ابن الہیثم
ایک عظیم مسلمان سائنس دان
(امیر سیف اللہ سیف)
نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جوتحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ ترقی یافتہ سائنس کے لئے بنیادبنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور میں مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی اور ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الہیثم کا نام شاید سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔
ابن الہیثم کا پورا نام ”ابو علی الحسن بن الہیثم“ہےلیکن ان کی عمومی شہرت، ابن الہیثم کے نام سے ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 354 ہجری (965ء)اور وفات 430 ہجری میں ہوئی ۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، انجنیئرنگ، فلکیات اورادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔
تقریباً تمام درسی کتب میں لکھا ہے کہ جدید بصری علوم کے بانی آئزک نیوٹن تھے۔ عدسوں اورمنشور پر کئے گئے روشنی کے تجربات مثلاً روشنی کا انعکاس،ا نعطاف اور منشور سےسفید روشنی گزار کر اس کے مختلف رنگوں کا مشاہدہ وغیرہ سب نیوٹن سے منسوب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ماہر طبعیات تھے لیکن یہ گمان کہ بصری علوم کے پہلے ماہر نیوٹن تھے، تاریخی شواہد کی رو سے قطعاً غلط ہے۔ نیوٹن سے سات سو سال قبل ابن الہیثم نے بصریات پر تحقیق کی اور قدیم نظریات کو غلط ثابت کیا۔
ابن الہیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
ابن ابی اصیبعہ ”عیون الانباء فی طبقات الاطباء“میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے۔ وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”۔
ابن الیثم 996 ء میں فاطمی خلافت، مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔
قفطی کی ”اخبار الحکماء“میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:
“لو کنت بمصر لعملت بنیلھا عملاً یحصل النفع فی کل حالہ من حالاتہ من زیادہ ونقصان”
ترجمہ: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات (یعنی اس میں پانی کم ہوتا یا زیادہ) میں نفع ہی ہوتا”
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے
بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ
الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی
دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم
بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا۔ ابن الہیثم
نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے (جہاں اس وقت
“السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے) تو ان کو اندازہ ہوا کہ اس وقت
کےموجودہ وسائل اور تکنیکی سہولتوں کی ناکافی دستیابی کے باعث یہ کام
ناممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کردیا ہے جسے پورا کرنا
ممکن نہیں۔ ترجمہ: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات (یعنی اس میں پانی کم ہوتا یا زیادہ) میں نفع ہی ہوتا”
انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا اور الحاکم بامراللہ سےمعذرت کر لی۔ الحاکم بامراللہ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔ چند شواہد کی بنیاد پر ابن الہیثم نے الحاکم بامراللہ کی خاموشی کو وقتی چال سمجھا اور سزا سے بچنے کے لئے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ الحاکم بامر اللہ کی موت تک ابن الہیثم نے یہ مظاہرہ جاری رکھا۔ یہ عرصہ1011ء سے 1021ء تک، دس سال کی طویل مدت پر مبنی تھا۔ ایک اور حوالے کے مطابق ابن الہیثم کو دریائے نیل پر بند باندھنے میں ناکامی کی پاداشت میں دس سال کی مدت تک نظر بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو،کہتے ہیں کہ اس مدت کے اختتام پر ابن الہیثم نے جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی تھی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کردیا تھا۔
جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں۔ سکندریہ میں ایک محقق نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے پاس ابن الہیثم کا فلکیات کے موضوع پر تحریر کردہ ایک مقالہ موجود ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔اس مقالے میں ابن الہیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کوپر نیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ ابن الہیثم کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں۔
1. | کتاب المناظر. | 2. | کتاب الجامع فی اصول الحساب. | 3. | کتاب فی حساب المعاملات. |
4. | کتاب شرح اصول اقلیدس فی الہندسہ والعدد. | 5. | کتب فی تحلیل المسائل الہندسیہ. | 6. | کتاب فی الاشکال الہلالیہ. |
7. | مقالہ فی التحلیل والترکیب. | 8. | مقالہ فی برکار الدوائر والعظام. | 9. | مقالہ فی خواص المثلث من جہہ العمود. |
10. | مقالہ فی الضوء. | 11. | مقالہ فی المرایا المحرقہ بالقطوع. | 12. | مقالہ فی المرایا المحرقہ بالدوائر. |
13. | مقالہ فی الکرہ المحرقہ. | 14. | کقالہ فی کیفیہ الظلال. | 15. | مقالہ فی الحساب الہندی. |
16. | مسألہ فی الحساب. | 17. | مسألہ فی الکرہ. | 18. | کتاب فی الہالہ وقوس قزح. |
19. | کتاب صورہ الکسوف. | 20. | اختلاف مناظر القمر. | 21. | رؤیہ الکواکب ومنظر القمر. |
22. | سمت القبلہ بالحساب. | 23. | ارتفاعات الکواکب. | 24. | کتاب فی ہیئہ العالم. |
No comments:
Post a Comment