Search This Blog

Friday 15 June 2012

حُبِ الٰہی اور عشق رسول کا نمونہ

حُبِ الٰہی اور عشق رسول کا نمونہ

اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ’’اور اہل ایمان اللہ سے اشد محبت کرتے ہیں ‘‘۔یعنی سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اپنے والدین سے محبت ضروری ہے ،اپنی اولاد سے محبت مطلوب ہے لیکن سب سے زیادہ محبت خالق کائنات سے لازم  اور فرض ہے ۔ اب ہم اپنی مختصر زندگی میں یہ کس طرح ثابت کرسکتے ہیں کہ ہمیں اپنے خالق و مالک سے زیادہ سے زیادہ محبت ہے ۔ یہ ہم اس طرح سے ثابت کرسکتے ہیں ۔ جیسے ایک صحابی ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے ۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاہ فام صحابی ؓتھے ۔ اس وجہ سے ان کوکہیں سے رشتہ نہیں ملتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرعرض کی : یا رسول اللہ ؐ کالے رنگت کی وجہ سے مجھے کہیں رشتہ نہیں ملتاہے ۔ آپؐ نے فرمایا عمروبن وھب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاکر اُن سے اُن کی بیٹی اپنے نکاح میں دینے کی درخواست کرو۔ تعمیلِ حکم کرتے ہوئے حضرت سعد ؓان کے پاس گئے ،دستک دی ۔ حضرت عمرو بن وھبؓ باہر آئے ۔پوچھا کیا بات ہے؟ کہا کہ میں رسول اللہ صلعم کا بھیج ہوا آپؐ کا قاصد ہوں ۔آپ کے پاس آپ کی بیٹی کی شادی کا اپنے لئے پیغام لایا ہوں ۔بظاہر اُن کو یقین نہیں آیا اس لئے کہا کہ بھاگ جائو ۔ کیسی بات کرتاہے ؟ حضرت عمروبن وھبؓ کے اس جواب پر حضرت سعدؓ واپس ہوئے ۔ ادھر عمروبن وھبؓ کی بیٹی جوحسن وجمال میں مشہورتھی ، کے کان میں اپنے والد کی آواز پڑی تو اندر سے آوازدی کہ ابا جان اپنے انکاری جواب پر سوچ تو لو کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ٹھکرا رہے ہیں ، ہلاک ہو جائو گے ۔ ’’میں نبی صلعم کے حکم کے سامنے تیارہوں۔میں کالے گورے کو نہیں دیکھ رہی ہوںمیں نبی صلعم کے حکم کو دیکھ رہی ہوں ،میں تیار ہوں اور حضرت سعدؓ سے کہہ دو کہ میں شادی کروں گی۔
اپنی لاڈلی بیٹی کے یہ الفاظ سنتے ہی حضرت عمروبن وھبؓ بھاگے بھاگے حضرت سعدؓ کے پیچھے گئے جوآنحصورؐ کی خدمت میں پہنچ گئے تھے۔اب حضرت عمروؓ بن وھب بھی پہنچ گئے اور عرض کی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان یا رسول اللہ ؐ مجھ سے خطا ہوئی ۔ معاف فرمائیں۔ حکم کیجئے کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کرائو ۔ عمروبن وھبؓنے عرض کی آپؐ نکاح پڑھائیں ۔ چنانچہ اُسی وقت نکاح ہوا۔چار سو درہم مہر مقرر ہوا ۔
نکاح خوانی کے بعد اُسی وقت آپؐ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا جائوبیوی کو لے آئو ۔ عرض کیا کہ اس وقت میرے پاس ایک درہم بھی نہیں۔ابھی میں مہرمقررہ کہاں سے پیدا کروں اور ابھی اُس کو لے آئوں ۔ آپ ؐ نے تسلی دی اور فرمایا گھبرانے کی بات نہیں ۔ علی ؓ،عثمانؓ اور عبدالرحمانؓ کے پاس جائو ۔اُن سے دودوسودرہم لے لو ، چھ سو درہم ہوجائیں گے ۔ چار سو مہر کے اداکرواور دوسو میں گھر کا کچھ سامان لے آئو ۔ انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو دو دو سوکے بجائے کچھ زیادہ ہی رقم دی ۔
اندازہ کریں کہ حسن وجمال میں مشہور لڑکی سے نکاح بھی ہوا، مہر کی ادائیگی کی رقم ملی اور اب بازار کی طرف سودا سلف خریدنے کے لئے جارہے ہیں ۔اتنے میں کان میں ایک آوازپڑی ’’اے اللہ کے سوارو !اللہ کے راستے میں نکلو‘‘ بس یہ سننا تھاکہ حضرت سعدؓ کے قدم زمین پر جم گئے۔اُن کے وجود سے سارے جذبات سارے احساسات اس آواز نے نکال کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر قربان۔آسمان پر ایک بھرپور نظر ڈالی اور کہنے لگے اے زمین وآسمان کے مالک اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ! اب میرا یہ مال شادی پر نہیں لگے گا ۔میرا یہ مال وہاں لگے گا جہاں تو بھی راضی اور تیرا رسول صلعم بھی راضی ۔نہ شادی یاد رہی نہ رات کاوصال یاد رہا۔ یاد رہا تو اللہ ورسول صلعم کا بلاوا  یاد رہا ۔
گھوڑا خریدا ، تلوار خریدی ، ڈھال خریدی اور جہاد کے لئے نکلے ۔ چہرہ مبارک کو چھپایا ۔ اس لئے چھپایا کہ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں مجھے دیکھا توواپس نہ کریں ۔ میدان جہاد میں پہنچے ۔ ان کے گھوڑے کو تیر لگا ۔وہ  گرا توحضرت سعدؓ بھی نیچے گرے ،جلدی جلدی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ بازو اوپرچڑھایا ۔ اچانک ان کے کالے بازوئوں کو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا کہ تُو تو مجھے سعد نظر آرہاہے ۔عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان  ہو جائیں۔ اللہ کے رسولؐ میں سعدہی ہوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا خوشخبری سن لے تو جنتی ہوگیا، تو خوش بخت ہوگیا ۔بس اتنا سننا تھاکہ مجمع کی طرف دوڑے ۔ تھوڑے ہی وقفے کے بعد آواز آئی کہ سعدؓ شہید ہوگیا ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوڑ کے تشریف لے گئے۔حضرت سعدؓکے سرمبارک کو اپنی گود میں رکھا ۔ آپ کے   آنسوئوں کی لڑیاں سعدؓ کے خون کو پونچھ رہی ہیں اور آپؐ فرمارہے تھے کہ اے سعد تیری خوشبو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیاری ہوچکی ہے ۔ اے سعد! تو اللہ اور اس کے رسول صلعم کو بے انتہا پیارا ہوچکاہے ۔ روتے روتے آپؐ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم سعد حوض پر پہنچ گیا ۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ اللہ اور اس کے رسول صلعم کے ساتھ شدت محبت پر دلالت کرتاہے کہ آپ نے اللہ اور رسول کی محبت میں حسن میں بے مثال اور مالداری میں لاجواب بیوی کو اللہ کی محبت میں ترجیح دی ۔ حتیٰ کی نوجوانی کی اُٹھتی ہوئی خواہش کو بھی سینے میں دفن کرکے حکم الٰہی کو مقدم رکھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد کو ’’اور ایمن والے لوگ اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں‘‘کو اپنے عمل سے ثابت کردکھایا ۔ اللہ جل شانہ ٗ ہم سب کے دلوں میں اطاعت کا یہی جذبہ پید کرے اورہم سب کو موجودہ بے راہ روی اور بے حیائی سے بچائے۔ مغربی تہذیب وتمدن کا دلدادہ بننے کے بجائے اپنے اسلامی تہذیب کا دلددہ بنائے ۔ آمین ثم آمین۔

No comments:

Post a Comment