Search This Blog

Friday 5 January 2018

ہندوستان میں خادمانِ حدیث کا اوّلین قافلہ Knowledg of Hadith in Early days in India

ہندوستان میں خادمانِ حدیث کا اوّلین قافلہ
محمد حبیب اللہ
 تاریخ کےطالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہندوستان ان خوش قسمت ممالک میں  ہے جہاں اسلام قرن اول یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی میں داخل ہوچکا تھا تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کے ان اولین سپہ سالاروں نے جس سرزمین کو بھی اپنی آمد کا شرف عطا کیا وہاں اپنے محبوب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ’’الا فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ ۱ ؎ کی بھرپور تعمیل کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ محمد بن قاسم کے وقت سے ہی علوم اسلامی بھی ہندوستان میں داخل ہوئے اور قال اللہ وقال الرسول کی صدائے بازگشت فضائے ہند میں گونجنے لگی۔
 عربوں کا پہلا داخلہ سندھ میں صحابہ کرامؓ کے عہد میں ہی ۲۳ھ؁ مطابق ۶۴۳ء؁ میں ہوا تھا بعدمیں محمد بن قاسم سندھ سے آیا اُس وقت علم حدیث ارتقائی منزل میں پہنچ چکا تھا، اس کے چند سال بعد ہی حضرت عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت (۹۹ تا ۱۰۱ھ) میں ان کی توجہ کے سبب علم حدیث میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی، انھوں نے دار الحکومت سے عمومی فرمان جاری کیا کہ حدیث کے متفرق اور منتشر ذخیرے کو جمع کیا جائے اور خصوصی طور پر قاضی ابوبکربن حزم متوفی ۱۲۰ھ؁ اور امام حدیث محمد ابن شہاب زہری متوفی ۱۲۵ھ؁ کو لکھا کہ حدیث کے سرمایہ کو جو علمائے امت کے سینوں میں منتشر ہے اسے جلد از جلد جمع کرلیا جائے ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان علماء کے ساتھ یہ علم بھی دنیا سے اٹھ جائے۔خلیفہ راشد کا یہ فرمان جاری ہونا تھا کہ محمد ابن شہاب زہری نے کتب احادیث کے مجموعے لکھ کر خلیفہ کوپیش کر دیئے۔ دیگر علماء نے بھی حدیث کی جمع و تدوین کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی اور علم حدیث کو بے حد ترقی ہوئی۔
علم حدیث سندھ میں اسی ارتقائی عہد میں داخل ہوا تھا۔ لیکن منصورہ اور ملتان میں عربوں کی آزاد حکومت قائم ہونے سے قبل یہاں اس علم کو قابل قدر ترقی نہیں ہوئی اسی وجہ سے جب دیگر اسلامی ممالک میں علم حدیث کی تدوین دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہورہی تھی تو سندھ اس میں حصہ نہیں لے سکا لیکن قبائل سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھی محدثین جو عراق کو اپنا وطن بنا چکے تھے علم حدیث کی اشاعت میں مصروف تھے، جن میں شام کے علاقہ میں الاوزاعی متوفی ۲۲۲ھ؁ اور مدینہ منورہ میں نجیح سندھی متوفی ۱۷۰ھ؁ اور بغداد میں رجاء سندی متوفی ۲۲۲ھ؁ اور رجاء سندھی کے پوتے محمد سندھی متوفی ۲۸۶ھ؁ اور انھیں کے دوسرے پوتے خلف السندی متوفی ۲۳۱ھ؁ یہ تمام حضرات اس علم کی اشاعت و ترقی میں گرانقدر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان حضرات کی روایت کردہ احادیث صحاحِ سۃ اور حدیث کی دوسری کتب میں موجود ہیں۔
اسی زمانے میں جب یہ مذکورہ بالا محدثین بیرون ہند علم حدیث کی ترقی و اشاعت میں حصہ لے رہے تھے تو عرب کی آزاد حکومتوں کی سرپرستی میں علاقہ سندھ میں منصورہ اور ملتان کے مراکز قائم ہوچکے تھے جہاں سے اچھے محدثین نکلے جنھوں نے علم حدیث میں صداقت و مہارت حاصل کرنے کے لئے اپنے طلباء کو ہندوستان کے باہر اسلامی ممالک میں بھیجا تاکہ وہاں سے واپس آکر علم حدیث کی صحیح طریقہ سے خدمت انجام دے سکیں۔چوتھی صدی ہجری میں واقعی طور سندھی محدثین نے علم حدیث کی ترقی میں انتہائی لیاقت ومہارت کا ثبوت پیش کیا لیکن جب اسماعیلیوں نے چوتھی صدی ہجری کے آخر میں ان ریاستوں پر قبضہ کرلیا تو دفعتہ سندھی محدثین کی یہ سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
علم حدیث کے دوسرے دور کا آغاز سلطان ہند سلطان محمود غزنوی (۳۸۸ تا ۴۲۱) کے عہد سے ہوتا ہے، سلطان محمود غزنوی اور ان کے جانشینیوں کے عہد میں لاہور علم حدیث کا مرکز بنا اسی دور میں حدیث کی معروف کتاب مشارق الانوار لکھی گئی جو ایک مدت تک ہندوستان میں حدیث کی منتہی کتابوں میں شمار کی جاتی تھی۔ہندوسان میں علم حدیث کے ترقی کا تیسرا دور ۶۰۲ھ؁ مطابق ۱۲۰۶ء؁ میں سلطنت دہلی کی ابتدا سے شروع ہوتا ہے باوجودیکہ ترکوں کی حکومت کی ابتدائی صدیوں میں فقہا کا زیادہ زور تھا اور شاہی مناصب، قضا وغیرہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے علماء فقہ کی طرف زیادہ متوجہ تھے لیکن اس دور میں بھی ہندوستان میں چند ہستیاں ایسی تھیں جو اس علم کی خدمت میں منہمک اور مصروف نظر آتی ہیں۔
چوتھا دور جو ہندوستان میں علم حدیث کا زریں دور کہا جاتا ہے اس کا آغاز بہمنی اور مطفر شاہی حکومتوں کے قیام کے بعد بحری راستوں کے کھلنے سے ہوتا ہے جس کی شادابی آج تک قائم ہے اور برابر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
سندھ میں علم حدیث
پہلی صدی ہجری کی آخری دہائی میں سندھ میں عربوں کی حکومت کے قیام سے عربوں کے لئے بحری راستوں کے علاوہ خشکی کا راستہ بھی دستیاب ہوگیا، اس طرح سندھ کو بری اور بحری دونوں راستوں سے عرب سے مربوط ہونے کا موقع ملا اور ان ملکوں کے درمیان آمدو رفت اور مواصلات کی آسانیاں حاصل ہوگئیں۔ ۹۳ھ؁ مطابق ۷۱۱ء؁ میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور سندھ میں عرب کثرت سے آباد ہونے لگے، عرب آباد کاری میں محمد بن قاسم کی دلچسپی ۲؎ کی وجہ سے سندھ کے پورے علاقہ میں عرب آبادیاں پھیل گئیں اور دیبل سے ملتان تک اہم بندرگاہوں اور شہروں میں عرب آباد ہوگئے۔۳؎
آباد کاروں کے علاوہ عرب سپاہیوں نے بھی سندھ میں سکونت اختیار کی جس کی وجہ سے سندھ کے علاقہ میں عربوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی، ۴؎  صرف ملتان میں محمد بن قاسم نے پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج مستقل طور پر بسار کھی تھی جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عربوں کی آبادی کس قدر بڑھ چکی تھی، اس لئے کہ ملتان کے علاوہ دوسرے مقامات میں بھی عرب فوجیں مستقل طور پر تعینات تھیں۔وہ مقامات جہاں عرب آبادیاں قائم ہوئیں جیسے منصورہ، ملتان، دیبل وغیرہ سندھ میں علوم اسلامی کے مراکز تھے۔سندھ میں اسلامی علوم کے آغاز اور ان کی اشاعت کے بارے میں سب سے پہلا اور باقاعدہ ثبوت محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے وقت سے ملتا ہے۔ چنانچہ یہ امر صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ عرب فوج میں بہت سے قراء تھے جن کو حجاج کی طرف سے تاکید تھی کہ تلاوت قرآن پاک پابندی سے کریں ۔ ۵؎  ان کے علاوہ فوج میں بہت سے ماہرین علوم قرآن وسنت بھی تھے۔ ۶؎
سندھ کے محدثین اولین
یہاں ان محدثین کا ذکر کیا جائے گا جنھوں نے سندھ میں علم حدیث کی اہم خدمات انجام دیں اور اس علم کی ترقی و اشاعت میں حصہ لیا۔
۱-موسی بن یعقوب الثقفی
یہ محمد قاسم کے ساتھ سندھ آئے تھے اور محمد بن قاسم نے ان کو الور کا قاضی مقرر کیا تھا، موسی بن یعقوب مستقل طور پر سندھ میں آباد ہوگئے تھے وہ سنت رسول کے بڑے عالم تھے، ان کا خاندان مدت تک اُچھ میں علم و فضل کے لئے شہرت کا حامل تھا جس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ صدیوں بعد ۶۱۳ھ؁ مطابق ۱۲۱۶ء؁ میں اسماعیل بن علی الثقفی جو ان کی اولاد میں تھے چشمۂ علم و دانش تصور کئے جاتے تھے اور علم و فضل، ورع و تقویٰ اور فصاحت و بلاغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔۷؎
۲-یز بن ابی کشا السکسکی الدمشقی
۹۶ھ؁ مطابق ۷۱۴ء؁ میں جب سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلایا اور ان کی جگہ یز بن ابی کشا کو مقرر کیا یزید بن ابی کشا سندھ میں زیادہ دن نہیں رہ سکے سندھ آنے کے بعد اٹھارہ دن بعد ہی ۹۷ھ؁ مطابق ۷۱۵ء؁ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ۸؎
یزید بن ابی کشا تابعی تھے، انھوں نے ابو در داء، شر جیل  ۹؎  بن اوس اور مروان ۱۰؎  بن الحکم سے بہت سی احادیث سنی تھیں، نقاد حدیث ان کو ثقہ راویوں میں شمار کرتے ہیں، ابو بشر، الحکم بن العتیبہ ، علی بن الاقمر، معاویہ بن قر المزنی اور ابراہیم السکسکی مشہور راویان حدیث ہیں ۱۱؎  جو یزید بن ابی کشا کے شاگردوں میں ہیں، ان سے مروی احادیث کتاب الآثار محمد بن حسن الشیبانی ، ۱۲؎  صحیح بخاری اور مستدرک حاکم میں موجود ہیں۔
۳-مفضل بن مہلب بن ابی صفرہ
یزید بن عبد الملک کے زمانہ خلافت میں ایک سابق والی خراسان یزید بن مہلب کے زیر سر کردگی ۱۰۲ھ؁ مطابق ۷۲۴ء؁ میں عراق میں ایک بہت بڑی بغاوت ہوئی جس میں بنوامیہ کے خلاف یزید بن مہلب کو کوفہ اور بصرہ کی تائید حاصل ہوگئی اور ابتدا میں اسے نمایاں فتوحات حاصل ہوتی گئیں، چنانچہ فارس،اہوار، کرمان اور قندابیل کے صوبے جن کا سلسلہ دریا ئے سندھ کے کناروں تک پہنچتا تھا ، خلیفہ وقت یزید بن عبد الملک کے ہاتھ سے خارج ہوگئے اور یزید بن مہلب نے یہاں اپنے والی مقرر کئے۔ ۱۳؎  اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے خلیفہ نے اپنے بھائی مسلمہ بن عبد الملک کو روانہ کیا، ایک زبردست معرکے میں یزید بن مہلب اور اس کے لڑکے مارے گئے اور اس خاندان کے جو لوگ بچ گئے وہ ایک کشتی میں فرار ہوکر قندابیل ۱۴؎  پہنچے جو اس وقت سندھ کا ایک صوبہ تھا۔ ۱۵؎  لیکن موت ان پر منڈلا رہی تھی یزید بن عبد الملک کا عامل ہلال بن التیمی جب ان لوگوں کا پیچھا کرتا ہوا قند ابیل پہنچا تو والی قندابیل وراء بن حامد نے جس کو خود یزید بن المہلب نے اس عہدہ پر مقرر کیا تھا غداری کی لیکن مہلب بن ابی صفرہ کے لڑکوں نے اپنے آپ کو ہلال بن التیمی کے حوالے نہیں کیا بلکہ جم کر مقابلہ کیا اور اکثر لوگ آخر دم تک لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ۱۶؎
قندابیل میں مہلب بن ابی صفرہ کے جو لڑکے مارے گئے انھیں میں مفضل بن المہلب بھی تھے جو حدیث کے راوی تھے، وہ تابعی ۱۷؎  ہیں اور نعمان بن بشیرؓ ۱۸؎ صحابی رسول سے حدیث روایت کرتے ہیں، ان کے لڑکے حاجب، ثابت بنانی متوفی ۱۲۷ھ؁ اور حریز بن حازم المفضل سے حدیث نقل کرتے ہیں۔۱۹؎ابن حبان اور علم حدیث کے دوسرے نقاد نے مفضل بن مہلب کو ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ ۲۰؎
۴-ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ البصری متوفی ۱۵۵ھ؁ مطابق ۷۷۱ء؁
یہ بصرہ کے رہنے والے تھے، غالب یہ ہے کہ تجارت کی عرض سے سندھ آئے تھے اور وہیں قیام پزیر ہوگئے تھے اسی لئے ان کا لقب نزیل السند معروف و مشہور ہے، صاحبِ میز ان الاعتدال لکھتے ہیں ’’ابو موسیٰ البصری نزیل السند عن الحسن و جماعۃ وعنہ حسین الجعفی و یحییٰ القطان و ثقۃ ابو حاتم و ابن معین و شد الازدی فقال فیہ لین۔‘‘ ۲۱؎ ابو موسی البصری نزیل السند حضرت حسن اور ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں اور ان سے حسین جعفی اور یحییٰ القطان روایت کرتے ہیں، ابو حاتم اور ابن معین نے ان کوثقہ راوی قرار دیا ہے اور الازدی نے ان کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں لین ہے۔
ابو موسیٰ اسرائیل حضرت حسن بصری متوفی ۱۱۰ھ؁ اور ابو حازم اشجعی سے حدیث روایت کرتے ہیں، ابو موسیٰ ثقہ راوی تھے، علم حدیث میں ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ؁ ، سفیان بن عینیہ متوفی ۱۹۸ھ؁ اور یحییٰ بن سعید القطان متوفی ۱۹۸ھ؁ جیسے اکابر فن اور ماہرین حدیث ان کے شاگردوں میں ہیں۔۲۲؎
امام محمد بن اسماعیل البخاری نے اپنی صحیح میں چار مقامات پر ان سے مروی احادیث کا حوالہ دیا ہے، سنن کی کتابوں میں بھی ابو موسیٰ کی روایت کردہ احادیث موجود ہیں۔ ۲۳؎
۵-عمرو بن مسلم باہلی
عمرو بن مسلم ماوراء النہر کے نامور فاتح قتیبہ بن مسلم کے بھائی ہیں۔ ۲۴؎  عمر بن عبد العزیز نے ان کو اپنا والی بناکر سندھ بھیجا تھا، انھوں نے ہندوستان پر متعدد بار کئی کامیاب حملے کئے عمرو بن مسلم کے دور ولایت میں خلیفہ کی دعوت پر بہت سے راجائوں نے اسلام قبول کیا انھیں اسلام قبول کرنے والوں میں مشہور راجہ داہر کا لڑکا سنہا بھی شامل ہے۔ ۲۵؎
عمرو بن مسلم نے ایک سپاہیانہ زندگی گذار نے کے باوجود علم حدیث کی ترقی میں بھی حصہ لیا، وہ یعلی بن عبید سے احادیث روایت کرتے ہیں اور عمر وبن مسلم سے ابو طاہر نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ ۲۶؎
عمرو بن مسلم کی تاریخ وفات کا صحیح علم نہیں لیکن بقول طبری عمرو بن مسلم ۱۲۰ھ؁ مطابق ۷۳۸ء؁ میں مرو کے عامل تھے۔ ۲۷؎  اس لئے یہ امریقینی ہے کہ انکا انتقال ۱۲۰ھ؁ کے بعد ہوا۔
۶-ربیع بن صبیح-۲۸؎  السعدی البصری
ربیع بن صبیح کی کنیت ابو بکر ہے اور ابن سعد نے ابو حفص لکھا ہے۔ ۳۹؎  ربیع بن صبیح ۱۶۰ھ؁ مطابق ۷۷۶ء؁ میں ایک بحری فوج کے ساتھ ہندوستان آئے تھے جس نے المہدی ۱۵۸ھ؁ تا ۱۶۹ھ؁ کے عہد خلافت میں عبد الملک بن شہاب المسمعی کی سرکردگی میں بربد پر حملہ کیا تھا۔ ۳۰؎  عربوں نے بربد کا علاقہ فتح کرلیا جو اس وقت ایک اچھا بندرگاہ تھا۔ اب اس جگہ کو بھاربھٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو بڑوچ کے قریب واقع ہے۔
فتح بربد کے بعد عربوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا وطن کی واپسی کی غرض سے موافق ہوائوں کے انتظار میں وہ بربد میں مقیم تھے ان ہی ایام میں ساحلی علاقوں میں وبائے طاعون پھیلنے کے سبب ان کا جانی نقصان بہت ہوا۔ اسی وبا میں ربیع بن صبیح بھی ۱۶۰ھ؁ مطابق ۷۷۶ء؁ میں فوت ہوئے طبقات ابن سعد کے مطابق ربیع بن صبیح کا انتقال سفر کے دوران ہوا اور ان کو کسی جزیرے میں دفن کیاگیا۔ ۳۱؎  ابن عماد کا بھی یہی قول ہے ابن عماد نے یہ تصریح کی ہے کہ ان کا انتقال واپسی کے سفر کے دوران ہوا۔ ۳۲؎
ربیع بن صبیح حضرت حسن بصری کے شاگرد تھے، انھوں نے حضرت حسن بصری سے حدیث کا درس لیا تھا، حضرت حسن بصری کے علاوہ اس عہد کے کبار محدثین، حمید الطویل متوفی ۱۴۲ھ؁، ثابت بنانی متوفی ۱۲۷ھ؁ اور مجاہد بن جمیر جیسے حضرات سے بھی انھوں نے علم حدیث حاصل کیا تھا۔
ربیع بن صبیح اپنے معاصرین میں ایک ممتاز راویِ حدیث شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں محدثین کی ایک پوری جماعت ہے۔ ۳۳؎  جن میں عبد اللہ بن المبارک متوفی ۱۸۱ھ؁ سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ؁ و قیصی متوفی ۱۹۷ھ؁، ابو دائود الطیالسی متوفی ۲۰۳ھ؁ اور عبد الرحمن بن المہدی متوفی ۱۹۸ھ؁ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ حضرت ربیع بن صبیح ان مؤلفین حدیث میں ہیں جنھوں نے دوسری صدی ہجری میں حدیث کی تدوین و اشاعت میں بہت اہم کار نامہ انجام دیا۔ ۳۴؎
حوالہ وحواشی
۱؎              ابوالحسین مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم کتاب القسامہ ، ج ۲ ص ۶۱ ، وصح المطابع ۱۳۷۶ھ، ابوعبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری، صحیح بخاری، ج اکتاب العلم، ص ۱۶، اصح المطابع، ۱۳۷۵ھ۔
۲؎             ابوالحسن احمدبن یحییٰ البلاذری،فتوح البلدان،ص ۴۲۵، طبع اول ۱۳۵۰ھ المطبعۃ المعریۃ، الازھر۔
۳؎             سیدسلیمان ندوی،عرب وہند کے تعلقات ،ص:۳۰۴،الٰہ آباد ،۱۹۳۰ء؁
۴؎             انڈیازکنٹربیوشن ٹوحدیث لٹریچر اردوترجمہ شاہدحسین رزاقی،روبی پرنٹنگ پریس دہلی ۱۹۸۳ء؁
۵؎             علی بن حامدبن ابی بکر الکوفی،چچ نامہ ،ص:۷۸(فتحنامہ ٔ سندھ) مطبع لطیفی دہلی،۱۹۳۹ء؁
۶؎             ایضاً،ص:۷۹               
۷؎             چچ نامہ،ص:۸۷۔۱۸۶   
۸؎             فتوح البلدان ، ص ۴۲۸۔
۹؎             شمس الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد الذھبی،اسماء الصحابہ،تجرید ،ج:۲،ص:۱۷۵،حیدرآباد
۱۰؎            ایضاً،ج:۱،ص:۲۷۳                      
۱۱؎             ایضاً،ص:۷۵
۱۲؎            احمدبن علی معروف بہ ابن حجر،تقریب التھذیب ،ص:۳۹۹،نولکشور
۱۳؎            احمد بن علی معروف بہ ابن حجر،تہذیب التھذیب،حیدرآباد
۱۴؎            ابوالحسن علی ابن اثیر،الکامل فی التاریخ ،ج:۵،ص:۴۴،دارصادر داربیروت،۱۳۸۶ھ؁
۱۵؎            فتوح البلدان ،ص:۱۴۱   
۱۶؎            ایضاً،ص:۴۳۴
۱۷؎           ایضاً،تاریخ ابن اثیر                       
۱۸؎            الذھبی ،تجرید،ج:۲،ص:۱۱۶
۱۹؎            تہذیب ،ج:۱،ص:۳۶۲ 
۲۰؎           تقریب التھذیب ،ص:۳۶۲
۲۱؎            محمدبن احمدالذھبی ،میزان الاعتدال ،ج:۱،ص:۹۷،مطبعۃ السعادہ،۱۳۲۵ھ؁تہذیب ، ج:۱،ص:۲۶۱
۲۲؎           ابوسعد ،عبدالکریم السمعانی،کتاب الانساب ۵۹۳،دائرۃ المعارف الاسلامیہ حیدرآباد
۲۳؎           صفی الدین،خلاصہ ،ص:۳۱
۲۴؎           فتوح البلدان ،صـ:۴۰۰
۲۵؎           مصطفی بن عبداللہ معروف بہ حاجی خلیفہ ،مکتبہ الجعفری طہران،کشف الظنون
۲۶؎           تہذیب ،ج:۸،ص:۱۰۵
۲۷؎           ابوجعفر محمدابن جریرطبری،ج:۲،ص:۱۶۱
۲۸؎           فتوح البلدان ،ص:۳۶۲۔
۲۹؎           ابوعبداللہ محمدبن سعددالبصری ،طبقات،ج:۱،ص:۲۷۷
۳۰؎           عرب وھند کے تعلقات ،ص:۱۸       
۳۱؎            طبقات ابن سعد،ج:۱۷۷
۳۲؎           ابن الغماد شہاب الدین بن احمد بن محمد ۱۰۳۲۔۱۰۸۹،ابوالفلاح عبدالحیٔ حنبلی دمشقی، شذرات الذھب،ج:۱،ص:۲۴۷،مکتبہ تجاری بیروت لبنان
۳۳؎           تہذیب ،ج:۳،ص:۴۸۔۲۴۷
۳۴؎           ۱۰۱۷۔۶۸،کشف الظنون عن اسالی الکتب والفنون ،یادایام ،ص:۶۰۵

(بہ شکریہ ماہنامہ زندگی نو  دہلی)

No comments:

Post a Comment