باز آتے ہو کہ نہیں؟
محمد سمیع 2
-صاحب قرآن احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ نے اپنی حامل قرآن امت سے فرمایا تھا’’اے اہل قرآن! قرآن کو بس اپنا تکیہ نہ بنالو،بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے اور اس کو (چار دانگ عالم میں) پھیلائو اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو اور اس پر غور و فکر کیا کرو تاکہ فلاح پائو۔‘‘ ہم نے سب سے پہلے یہ کیا کہ جس پیار ے خطاب سے حضور ﷺ نے ہمیں نوازا تھا اسے ایسے مخصوص گروہ پر چسپاں کردیا جس کو ہم عرف عام میں منکرین حدیث کہتے ہیں ۔ہمارا یہ فیصلہ افسوسناک ہی نہیں حیرتناک بھی ہے کہ ہم انہیں اہل قرآن کہہ کر پکاریں جو کہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہی ہمارے لیے کافی ہے اور جو سنن و احادیث کو قرآن فہمی کے لیے ناگزیر نہیں سمجھتے بلکہ ان کی اہمیت کی تخفیف کی ناکام کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ہم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تکیہ یعنی سہارا بنالیا۔ ہاں ہم قرآن کی تلاوت تو ضرور کرتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے۔ تلاوت کے معنی پیچھے پیچھے آنے یعنی پیروی کرنے کے ہیں اور قرآن کی تلاوت کا حق اس وقت ادا ہوگا جب ہم ان آیات میں بیان کردہ احکام کی پیروی کریں۔لیکن مسلمانو ں کی اکثریت قرآن کی ناظرہ تعلیم تو حاصل کرلیتی ہے لیکن جن آیات کی تلاوت کرتی ہے اس کا مفہوم نہیں سمجھتی کیونکہ وہ عربی زبان سے نابلد ہے ۔ ہمیں حضور ﷺ کی وہ حدیث مبارکہ تو ازبر کرادی گئی ہے جس کے مطابق قرآن کے ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ہم نے بس اس حدیث مبارکہ پر تکیہ کرلیا اور تلاوت کو اپنے لیے حصول ثواب اور اپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کا ذریعہ بنالیا۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس حدیث مبارکہ سے واقف ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ قرآن یا تو آخرت میں ہمارے حق میں حجت بنے گا (اگر ہم نے اپنی دنیوی زندگی میں اس کے احکام کی پیروی کی ہے) یا ہمارے خلاف حجت بنے گا (اگر ہم نے دنیوی زندگی میں اس کے احکام پر عمل سے اعراض کیا)۔یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ افراد کے مجموعے یعنی قوم کے لیے بھی ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے (اس کے احکام پر عمل کے نتیجے میں)قوموں کو عروج بخشے گااور (اس کے احکام پر عمل سے اعراض کے نتیجے میں) قوموں کو رسوا کرے گا۔ امت مسلمہ کے دور عروج کی تاریخ پڑھ جائیے اور آج کی امت مسلمہ کے حال پر نظر ڈال لیجئے ، آپ پر اس حدیث مبارکہ کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ذرا غور فرمائیں۔جس قوم میں ایسے لوگ حکمراں ہوں جنہیں یہ نہیں معلوم کہ قرآن تیس پاروں پر مشتمل ہے یا چالیس پاروں پر اور ایسے بھی ہیں جو سورۃ الاخلاص کی درست تلا وت نہیں کرسکتے وہ اگر مختلف نوعیت کے عذاب سے گزاری جارہی ہو تو اس میں حیرت کیا ہے۔ہم قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ حظ لے کر اس وقت پڑھیں جب ہمیں معلوم ہو اطمینا ن قلب تو صرف اللہ کے ذکر میں ہے اور قرآن خود الذکر ہے۔ قرآنی غنا سے ہم نابلد لوگ تو اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری روح کی غذا موسیقی ہے۔ لہٰذا ہم موسیقی کو حظ لے کر بلکہ اس میں ڈوب کر سنتے ہیں۔جب قرآن سے ہمارے تعلق کا یہ حال ہے تو اس پر غور و فکر کامرحلہ کب آسکتا ہے اور اس کے چاردانگ عالم میں پھیلانے کا فریضہ ہم کیسے انجام دے سکتے ہیں۔ہم نے تو یہ کام چند مخصوص طبقات کے لیے چھوڑ رکھا ہے حالانکہ قرآن صرف انہی کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے عالم انسانیت کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوا ہے اور آج بھی اس کے مطالعے اور اس پر غور و فکر کے نتیجے میں غیر مسلم بڑی تعداد میں اسلام قبول کررہے ہیں۔ قرآن دنیا کی ایسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے بلکہ بار بار تلاوت کی جاتی ہے لیکن تلاوت کرنے والوں کی اکثریت اس کو سمجھ نہیں سکتی ۔ یہ تو قرآن کا اعجاز ہے کہ اس کے باوجود کہ اس کی تلاوت بغیر سمجھے کی جاتی ہے ،پڑھنے والوں کو اس سے کچھ نہ کچھ فیض حاصل ہوہی جاتا ہے۔ اس کتاب پر ایک بہت بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے دنیوی مفاد کے لیے اس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ اور جب ایسا فرداس کی قسم کھانا شروع کردے جس کی اہلیہ شہد شاہد من اہلہا کے مصداق یہ گواہی دے کہ میرے شوہر میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ بہت بولتے ہیںتو اندازہ لگائیں کہ یہ اس کتاب کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ہمارے ہاں رائج سیاست میں بہت ساری خرابیاں ہیںاور سیاسی میدان کے کھلاڑی خواہ وہ مسٹر ہوں یا مولانا ، خواہ جبہ و دستار زیب تن کرنے والے ہوں یا لاکھوں کے سوٹ پہننے والے،کوئی بھی ان خرابیوں میں ملوث ہونے سے بچا ہوا نہیں۔ یہ چلن جو حال ہی میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے شروع ہوکر ریاض ملک تک پہنچاہے اور آگے نہ جانے کس کس تک پہنچے ، اس کے بارے میں قرآن ہی کے الفاظ میں قسم کھانے والوں سے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ فھل انتم منتہون یعنی باز آتے ہویا نہیں ؟ اگر لوگ باز نہیں آتے تو عام مظلوموں کی فریاد تو رائیگاں نہیں جاتی ، قرآن کی فریاد کس طرح رائیگا ں جاسکتی ہے ۔ مظلوموں کی فریادوں کے نتیجے میں وطن عزیز مختلف النوع عذاب میں آئے دن مبتلا رہتا ہے اور اب بھی ہے ، قرآن کی فریاد کے نتیجے میں اس کا کیا بنے گا اس کا تصور ہی محال ہے۔ مولانا ماہر القادری مرحوم نے اپنی نظم ’’قرآن کی فریاد ‘‘ ان الفاظ میں بیان کی تھی ؎ جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں میں اٹھایا جاتا ہوں آج قرآن کے ساتھ جتنے نوع کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں تقریباً سب کا احاطہ اس نظم میں کیا گیا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ آج ہمارے پیش نظر محض دنیا اور اس کی فلاح ہے۔ آخرت کا تصور تو ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہوچکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیوی فلاح کے حصول کے لیے قرآن کو استعمال کرنے میں بھی نہیں چوکتے۔ کاش کہ ہمارا آخرت پر ایمان یقین کی صورت میں ڈھل جائے۔
|
No comments:
Post a Comment