ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی*
کامیابی وناکامی کاحقیقی مفہوم
ہرشخص کے دل میں فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ ایک کام یاب انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے ۔ وہ جوبھی منصوبے بنائے وہ پورے ہوں، جن چیزوںکی تمنا کرے وہ اسے حاصل ہوںاورجس منزل تک پہنچنے کا ارادہ کرے بلاروک ٹوک وہاں تک پہنچ جائے۔ اگروہ اپنی منزل مقصودتک رسائی حاصل کرلیتاہے اور اپنے گوہر مقصودکوپالیتاہے تو خودکوکام یاب اورخوش قسمت انسان سمجھتاہے اوراگراس کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اوراس کی تمنائیں پوری نہیں ہوپاتیں تووہ خود کوناکام انسان باورکرتاہے اوراپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتا ہے۔
لیکن مختلف انسانوں نے کامیابی کے الگ الگ معیارات اورپیمانے بنارکھے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک کامیابی یہ ہے کہ ان کے پاس مال ودولت کی ریل پیل ہو،انھیں ہرطرح کی آسائشیں حاصل ہوں،اسباب ووسائل کی فراوانی ہو،کشادہ ،آرام دہ اورخوب صورت بنگلے،لکژری گاڑیاں اورحاضرباش خدمت گزارہوں،انھیں جاہ ومنصب حاصل ہو،سماج میں انھیں عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہو،لوگ ان کی قدرکرتے اوران کے آگے پیچھے لگے رہتے ہوں،ان کی تجارت زوروںپر ہو،ان کی آمدنی میں روزبہ روز اضافہ ہورہاہواوران کا بینک بیلنس بڑھ رہاہو۔کچھ لوگ جسمانی صحت اورذہنی سکون کوکامیابی کاپیمانہ قراردیتے ہیں ۔ان کے نزدیک اگرکوئی شخص مکمل طورپر صحت مندہو،اسے کسی طرح کاکوئی مرض یاعارضہ لاحق نہ ہو،وہ ہرطرح کی ذہنی اورنفسیاتی پریشانیوںسے محفوظ ہواورسکون واطمینان کی زندگی گزاررہاہوتووہ کام یاب ہے۔ بعض لوگوںکی نظرمیں کسی شخص کی کام یابی یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے خاندان کوپھلتا پھولتااوراپنی اولاداورمتعلقین کو ترقی کرتا ہوا دیکھ لے۔ غرض مختلف انسانوں کے نزدیک کام یابی کے الگ الگ پیمانے ہیں،جن پر وہ اپنے اوردوسروں کے معاملات کوجانچتے ہیں اوراُسی کے مطابق کام یابی یاناکامی کافیصلہ کرتے ہیں۔
انسان کی ا یک فطری خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس نے کامیابی کا جومعیارمقررکیاہے وہ اسے ہمیشہ حاصل رہے ۔اگراس کے نزدیک مال و دولت کی فراوانی کام یابی کا اصل معیارہے توچاہتاہے کہ وہ ہمیشہ اسے حاصل رہے،کبھی اس سے محروم نہ ہو۔اگراس کی نظرمیں کام یابی اقتداراور حکم رانی سے عبارت ہے توآرزومندررہتاہے کہ اقتدارکی کنجیاں ہمیشہ اس کی مٹھی میں ہوں۔ اگرتجارت کے فروغ کووہ کام یابی سمجھتاہے توخواہش رکھتاہے کہ وہ برابرترقی کرتی رہے، کبھی اس میں خسارہ نہ ہو۔کسی بھی معاملے میں اگرتسلسل میں فرق پڑتاہے یاعارضی طورپر ہی سہی ،وہ اس سے محروم ہوتاہے تواسے ناکامی تصورکرتاہے۔ ان تمام انسانوںکی سوچ اسی دنیاکی زندگی تک محدودہے۔وہ اسی میں مگن اوراسی کوبہتربنانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں ۔اس لیے کام یابی کے بارے میں ان کے تصورات بھی محدوداورناقص ہیں۔اس کے مقابلے میں اسلام زندگی کا ایک جامع تصوررکھتاہے۔اس لیے اس کا تصور کام یابی مذکورہ بالاتمام تصورات سے یکسرمختلف اورممتازہے۔
زندگی کااسلامی تصو ر
ہرانسان اس دنیا میں پیداہوتاہے ،پلتابڑھتاہے،عمرکے مختلف مراحل سے گزرتاہے، یہاں تک کہ موت کی آغوش میں پہنچ جاتاہے۔اسلام کی نظرمیں یہ اس کی کل زندگی نہیں،بلکہ اس کا ایک مرحلہ ہے۔ مرنے کے بعداس کی زندگی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا،جسے وہ ’آخرت‘ کا نام دیتاہے۔اسلام کہتاہے کہ دنیاکی زندگی عارضی اورچندروزہ ہے،جب کہ آخرت کی زندگی ابدی اوردائمی ہوگی۔جولوگ دنیاکی زندگی ہی کوسب کچھ سمجھتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں۔
اسلام کہتاہے کہ اس دنیامیں انسان کاوجودکسی حادثے یااتفاق کا نتیجہ نہیں ہے،بلکہ اسے ایک قادرمطلق ہستی نے ایک منصوبے کے مطابق پیداکیاہے۔ اس کا مقصدتخلیق یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارے۔اس نے اپنے منتخب بندوں کے ذریعے ،جنھیں ’رسول‘کہاجاتاہے،وہ طریقہ واضح الفاظ میں بیان کردیاہے۔سب سے آخرمیں اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوانسانوںکی رہنمائی کے لیے بھیجااوران پر اپنی کتاب ’قرآن‘اتاری،جس میں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کھول کھول کربیان کردیاگیاہے۔لیکن ساتھ ہی اس دنیامیں انسانوںکوارادہ واختیارکی آزادی بھی دی گئی ہے۔وہ چاہیں توحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن مجیدپر ایمان لائیں اورچاہیں تو انکار کردیں۔ چاہیں توان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں اورچاہیں تواپنی مرضی چلائیں۔ اسلام واضح کرتاہے کہ اس دنیامیں انسان امتحان اورآزمائش کی حالت میں ہے۔ اگروہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارے گاتواللہ اس سے خوش ہوگا اورمرنے کے بعدکی زندگی میں اسے انعام سے نوازے گا اوراگریہاں وہ اس طریقے کی خلاف ورزی کرے گا اورمن مانی کرے گا تواللہ اس سے ناراض ہوگا اورمرنے کے بعدکی زندگی میں اسے سزادے گا۔انعام کے طورپر اسے جنت میں داخل کیاجائے گا اورسزاکے طورپر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔
حقیقی کام یابی آخرت کی کام یابی ہے
اسلام نے مرنے کے بعد کی زندگی کوبہت اہمیت دی ہے اوراس کے بارے میں بہت تفصیلی اورجزئی معلومات فراہم کی ہیں۔ وہ کہتاہے کہ تمام انسان آخرت میں رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے ،ان سے دنیامیں ان کے کاموںکاحساب لیاجائے گا اوران کے اعمال کو تولا جائے گا۔جن لوگوںنے دنیامیں اچھے اورنیک اعمال کیے ہوں گے وہ کامیاب سمجھے جائیں گے اورانھیں جنت کا مستحق قراردیاجائے گا اورجن لوگوں نے دنیامیں برے کام کیے ہوںگے ان کے ناکام ہونے کااعلان کردیاجائے گا اوربہ طورسزا انھیں جہنم میں جھونک دیاجائے گا۔جنت میں جانے والوں کووہاں کون کون سی نعمتیں حاصل ہوں گی اورجہنم میں ڈالے جانے والوںکووہاں کتنی سخت تکلیفوںسے دو چارہونا پڑے گا ،قرآن میں بہت تفصیل سے بیان کیاگیاہے۔
اسلام کی نظرمیں حقیقی کامیابی ،جسے وہ ’فلاح ‘اور’فوز‘کے الفاظ سے تعبیرکرتاہے،یہ ہے کہ آخرت میںجب انسان کے اعمال تولے جائیں تواس کے اچھے کاموںکا پلڑابھاری ہوجائے اوراسے جنت کا مستحق قراردے دیاجائے۔ جس شخص کے اچھے کاموں کا پلڑاآخرت میں ہلکاہوگا اوراس کی بنا پر اسے جہنم ڈالاجائے گا ،اسلام کے نزدیک وہ درحقیقت ناکام اورخسارے میں رہنے والا ہے۔قرآن مجید میں ہے:
’’اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اورجن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوںنے اپنے آپ کوگھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اوران کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔‘‘ ﴿المومنون:۱۰۲۔۱۰۴﴾
آخرت میں جن لوگوں کوکامیاب قراردیاجائے گاان کوجنت میں کن کن نعمتوں سے نوازاجائے گا،اس کا تذکرہ قرآن مجیدمیں بہت سے مقامات پر کیاگیاہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’خداترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔باغوںاورچشموںمیں حریرودیباکے لباس پہنے،آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہوگی ان کی شان ، اورہم گوری گوری آہوچشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔وہاں وہ اطمینان سے ہرطرح کی لذیذچیزیں طلب کریں گے۔وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے۔بس دنیامیں جوموت آچکی سوآچکی اوراللہ اپنے فضل سے ان کو جہنم کے عذاب سے بچادے گا۔یہی بڑی کامیابی ہے۔‘ ﴿الدخان:۵۱۔۵۷﴾
خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظرمیں آخرت میں جنت میںوالے کامیاب ہیں اورجہنم میں جانے والے ناکام ۔ قرآن مجید میں ہے:
’جہنم میں جانے والے اورجنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے ۔جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں‘ ﴿الحشر:۲۰﴾
دنیاہی کو سب کچھ سمجھنے والے ناکام اورخسارے میں ہیں
جولوگ سمجھتے ہیں کہ دنیاکی زندگی ہی سب کچھ ہے ،یہیں وہ پیداہوئے ہیں اور یہیں ایک دن مرجائیں گے،مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ملے گی،وہ دنیاکی لذتوںسے فائدہ اٹھانے میں اتنے بدمست ہوجاتے ہیں کہ انھیں اچھے برے کی کوئی تمیزنہیں رہتی ۔اسلام کی نظرمیں یہ لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں ۔دنیا میں جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں، اس کی آخرت میںکچھ اہمیت نہ ہوگی، وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہوگی:
’﴿اے نبی﴾ان سے کہو،کیاہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامرادلوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیاکی زندگی میں جن کی ساری سعی وجہد راہ راست سے بھٹکی رہی اوروہ سمجھتے رہے کہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوںنے اپنے رب کی آیات کوماننے سے انکارکیااوراس کے حضورپیشی کا یقین نہ کیا۔اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے،قیامت کے روزہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ان کی جزاجہنم ہے اس کفرکے بدلے جوانھوں نے کیااوراس مذاق کے پاداش میں جووہ میری آیات اورمیرے رسولوں کے ساتھ کرتے ہے۔‘ ﴿الکہف: ۱۰۳-۱۰۶﴾
کام یاب حقیقت میں کون لوگ ہیں ؟
اسلام کی نظرمیں حقیقت میں کون لوگ کام یاب ہیں؟ان کا تذکرہ قرآن میں تفصیل سے کیاگیاہے اوربتایاگیا ہے کہ دنیامیں یہ لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں،ان کا رویہ کیساہوتاہے اوران سے کیسے اعمال صادرہوتے ہیں؟ ان کے چنداوصاف یہ ہیں:
﴿۱﴾ وہ صرف اللہ پر ایمان لاتے ہیں ،نہ کفرکرتے ہیں،نہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہراتے ہیں اورنہ اس کی آیتوںکا انکارکرتے ہیں:
’مومن مردوںاورعورتوںسے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریںبہتی ہوںگی اوروہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدابہارباغوںمیں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی۔ اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوش نودی انھیں حاصل ہوگی۔یہی بڑی کامیابی ہے۔‘ ﴿التوبہ:۷۲﴾
’اورجوکسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکارکردیاتواس کا ساراکارنامہ ٔزندگی ضائع ہوجائے گا اوروہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔‘ ﴿المائدۃ:۵﴾
’اورجولوگ اللہ کی آیات سے کفرکرتے ہیں، وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں‘ ﴿الزمر:۳۶﴾
’اگرتم نے شرک کیا توتمہاراعمل ضائع ہوجائے گا اورتم خسارے میں رہوگے‘ ﴿الزمر:۶۵﴾
’اورجوکوئی اللہ کے ساتھ کسی اورمعبودکوپکارے ،جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تواس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے کافرکبھی فلاح نہیں پاسکتے۔‘ ﴿المومنون:۱۱۷﴾
﴿۲﴾وہ اللہ کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اوروہ اللہ کی طرف سے جواحکام پیش کرتاہے اس کا اتباع کرتے ہیں:
’لہٰذاجولوگ اس پر ایمان لائیں اوراس کی حمایت اورنصرت کریں اوراس روشنی کی پیروی اختیارکریں جواس کے ساتھ نازل کی گئی ہے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘ ﴿الاعراف:۱۵۷﴾
﴿۳﴾ وہ آخرت کی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں:
’حقیقت یہ ہے کہ جولوگ آخرت کونہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوش نمابنادیاہے،اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیںجن کے لیے بری سزاہے اورآخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں۔‘ ﴿النمل:۴-۵﴾
﴿۴﴾ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اوران کے احکام بجالاتے ہیں:
’جواللہ اوراس کے رسول کی فرماںبرداری کریں اوراللہ سے ڈریںاوراس کی نافرمانی سے بچیں وہی کامیاب ہیں‘ ﴿النور:۵۲﴾
’جواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے گااسے اللہ ایسے باغوںمیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی اوران باغوںمیں وہ ہمیشہ رہے گا اوریہی بڑی کامیابی ہے۔‘ ﴿النساء:۱۳﴾
﴿۵﴾ وہ ایمان لانے کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے ہیں:
’اورجوشخص اللہ پر ایمان رکھتاہوگااورنیک عمل کرتاہوگااللہ تعالیٰ اس کے گناہ دور کردے گا اوراس کوجنت کے ایسے باغوںمیں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوںگی،جن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے اوریہ بڑی کامیابی ہے۔‘﴿التغابن:۹﴾
’پھرجولوگ ایمان لائے تھے اورنیک عمل کرتے رہے تھے انھیں ان کا رب اپنی رحمت میںداخل کرے گا اوریہی صریح کامیابی ہے۔‘﴿الجاثیۃ:۳۰﴾
﴿۶﴾ اللہ تعالی نے انھیں جوکچھ مال ودولت سے نوازاہے اس میں دوسرے انسانوںکاحق پہچانتے ہیں ،اسے سینت سینت کر نہیں رکھتے ، بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
’پس رشتہ دارکواس کا حق دواورمسکین اورمسافرکواس کا حق۔یہ طریقہ بہترہے ان لوگوں کے لیے جواللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں اوروہی فلاح پانے والے ہیں۔‘ ﴿الروم:۳۸﴾
’اورسنواوراطاعت کرواوراپنے مال خرچ کرو۔یہ تمہارے ہی لیے بہترہے۔جواپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘ ﴿التغابن:۱۶﴾
﴿۷﴾ ہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے اورغلط کاموںمیں نہیں پھنستے:
’اے لوگوجوایمان لائے ہو،یہ شراب اورجوا اوریہ آستانے اورپانسے ،یہ سب گندے شیطانی کام ہیں،ان سے پرہیزکرو۔امیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘ ﴿المائدۃ:۹۰﴾
’جس نے اللہ کے بجائے شیطان کو اپنا ولی و سرپرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔‘ ﴿النساء:۱۱۹﴾
﴿۸﴾ وہ اپنے نفس کی پاکی پرتوجہ دیتے ہیں،اسے گناہوں سے آلودہ نہیں کرتے اوراللہ کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں:
’یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیااورنامرادہواوہ جس نے اس کودبا دیا۔‘ ﴿الشمس:۹،۱۰﴾
’اللہ سے ڈرتے رہو،شایدکہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے‘ ﴿البقرۃ:۱۸۹﴾
﴿۹﴾ وہ خودنیک بنے رہنے پر اکتفانہیں کرتے ،بلکہ دوسروںکوبھی بھلائی کی طرف دعوت دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں:
’تم میں کچھ لوگ توایسے ضرورہی ہونے چاہئیںجونیکی کی طرف بلائیں ،بھلائی کا حکم دیں اوربرائیوںسے روکتے رہیں۔جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘ ﴿آل عمران:۱۰۴﴾
حقیقی نجات آخرت میں جہنم سے نجات ہے
انسان کی نجات کس چیزمیں ہے؟مختلف مذاہب اورنظریات اس کاالگ الگ انداز سے جواب دیتے ہیں۔اسلام کہتاہے کہ اصل نجات آخرت کی نجات ہے۔مرنے کے بعد تمام انسانوںکواللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرے گا اوران سے دنیوی زندگی کے کاموںکا حساب لے گا۔ جن لوگوں نے دنیامیں اللہ کا انکارکیاہوگا،اس کے احکام اورتعلیمات کوجھٹلایاہوگا اوربرے کام کیے ہوں گے ،اس کی سزامیں وہ انھیں جہنم میں ڈال دے گا۔لیکن جن لوگوں نے دنیامیں اس کے احکام پر عمل کیاہوگااوراچھے کام کیے ہوں گے،ان کووہ جہنم سے بچالے گا اورجنت میں داخل کرے گا ۔یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اوریہی لوگ کامیاب ہیں:
’قیامت کے روزتم دیکھوگے کہ جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے ان کے منہ کالے ہوں گے۔کیاجہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے؟اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ اختیارکیاہے، ان کے اسبابِ کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کونجات دے گا۔ان کونہ کوئی گزندپہنچے گا اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔‘﴿الزمر:۶۰،۶۱﴾
’اس دن جوسزاسے بچ گیااس پراللہ نے بڑاہی رحم کیا۔اوریہی نمایاں کامیابی ہے۔‘ ﴿الانعام:۱۶﴾
قابل مبارک بادہیں وہ لوگ جودنیاکی عارضی کامیابیوں پر پھولے نہ سمائیں،بلکہ آخرت کی زندگی کو اپنے پیش نظررکھیں،اس کے لیے تیاری کریں اور وہاں کام یابی حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید میں جن اوصاف کا تذکرہ کیاگیاہے،ان کواپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ **
No comments:
Post a Comment