ملّی تشخص دائو پر اجتماعی ذمہ داریوں سے اعراض کیوں؟ ایس احمد پیرزادہ
تاریخ سے صحیح سبق سیکھنے والی قومیں ہی اپنے مستقبل کو بجا سنوار سکتی ہیں۔ جو بھی اقوام تاریخ کے فہم وادراک کے باوجود اپنے حریف طاقتوں کی چال بازیوں کو نہیں سمجھتیں اُن کے بارے میں یہ مان لیا جانا چاہیے کہ وہ نہ ہی اپنے کسی اعلیٰ وارفع مقصد کو کبھی حاصل کر پائیں گی اور نہ ہی اپنے وجود اور تشخص کو قائم رکھ پائیں گی۔ہم جب تاریخ کے آئینے میں ماضی کو جھانک کر دیکھتے ہیں تو عالم اسلام کی تاریخ میں ایک عظیم نام کے کارناموں کو دیکھ کر آج بھی بحیثیت مسلم سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ شیخ امام شامل کوہ قاف کا وہ عظیم جانباز تھے جنہوں نے روس کی بربریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اس کے طاقت کے نشے کو مٹی پلید کر دیا۔ روس کے پالیسی سازوں کو جب یقین ہو گیا تھا کہ روس کا زار کسی طرح بھی امام شامل کا مقابلہ نہ کرسکے گا اور اس عظیم سپہ سالار کے انقلاب نے روس کو ہلا کے رکھ دیا تھا تو انہوں نے ایک عجیب چال چلی ۔ روس نے امام شامل کے ساتھ صلح معاہدے کرنے شروع کر دئیے، امام شامل نے معاہدوں کا پاس و لحاظ رکھنے کے لئے ’’یرغمال نما ضمانت ‘‘ کے طور پر بڑے بڑے فوجی جنرل طلب کئے تھے مگر زارانِ روس نے بدلے میں امام شامل سے کم عمر بچوں کو طلب کیا مثلاً انہوں نے امام شاملؒ کے بیٹے عبد الکریم اور امام شامل کے دوسرے کمانڈروں کے بیٹے ’’ضمانت ‘‘ کے طور طلب کر لئے اور پھر اُن کو لارڈز کالج میں داخل کرا دیا۔اپنی نگرانی میں اُن کی تربیت کی، اُنہیں فوجی اکیڈمی میں بھیج دیا اور اس تربیت کے بعد اسی سپہ سالارکے بیٹے نے منطقۂ کا کیشیا پر قبضہ کرکے اسے روس کے حوالے کر دیا۔ قازقستان پر آخری حملے کے موقع پر امام شامل کا بیٹا روسی فوج کا افسر تھا اور امام شامل کے نائب کا بیٹا حجی مراد بھی روسی فوج کا افسر تھا،یہ دونوں اپنے قوم کے خلاف لڑے بھڑے۔
یہی حکمت عملی سابق سودیت یونین نے افغان جنگ کے دوران اپنائی ہے۔ہر سال25تا30 ہزار افغان بچے روس بھیجے جاتے تھے تاکہ کمیونسٹ نظریے کے مطابق اُن کی ذہنی نشوونما اور تربیت کی جاسکے۔ اسی طرح روس جنگ میں یتیم ہونے والے بچوں کو کمیونسٹ چھاؤ نیوں میں اورکمیونسٹوں کے گھروں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ اس پُرفتن طریقے نے افغان قوم پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور یہی Ideology والے حضرات آج کل حامد کرزئی کی پشت پر کھڑے ہو کر اپنے ہی ہم وطنوں کو غیر اقوام سے گاجر مولی کی طرح کٹوا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر جہاں جہاں بھی مسلمان اپنے غضب شدہ حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں یہی طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے تاکہ اس مغلوب ملّت کو ذہنی طور پراس حد تک کمزور کیا جائے کہ وہ آواز بلند کرنا تو دور کی بات سر اُٹھا کر چلنے کی جسارت بھی نہ کرسکیں۔ اِدھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں ہے تلخ حقائق کی روشنی میں اگر اپنی ہی سر زمین ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی سماجی، اخلاقی اور ملی قدروں کی ہی اگر جانچ پڑتال کی جائے گی تو صورتحال افسوس ناک ہی دکھائی دے گی۔ یہاں بھی عرصہ63؍ برس سے سیاسی ، معاشی وثقافتی حقوق کی بازیابی کے لئے جنگ جا ری ہے اور جدوجہدمیں عملاً تو یہاں کی اکثریتی طبقہ ہی شامل ہے۔ وہی حالات کی مار سہہ رہے ہیں،ان کے روحانی مراکز کے خلاف سازشیں رچائی جارہی ہیں جس کی تازہ مثال خانیار سرینگر میں دستگیر صاحبؒ کے آستانہ عالیہ کی آتش زدگی ہے، اُن کے نوجوان درگور کئے گئے ہیں، اُن کی مال و املاک تباہ و برباد ہو رہی ہیں اور اُن ہی کی عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ یہ سب ناقابل بیان تکالیف اور مصیبت اس اُمید کے ساتھ برداشت کی جا رہی ہیں کہ جس منزل کو پانے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اس کا راستہ اُن ہی کٹھن اور تکلیف دہ مراحل سے گزرتا ہے لیکن اب جو سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ، جو فتنہ پرورحکمت عملی63؍ سالہ جدوجہد کو کچلنے کیلئے اپنائی جا رہی ہے وہ یقیناًمسلمانانِ کشمیر کی داستان تک کو داستانوں میںسے مٹانے کے لیے کافی ہے۔
تہذیبی جارحیت ایک ایسا طوفان ہے جو ذہنوں کو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے کر اُنہیں ملّی ذمہ داریوں کے تئیں مردہ بنا رہا ہے۔ روسی طریقۂ جارحیت ہی کی نقل کرکے یہاں کی نسلِ نو کوگمراہی کے راستے پر گامزن کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں غیر ریاستیNGO's کے کام کے پیچھے یہاں کون سے مقاصد کار فرما ہیں؟ نام نہاد تعلیمی دوروں کے نام سے نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کو بیرون ریاست دوروں سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے؟سول حکومت کے ہوتے ہوئے تعلیمی اور رفاعی کاموں میں فورسز کا براہ راست ملوث ہونا کس بات کی عکاسی کر رہا ہے؟سینکڑوں یتیموں کو بیرون ریاست کے لے جا کر اُن کی من پسند طریقوں سے ذہن سازی کرنا اُس آنے والے طوفان کی پیشگی اطلاع فراہم کر رہا ہے جو یہاں کے اسلامی تشخص، ملّی وجود اور تہذیب و تمدن کو زہرہلاہل ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے یہاں کا وہ تعلیمی نصاب پورا کر رہا ہے جو بظاہر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے لیکن اُس میں ایسا میٹھا زہر گھول دیا گیا ہے جو ہماری قومی اورملّی وجود مٹانے کے لئے Slow Poisioning کا کام کرتا جا رہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ جوکام لاکھوں وردی پوش نہ کر پائے ہیں، مالی مراعات، سڑک، پانی اور بجلی جو چمتکار نہ کر پائیے ہیں وہ تہذیبی جارحیت کے آسان نسخے کے ذریعے سے انجام دیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے کشمیری مسلمان برسوں کی ثابت قدمی کے باوجود اس نظرفریب اسکیم کا آسانی سے شکار ہو رہی ہیں ۔ قائدین، علماء اور واعظین کے بار بار کی تنبیہ کے باوجود قوم کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل باطل عقائد ، رسم و رواج ، اخلاقی بدحالی، عریانیت اور فحاشیت کی جانب لپکی جا رہی ہے۔ تہذیبی جارحیت کی اس آندھی کے بھیانک نتائج بھی ہم آئیے روز دیکھتے ہیں۔ مختلف ناموں کے سائے میں بے حیائی اور عریانیت فروغ پا رہی ہے، جرائم کا گراف کسی بگڑی ہوئی قوم سے کم نہیں ہے، عائلی و خاندانی معاملات میں جتنے فتنے ، فساد اور تضاد ہمارے یہاں کے سماج میں پائے جاتے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے زوال پذیرسماج میںموجود ہوتے ہوںگے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم بحیثیت مجموعی آنکھیں بند کر لیتے ہیںحتیٰ کہ ذی حِس لوگ بھی اس بدتر صورتحال کی ذمہ داری ٹیکنالوجی اور زمانے کے سر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دے رہے ہیں۔ اُس بنیادی سبب کو جاننے کی بھی کوشش نہیں ہوتی جو اِس سب کا محرک بنا ہوا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ صد فی صد صحیح ہے کہ ہماری قوم بحیثیت مجموعی اپنے منصب کو نہیں پہچان پا رہی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں جو سیاسی طوفان برپا ہوچکا ہے تو مخالف سمت کے پالیسی سازوں کوبھی ذہن سازی اور نسل نو کی اپنے ڈھنگ سے تربیت کے اہتمام کی ترغیب سوجھی ہے ۔ ابھی اگر چہ اس کے اثرات اُس پیمانے کے ظاہر نہیں ہو رہے ہیں لیکن اگلے پانچ دس برس بعد کی ممکنہ صورتحال پر سوچنے سے ہی گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں کے یتیم بچوں کی بیرون ریاست کے یتیم خانوں میں پرورش ہورہی ہے، مشکوک مقاصد کی تکمیل کے لئے ریاست کے طول وعرض میں سینکڑوں اسکول قائم کئے ہیں جن میں اس ملّت مظلوم کے ہزاروں نونہالوں کی من چاہے طریقوں سے ذہن سازی ہورہی ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ’’درشن دوروں‘‘ کا اہتمام کرکے یہ عناصر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر یہاں کے عوام کو ضرور غور وفکرکرنا چاہیے۔ حد تو تب ہوئی جب پیش اماموں تک کے ایک گروپ کو بیرون ریاست سیر کرانے کے لئے بیرون ریاست لے جایا گیا۔ یہ دینی مدارس کی فکر آخر ان عناصر کو اچانک کیوں ہونے لگی؟ انہیں حال ہی میںکروڑوں کی امداد کیوں فراہم کی گئی؟ یہ الگ بات ہے کہ آیا وہ امداد کسی نے حاصل کی بھی ہے یا نہیں؟ دراصل اس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے تعلیمی نصاب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔نائن الیون کے بعد حملے کی وجوہات جاننے کے لئے قائم ہونے والی تحقیقاتی ایجنسی نے جو رپورٹ اور سفارشات حکومت امریکہ کو پیش کی ہیں ان میں اس بات کی سفارش بھی کی گئی کہ مسلم ممالک کے عصری اور دینی مدارس کے نصاب کواپنے زاویۂ نگاہ سے از سر نو ترتیب دیا جائے۔ اس سلسلے کی کڑی کے تحت عالمی سطح پر مدارس کے معاملات میں دلچسپیاں لی جارہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں اس شعبے میں ’’مالی امداد‘‘ کے نام پر قدم رکھا گیاہو۔ معاملے کی حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر دنیا بھرمیں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد اور اپنے حقوق کے لئے لڑی جانے والی لڑائیاں تو دم توڑ ہی دیں گی اور ساتھ ہی ان کا مسلم تشخص بھی ختم ہوجائے گا۔ مقصد زندگانی ہی ختم ہوجائے گی،جب زندگی بے مقصد رہ جائے تو کسی مسلمان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہے۔
ذہنوں کو غلام بنانے کی یہ زہرناک کوششیں دنیا بھر میں اپنائی جارہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ کوششیں کہیں کہیں کامیاب بھی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ بڑی تیزی کے ساتھ مختلف تہذیبیں اسلامی تہذیب کو اپنے رنگ میں رنگ رہی ہیں۔ مسلم ممالک میں اسلام مخالف طور طریقوں کو نہ صرف اپنایاجارہا ہے بلکہ اخلاقی نظام کے احیاء نو کی تمنّا بھی اگر عوام کے قلب وجگر میں پنپ رہی ہوتو اس کی راہ میں بڑے پیمانے پر روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات اور اس میں اخوان المسلمون کی انتخابی جیت کے بعد کی صورت حال چشم کشا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ دنیا کی جابر و ظالم طاقتوں کواگر کسی چیز سے خطرہ محسوس ہورہا ہے تو وہ صرف اسلام ہے اور اس نام نہاد ’’خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لئے مخالفانہ خطوط پر ذہن سازی کو ہی کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی تصدیق اس مثال سے بھی بخوبی ہو جاتی ہے کہ ایک مرتبہ افغانستان اور سابق سودیت یونین کی لڑائی کے دوران امریکی سابق صدر نکسن مہاجر کیمپوں اور سرحد کا دورہ کرنے کے لئے پاکستان آگیا تھا۔ کیمپوں میں مہاجرین کے حوصلوں اور اسلامی جذبے کو دیکھ کر امریکہ واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے نکسن نے اسلام کوامریکہ کے لئے ایک خطرہ قرار دیا۔ ایک صحافی نے جب پوچھا کہ ’’اس دورے کے دوران آخر آپ کو بنیادی مشکل کیا نظر آئی؟‘‘ نکسن نے جواب دیا ’’بنیادی مشکل اسلام ہے‘‘۔ پوچھا گیا ’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’یہ کہ ہم مسلمانوں کی اولادوں کو اپنے شہروں میں بلا کر رکھیں تاکہ اپنی ثقافت ان کے دماغوں میں اتاردیں پھر ہم انہیں ان کے شہروں کو لوٹا دیں‘‘۔
منفی یا مرعوبیت زدہ ذہن سازی کے ذریعے مسلمانانِ کشمیر کو بڑی تیزی کے ساتھ فکری اعتبار سے مردہ بنانے کی کوشش اپنے شباب پر ہیں۔ اس بات کا اگر چہ ہماری قیادت، علماء کرام اور دانشوران قوم کو بخوبی ادراک ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سوائے بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ صرف پریس بیانات کو ہی حق ادائی کامحورتصور کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی توآنے والے برسوں میں عوام الناس کے اندرنہ ہی یہاں سیاسی مزاحمت کا جذبہ ہوگا اور نہ ہی ہماری اسلامی شناخت برقرار رہے گی۔ ہم یہ افسوس کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیری شاید وہ واحد قوم ہے جو تباہی و بربادی کو اپنی جانب بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔لاکھ تباہیوں کے بعد ترقی کے منازل پھر طے کئے جا سکتے ہیں،سڑکیں اور عمارتیں بھی کبھی نہ کبھی تعمیر کی جا سکتی ہیں، تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی فروغ پاسکتے ہیں لیکن نامساحد حالات میں جو ہم سے ہماری ملّی پہچان چھین لی جا رہی ہے وہ کسی بھی صورت میں دوبارہ واپس نہیں آ سکتی ہے۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ قوم کے خیر خواہاں تہذیبی جارحیّت اورروحانی مراکز کے خلاف رچائی جارہی سازشوں کے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لائیں۔یہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ہماری آخرت کی کامیابی اور ناکامی جڑی ہوئی ہے۔عام کشمیری بھی اپنے زندگی کے شب و روز کا جائزہ لے ۔ حق وصداقت کے نفاذ کا ہم سے کیا تقاضا ہے یہ جان کر اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
essahmadpirzada@gmail.com
courtesy: Kashmir Uzma |
Search This Blog
Wednesday, 27 June 2012
ملّی تشخص دائو پر اجتماعی ذمہ داریوں سے اعراض کیوں؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment