Search This Blog

Friday 22 June 2012

تاریخ میں شخصیتوں کا عروج و زوال

تاریخ میں شخصیتوں کا عروج و زوال

شاہ نواز فاروقی 
-تاریخ میں بڑی شخصیتوں کا عروج و زوال ایک اہم اور دلچسپ مطالعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک زمانے میں ایک شخصیت کو پوجا گیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد اس شخصیت کو یا تو یکسر مسترد کردیا گیا، یا پھر اس کے پرستاروں نے اس سے اتنا فاصلہ پیدا کرلیا جس کا کسی زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کی ایک بڑی مثال ہٹلر ہے۔ جرمنی ایک ملک تھا لیکن ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ ایسی عظمت وابستہ کی کہ جرمنی بجائے خود ایک براعظم نظر آنے لگا۔ جرمن قوم صرف ایک قوم تھی لیکن ہٹلر نے اس میں ایسی قوم پرستی پیدا کی کہ جرمن قوم خود اپنی عاشق ہوگئی اور خود کو ایک آسمانی مخلوق سمجھنے لگی۔ ہٹلر کی سیاسی کامیابی حیرت انگیز تھی۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی کو ایک بڑی فوجی طاقت بنادیا۔ ہٹلر نے جرمن قوم پرستی کے لیے صرف سیاست اور تاریخ ہی کو استعمال نہیں کیا، اُس نے اس سلسلے میں حیاتیات کے علم کو بھی استعمال کیا۔ وہ ہر زاویے سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ روئے زمین پر جرمن قوم کا کوئی جواب اور کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹلر ایک ایک جرمن کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ جرمنی کے لوگ ہٹلر کی طرف ایسے دیکھتے جیسے وہ کوئی دیوتا ہو، اور اس کے پاس دنیا کا سارا علم اور ساری عقل ہو۔ لیکن دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کو شکست ہوگئی۔ جرمن فوج جگہ جگہ ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے دوچار ہوگئی۔ ہٹلر نے اس صورت حال سے گھبراکر خودکشی کرلی۔ جرمنی کی شکست کے ملبے سے ایک نیا ہٹلر برآمد ہوا۔ جرمن قوم پر انکشاف ہونا شروع ہوا کہ ہٹلر آمر تھا، جابر تھا، اس کی قوم پرستی اجتماعی پاگل پن کی ایک صورت کے سوا کچھ نہیں تھی، اس نے یورپ ہی کو نہیں خود جرمنی کو بھی تباہ کردیا، اور ہٹلر کی قیادت میں یہی ہوسکتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ جرمن قوم ہٹلر کو پوجتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ جرمن قوم اس بات پر شرمندہ ہوتی ہے کہ ہٹلر اس کا رہنما تھا۔ سوویت یونین میں لینن اور جوزف اسٹالن بھی دیوتائوں کی طرح پوجے گئے۔ لینن اور اسٹالن کا انقلاب ڈیڑھ دو کروڑ لوگوں کو ہضم کرگیا۔ لیکن سوویت یونین کے شہریوں کی نظر میں یہ انقلاب کی ’’معمولی قیمت‘‘ تھی۔ لینن اور اسٹالن نے سوویت یونین کے طول و عرض میں مذاہب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور پرانے تہذیبی و معاشرتی ڈھانچے کے پرخچے اڑا دیے۔ لیکن سوویت یونین کے لوگوں کا خیال تھا کہ ترقی پسندی کا تقاضا یہی ہے۔ کمیونسٹ نظام نے ’’سائبیریا‘‘ ایجاد کیا جہاں لاکھوں لوگوں کو اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا، مگر کمیونسٹ معاشرے نے کہا کہ انقلاب کا تحفظ اسی طرح ہوتا ہے۔ لیکن آج روس کے لوگ لینن ازم اور اسٹالن ازم پر شرمندہ ہیں۔ اب روس کے طول و عرض میں کہیں لینن اور اسٹالن کے مجسمے موجود نہیں۔ ان کا ذکر نصابی کتب سے نکل چکا ہے۔ لوگ لینن اور اسٹالن کے ادوار کو یاد کرکے لرز جاتے ہیں۔ بلاشبہ روس میں کمیونسٹ پارٹی موجود ہے، مگر لوگوں کی عظیم اکثریت خود کو اپنے ماضی سے الگ کرچکی ہے۔ چین میں مائوزے تنگ کی شخصیت لینن اور اسٹالن سے بھی زیادہ بڑی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مائوزے تنگ سوویت یونین کے کمیونسٹ ماڈل کے دائرے سے نکل کر سوچ سکتا تھا، ورنہ ساری دنیا میں روس کے انقلاب کی نقل کی جارہی تھی۔ مائو کی شخصیت طلسماتی تھی۔ اس کی لال کتاب کو آسمانی صحیفے کا درجہ حاصل تھا۔ چین کے انقلاب اور ثقافتی انقلاب نے 3 سے 4 کروڑ لوگوں کی جان لے لی مگر اس پر اعتراض تو دور کی بات ہے، افسوس کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ڈینگ ژیائو پنگ مائو کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے مگر وہ مائو کے اثر سے نکل کر سوچ سکتے تھے، چنانچہ انہیں کمیونسٹ پارٹی میں تنہا کردیا گیا۔ چین نے مائو کو اس طرح تو مسترد نہیں کیا جس طرح روس نے لینن اور اسٹالن کو کیا ہے، مگر مائو اب چین میں ماضی کی ایسی یادگار ہے جس کے ذکر کو تاریخ سے نکالا تو نہیں جاسکتا مگر جس سے تعلق رکھنا بھی اب مفید مطلب نہیں ہے۔ اس کے برعکس مائو سے اختلاف رکھنے والے ڈینگ ژیائو پنگ کو جدید چین کا معمار سمجھا جاتا ہے اور چین کی نئی نسل ان کا مائو سے ہزار گنا زیادہ احترام کرتی ہے۔ جدید بھارت کی تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کا کردار اتنا بنیادی ہے کہ اسے نظرانداز کرکے جدید بھارت کی تاریخ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ گاندھی کے زمانے میں سبھاش چندر بوس بھی بھارت کے ایک بڑے رہنما تھے۔ وہ گاندھی کے برعکس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، مگر ہندوئوں کی عظیم اکثریت نے گاندھی کا ساتھ دیا۔ بھارت کے معاشرے نے سبھاش چندر بوس کو ’’نیتاجی‘‘ اور گاندھی کو ’’باپو‘‘ اور ’’مہاتما‘‘ کا خطاب دیا۔ لیکن گاندھی کی مخالفت ہندو سماج میں پہلے دن سے موجود تھی جس میں اُس وقت اور اضافہ ہوگیا جب گاندھی نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرلیا اور وہ برصغیر کی تقسیم پر آمادہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کو اس کے حصے کی رقم نہ دینے پر بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مارکر قتل کردیا۔ لیکن یہ صرف گاندھی کا ’’جسمانی قتل‘‘ تھا، گاندھی جی کا روحانی اور سیاسی ورثہ ابھی باقی تھا، لیکن گاندھی کے منظر سے ہٹتے ہی ان کا روحانی اور سیاسی ورثہ بھی تحلیل ہونے لگا۔ نہرو، گاندھی کے سپاہی تھے مگر انہوں نے گاندھی واد کو آگے بڑھانے کے بجائے نیم سوشلسٹ، نیم سرمایہ دارانہ اور نیم قوم پرستانہ خیالات کے ملغوبے کو آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ بھارت کے سیاسی منظرنامے پر بی جے پی ایک مقتدر قوت بن کر ابھر آئی۔ بی جے پی گاندھی کے بارے میں جو خیالات رکھتی ہے اُن سے گاندھی ’’ہیرو‘‘ کے بجائے ’’ولن‘‘ نظر آتے ہیں۔ بی جے پی کوئی علاقائی جماعت نہیں ملک گیر تنظیم ہے، اور اس کا نظریاتی تشخص بہت واضح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں گاندھی کی شخصیت کا انہدام ایک قومی حقیقت ہے۔ گاندھی کے انہدام کی دوسری صورت یہ ہے کہ جدید بھارت نے گاندھی کے فلسفہ حیات کو یکسر فراموش کردیا ہے اور ’’باپو‘‘ کے نظریات اپنے ہی ملک میں اجنبی ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شخصیتوں کے سلسلے میں یہ صورتِ حال کیوں رونما ہوتی ہے؟ اس سوال کا بنیادی جواب یہ ہے کہ بڑی شخصیتیں تاریخ کے کینوس پر طاقت کا مظہر بن کر ابھرتی ہیں، اور ان کی کامیابی کی لازماً اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی، مگر کامیابی سے تاثر یہی پیدا ہوتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں طاقت کا عروج اخلاقیات کا عروج ہے۔ مگر تاریخ کے سفر میں طاقت اکثر اخلاقیات کی قیمت پر آگے بڑھتی ہے۔ طاقت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی کامیابی کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تقریباً فوری اور شدید ہوتی ہے مگر اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔ چنانچہ طاقت کی ناکامی شخصیات کی ناکامی بن جاتی ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر وضع ہونے والے نظاموں کی طاقت یہ ہوتی ہے کہ وہ داخلی مشورے اور تنقید کا نظام وضع کرتے ہیں، لیکن طاقت کی بنیاد پر ابھرنے والے نظام داخلی تنقید کے نظام سے عاری ہوتے ہیں، چنانچہ وہ تاریخ کے سفر میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی بروقت نشاندہی اور ان کے تدارک میں ناکام رہتے ہیں۔ ہٹلر کے پورے دور پر نظر ڈالی جائے تو اس کے دور میں کسی کو کوئی ’’خرابی‘‘ نظر ہی نہیں آتی۔ سوویت یونین میں گوربا چوف نے آکر اعتراف کیا کہ ان کے نظام کو داخلی اصلاحات کی ضرورت ہے، مگر اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ سوویت یونین کا نظام اُس وقت تک منہدم ہونا شروع ہوچکا تھا اور گورباچوف انہدامی عمل کے ناظر بن سکتے تھے۔ چین میں ڈینگ ژیائو پنگ نے نظام کی ناکامی کا بروقت اندازہ کرلیا اور نظام کو منہدم ہونے سے بچالیا۔

No comments:

Post a Comment