Search This Blog

Saturday 16 June 2012

علم کے گھوڑے پر عقل کا چابک

منزل آشنائی کاحقیقی اسلوب
علم کے گھوڑے پر عقل کا چابک

اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلّم ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبرثابت ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب یا تمد ن ایسا نہیں جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہو۔ یونان ؔاور چینؔ نے غیر معمولی علمی اور تمدنی ترقی کی، لیکن وہ بھی تمام انسانوں کی تعلیم کے قائل نہیں تھے۔ افلاطون اپنی ’’ جمہوریہ‘‘(Republic)میں جو اونچے سے اونچا خواب دیکھ سکا اس میں بھی فلاسفہ اور اہل نظر کے ایک مخصوص طبقے ہی کو اس امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے تمام انسانوں پر تعلیم کو فرض قرار دیا ، اور اس فرض کی انجام دہی کو معاشرے کی ایک ذمہ داری بنایا۔
تعلیم بجائے خود مقصد نہیں، منزل یا مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ حقیقی منزل ان لوگوں کا نظریہ حیات اور تمدن و ثقافت ہے جن کی خدمت اسے کرنی ہے۔ اے۔این ۔ وایئٹ ۔ ہیڈ(A.N.White Head) نے یہ کہہ کر زور دیا کہ ’’تعلیم کی روح یہ ہے کہ وہ مذہبی ہو۔‘‘
اقبال ؔ کا خیال بھی یہی تھا کہ اسلام ہماری زندگی اور تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے ۔ انھوں نے خواجہ غلام السّیّدین کو ایک خط میں لکھا تھا:
’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہو۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے وہ طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے۔ اگر یہ دین کے تحت نہ رہے تو محٖض شیطنیت ہے۔ مسلمان کے لئے  لازم ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے   ع
’’بو لہب راحیدر کرار کُن ‘‘
’’اگر ابولہب حیدر کرار ؓبن جائے یا یوںکہئے کہ اس کی قوت دین کے تابع ہوجائے تو نوعِ انسان کے لئے سراپا رحمت ہے۔‘‘
مکتب، مدرسے، درسگاہیں ،کالج اور یونیورسٹیاں آج بھی موجود ہیں اور اتنی تعداد میں ہے کہ ان کا اعدادو شمار ہی حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہوسکتا ہے لیکن اس علم کے چرچے کے باوجود علم جس چیز کا نام ہے وہ اب گویا مسلمانوں سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوچکا ہے۔ پکار علم کی سنائی دے گی اور اشاعت جہالت کی ہوگی۔ علم بجائے دانائی و فراست ، حکمت و بصیرت عطا کرنے کے آنکھوں کی بینائی ،دل کی بصیرت اور دماغ کی فطری صلاحیتوں کو بھی سلب کر لے گا۔ اگر وہ کچھ عطا کرے گا تو بس بے صبری اور بے بصیرتی اور جب حالت یہ ہو تو نوعِ انسانی کی متاعِ عزیز جو حیوان اور انسان میں مابہ الامتیاز ہے، جس سے انسان ، انسان کہلانے کا مستحق ہے یعنی خودی اور خودداری کی نشوونما تو پھر اس کی امید اور توقع ہی فضول ہے۔علاّمہ اقبال ؔ ؒ ہندی مکتب کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں    ؎
اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال ومقامات
طالب علم کا زندگی میں موت سا سکون ، اس کی اندھی اور کوری تقلید اور اس کی بے صبری اقبال ؔ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ طالب علم کے لئے بارگاہ خداوندی میں دُعا کرتے ہیں    ؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
 کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ  تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
مدرسہ ، کالج، یونیورسٹیاں اور ان میں مدرسین کے مشاغل ۔ کتاب صرف اس کے مباحث کی تفسیر و تشریح کردینے سے کیا ہوتا ہے کیا دانش و بینش کا کمال یہی ہے کہ اسا تذہ محض راوی بن کر صرف روایتوں کو دوسروںتک پہنچانے کی خدمت اپنے ذمہ لے لیں   ؎
دنیا ہے روایات کی پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانہ کے ہیں پیرو
تعلیم کی غرض ظاہر ہے آج کل حصول معاش ہی بنالی گئی ہے۔ یہ عصر حاضر نے ایک نیا تحفہ ہماری  درسگاہوں کو عطاکیا ہے۔ یہ دراصل ایک حقیر مقصد ہے۔ مدرسہ (کالج وغیرہ) بجائے اس کے کہ طالب علم کو کشمکش حیات کے حل کرنے کی تدبیریں بتلاتا، مصائب و تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے سبق پڑھاتا ، فطری خاموش سوتو ں کو حرکت دے کر ان سے چشمے بہاتا، غیر فطری کدورتوں کو دل سے دھو دیتا، نظر کو وسیع کرتا اور دماغ کو کشادگی بخشتا… کیا تو یہ کیا کہ کشمکش حیات کے تصور سے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگا، مصائب و تکالیف کا خیال ہی دل کو ستانے لگا، فطری صلاحیتوں پر میل کچیل کا ایسا ردّا جمایا کہ ان کی اصل چمک دمک ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئی۔ مدرسہ کے عنوان سے اقبالؔ ’’ضرب کلیم ‘‘ میں فرماتے ہیں    ؎
عصر حاضرملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی رُوح تیری دیکے تجھے فکر معاش
دل لرزتا ہے حریفانہ کشا کش سے تیرا
زندگی موت ہے کھودیتی ہے جب ذوق خراش
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش
آخر میں فرماتے ہیں   ؎
مدرسہ نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ بیاباں وہ اسرار ہیں فاش
مدرسہ (کالج)کے ماحول کو اتنا بُرابھلا کہہ کر پھر اقبالؔ چاہتے ہیں کہ ایک بار نصیحت کر ہی دیں ، شاید کوئی مردِ مومن اسے گوش شنوائی سے سُنے اور اس پر کار بند ہو کر مدرسہ کے ماحول میں حیاتِ تازہ پھونک دے،جس طرح کہ سلطنت میں رعایا کی صلاح و فلاح کا ذمہ دار بادشاہ اور راعی قرار پاتا ہے اسی طرح مکتب پرشیخ ِ مکتب کی بادشاہت ہوتی ہے۔ ـ
ـ’’بال جبرئیل‘‘ میں شیخ مکتب کو خطاب کر کے فرماتے ہیں     ؎
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر       
جس کی صنعت ہے ر وحِ انسانی
نکتہ دل پزیرتیرے لئے
کہہ گیا ہے حکیم قآنی
پیش خورشید بر مکش دیوار
خواہی از صحن خانہ نورانی
کہا جائے گا کہ عہد حاضر کی یونیورسٹی اور تعلیم گاہوں میں تو آزادی فکر اور روش ضمیری کی کمی نہیں  لیکن یہاں ’آزادیٔ فکرـ اور’روش ضمیری‘ کے معنی یہ لئے گئے ہیں کہ ہرپرُانی چیز سے بلا غور و تدبر انکار کیا جائے اور نئی چیز پر ایمان بالغیب لایا جائے۔ ادھر ’’پرانی اور فرسودہ چیزوں سے (نعوذبااللہ)انکار ہو اور ادھر ڈارون اور فرائڈ کے سامنے سر نیاز جھک گیا۔غرض اس گردن کو سرفرازی اور سر بلندی کسی صورت میں بھی میسر نہیں ہے۔ عصر حاضر کے مدرسے کے متعلق سُنئے   ؎
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
 چھوڑجاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
 پھر اسی طرح کی آزادی فکر اور روش ضمیری کے نتیجے میں عصر حاضر کی تعلیم گاہوں سے نوجوانوں کو کون کون سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں    ؎
حیات ِ تازہ اپنے ساتھ لائی لزتیں کیا کیا
رقابت، خودفروشی ، ناشکیبائی، ہوسناکی
علامہ اقبال ؔ نے سب سے پہلے نوجوانوں میں بصیرت پیدا کی اس کے بعد ان کو اسلامی رنگ میں رنگا اور چونکہ بصیرت کی بھٹی میں چڑھا کر آپ کو اس رنگ کے پختہ ہونے کا پورا یقین ہوچکا ہے اس لئے اب مسلم قوم کی حالتِ زاران کو سنا کر، غیرت ایمانی سے ان کو سرشار کر کے تیسرا سبق ’’ جہد و عمل ‘‘ کا پڑھاتے ہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ نو نہا لانِ قوم عقل و بصیرت اور جذبہ ایمانی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان عمل میں کُود پڑیں اور مسلسل جد و جہد اور پیہم سعی و عمل سے قوم کی قسمت کا نقشہ بدل دیں ۔ وہ اس طریقہ کار کی کامیابی پر پورا یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ برملا کہتے ہیں کہ   ؎
یاس کے عنصرسے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کار زار
اقبال ؔ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان عاجز و لاچاربن کر بغیر کسی مقصد کے بیکار اور نامراد زندگی گزاردیں ۔وہ جمود و سکون کو موت سے تعبیر کرتے ہیں اور مسلسل عمل ، پیہم جد و جہد اور لامتناہی سعی و کوشش کو زندگی و حیات کہتے ہیں  ؎
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شدآہ کہ من کیستم
موجے زخودرفتہ تیزخر امید و گفت
ہستم اگر دم گر نہ روم نیستم
علامہ اقبال رجائی ہیں ، افسردگی اور مایوسی ان کے کلام سے کوسوں دور ہے، جو ہماری اردو شاعری کی جان بن چکی تھی۔ اس کے برعکس ان کے ہر ہر شعر سے آس او ر امید بندھتی ہے۔ مایوسیوں کا دھندلکا اور نا امیدیوں کا اندھیرا غائب ہوجاتا ہے اور اس کی شعاعوں کے ساتھ پھر صبح صادق نمودار ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ تسلی دیتے ہیں  ؎
اے مسلم دل خستہ مصائب سے نہ گھبرا
خورشید نکلتا ہے سدا پردہ شب سے           
جد و جہد اور سعی و کوشش ہی سے مقصود تک رسائی ممکن ہے۔ حالات کیسے ہی مخالف ہوں راستہ ہزار خطرات سے گھرا ہو لیکن عزم و ثبات، خود اعتمادی اور جد و جہد کے آگے سب موانع اور خطرات غائب ہو جاتے ہیں اور کامیابی اور فتحمندی چشم براہ رہتی ہے  ؎
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
میری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
آخر میںامتوں کی حیات و موت کا فلسفہ بھی علاّمہؔ کی زبان سے سنئے   ؎
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ
نوجوانوں کا بصیرت اور دانش و بینش سے مالامال ہو کر اسلامی رنگ میں رنگ جانا اور پھر جد و جہد اور سعی و عمل کو اپنا مسلک بنا کر میدان عمل میں اتر آنا مسلم قوم کی نصرت ، کامیابی ، فتح مندی، سر بلندی اور نجات کی راہ ہے۔

No comments:

Post a Comment