہیثم کا نام شاید سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔
ابن الہیثم کا پورا نام ”ابو علی الحسن بن الہیثم“ہےلیکن ان کی عمومی شہرت، ابن الہیثم کے نام سے ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 354 ہجری (965ء)اور وفات 430 ہجری میں ہوئی ۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، انجنیئرنگ، فلکیات اورادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔
تقریباً تمام درسی کتب میں لکھا ہے کہ جدید بصری علوم کے بانی آئزک نیوٹن تھے۔ عدسوں اورمنشور پر کئے گئے روشنی کے تجربات مثلاً روشنی کا انعکاس،ا نعطاف اور منشور سےسفید روشنی گزار کر اس کے مختلف رنگوں کا مشاہدہ وغیرہ سب نیوٹن سے منسوب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ماہر طبعیات تھے لیکن یہ گمان کہ بصری علوم کے پہلے ماہر نیوٹن تھے، تاریخی شواہد کی رو سے قطعاً غلط ہے۔ نیوٹن سے سات سو سال قبل ابن الہیثم نے بصریات پر تحقیق کی اور قدیم نظریات کو غلط ثابت کیا۔
ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ ان کی کتاب ”کتاب المناظر“بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے افلاطون، بطلیموس اوراس وقت کے کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی کی شعاع نکل کر کسی جسم سے ٹکراتی ہے تو ہمیں وہ جسم نظر آتا ہے۔ ابن الہیثم نے اس نظریہ کو قطعاً رد کیا اور ثابت کیا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ روشنی کی شعاع آنکھ سے نکل کر جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ جسم سے منعکس ہونے والی روشنی ہماری آنکھ کے عدسے پر پڑتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو ریاضی کی مدد سے ثابت بھی کیا جواس وقت تاریخ میں پہلی مثال تھی۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف دریافت کیا۔ انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے. انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں آج کی جدید سائنس رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔ ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
ابن ابی اصیبعہ ”عیون الانباء فی طبقات الاطباء“میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے۔ وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”۔
یورپی تاریخ نویسوں کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ جدید سائنسی طرز عمل سترہویں صدی کے اوائل میں فرانسس بیکن اور رینے ڈیکارٹ نے متعارف کروایا تھا۔ تاہم تاریخی شواہد اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن الہیثم ہی نے اس جدید سائنسی ضابطۂ عمل کو متعین کیا اور ان ہی کو اس کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو سائنسدان معلومات کے حصول، معلومات کی درستگی، الگ الگ معلومات کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے اورمشاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کو بنیاد بنا کر سائنسدان اپنا تحقیقی کام کرتے ہیں۔
ابن الیثم 996 ء میں فاطمی خلافت، مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔
قفطی کی ”اخبار الحکماء“میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:

“لو کنت بمصر لعملت بنیلھا عملاً یحصل النفع فی کل حالہ من حالاتہ من زیادہ ونقصان”
ترجمہ: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات (یعنی اس میں پانی کم ہوتا یا زیادہ) میں نفع ہی ہوتا”
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا۔ ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے (جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے) تو ان کو اندازہ ہوا کہ اس وقت کےموجودہ وسائل اور تکنیکی سہولتوں کی ناکافی دستیابی کے باعث یہ کام ناممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کردیا ہے جسے پورا کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا اور الحاکم بامراللہ سےمعذرت کر لی۔ الحاکم بامراللہ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔ چند شواہد کی بنیاد پر ابن الہیثم نے الحاکم بامراللہ کی خاموشی کو وقتی چال سمجھا اور سزا سے بچنے کے لئے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ الحاکم بامر اللہ کی موت تک ابن الہیثم نے یہ مظاہرہ جاری رکھا۔ یہ عرصہ1011ء سے 1021ء تک، دس سال کی طویل مدت پر مبنی تھا۔ ایک اور حوالے کے مطابق ابن الہیثم کو دریائے نیل پر بند باندھنے میں ناکامی کی پاداشت میں دس سال کی مدت تک نظر بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو،کہتے ہیں کہ اس مدت کے اختتام پر ابن الہیثم نے جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی تھی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کردیا تھا۔
جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں۔ سکندریہ میں ایک محقق نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے پاس ابن الہیثم کا فلکیات کے موضوع پر تحریر کردہ ایک مقالہ موجود ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔اس مقالے میں ابن الہیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کوپر نیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ ابن الہیثم کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں۔
1.کتاب المناظر.2. کتاب الجامع فی اصول الحساب.3. کتاب فی حساب المعاملات.
4.کتاب شرح اصول اقلیدس فی الہندسہ والعدد.5.کتب فی تحلیل المسائل الہندسیہ.6. کتاب فی الاشکال الہلالیہ.
7.مقالہ فی التحلیل والترکیب.8.مقالہ فی برکار الدوائر والعظام.9.مقالہ فی خواص المثلث من جہہ العمود.
10. مقالہ فی الضوء.11.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالقطوع.12.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالدوائر.
13.مقالہ فی الکرہ المحرقہ.14.کقالہ فی کیفیہ الظلال.15.مقالہ فی الحساب الہندی.
16. مسألہ فی الحساب.17. مسألہ فی الکرہ.18.کتاب فی الہالہ وقوس قزح.
19.کتاب صورہ الکسوف.20. اختلاف مناظر القمر.21. رؤیہ الکواکب ومنظر القمر.
22.سمت القبلہ بالحساب.23. ارتفاعات الکواکب.24. کتاب فی ہیئہ العالم.
بعض محققین کا خیال ہے کہ ابن الہیثم نے طب اور فلسفہ کے موضوعات پر بھی مقالے تحریر کئے تھے۔

علّامہ اقبال اور عطائی Allama Iqbal aur Atai

علّامہ اقبال اور عطائی
عرفان صدیقی
زندگی ایسے واقعات کے تسلسل کا نام ہے، جو بڑی حد تک انسان کی اپنی گرفت میں نہیں ہوتا۔ بلاشبہہ انسان کے اپنے عزم، محنت، جدوجہد اور تگ و تاز کی بھی بڑی اہمیت ہے، لیکن ’لالے کی حنا بندی‘ میں اہم کردار فطرت ہی کا ہوتا ہے۔ پردۂ تقدیر میں کیا چھپا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس میں بھی خالقِ ارض و سما کی ان گنت حکمتیں پوشیدہ ہیں، وگرنہ معلوم نہیں انسان کی زندگی کیسا بے ذوق تماشا  بن جاتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی زندگی میں کب، کس مرحلے پر، کس آن کون سا سعید لمحہ، سینۂ افلاک سے پھوٹ کر، اُس کے دامن کو مالا مال کر جائے گا۔ یکایک اُس کے دامن کے سب داغ دھبے دُھل جائیں گے، اور وہ صبح ازل کی طرح اجلا اور شفاف ہو جائے گا۔ اسی طرح کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کس آن، کوئی لمحہ ایک سانحہ سا بن کر اُس کی زندگی میں آ ٹپکے گا اور چشم زدن میں اس کی عمر بھر کی کمائی کو گٹھڑی میں باندھ کر غائب ہو جائے گا، اور وہ بھرے شہر میں بے سروساماں ہوکر رہ جائے گا۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘ کہ اللہ کسی پر مہرباں ہو، اُس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، اُسے کسی ایسے کارِ خاص کے لیے چُن لے، جو اُس کے لیے زندگی بھر کا ہی نہیں، آنے والے کئی زمانوں کے لیے بھی اثاثہ اور صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اس کرم و عطا کی حکمت آموز مثالیں ہمیں کثرت سے ملتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آفتابِ رسالت طلوع ہوا اور غار حرا سے اسلام کے مہرِتاب دار نے انگڑائی لی، تو کچھ عالی نصیب ایسے تھے، جنھیں ایمان کی بے بہا دولت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت کا بلند اعزاز عطا ہوا۔ مگر اُسی شہر مکہ میں کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے، جو بدستور تاریکیوں میں بھٹکتے اور اپنے لیے آگ سمیٹتے رہے:
حسنؓ ز بصرہ، بلالؓ از حبش، صہیبؓ از روم
زخاکِ مکہ ابوجہل، ایں چہ بو العجبی ست
)
کیا عجیب بات ہے کہ بصرہ سے حسن بصریؓ، حبشہ سے بلال حبشیؓ اور روم سے صہیب رومیؓ جیسے صحابہ کرامؓ پیدا ہوئے اور خود مکہ کی خاک پاک سے ابوجہل نے جنم لیا۔(
اس ’بوالعجبی‘ کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔ کسی پر اللہ نے رحمتوں اور برکتوں کے دَروا کر دیے اور وہ محبوب و مقبول ٹھیرا۔ کسی کے لیے محرومیاں اور نامرادیاں مقدر کر دی گئیں اور وہ راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کا معیار کیا ہے؟ اللہ کس کسوٹی پر پرکھتا ہے؟ کس ترازو میں تول کر مقبول و مردود کے فیصلے صادر کرتا ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ انسان کی محدود عقل اس راز کو پانے کی قدرت نہیں رکھتی:
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
٭

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں چُن لیا جاتا ہے۔ اللہ انھیں اپنی بے پایاں عنایات کی آغوش میں لے لیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قربتوں اور اس عہدِسعید کی برکتوں سے براہِ راست فیض یاب ہوئے،مگر ایسے بامراد ہر دور میں گزرے ہیں، جن کے دلوں میں عشقِ رسولؐ کا چراغ روشن ہوا اور ان کی زندگی کے ہر لمحے کو فروزاں کر گیا۔
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان،اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اُس کا نام محمد رمضان [م:۷ جمادی الاول ۱۳۸۸ھ/۲؍اگست۱۹۶۸ء] رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی اے کے بعد بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر، سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکارِ انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسولؐ سے سجا تھا۔ ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اورکندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اُردو میں شعر کہتے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے عشاق میں سے تھے۔ اُن کے کئی اشعار پر تضمین کہی، جو علامہ نے بہت پسند کی۔ مولانا فیض محمد شاہ جمالی کے مرید اور حضرت خواجہ نظام الدین تونسویؒ کے حلقہ نشین تھے۔ ایک سیاسی خاندان کے نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگائو کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ تب اُن کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی[م:۱۹۶۴ء]، ڈیرہ غازی خان میں سب جج تھے [جو ڈیرہ کے علاوہ، لدھیانہ، امرتسر، ہوشیارپور میں سب جج اور ۱۹۴۷ء کے بعد ریٹائرمنٹ تک لاہور میں سیشن جج رہے۔] ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ آپ انیس ناگی [م:۲۰۱۰ء] کے والد اور معروف صحافی واصف ناگی کے دادا تھے۔ علامہ اقبال سے گہری محبت رمضان عطائی اور ابراہیم ناگی کے درمیان دوستانہ قربت کی قدرِ مشترک تھی۔ مولانا ابراہیم کو   علّامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ایک دن مولانا محمدابراہیم لاہور گئے اور علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی ۔ واپس آئے تو سرِشام معمول کی محفل جمی اور علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولاناابراہیم نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا، او رکہنے لگے: ’’لوعطائی، علامہ صاحب کی تازہ رُباعی سنو‘‘۔ پھر وہ عجب پُر کیف انداز میں پڑھنے لگے:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر
مولانا محمد ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم ِ وجد میں فرش پر گرے، چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گئے۔ رُباعی اُن کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اُٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہتے۔ اُنھی دنوں حج پر گئے۔ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ: ’جب حجاج اوراد اور وظائف میں مصروف ہوتے تو میں زاروقطار روتا اور علامہ کی رُباعی پڑھتا رہتا۔‘ حج سے واپسی پر عطائی کے دل میں ایک عجیب آرزو کی کونپل پھوٹی: ’’کاش! یہ رُباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی‘‘۔
یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا: ’’آپ سر ہیں، فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار، لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی‘‘۔ انھوںنے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے چیدہ چیدہ فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’’فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رُباعی مجھے عطا فرما دیں‘‘۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنھیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
’’
جناب محمد رمضان صاحب عطائی
سینئر انگلش ماسٹر، گورنمنٹ ہائی سکول، ڈیرہ غازی خان
جنابِ من! میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رُباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
      
فقط
لاہور: ۱۹ فروری۱۹۳۷ء     محمد اقبال
علامہ کی یہ عطا، جنابِ عطائی کے لیے توشۂ دو جہاں بن گئی۔ علامہ نے یہ رُباعی اپنی نئی کتاب ارمغانِ حجاز کے لیے منتخب کر رکھی تھی، مگر عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انھوں نے اسے کتاب سے خارج کرکے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رُباعی کہی جوارمغانِ حجاز  میں شامل ہے:
بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر
شَود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکُن رُسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ مَن زچشمِ او نہاں گیر
)
اے میرے رب! جب (روز قیامت) یہ جہانِ پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اُس دن مجھے میرے آقا ومولاؐ کے حضور رُسوا نہ کرنا اور میرا نامۂ اعمال آپؐ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔(
عطائی ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو شکریہ ادا کرنے کے لیے حضرت ِ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چودھری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے‘‘۔
علامہ ایک کُھرّی جھلنگا چارپائی پر سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے: ’’عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘۔ رُباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا: ’’تو غنی از ہر دوعالم…‘‘ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔ اس کے بعد عطائی کی علامہ سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔
محمد رمضان عطائی کی آخری ملاقات علامہ اقبال سے ان کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ انھوں نے علامہ سے کہا: ’’سنا ہے جناب کو دربارِ نبویؐ سے بلاوا آیا ہے‘‘۔ علامہ آبدیدہ ہو گئے… آواز بھرا گئی۔ بولے:’’ہاں! بے شک، لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے۔ آنکھوں میں موتیا اُتر آیا ہے۔ یار کے دیدار کا لطف دیدۂ طلب گار کے بغیر کہاں؟‘‘ عطائی نے کہا: ’’جانا ہو تو دربار نبویؐ میں وہ رُباعی ضرور پیش فرمائیے گا، جو اَب میری ہے‘‘۔ علامہ زاروقطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا: ’’عطائی! اس رُباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے‘‘۔
۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال انتقال فرما گئے۔ عرصے بعد بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کی سیڑھیوں سے متصل اُن کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی، تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب سا شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پہ آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پر نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا، کبھی مزار کے گرد چکر کاٹنے لگتا۔ اُس پروانے کا نام محمد رمضان عطائی ہی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے: ’’ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گہر تو اُڑا لے گیا۔ بخدا، اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نوازؔ  (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے، تو میں اپنی تمام جایداد دے کر یہ رُباعی حاصل کر لیتا اورمرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا‘‘۔
محمد رمضان عطائی سنیئر انگلش ٹیچر نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے قبل اپنی وصیت میں لکھا: ’’میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پر لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا‘‘۔ مجھے معلوم نہیں پسِ مرگ اُن کے کسی وارث نے اس عاشقِ رسولؐ کی پیشانی پر وہ رباعی لکھی یا نہیں۔
چند سال قبل، مَیں خاص طور پر محمد رمضان عطائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ڈیرہ غازی خان گیا۔ ’ملا قائد شاہ‘ کے قدیم قبرستان میں ایک پرانی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ لوحِ مزار پر کندہ تھا:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہِ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر


ہندوستان میں خادمانِ حدیث کا اوّلین قافلہ Knowledg of Hadith in Early days in India

ہندوستان میں خادمانِ حدیث کا اوّلین قافلہ
محمد حبیب اللہ
 تاریخ کےطالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہندوستان ان خوش قسمت ممالک میں  ہے جہاں اسلام قرن اول یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی میں داخل ہوچکا تھا تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کے ان اولین سپہ سالاروں نے جس سرزمین کو بھی اپنی آمد کا شرف عطا کیا وہاں اپنے محبوب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ’’الا فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ ۱ ؎ کی بھرپور تعمیل کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ محمد بن قاسم کے وقت سے ہی علوم اسلامی بھی ہندوستان میں داخل ہوئے اور قال اللہ وقال الرسول کی صدائے بازگشت فضائے ہند میں گونجنے لگی۔
 عربوں کا پہلا داخلہ سندھ میں صحابہ کرامؓ کے عہد میں ہی ۲۳ھ؁ مطابق ۶۴۳ء؁ میں ہوا تھا بعدمیں محمد بن قاسم سندھ سے آیا اُس وقت علم حدیث ارتقائی منزل میں پہنچ چکا تھا، اس کے چند سال بعد ہی حضرت عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت (۹۹ تا ۱۰۱ھ) میں ان کی توجہ کے سبب علم حدیث میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی، انھوں نے دار الحکومت سے عمومی فرمان جاری کیا کہ حدیث کے متفرق اور منتشر ذخیرے کو جمع کیا جائے اور خصوصی طور پر قاضی ابوبکربن حزم متوفی ۱۲۰ھ؁ اور امام حدیث محمد ابن شہاب زہری متوفی ۱۲۵ھ؁ کو لکھا کہ حدیث کے سرمایہ کو جو علمائے امت کے سینوں میں منتشر ہے اسے جلد از جلد جمع کرلیا جائے ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان علماء کے ساتھ یہ علم بھی دنیا سے اٹھ جائے۔خلیفہ راشد کا یہ فرمان جاری ہونا تھا کہ محمد ابن شہاب زہری نے کتب احادیث کے مجموعے لکھ کر خلیفہ کوپیش کر دیئے۔ دیگر علماء نے بھی حدیث کی جمع و تدوین کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی اور علم حدیث کو بے حد ترقی ہوئی۔
علم حدیث سندھ میں اسی ارتقائی عہد میں داخل ہوا تھا۔ لیکن منصورہ اور ملتان میں عربوں کی آزاد حکومت قائم ہونے سے قبل یہاں اس علم کو قابل قدر ترقی نہیں ہوئی اسی وجہ سے جب دیگر اسلامی ممالک میں علم حدیث کی تدوین دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہورہی تھی تو سندھ اس میں حصہ نہیں لے سکا لیکن قبائل سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھی محدثین جو عراق کو اپنا وطن بنا چکے تھے علم حدیث کی اشاعت میں مصروف تھے، جن میں شام کے علاقہ میں الاوزاعی متوفی ۲۲۲ھ؁ اور مدینہ منورہ میں نجیح سندھی متوفی ۱۷۰ھ؁ اور بغداد میں رجاء سندی متوفی ۲۲۲ھ؁ اور رجاء سندھی کے پوتے محمد سندھی متوفی ۲۸۶ھ؁ اور انھیں کے دوسرے پوتے خلف السندی متوفی ۲۳۱ھ؁ یہ تمام حضرات اس علم کی اشاعت و ترقی میں گرانقدر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان حضرات کی روایت کردہ احادیث صحاحِ سۃ اور حدیث کی دوسری کتب میں موجود ہیں۔
اسی زمانے میں جب یہ مذکورہ بالا محدثین بیرون ہند علم حدیث کی ترقی و اشاعت میں حصہ لے رہے تھے تو عرب کی آزاد حکومتوں کی سرپرستی میں علاقہ سندھ میں منصورہ اور ملتان کے مراکز قائم ہوچکے تھے جہاں سے اچھے محدثین نکلے جنھوں نے علم حدیث میں صداقت و مہارت حاصل کرنے کے لئے اپنے طلباء کو ہندوستان کے باہر اسلامی ممالک میں بھیجا تاکہ وہاں سے واپس آکر علم حدیث کی صحیح طریقہ سے خدمت انجام دے سکیں۔چوتھی صدی ہجری میں واقعی طور سندھی محدثین نے علم حدیث کی ترقی میں انتہائی لیاقت ومہارت کا ثبوت پیش کیا لیکن جب اسماعیلیوں نے چوتھی صدی ہجری کے آخر میں ان ریاستوں پر قبضہ کرلیا تو دفعتہ سندھی محدثین کی یہ سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
علم حدیث کے دوسرے دور کا آغاز سلطان ہند سلطان محمود غزنوی (۳۸۸ تا ۴۲۱) کے عہد سے ہوتا ہے، سلطان محمود غزنوی اور ان کے جانشینیوں کے عہد میں لاہور علم حدیث کا مرکز بنا اسی دور میں حدیث کی معروف کتاب مشارق الانوار لکھی گئی جو ایک مدت تک ہندوستان میں حدیث کی منتہی کتابوں میں شمار کی جاتی تھی۔ہندوسان میں علم حدیث کے ترقی کا تیسرا دور ۶۰۲ھ؁ مطابق ۱۲۰۶ء؁ میں سلطنت دہلی کی ابتدا سے شروع ہوتا ہے باوجودیکہ ترکوں کی حکومت کی ابتدائی صدیوں میں فقہا کا زیادہ زور تھا اور شاہی مناصب، قضا وغیرہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے علماء فقہ کی طرف زیادہ متوجہ تھے لیکن اس دور میں بھی ہندوستان میں چند ہستیاں ایسی تھیں جو اس علم کی خدمت میں منہمک اور مصروف نظر آتی ہیں۔
چوتھا دور جو ہندوستان میں علم حدیث کا زریں دور کہا جاتا ہے اس کا آغاز بہمنی اور مطفر شاہی حکومتوں کے قیام کے بعد بحری راستوں کے کھلنے سے ہوتا ہے جس کی شادابی آج تک قائم ہے اور برابر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
سندھ میں علم حدیث
پہلی صدی ہجری کی آخری دہائی میں سندھ میں عربوں کی حکومت کے قیام سے عربوں کے لئے بحری راستوں کے علاوہ خشکی کا راستہ بھی دستیاب ہوگیا، اس طرح سندھ کو بری اور بحری دونوں راستوں سے عرب سے مربوط ہونے کا موقع ملا اور ان ملکوں کے درمیان آمدو رفت اور مواصلات کی آسانیاں حاصل ہوگئیں۔ ۹۳ھ؁ مطابق ۷۱۱ء؁ میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور سندھ میں عرب کثرت سے آباد ہونے لگے، عرب آباد کاری میں محمد بن قاسم کی دلچسپی ۲؎ کی وجہ سے سندھ کے پورے علاقہ میں عرب آبادیاں پھیل گئیں اور دیبل سے ملتان تک اہم بندرگاہوں اور شہروں میں عرب آباد ہوگئے۔۳؎
آباد کاروں کے علاوہ عرب سپاہیوں نے بھی سندھ میں سکونت اختیار کی جس کی وجہ سے سندھ کے علاقہ میں عربوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی، ۴؎  صرف ملتان میں محمد بن قاسم نے پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج مستقل طور پر بسار کھی تھی جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عربوں کی آبادی کس قدر بڑھ چکی تھی، اس لئے کہ ملتان کے علاوہ دوسرے مقامات میں بھی عرب فوجیں مستقل طور پر تعینات تھیں۔وہ مقامات جہاں عرب آبادیاں قائم ہوئیں جیسے منصورہ، ملتان، دیبل وغیرہ سندھ میں علوم اسلامی کے مراکز تھے۔سندھ میں اسلامی علوم کے آغاز اور ان کی اشاعت کے بارے میں سب سے پہلا اور باقاعدہ ثبوت محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے وقت سے ملتا ہے۔ چنانچہ یہ امر صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ عرب فوج میں بہت سے قراء تھے جن کو حجاج کی طرف سے تاکید تھی کہ تلاوت قرآن پاک پابندی سے کریں ۔ ۵؎  ان کے علاوہ فوج میں بہت سے ماہرین علوم قرآن وسنت بھی تھے۔ ۶؎
سندھ کے محدثین اولین
یہاں ان محدثین کا ذکر کیا جائے گا جنھوں نے سندھ میں علم حدیث کی اہم خدمات انجام دیں اور اس علم کی ترقی و اشاعت میں حصہ لیا۔
۱-موسی بن یعقوب الثقفی
یہ محمد قاسم کے ساتھ سندھ آئے تھے اور محمد بن قاسم نے ان کو الور کا قاضی مقرر کیا تھا، موسی بن یعقوب مستقل طور پر سندھ میں آباد ہوگئے تھے وہ سنت رسول کے بڑے عالم تھے، ان کا خاندان مدت تک اُچھ میں علم و فضل کے لئے شہرت کا حامل تھا جس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ صدیوں بعد ۶۱۳ھ؁ مطابق ۱۲۱۶ء؁ میں اسماعیل بن علی الثقفی جو ان کی اولاد میں تھے چشمۂ علم و دانش تصور کئے جاتے تھے اور علم و فضل، ورع و تقویٰ اور فصاحت و بلاغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔۷؎
۲-یز بن ابی کشا السکسکی الدمشقی
۹۶ھ؁ مطابق ۷۱۴ء؁ میں جب سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلایا اور ان کی جگہ یز بن ابی کشا کو مقرر کیا یزید بن ابی کشا سندھ میں زیادہ دن نہیں رہ سکے سندھ آنے کے بعد اٹھارہ دن بعد ہی ۹۷ھ؁ مطابق ۷۱۵ء؁ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ۸؎
یزید بن ابی کشا تابعی تھے، انھوں نے ابو در داء، شر جیل  ۹؎  بن اوس اور مروان ۱۰؎  بن الحکم سے بہت سی احادیث سنی تھیں، نقاد حدیث ان کو ثقہ راویوں میں شمار کرتے ہیں، ابو بشر، الحکم بن العتیبہ ، علی بن الاقمر، معاویہ بن قر المزنی اور ابراہیم السکسکی مشہور راویان حدیث ہیں ۱۱؎  جو یزید بن ابی کشا کے شاگردوں میں ہیں، ان سے مروی احادیث کتاب الآثار محمد بن حسن الشیبانی ، ۱۲؎  صحیح بخاری اور مستدرک حاکم میں موجود ہیں۔
۳-مفضل بن مہلب بن ابی صفرہ
یزید بن عبد الملک کے زمانہ خلافت میں ایک سابق والی خراسان یزید بن مہلب کے زیر سر کردگی ۱۰۲ھ؁ مطابق ۷۲۴ء؁ میں عراق میں ایک بہت بڑی بغاوت ہوئی جس میں بنوامیہ کے خلاف یزید بن مہلب کو کوفہ اور بصرہ کی تائید حاصل ہوگئی اور ابتدا میں اسے نمایاں فتوحات حاصل ہوتی گئیں، چنانچہ فارس،اہوار، کرمان اور قندابیل کے صوبے جن کا سلسلہ دریا ئے سندھ کے کناروں تک پہنچتا تھا ، خلیفہ وقت یزید بن عبد الملک کے ہاتھ سے خارج ہوگئے اور یزید بن مہلب نے یہاں اپنے والی مقرر کئے۔ ۱۳؎  اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے خلیفہ نے اپنے بھائی مسلمہ بن عبد الملک کو روانہ کیا، ایک زبردست معرکے میں یزید بن مہلب اور اس کے لڑکے مارے گئے اور اس خاندان کے جو لوگ بچ گئے وہ ایک کشتی میں فرار ہوکر قندابیل ۱۴؎  پہنچے جو اس وقت سندھ کا ایک صوبہ تھا۔ ۱۵؎  لیکن موت ان پر منڈلا رہی تھی یزید بن عبد الملک کا عامل ہلال بن التیمی جب ان لوگوں کا پیچھا کرتا ہوا قند ابیل پہنچا تو والی قندابیل وراء بن حامد نے جس کو خود یزید بن المہلب نے اس عہدہ پر مقرر کیا تھا غداری کی لیکن مہلب بن ابی صفرہ کے لڑکوں نے اپنے آپ کو ہلال بن التیمی کے حوالے نہیں کیا بلکہ جم کر مقابلہ کیا اور اکثر لوگ آخر دم تک لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ۱۶؎
قندابیل میں مہلب بن ابی صفرہ کے جو لڑکے مارے گئے انھیں میں مفضل بن المہلب بھی تھے جو حدیث کے راوی تھے، وہ تابعی ۱۷؎  ہیں اور نعمان بن بشیرؓ ۱۸؎ صحابی رسول سے حدیث روایت کرتے ہیں، ان کے لڑکے حاجب، ثابت بنانی متوفی ۱۲۷ھ؁ اور حریز بن حازم المفضل سے حدیث نقل کرتے ہیں۔۱۹؎ابن حبان اور علم حدیث کے دوسرے نقاد نے مفضل بن مہلب کو ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ ۲۰؎
۴-ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ البصری متوفی ۱۵۵ھ؁ مطابق ۷۷۱ء؁
یہ بصرہ کے رہنے والے تھے، غالب یہ ہے کہ تجارت کی عرض سے سندھ آئے تھے اور وہیں قیام پزیر ہوگئے تھے اسی لئے ان کا لقب نزیل السند معروف و مشہور ہے، صاحبِ میز ان الاعتدال لکھتے ہیں ’’ابو موسیٰ البصری نزیل السند عن الحسن و جماعۃ وعنہ حسین الجعفی و یحییٰ القطان و ثقۃ ابو حاتم و ابن معین و شد الازدی فقال فیہ لین۔‘‘ ۲۱؎ ابو موسی البصری نزیل السند حضرت حسن اور ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں اور ان سے حسین جعفی اور یحییٰ القطان روایت کرتے ہیں، ابو حاتم اور ابن معین نے ان کوثقہ راوی قرار دیا ہے اور الازدی نے ان کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں لین ہے۔
ابو موسیٰ اسرائیل حضرت حسن بصری متوفی ۱۱۰ھ؁ اور ابو حازم اشجعی سے حدیث روایت کرتے ہیں، ابو موسیٰ ثقہ راوی تھے، علم حدیث میں ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ؁ ، سفیان بن عینیہ متوفی ۱۹۸ھ؁ اور یحییٰ بن سعید القطان متوفی ۱۹۸ھ؁ جیسے اکابر فن اور ماہرین حدیث ان کے شاگردوں میں ہیں۔۲۲؎
امام محمد بن اسماعیل البخاری نے اپنی صحیح میں چار مقامات پر ان سے مروی احادیث کا حوالہ دیا ہے، سنن کی کتابوں میں بھی ابو موسیٰ کی روایت کردہ احادیث موجود ہیں۔ ۲۳؎
۵-عمرو بن مسلم باہلی
عمرو بن مسلم ماوراء النہر کے نامور فاتح قتیبہ بن مسلم کے بھائی ہیں۔ ۲۴؎  عمر بن عبد العزیز نے ان کو اپنا والی بناکر سندھ بھیجا تھا، انھوں نے ہندوستان پر متعدد بار کئی کامیاب حملے کئے عمرو بن مسلم کے دور ولایت میں خلیفہ کی دعوت پر بہت سے راجائوں نے اسلام قبول کیا انھیں اسلام قبول کرنے والوں میں مشہور راجہ داہر کا لڑکا سنہا بھی شامل ہے۔ ۲۵؎
عمرو بن مسلم نے ایک سپاہیانہ زندگی گذار نے کے باوجود علم حدیث کی ترقی میں بھی حصہ لیا، وہ یعلی بن عبید سے احادیث روایت کرتے ہیں اور عمر وبن مسلم سے ابو طاہر نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ ۲۶؎
عمرو بن مسلم کی تاریخ وفات کا صحیح علم نہیں لیکن بقول طبری عمرو بن مسلم ۱۲۰ھ؁ مطابق ۷۳۸ء؁ میں مرو کے عامل تھے۔ ۲۷؎  اس لئے یہ امریقینی ہے کہ انکا انتقال ۱۲۰ھ؁ کے بعد ہوا۔
۶-ربیع بن صبیح-۲۸؎  السعدی البصری
ربیع بن صبیح کی کنیت ابو بکر ہے اور ابن سعد نے ابو حفص لکھا ہے۔ ۳۹؎  ربیع بن صبیح ۱۶۰ھ؁ مطابق ۷۷۶ء؁ میں ایک بحری فوج کے ساتھ ہندوستان آئے تھے جس نے المہدی ۱۵۸ھ؁ تا ۱۶۹ھ؁ کے عہد خلافت میں عبد الملک بن شہاب المسمعی کی سرکردگی میں بربد پر حملہ کیا تھا۔ ۳۰؎  عربوں نے بربد کا علاقہ فتح کرلیا جو اس وقت ایک اچھا بندرگاہ تھا۔ اب اس جگہ کو بھاربھٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو بڑوچ کے قریب واقع ہے۔
فتح بربد کے بعد عربوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا وطن کی واپسی کی غرض سے موافق ہوائوں کے انتظار میں وہ بربد میں مقیم تھے ان ہی ایام میں ساحلی علاقوں میں وبائے طاعون پھیلنے کے سبب ان کا جانی نقصان بہت ہوا۔ اسی وبا میں ربیع بن صبیح بھی ۱۶۰ھ؁ مطابق ۷۷۶ء؁ میں فوت ہوئے طبقات ابن سعد کے مطابق ربیع بن صبیح کا انتقال سفر کے دوران ہوا اور ان کو کسی جزیرے میں دفن کیاگیا۔ ۳۱؎  ابن عماد کا بھی یہی قول ہے ابن عماد نے یہ تصریح کی ہے کہ ان کا انتقال واپسی کے سفر کے دوران ہوا۔ ۳۲؎
ربیع بن صبیح حضرت حسن بصری کے شاگرد تھے، انھوں نے حضرت حسن بصری سے حدیث کا درس لیا تھا، حضرت حسن بصری کے علاوہ اس عہد کے کبار محدثین، حمید الطویل متوفی ۱۴۲ھ؁، ثابت بنانی متوفی ۱۲۷ھ؁ اور مجاہد بن جمیر جیسے حضرات سے بھی انھوں نے علم حدیث حاصل کیا تھا۔
ربیع بن صبیح اپنے معاصرین میں ایک ممتاز راویِ حدیث شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں محدثین کی ایک پوری جماعت ہے۔ ۳۳؎  جن میں عبد اللہ بن المبارک متوفی ۱۸۱ھ؁ سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ؁ و قیصی متوفی ۱۹۷ھ؁، ابو دائود الطیالسی متوفی ۲۰۳ھ؁ اور عبد الرحمن بن المہدی متوفی ۱۹۸ھ؁ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ حضرت ربیع بن صبیح ان مؤلفین حدیث میں ہیں جنھوں نے دوسری صدی ہجری میں حدیث کی تدوین و اشاعت میں بہت اہم کار نامہ انجام دیا۔ ۳۴؎
حوالہ وحواشی
۱؎              ابوالحسین مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم کتاب القسامہ ، ج ۲ ص ۶۱ ، وصح المطابع ۱۳۷۶ھ، ابوعبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری، صحیح بخاری، ج اکتاب العلم، ص ۱۶، اصح المطابع، ۱۳۷۵ھ۔
۲؎             ابوالحسن احمدبن یحییٰ البلاذری،فتوح البلدان،ص ۴۲۵، طبع اول ۱۳۵۰ھ المطبعۃ المعریۃ، الازھر۔
۳؎             سیدسلیمان ندوی،عرب وہند کے تعلقات ،ص:۳۰۴،الٰہ آباد ،۱۹۳۰ء؁
۴؎             انڈیازکنٹربیوشن ٹوحدیث لٹریچر اردوترجمہ شاہدحسین رزاقی،روبی پرنٹنگ پریس دہلی ۱۹۸۳ء؁
۵؎             علی بن حامدبن ابی بکر الکوفی،چچ نامہ ،ص:۷۸(فتحنامہ ٔ سندھ) مطبع لطیفی دہلی،۱۹۳۹ء؁
۶؎             ایضاً،ص:۷۹               
۷؎             چچ نامہ،ص:۸۷۔۱۸۶   
۸؎             فتوح البلدان ، ص ۴۲۸۔
۹؎             شمس الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد الذھبی،اسماء الصحابہ،تجرید ،ج:۲،ص:۱۷۵،حیدرآباد
۱۰؎            ایضاً،ج:۱،ص:۲۷۳                      
۱۱؎             ایضاً،ص:۷۵
۱۲؎            احمدبن علی معروف بہ ابن حجر،تقریب التھذیب ،ص:۳۹۹،نولکشور
۱۳؎            احمد بن علی معروف بہ ابن حجر،تہذیب التھذیب،حیدرآباد
۱۴؎            ابوالحسن علی ابن اثیر،الکامل فی التاریخ ،ج:۵،ص:۴۴،دارصادر داربیروت،۱۳۸۶ھ؁
۱۵؎            فتوح البلدان ،ص:۱۴۱   
۱۶؎            ایضاً،ص:۴۳۴
۱۷؎           ایضاً،تاریخ ابن اثیر                       
۱۸؎            الذھبی ،تجرید،ج:۲،ص:۱۱۶
۱۹؎            تہذیب ،ج:۱،ص:۳۶۲ 
۲۰؎           تقریب التھذیب ،ص:۳۶۲
۲۱؎            محمدبن احمدالذھبی ،میزان الاعتدال ،ج:۱،ص:۹۷،مطبعۃ السعادہ،۱۳۲۵ھ؁تہذیب ، ج:۱،ص:۲۶۱
۲۲؎           ابوسعد ،عبدالکریم السمعانی،کتاب الانساب ۵۹۳،دائرۃ المعارف الاسلامیہ حیدرآباد
۲۳؎           صفی الدین،خلاصہ ،ص:۳۱
۲۴؎           فتوح البلدان ،صـ:۴۰۰
۲۵؎           مصطفی بن عبداللہ معروف بہ حاجی خلیفہ ،مکتبہ الجعفری طہران،کشف الظنون
۲۶؎           تہذیب ،ج:۸،ص:۱۰۵
۲۷؎           ابوجعفر محمدابن جریرطبری،ج:۲،ص:۱۶۱
۲۸؎           فتوح البلدان ،ص:۳۶۲۔
۲۹؎           ابوعبداللہ محمدبن سعددالبصری ،طبقات،ج:۱،ص:۲۷۷
۳۰؎           عرب وھند کے تعلقات ،ص:۱۸       
۳۱؎            طبقات ابن سعد،ج:۱۷۷
۳۲؎           ابن الغماد شہاب الدین بن احمد بن محمد ۱۰۳۲۔۱۰۸۹،ابوالفلاح عبدالحیٔ حنبلی دمشقی، شذرات الذھب،ج:۱،ص:۲۴۷،مکتبہ تجاری بیروت لبنان
۳۳؎           تہذیب ،ج:۳،ص:۴۸۔۲۴۷
۳۴؎           ۱۰۱۷۔۶۸،کشف الظنون عن اسالی الکتب والفنون ،یادایام ،ص:۶۰۵

(بہ شکریہ ماہنامہ زندگی نو  دہلی)