مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔۔۔۔
مصر کے صدارتی انتخاب میں اخوان المسلمون کے محمد مرسی کی کامیابی
تھریر: نواءے وقت
ترتیب و تلخیص: ایاز الشیخ
مصری الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ روز مصر کی اصلاح پسند اسلامی انقلابی جماعت اخوان المسلمون کے امیدوار 60 سالہ محمد مرسی عیسیٰ الآیت کو کامیاب قرار دیا۔ وہ مصر میں آمرانہ تسلط کے خاتمہ کے بعد ایک اسلامی انقلابی جماعت کے پلیٹ فارم سے پہلی بار مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مخالف امیدوار سابق وزیراعظم احمد شفیق کو شکست دی اور مجموعی طور پر 51 اعشاریہ 73 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ ووٹوں کا ٹرن آﺅٹ 51 اعشاریہ 8 فیصد رہا۔ مصر کے عوام انتخابات کے نتائج سننے کیلئے گزشتہ چار روز سے لاکھوں کی تعداد میں التحریر چوک میں دھرنے کی کیفیت میں تھے‘ جنہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے محمد مرسی کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگائے جبکہ اخوان المسلمون کے امیدوار کی کامیابی کا ملک بھر میں جشن منایا گیا۔ اس موقع پر مصری عوام پرجوش انداز میں فوجی حکمران مردہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ نتائج کے اعلان سے قبل مصر کے بازار پہلے ہی بند کر دیئے گئے تھے اور الیکشن کمیشن کے باہر سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔
مصری عوام نتائج کے اعلان سے قبل غیریقینی کی کیفیت کا شکار تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ فوجی حکومت کہیں نتائج میں پھر کوئی گڑبڑ نہ کر دے۔ کیونکہ گزشتہ ہفتے فوجی حکومت نے پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی اور انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ اسی بنیاد پر عوام کو مصر کی حکمران فوجی کونسل اور سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز پر قطعاً اعتبار نہیں تھا اور وہ نتائج کا اعلان سنے بغیر التحریر چوک چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اس سے قبل مصری عوام نے حکمران فوجی کونسل کی جانب سے صدارتی انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کے اقدام کیخلاف پورے مصر میں احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ شروع کیا جو التحریر چوک میں جمع لاکھوںباشندوں کی احتجاجی تحریک کو تقویت پہنچاتے نظر آئے جبکہ اس سخت عوامی دباﺅ پر مصری فوجی حکمران فیلڈمارشل حسین طنطاوی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور بالآخر انہوں نے صدر کے منصب پر محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم کرلیا۔
نومنتخب محمد مرسی‘ نے گزشتہ سال کے انقلابِ مصر کے مقاصد کو پیش نظر رکھنے اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ پاور شیئرنگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی کامیابی کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے صدر مرسی نے مصری عوام کی جانی و مالی قربانیوں سے لبریز انقلابی تحریک کو اپنی کامیابی کی بنیاد قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی ایک جماعت کے نہیں‘ بلکہ تمام مصری عوام کے صدر ہیں۔ انقلاب جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہمی اتحاد کو فروغ دیں۔ امریکہ کی جانب سے اگرچہ محمد مرسی کو صدر منتخب ہونے پر تہنیتی پیغام بھجوایا گیا ہے تاہم اس پیغام میں موجود صدر مرسی کیلئے پندو نصائح سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل مخالف مرسی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر واشنگٹن میں مقیم بااثر اسرائیلی لابی کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔
گزشتہ سال کے آغاز میں تیونس سے شروع ہونیوالی عوامی بیداری کی تحریک نے عرب ریاستوں کی سالہا سال سے قائم آمریتوں کی بنیادیں ہلا دیں اور مطلق العنان حکمرانوں کے یکا و تنہا اقتدار کے سنگھاسن کو جھنجوڑ کر الٹا چھوڑا۔ امریکہ بہادر جہاں دہائیوں سے ان آمریتوں کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا تھا‘ عوامی جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان آمروں کو عوامی غصے کا سامنا کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔ تیونس‘ الجزائر‘ مصر‘ شام‘ اردن‘ لیبیا اور دیگر عرب ریاستوں میں اقتصادی ناہمواریوں کیخلاف اٹھنے والی بیداری کی لہر میں عالمی طاقتوں کو موقع فراہم ہوا کہ آئندہ حکومتی سیٹ اپ انکی مرضی کا قائم ہو۔ مصر اور لیبیا کے عبوری سیٹ اپ کی ناکامی سے اس ہی کا عندیہ ملتا ہے۔ تاہم مصر میں‘ مصری فوج کی شدید مخالفت کے باوجود‘ مصر کے انقلابی لیڈر النبیٰ کی قیادت میں 1928ءمیں تشکیل پانے والی اخوان المسلمون آمریتوں کے مسلسل جبر و تشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے 72 سال بعد آج مصر میں بے مثال جمہوری کامیابی کی صورت میں اسلامی فلاحی جمہوری انقلاب کی علامت بنی ہے تو یہ تمام اسلامی جمہوری ممالک کیلئے مسرت اور حوصلے کا موقع ہے۔ عالمی دنیا میں جہاں دہشت گردی کی جنگ کے جواز سے اسلامی ممالک پر رجعت پسندی کا لیبل لگانے کا بہانہ ملا‘ تو وہاں ترکی میں رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور اب مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی نے اسلام کے قائل ممالک اور عوام کو جمہوریت پسند اور ترقی پسند ممالک کی صف میں آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر ثابت کردیا ہے۔ صدر مرسی کی اخوان المسلمون جدید دنیا کے تقاضوں اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر اصل اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسکی فتح امور حکومت و مملکت میں خواتین اور اقلیتوں کی برابر شرکت اور تمام مصری شہریوں کو ایک باعزت معیار زندگی فراہم کرنے کے وعدوں میں ہے۔ اسلامی قوانین اور دنیاوی اعلیٰ تعلیم کے حصول کو مطمع نظر رکھنے کی مثال صدر مرسی خود ہیں۔ وہ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور انکی پارٹی میں دیگر لیڈران اور عہدیداران اور کارکن بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکیلئے اس پارٹی کی روشن خیالی کے عمل دخل کے باعث ہی دنیا کے 72 ممالک میں اس پارٹی کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اگر اس پارٹی کے قائدین دینِ حق کے فلسفہ ¿ امن و آشتی اور بھائی چارے کی بنیاد پر بیرونی دنیا سے مراسم استوارکرنے کے قائل نہ ہوتے تو آمریتوں کا جبرِ مسلسل انہیں کب کا راستے سے ہٹا چکا ہوتا۔ مصر کے عبوری فوجی سیٹ اپ نے بھی تو اخوان المسلمون کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور مصری عوام کو مسلسل یہی باور کرایا جاتا رہا کہ امور حکومت میں موجودہ حکمران فوجی کونسل کا ہی عمل دخل برقرار رہے گا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد صدر کے عہدے کو تمام بامعنی اختیارات سے محروم کرنا تھا۔ عوامی بیداری کی لہر نے آمریت کی باقیات تک کو اقتدار کے ایوانوں میں ٹھہرنے کا موقع نہیں دیا اور مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی بے بسی کی موت کے بعد اب وہاں عبوری فوجی حکمرانوں کو اپنی من مانیوں کی سزا ملنے والی ہے۔ مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی کو مسلم اور غیرمسلم دنیا کی جانب سے جس بے پایاں جذبے کے ساتھ مبارکبادوں کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور انکی فتح کو عوام کی عظیم فتح اور طاغوتی قوتوں کی شکست قرار دیا جا رہا ہے‘ اسکے پیش نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محمد مرسی کی کامیابی بلاشبہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے فروغ و استحکام کی بھی ضمانت ہے اور واضح پیغام بھی کہ ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا“۔
تھریر: نواءے وقت
ترتیب و تلخیص: ایاز الشیخ
مصری الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ روز مصر کی اصلاح پسند اسلامی انقلابی جماعت اخوان المسلمون کے امیدوار 60 سالہ محمد مرسی عیسیٰ الآیت کو کامیاب قرار دیا۔ وہ مصر میں آمرانہ تسلط کے خاتمہ کے بعد ایک اسلامی انقلابی جماعت کے پلیٹ فارم سے پہلی بار مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مخالف امیدوار سابق وزیراعظم احمد شفیق کو شکست دی اور مجموعی طور پر 51 اعشاریہ 73 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ ووٹوں کا ٹرن آﺅٹ 51 اعشاریہ 8 فیصد رہا۔ مصر کے عوام انتخابات کے نتائج سننے کیلئے گزشتہ چار روز سے لاکھوں کی تعداد میں التحریر چوک میں دھرنے کی کیفیت میں تھے‘ جنہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے محمد مرسی کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگائے جبکہ اخوان المسلمون کے امیدوار کی کامیابی کا ملک بھر میں جشن منایا گیا۔ اس موقع پر مصری عوام پرجوش انداز میں فوجی حکمران مردہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ نتائج کے اعلان سے قبل مصر کے بازار پہلے ہی بند کر دیئے گئے تھے اور الیکشن کمیشن کے باہر سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔
مصری عوام نتائج کے اعلان سے قبل غیریقینی کی کیفیت کا شکار تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ فوجی حکومت کہیں نتائج میں پھر کوئی گڑبڑ نہ کر دے۔ کیونکہ گزشتہ ہفتے فوجی حکومت نے پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی اور انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ اسی بنیاد پر عوام کو مصر کی حکمران فوجی کونسل اور سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز پر قطعاً اعتبار نہیں تھا اور وہ نتائج کا اعلان سنے بغیر التحریر چوک چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اس سے قبل مصری عوام نے حکمران فوجی کونسل کی جانب سے صدارتی انتخابات میں محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کے اقدام کیخلاف پورے مصر میں احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ شروع کیا جو التحریر چوک میں جمع لاکھوںباشندوں کی احتجاجی تحریک کو تقویت پہنچاتے نظر آئے جبکہ اس سخت عوامی دباﺅ پر مصری فوجی حکمران فیلڈمارشل حسین طنطاوی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور بالآخر انہوں نے صدر کے منصب پر محمد مرسی کی کامیابی کو تسلیم کرلیا۔
نومنتخب محمد مرسی‘ نے گزشتہ سال کے انقلابِ مصر کے مقاصد کو پیش نظر رکھنے اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ پاور شیئرنگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی کامیابی کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے صدر مرسی نے مصری عوام کی جانی و مالی قربانیوں سے لبریز انقلابی تحریک کو اپنی کامیابی کی بنیاد قرار دیا اور کہا کہ وہ کسی ایک جماعت کے نہیں‘ بلکہ تمام مصری عوام کے صدر ہیں۔ انقلاب جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہمی اتحاد کو فروغ دیں۔ امریکہ کی جانب سے اگرچہ محمد مرسی کو صدر منتخب ہونے پر تہنیتی پیغام بھجوایا گیا ہے تاہم اس پیغام میں موجود صدر مرسی کیلئے پندو نصائح سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل مخالف مرسی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر واشنگٹن میں مقیم بااثر اسرائیلی لابی کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔
گزشتہ سال کے آغاز میں تیونس سے شروع ہونیوالی عوامی بیداری کی تحریک نے عرب ریاستوں کی سالہا سال سے قائم آمریتوں کی بنیادیں ہلا دیں اور مطلق العنان حکمرانوں کے یکا و تنہا اقتدار کے سنگھاسن کو جھنجوڑ کر الٹا چھوڑا۔ امریکہ بہادر جہاں دہائیوں سے ان آمریتوں کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا تھا‘ عوامی جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان آمروں کو عوامی غصے کا سامنا کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔ تیونس‘ الجزائر‘ مصر‘ شام‘ اردن‘ لیبیا اور دیگر عرب ریاستوں میں اقتصادی ناہمواریوں کیخلاف اٹھنے والی بیداری کی لہر میں عالمی طاقتوں کو موقع فراہم ہوا کہ آئندہ حکومتی سیٹ اپ انکی مرضی کا قائم ہو۔ مصر اور لیبیا کے عبوری سیٹ اپ کی ناکامی سے اس ہی کا عندیہ ملتا ہے۔ تاہم مصر میں‘ مصری فوج کی شدید مخالفت کے باوجود‘ مصر کے انقلابی لیڈر النبیٰ کی قیادت میں 1928ءمیں تشکیل پانے والی اخوان المسلمون آمریتوں کے مسلسل جبر و تشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے 72 سال بعد آج مصر میں بے مثال جمہوری کامیابی کی صورت میں اسلامی فلاحی جمہوری انقلاب کی علامت بنی ہے تو یہ تمام اسلامی جمہوری ممالک کیلئے مسرت اور حوصلے کا موقع ہے۔ عالمی دنیا میں جہاں دہشت گردی کی جنگ کے جواز سے اسلامی ممالک پر رجعت پسندی کا لیبل لگانے کا بہانہ ملا‘ تو وہاں ترکی میں رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور اب مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی نے اسلام کے قائل ممالک اور عوام کو جمہوریت پسند اور ترقی پسند ممالک کی صف میں آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر ثابت کردیا ہے۔ صدر مرسی کی اخوان المسلمون جدید دنیا کے تقاضوں اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر اصل اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسکی فتح امور حکومت و مملکت میں خواتین اور اقلیتوں کی برابر شرکت اور تمام مصری شہریوں کو ایک باعزت معیار زندگی فراہم کرنے کے وعدوں میں ہے۔ اسلامی قوانین اور دنیاوی اعلیٰ تعلیم کے حصول کو مطمع نظر رکھنے کی مثال صدر مرسی خود ہیں۔ وہ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور انکی پارٹی میں دیگر لیڈران اور عہدیداران اور کارکن بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکیلئے اس پارٹی کی روشن خیالی کے عمل دخل کے باعث ہی دنیا کے 72 ممالک میں اس پارٹی کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اگر اس پارٹی کے قائدین دینِ حق کے فلسفہ ¿ امن و آشتی اور بھائی چارے کی بنیاد پر بیرونی دنیا سے مراسم استوارکرنے کے قائل نہ ہوتے تو آمریتوں کا جبرِ مسلسل انہیں کب کا راستے سے ہٹا چکا ہوتا۔ مصر کے عبوری فوجی سیٹ اپ نے بھی تو اخوان المسلمون کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور مصری عوام کو مسلسل یہی باور کرایا جاتا رہا کہ امور حکومت میں موجودہ حکمران فوجی کونسل کا ہی عمل دخل برقرار رہے گا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد صدر کے عہدے کو تمام بامعنی اختیارات سے محروم کرنا تھا۔ عوامی بیداری کی لہر نے آمریت کی باقیات تک کو اقتدار کے ایوانوں میں ٹھہرنے کا موقع نہیں دیا اور مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی بے بسی کی موت کے بعد اب وہاں عبوری فوجی حکمرانوں کو اپنی من مانیوں کی سزا ملنے والی ہے۔ مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی کو مسلم اور غیرمسلم دنیا کی جانب سے جس بے پایاں جذبے کے ساتھ مبارکبادوں کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور انکی فتح کو عوام کی عظیم فتح اور طاغوتی قوتوں کی شکست قرار دیا جا رہا ہے‘ اسکے پیش نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محمد مرسی کی کامیابی بلاشبہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے فروغ و استحکام کی بھی ضمانت ہے اور واضح پیغام بھی کہ ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا“۔
No comments:
Post a Comment