اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی‘ حضرت عثمان ؓ
- عابد علی جوکھیو
حضرت عثمانؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔ باپ کی طرف سے آپؓ کا نسب چوتھی پشت پر جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے ۔آپؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ہوتے ہیں۔ والدہ کی طرف سے آپؓ کا نسب دوسری پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ اس طرح آپؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھانجے ہوتے ہیں۔ بچپن میں آپؓ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ عرب کے رسم و رواج کے مطابق کچھ دنوں تک اونٹ چَرانے کی خدمت بھی انجام دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ترغیب پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یوں آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت علیؓ اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام قبول کرنے والے چوتھے شخص تھے۔ آپؓ خود اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’میں اسلام کا چوتھا شخص ہوں، میری ذات سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا چوتھا عدد پورا فرمایا‘‘۔ آپؓ کو فطرتِ سلیم ودیعت کی گئی تھی، جس کی وجہ سے آپؓ زمانۂ جاہلیت میں بھی فسق و فجور، کذب وافترائ، زنا، چوری اور شراب جیسی جاہلیت کی اکثر عادات و اطوار سے دور رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور آپ ؓ نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر شراب حرام کرلی تھی۔ آپؓ کی زبان اس کے ذائقے سے بھی ناآشنا تھی۔ صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے اِن اوصاف و کمالات پر مزید چار چاند لگادیے تھے۔ حضرت عثمان ؓ قریشِ مکہ بلکہ عرب کے دولت مند ترین لوگوں میں تھے۔ لاکھوں کا تجارتی کاروبار تھا۔ اپنی غیر معمولی ثروت کی وجہ سے غنی کہلائے۔ سینکڑوں بیوائوں، یتیموں اور اپنے غریب رشتے داروں کی پرورش کرتے تھے، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ نقد دولت کے علاوہ آپؓ کے پاس زمینیں بھی تھیں۔ خیبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، اس کے علاوہ آپؓ نے بعض زمینیں خریدی تھیں۔ آپؓ کی دولت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ زندگی میں اللہ کی راہ میں بے حساب خرچ کرنے کے بعد بھی شہادت کے وقت آپؓ نے علاوہ جائداد کے پینتیس لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ ہجرت ِمدینہ کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی۔ پورے شہر میں صرف ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا، لیکن اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اُس نے اس کو ذریعہ معاش بنا رکھا تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے اس عام مصیبت کو ختم کرنے کے لیے اس کنویں کو خریدکر وقف کرنا چاہا، کافی گفت و شنید کے بعد وہ یہودی صرف آدھے کنویں (حصے) کو فروخت کرنے پر راضی ہوا۔ حضرت عثمان ؓ نے بارہ ہزار درہم میں وہ آدھا کنواں خرید لیا کہ ایک دن اس کنویں کا استعمال حضرت عثمانؓ کریں گے اور ایک دن وہ یہودی۔ جس دن حضرت عثمان ؓ کی باری ہوتی اُس دن مسلمان اس قدر پانی بھرکر رکھ لیتے کہ وہ ان کے لیے دو دن تک کافی ہوتا۔ جب یہودی نے یہ دیکھا کہ اب اسے اس کنویں سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا تو وہ باقی آدھا کنواں (حصہ) بھی فروخت کرنے پر راضی ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ نے آٹھ ہزار درہم میں اس کا حصہ بھی خریدکر عام مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ قبولِ اسلام کے بعد حضرت عثمان ؓ کی فیاضی کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کے بعد ان کی شہادت تک ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کی معاشی حالت انتہائی کمزور تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائی، اس موقع پر تمام صحابہ نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ملایا، حضرت عثمان ؓ نے اس موقع پر ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ ابن سعد کے مطابق غزوۂ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار مجاہدین شامل تھے۔ اس طرح گویا آپؓ نے دس ہزار سے زائد مجاہدین کے لیے سامان مہیا کیا، اور اس میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ ایک معمولی چیز بھی حضرت عثمان ؓ کی رقم سے ہی خریدی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس فیاضی سے اس قدر خوش ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنیؓ کی جانب سے دی گئی اشرفیوں کو ہاتھ سے اچھالتے ہوئے فرمایا: ’’آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ (ترمذی۔ ابواب المناقب، باب مناقب عثمانؓ) ایک دفعہ جہاد میں مال کی قلت اور ناداری کے باعث مسلمانوں کے چہرے اداس تھے، آپؓ نے یہ دیکھ کر 14 اونٹوں پر کھانے پینے کا سامان تیار کرکے بارگاہِ رسالت میں پیش کیا کہ یہ مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔ (کنزالعمال۔ ج 6 ص 374) عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے مسجدِ نبوی کی گنجائش ناکافی تھی۔ مسجد کی توسیع کے لیے حضرت عثمان ؓنے قریبی زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا۔ اس کے بعد اپنے عہد ِخلافت میں بھی آپ ؓ نے مسجدِ نبوی کی توسیع اور شاندار عمارت کی تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسلامی ریاست کی آمدنی میں اضافے کے ساتھ آپؓ نے لوگوں کے وظائف میں اضافہ فرمایا، جن لوگوں کو رمضان کے مصارف کے لیے نقد رقم ملتی تھی ان کے لیے طعام کا بھی انتظام کیا۔ عہدِ خلافت میں مزید فتوحات اور محاصل میں غیر معمولی اضافے کے بعد آپؓ نے اہلِ وظائف کے وظیفوں میں ایک ایک سو درہم کا اضافہ فرمایا۔ حضرت عثمانؓ نے بیت المال سے مقررہ وظیفہ بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے 12سالہ دورِ خلافت میں اپنے وظیفے کی ساٹھ ہزار درہم کی رقم عام مسلمانوں کے لیے چھوڑ دی۔ حضرت عثمان ؓ کے دورِ خلافت میں مخالفین نے ان پر کئی ایک اعتراضات کیے، ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ آپؓ نے بیت المال کا پیسہ بے جا طور سے صرف کیا اور اپنے اعزہ کو بڑی بڑی رقمیں دیں، مثلاً مروان کو طرابلس کے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ دیا۔ عبداللہ بن ابی سرح کو خمس کا پانچواں حصہ عطا کیا۔ عبداللہ بن خالد کو پچاس ہزار دیے۔ درحقیقت بیت المال میں تصرف کرنے کا الزام بالکل غلط اور مہمل ہے، کیونکہ جس شخص نے اسلام کے ابتدائی تنگ اور مشکل ایام میں اپنے مال کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اسلام کی ترویج کے لیے خرچ کیا ہو بھلا وہ اسلامی ریاست کے بیت المال کی طرف نگاہ اٹھاکر کیوں دیکھے گا! حضرت عثمان ؓ اپنے دورِ خلافت میں بھی بڑے مالدار اور صاحبِ ثروت تھے، انہیں بیت المال سے کچھ بھی لینے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے واجبی مصارف کے لیے بھی بیت المال سے کچھ نہیں لیتے تھے۔ حضرت عثمان ؓ پر یہ اعتراض اس غلط فہمی کے سبب کیا گیا کہ آپؓ ابتدائً مالدار اور سخی تھے اور ہمیشہ اپنے مال سے اپنے غریب رشتے داروں اور عام افراد کی مدد کیا کرتے تھے، آپؓ کے مخالفین نے آپؓ کے اس عمل کو غلط رنگ دے کر آپؓ کے خلاف سازش کرنا چاہی۔ آپؓ نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: ’’لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنے خاندان والوں سے محبت کرتا ہوں اور ان کو مال وعطیات دیتا رہتا ہوں۔ لیکن میری محبت نے مجھے ظلم کی طرف مائل نہیں کیا ہے، بلکہ میں ان کے واجبی حقوق ادا کرتا ہوں۔ جو کچھ میں ان کو دیتا ہوں وہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں، مسلمانوں کا مال نہ میں اپنے لیے حلال سمجھتا ہوں نہ کسی دوسرے کے لیے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ و عمرؓ کے زمانے میں بھی اپنے ذاتی مال سے ان کو بڑی رقمیں دیا کرتا تھا، حالانکہ میں اس زمانے میں بخیل اور حریص تھا، اور اب جب کہ میں اپنی خاندانی عمر کو پہنچ چکا ہوں، زندگی ختم ہونے کے قریب ہے اور اپنا تمام سرمایہ اپنے اہل و عیال کے سپرد کردیا ہے تو ملحدین ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں۔ خدا کی قسم میں نے کسی ملک پر خراج کا کوئی مزید بار نہیں ڈالا کہ اس قسم کا الزام مجھ پر عائد کیا جائے۔ جو آمدنی ہوئی وہ انہی لوگوں کی ضرورت و فلاح کے لیے صرف کردی۔ میرے پاس صرف خمس آتا ہے، اس میں سے بھی میں کچھ لینا جائز نہیں سمجھتا، اسے مسلمان جس مصرف میں مناسب سمجھتے ہیں صرف کرتے ہیں، اس میں میرا مشورہ تک نہیں ہوتا، خدا کے مال میں ایک پیسے کا تصرف نہیں کیا جاتا، حتیٰ کہ میں کھانا بھی اپنے ذاتی مال سے کھاتا ہوں۔‘‘ (طبری) حضرت عثمان ؓ پر بیت المال سے بے جا تصرف کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ نہایت مسخ شدہ شکل میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اصل میں قابلِ اعتراض نہیں، مثلاً مروان کو طرابلس کے مالِ غنیمت کا کوئی حصہ آپ نے عطا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے پانچ لاکھ میں خریدا تھا۔ (ابن خلدون) عبداللہ بن ابی سرح کو خمس کا پانچواں حصہ البتہ دیا تھا، لیکن جب مسلمانوں نے اعتراض کیا تو آپؓ نے واپس کردیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح نے جب طرابلس پر فوج کشی کی تو حضرت عثمانؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے وعدہ کیا کہ اگر تم نے یہ مہم سر کرلی تو تم کو مالِ غنیمت کے خُمس کا پانچواں حصہ دیا جائے گا، چنانچہ طرابلس کی فتح کے بعد یہ وعدہ پورا کیا، لیکن مسلمانوں کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے حضرت عثمانؓ سے کہا۔ آپؓ نے فرمایا: اگر تم لوگ رضامند ہو تو رہنے دیا جائے، ورنہ واپس کردیا جائے۔ لوگ راضی نہ ہوئے تو آپؓ نے اسی وقت عبداللہ بن ابی سرح کو واپس کرنے کا حکم لکھ بھیجا۔ (طبری) عبداللہ بن خالدؓ کو بھی ان کی خدمات کے صلے میں پچاس ہزار دیے تھے لیکن جب مسلمانوں نے اعتراض کیا تو وہ بھی واپس کردیے۔ (طبری) اس قدر مال و دولت کے باوجود آپؓ کی زندگی تواضع سے خالی نہ تھی۔ آپؓ کے پاس غلاموں اور لونڈیوں کی کمی نہ تھی لیکن اپنے کاموں کے لیے ان کے آرام میں خلل نہ ڈالتے تھے، رات کو تہجد کے وقت کسی غلام کو نہ جگاتے، خود ہی پانی لے کر وضو کرلیتے۔ عرض کیا گیا کہ آپ کیوں زحمت فرماتے ہیں، کسی غلام کو جگالیا کیجیے۔ فرمایا: رات کا وقت ان کے آرام کے لیے ہے۔ لباس کے معاملے میں کیفیت کچھ مختلف نہ تھی۔ اچھے لباس کے ساتھ ساتھ معمولی کپڑے بھی پہنتے تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کل چار پانچ درہم کی تہبند میں مسجد آتے تھے۔ (مستدرک حاکم) آپ ؓ ایامِ خلافت میں مسجد نبوی میں عام لوگوں کی طرح سر کے نیچے چادر رکھ کر سوجاتے تھے، کسی کو کوئی بات کرنی ہوتی تو وہیں آپ ؓ کو بیدار کرکے پوچھ لیتا اور آپؓ اُس کا جواب دے کر پھر وہیں لیٹ جاتے۔ بسا اوقات آپؓ بیدار ہوتے تو چٹائی کے نشان آپ ؓ کے جسم پر نمایاں ہوتے۔ آپ ؓ نے بیعت خلافت لینے کے بعد پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ’’یاد رکھو! دنیا سراپا فریب ہے، پس دنیا کی پُرفریب زندگی تمہیں غلط فہمیوں کی بھول بھلیوں میں نہ ڈال دے اور شیطان کے شکنجے میں گرفتار نہ کردے۔ عمرِ فانی کی مہلت بہت کچھ گزر چکی اور کچھ تھوڑی سی باقی ہے، ایسی غیر یقینی کی حالت میں کیا عجب ہے کہ کسی شخص کو صبح یا شام ہی کو پیام اجل آجائے اور وہ سخت بے بسی کی حالت میں قبر میں سلا دیا جائے۔ اُن لوگوں کے واقعات سے عبرت پکڑو جو تم سے پہلے گزر چکے اور نیک یا برے اعمال کے سوا اپنے ساتھ کچھ نہ لے جاسکے۔ پس اپنی طرف سے آخرت کا سرمایہ جمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو اور غفلت کی عادت چھوڑ دو‘‘۔ نیز آپؓ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو دنیا اس غرض سے دی ہے کہ اس کے ذریعے آخرت کو طلب کرو‘‘۔ اس تمام قدر و منزلت کے باوجود آپؓ کا دل ہمیشہ خوفِ الٰہی سے معمور رہتا تھا، جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اتنی رقت طاری ہوتی کہ روتے روتے داڑھی آنسوئوں سے تر ہوجاتی۔ آخرت کے مواخذے کا اتنا خوف غالب تھا کہ فرماتے تھے: ’’اگر مجھ کو یہ علم ہو کہ مجھے جنت ملے گی یا دوزخ، تو میں اس کا فیصلہ ہونے کے مقابلے میں خاک ہوجانا پسند کروں گا۔‘‘ |
No comments:
Post a Comment