Search This Blog

Wednesday 20 June 2012

کتابوں کا میلہ

کتابوں کا میلہ



علم ودانش کے مصادر اور منابع تک رسائی کا براہ راست ذریعہ کتابیں ہیں ۔ کاغذ کے اوراق پر سیاہ حروف میں تحریر شدہ الفاظ وعبارات معلومات کی دنیا کا احاطہ کرتے ہیں ،نظریات کی جنگ انہی سے لڑی جاتی ہے اور آنے والی نسلوں تک ماضی کا سرمایہ کتابوں کے ذریعے ہی منتقل ہوتاہے   ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا ء کی
جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
چند دن پہلے کشمیر کے تاریخی علمی ادارے ایس پی کالج میں بک ٹرسٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام ریاستی اور ملکی سطح پر کتابوںکی خریدوفروخت کرنے والے اداروں نے عمدہ مطبوعات کے دیدہ زیب اسٹال قائم کئے تھے ۔راقم بچپن کے ایام سے ہی کتابوں کا شیدائی رہاہے اور ہر ماہ کوئی نئی کتاب ، کوئی شعری مجموعہ یا کوئی ادب پارہ خرید کر مسرت اور بصیرت کی بیش بہا دولت سے اپنے آپ کو مزین پاتاہے ۔بک ٹرسٹ آف انڈیا کے کتاب میلے میں راقم نے اسلامیات ، ادیبات اور اقبالیات پر کچھ نئی کتابیں خریدیں۔ کتاب میلہ میں کئی شیدایانِ علم وادب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ ان میں بیشتر پولیس ، ڈاکٹری اور صنعت وحرفت کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ ان کا ذوقِ مطالعہ انہیں کتاب میلہ میں کشاں کشاں لایا تھا۔ اریب پبلی کیشنز ، کتب خانۂ حمیدیہ ، مکتبہ الحسنات اور میزان پبلی کیشنز کی طرف سے اُردو زبان وادب اور دینیات پر اچھی کتابیں میلے میں موجود تھیں ۔شاہین کلینڈر منصورہ لاہور کی طرف سے شاعر مشرق کے فکرانگیز اشعار کا خوبصورت گلدستہ بھی ایک اسٹال کی زینت بنا ہوا تھا ۔حقیقت میں شعر کی روح اور کتاب کا مغز ہی اہمیت کا حامل ہے ۔روحِ کتاب کی طرف علامہ اقبال نے بڑی عمدہ بات کہی ہے   ع  کتاب خواں ہے تو مگر صاحب ِکتاب نہیں۔یعنی صاحب ِ کتاب ہونا ، کتاب کی روح اپنے اندر اتارنا ،حکمت ِ کتاب کا جاننا اہم بات ہے ۔ ہمارے درمیان کتنے لوگ ایسے ہیں جو روز وشب مطالعۂ کتب میں مصروف رہتے ہیں،کتابیں لکھتے ہیں ،پھر ان کو فروخت کرتے ہیں ۔ ان پر تبصرے کرواتے ہیں لیکن کتاب اور علم کی روح سے ان کا وجود خالی ہوتاہے ۔ وہ اسکالر تو ہوتے ہیں لیکن انسان نہیں ہوتے ہیں ۔ ا ن کے دل کدورت ، نخوت ،پندار اور ’’من دانم‘‘ کے خیالات کا مجسمہ ہوتاہے ۔ یہ نہ کتاب خوان ہوتے ہیں ، نہ صاحب ِ کتاب ہوتے بلکہ کرم کتابی ہوا کرتے ہیں ۔ ’’پیام مشرق ‘‘ میں دانائے مشرق نے کرم کتابی کے عنوان سے ایک مختصرنظم تحریر کی ہے جودنیا کے ہرکتب بین کے لئے لمحۂ فکریہ ہے    ؎
شنیدم شبے درکتب خانۂ من
بہ پروانہ می گفت کرمِ کتابی
باَوراقِ سیناؔ نشیمن گرفتم
بسے دیدم از نسخۂ فاریابی
نہ فہمیدہ اَم حکمتِ زندگی را
ہماں تیرہ روزم زبے آفتابی
نکوگفت پروانۂ نیم سوزے
کہ ایں نکتہ را درکتابے نیابی
تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دہد بال وپَر زندگی را
ترجمہ:-’’میں نے ایک رات اپنے کتب خانے میں سناکہ دیمک پروانے سے کہہ رہی تھی ۔ میں نے بوعلی سینا کی کتابوں کے اوراق میں بسیرا کیا اور ظہیرفاریابی کے نسخے بھی دیکھ ڈالے ۔ میں زندگی کی حقیقت سے اب تک انجان ہوں ۔ سورج کے نہ ہونے سے میرے دن اسی طرح تاریک ہیں ۔ ایک اَدھ جلے پتنگے نے خوب کہا کہ تو اس راز کو کسی کتاب میں نہیں پائے گی ۔ تپش (حرارت، تڑپ) زندگی کو زندہ تر کرتی ہے اورتپش زندگی کو بال وپر فراہم کرتی ہے ‘‘۔
جسمانی اور ذہنی طور پر کافی مصروف لوگ بھی کتابوں کے شیدائی ہوتے ہیں ۔ وہ مطالعۂ کتب کے لئے ضرور کچھ وقت نکالتے ہیں۔کشمیرمیں یورپی ممالک کے سیاحوں کے ساتھ لازماً کوئی نہ کوئی کتاب دیکھی جاسکتی ہے ۔ میں نے لداخ کے ایک پہاڑ کی بلندی پر ایک مغربی سیاح کو مطالعے میں مصروف دیکھاہے  اور ڈل جھیل میں شکارے میں سوار ایک انگریز جوڑے کو محو مطالعہ پایا ہے ۔
کشمیر میں آئے د ن ذوقِ مطالعہ اور شوقِ کتب بینی میں بڑے پیمانے پر کمی محسوس ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر سیر حاصل مطالعہ اور امتحانات میں از خود سوالات کے مطلوب جوابات تحریر کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔ چنانچہ پچانوے فیصد طلبہ رٹے رٹائے جوابات لکھ دیتے ہیں ۔ٹی وی ، انٹرنیٹ اور موبائل فو ن کے بے لگام استعمال نے نژادِ نو کو کتابوں سے بتدریج کنارہ کشی پر تیار کیاہے ۔یقیناً مشینی آلات اور عصری سہولیات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن قدیم زمانے میں کاتب اور خطاط دورانِ کتابت اپنے خون جگر کی آمیزش سے ایک کتاب تحریر کرتاتھا، اس کتاب کے مطالعے میں خونِ خطاط کی جھلک بھی شامل ہواکرتی تھی ۔ اب تو ایسا محسوس ہورہاہے کہ ایک ہفتے میں کمپیوٹرپرکتاب کی کمپوزنگ ، اس کی طباعت اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے آناً فاناً اطرافِ عالم میں اس کی منتقلی ممکن بن چکی ہے لیکن کتابوں کے اوراق اور متون سے تازگی ،حلاوت اور صداقت جیسے ناپید سی ہوگئی ہے ۔ آئیے معیاری ،تعمیری اور عمدہ کتابوں کے مطالعہ کو اپنا شعاربنائیں   کیونکہ فخر الدین رازی کے بقول ’’عمدہ کتابیں انسان کو حیاتِ فانی میں عزت اور حیات دوامی میں ابدی سکون بخشتی ہیں ‘‘۔
--------------------
رابطہ:- اقبال انسٹی ٹیوٹ ،یونیورسٹی آف کشمیر 

No comments:

Post a Comment