ولیٔ کامل
حضرت شاہ محمد فرید الدین بغدادی
احمدجی عماد گگڑو
حضرت شاہ محمد فرید الدین بغدادی
احمدجی عماد گگڑو
جغرافیائی
لحاظ سے کشتواڑ جموں و کشمیر کا سرتاج ہے کیوں کہ دینی ، ادبی، تہذیبی اور
ثقافتی لحاظ سے یہ سرِ فہرست ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے تاریخ کے اوراق
پلٹنے اور کھنگالنے کی ضرورت ہے ۔ مولانامفتی محمد شفیع صاحبؒ اولیا ء
اللہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اولیاء ولی کی جمع ہے۔لفظ ولی عربی
زبان میں قریب کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوست و محب کے معنی میں بھی‘
ولایت و محبت اور قُرب کا ایک درجہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں کے ساتھ خاص
ہے جن لوگوں کو یہ قرب حاصل ہو و ہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں۔‘‘ ولی کا
مقصود رضائے الٰہی اور اتبا عِ سُنت ہوتا ہے۔ اشاعتِ اسلام کے لئے یہ ہمیشہ
کوشاں رہتے ہیں۔ بھٹکتی ہوئی مخلوق کو راہِ راست پر لانے کے لئے جان و مال
قربان کرتے ہیں۔
کشتواڑ
کا نام زبان پر آتے ہی ہر ایک باایمان مبلغ اعظم، ولی کامل، داعی اسلام
حضرت شاہ محمدفرید الدین بغدادیؒ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اس علاقے کے ساتھ
اُن کی خصوصی نسبت ہے ۔انہوں نے لوگوں کو کفر و ظلمت کی تاریکی سے نکال کر
روشنی کی طرف لایا۔ اُن دنوں جب آمد و رفت کے ذرائع آج کل جیسے نہیں تھے۔
ڈاکوؤں، رہزنوں کا ہر طرف خطرہ تھا، تب سفر کرنا کتنا مشکل رہا ہو گا مگر
شاہ صاحب نے ان تمام مشکلات کو برداشت کیا اور کشتواڑ پہنچ گئے تاکہ یہاں
کے لوگوں کو دین ، امن اور سلامتی سے روشناس کرائیں۔ بے راہ لوگوں کا اللہ
کے ساتھ رشتہ جوڑیں۔ شاہ صاحب عراق کے تاریخی دارالخلافہ بغداد میں ۱۰۰۰ھ مطابق ۱۶۱۵ء
میں پیدا ہوئے۔ قُرآن، حدیث، فقہ نیز شریعت و طریقت کی مکمل تعلیم حاصل
کرنے کے بعد فریضہ ٔحج انجام دیا۔ حضرت جلال الدین مغربیؒ اور حضرت شیخ محی
الدین قادریؒ کی صحبت میں رہ کر روحانی مدارج طے کئے۔ دین کی خاطر اشارہ
غیبی پاتے ہی آپؒ نے رختِ سفر باندھا اور بغداد جس کو عروس البلاد کہتے
تھے ،کو چھوڑ دیا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ دورِ جدید میں وسائل کی بھرمار
ہے مگر پھر بھی دین کے خاطر گھر چھوڑنا تو دور کی بات گھر میں رہ کر بھی
دین کا کام کرنا مشکل سمجھتے ہیں ؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اس
علاقے کی طرف یہ روحانی سفر چار ساتھیوں کے ہمراہ ہوا۔ پہلے عراق کے یار
محمدؒ، دوسرے سندھ کے خیر محمد المعروف شاہ ابدال صاحبؒ تیسرے آگرہ کے
بہاؤالدین سمنانی ؒ اور چوتھے خلیفہ پانی پت کے درویش محمد ؒ تھے۔ وادیٔ
چناب میں شاہ صاحب آرام بن سے داخل ہوئے۔ آپ ڈینگ بٹل جسے آجکل گول کے
نام سے جانتے ہیں میں ایک مقامی کسان لشکر رائے کی قیام گاہ میں ٹھہرے۔
اسلام حق کے بول بال کے لئے غیروں کے ساتھ قربت رکھنا سکھاتا ہے،عالم
انسانیت سے اچھے تعلقات استوار کرنا بتاتا ہے۔ اگر ہم میں اخلاص، اخلاق اور
للہیت ہو، دین پر مکمل طور عمل پیرا ہوں۔ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ گفتار
کے بدلے کردار کے غازی بنیں،ہرمعاملے میں ہم عملی نمونہ بنیں۔ تبھی دیگر
اقوام کو ہمیں دیکھ کر خدا یاد آجائے گا۔ اگر ہم ایسے نہیں تو ہمارے دعوے
کھوکھلے ہیں،ہم دوسروں کے لئے کیا مشعلِ راہ بنیں گے؟
بہرحال
شاہ صاحب ؒ ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ ڈوڈہ کی طرف چل دئے جہاں آپ
ںتقریباً اڑھائی سال تک رہے۔ آپؒ ڈوڈہ میں ٹھاکر گوپا سنگھ کے یہاں رہے۔
ڈوڈہ میں پیغام اسلام پھیلانے کے بعد آپ وادیٔ
نیلم کشتواڑ کی طرف نکل پڑے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ آپ کے یہاں آنے سے
پہلے چند مسلمان گھرانے پہلے سے آباد تھے۔ مگر عام لوگ اور حکمران طبقے نے
دینِ اسلام کو بڑے پیمانے پر تب مانا جب انہوں نے شاہ صاحب ؒ جیسی
بزرگانہ اور معجزانہ شخصیت سے اس عقیدہ کی نصیحت پائی۔ حکمران طبقے میں سب
سے پہلے راجہ کیرت سنگھ نے اسلام کو گلے لگایا ۔یہ صرف شاہ صاحب کی بدولت
سے ہوا اور راجہ سادت یار خان کا لقب اورنگ زیب سے پایا۔ اکثریت رعایا حلقہ
بگوش اسلام ہوئی۔ شاہ صاحب نے بہت سی کرامات انجام دیں ،جو ان کی روحانی
اور بزرگانہ شخصیت کا ثبوت تھے۔
شاہ
صاحب کی تین منکوحہ تھیں۔ سب سے پہلی اہلیہ زاہدہ بانو المعروف بہ شہزادہ
بی بی جو بغداد یا دہلی میں آپؒ کی شریکِ حیات بنیں۔ ان کے بطن سے شاہ
اسرار الدین صاحب ؒ اور شاہ انوار الدین صاحب ؒتولد ہوئے۔ دوسری ڈینگ بٹل
سے مائی روشن دل تھیں، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔حضرت اسرار الدین صاحب ؒ
آستان پائیںمیں مدفون ہیں۔ موضع ڈوگہ میں شاہ ابدال صاحبؒ کا مرقد ہے۔
تمام پاک نفوس اسی سر زمینِ کشتواڑ میں مدفون ہیں۔ اسرار صاحب اس دنیائے
فانی سے ۱۰۹۷ھ بمطابق ۱۶۸۵ء میں چل بسے۔ انوار صاحبؒ صغر سنی میں وفات پا گئے۔ اخیار صاحب ۱۱۳۸ھ مطابق ۱۷۲۵ء میں رحلت فرما گئے۔ شاہ صاحب نے۱۶۹۴ء یا ۱۱۰۷ء یا ۱۶۹۶ء
میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔مختلف اقوال کے مطابق مؤرخین کی تحقیقات مختلف
رہی ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ اور فرزندگان کے مقدس تبرکات بھی محفوظ ہیں۔ اُن
کی زیارت ہر سال کرائی جاتی ہے۔
بہ شکرءیہ کشمیر عظمی
No comments:
Post a Comment