Search This Blog

Saturday 30 June 2012

شاہِ جیلان رحمۃ اللہ علیہ وحدانیتِ خدا کا ترجمان

شاہِ جیلان رحمۃ اللہ علیہ
وحدانیتِ خدا کا ترجمان

اللہ کی شانِ وحدانیت کے سلسلے میں ہزاروں خاصانِ ملّت اور عارفانِ امّت نے تبلیغ و اِرشاد‘ تحریر و تقریر ‘ اور علم و عمل کے ذریعے اپنے ذاتی تجربات‘ کیفیات‘ بصیرت و بصارت کے گہرے مشاہدات کی بدولت اپنا اپنا تصورِّ الٰہ پیش کیا ہے۔ اطاعت ‘ عبادت اور قربِ الٰہی کے صفات و درجات مترشح کیے ہیں۔ ذاتِ باری کے وجود و اثبات اور اس کے اسمأ و صفات پر مدمّل اور مُفصّل بحث و تمحیص کی ہے۔ دلائل ‘ مشاہدات ‘ آیات وعلامات اور رُویائے صادقہ کے توسُّط سے خدا کے وجود کے بارے میں اپنے محسوسات اور وِجدان کی کیفیات کا تذکرہ کیا ہے۔ وحدانیتِ خُدا کے انہی نامور ترجمانوں اور مبلغوں میں حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ عالم اسلام میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے اور یاد کیے جاتے ہیں ۔ آج کا یہ کالم ان کے مواعظ و خطبات کے بنیادی موضوعات سے متعلق ہے ۔
جنابِ پیر کاملؒ کا زمانہ سلجوقی اور عباسی خلیفوں کے درمیان رسہ کشی ‘ تناو‘ باہمی اِفتراق اور کشمکش کا زمانہ تھا۔ دنیا پرستی ‘ حُبِّ جاہ اور فکرِ آخرت سے بے نیازی کا معاملہ بڑھتا اور درازتر ہوتا جا رہا تھا۔ خدا پرستی کے بجاے دنیا پرستی کا مزاج تقویت پا رہا تھا‘ اور خلفاء و اُمرأ صوبوں اور شہروں پر تسلُّط قائم کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لیے جا رہے تھے ۔ اسی افراتفری اور خانہ جنگی کے زمانے میںحضرت جیلانیؒ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی اشاعت اور تفہیم و تدریس کا جذبہ ان کے وجود کا لازمی حصّہ تھا۔ پُر اثر شخصیت‘ کلام میں کمال درجہ کی جاذبیت اور فصاحت و بلاغت نے آپ کے خطبات میں ایسی قبولیت اور تاثیر پیدا کر دی تھی کہ آپ کے تبلیغی اجتماعات میں بغداد اور مضافات کے لوگ جوق در جوق شامل ہو کر گناہوں سے توبہ ‘ نیکیوں کی طرف توجّہ کرتے تھے۔ آپ کے اخلاص سے بھر پور مواعظ دلوں کی کایا پلٹ دیتے ۔ دنیا پرست آناً فاناً خدا پرست بن جاتے۔ لذاّت و مرغوباتِ نفس کے غلام اِطاعت و عبادت کو اپنا طریقۂ زندگی بنا دیتے۔ نفس اور مالِ دنیا کے صنم خانوں پر حضرت پیرِ کاملؒ حکمت و موعظت کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے ان پر غالب آجاتے اور اس طرح آپ دنیا داری اور سرمایہ پرستی کے پجاریوں کی دستگیری فرما کر انہیں دین داری اور خدا ترسی کے صفات سے بہرہ ور کرتے تھے۔ اقبال نے ایسے ہی مردانِ خدا کا نقشہ لفظوں کے سانچے میں یوں ڈھال دیا ہے     ؎ 
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ‘ کار کُشا‘ کار ساز
اپنے ایک دل نشین خطبے میں سامعین کو وحدانیت خدا کا نظریہ سمجھاتے ہوئے پیر کاملؒ فرماتے ہیں ’’اس پر نظر رکھو ‘ جو تم پر نظر رکھتا ہے‘ اس کے سامنے رہو‘ جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔ اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے‘ اس کی بات مانو جو تم کو بلاتا ہے۔ اپنا ہاتھ اسے دو ‘ جو تم کو گرنے سے سنبھال لے گا اور تم کو جہل کی تاریکیوں سے نکال لے گا اور ہلاکتوں سے بچائے گا۔ کب تک عادت؟ کب تک خلق؟ کب تک خواہش؟ کب تک رعونت؟ کب تک دنیا؟ کب تک آخرت کب تک ماسوائے حق؟ کہاں چلے تم اس خدا کو چھوڑ کر جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور بنانے والا ہے ۔ اوّل ہے ‘ آخر ہے ‘ظاہر ہے باطن ہے۔ دلوں کی محبت ‘ روحوں کا اطمینان‘ گرانیوں سےسبکدوشی‘ بخشش و احسان ‘ ان کا سب کا رجوع اسی کی طرف سے اور اسی کی طرف سے اس کا صدور ہے‘‘۔
جناب سید عبدالقادر جیلانی ؒ کی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔ بغداد جو علمی اعتبار سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا‘ یہاں سے توحیدِ خالص کی آواز کا بلند ہونا اپنے اندر ایک زبردست اہمیت رکھتا تھا‘ چنانچہ تدریس ‘ اِفتا ‘ تربیت ‘ تصنیف و تالیف اور عوام الناس کی اصلاح اور عقائد میں استحکام کے لیے آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بحیثیت ایک کامیاب مُبلّغ اور مُصلح کے آپ ؒ اپنے خطبات میں ان لوگوں کی دلجوئی کرتے اور ان لوگوں کو ہمت اور حوصلہ دیتے تھے‘ جو دنیوی اعتبار سے کمزور ہوتے تھے اور جنہیں مادی زندگی کی خوشیوں سے محرومی کا احساس ہوتا تھا۔ احساسِ محرومیت کے مارے ہوئے ایسے لوگوں سے ایک بار خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
’’ اے خالی ہاتھ فقیرا ‘ اے وہ جس سے تمام دنیا برگشتہ ہے ۔ اے گمنام ‘ اے بھوکے پیاسے ،ننگے ،جگر جھلسے ہوئے ۔ اے مسجد و خرابات سے نکالے ہوئے اور اے ہر در سے پھٹکارے ہوئے ۔ یہ مت کہہ خدا نے مجھے محتاج کر دیا ۔ دنیا کو مجھ سے پھیر دیا۔ مجھے پامال کر دیا۔ چھوڑ دیا۔ مجھے پریشان کر دیا اس بارہ میں خداوند تعالیٰ تیرے حکم سے فارغ ہے۔ وہ تیری ضروریات سے باخبر ہے۔ اس نے آخرت میں تجھ کو مقام بخشا ہے‘ اور اس میں تجھ کو مالک بنایا ہے ‘‘ اس قسم کے جملوں اور نصیحتوں سے وہ دل شکستہ لوگوں کی مدد کرتے تھے اور انہیں دنیوی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فطری اور نفسیاتی گھٹن سے نجات دلاتے تھے۔
جناب سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے زمانے میں تصوف ‘ باطنیت‘ طریقت اور سریّت کے نام پر ایسی تحریریں ‘ تقریریں ‘ خطبات اور مواعظ لوگوں میں عام ہوتے جا رہے تھے‘ جن کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ارشادات سے بہت کم ہوتا تھا اور اس تصوف سے روحِ دین کو خطرہ لاحق ہو رہا تھا تو آپ نے تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب فراہم کیا اور اسے اصطلاحی پیچیدگیوں سے آزاد کر دیا۔ چالیس سال کے اپنے تبلیغی مشن میں انہوں نے لوگوں پر واضح کر دیا کہ تصوف و طریقت پر اہلِ خلوت کی اجارہ داری نہیں ۔ جناب شیخ عبدالقادر ؒ جیلانی تصوف میں ’’پُر اسرارر مزیت‘‘ کے خلاف تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صوفیا و مشائخ کے یہاں کچھ ایسے علوم واسرارہیں ‘ جن تک علمأ کی رسائی نہیں ہے۔ جناب شیخ کے زمانے میں تصوف پر غیر اسلامی نظریات کا اثر پڑنا شروع ہو چکا تھا۔ اس میں یونانی، بودھ ‘ ایرانی اور دیگر مشر کانہ عقائد کے اثرات شامل ہو چکے تھے‘ چنانچہ یہ حضرت پیر کاملؒ کی عظیم تبلیغی خدمات اور اسلام کے ساتھ سچی محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے تمام غیر اسلامی تصورات کو رد کر کے شریعت کو طریقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ منصور حلاّج کے بارے میں آپؒ نے کہا تھا ’’ منصورِ حلاّج کے دور میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا‘ جو اس کا ہاتھ پکڑتا اور اسے اس کی لغزش سے باز رکھتا ۔ اگر میں اس کے زمانے میں ہوتا‘ تو منصور کو اس صورت حال سے بچاتا جو اس نے اختیار کر لی تھی‘‘۔
حضرت شیخ کاملؒ جہاں تصوف و طریقت کو شریعت کے آداب سے جوڑتے رہے، وہیں آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بڑی بے باکی سے انجام دیتے رہے۔ اپنے دور کے پانچ عباسی خلفأ کو آپ نے ہمیشہ شاہراہِ شریعت پر گامزن رہنے ‘ عدل و انصاف کا طریقہ اپنانے اور عوام کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ آپ ان علمأ سے بالکل مختلف تھے جو خلفأ و امرأ کی خوشامد میں اپنی عافیت تصور کرتے تھے۔ آپ کے خطبات میں جو جملے بادشاہوں کے بارے میں ہوا کرتے تھے وہ جملے سن کر خلفأ پر لرزہ طاری ہوتا تھا‘ وہ زار و قطار روتے اور تائب ہو جاتے تھے‘ بادشاہوں اور خلیفوں کی چاپلوسی کرنے والے عالموں سے ایک بار مخاطب ہو کر یہ تاریخی کلمات آپ کی زبان سے نکلے ’’اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! تم کو ان سے کیا نسبت ‘ اے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنو! اے بندگانِ خدا کے ڈاکوؤ ! تم کھلے ظلم اور نفاق میں مبتلا ہو۔ یہ نفاق کب تک رہے گا۔ اے عالمو اور اے زاہدو! شاہان و سلاطین کے لیے کب تک منافق بنے رہو گے کہ ان سے دنیا کا زرومال اور اس کی شہوات اور لذّات لیتے رہو‘‘۔
حضرت پیرؒ کے بارے میں ان کی خدا ترسی ‘ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر مندی کے بے شمار واقعات تاریخ کی کتابوں میں وارد ہو چکے ہیں ۔ چنانچہ سلطانِ سنجرؔ نے آپکی مقبولیت ‘ شہرت اور عوام میں عزت کو زیر نظر رکھتے ہوئے نیمروزؔ کا علاقہ آپ ؒ کی جاگیر میں رکھنے کے لیے ایک خط آپ کے نام روانہ کیا۔ ایک طرف یہ خط آپ کے تئیں عزت و احترام کی عکاسی کر رہا تھا اور دوسری طرف سلطان کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ جنابِ پیرؒ زیرِ بارِ احسان بھی آجائیں گے۔ سلطان سنجر کو شایدیہ بات معلوم نہیں تھی کہ درس گاہِ نبوت و ولایت کے اس بطلِ جلیل کا ردِّ عمل کیا ہو گا؟ آپ ؒ نے خط کے اوپر یہ دو شعر تحریر فرمائے جو رہتی دنیا تک ایمان و یقین ‘ اور عرفان و سلوک کے رہرؤں کے لیے سنگِ راہ ثابت ہوںگے  ؎
چوں چترِ سنجری رخِ بختم سیاہ باد
در دل اگر بود ہوسِ ملکِ سنجرم
تایافت جانِ من خبر از حالِ نیم شب
صد ملکِ نیمروزؔ بہ یک جَو نہ می خرم
ترجمہ:۔ میری قسمت کا منہ سلطانِ سنجر کی سیاہ چھتری کے مانند کا لاہو‘ اگر میرے دل میں سلطانِ سنجر کے ملک کی لالچ پیدا ہو جائے ۔ جب سے میری جان کو نصف شب کی ایمانی کیفیت کا حال نصیب ہوا‘ میں نیمروز جیسی ایک سو سلطنتیں  جَو کے ایک دانے کے عوض بیچنے کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘ یہ منظر دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے   ؎
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوے حیدرؓ بھی عطا کر
اقبال غیر اسلامی تصوف کے شدید مخالف تھے۔ وہ تصوف کو اسلام کی سر زمین میں’’ ایک اجنبی پودا ‘‘ تصور کرتے تھے ‘ اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے عملی‘ اور کار گاہِ حیات سے کنارہ کشی کا جو سلسلہ چل پڑا ‘ اس سے ملّتِ مسلمہ کے اندر ہزاروں مسائل پیدا ہو گئے لیکن حضرتِ پیر کاملؒ کے روحانی فکر سلسلۂ قادریہ کی بدولت دین و دنیا کا جو توازن پیدا ہوتا ہے اور اعمال میں جو طہارت و طراوت آجاتی ہے‘ اس کے اقبال بڑے معترف تھے۔ آج کرۂ ارض پر حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ کی روحانی فکر‘ ان کے کشف و کرامات‘ ان کی تعلیمات اور خدمات کے کروڑوں ماننے والے موجود ہیں ۔ ان سب پر حضرت پیر پیرانؒ کا یہ قرض ہے کہ جس مقصد کے لیے حضرت پیرؒ نے اپنی زندگی کی تمام سرگرمی‘ روشنی اور توانائی صرف کر دی ‘ اس مقصد کے ساتھ ان کے ماننے والوں مریدوں اور معتقدوں کا کیا روّیہ ہے؟ کیا وہ قرض ہم اپنی گردنوں سے اتار رہے ہیں ؟ کیا روحانی کیفیتوں اور ایمان کی حلاوتوں سے ہم اپنے کا م و دہن کو آشنا کر رہے ہیں ‘ جن کا سلسلہ قطب ربانی سے متعلق ہے۔ کیا ان مجالس اور مواعظ کا حقیقی اثر ہماری زندگیوں میں نمایاں ہے‘ جن مجالس میں بیٹھنے والے تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کیا کرتے تھے؟ جھوٹ بددیانتی ‘ فریب‘ بدعت‘ اور ریا کاری سے کوسوں دور بھاگتے تھے اور ابدی نجات کی راہ پر گامزن ہوا کرتے تھے۔ حضرت پیرؒ کی پاکیزہ تعلیمات کا غلام اور پیرو کار بننا دو جہانوں کی کامیابی کا پیش خیمہ ہے   ؎
غلامِ شاہِ جیلانؒ ہوں اسی پر ناز کرتا ہوں
نہ کیوں ہو میرے سر پر دو جہاں میں تاجِ سُلطان
                        رابطہ :- اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی یونیورسٹی آف کشمیر

تعصبات کی بنیادیں

تعصبات کی بنیادیں

شاہ نواز فاروقی
- انسانی تاریخ میں تعصبات کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی میں ہر طرح کے تعصبات ہیں۔ مذہبی تعصبات ۔ نسلی تعصبات۔ لسانی تعصبات۔ ذات پات کے تعصبات ۔ سماجی تعصبات ۔ معاشی تعصبات۔ سوال یہ ہے کہ اب تعصبات کی بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی مذہب سے انحراف تعصب کی اصل وجہ ہے۔ مذہب کی تعلیمات عیاں ہیں۔ مذہب بتاتا ہے کہ تمام انسان اللہ کے بندے اور حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں اور انہیں رنگ اور نسل کے اعتبار سے ایک دوسرے پر کوئی فضلیت حاصل نہیں۔ لیکن انسانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ ابتداً مذہب کو مسترد نہیں کرتے البتہ اپنے مفادات کے مطابق حقیقی مذہب کے دائرے ہی میں ایک جعلی مذہبی ایجاد کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیت کوئی نسلی حقیقت نہیں تھی البتہ انبیاء و مرسلین کی بڑی تعداد بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئی۔ یہ اصولی اعتبار سے شکر کا مقام تھا۔ لیکن یہودیوں نے شکر کے مقام کو تعصب کا مقام بنادیا۔ انہوں نے سمجھا کہ ہم دائمی طور پر اللہ کی پسندیدہ قوم اور پسندیدہ نسل ہیں اورگویا ہمیں ہدایت کا ٹھیکہ مل گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ کو نسلی برتری کی تاریخ بنادیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کی نبوت کا انکا ربھی اس بنیاد پر کیا کہ آپؐ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے کیوں ہیں؟ یعنی بنی اسرائل کا نسلی زعم اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ اعلان کے بغیر خدا کو بھی چیلنج کررہے تھے اور کہہ ر ہے تھے کہ آخر خدا نے سردار انبیاء کو بنی اسماعیل میں کیوں مبعوث فرمایا؟ ظاہر ہے کہ یہودی خدا کے منکر نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنے مذہب کو ترک کرنے کا اعلان کررہے تھے مگران کا یہ طرز عمل اس امر کی غمازی کررہا تھا کہ انہوں نے مذہب کی بنیادوں سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ ہندو ازم میں ذات پات کا کوئی نظام موجود نہ تھا۔ ہندو ازم میں برہمن‘ کھشتری ‘ ویش اور شودر کوئی نسلی حقیقت نہ تھے بلکہ یہ انسانوںکی روحانی یا نفسیاتی اقسام تھیں۔ برہمن وہ لوگ تھے جن کی روحانی استعداد سب سے زیادہ تھی اور وہ وحی و ابہام کی روایت کو سب سے زیادہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور آسمانی پیغام کی تشریح و تعبیروہ زیادہ صحت کے ساتھ کرسکتے تھے۔ کھشتری وہ لوگ تھے جو ریاست کا نظام چلانے اور اس کا دفاع کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے تھے۔ ویش انسانوں کی وہ قسم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’عقل معاش‘‘ زیادہ دی تھی چنانچہ وہ کاروبار کی غیر معمولی اہلیت رکھتے تھے۔ ان تمام کے برعکس شودر انسانوں کی وہ قسم تھے جو صرف جسمانی محنت کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ برہمن کے گھر میں شودر اور شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا تھا۔ اور مہا بھارت میں یہی لکھا ہوا بھی ہے۔ لیکن برہمنوں نے روحانی حقائق کو نسلی حقائق بنادیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں مذہب سے زیادہ اپنے طبقے کا مفاد عزیز ہوگیا تھا۔ عیسائیت خود کو آفاقی مذہب کہتی ہے اور اس میں اسلام کی طرح مذہب تبدیل کرکے آنے والوں کے لیے جگہ ہے۔ لیکن عیسائیت کی عملی صورتحال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت روما کے ساتھ یکجائی کے بعد عیسائیت ایک ’’یورپی تجربہ‘‘ بن کر رہ گئی اور اس پر یورپی رنگ ہی نہیں یورپی نفسیات بھی غالب آگئی ہے چنانچہ عیسائیت کی گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں جتنے پوپ ہوئے ہیں وہ سب سفید فام یورپی تھے۔ چونکہ عیسائیت ایک یورپی حقیقت بن کر رہ گئی اس لیے اس کے تہذیبی و علمی کمال کا مرکز بھی یورپ ہی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی عرب و عجم کا تعصب موجود رہا ہے اور برصغیر میں ایرانی اور ترکش نفسیات باہم دست و گریباں رہی ہے۔ لیکن اسلامی تاریخ کا کمال یہ ہے کہ اس میں تعصبات متن میں نہیں حاشیے میں موجود ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مسلمان جہاں گئے انہوں نے وہاں تہذیبی و علمی کمال پیدا کرکے دکھایا۔ انہوں نے مکے اور مدینے میں روحانی اور علمی کمال پیدا کرکے دکھایا۔ بغداد اور غرناطہ میں روحانی و علمی تاریخ رقم کرکے دکھائی۔ سمرقند و بخارا میں روحانی و علمی عظمت کی داستانیں تحریر کرکے دکھائیں اور بھارت میں بہت بڑا روحانی علمی اور تہذیبی ورثہ تخلیق کرکے دکھایا ۔ مسلمان نسلی اورلسانی تعصب میں مبتلا ہوتے تو یہ منظر نامہ وجود ہی میں نہیں آسکتا تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں ناقص العمل تو رہے ہیں ناقص الایمان نہیں رہے۔ تاریخ میں تعصب کی ایک بنیاد یہ ہے کہ انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کاخود خالق ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی خاص نسل‘ زبان یا گھرانے میں پیدا ہوگئے تو یہ بڑی بات ہے۔ حالانکہ کسی جگہ پیدا ہونا انسان کے بس کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ چنانچہ تعصب کی مذہبی کیا کوئی عقلی بنیاد بھی سرے سے موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جہاں چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ کسی کی امارت میں اس کے لیے کوئی فخر کی بات نہیں۔ کسی کے لیے سید ہونے میں فی نفسیہہ کوئی اعزاز کا پہلو نہیں۔ کسی کے یورپی یا غیریورپی ہونے میں کوئی کارنامہ موجود نہیں۔ اسلام انسان کے اندر موجود نمود یا Expression کی شدید آرزو کو سمجھتاہے اور وہ اسے نظرانداز کرنے یا کچلنے کے بجائے اظہار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن وہ اس کے لیے فضیلت کے دو میدان مقرر کرتا ہے۔ایک میدان تقویٰ کا میدان ہے۔ اسلام انسان سے کہتا ہے کہ اس میدان میں جتنا دوڑ کر دکھاسکتے ہو دکھائو۔ اس میدان کے ’’امکانات‘‘ کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ اسلام نے دوسرا میدان علم کے دائرے کو بنایا ہے اور وہ انسان سے کہتا ہے کہ اس میدان کے امکانات بھی کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ تمہارے جتنے ولوے ہیں جتنی آرزوئیں ہیں، یہاں انہیں پوری شدت کے ساتھ بروئے کا رلاکر دکھائو۔ اس سے تمہارا بھی بھلا ہوگا تمہاری قوم ملت یا امت بھی اس سے فیض اٹھائے گی اور باقی ماندہ انسانیت بھی تمہارے روحانی اور علمی کمالات سے فائدہ اٹھائے گی۔

 حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مالی ایثار

 حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کردار ہر مسلمان کے لیے قابل رشک ہے۔ جب بھی مسلمانوں کومالی ضرورت پڑتی ہے، جناب عثمانؓ حاضر ہیں۔ آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرے رفیق عثمان ہیں۔ ذوالنورین ہونے کا اور کسی کو مرتبہ نہیں مل سکا۔ مالی ایثار کا یہ عالم ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر تیس ہزار کی فوج کے ایک تہائی اخراجات کا ذمہ آپ نے لے لیا۔ مدینہ میں قحط کی صورت پیش آتی ہے تو غلے سے لدے اونٹ اچھے منافع پر فروخت کرنے کے بجائے مفت تقسیم کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ان کے مالی ایثار کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عثمان کے اب کسی عمل کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہ ان کا مالی ایثار ہی تھا کہ ان کو رہتی دنیا تک غنی کے لقب سے پکارا جائے گا اور غنی ان کے نام کا حصہ بن چکا ہے۔ حضرت عثمانؓ کا ایک واقعہ ایسا ہے کہ ہر مسلمان کے علم میں ہے وہ ہے مدینہ میں مسلمانوں کو پانی کی فراہمی۔ حضرت بشیر اسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک کنواں تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس کنویں کا پانی بیچتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ کنواں جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو تو وہ آدمی کہنے لگا یا رسول اللہ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ روزگار نہیں ہے اس لیے میں ایسا نہیں کرسکتا۔یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپؓ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا پھر آپؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپؐ مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ نے فرمایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں (عطا کروں گا) تو اس پر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے نام کردیا ہے

طالبان کی شاعری

طالبان کی شاعری

- ابو سعد خان
روس میں خونیں انقلاب کو ابھی چند عشرے ہی گزرے تھے‘ ہر طرف سرخ انقلاب کا چرچا تھا‘ لال ٹوپی والوں نے ہر شعبۂ زندگی میں قدم جمالیے تھے‘ شاعری کو بھی اس معاملے میں استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ ’’خدائی خدمت گار‘‘ کے بڑے فرزند غنی خان‘ معروف شاعر رحمت شاہ سائل اور اجمل خٹک وغیرہ پشتو شاعری کے محاذ پر سرخ انقلاب کے داعی شعرا کی رہنمائی کررہے تھے۔ اُس وقت پاکستان میںمعاشرتی تفریق اتنی نہیں بڑھی تھی۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق اتنا نہیں تھا جو آج ہے۔ ماؤں نے اپنے دل کے ٹکڑوں کے ساتھ ریل کی پٹڑیوں پر لیٹ کر جان دینا شروع نہیں کی تھی، اور نا ہی باپ بے روزگاری‘ بھوک و افلاس سے تنگ آکر بیوی بچوں کو مارکر خودکشی کرنے لگے تھے۔ اُن حالات میں بھی پشتو ادب میں ایسے اشعار کا اضافہ ہوا اور ان کو گاکرکیسٹوں میں چھاپنے کے ساتھ فلمایا بھی گیا۔ دَ چا پہ زڑہ کے ارمانونہ پہ سلگو پراتہ دی (کسی کے دل کے ارمان بکھر چکے ہیں) دَ چا قسمت کے راحتونہ پہ دلو پراتہ دی (کسی کی قسمت میں راحتوں کے ڈھیر لگے ہیں) سوک کوی خوب لاپہ چمن کے انتخاب دَ گلو (کوئی چمن میں پھولوں پر سو رہا ہے) سوک سر بربری لیونی وی پہ ازغو پراتہ وی (اور بکھرے بالوں والے دیوانے کانٹوں پر پڑے ہیں) د چا خوخیگی نہ چہ کومہ جوڑا واغوندمہ (کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سا جوڑا پہنے) سوک پہ کفن پورے حیرانہ پہ تختو پراتہ دی (کوئی تختہ پر کفن کے لیے حیران و پریشان پڑا ہے) د چا جونگڑہ‘ پکے نشتہ دہ د تیلو ڈیوہ (کسی کی جھونپڑی میں تیل کا دیا تک نہیں) وایہ قسمتہ پہ تیرو کے بہ ترسو پراتوی (بتائو میری قسمت میں کب تک تیرگی رہے گی) گرم پانیوں تک پہنچنے کی تمنا دل میں لیے کمیونسٹ روس کی ’’سرخ‘‘ نیّا بحیرۂ عرب پہنچنے سے قبل ہی افغانستان کی خشکی میں غرق ہوگئی اور اس کے ساتھ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ رحمت شاہ سائل پشتون نوجوانوں کو نصیحتیں کرتے رہ گئے کہ ’’راواخلئی بیا دَ انقلاب سر نشانونہ پختونو زلموں‘‘ (اے پشتون جوانو! پھر سے انقلاب کا سرخ نشان اٹھا لو) لیکن انہوں نے کسی کی خواہش کا غلام نہ بن کر اپنے دل سے پوچھا اور سرخ کے بجائے سبز عَلَم اٹھالیا۔ بات اُس دور کی ہورہی تھی تو یہ کوئی پہلی اور آخری نظریاتی شاعری نہیں تھی۔ پشتو زبان کے مشہور شاعر رحمان بابا کا تو ایک ایک مصرع ان کی بامقصد زندگی کا عکاس تھا۔ وہ تصوف کے قائل تھے اور ان کے اس شعر کو کون بھول سکتا ہے: دا دنیا رانہ پہ مہر کے دین غواڑی زکہ ماتہ قبول نہ دہ دا نکاح (یہ دنیا مجھ سے مہر میں میرا دین مانگتی ہے، اس لیے مجھے اس کے ساتھ نکاح قبول نہیں) پشتو ادب کے ماضی میں نظریاتی شاعری اور گانوں کے علاوہ بھی بامقصد شاعری کی گئی اور اس کو گایا گیا۔ آج کل پشتو زبان کا ایک مشہور گانا ’’بی بی شیرنئی‘‘ چل رہا ہے۔ یہ اتنا مشہور ہوا ہے کہ اس کا اُردو ورژن بھی جاری کردیا گیا۔ یہ جدید زمانے کا گانا ہے جب پختہ کار شاعروں کے بجائے گلوکار خود گانے کے بول لکھنے لگے ہیں۔ اس گانے میں گلوکار زیک آفریدی بی بی شیرنئی سے کہتا ہے ’’میرے اوپر سرخ شال اور اپنے دونوں ہاتھ ڈال دو، یا پھر سرخ شال بناکر اپنی زلفوں پر ڈال دو۔‘‘ زیک، بی بی شیرنئی سے دلوں کا جوا کھیلنے کا بھی کہتا ہے۔ شاید آج کی بی بی شیرنئی دل کا جوا کھیلنے لگی ہوں لیکن ماضی کی بی بی شیرنئی کون تھیں؟ بی بی شیرنئی کے اصل گانے میں کیا ہے؟ اصل گانا پشتو روایت اور روایتی حسن کا عکاس ہے‘ اس میں زلفیں نہیں، بی بی شیرنئی کا کرداد زیر بحث ہے۔ مشہور گلوکار گلزار عالم کی آواز میں اس گانے کی بی بی شیرنئی اذانِ فجر کے ساتھ ہی اُٹھ کر گھر کے کام شروع کردیتی ہے‘ وہ صبح سے شام تک کام کرکے تھک جاتی ہے‘ آرام کے لیے ایک لمحہ بھی میسر نہیں۔ اس کی زندگی دوسروں کی خدمت میں گزر جاتی ہے لیکن اس کے نصیب میں دوا دارو بھی نہیں۔ بیمار ہوتی ہے تو دم درود سے کام چلایا جاتا ہے۔ اس زندگی میں پختونوں کی زندگی کے ایک نہایت منفی عمل کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے جس میں بہن‘ بیٹی کو جائداد میں اس کے حصے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پس پرانے شاعر کی بی بی شیرنئی اپنی زمین‘ جائداد اپنے لالا (بڑے بھائی) کے نام لکھ کر اب خالی ہاتھ بیٹھی ہے۔ اور یہ بی بی شیرنئی کسی کو چادر بناکر اپنی زلفوں پر نہیں ڈالتی بلکہ یہ قوم کی ناموس‘ اورگھر کی حیا ہے‘ جس کے بھروسے بابا اپنی پگڑی باندھ رہے ہیں۔ ……٭٭٭…… پشتون صوفیائے کرام سے لے کر سُرخوں تک نے اپنے نظریات کے اظہار اور ابلاغ کے لیے ادب کی اس صنف کا استعمال کیا، اور اب تو جدیدیت کے پرستار تک اپنی بے مقصد باتیں اسی ذریعے سے پھیلا رہے ہیں۔ لیکن اب جہاں ایک طرف جدیدیوں کی ’’بی بی شیرنئی‘‘ جیسی بے مقصد شاعری سننے کو مل رہی ہے وہیں پشتو شاعری میں ’’طالبان کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے جس میں جنگ زدہ افغانوں کے احساسات کے اظہار کے علاوہ دلائل پر مبنی حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں۔ 2006ء سے طالبان کے زیر اثر قندھار میں مقیم جرمن محقق اور ہمارے دوست ایلیکس اسٹرک وان لِنشوٹین اور ان کے ساتھی فیلکس کوہن کی تدوین کردہ کتاب ’’طالبان کی شاعری‘‘ کی مئی 2012ء میں لندن میں رونمائی ہوئی۔ یہ کتاب امریکا میں فروخت کے لیے جولائی میں پیش کی جائے گی۔ پشتو شاعری کے اس انگریزی انتخاب کو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایٹم بم سمجھ کر اس کا توڑ کرنے کی ایک ایسی مہم شروع کردی جس طرح کی کوششیں ایران کو تنہا کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پشتو شاعری کی گونج دنیا بھر میں سنی گئی ہے۔ ’’طالبان کی شاعری‘‘ سے بہت پہلے خوشحال خان خٹک کا منتخب کلام انگریزی زبان میں طبع ہوکر داد و تحسین وصول کرچکا ہے۔ خوشحال خان خٹک بیک وقت صاحبِ سیف و قلم تھے، اور ان کی شاعری میں ان کی عسکری شخصیت کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں مقصدیت کا پہلو نمایاں رہا۔ ان کی پشتو شاعری کو ’’وزڈم آف دی ایسٹ‘‘ سیریز کے سلسلے میں برطانیہ سے شائع کیا گیا۔ علامہ اقبال بھی خوشحال خان کی اسی شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ ان کے درج ذیل مشہور اشعار خوشحال خان خٹک کی فارسی شاعری کا منظوم ترجمہ ہیں: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ……… وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری طالبان کا شباب بے داغ اور ضرب کاری ہے، لیکن ان کی شاعری کا موضوع صرف جنگ ہی نہیں، بلکہ یہ حکومتی بدعنوانیوں اور این جی اوز کی لوٹ مار سمیت ہر گوشۂ زندگی کا احاطہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ طالبان نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے شاعری کی صنف غزل کو چنا ہے۔ سینٹ انتھونی کالج‘ آکسفورڈ کے فیصل دویوجی نے طالبان کی شاعری کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’طالبان نے اپنے اظہار کے لیے غزل کو چُنا ہے‘ ان ترانوں کے برعکس جن کو طالبان اپنے پروپیگنڈا مواد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘ یہاں طالبان اور دائیں بازو کے مخالف نظریات رکھنے والے محمد حنیف کی، اس کتاب کے بارے میں رائے کو نقل کرنا یقینا دلچسپی کا باعث ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ محبت، جنگ اور دوستی کے اشعار ہیں اور ہمیں افغانستان کے بارے میں کروڑوں نیوز رپورٹوں سے زیادہ کچھ بتاتے ہیں۔ جو بھی افغان امور کا ماہر ہونے کا دعویدار ہے‘ اسے کوئی رائے دینے سے قبل اس شاعری کو ضرور پڑھ لینا چاہیے‘‘۔ ان کا مقصود شاید اس شاعری کے ذریعے افغان حریت پسندوں کا ذہن پڑھنا ہو، لیکن عام آدمی اس شاعری میں اُن عناصر کا مشاہدہ کرسکتا ہے جو جانب دار میڈیا بتانے سے گریزکرتا ہے۔ ہمیں بھی اس کتاب کی مفت کاپی ملنی تھی لیکن وہ نہ نجانے کہاں رہ گئی ہے! جس کو پڑھ کر ہمیںکئی نظموں کا مفہوم یہاں پیش کرنا تھا۔ کتاب نہ ہونے کی صورت میں ان اشعار کا ترجمہ پیش ہے جو انٹرنیٹ یا پھر اس شاعری سے متعلق انگریزی مضامین میں موجود ہیں۔ طالبان شاعر خپل واک اتحادیوں کو یاد دلا تا ہے: تمہارے کرسمس پر بگرام رہتا ہے روشن اور ہماری عیدپر جب بجھ جاتی ہیں سورج کی شعاعیں تو اچانک آدھی رات کو تمہارے بموں سے ہوتے ہیں گھر ہمارے روشن ……٭٭٭…… شادی کی تقریب پر ہونے والے ڈرون حملے کے سلسلے میں ایک طالبان شاعر کے احساسات کچھ یوں ہیں: جوان دلہن کو مارا گیا! اور دلہا اور اس کی خواہشات ہوگئیں شہید اُمیدو ں سے بھرے دل بھی ہوگئے شہید بچے بھی پا گئے مرتبہ شہادت کا اور محبتوں سے بھرپورکہانی ہوئی شہید ……٭٭٭…… طالبان شاعر نجیب اللہ اکرامی امریکی جارحیت اور افغانستان پر قبضے کی عکاسی اپنے اشعار کے ذریعے کچھ یوں کرتا ہے: وہ چھوٹاسا گھر ورثے میں بڑوں سے ملا ہوا جس میں، مَیں صرف خوشی سے واقف تھا میرے پیارے اور میں رہتے تھے بس اچانک ہوا ایک مہمان وارد اور رہ گیا یہاں دو دن کے لیے‘ بس لیکن جب وہ دو دن گزرگئے مہمان بن گیا ‘ میزبان اور کہنے لگا ’’آج تو آئے ہو تم خبردار کل مت پلٹنا ادھر‘‘ ……٭٭٭…… افغان معاشرے میںاپنی موجودگی کو روشنی سے تعبیر کرتے ہوئے طالبان شاعر کچھ یوں مخاطب ہے: ایک سورج تھا تمہاری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اور ہمراہ تھی‘ چاند اور تاروں کی ایک فوج ِعظیم جب تم آئے توجاہلیت کا اندھیرا روشنی میں بدل گیا اور تمہاری ہمراہی فوج نے تاریکی کا سینہ چیردیا ……٭٭٭…… تمہاری محبت ایک جانب‘ اور پھر رہ جاتا ہے کیا؟ یہ صحرا کے قریب آنے کی طرح ہے نقشِ پا پر گرد کی طرح دیکھو ‘ ایک پاگل نیچے گرا ہوا ……٭٭٭……… افغان مجاہد کون ہے ؟طالبان شاعر سے سنیے: بندوق میرے ہاتھ میں… خنجر میرے بازو کے نیچے میں جنگ کے لیے ہوں رواں میں افغان مجاہد ہوں ……٭٭٭……… دشمن کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے : تمہارے پاس ایٹم بم ہیں لیکن یہ ہر گز نہ بھولنا پاس ہمارے ہیں فدائی بمبار ……٭٭٭……… طالبان شاعرہ نصرت اپنے وطن سے محبت کا اظہار کچھ یوں کرتی ہے: ہمیں محبت ہے ان گردآلود، مٹی کے گھروندوں سے ہمیں اپنے وطن کے گردآلود صحراؤں سے پیار ہے پر چرائی ہیں دشمن نے اس کی روشنیاں ہمیں ان زخمی کالے پہاڑوں سے پیار ہے ……٭٭٭…… وہ جوہوئے قتل‘ ہاتھ کافروں کے شمار کرتا ہوں اپنے دل کو انہی میں ایک شہید یہ ہوگی تمہارے خیالوں کی شراب جو بناتا ہے میرے دل کو ساقی ‘ پانچ وقت ……٭٭٭…… افغانستان میں این جی اوز کا کردار‘ پاکستان یا کہیں اور سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔ افغانستان کے کالے پہاڑوں سے دشمن پر حملہ آور ان طالبان کو کابل سمیت دیگر شہروں میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کی پل پل کی خبر ہے۔ کون کیا ہے؟ کون کیا کررہا ہے؟ کس کا ایجنڈا کیا ہے؟ اس سب سے طالبان واقف ہیں۔ این جی اوز کے عنوان سے مطیع اللہ سرچاوال کی یہ نظم دنیا سے کہتی ہے کہ ہم کسی چیز سے بے خبر نہیں ہیں۔ مغرب کیا کررہا ہے اس پر ہماری نظر ہے۔ کتنی ہیں این جی اوز! کریں وقت ضائع‘ صرف بیٹھی رہیں دفتروں میں کتنی ہیں این جی اوز! ان کی تنخواہیں زیادہ ہیں وزیروں سے کتنی ہیں این جی اوز! کریں وقت ضائع‘ تجاویز کا کریں احترام وہ جن کے پاس نہیں کچھ تجاویز‘ ان کو یہ بھول جائیں کتنی ہیں این جی اوز! جب یہ لیں انٹرویوز تو پوچھیں کیا ہیں تجاویز تمہارے پاس؟ اس دوران میںیہ اچانک پھیلاتی ہیں ٹینشن کتنی ہیں این جی اوز! جب کہیں ہو کوئی جگہ خالی، یہ کریں بھرتی مردوں کو یہ نہیں کریں گی تسلیم کہ ان کی عمر ہوچکی ہے پوری کتنی ہیں این جی اوز! اور اگر یہ درخواست گزار ہیں لڑکیاں! تو پھر قبول ہوں گی بنا انٹرویو خواتین ہیں زیادہ اور مرد یہاں تھوڑے کتنی ہیں این جی اوز! جو چھوڑیں حکومت کا ساتھ‘ جوڑیں تعلق این جی اوز سے وجہ یہ کہ ان کی تنخواہیں ہیں ڈالروں میں کتنی ہیں این جی اوز! لوگ یہاں وہاں سے آتے ہیں اور لیتے ہیں تنخواہ ڈالروں میں وہ نہیں کرتے حکومت کے ساتھ کام کہ ان کا دل ٹوٹ چکا کتنی ہیں این جی اوز! اگر کوئی بنے کسی این جی او کا سربراہ‘ وہ ہوجائے گا مالدار وہ اٹھائیں گے لُطف زندگی کا جو کرزئی سے بھی ہے شاندار کتنی ہیں این جی اوز! چالیں یہ چلیں‘ خرچ کریں بڑی رقوم یہ نہیں واضح کہاں سے آتی ہیں یہ رقوم کتنی ہیں این جی اوز! ایک مداخلت کار گھومتا ہے ساتھ اپنے باڈی گارڈ کے یہ افغان نہیں سوچتا کچھ بھی بارے میں صورت حال کے کتنی ہیں این جی اوز!

معاشرے میں ’’مطالعے کا قحط‘‘

- شاہنواز فاروقی
قحط پڑتا ہے تو لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں اور قحط کی خبر ہر اعتبار سے عالمگیر ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ قحط ایک انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہے اور بھوک سے لاکھوں افراد کا ہلاک ہوجانا دل دہلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں مطالعے کا قحط پڑگیا ہے اور اس سے ہر سال لاکھوں افراد روحانی‘ ذہنی‘ نفسیاتی اور جذباتی موت کا شکار ہورہے ہیں لیکن یہ صورت ِحال ابھی تک اخبارات میں ایک کالم کی خبر بھی تخلیق نہیں کرسکی ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ لوگ جسمانی غذا‘ اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی‘ ذہنی‘ نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے، اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ معاشرے میں جن لوگوں کو حقیقتِ احوال کا تھوڑا بہت اندازہ ہے انھوں نے مطالعے سے گریز اور اس کو نظرانداز کرنے کے سلسلے میں طرح طرح کے عذر تراش لیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عذر یہ ہے کہ کتابیں‘ رسالے اور اخبارات مہنگے ہوگئے ہیں۔ اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن اس حوالے سے جب ہم اپنے معاشرتی منظرنامے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہولناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم دو کروڑ کا گھر خریدتے ہیں‘ اس میں 20 لاکھ کی دو‘ دو‘ تین تین گاڑیاں رکھتے ہیں۔ اس گھر میں زندگی کی مہنگی سے مہنگی آسائش موجود ہوتی ہے مگر چھوٹا سا کتب خانہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھروں میں بھی سو‘ ڈیڑھ سو کتابیں ضرور ہوتی تھیں، مگر اب ہماری جھونپڑیوں میں کیا ’’محلوں‘‘ میں بھی کتب خانہ نہیں ہوتا۔ ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں، لیکن 200 روپے کی کتاب کو ہم مہنگا کہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب اکثر کتابوں کا ایڈیشن ایک ہزار کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے دو‘ تین سو کتابیں مصنف خود دوستوں میں مفت تقسیم کردیتا ہے‘ باقی کتابیں تین چار سال تک کتب فروشوں کے یہاں پڑی رہتی ہیں۔ چنانچہ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی کتب پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور عام طور پر ان کی اشاعت خود مصنف کے سرمائے سے ہوتی ہے۔ پاکستان کی آبادی 17 کروڑ ہے اور ملک میں شائع ہونے والے تمام اخبارات و رسائل کی مجموعی اشاعت بیس پچیس لاکھ سے زائد نہیں۔ اخبار کا مطالعہ‘ مطالعے کی سیڑھی کا پہلا پائیدان ہے، لیکن اس پائیدان کی حالت بھی خستہ ہے۔ اخبارات کے قارئین کا کافی بڑا حصہ ’’مانگ کر‘‘ اخبار پڑھتا ہے۔ جو لوگ خرید کر اخبار پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت پورا اخبار نہیں پڑھتی۔ اکثر قارئین اپنی دلچسپی کی خبریں پڑھتے ہیں۔ کم لوگ اخبار کی تمام خبریں ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہیں جو اخبار کے کالم یا اداریہ پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اخبار کے اکثر قارئین کا مطالعہ‘ مطالعہ کم اور اخبار کے ساتھ تانک جھانک یا "Flirt" زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورت ِحال نے معاشرے میں ’’مطالعے کا قحط‘‘ پیدا کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قحط سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ برصغیر کی معاشرت میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ آج ہمارا کوئی ادبی رسالہ پانچ سو یا ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتا لیکن ساٹھ‘ ستّر سال پہلے اردو کے بعض ادبی جرائد کی ماہانہ اشاعت 75 ہزار سے زیادہ تھی۔ اُس وقت بعض شاعر، ادیب اتنے مقبول تھے کہ ان کو فلمی اصطلاح میں ’’سپر اسٹار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اُس زمانے میں پانچ دس ہزار افراد کے مشاعرے چھوٹے یا اوسط درجے کے کہلاتے تھے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس فضا کا سب سے بڑا سہارا ہماری زبانی روایت یا Tradition Oral تھا۔ اُس زمانے میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کہانیاں سنانے والا‘ لہک لہک کر نظمیں پڑھنے والا اور پہیلیاں بوجھنے والا نہ ہو۔ اُس زمانے کی کہانیاں متنوع ہوتی تھیں۔ ان میں مذہبی اور تاریخی قصے تھے۔ بادشاہوں‘ جنوں اور پریوں کی کہانیاں تھیں۔ ان میں انسان کی روح‘ قلب‘ ذہن اور تخیل کے لیے بہت کچھ تھا۔ ان قصوں اور کہانیوں سے بچوں میں مذہبیات اور ادب کا ذوق و شوق پیدا ہوجاتا تھا اور بچے اس ’’سمعی علم‘‘ کے ساتھ آسانی سے کتاب کی محبت میں گرفتار ہونے کے قابل ہوجاتے تھے۔ اُس وقت مشاعرے کا ادارہ اتنا مستحکم اور طاقت ور تھا کہ جو ایک بار مشاعرے میں چلا جاتا تھا اسی کا ہوکر رہ جاتا تھا۔ اُس وقت مشاعرے میں اتنی جان تھی کہ اگر کوئی شخص صرف مشاعرے کی روایت سے وابستہ ہوجاتا تھا اور لکھی ہوئی شاعری نہیں بھی پڑھتا تھا تو بھی اس کا شاعرانہ ذوق نکھر جاتا تھا۔ یہ ذوق اکثر لوگوں کو شاعری ہی نہیں ادب کی دیگر اصناف کی طرف لے جاتا تھا۔ پہیلیاں بظاہر معمولی چیز نظر آتی ہیں مگر ان میں ایک شعریت بھی تھی اور یہ صلاحیت بھی کہ وہ پہیلیاں پوچھنے اور بوجھنے والوں کو اشارے‘ کنائے اور رمز کی زبان بھی سکھا دیتی تھیں۔ اس گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں معاشرے میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنا ہے تو اپنی کہانیاں کہنے‘ نظمیں سنانے اور پہیلیاں بوجھنے کی زبانی روایت یا Oral Tradition کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ یعنی ہمارے والدین کو اپنے بچوں‘ دادا دادی اور نانا نانی کو اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں، اور بڑے بہن بھائیوں کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک بار پھر کچھ نہ کچھ وقت نکالنا ہوگا۔ اس سے صرف مطالعے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ خاندانی مراسم بھی بہتر ہوں گے اور ان میں محبت و تعلق کے خیالات و جذبات کی ’’نئی سرمایہ کاری‘‘ بھی ہوگی۔ غور کیا جائے تو ہماری زبانی روایت یا Oral Tradition میں دو بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ برجستہ بھی تھا اور مرتب یا Institutionalized بھی۔ مطالعے کے رجحان کو مزید مرتب اور منظم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم مطالعے کو اپنے پورے تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنادیں۔ اس کی روایتی صورت تو یہ ہے کہ ہمارے معمول کے تدریسی نظام میں لائبریری کے لیے کچھ وقت مقرر ہوتا ہے، اس وقت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور ہفتے میں کم از کم تین پیریڈ لائبریری کے لیے مختص ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر اسکول‘ ہر کالج اور ہر یونیورسٹی میں ایک اچھا کتب خانہ موجود ہو۔ تاہم مطالعے کو تعلیمی نظام کا ناگزیر حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پانچویں جماعت سے کتاب بینی ایک لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرائی جائے۔ اس مضمون میں بچوں کو کسی بھی موضوع بالخصوص ادبی نوعیت کی تین کتابیں پڑھنا اور پھر ان پر ایک تبصراتی اور تجزیاتی مضمون لکھنا ضروری ہو۔ بڑی جماعتوں بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر کتابوں کی تعداد مزید بڑھا دی جائے اور طالب علموں کے لیے ضروری ہوکہ وہ کتابوں پر لکھے ہوئے اپنے مضمون کو پوری جماعت کے سامنے سنائیں اور اس پر اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔ اس طرح مطالعہ نہ صرف یہ کہ ابتدا ہی سے بچوںکی ’’عادت‘‘ بن جائے گا بلکہ ان کے فہم کی سطح بھی بلند ہوگی اور ان کی اظہار کی تمام صلاحیتیں بھی فروغ پائیں گی۔ ہر سطح کے تعلیمی نظام میں تقریر اور تحریر کے مقابلوں کو اس طرح ادارتی یا Institutionalize صورت دینے کی ضرورت ہے کہ ان مقابلوں کی پوری عمارت مطالعے پر کھڑی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے تقریری مقابلوں میں ساری توجہ زورِبیان پر دی جاتی ہے۔ حالانکہ خطابت میں اصل چیز صداقت اور مواد ہے۔ جس تقریر میں صداقت نہیں اور جس تقریر میں مواد کی سطح بلند نہیں وہ بے کار بلکہ چیخ وپکار ہے۔ ہمارے تقریری اور تحریری مقابلوں کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ ان کے لیے بہت چھوٹے انعامات اور اعزازات رکھے جاتے ہیں، حالانکہ ان کے لیے انعام اور اعزاز اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ شرکاء مقابلہ جیتنے کے لیے اپنے پورے وجود کی قوت صرف کردیں۔ ایسے مقابلے اگر ضلعی‘ صوبائی اور قومی سطح پر منعقد ہونے لگیں تو ان کے معیار اور ساکھ دونوں میں اضافہ ہوگا اور مطالعہ طالب علموں کے لیے محض ’’مشغلہ‘‘ یا Part time نہیں رہے گا‘ ایک ’’اہم ضرورت‘‘ بن جائے گا۔ ہماری قومی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں طاقت‘ دولت‘ شہرت اور ان کی اقدار کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ چیزیں چند شعبوں مثلاً سیاست‘ کھیل‘ اداکاری اور گلوکاری سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ چنانچہ نئی نسل کے ہیروز یا تو کھلاڑی ہیں یا اداکار‘ گلوکار یا سیاست دان۔ اس منظرنامے میں نہ کہیں علم موجود ہے نہ صاحبِ علم۔ چنانچہ ہماری نئی نسلوں کے لیے علم اور تخلیقی سرگرمیوں میں کوئی کشش نہیں۔ اس صورتِ حال کی تبدیلی کے لیے ہیروز کی تبدیلی اور ہیروز کی فہرست میں ترجیحات کے اعتبار سے ردوبدل ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار اہلِ علم کے ہاتھ میں ہو، تاکہ علم اور طاقت کی یکجائی اجتماعی زندگی کا مرکزی حوالہ بن جائے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار اس لیے بنیادی ہے کہ مثالیوں یا Ideals کی تشکیل کے حوالے سے ان کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے۔ اخبارات کو طے کرنا ہوگا کہ اگر وہ کھلاڑیوں، اداکاروں اور گلوکاروں کے لیے ہفتے میں ایک صفحہ مختص کرتے ہیں تو انہیں اہلِ علم کے لیے ہفتے میں کم از کم تین صفحے وقف کرنے ہوں گے، یا اگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہفتے میں کھلاڑیوں اور اداکاروں کو ایک گھنٹہ دیتے ہیں تو انہیں اہلِ علم کے لیے تین گھنٹے صرف کرنے ہوں گے۔ ہیروز کی اس پیشکش میں پورے معاشرے کے لیے ایک پیغام ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہم پورے معاشرے کو علم اور مطالعہ سے منسلک کرسکیں گے۔ پوری انسانی تاریخ میں کتب خانوں نے مطالعے کے رجحان کو پیدا کرنے‘ اسے فروغ دینے اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا کے بڑے شہر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے کتب خانوں سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ لیکن اب ہمارے ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی تقریباً پونے دو کروڑ کی آبادی کا شہر ہے اور اس میں کوئی ایسی لائبریری نہیں جہاں سے کتابیں جاری کراکے مطالعے کے لیے گھر لائی جاسکیں۔ مثالی بات تو یہ ہے کہ کونسلر کے حلقے کی سطح پر چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کے قیام کے ذریعے پورے ملک کو کتب خانوں سے آراستہ کردیا جائے۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو تو بڑے شہروں میں دس لاکھ افراد کے لیے کم از کم ایک کتب خانہ ضرور ہونا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مطالعے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کررہی ہیں۔ کتابوں کی قیمتیں کم کرنے کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ ہم اپنے ملک میں ہی کاغذ پیدا کرنے لگیں‘ دوسرے یہ کہ اشاعتی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہر قابلِ ذکر کتاب کے مجلّد یا Hard bound اور غیر مجلّد یا Paper Back ایڈیشن شائع کریں تاکہ کم آمدنی والے افراد بھی غیر مجلّد کتاب خرید کر اپنے شوقِ مطالعہ کی تسکین کرسکیں۔ کتابوں کی قیمتوں کو کم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں شائع ہونے والی کتابوں کی شرحِ منافع کی حد مقرر کردی جائے۔ مطالعے کے فروغ کی ایک صورت یہ ہے کہ کتاب کو معاشرے کا سب سے بڑا اور قیمتی ’’تحفہ‘‘ بنادیا جائے، یہاں تک کہ معاشرے میں کتاب کا تحفہ دینا اور لینا فخر اور مسرت کی بات بن جائے۔ لیکن ان تمام کاموں سے پہلے معاشرے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مطالعے کے فوائد بے شمار ہیں۔ انسان کے مشاہدات و تجربات اور خیالات بہت ہونے کے باوجود کم ہی ہوتے ہیں، لیکن مطالعہ مشاہدات، تجربات اور خیالات کا سمندر ہے، اور جو شخص کتاب پڑھتا ہے‘ یہ سمندر اُس کی ذاتی متاع بن جاتا ہے۔ مطالعے کی اہمیت یہ ہے کہ صرف ایک کتاب کا اچھی طرح مطالعہ انسان کو کچھ سے کچھ بنادیتا ہے۔ انسان جب کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ کسی اور طرح کا آدمی ہوتا ہے، اور جب وہ کتاب ختم کرتا ہے تو کسی اور طرح کا شخص بن چکا ہوتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک کتاب انسان کو اتنا بدل سکتی ہے تو سو کتابیں انسان کو کس طرح تبدیل کرسکتی ہیں! مطالعے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو مرتب اور منظم انداز میں سوچنا اور اظہار کرنا سکھاتا ہے، اور انسان کی کند ذہنی اور گونگا پن دور ہوجاتا ہے۔ مطالعہ کند ذہن شخص کو اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت عطا کردیتا ہے‘ اوسط ذہنی صلاحیت کے حامل شخص کو ذہین بنادیتا ہے، اور ذہین شخص کو مطالعہ عبقری یا Genius بنادیتا ہے۔ مطالعہ خودآگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں چیزوں کے بغیر انسان اپنی زندگی کی معنویت کا تعین نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک اچھی اور بڑی کتاب سے زیادہ سستی چیز کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اچھی اور بڑی کتاب دو سو روپے کی کیا دو ہزار‘ دو لاکھ یا دو کروڑ روپے کی ہو تو بھی سستی ہے کیونکہ وہ مٹی کو سونا‘ حیوان کو انسان اور قبیح کو جمیل بناسکتی ہے۔

Wednesday 27 June 2012

Death and the Islamic perspectives


Death and the Islamic perspectives

Praise be to Allah " Who created life and death to test which of us is best in conduct." And Who " made the world a respectable for both the living and the dead" among us.

Blessing and peace be upon Muhammad , the last and the final of the prophets.

Allah, the Most Blessed and Exalted, has honored mankind from among all His creatures, and among mankind, He has favored the Muslim believer, distinguishing him from the rest by bestowal of special privileges, and conferring honor on him both during his life and after his death. For just as the Muslim is welcomed into this world at birth by purification of his body and by joyful exclamation of " There is no god but Allah " and "Allah is most great ", and the face of the earth is spread before him as dwelling, so also is the bidden farewell at death by the washing and shrouding of his body and by prayer over him, and the depths of the earth are made a grave for him, and a cover to preserve his dignity.

It is imperative that the reflection of death should be ever present in the minds of men. However prolonged this worldly life may be, it is mortal and must end and however great may be the possessions of this world, one day they are bound to be left behind.

The eternal life is immortal ; its blessings are everlasting. In view of all this it needs no explanation to a man of ordinary sense that one should opt for something which is everlasting. On the other hand to hanker after something which is transitory is the height of folly. But our reason is beclouded by stupor. We are enamoured of embellishments of the waiting room of this station where the period of our stay ends with the arrival of the train. It would certainly be to his advantage if during this short period of waiting a person should busy himself with the preparation and arrangements of goods for his journey and making provisions for those things which will prove useful on arrival at the eternal home. If on the other hand he wastes his short but precious time of leisure in going around the place and while his own goods are lying scattered he should set about dusting and furnishing the waiting room ; and what's even more foolish if he should get busy in purchasing mirrors and maps for hanging in this room, he will not only lose his ordinary provisions but also his most valuable gifts.

Almighty says:

" O those who keep faith ! Let not your goods and your offspring make you heedless towards the remembrance of Allah. And if a person does this, he will be among such people as are the losers. And whatever Allah has provided you with, spend out of it before someone's death approaches and he should say ; " O my Creator ! Why didn't you grant me few days respite so that I could give away in charity and be counted among those who are righteous. Allah certainly grants no respite to any man when the time of his death approaches and Allah is well-Aware of all your deeds." The occupation of gathering wealth and valuable goods and the care of family and offspring are those things which become the cause of indifference in carrying out the commands of Almighty Allah. Take heed lest you should depart with full awareness that you are leaving behind your family and offspring and all your goods and valuable possession. To-day you have time enough. So do what you must.

The Holy Prophet ( peace be upon him ) says : " The sanest amongst us is the one who can control his baser self and remains attached to things that may prove helpful to one's post existence. One cannot be prepared for anything unless one spends every moment of one's life in contemplating what the process of preparation requires. And anyone who is leading the life of deception. He is a victim to the worldly temptation and he is forgetful of the day he will die".

Allah reveals to us in the Holy Qur'an:

" Tell those who are running away from death that one day they will be trapped unaware and produced before Almighty. They will be called upon to answer for their action by Him Who is All-Knowing".

The Prophet ( peace and blessings of Allah be upon him ) instructed a companion that he should remember death amply. It will end your pleasures in other things. It is laid down in another tradition that death should be remembered abundantly. One who reminds himself of death frequently, his heart becomes alive and death becomes easy for him. A companion complained to the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) that he had no love for death. What should he do ? The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said : "Have you any wealth ." He replied, ‘ Yes, I have". The prophet said, " Give it away in the name of Allah ." A man loves his wealth but when he spends it in the name of Allah, he also wants to go to Him. When he tries to preserve it , he wants to remain with it.

It was the habit of Umar b.Abdul Aziz that he used to convene meetings of the learned men daily who discussed about Death, Doomsday and the Day of Judgement. He wept so bitterly on hearing about these as if the funeral was lying before him. Ibrahim Tayami said, " Two things have made me leave every pleasure of the world : One is death and the other is my anxiety to appear before Allah Almighty on the Day Of Judgement". Ka'b said: " Whosoever has recognized death, the hardships of this world will come to an end for him". A woman complained to Aisha (may Allah be pleased with her ) about her hard-heartedness. Aisha ( may Allah be pleased with her ) advised her to remember death frequently which would make her kind hearted. The woman did so and thanked Aisha ( may Allah be pleased with her ) very much for her valuable advice.

Death , according to the Qur'an, is not the end of man's life; it only opens the door to another, a higher form of life: " We have ordained death among you and We are not to be overcome, that We may change your state and make you grow into what you know not ." Qur'an 56 : 60 - 61 .

A faith in life after death is the last of the basic principles. The word generally used in the Qur'an to indicate this life is al-Akhira.

The Qur'an accords to faith in the Future Life an importance which is next only to faith in Allah. Very often all the doctrines of faith are summed up as amounting to belief in Allah and the Future Life: " And there are some people who say, We believe in Allah and the Last Day, and they are not believers ." Qur'an 2 : 8 ; " Whoever believes in Allah and the Last Day and does good, they have their reward with their Lord." Qur'an 2 ; 62

The Opening chapter of the Qur'an, entitled the Fatihah, is not only looked upon as the quintessence of the Book but it is actually the chapter which plays the greatest part in creating a true Muslim mentality ; for the Muslim must recite it in the five prayers, over thirty times daily. In this chapter Allah is spoken of as the " Master of the Day of Requital", and thus the idea that every deed must be requited is brought before the mind of the Muslim continually. The constant repetition of the idea of a requital of deeds, undoubtedly impresses on the mind the reality of a future life, when every deed shall find its full reward. The reason for attaching so much importance to a life after death is clear. The greater the faith in the good or bad consequences of a deed, the greater is the incentive which urges a man to or withholds him from that deed. Therefore this belief is both the greatest impetus towards good and noble, and the greatest restraint upon evil or irresponsible deeds. But more than this, such a belief purifies the motives with which a deed is done. It makes a man work with the most selfless of motives, for he seeks no reward for what he does; his work is for higher and nobler ends relating to life beyond the grave.

Th Qur'an not only speaks of a life after death which opens out for man a new world of advancement, before which the progress of this life sinks into insignificance; it also shows that the basis of the life is laid in this our life on earth. The Hereafter is not a mystery beyond the grave; it begins in this life. For the good, the heavenly life, and for the wicked, a life in hell, begins even here, though the limitations of this life do not allow most people to realize this. "Thou wast indeed heedless of this, but now We have removed from thee thy veil, so thy sight is sharp this day." Qur'an 50 : 22 . This shows that the spritual life which is hidden from human eye by reason of material limitations, will become manifest in the Resurrection; because human perception will then be clearer, the veil of material limitations having been removed. The Qur'an speaks of two paradises for the righteous and two chastisements for the wicked, as also of a heavenly and hellish life each beginning here : " And for him who fears to stand before his Lord are two Gardens." Qur'an 55 : 46 . " O soul that are at rest ! Return to thy Lord well pleased, well pleasing. So enter among My servants and enter My Garden ." Qur'an 89 : 27 - 30 . " Nay, would that you knew with certain knowledge, you would certainly see Hell."Qur"an 102 : 5 - 6 . " It is the fire kindled by Allah which rises over the hearts."Qur'an 104 : 6 - 7 . " And whoever is blind in this life, shall also be blind in the Herafter ."Qur'an 17 : 72 . "Such is the chastisement, and certainly the chastisement of the hereafter is greater, did they but know." Qur'an 68 : 33


http://www.isna.net/

سماجی تفریق وتقسیم

سماجی تفریق وتقسیم
تکریمِ انسانی کا ہے منشور ہی کچھ اور


ڈاکٹرامبیڈکرکا انقلابی فلسفہ انصاف،آزادی، برابری اور اخوت یعنی بھائی چارے سے روشناس کراتاہے جو انہوں نے اسلامی تعلیمات کی تعلیمات سے اخذ کی ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام اور اس کے تکلیف دہ انجام سے متاثر ہوکر امبیڈکر نے محسوس کیا کہ ذات پات کی اونچ نیچ اور ناہمواری انسانی جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ امبیڈکر کے مطابق ذات پات کا نظام حقیقت میں سماجی ناہمواری، ناانصافی اور نفرت کو بڑھاوا دینے کی زندہ مثال ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان میں ذات پات اور جمہوری اصولوں کے مابین تضاد بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے ہندوسماج میں امبیڈکر کے افکار کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جنہیں اپنی زندگی میں اونچی ذات والوں کے ہاتھوں بدترین ذلتوں اور بے عزتی کا مسلسل سامنا رہا ۔نتیجتاً انہوں نے ہندوستان میں برابری پر مبنی سماج کوقائم کرنے کی اَنتھک جدوجہد کی۔ وہ ہمیشہ جمہوری انقلاب پرایمان رکھتے تھے اور سماج کے کمزور،بے سہارا،اور مظلوم فرقہ کی آزادی کے لئے سرگرم تھے ۔انہوں نے جو طریقۂ کار متعین کیا وہ تین نکاتی تھا ۔(i) -تعلیم ؛( ii)-احتجاج  اور(iii ) تنظیم ۔ہندوستان میں اونچی ذات والے ہندو اچھوت پن کو مذہبی فریضے کے طور پر لیتے ہیں اور اس پر عمل نہ کرنے کو پاپ  خیال کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ذات اور اچھوت پن ایک ہی طریقے اور اصول پر قائم ہیں۔ اگر ذات کی بنیاد پر ہندو اچھوت پر عمل کرتے ہیں تو اس لئے کہ وہ ذات پات میں یقین رکھتے ہیں۔ اس نقطے کے پیش نظر اچھوت ہونے کی لعنت سے اْس وقت تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں جب تک کہ ذات پات کے نظام کوختم کرکے اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوجاتا۔ یہ سمجھنا کہ ذات اور اچھوت پن دو علیحدہ چیزیں ہیں ،صحیح نہیں ہے۔ دونوں نہ صرف ایک ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اچھوت پن محض ذات پات کے طریقہ کارکا حصہ ہے۔ ان دونوں کو علیحدنہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت دونوں ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں اور ایک ساتھ ہی گرائے جاسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوسستان میںہندو احیا پسند تحریکیں اس ذات پات کے سسٹم کو برقرار رکھنے کا ذریعہ رہی ہیں۔یہ ذات پر مبنی سماج یا اچھوت پن ایک منفرد اور بے مثل طریقہ کار ہے کہ یہ دنیا کے کسی اور کونے کے انسانوں میں نہیں ملتا۔ نیز دنیا کی قدیم، قبل از تاریخ یا جدید سوسائٹی میںبھی اس کا وجود نہیں ملتا۔ اگر انتھراپولوجی (علم بشریات) وہ سائنس تسلیم کی جائے جس پر لوگوں کی نسل معلوم کرنے پر انحصار کیا جاسکے تو انتھراپولوجی کے نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اچھوت ہندو سوسائٹی سے ہٹ کر آریاؤں اور دراوڑوں سے مختلف کسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس پیمانے پر برہمن اور اچھوت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اچھوتوں کی بنیاد میں نسلی نظریے کو یکسر خارج کردینے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی اس حقیت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ حقیر و غلیظ پیشے کی بنیاد پر بھی اچھوت پن کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ عمومی طور پریہ برہمنوںکی بودھ لوگوں کے خلاف پھیلائی ہوئی نفرت و حقارت کی فضا تھی۔ دوسری جانب یہ ان منتشر افراد کے خلاف نفرت و حقارت کا اظہار تھا جوباوجود گوشت خوری کی عادت جاری رکھے ہوئے تھے۔لہٰذا اِن افرادکا بڑے پیمانہ پرمعاشرتی بائیکاٹ کیا گیااور وہ سماج سے باہر اچھوت قرار پائے۔
یہ حقیقت اب بحث طلب نہیں رہی کہ ’’ ذات اور اچھوت پن‘‘ کوئی بے ضرر عقائد نہیں ہیں جن کا موازنہ موت کے بعد کی روح کے حربے سے کیا جائے۔ یہ اونچی ذات والوں کا ایسا ضابطہ حیات ہے جس میں ہر ایسے شخص کوزمین پر اپنی زندگی میں پابند رہنا ضروری ہے۔ ’’ذات پات اور اچھوت پن‘‘ محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ برہمنیت کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ ایک ہندو کے لئے ’’ذات اور اچھوت پن‘‘ کے عقیدے پر محض یقین رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اپنی روزمرہ زندگی میں اس پر عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔ بیشتر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اچھوت پن ایک دھارمک فریضہ ہے لیکن حقیقت میں یہ محض مذہبی فریضہ ہی نہیں، اچھوت پن مذہب سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہ ایک معاشی و اقتصادی سسٹم ہے جو غلامی کی حالت سے بھی بدتر ہے۔ غلامی کے دور میں کم از کم غلاموں کو کھانا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ دینا آقا کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی مگر اچھوت پن کی صورت میں اچھوت غلام کو زندہ و سلامت رکھنے کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔آج بھی آزاد ہندوستان کی یہ تلخ حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مندروں میں  اچھوتوں کے داخلے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔
اسلام نے انسانی اخوت ومساوات کو قائم کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور اعلان کیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں:اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دْنیا میں پھیلا دئے۔‘‘(النسائ:۱)۔مزید فرمایا:’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۳) ۔ ان دونوں ہی آیات میں نہ صرف مسلمانوںکو بلکہ تمام ہی انسانوںکو مخاطب کرتے ہوئے ربِ اعلیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو دنیا کا نظام ہے یعنی یہ قومیں اور برادریاں ، ان کا مقصد ہے کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ ورنہ درحقیقت ربِ اعلیٰ کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔اور اللہ اور انسانوں میں زیادہ عزت والا وہ ہوگا جو زیادہ متقتی اور پرہیزگارہے۔
ہندوستان جہاں غربت و افلاس اپنے عروج پر ہے،صحت عامہ، تعلیم، روزگار اور ان جیسے انسانی مسائل سے وہ دو چار ہے،ملک کی سا  لمیت کا خطرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کرپشن کی جڑیں جہاں خوب مستحکم ہو چکی ہیں،نکسلی زور جہاں ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے،ملک کی معیشت اور روپے کی قیمت جہاں اپنے کم تر درجہ پر پہنچ چکی ہے،جمہوریت کی جڑیں جہاں کھوکھلی ہو رہی ہیں،غنڈہ گردی اور جرائم کا گراف جہاں ہر صبح اوپر ہی اٹھتا ہے،ذہنی تنائو اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا اشخاص بڑھتے ہی جا رہے ہیں،معاشرہ پر عریانیت ، فحاشی اور اخلاقی زوال کے بادل مزید سیاہ ہورہے ہیں۔یہ اور ان جیسے بے شمار مسائل جس ملک میں موجود ہوں وہاں کے سیاست دان یہ دیکھنے کی بجائے کہ برائی کیا ہے؟ اس کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟سدھار کے وہ کون سے ذرائع اختیار کئے جائیں جن سے ملک اور معاشرہ میں انسانی رواداری ، اخوت، ہمدردی، بھائی چارہ اور محبت و الفت کی فضاء قائم ہو۔اس جانب توجہ ، غور وفکر اور تبادلہ خیال کی بجائے اُن امور پر زیر بحث ہیں جن کے تذکرے سے معاشرے میں مزید دوریاں پیدا ہوںگی۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ذات پرستی اور ذات پات پر مبنی سماج نہ کل ملک کے لئے سود مند ثابت ہو ا تھا اور نہ آئندہ ہی ہوگا۔لہٰذا اسلامی تعلیمات جو درحقیقت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے مفاد میں ہیں۔اِن تعلیمات پر ٹھنڈے دل سے اور متعصب ذہنیت سے پاک ہوکر غور و فکر کرنا چاہیے۔اگر ان تعلیمات میں ملک اور معاشرے کے لئے واضح ہدایات و راہنمائی موجود ہوں تو سب سے پہلے انسانوں سے محبت کے نتیجہ میں اور بعد میں معاشرے میں سدھار اور ملک میں سالمیت اور یکجہتی کی بنیادوں پر قبول کیا جانا چاہیے۔اس سا  لمیت ، یکجہتی اور انسانوں سے محبت نیز ملک اور معاشرے کی فلاح و بہود کی خاطرپہلے اُن لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے جو ان تعلیمات سے واقف ہیں۔ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو نہ صرف مسلمانوں کی فلاح و کامرانی تک محدود رکھیںبلکہ ان تمام افراد تک پہنچانے کی سعی و جہد کریں جن کے درمیان وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ساتھ ہی ان تمام فورمس میں اِن امور کو زیر بحث لائیں جہاں انسانیت اور انسانوں سے محبت کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں۔توقع ہے اس طرح ملک کے کھوکھلے پن اور سماجی بنیادوں پر دوریوں کو کسی حد تک کم کیا جا سکے گا!

ملّی تشخص دائو پر اجتماعی ذمہ داریوں سے اعراض کیوں؟

ملّی تشخص دائو پر
اجتماعی ذمہ داریوں سے اعراض کیوں؟





تاریخ سے صحیح سبق سیکھنے والی قومیں ہی اپنے مستقبل کو بجا سنوار سکتی ہیں۔ جو بھی اقوام تاریخ کے فہم وادراک کے باوجود اپنے حریف طاقتوں کی چال بازیوں کو نہیں سمجھتیں اُن کے بارے میں یہ مان لیا جانا چاہیے کہ وہ نہ ہی اپنے کسی اعلیٰ وارفع مقصد کو کبھی حاصل کر پائیں گی اور نہ ہی اپنے وجود اور تشخص کو قائم رکھ پائیں گی۔ہم جب تاریخ کے آئینے میں ماضی کو جھانک کر دیکھتے ہیں تو عالم اسلام کی تاریخ میں ایک عظیم نام کے کارناموں کو دیکھ کر آج بھی بحیثیت مسلم سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ شیخ امام شامل کوہ قاف کا وہ عظیم جانباز تھے جنہوں نے روس کی بربریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اس کے طاقت کے نشے کو مٹی پلید کر دیا۔ روس کے پالیسی سازوں کو جب یقین ہو گیا تھا کہ روس کا زار کسی طرح بھی امام شامل کا مقابلہ نہ کرسکے گا  اور اس عظیم سپہ سالار کے انقلاب نے روس کو ہلا کے رکھ دیا تھا تو انہوں نے ایک عجیب چال چلی ۔ روس نے امام شامل کے ساتھ صلح معاہدے کرنے شروع کر دئیے، امام شامل نے معاہدوں کا پاس و لحاظ رکھنے کے لئے ’’یرغمال نما ضمانت ‘‘ کے طور پر بڑے بڑے فوجی جنرل طلب کئے تھے مگر زارانِ روس نے بدلے میں امام شامل سے کم عمر بچوں کو طلب کیا مثلاً انہوں نے امام شاملؒ کے بیٹے عبد الکریم اور امام شامل کے دوسرے کمانڈروں کے بیٹے ’’ضمانت ‘‘ کے طور طلب کر لئے اور پھر اُن کو لارڈز کالج میں داخل کرا دیا۔اپنی نگرانی میں اُن کی تربیت کی، اُنہیں فوجی اکیڈمی میں بھیج دیا اور اس تربیت کے بعد اسی سپہ سالارکے بیٹے نے منطقۂ کا کیشیا پر قبضہ کرکے اسے روس کے حوالے کر دیا۔ قازقستان پر آخری حملے کے موقع پر امام شامل کا بیٹا روسی فوج کا افسر تھا اور امام شامل کے نائب کا بیٹا حجی مراد بھی روسی فوج کا افسر تھا،یہ دونوں اپنے قوم کے خلاف لڑے بھڑے۔
یہی حکمت عملی سابق سودیت یونین نے افغان جنگ کے دوران اپنائی ہے۔ہر سال25تا30 ہزار افغان بچے روس بھیجے جاتے تھے تاکہ کمیونسٹ نظریے کے مطابق اُن کی ذہنی نشوونما اور تربیت کی جاسکے۔ اسی طرح روس جنگ میں یتیم ہونے والے بچوں کو کمیونسٹ چھاؤ نیوں میں اورکمیونسٹوں کے گھروں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ اس پُرفتن طریقے نے افغان قوم پر گہرے اثرات مرتب کئے  ہیں اور یہی Ideology والے حضرات آج کل حامد کرزئی کی پشت پر کھڑے ہو کر اپنے ہی ہم وطنوں کو غیر اقوام سے گاجر مولی کی طرح کٹوا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر جہاں جہاں بھی مسلمان اپنے غضب شدہ حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں یہی طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے تاکہ اس مغلوب ملّت کو ذہنی طور پراس حد تک کمزور کیا جائے کہ وہ آواز بلند کرنا تو دور کی بات سر اُٹھا کر چلنے کی جسارت بھی نہ کرسکیں۔ اِدھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں ہے تلخ حقائق کی روشنی میں اگر اپنی ہی سر زمین ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی سماجی، اخلاقی اور ملی قدروں کی ہی اگر جانچ پڑتال کی جائے گی تو صورتحال افسوس ناک ہی دکھائی دے گی۔ یہاں بھی عرصہ63؍ برس سے سیاسی ، معاشی وثقافتی حقوق کی بازیابی کے لئے جنگ جا ری ہے اور جدوجہدمیں عملاً تو یہاں کی اکثریتی طبقہ ہی شامل ہے۔ وہی حالات کی مار سہہ رہے ہیں،ان کے روحانی مراکز کے خلاف سازشیں رچائی جارہی ہیں جس کی تازہ مثال خانیار سرینگر میں دستگیر صاحبؒ کے آستانہ عالیہ کی آتش زدگی ہے، اُن کے نوجوان درگور کئے گئے ہیں، اُن کی مال و املاک تباہ و برباد ہو رہی ہیں اور اُن ہی کی عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ یہ سب ناقابل بیان تکالیف اور مصیبت اس اُمید کے ساتھ برداشت کی جا رہی ہیں کہ جس منزل کو پانے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اس کا راستہ اُن ہی کٹھن اور تکلیف دہ مراحل سے گزرتا ہے لیکن اب جو سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ، جو فتنہ پرورحکمت عملی63؍ سالہ جدوجہد کو کچلنے کیلئے اپنائی جا رہی ہے وہ یقیناًمسلمانانِ کشمیر کی داستان تک کو داستانوں میںسے مٹانے کے لیے کافی ہے۔
تہذیبی جارحیت ایک ایسا طوفان ہے جو ذہنوں کو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے کر اُنہیں ملّی ذمہ داریوں کے تئیں مردہ بنا رہا ہے۔ روسی طریقۂ جارحیت ہی کی نقل کرکے یہاں کی نسلِ نو کوگمراہی کے راستے پر گامزن کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں غیر ریاستیNGO's کے کام کے پیچھے یہاں کون سے مقاصد کار فرما ہیں؟ نام نہاد تعلیمی دوروں کے نام سے نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کو بیرون ریاست دوروں سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے؟سول حکومت کے ہوتے ہوئے تعلیمی اور رفاعی کاموں میں فورسز کا براہ راست ملوث ہونا کس بات کی عکاسی کر رہا ہے؟سینکڑوں یتیموں کو بیرون ریاست کے لے جا کر اُن کی من پسند طریقوں سے ذہن سازی کرنا اُس آنے والے طوفان کی پیشگی اطلاع فراہم کر رہا ہے جو یہاں کے اسلامی تشخص، ملّی وجود اور تہذیب و تمدن کو زہرہلاہل ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے یہاں کا وہ تعلیمی نصاب پورا کر رہا ہے جو بظاہر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے لیکن اُس میں ایسا میٹھا زہر گھول دیا گیا ہے جو ہماری قومی اورملّی وجود مٹانے کے لئے Slow Poisioning کا کام کرتا جا رہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ جوکام لاکھوں وردی پوش نہ کر پائے ہیں، مالی مراعات، سڑک، پانی اور بجلی جو چمتکار نہ کر پائیے ہیں وہ تہذیبی جارحیت کے آسان نسخے کے ذریعے سے انجام دیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے کشمیری مسلمان برسوں کی ثابت قدمی کے باوجود اس نظرفریب اسکیم کا آسانی سے شکار ہو رہی ہیں ۔ قائدین، علماء اور واعظین کے بار بار کی تنبیہ کے باوجود قوم کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل باطل عقائد ، رسم و رواج ، اخلاقی بدحالی، عریانیت اور فحاشیت کی جانب لپکی جا رہی ہے۔ تہذیبی جارحیت کی اس آندھی کے بھیانک نتائج بھی ہم آئیے روز دیکھتے ہیں۔ مختلف ناموں کے سائے میں بے حیائی اور عریانیت فروغ پا رہی ہے، جرائم کا گراف کسی بگڑی ہوئی قوم سے کم نہیں ہے، عائلی و خاندانی معاملات میں جتنے فتنے ، فساد اور تضاد ہمارے یہاں کے سماج میں پائے جاتے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے زوال پذیرسماج میںموجود ہوتے ہوںگے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم بحیثیت مجموعی آنکھیں بند کر لیتے ہیںحتیٰ کہ ذی حِس لوگ بھی اس بدتر صورتحال کی ذمہ داری ٹیکنالوجی اور زمانے کے سر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دے رہے ہیں۔ اُس بنیادی سبب کو جاننے کی بھی کوشش نہیں ہوتی جو اِس سب کا محرک بنا ہوا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ صد فی صد صحیح ہے کہ ہماری قوم بحیثیت مجموعی اپنے منصب کو نہیں پہچان پا رہی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں جو سیاسی طوفان برپا ہوچکا ہے تو مخالف سمت کے پالیسی سازوں کوبھی ذہن سازی اور نسل نو کی اپنے ڈھنگ سے تربیت کے اہتمام کی ترغیب سوجھی ہے ۔ ابھی اگر چہ اس کے اثرات اُس پیمانے کے ظاہر نہیں ہو رہے ہیں لیکن اگلے پانچ دس برس بعد کی ممکنہ صورتحال پر سوچنے سے ہی گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں کے یتیم بچوں کی بیرون ریاست کے یتیم خانوں میں پرورش ہورہی ہے، مشکوک مقاصد کی تکمیل کے لئے ریاست کے طول وعرض میں سینکڑوں اسکول قائم کئے ہیں جن میں اس ملّت مظلوم کے ہزاروں نونہالوں کی من چاہے طریقوں سے ذہن سازی ہورہی ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ’’درشن دوروں‘‘ کا اہتمام کرکے یہ عناصر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر یہاں کے عوام کو ضرور غور وفکرکرنا چاہیے۔ حد تو تب ہوئی جب پیش اماموں تک کے ایک گروپ کو بیرون ریاست سیر کرانے کے لئے بیرون ریاست لے جایا گیا۔ یہ دینی مدارس کی فکر آخر ان عناصر کو اچانک کیوں ہونے لگی؟ انہیں حال ہی میںکروڑوں کی امداد کیوں فراہم کی گئی؟ یہ الگ بات ہے کہ آیا وہ امداد کسی نے حاصل کی بھی ہے یا نہیں؟ دراصل اس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے تعلیمی نصاب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔نائن الیون کے بعد حملے کی وجوہات جاننے کے لئے قائم ہونے والی تحقیقاتی ایجنسی نے جو رپورٹ اور سفارشات حکومت امریکہ کو پیش کی ہیں ان میں اس بات کی سفارش بھی کی گئی کہ مسلم ممالک کے عصری اور دینی مدارس کے نصاب کواپنے زاویۂ نگاہ سے از سر نو ترتیب دیا جائے۔ اس سلسلے کی کڑی کے تحت عالمی سطح پر مدارس کے معاملات میں دلچسپیاں لی جارہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں اس شعبے میں ’’مالی امداد‘‘ کے نام پر قدم رکھا گیاہو۔ معاملے کی حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر دنیا بھرمیں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد اور اپنے حقوق کے لئے لڑی جانے والی لڑائیاں تو دم توڑ ہی دیں گی اور ساتھ ہی ان کا مسلم تشخص بھی ختم ہوجائے گا۔ مقصد زندگانی ہی ختم ہوجائے گی،جب زندگی بے مقصد رہ جائے تو کسی مسلمان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہے۔
ذہنوں کو غلام بنانے کی یہ زہرناک کوششیں دنیا بھر میں اپنائی جارہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ کوششیں کہیں کہیں کامیاب بھی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ بڑی تیزی کے ساتھ مختلف تہذیبیں اسلامی تہذیب کو اپنے رنگ میں رنگ رہی ہیں۔ مسلم ممالک میں اسلام مخالف طور طریقوں کو نہ صرف اپنایاجارہا ہے بلکہ اخلاقی نظام کے احیاء نو کی تمنّا بھی اگر عوام کے قلب وجگر میں پنپ رہی ہوتو اس کی راہ میں بڑے پیمانے پر روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات اور اس میں اخوان المسلمون کی انتخابی جیت کے بعد کی صورت حال چشم کشا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ دنیا کی جابر و ظالم طاقتوں کواگر کسی چیز سے خطرہ محسوس ہورہا ہے تو وہ صرف اسلام ہے اور اس نام نہاد ’’خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لئے مخالفانہ خطوط پر ذہن سازی کو ہی کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی تصدیق اس مثال سے بھی بخوبی ہو جاتی ہے کہ ایک مرتبہ افغانستان اور سابق سودیت یونین کی لڑائی کے دوران امریکی سابق صدر نکسن مہاجر کیمپوں اور سرحد کا دورہ کرنے کے لئے پاکستان آگیا تھا۔ کیمپوں میں مہاجرین کے حوصلوں اور اسلامی جذبے کو دیکھ کر امریکہ واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے نکسن نے اسلام کوامریکہ کے لئے ایک خطرہ قرار دیا۔ ایک صحافی نے جب پوچھا کہ ’’اس دورے کے دوران آخر آپ کو بنیادی مشکل کیا نظر آئی؟‘‘ نکسن نے جواب دیا ’’بنیادی مشکل اسلام ہے‘‘۔ پوچھا گیا ’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’یہ کہ ہم مسلمانوں کی اولادوں کو اپنے شہروں میں بلا کر رکھیں تاکہ اپنی ثقافت ان کے دماغوں میں اتاردیں پھر ہم انہیں ان کے شہروں کو لوٹا دیں‘‘۔
منفی یا مرعوبیت زدہ ذہن سازی کے ذریعے مسلمانانِ کشمیر کو بڑی تیزی کے ساتھ فکری اعتبار سے مردہ بنانے کی کوشش اپنے شباب پر ہیں۔ اس بات کا اگر چہ ہماری قیادت، علماء کرام اور دانشوران قوم کو بخوبی ادراک ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سوائے بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ صرف پریس بیانات کو ہی حق ادائی کامحورتصور کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی توآنے والے برسوں میں عوام الناس کے اندرنہ ہی یہاں سیاسی مزاحمت کا جذبہ ہوگا اور نہ ہی ہماری اسلامی شناخت برقرار رہے گی۔ ہم یہ افسوس کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیری شاید وہ واحد قوم ہے جو تباہی و بربادی کو اپنی جانب بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔لاکھ تباہیوں کے بعد ترقی کے منازل پھر طے کئے جا سکتے ہیں،سڑکیں اور عمارتیں بھی کبھی نہ کبھی تعمیر کی جا سکتی ہیں، تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی فروغ پاسکتے ہیں لیکن نامساحد حالات میں جو ہم سے ہماری ملّی پہچان چھین لی جا رہی ہے وہ کسی بھی صورت میں دوبارہ واپس نہیں آ سکتی ہے۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ قوم کے خیر خواہاں تہذیبی جارحیّت اورروحانی مراکز کے خلاف رچائی جارہی سازشوں کے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لائیں۔یہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ہماری آخرت کی کامیابی اور ناکامی جڑی ہوئی ہے۔عام کشمیری بھی اپنے زندگی کے شب و روز کا جائزہ لے ۔ حق وصداقت کے نفاذ کا ہم سے کیا تقاضا ہے یہ جان کر اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
essahmadpirzada@gmail.com


courtesy: Kashmir Uzma

Tuesday 26 June 2012

اس صح کو ہم ہی لایں گے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔۔۔۔

مصر کے صدارتی انتخاب میں اخوان المسلمون کے محمد مرسی کی کامیابی
تھریر: نواءے وقت
ترتیب و تلخیص: ایاز الشیخ  
مصری الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ روز مصر کی اصلاح پسند اسلامی انقلابی جماعت اخوان المسلمون کے امیدوار 60 سالہ محمد مرسی عیسیٰ الآیت کو کامیاب قرار دیا۔ وہ مصر میں آمرانہ تسلط کے خاتمہ کے بعد ایک اسلامی انقلابی جماعت کے پلیٹ فارم سے پہلی بار مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مخالف امیدوار سابق وزیراعظم احمد شفیق کو شکست دی اور مجموعی طور پر 51 اعشاریہ 73 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ ووٹوں کا ٹرن آﺅٹ 51 اعشاریہ 8 فیصد رہا۔ مصر کے عوام انتخابات کے نتائج سننے کیلئے گزشتہ چار روز سے لاکھوں کی تعداد میں التحریر چوک میں دھرنے کی کیفیت میں تھے‘ جنہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے محمد مرسی کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگائے جبکہ اخوان المسلمون کے امیدوار کی کامیابی کا ملک بھر میں جشن منایا گیا۔ اس موقع پر مصری عوام پرجوش انداز میں فوجی حکمران مردہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ نتائج کے اعلان سے قبل مصر کے بازار پہلے ہی بند کر دیئے گئے تھے اور الیکشن کمیشن کے باہر سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔
مصری عوام نتائج کے اعلان سے قبل غیریقینی کی کیفیت کا شکار تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ فوجی حکومت کہیں نتائج میں پھر کوئی گڑبڑ نہ کر دے۔ کیونکہ گزشتہ ہفتے فوجی حکومت نے پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی اور انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ اسی بنیاد پر عوام کو مصر کی حکمران فوجی کونسل اور سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز پر قطعاً اعتبار نہیں تھا اور وہ نتائج کا اعلان سنے بغیر التحریر چوک چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اس سے قبل مصری عوام نے حکمران فوجی کونسل کی جانب سے صدارتی انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کے اقدام کیخلاف پورے مصر میں احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ شروع کیا جو التحریر چوک میں جمع لاکھوںباشندوں کی احتجاجی تحریک کو تقویت پہنچاتے نظر آئے جبکہ اس سخت عوامی دباﺅ پر مصری فوجی حکمران فیلڈمارشل حسین طنطاوی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور بالآخر انہوں نے صدر کے منصب پر محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم کرلیا۔ 
نومنتخب محمد مرسی‘ نے گزشتہ سال کے انقلابِ مصر کے مقاصد کو پیش نظر رکھنے اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ پاور شیئرنگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی کامیابی کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے صدر مرسی نے مصری عوام کی جانی و مالی قربانیوں سے لبریز انقلابی تحریک کو اپنی کامیابی کی بنیاد قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی ایک جماعت کے نہیں‘ بلکہ تمام مصری عوام کے صدر ہیں۔ انقلاب جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہمی اتحاد کو فروغ دیں۔ امریکہ کی جانب سے اگرچہ محمد مرسی کو صدر منتخب ہونے پر تہنیتی پیغام بھجوایا گیا ہے تاہم اس پیغام میں موجود صدر مرسی کیلئے پندو نصائح سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل مخالف مرسی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر واشنگٹن میں مقیم بااثر اسرائیلی لابی کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔ 
گزشتہ سال کے آغاز میں تیونس سے شروع ہونیوالی عوامی بیداری کی تحریک نے عرب ریاستوں کی سالہا سال سے قائم آمریتوں کی بنیادیں ہلا دیں اور مطلق العنان حکمرانوں کے یکا و تنہا اقتدار کے سنگھاسن کو جھنجوڑ کر الٹا چھوڑا۔ امریکہ بہادر جہاں دہائیوں سے ان آمریتوں کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا تھا‘ عوامی جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان آمروں کو عوامی غصے کا سامنا کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔ تیونس‘ الجزائر‘ مصر‘ شام‘ اردن‘ لیبیا اور دیگر عرب ریاستوں میں اقتصادی ناہمواریوں کیخلاف اٹھنے والی بیداری کی لہر میں عالمی طاقتوں کو موقع فراہم ہوا کہ آئندہ حکومتی سیٹ اپ انکی مرضی کا قائم ہو۔ مصر اور لیبیا کے عبوری سیٹ اپ کی ناکامی سے اس ہی کا عندیہ ملتا ہے۔ تاہم مصر میں‘ مصری فوج کی شدید مخالفت کے باوجود‘ مصر کے انقلابی لیڈر النبیٰ کی قیادت میں 1928ءمیں تشکیل پانے والی اخوان المسلمون آمریتوں کے مسلسل جبر و تشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے 72 سال بعد آج مصر میں بے مثال جمہوری کامیابی کی صورت میں اسلامی فلاحی جمہوری انقلاب کی علامت بنی ہے تو یہ تمام اسلامی جمہوری ممالک کیلئے مسرت اور حوصلے کا موقع ہے۔ عالمی دنیا میں جہاں دہشت گردی کی جنگ کے جواز سے اسلامی ممالک پر رجعت پسندی کا لیبل لگانے کا بہانہ ملا‘ تو وہاں ترکی میں رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور اب مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی نے اسلام کے قائل ممالک اور عوام کو جمہوریت پسند اور ترقی پسند ممالک کی صف میں آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر ثابت کردیا ہے۔ صدر مرسی کی اخوان المسلمون جدید دنیا کے تقاضوں اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر اصل اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسکی فتح امور حکومت و مملکت میں خواتین اور اقلیتوں کی برابر شرکت اور تمام مصری شہریوں کو ایک باعزت معیار زندگی فراہم کرنے کے وعدوں میں ہے۔ اسلامی قوانین اور دنیاوی اعلیٰ تعلیم کے حصول کو مطمع نظر رکھنے کی مثال صدر مرسی خود ہیں۔ وہ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور انکی پارٹی میں دیگر لیڈران اور عہدیداران اور کارکن بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکیلئے اس پارٹی کی روشن خیالی کے عمل دخل کے باعث ہی دنیا کے 72 ممالک میں اس پارٹی کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اگر اس پارٹی کے قائدین دینِ حق کے فلسفہ ¿ امن و آشتی اور بھائی چارے کی بنیاد پر بیرونی دنیا سے مراسم استوارکرنے کے قائل نہ ہوتے تو آمریتوں کا جبرِ مسلسل انہیں کب کا راستے سے ہٹا چکا ہوتا۔ مصر کے عبوری فوجی سیٹ اپ نے بھی تو اخوان المسلمون کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور مصری عوام کو مسلسل یہی باور کرایا جاتا رہا کہ امور حکومت میں موجودہ حکمران فوجی کونسل کا ہی عمل دخل برقرار رہے گا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد صدر کے عہدے کو تمام بامعنی اختیارات سے محروم کرنا تھا۔ عوامی بیداری کی لہر نے آمریت کی باقیات تک کو اقتدار کے ایوانوں میں ٹھہرنے کا موقع نہیں دیا اور مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی بے بسی کی موت کے بعد اب وہاں عبوری فوجی حکمرانوں کو اپنی من مانیوں کی سزا ملنے والی ہے۔ مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی کو مسلم اور غیرمسلم دنیا کی جانب سے جس بے پایاں جذبے کے ساتھ مبارکبادوں کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور انکی فتح کو عوام کی عظیم فتح اور طاغوتی قوتوں کی شکست قرار دیا جا رہا ہے‘ اسکے پیش نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محمد مرسی کی کامیابی بلاشبہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے فروغ و استحکام کی بھی ضمانت ہے اور واضح پیغام بھی کہ ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا“۔