Search This Blog

Friday, 5 January 2018

بن الہیثم ایک عظیم مسلمان سائنس دان ۔ Al-Haitam a great scientist




ابن الہیثم
ایک عظیم مسلمان سائنس دان

(امیر سیف اللہ سیف)
یورپی ماہرین عام طور پر یہ باور کراتے ہیں کہ نشاط ثانیہ کے دور کے تمام عرصے میں دنیا میں کوئی بڑی سائنسی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مغربی یورپ کی حد تک تو اس بیان میں حقیقت ضرور ہے کیونکہ اس عرصے میں تمام مغربی یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات دنیا کے دوسرے حصوں اور خاص طور پر عرب دنیا کی حد تک قطعی غیر حقیقی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ مغربی مورخین اپنےحسد اور تعصب کے باعث اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکا ر کرتے ہیں یا کم از کم اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جوتحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ ترقی یافتہ سائنس کے لئے بنیادبنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور میں مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی اور ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الہیثم کا نام شاید سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔
ابن الہیثم کا پورا نام ”ابو علی الحسن بن الہیثم“ہےلیکن ان کی عمومی شہرت، ابن الہیثم کے نام سے ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 354 ہجری (965ء)اور وفات 430 ہجری میں ہوئی ۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، انجنیئرنگ، فلکیات اورادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔
تقریباً تمام درسی کتب میں لکھا ہے کہ جدید بصری علوم کے بانی آئزک نیوٹن تھے۔ عدسوں اورمنشور پر کئے گئے روشنی کے تجربات مثلاً روشنی کا انعکاس،ا نعطاف اور منشور سےسفید روشنی گزار کر اس کے مختلف رنگوں کا مشاہدہ وغیرہ سب نیوٹن سے منسوب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ماہر طبعیات تھے لیکن یہ گمان کہ بصری علوم کے پہلے ماہر نیوٹن تھے، تاریخی شواہد کی رو سے قطعاً غلط ہے۔ نیوٹن سے سات سو سال قبل ابن الہیثم نے بصریات پر تحقیق کی اور قدیم نظریات کو غلط ثابت کیا۔
ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ ان کی کتاب ”کتاب المناظر“بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے افلاطون، بطلیموس اوراس وقت کے کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی کی شعاع نکل کر کسی جسم سے ٹکراتی ہے تو ہمیں وہ جسم نظر آتا ہے۔ ابن الہیثم نے اس نظریہ کو قطعاً رد کیا اور ثابت کیا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ روشنی کی شعاع آنکھ سے نکل کر جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ جسم سے منعکس ہونے والی روشنی ہماری آنکھ کے عدسے پر پڑتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو ریاضی کی مدد سے ثابت بھی کیا جواس وقت تاریخ میں پہلی مثال تھی۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف دریافت کیا۔ انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے. انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں آج کی جدید سائنس رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔ ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
ابن ابی اصیبعہ ”عیون الانباء فی طبقات الاطباء“میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے۔ وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”۔
یورپی تاریخ نویسوں کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ جدید سائنسی طرز عمل سترہویں صدی کے اوائل میں فرانسس بیکن اور رینے ڈیکارٹ نے متعارف کروایا تھا۔ تاہم تاریخی شواہد اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن الہیثم ہی نے اس جدید سائنسی ضابطۂ عمل کو متعین کیا اور ان ہی کو اس کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو سائنسدان معلومات کے حصول، معلومات کی درستگی، الگ الگ معلومات کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے اورمشاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کو بنیاد بنا کر سائنسدان اپنا تحقیقی کام کرتے ہیں۔
ابن الیثم 996 ء میں فاطمی خلافت، مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔
قفطی کی ”اخبار الحکماء“میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:

“لو کنت بمصر لعملت بنیلھا عملاً یحصل النفع فی کل حالہ من حالاتہ من زیادہ ونقصان”
ترجمہ: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات (یعنی اس میں پانی کم ہوتا یا زیادہ) میں نفع ہی ہوتا”
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا۔ ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے (جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے) تو ان کو اندازہ ہوا کہ اس وقت کےموجودہ وسائل اور تکنیکی سہولتوں کی ناکافی دستیابی کے باعث یہ کام ناممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کردیا ہے جسے پورا کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا اور الحاکم بامراللہ سےمعذرت کر لی۔ الحاکم بامراللہ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔ چند شواہد کی بنیاد پر ابن الہیثم نے الحاکم بامراللہ کی خاموشی کو وقتی چال سمجھا اور سزا سے بچنے کے لئے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ الحاکم بامر اللہ کی موت تک ابن الہیثم نے یہ مظاہرہ جاری رکھا۔ یہ عرصہ1011ء سے 1021ء تک، دس سال کی طویل مدت پر مبنی تھا۔ ایک اور حوالے کے مطابق ابن الہیثم کو دریائے نیل پر بند باندھنے میں ناکامی کی پاداشت میں دس سال کی مدت تک نظر بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو،کہتے ہیں کہ اس مدت کے اختتام پر ابن الہیثم نے جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی تھی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کردیا تھا۔
جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں۔ سکندریہ میں ایک محقق نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے پاس ابن الہیثم کا فلکیات کے موضوع پر تحریر کردہ ایک مقالہ موجود ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔اس مقالے میں ابن الہیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کوپر نیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ ابن الہیثم کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں۔
1.کتاب المناظر.2. کتاب الجامع فی اصول الحساب.3. کتاب فی حساب المعاملات.
4.کتاب شرح اصول اقلیدس فی الہندسہ والعدد.5.کتب فی تحلیل المسائل الہندسیہ.6. کتاب فی الاشکال الہلالیہ.
7.مقالہ فی التحلیل والترکیب.8.مقالہ فی برکار الدوائر والعظام.9.مقالہ فی خواص المثلث من جہہ العمود.
10. مقالہ فی الضوء.11.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالقطوع.12.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالدوائر.
13.مقالہ فی الکرہ المحرقہ.14.کقالہ فی کیفیہ الظلال.15.مقالہ فی الحساب الہندی.
16. مسألہ فی الحساب.17. مسألہ فی الکرہ.18.کتاب فی الہالہ وقوس قزح.
19.کتاب صورہ الکسوف.20. اختلاف مناظر القمر.21. رؤیہ الکواکب ومنظر القمر.
22.سمت القبلہ بالحساب.23. ارتفاعات الکواکب.24. کتاب فی ہیئہ العالم.
بعض محققین کا خیال ہے کہ ابن الہیثم نے طب اور فلسفہ کے موضوعات پر بھی مقالے تحریر کئے تھے۔

No comments:

Post a Comment