سبزیاں اور جڑی بوٹیاں بہترین معالج ہیں
- حکیم محمد عثمان
سبزیاں اور جڑی بوٹیاں اپنے طبی خواص کی بدولت صدیوں سے علاج معالجہ کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ ذیل میں چند معروف سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کے طبی استعمال کا ذکر کیا جارہا ہے۔ میتھی عربی میں حلبہ کے نام سے پکاری جانے والی میتھی ہمارے معاشرے میں بہت عام حیثیت کی حامل ہے لیکن طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کئی مرضوں میں اس کا استعمال حد درجہ مفید ہے۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد ابن وقاصؓ کی مکے میں عیادت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے لیے کوئی طبیب بلائو۔ چنانچہ حضرت حارث بن کلدہؓ کو بلایا گیا۔ حارث نے میتھی اور کھجور سے ایک مرکب تیار کیا۔ چنانچہ وہ شفایاب ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میتھی سے شفا حاصل کرو۔‘‘ یہ بھی لکھا ہے کہ اگر لوگوں کو میتھی کے فوائد کا علم ہوتا تو وہ اسے سو نے کے بھائو خرید لیتے۔ میڈیکل سائنس کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ روزانہ میتھی کے بیج کے استعمال سے نہ صرف ذیابیطس پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے بلکہ خون میں کولیسٹرول (چربی) کی سطح میں بھی کمی آتی ہے جس کی وجہ سے قلب پر حملوں کے اندیشے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن انڈیا (N.I.N) کے ایک تحقیقاتی جائزے میں کئی سال قبل ہی میتھی کے بیجوں کے استعمال کی غیر معمولی افادیت کا اعلان کردیا تھا اور ذیابیطس کے ایسے مریضوں کے لیے بھی اسے مفید قرار دیا گیا تھا جو انسولین کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے ایک سائنس دان ڈاکٹر سی رگھورام کا خیال ہے کہ میتھی سے خون میں گلوکوز کی سطح میں قابل لحاظ کمی آتی ہے اور پیشاب میں تو صرف دس دن کی مدت میں 46 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں میتھی کے بیجوں کو مسالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے لیکن دیگر مسالے شامل کرکے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بیج دال‘ ترکاری اور چٹنی میں سفوف کی شکل میں یا پھر پانی یا چھاچھ میں شامل کرکے کھانے سے پہلے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ روزانہ استعمال کی مقدار کا انحصار ذیابیطس کی شدت پر ہوتا ہے اور یہ مقدار 25 گرام (دو بڑے چمچوں) سے سو گرام تک ہوسکتی ہے اس کے استعمال سے ذیابیطس کی دوا کے استعمال میں کمی کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک خون میں شکر کی سطح زیادہ ہو‘ میتھی استعمال کی جاسکتی ہے اس کا ایک ہی ذیلی اثر ہے کہ بعض مریضوں کا پیٹ پھول جاتا ہے لیکن بعد میں یہ خود بہ خود دور بھی ہوجاتا ہے۔ کریلا کریلاموسم گرما کی عام سبزی ہے‘ اس کا مزاج گرم و خشک ہے۔ کریلے کی کڑواہٹ بعض افراد کو ناگوار گزرتی ہے تاہم اس میں طبی نکتہ نگاہ سے متعدد فوائد پوشیدہ ہیں۔ کریلا خون کو صاف کرتا ہے اور خون میں موجود فاسد مادوں کو ختم کرتا ہے۔ جسم کو قوت بخشتا ہے‘ بھوک لگاتا ہے‘ تلی‘ جگر کی بیماریوں اور بخار میں مبتلا افراد کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس کا استعمال بہت فائدہ مند ہے۔ ککڑی ککڑی پیشاب کی جلن کو دور کرتی ہے۔ کھانے میں بطور سلاد اس کا استعمال بہترین ہے۔ اس کا مزا سرد تر ہے اور یہ دیر سے ہضم ہوتی ہے۔ جن افراد کو بادی کا عارضہ لاحق ہے اگر وہ ککڑی کو کالی مرچ کے ساتھ استعمال کریں تو اس کے بادی اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یرقان میں ککڑی کا استعمال فائدہ مند ہے۔ اسے نمک لگا کر کھانا چاہیے۔ کھانے کے فوراً بعد (کچھ دیر کا وقفہ دیے بغیر) پانی نہیں پینا چاہیے ورنہ ہیضہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بھنڈی/توری بھنڈی اور توری کو موسم گرما کی ہر دلعزیز سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ توری کا بھرتہ‘ بھجیا بھی بنائی جاتی ہے۔ بھنڈی پیشاب کی جلن کو دور کرتی ہے اس کا مزا سرد خشک ہے۔ بھنڈی گرم مزاج لوگوں کو جلد ہضم ہوجاتی ہے۔ بھنڈی اور توری وٹامن اے‘ بی‘ سی اور ڈی سے بھرپور سبزیاں ہیں۔ ٹینڈے ٹینڈے کا طبی مزاج خشک اور سرد تر ہے۔ ٹینڈے گرمیوں کی عام سبزی ہے اور پورے موسم میں باآسانی دستیاب رہتی ہے۔ اس کا مزاج چونکہ سرد زیادہ ہے اس لیے نزلہ‘ زکام اور سینے پر بلغم کی شکایت رکھنے والے افراد کے لیے نقصان دہ ہے لیکن خشک کھانسی اور گرمی کے بخار وغیرہ میں اس کا استعمال مفید ہے۔ گرمیوں میں ٹینڈے کا سوپ کالی مرچ اور نمک ڈال کر پینے سے دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ زود ہضم ہے مگر بادی والے حضرات کو دیر سے ہضم ہوتی ہے۔ گرم مسالے کے استعمال سے یہ سبزی ہر قسم کے مزاج رکھنے والے افراد کو موافق آجاتی ہے۔ ٹینڈے چھوٹے چھوٹے اور گول ہوں تو نہایت آرام سے پک جاتے ہیں کیونکہ پکے اور بڑے بڑے ٹینڈوں کے بیج سخت ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا استعمال معدے کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔ پودینہ پودینہ گرمیوں کی مفید اور خوشبودار سبزی ہے اس کا مزاج گرم اور خشک ہے۔ یہ زود ہضم معدے اور آنتوں کو تقویت دینے والی سبزی ہے۔ معدہ پودینہ کو دو سے تین گھنٹوں کے دوران ہضم کرلیتا ہے۔ اس کا استعمال بدہضمی‘ ڈکار کی کثرت‘ پیٹ بڑھنے‘ منہ کی بدبو‘ متلی اور گیس کی شکایت کو دور کرتا ہے۔ چند پتی پودینے ڈال کر ابالا ہوا پانی گرمیوں میں پیاس کی شدت کو کم کرتا ہے۔ یہ معدہ‘ جگر اور گردے وغیرہ کو قوت بخشتا ہے۔ خون صاف کرتا ہے اور جسم کے اندر زہریلے فاسد مادوں کو ختم کرتا ہے۔ قدرت نے غذائی نالی کو مضبوط بنانے کے لیے اس میں تھوڑی مقدار میں نشاستہ دار گلوکوز بنانے والے اجزاء بھی شامل کردیے ہیں۔ یہ جسم کو چاک و چوبند رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اروی اروی اپنے طبی خواص کے اعتبار سے گرم تر ہے۔ یہ سبزی خشک مزاج رکھنے والوں کو جلد ہضم ہوجاتی ہے۔ بھوک کو تیز کرتی‘ خشک کھانسی کو رفع کرتی‘ قدرے ثقیل ہے۔ اس لیے قبض بھی کرتی ہے اور عموماً دیر سے ہضم ہوتی ہے۔ اروی گردوں کو طاقت دینے والی لذیز سبزی ہے اس میں وٹامنز اے اور بی کے علاوہ نشاستہ‘ شکر اور روغنی اجزاء بھی کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک پائو اروی میں دو چپاتیوں کے برابر غذائیت ہوتی ہے اس کے کھانے سے معدے کی جلن اور خراش رفع ہوتی ہے اس کا سالن خشک کھانسی‘ گلے کی خراش اور سینے کی جلن میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ بواسیر کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہے اس کے کھانے سے بواسیر کے مرض میں خون کا اخراج کم ہوجاتا ہے۔ اجوائن اجوائن کا پودا ہر جگہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ اتنی عام چیز ہے کہ پنساریوں کے علاوہ عام دکان داروں سے بھی آپ آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اجوائن پیٹ کی بہت سی بیماریوں میں مفید ہے اس کے کھانے سے جگر کی کمزوری دور اور آنتوں کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ جس شخص کو بھوک کم لگی ہو وہ اجوائن کھائے تو اسے کھل کر بھوک لگتی ہے۔ خراب اور ناقص غذا کے استعمال سے کبھی کبھی پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے اور وہ ڈھول کی طرح پھول جاتا ہے۔ اجوائن کھانے سے ریاح کا اخراج ہوتا ہے اور طبیعت بحال ہوجاتی ہے۔ اجوائن پیٹ کے کیڑوں کو مارتی اور گردوں‘ مثانہ اور دل کو قوت دیتی ہے۔ اسے کالی کھانسی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے پان کے ساتھ بھی کھاتے ہیں۔ اجوائن کاست بھی ہاضمے کی اصلاح‘ پیٹ کے کیڑوں کو مارنے اور ریاح کو توڑنے کے لیے تنہا یا دوسری دوائوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اجوائن ثقیل اور بادی غذائوں کی اصلاح بھی کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے مسالے کے طور پر ان غذائوں میں بھی شامل کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ بیسنی روٹی کو زود ہضم اور خوش ذائقہ بنانے کے لیے آٹا گوندھتے وقت تھوڑی سی اجوائن بھی ملا دی جاتی ہے۔ کالی کھانسی میں اجوائن استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اجوائن ایک تولہ کو 3 ماشے کالے نمک میں ملا کر پیس لیں اور چار تولہ شہد میں ملا کر مریض کو دن میں تین چار بار چٹائیں۔ اگر کسی شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہو تو ذرا سی اجوائن پانی میں پیس کر ڈنک کی جگہ پر لگا دیں دوا کے طور پر اجوائن کی مقدار خوراک 3 سے 5 ماشے تک ہے۔ بچوں کو اس کی نصف مقدار دی جائے۔ آملہ یا آنولہ آملہ مشہور پھل ہے۔ عناب سے لے کر اخروٹ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ بنارسی آملے کافی بڑے ہوتے ہیں جو زیادہ تر مربہ ڈالنے کے کام آتے ہیں۔ آملے کا درخت ہندوستان اور پاکستان کے تمام تر گرم علاقوں میں خودرو ہوتا ہے اور اس کو بویا بھی جاتا ہے۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں جموں سے مشرق کی طرف اور نیچے لنکا تک ہوتا ہے۔ درخت درمیانے قد کا اور خوب صورت ہوتا ہے۔ خزاں میں پتے جھڑ جاتے ہیں اس کے پتے ببول (کیکر) کے پتوں کی طرح چھوٹے اور ہلکے سبز رنگ کے ہوتے ہیں اس کے پھول سنہری مائل زرد رنگ کے ہوتے ہیں جس کے اندر چھ پھانکیں ہوتی ہیں‘ ان کے اندر ایک مثلث (تکونی) شکل کی گٹھلی ہوتی ہے جس کو توڑنے پر اندر تین خانے ہوتے ہیں اور ہر خانے میں دو بیج ہوتے ہیں۔ اس کا گودا کسیلا اور ترش و تیزابی ہوتا ہے۔ جدید تحقیقات کی رو سے آملے میں حیاتین ج (وٹامن سی) سنترے اور نارنگی سے بھی زیادہ پائے جاتے ہیں اس لیے یہ جسم کی پرورش کے لیے نہایت کارآمد پھل ہے اور مرض اسکروی میں اس کا استعمال خصوصیت کے ساتھ بہت مفید ہے۔ مرض اسکروی ایک بیماری ہے جس میں مسوڑھے پلپلے ہوجاتے ہیں اور ان سے خون بہتا ہے اس کے علاوہ اور بھی تکلیف دہ علامات رونما ہوتی ہیں۔ چکر آنے میں بھی بہت مفید ہے۔ آنوالہ نوماشے‘ دھنیا نوماشے دونوں کو رات کے وقت پانی میں بھگو دیں۔ صبح کو پانی چھان کر مصری یا شکر ملا کر پئیں چند روز کے استعمال سے فائدہ ظاہر ہوگا۔ گرمیوں میں جب پیاس بہت ستاتی ہو خون کے اندر تیزی یا صفرہ کا غلبہ ہو تو پانچ تولے خشک آملے لے کر ایک پیالے میں ڈال کر پانی بھر کر رکھ چھوڑیں اور جب پیاس لگے یہی پانی پئیں‘ پیاس دور ہوجائے گی۔ گرمیوں میں دودھ پیتے بچوں کو دست آنے لگتے ہیں اور پیاس بھی بہت لگتی ہے‘ انہیں بھی آملوں کا پانی پلانا بہت مفید ثابت ہوتا۔ آملہ نکسیر کو روکتا ہے‘ اگر کسی شخص کی بار بار نکسیر پھوٹتی ہو کسی تدبیر سے بند نہ ہوتی ہو تو اوپر کے طریقے سے آملے کا پانی پلائیں اور آملوں ہی کو پیس کر تالو اور ناک پر لیپ کریں نکسیر بند ہوجائے گی اور کوڑیوں کی دوا وہ کام کر دکھائے گی جو قیمتی سے قیمتی دوائوں سے بھی نہیں ہوسکتا۔ نکسیر ہی پر کیا موقوف ہے اگر پیشاب پاخانے کے راستے خون جاری ہو تو ایک تولہ آملہ پانی میں پیس چھان کر مصری یا شکر ملا کر پلانے سے بند ہوجاتا ہے۔ دستوں کو روکنے اور معدے کو قوت دینے کے لیے خشک آملوں کو تھوڑی دیر پانی میں بھگو رکھنے کے بعد پیسیں اور تھوڑا نمک ملا کر جنگلی بیر کے برابر گولیاں بنائیں۔ ایک ایک گولی صبح و شام کھائیں۔ آملہ ذیابیطس کو دور کرتا ہے آملہ خشک اور مغز تخم جامن برابر وزن لے کر سفوف بنائیں اور یہ سفوف چھ چھ ماشے کھلائیں۔ آملہ بالوں کی جڑوں کو مضبوط کرتا اور ان کو سفید ہونے سے روکتا ہے۔ اسی غرض سے آملے کو پانی میں پیس کر بالوں کی جڑوں میں لگاتے ہیں۔ آملوں کو پانی میں بھگو کر اس سے بالوں کو دھوتے ہیں اور اس کا تیل بنا کر بالوں میں لگاتے ہیں۔
|
No comments:
Post a Comment