Search This Blog

Sunday 24 June 2012

عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے - ڈاکٹر خالد مشتاق

عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے


- ڈاکٹر خالد مشتاق
آج ہم سورہ آل عمران کی آیت نمبر 26 سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ ڈاکٹر بخاری صاحب نے تلاوت کی، اور میں حسنِ اتفاق پر حیران رہ گیا۔ (ترجمہ) ’’کہو، خدایا، ملک کے مالک، تُو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ میں ڈاکٹر صاحب سے کہہ چکا تھا کہ مدینہ کے معاشرے میں واقعات ہوتے ہی وحی آجاتی۔ کتنا سکون ملتا ہوگا دل کو۔ استاد صاحب نے فرمایا کہ اگر ہم ہدایت حاصل کرنے کے آج بھی طالب ہوں تو حالات کے لحاظ سے آیت خودبخود روشن ہوجائے گی۔ اور اس روشنی میں سب واضح ہوجائے گا۔ ہم روزانہ ایک آیت سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ آیت اُس رات آئی، صبح ہی وزیراعظم گیلانی کو فارغ کردیا گیا۔ ان کی ’’عزت افزائی‘‘ سے رخصتی والے دن یہ آیت خودبخود سب کچھ روشن کررہی تھی۔ مجھے ماضی کے چند مریضوں کے واقعات یاد آرہے تھے۔ ’’چلتے ہوئے سانس پھولتی ہے۔ سانس زور زور سے لینا پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سانس اب نہیں آئے گی۔ رات کو سونا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘ یہ مریض آغا خان اسپتال کی او پی ڈی میں ڈاکٹر عبدالمجید میمن کے پاس آیا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی ہسٹری لو۔ مریض کا نام پرویز تھا۔ عمر 40 سال تھی۔ اسے یہ تکالیف 3 ہفتہ پہلے شروع ہوئی تھیں۔ شروع میں کم تھیں، پھر بڑھتی گئیں۔ اب اس میں ذہنی طور پر بھی تکالیف شروع ہوگئیں۔ رات کو ڈرائونے خواب آنا، باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہونا، کسی کے تیز بولنے پر دل کا زور زور سے دھڑکنا وغیرہ۔ یہ صاحب اسمبلی کے ممبر تھے۔ وزیر تھے۔ حکومت کو حادثہ پیش آیا۔ وزارت، اسمبلیاں سب چلی گئیں۔ پہلے چند دن تو یہ گھر سے ہی نہیں نکلے۔ انہیں دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ انہیں شدید غصہ بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم این اے ہاسٹل اور وزارت میں وہ افراد جو ہر وقت انہیں سلام کرتے نہیں تھکتے تھے، ان کی وزارت ختم ہونے کی اطلاع سن کر اپنا رویہ تبدیل کرلیا۔ یہ ایم این اے ہاسٹل میں تھے۔ انہوں نے گھنٹی بجائی۔ پہلے تو گھنٹی بجتے ہی ملازم حاضر ہوجاتا تھا۔ لیکن اب یہ ہوا کہ 4-3 منٹ مسلسل گھنٹی بجانے پر ایک ملازم آیا۔ اس نے آتے ہی کہا: ’’سر خیریت ہے!‘‘ انہوں نے اُسے کچھ کہنا چاہا، اُس نے درمیان سے ہی بات کاٹ دی اور بولا، ’’سر ہر ایک گھنٹی بجا رہا ہے، وقت تو لگے گا، ہم بھی انسان ہیں۔‘‘ یہ حیرانی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ پہلے تو چپڑاسی سلام کرکے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا تھا اور سر جھکا کر کہتا: ’’جی سر! آرڈر‘‘۔ آج اُس نے سلام بھی نہیں کیا بلکہ بات کاٹ دی اور سنا بھی دیں۔ اسی جیسا حال وزارت کے اپنے سیکریٹری کو فون کرنے پر ہوا۔ پہلے تو وہ ایک بیل بجتے ہی فون اٹھا لیتا تھا، لیکن آج یہ ہوا کہ یہ فون کرتے رہے، بیل بجتی رہی لیکن اُس نے فون نہ اٹھایا۔ ’’پہلے تو ایسا ہوتا تھا کہ وہ پہلی مرتبہ گھنٹی بجنے پر اٹھالیتا یا چند سیکنڈ بعد ہی اس کا فون آجاتا، لیکن میرے کئی مرتبہ فون کرنے کے بعد اس نے فون اٹھایا۔ میں نے غصے سے کہا: تم نے فون کیوں نہیں اٹھایا؟ اُس نے کہا: سر میں ایک میٹنگ میں تھا۔ غصے میں اسے… وہ بولا: سر ہر ایک کی عزت ہوتی ہے۔ آپ کس طرح بات کررہے ہیں! میں حیران تھا کہ اس نے بتایا: وزارت میں کوئی میٹنگ ہے، میں جارہا ہوں، اور فون بند کردیا۔ مجھے یہ حقیقت اس نے تسلیم کروائی کہ تم وزیر نہیں ہو۔ بس اسی دن سے میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی۔ پہلے میرے ساتھ بہت سے گارڈز ہوتے تھے۔ اسکواڈ ساتھ چلتا تھا۔ اب اکیلے سفر کرنا پڑتا ہے۔ باہر نکلنے پر خوف طاری رہتا ہے۔ ڈر لگتا ہے۔‘‘ مریض کا تفصیلی معائنہ کیا گیا۔ ایکسرے، خون کے ٹیسٹ، سانس کی نالیوں کا ٹیسٹ (Spirometry)، سب کچھ ٹھیک تھا۔ مریض کو جسمانی طور پر نہ تو سانس کی تکلیف تھی، نہ سینے میں خرابی تھی، نہ ہی دل کا مسئلہ تھا۔ اسے انگزائٹی کی بیماری تشخیص کی گئی۔ دماغ میں کیمیکل جمع ہوگئے تھے جن کی وجہ سے یہ علامات ہورہی تھیں۔ یہ صاحب وزارت کے زمانے میں غرور و تکبر کرتے تھے، دوسروں کے سامنے اتراتے، رعب جھاڑتے، اختیارات کا… استعمال کرتے تھے۔ وہ اس وزارت کو جو انہیں حاصل ہوئی تھی، اپنی محنت کا صلہ سمجھتے۔ ہر ایک پر اسٹیٹس کا رعب جھاڑتے۔ ان کے دوسروں کے ساتھ تحقیر آمیز رویّے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرتے تھے۔ ان کا اسٹاف ان کو آتے جاتے سلام کرتا تو یہ خود کو عزت والا سمجھتے۔ وزارت کے جاتے ہی سب نے ان سے آنکھیں پھیرلیں۔ وہ غرور و تکبر جب خاک میں ملا تو یہ ذہنی طور پر متاثر ہوگئے۔ باڈی گارڈز کے بغیر نکلنے پر انہیں خوف رہتا۔ اس کیس میں ہم نے دیکھا کہ غلط انداز میں سوچنے، غرور و تکبر اور اسٹیٹس کا اظہار کرنے سے ذہنی پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمجید میمن صاحب سینئر فزیشن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دماغی طور پر غلط سوچ رکھنے اور پھر اس کا برا نتیجہ آنے پر اکثر مریضوں کو سانس میں تکلیف ہوتی ہے۔ یہ اعصابی مریض ماہر نفسیات کے بجائے اکثر فزیشن او پی ڈی، ماہر امراضِ سینہ او پی ڈی یا دل کی او پی ڈی میں آتے ہیں۔ ایک بیوروکریٹ صاحب او پی ڈی میں آئے۔ انہیں سانس کھینچ کر لینا پڑتی تھی اور سینے میں جلن کی شکایت تھی۔ یہ ایک اچھے عہدے پر فائز تھے۔ Refugees کمشنریٹ (متاثرین کی بحالی) میں ایک بڑی پوزیشن پر رہ چکے تھے۔ انہوں نے بڑی سفارشات کے ساتھ اپنا تبادلہ اس پوزیشن پر کرایا تھا۔ اس جگہ آفیسر کا لامحدود اختیار تھا۔ کروڑوں کا فنڈ ایک پروجیکٹ میں ان کے پاس ہوتا تھا۔ کہیں زلزلہ آجائے، سیلاب آجائے، افغان مہاجرین، سوات کے مہاجرین (متاثرین)… انہیں ہزاروں خیموں کی خریداری، راشن، اور بہت کچھ خریدنے کا اختیار تھا۔ مجبور لوگ ان کے پاس آتے، یہ بہت انتظار کروا کر ملتے اور کسی کو خیمے اور راشن دیتے، کسی کو آئندہ بلاتے۔ ہر چیز جو خریدی جاتی، اس میں ان کا کمیشن ہوتا۔ اس طرح تیزی سے ان کی جائداد اور بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مردان کے IDPS میں ان کے معاون سے اتنی بڑی غلطی ہوگئی کہ ان کا بہت بڑا فراڈ سامنے آگیا۔ سیکورٹی پر مامور ایک ادارے کے ایماندار افسرکو اتنا غصہ آیا کہ ان نام نہاد اچھے فرد کو اس نے سب کے سامنے جوتوں سے پیٹ ڈالا۔ انہیں جسمانی چوٹیں تو اتنی نہیں آئیں جتنی ذہنی چوٹیں لگیں اور ’’عزت افزائی‘‘ ہوئی۔ یہ ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ جہاں انہیں یہ تکالیف تھیں وہیں ان کا یہ بھی شکوہ تھا کہ دنیا میں لوگ انسانوں کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتے، میں نے ہزاروں بے سہارا لوگوں کو سہارا دیا لیکن میرے ساتھ یہ سلوک کیا گیا اور میرے جونیئر آفیسر اور اسٹاف نے بھی مجھ سے آنکھیں پھیر لیں، کسی نے مجھ سے اظہارِ ہمدردی تک نہ کیا، واقعے کے بعد مجھے سلام تک نہ کیا بلکہ میری طرف نظر پڑی تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اب میں بیمار ہوں تو کسی مقامی ڈاکٹر تک کو نہیں دکھا سکتا۔ پہلے میں اسپتال جاتا تو ڈاکٹر مجھے بغیر لائن کے اپنے کمرے میں بٹھاکر دیکھتے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہی……… میں نے اسپتال میں سینئر ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو چپراسی نے روک دیا اور کہا ’’صاحب لائن سے آئیں‘‘۔ میں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب کو میرا بتائو‘‘۔ وہ ڈاکٹر جو میرا نام سن کر باہر سے مجھے لے جاتے، ان کا جواب آیا ’’میں مریض دیکھنے میں مصروف ہوں۔ آپ انتظار کریں‘‘۔ سب لوگوں کے ساتھ اسپتال کی بینچ پر بیٹھنا مجھے اپنی توہین لگا، میں واپس آگیا۔ میری سانس صحیح نہیں آرہی۔‘‘ ان صاحب کا تفصیلی معائنہ کیا گیا۔ انہوں نے سینے میں جلن کی شکایت کا بھی علاج کرایا، کوئی افاقہ نہ ہوا۔ انہوں نے معدے کا اندرونی کیمرہ معائنہ (endoscopy) بھی کرایا لیکن السر نہیں تھا۔ انہیں ڈپریشن انگزائٹی تشخیص ہوئی۔ انہیں دماغ کے اندر کیمیکل صحیح کرنے والی دوائیں دی گئیں۔ پندرہ دن بعد سانس اور سینے کی جلن میں بہتری ہونے لگی۔ انہوں نے پوچھا کہ میں نے تو تیزابیت کے لیے اتنی ساری دوائیں لی تھیں ان کا فائدہ کیوں نہیں ہوا؟ ان سے کہا کہ آپ دوا کھائیں، بعد میں بتائیں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ انسانی دماغ ہمارے کاموں سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ جب ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے، اس میں حسد یا جلن پیدا ہو، یا ہم کسی کا حق ماریں، تو آگ کی صورت میں معدے میں کیمیکل پیدا ہوتے ہیں، دماغ میں ہوتے ہیں اور اس آگ کا، جلن کا تیزابیت سے تعلق نہیں ہے۔ یہ تو آگ ہے جو دوسروں کا حق مارنے سے جسم میں لگتی ہے۔ اس کا علاج دوا سے نہیں ہوسکتا، کچھ افاقہ ہوسکتا ہے۔ حقیقت جاننے پر وہ بہت ناراض ہوئے لیکن انہیں بتایا گیا کہ اسٹیٹس کے چکر میں یہ سب تکالیف آپ نے حاصل کی ہیں۔ ان صاحب نے جب یہ کہا کہ میں لائن میں نہیں لگ سکتا تو مجھے شہنشاہ ایران کا واقعہ یاد آگیا۔ ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی نے محل میں بہت سے بال بنانے والے اور شیو کرنے والے ملازم رکھے تھے جو مختلف انداز کے بال بنانے کے ماہر تھے۔ روزانہ سب تیار رہتے۔ شہنشاہ کا جب دل چاہتا کسی سے بال اور شیو بنوالیتا۔ جب ایران کے انقلاب کے بعد وہ ’’عزت یافتہ‘‘ ہوکر فرانس چلے گئے تو چند دن بعد پہلی مرتبہ انہیں بال بنوانے کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے ملازم سے کہا: بال کاٹنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا: سر آپ کو خود جانا ہوگا۔ وہ باربر شاپ پر گئے۔ وہاں انہوں نے کہا: میرے بال بنادیں۔ ہیئر ڈریسر نے کہا لائن میں بیٹھ جائیں۔ وہ بولے: ہم کبھی لائن میں نہیں بیٹھے، ہم شہنشاہ ہیں۔ اس نے کہا: ایسے بہت سے شہنشاہ پیرس کی گلیوں میں گھومتے ہیں۔ لائن میں بیٹھ جائیں، باقی لوگ بھی انتظار کررہے ہیں۔ شہنشاہ کو شدید صدمہ ہوا۔ وہ گرپڑے، انہیں اسپتال لے جانا پڑا۔ دنیا میں عہدے، اسٹیٹس، عزت حاصل کرنے کے لیے انسان انسانوں پر بہت زیادتیاں کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اختیارات دینا، لینا، عزت دینا، لینا سب اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔

No comments:

Post a Comment