سماجی علوم اسلامی تصور کائنات کے تناظر میں
یہ بات قابل غور ہے کہ مغربی دنیا میں سماجی علوم اور انسانی علوم (Social Science Human Science) کے الفاظ تقریباً مترادف سمجھے جاتے ہیں۔ الفاظ کے معانی میں یہ قربت اس خیال کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کی حقیقت مغرب کے نزدیک محض ایک سماجی وجود کی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی اور کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مغربی اور اسلامی مزاج کے فرق کو سمجھنے کے لیے یہ ایک اچھا نقطہ آغاز ہے۔ واضح تر الفاظ میں ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ’’اسلام کے نزدیک انسان کی حقیقت کیا ہے؟ ’’قرآن مجید اس سوال کا جو جواب دیتا ہے وہ دو اجزاء پر مشتمل ہے:
(الف) انسان زین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔
(ب) انسان اللہ کا بندہ (عبد )ہے۔
اس جواب کی معنویت سمجھنے کے لیے مغرب کے تصورِ انسان سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ تصور یہ ہے :
(الف) انسان ایک خود مختار وجود ہے، جس نے حیوانات سے ترقی کر کے ایک مستقل نوع کی شکل اختیار کرلی ہے۔
(ب) وہ کسی خالق کائنات کا محکوم ہونے کے بجائے اس سماجی نظام کا محکوم ہے جو اس کے اطراف میں موجود ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ اسلامی تصور انسان اسلامی تصور کائنات کا ایک جز ہے۔ اس طرح مغربی تصور انسان بھی مغربی تصور کائنات کا ایک حصہ ہے۔ جو شخص توحید کا قائل ہے وہ لازماً انسان کے بندہ خدا ہونے کا بھی قائل ہوگا۔ اس طرح جو شخص کائنات کو محض مادی قوتوں کی آماجگاہ سمجھتا ہے وہ انسان کو بھی اصلاً محض ایک مادی وجود سمجھے گا اور اس کے نزدیک ’’انسانیت‘‘ محض مادیت اورحیوانیت کی ایک ترقی یافتہ شکل ہوگی۔
عقل، مشاہدہ اور تصور کائنات:
سماجی علوم ہوں یا طبعی علوم، مغرب کے دو دعوے ہیں:
(1 ایک یہ کہ مغرب کے تصور کائنات اور تصور انسان کی بنیاد عقل اورمشاہدے پر ہے۔
(2 دوم یہ کہ مشاہدہ اور استدلال کا منہاج (Method) جو مغرب میں اختیار کیا جاتا ہے وہ معروضی (Objective) ہے۔ یعنی یہ منہاج و مشاہدہ کرنے والے شخص کے جذبات سے بھی آزاد ہے اور اس کے تصور کائنات اور تصور انسان سے بھی آزاد ہے بالفاظ دیگر مشاہدہ ، استدلال و تحقیق کا مغربی طریقہ بالکل غیر جانبدار واقع ہوا ہے اور اس لیے اس طریقے کو سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس طریقے کے استعمال سے جو نتائج حاصل ہوں ، ان کوبھی سارے انسانوں کے لیے حجت ہونا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے یہ دونوں دعوے غلط ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ غلط ہے کہ مادی فلسفہ کائنات کی تصدیق مشاہدے سے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس پچھلی ایک صدی کی علمی تحقیقات مادی تصور کائنات کی نفی کرتی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ مغربی سائنس دانوں کا طرزِ استدلال غیر جانبدار ہوتا ہے اور ان کے مخصوص تصور کائنات سے متاثر نہیں ہوتا۔ جس طرح مغربی اہل سائنس نظریہ ارتقاء کو منوانے پر مصر ہیں اور خالق کائنات کے وجود کی نفی پر اصرار کرتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر جانبداری کا ان کا دعویٰ غلط ہے۔ مغرب کے اہل سائنس صرف اس استدلال کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے مادی تصور کائنات سے میل کھاتا ہو۔ اس لیے وہ مشاہدات کو اپنے مخصوص تصور کائنات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
لیکن اس وقت مغرب کے دعووں کی تردید یا ان کے حق میں کیے جانے والے استدلال پر گرفت ہمارا منشاء نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف یہ بات عرض کرنی ہے کہ اسلام مشاہدے اور استدلال کو تصور کائنات سے جدانہیں کرتا بلکہ ان سب کو باہم مربوط قرار دیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک جو رشتہ ان سب کو جوڑتا ہے وہ حق اور صداقت کا رشتہ ہے۔ توحید پر مبنی تصور کائنات اسلام کے نزدیک ایک بنیادی حقیقت ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ ہر درست مشاہدہ اس تصور توحید کی تصدیق کرے۔ اس طرح استدلال عقلی اگر صحیح ہے تو اس کے اور توحید کے درمیان ٹکراؤ ناممکن ہے۔
مقصد تحقیق، مغربی نقطہ نظر
انسان کی حقیقت کچھ بھی قرار دی جائے یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ انسان کے مشاہدے اور تحقیق علمی کا مقصد کیا ہے؟ مغرب کے نزدیک انسانی اور سماجی علوم کے دو مقاصد ہیں:
(الف) انسان ، سماج اور سماجی رشتوں کی ماہیت سے واقف ہوجاتا ہے۔
(ب) انسان کی صلاحیتوں کے بہتر استعمال پر قدرت۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ مقاصد وہی ہیں جو مغرب، طبعی علوم Physical Science) کے لیے متعین کرتا ہے۔ وہاں بھی مغرب کے نزدیک مقاصد یہ ہیں کہ :
(الف) اشیاء کائنات کی ماہیت سے واقفیت ہوجائے۔
اور (ب) ان کے بہتر و کارگر استعمال پر قدرت حاصل ہوجائے۔
بظاہر یہ مقاصد مناسب اوربے ضرر معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے اصل معنی تصور کائنات اور نظام اقدار کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کی ماہیت طے کرنے کے لیے مغرب یہ فرض کرلیتا ہے کہ انسان محض ایک مادی و سماجی وجود ہے۔ (اس کے اللہ سے رشتے کو بہر صورت نہیں ماننا ہے۔) اس طرح انسانی صلاحیتوں کے بہتر استعمال کا منشاء مغربی طاقتوں کے سیاسی و معاشی عزائم کی تکمیل ہے۔ اگربہت وسعت دی جائے تو انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے دائرے کو مغربی تصور ترقی کے مطابق وسائل کے استعمال تک وسیع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بہر صورت مغربی تصور کے مطابق انسان ایک ’’وسیلہ‘‘ قرار پاتے ہیں۔
اور اصولی حیثیت سے انسان کی قدر بھی اتنی ہی ہے جتنی طبعی وسائل مثلاً لوہے اور تانبے کے ذخائر سے ہوسکتی ہے۔
اسلام کا نقطہ نظر ان تنگ اورناقص تصورات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام سب سے پہلے تو اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ انسان کوئی سادہ سلیٹ نہیں ہے بلکہ ایک متعین فطرت کا حامل ہے۔ اس فطرت کے اعتبار سے انسان اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ انسانی فطرت کا ایک ناقابل فراموش پہلو یہ ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرتا ہے اور اپنے اعمال و افعال میں آزاد ہے۔ چنانچہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے لیے خیر کا یا شر کا راستہ چن سکتا ہے۔ اس آزادی کے باوجود ، وہ خیر کی طرف زبردست نفسیاتی رجحان رکھتا ہے۔ اگر ووہ شر کی طرف جاتا بھی ہے تو عموماً اس پر اچھائی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمام تر تاویلوں کے باوجود اس کا ضمیر اس کو برائی پر ملامت کرتا رہتا ہے اور خیر کی طرف پلٹنے پر آمادہ کرتا ہے۔
اسی طرح اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کا ایک بنیادی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مسؤلیت کا احساس رکھتا ہے اور جوابدہی کی فکر اسے ستاتی ہے۔ اسی فطرت انسانی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر انسانی سماج میں اجتماعی مسؤلیت کاتصور پایا جاتا ہے۔ گرفت اوراحتساب کے ضوابط اور ادارے موجود ہوتے ہیں۔ انسانی دنیا میں موجود قوانین، روایات اور نظام عدل سب انسانی فطرت میں موجود احساس مسؤلیت کے شاہد ہیں۔
بنیادی مقصد تحقیق
اسلامی نقطہ نظر
اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کے یہ پانچ بنیادی پہلو ہیں۔ عبدیت، خلافت، آزادی (اختیار) خیر کی طلب اور مسؤلیت۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق انسانی اورسماجی علوم میں تحقیق کا پہلا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانی فطرت کے ان عناصر کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔
اصولاً یہ تشریح اور وضاحت کتاب الٰہی کی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگی، لیکن اس کے علاوہ یہ تشریح انسانی افراد اور سماج کے مطالعے کی روشنی میں بھی ہوگی۔ مسلمان محقق کا کام یہ نہیں ہے کہ خالی الذہن ہوکر انسانی تاریخ اور انسانی معاشرے پر نظر ڈالے ، بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ انسانی فطرت کے اسلامی تصور کو ذہن میں رکھ کر افراد اور سماج کا مطالعہ کرے۔ اس مطالعہ کے نتیجے میں فطرت انسانی کا مجمل تصور، تفصیلی شکل اختیار کرسکے گا۔ اگر یہ منہاج اختیار کیا جائے تو انسانی اور سماجی علوم کا مطالعہ آیات الٰہی کا مشاہدہ بن جائے گا۔ ا س مطالعے کے دوران محقق کو ہر جگہ انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کی جلوہ گری نظر آئے گی۔ ایک طرف اس پر یہ حقیقت کھلے گی کہ انسانی فطرت کا اسلامی تصور بالکل درست اور مطابق واقعہ ہے اور دوسری طرف اس فطرت کے پانچ عناصر (عبدیت ، خلافت، آزادی، طلب خیر اور مسؤلیت) کا تفصیلی مفہوم بھی اس کے سامنے (انسانی افراد اور سماج کے تجربات کی روشنی میں) آجائے گا۔ یہ تحقیق اسلامی تصور انسان اور تصور کائنات کی حقانیت پر یقین کو دوبالا کرے گی۔
ذیلی مقاصد تحقیق:
جیسا کہ عرض کیا گیا انسانی اور سماجی علوم میں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق علمی تحقیق کا بنیادی مقصد انسانی فطرت کا تفصیلی فہم ہے۔ اس بنیادی مقصد کے حصول کے لیے کتاب الٰہی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادے کے علاوہ مشاہدے (Empirical Observation) اور عقلی استدلال سے بھی کام لینا ہوگا۔ اس طرح انسانی تجربات اور ان کے نتائج کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا۔ اس بنیادی مقصد کے علاوہ (لیکن اس سے مربوط) کچھ اور مقاصد بھی ہیں ، جو ایک مسلمان محقق کو سامنے رکھنے ہوں گے۔
(الف)انسانی شخصیت کے تزکیے کے لیے مثبت و منفی تدابیر کی دریافت۔
(یہ کام مسلمان سما ج کے اندر تصوف کے موضوع کے تحت انجام پایا ہے۔ اس سلسلے کی سعی کو کتاب و سنت کے حدود کا پابند بنانے کے لیے معیارات کے تعین کی سخت ضرورت ہے)
(ب) انسانی صلاحیتوں کے ارتقاء کے لیے تدابیر کی تلاش۔
(ج) انسانوں کے انفرادی و اجتماعی طرز عمل کے لیے شریعت الٰہی کی روشنی میں آداب، حدود اور ضوابط کا تعین (اس کام کو ہماری تاریخ میں فقہ کہا گیا ہے۔ اس میدان میں علمی تحقیق کی ضرورت تاریخ کے کسی دور میں ختم نہیں ہوسکتی)
عصر حاضر کی اصطلاحات میں ان میدانوں کے لیے مختلف نام ہیں، مثلاً پرسنالٹی ڈیولپمنٹ، مینجمنٹ، قانون، وغیرہ لیکن ان اصطلاحات کے معنی محدود ہیں اور بسا اوقات اسلامی سماج کی مکمل نمائندگی سے قاصر بھی ہیں۔ اس لیے وہی اصطلاحات موزوں ہیں جو مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں وضع کی ہیں۔
انسانی سرگرمیاں اور ا قدار:
مندرجہ بالا مقاصد تحقیق کے علاوہ ایک اورمقصد ہے جس کا تذکرہ باقی ہے۔ اس کا تعلق اقدار (Values) سے ہے۔ اسلام نے بعض مثبت امور کو اپنی اقدار میں شمار کیا ہے۔ انسانی رویہ ان اقدار سے ہم آہنگ ہوناچاہیے۔ بنیادی قدریں یہ ہیں۔ عدل، امانت، صدق، حیات اور علم۔ ان قدروں کے سیاق میں مطلوب یہ ہے کہ افراد عدل کا رویہ اختیار کریں اورسماج میں عدل قائم ہو۔ ہر فرد، ذمہ داری کے ساتھ کام کرے، امانتوں کا پاس و لحاظ رکھے اور اجتماعی ماحول ایسا ہو کہ امانتیں اہل امانت کے سپر دکی جائیں۔ اسی طرح افراد صداقت اور راستبازی کا اہتمام کریں اور اجتماعی ضوابط، روایات و قوانین صدق کو فروغ دینے والے اور کذب و فریب کو ختم کرنے والے ہوں۔ افراد کی زندگی حیاو پاکبازی کی زندگی ہو اور سماج کی فضا پاکیزہ بنائی جائے۔ افراد علم کی روشنی میں زندگی گزاریں ، اوہام و خرافات سے بچیں اور اس طرح معاشرے کا مزاج علمی ہو۔
ان مثبت اقدار کے بالمقابل ظلم کا رویہ ناپسندیدہ ہے، بددیانتی اور خیانت کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ جھوٹ اور فریب کو اس نے حرام قرار دیا ہے۔ فحش کاموں کو وہ پسند نہیں کرتا اور زیادہ گمان کرنے سے روکتا ہے۔ اسلام نے مثبت اقدار کو ’معروف‘‘ کا جامع عنوان دیا ہے اور اس طرح ان کے بالمقابل منفی اورنامطلوب صفات کو ’’منکر‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اسلام کے نزدیک معاشرہ میں معروفات کو فروغ حاصل ہونا چاہیے اور منکرات کو ختم کیا جانا چاہیے۔
ہر سماج میں انسان مختلف النوع سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں روزی کمانے، خاندانی زندگی بسر کرنے اور آپسی لین دین سے لے کر حکومت اور سیاست تک تمام امور شامل ہیں۔ اسلام کا مطلوب یہ ہے کہ یہ ساری سرگرمیاں اس طرح انجام پائیں کہ معروفات کا قیام ہوسکے اورمنکرات مٹ جائیں۔ ہر انسانی سرگرمی کسی مقصد کے تحت انجام دی جاتی ہے اور اس کے کچھ طریقے اور آداب ہوتے ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سرگرمی کا مقصد بھی اچھا ہو اور اس کے انجام دینے کے طریقے بھی بھلے ہوں۔ اسی طرح جو ضوابط ، آداب اور قوانین ان سرگرمیوں کو منظم کریں وہ بھی معقول اور عادلانہ ہوں۔ انسانی اور سماجی علوم میں تحقیق کا ایک اہم مقصد انسانی سرگرمیوں کو مثبت اقدار سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
احتساب کائنات:
انسانی سرگرمیوں کو اسلامی نظام اقدار سے ہم آہنگ کرنے کا مذکورہ بالا کام وسیع تقاضے رکھتا ہے۔ ایک طرف تو محقق کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی سرگرمیاں فی الواقع ہیں کیا؟ مختلف سماجوں کے اعتبار سے ان میں کس قسم کا تنوع پایا جاتا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں ان میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں؟ دوسری طرف محقق کو اسلامی اقدار کی معنویت کا تفصیلی علم ہونا چاہیے۔ ان ابتدائی شرطوں کے پورا ہونے کے بعد اہل تحقیق کا کام یہ ہے کہ متعین سرگرمیوں کے بارے میں طے کرے کہ وہ معروف کے دائرے میں آتی ہیں یا اس سے تجاوز کرتی ہیں اور یہ تجاوز مقاصد میں ہے یا طریقوں میں۔ مزید برآں اگر مقاصد درست ہوں ، لیکن طریقے غلط ہوں تو مسلمان محقق پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ درست مقاصد کے حصول کے لیے درست طریقے تجویز کرے اور نئی راہیں دریافت کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ سماجی علوم میں تحقیق کا یہ کام ایسا ہے جو بہت محنت چاہتا ہے اور تخلیقی صلاحیت کا بھی طالب ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کام سے کوئی مفر نہیں ہے۔ اگر امت مسلمہ کو انسانوں کی رہنمائی کرنی ہے تو اسے انسانی سرگرمیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مطلوب تحقیق بہر حال کرنی ہوگی۔ اس طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر امت اس پہلو سے انسانی سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کام شروع کردے تو اس اس کی قوت تسخیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ علامہ اقبال کے بقول ابلیس کو جو خوف ہے وہ یہی ہے کہ کہیں امت مسلمہ بیدار نہ ہوجائے۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
(ابلیس کی مجلس شوریٰ)
دور اول کے مسلمان اس پہلو سے بیدار تھے وہ نہ صرف کار جہاں بانی سے واقف تھے بلکہ ’’جہاں بیں‘‘ بھی تھے۔ وہ انسانی سرگرمیوں میں حسن و قبح کو پہچاننے پر قادر تھے اور ان کی حِس اس پہلو سے زندہ تھی۔ علامہ اقبال نے موجودہ دور کے مسلمان نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی سیرت کا یہ پہلو یاد دلایا ہے:
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں بین و جہاں بان و جہاں گیر و جہاں آرا
علامہ اقبال کو اس کام کی مشکلات کا بھی اندازہ تھا:
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
لیکن وہ جانتے تھے کہ صفت احتساب امت مسلمہ کو حقیقی معنوں میں زندہ کرتی ہے اور اسے ناقابل تسخیر بناتی ہے:
صورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں میں اپنے عمل کا حساب
محقق کی شخصیت:
مغربی مزاج یہ ہے کہ تحقیق کے دوران محقق اپنی شخصیت کو الگ رکھے۔ اس کو معروضیت کہا جاتا ہے۔ اسلام اس حد تک تو اس رجحان کو ٹھیک سمجھتا ہے کہ محقق واقعات و حقائق کو ٹھیک ویسا ہی باور کرے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس مزاج کی عکاسی کرتی ہے: اللہم ارنی الاشیاء کما ہی۔ ’’(اے اللہ ! مجھے چیزوں کو ایسا ہی دکھا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔)
لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا کہ محقق جذبات سے عاری ہوجائے۔ اس کے برعکس اسلام یہ چاہتا ہے کہ دوران تحقیق ، مشاہدہ اور غورو فکر کرنے والے شخص کے اندرون میں اللہ کی عظمت کا احساس جاگے، وہ اس کے ذکر کی طرف متوجہ ہو اور اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
(بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل رکھنے والوں کے لیے بہت ہی نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں یاد کرتے ہیں اورآسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ یہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ سب عبث نہیں بنایا۔ تو سب عیبوں سے پاک ہے ، پس تو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالے۔) (سورہ آل عمران آیات۱۹۱۔۱۹۰)
دوسرے مقام پر جذبہ شکر کا تذکرہ ہے:
(اللہ وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے جہاز اس میں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کروا ور تاکہ تم شکر کرو اور اس نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ اشیاء ہیں سب کو مسخر کردیا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو غور و فکر کرتے ہیں۔) (سورہ جاثیہ۔ آیات: ۱۲۔۱۳)
آیات بالا میں طبعی دنیا کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں کا تذکرہ ہے۔ لیکن اسی طرح کی نشانیاں انسانی دنیا میں بھی موجود ہیں۔ وہ تقاضا کرتی ہیں کہ ان پر غور و فکر کیا جائے۔
(اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمارے لیے تمہاری ہی قسم سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان مودت اور رحمت رکھ دی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ تمہارا رات اور دن کو سونا اور اس کے فضل کی تلاش کرنا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔) (سورہ روم۔آیات: ۲۱ تا ۲۳)
چنانچہ مسلمان محقق کے مزاج کے لیے مناسب اصطلاح معروضیت (Objectivity) نہیں ہے۔ اس کے بجائے ’’دیانت‘‘ موزوں اصطلاح ہے جو مطلوبہ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔
محقق کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نافع اور مضر علم کے درمیان امتیاز کرے اور ہر مضر شے کو چھوڑ دے۔
اہل کتاب کو ہدایت دی گئی تھی کہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں لیکن انہوں نے کتاب اللہ کو چھوڑ دیا اور جادو جیسی مضر چیزوں کے پیچھے لگ گئے۔ قرآن مجید اس جرم کی سخت مذمت کرتا ہے
(صورتحال یہ تھی کہ ) جب بھی اہل کتاب کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا آیا، جو ان کے پاس موجود تھی تو اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین، سلیمان، کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے ہر گز کفر نہیں کیا۔ کفر تو ان شیاطین نے کیا جو انسانوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ اس چیز کے پیچھے لگے جو بائبل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتری تھی۔ وہ فرشتے جس کو بھی یہ چیز سکھاتے، اسے صاف بتادیتے تھے کہ ہم آزمائش ہیں تو تم کفر نہ کرو۔ پھر بھی وہ لوگ ان سے وہ تدبیر سیکھتے تھے ، جس سے شوہر و بیوی میں جدائی ڈال سکیں۔ حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ اس تدبیر سے کسی کو نقصان نہ پہنچا سکتے تھے اور وہ سیکھتے تھے وہ چیز جو ان کے لیے مضر تھی، نفع پہچانے والی نہ تھی۔ وہ خوب جانتے تھے کہ جس نے اسے خریدا، اس کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ، بہت بری چیز تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔)
(سورہ بقرہ ۔ آیات ۱۰۱۔۱۰۲)
(الف) انسان زین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔
(ب) انسان اللہ کا بندہ (عبد )ہے۔
اس جواب کی معنویت سمجھنے کے لیے مغرب کے تصورِ انسان سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ تصور یہ ہے :
(الف) انسان ایک خود مختار وجود ہے، جس نے حیوانات سے ترقی کر کے ایک مستقل نوع کی شکل اختیار کرلی ہے۔
(ب) وہ کسی خالق کائنات کا محکوم ہونے کے بجائے اس سماجی نظام کا محکوم ہے جو اس کے اطراف میں موجود ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ اسلامی تصور انسان اسلامی تصور کائنات کا ایک جز ہے۔ اس طرح مغربی تصور انسان بھی مغربی تصور کائنات کا ایک حصہ ہے۔ جو شخص توحید کا قائل ہے وہ لازماً انسان کے بندہ خدا ہونے کا بھی قائل ہوگا۔ اس طرح جو شخص کائنات کو محض مادی قوتوں کی آماجگاہ سمجھتا ہے وہ انسان کو بھی اصلاً محض ایک مادی وجود سمجھے گا اور اس کے نزدیک ’’انسانیت‘‘ محض مادیت اورحیوانیت کی ایک ترقی یافتہ شکل ہوگی۔
عقل، مشاہدہ اور تصور کائنات:
سماجی علوم ہوں یا طبعی علوم، مغرب کے دو دعوے ہیں:
(1 ایک یہ کہ مغرب کے تصور کائنات اور تصور انسان کی بنیاد عقل اورمشاہدے پر ہے۔
(2 دوم یہ کہ مشاہدہ اور استدلال کا منہاج (Method) جو مغرب میں اختیار کیا جاتا ہے وہ معروضی (Objective) ہے۔ یعنی یہ منہاج و مشاہدہ کرنے والے شخص کے جذبات سے بھی آزاد ہے اور اس کے تصور کائنات اور تصور انسان سے بھی آزاد ہے بالفاظ دیگر مشاہدہ ، استدلال و تحقیق کا مغربی طریقہ بالکل غیر جانبدار واقع ہوا ہے اور اس لیے اس طریقے کو سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس طریقے کے استعمال سے جو نتائج حاصل ہوں ، ان کوبھی سارے انسانوں کے لیے حجت ہونا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے یہ دونوں دعوے غلط ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ غلط ہے کہ مادی فلسفہ کائنات کی تصدیق مشاہدے سے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس پچھلی ایک صدی کی علمی تحقیقات مادی تصور کائنات کی نفی کرتی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ مغربی سائنس دانوں کا طرزِ استدلال غیر جانبدار ہوتا ہے اور ان کے مخصوص تصور کائنات سے متاثر نہیں ہوتا۔ جس طرح مغربی اہل سائنس نظریہ ارتقاء کو منوانے پر مصر ہیں اور خالق کائنات کے وجود کی نفی پر اصرار کرتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر جانبداری کا ان کا دعویٰ غلط ہے۔ مغرب کے اہل سائنس صرف اس استدلال کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے مادی تصور کائنات سے میل کھاتا ہو۔ اس لیے وہ مشاہدات کو اپنے مخصوص تصور کائنات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
لیکن اس وقت مغرب کے دعووں کی تردید یا ان کے حق میں کیے جانے والے استدلال پر گرفت ہمارا منشاء نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف یہ بات عرض کرنی ہے کہ اسلام مشاہدے اور استدلال کو تصور کائنات سے جدانہیں کرتا بلکہ ان سب کو باہم مربوط قرار دیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک جو رشتہ ان سب کو جوڑتا ہے وہ حق اور صداقت کا رشتہ ہے۔ توحید پر مبنی تصور کائنات اسلام کے نزدیک ایک بنیادی حقیقت ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ ہر درست مشاہدہ اس تصور توحید کی تصدیق کرے۔ اس طرح استدلال عقلی اگر صحیح ہے تو اس کے اور توحید کے درمیان ٹکراؤ ناممکن ہے۔
مقصد تحقیق، مغربی نقطہ نظر
انسان کی حقیقت کچھ بھی قرار دی جائے یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ انسان کے مشاہدے اور تحقیق علمی کا مقصد کیا ہے؟ مغرب کے نزدیک انسانی اور سماجی علوم کے دو مقاصد ہیں:
(الف) انسان ، سماج اور سماجی رشتوں کی ماہیت سے واقف ہوجاتا ہے۔
(ب) انسان کی صلاحیتوں کے بہتر استعمال پر قدرت۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ مقاصد وہی ہیں جو مغرب، طبعی علوم Physical Science) کے لیے متعین کرتا ہے۔ وہاں بھی مغرب کے نزدیک مقاصد یہ ہیں کہ :
(الف) اشیاء کائنات کی ماہیت سے واقفیت ہوجائے۔
اور (ب) ان کے بہتر و کارگر استعمال پر قدرت حاصل ہوجائے۔
بظاہر یہ مقاصد مناسب اوربے ضرر معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے اصل معنی تصور کائنات اور نظام اقدار کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کی ماہیت طے کرنے کے لیے مغرب یہ فرض کرلیتا ہے کہ انسان محض ایک مادی و سماجی وجود ہے۔ (اس کے اللہ سے رشتے کو بہر صورت نہیں ماننا ہے۔) اس طرح انسانی صلاحیتوں کے بہتر استعمال کا منشاء مغربی طاقتوں کے سیاسی و معاشی عزائم کی تکمیل ہے۔ اگربہت وسعت دی جائے تو انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے دائرے کو مغربی تصور ترقی کے مطابق وسائل کے استعمال تک وسیع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بہر صورت مغربی تصور کے مطابق انسان ایک ’’وسیلہ‘‘ قرار پاتے ہیں۔
اور اصولی حیثیت سے انسان کی قدر بھی اتنی ہی ہے جتنی طبعی وسائل مثلاً لوہے اور تانبے کے ذخائر سے ہوسکتی ہے۔
اسلام کا نقطہ نظر ان تنگ اورناقص تصورات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام سب سے پہلے تو اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ انسان کوئی سادہ سلیٹ نہیں ہے بلکہ ایک متعین فطرت کا حامل ہے۔ اس فطرت کے اعتبار سے انسان اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ انسانی فطرت کا ایک ناقابل فراموش پہلو یہ ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرتا ہے اور اپنے اعمال و افعال میں آزاد ہے۔ چنانچہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے لیے خیر کا یا شر کا راستہ چن سکتا ہے۔ اس آزادی کے باوجود ، وہ خیر کی طرف زبردست نفسیاتی رجحان رکھتا ہے۔ اگر ووہ شر کی طرف جاتا بھی ہے تو عموماً اس پر اچھائی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمام تر تاویلوں کے باوجود اس کا ضمیر اس کو برائی پر ملامت کرتا رہتا ہے اور خیر کی طرف پلٹنے پر آمادہ کرتا ہے۔
اسی طرح اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کا ایک بنیادی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مسؤلیت کا احساس رکھتا ہے اور جوابدہی کی فکر اسے ستاتی ہے۔ اسی فطرت انسانی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر انسانی سماج میں اجتماعی مسؤلیت کاتصور پایا جاتا ہے۔ گرفت اوراحتساب کے ضوابط اور ادارے موجود ہوتے ہیں۔ انسانی دنیا میں موجود قوانین، روایات اور نظام عدل سب انسانی فطرت میں موجود احساس مسؤلیت کے شاہد ہیں۔
بنیادی مقصد تحقیق
اسلامی نقطہ نظر
اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کے یہ پانچ بنیادی پہلو ہیں۔ عبدیت، خلافت، آزادی (اختیار) خیر کی طلب اور مسؤلیت۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق انسانی اورسماجی علوم میں تحقیق کا پہلا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانی فطرت کے ان عناصر کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔
اصولاً یہ تشریح اور وضاحت کتاب الٰہی کی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگی، لیکن اس کے علاوہ یہ تشریح انسانی افراد اور سماج کے مطالعے کی روشنی میں بھی ہوگی۔ مسلمان محقق کا کام یہ نہیں ہے کہ خالی الذہن ہوکر انسانی تاریخ اور انسانی معاشرے پر نظر ڈالے ، بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ انسانی فطرت کے اسلامی تصور کو ذہن میں رکھ کر افراد اور سماج کا مطالعہ کرے۔ اس مطالعہ کے نتیجے میں فطرت انسانی کا مجمل تصور، تفصیلی شکل اختیار کرسکے گا۔ اگر یہ منہاج اختیار کیا جائے تو انسانی اور سماجی علوم کا مطالعہ آیات الٰہی کا مشاہدہ بن جائے گا۔ ا س مطالعے کے دوران محقق کو ہر جگہ انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کی جلوہ گری نظر آئے گی۔ ایک طرف اس پر یہ حقیقت کھلے گی کہ انسانی فطرت کا اسلامی تصور بالکل درست اور مطابق واقعہ ہے اور دوسری طرف اس فطرت کے پانچ عناصر (عبدیت ، خلافت، آزادی، طلب خیر اور مسؤلیت) کا تفصیلی مفہوم بھی اس کے سامنے (انسانی افراد اور سماج کے تجربات کی روشنی میں) آجائے گا۔ یہ تحقیق اسلامی تصور انسان اور تصور کائنات کی حقانیت پر یقین کو دوبالا کرے گی۔
ذیلی مقاصد تحقیق:
جیسا کہ عرض کیا گیا انسانی اور سماجی علوم میں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق علمی تحقیق کا بنیادی مقصد انسانی فطرت کا تفصیلی فہم ہے۔ اس بنیادی مقصد کے حصول کے لیے کتاب الٰہی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادے کے علاوہ مشاہدے (Empirical Observation) اور عقلی استدلال سے بھی کام لینا ہوگا۔ اس طرح انسانی تجربات اور ان کے نتائج کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا۔ اس بنیادی مقصد کے علاوہ (لیکن اس سے مربوط) کچھ اور مقاصد بھی ہیں ، جو ایک مسلمان محقق کو سامنے رکھنے ہوں گے۔
(الف)انسانی شخصیت کے تزکیے کے لیے مثبت و منفی تدابیر کی دریافت۔
(یہ کام مسلمان سما ج کے اندر تصوف کے موضوع کے تحت انجام پایا ہے۔ اس سلسلے کی سعی کو کتاب و سنت کے حدود کا پابند بنانے کے لیے معیارات کے تعین کی سخت ضرورت ہے)
(ب) انسانی صلاحیتوں کے ارتقاء کے لیے تدابیر کی تلاش۔
(ج) انسانوں کے انفرادی و اجتماعی طرز عمل کے لیے شریعت الٰہی کی روشنی میں آداب، حدود اور ضوابط کا تعین (اس کام کو ہماری تاریخ میں فقہ کہا گیا ہے۔ اس میدان میں علمی تحقیق کی ضرورت تاریخ کے کسی دور میں ختم نہیں ہوسکتی)
عصر حاضر کی اصطلاحات میں ان میدانوں کے لیے مختلف نام ہیں، مثلاً پرسنالٹی ڈیولپمنٹ، مینجمنٹ، قانون، وغیرہ لیکن ان اصطلاحات کے معنی محدود ہیں اور بسا اوقات اسلامی سماج کی مکمل نمائندگی سے قاصر بھی ہیں۔ اس لیے وہی اصطلاحات موزوں ہیں جو مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں وضع کی ہیں۔
انسانی سرگرمیاں اور ا قدار:
مندرجہ بالا مقاصد تحقیق کے علاوہ ایک اورمقصد ہے جس کا تذکرہ باقی ہے۔ اس کا تعلق اقدار (Values) سے ہے۔ اسلام نے بعض مثبت امور کو اپنی اقدار میں شمار کیا ہے۔ انسانی رویہ ان اقدار سے ہم آہنگ ہوناچاہیے۔ بنیادی قدریں یہ ہیں۔ عدل، امانت، صدق، حیات اور علم۔ ان قدروں کے سیاق میں مطلوب یہ ہے کہ افراد عدل کا رویہ اختیار کریں اورسماج میں عدل قائم ہو۔ ہر فرد، ذمہ داری کے ساتھ کام کرے، امانتوں کا پاس و لحاظ رکھے اور اجتماعی ماحول ایسا ہو کہ امانتیں اہل امانت کے سپر دکی جائیں۔ اسی طرح افراد صداقت اور راستبازی کا اہتمام کریں اور اجتماعی ضوابط، روایات و قوانین صدق کو فروغ دینے والے اور کذب و فریب کو ختم کرنے والے ہوں۔ افراد کی زندگی حیاو پاکبازی کی زندگی ہو اور سماج کی فضا پاکیزہ بنائی جائے۔ افراد علم کی روشنی میں زندگی گزاریں ، اوہام و خرافات سے بچیں اور اس طرح معاشرے کا مزاج علمی ہو۔
ان مثبت اقدار کے بالمقابل ظلم کا رویہ ناپسندیدہ ہے، بددیانتی اور خیانت کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ جھوٹ اور فریب کو اس نے حرام قرار دیا ہے۔ فحش کاموں کو وہ پسند نہیں کرتا اور زیادہ گمان کرنے سے روکتا ہے۔ اسلام نے مثبت اقدار کو ’معروف‘‘ کا جامع عنوان دیا ہے اور اس طرح ان کے بالمقابل منفی اورنامطلوب صفات کو ’’منکر‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اسلام کے نزدیک معاشرہ میں معروفات کو فروغ حاصل ہونا چاہیے اور منکرات کو ختم کیا جانا چاہیے۔
ہر سماج میں انسان مختلف النوع سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں روزی کمانے، خاندانی زندگی بسر کرنے اور آپسی لین دین سے لے کر حکومت اور سیاست تک تمام امور شامل ہیں۔ اسلام کا مطلوب یہ ہے کہ یہ ساری سرگرمیاں اس طرح انجام پائیں کہ معروفات کا قیام ہوسکے اورمنکرات مٹ جائیں۔ ہر انسانی سرگرمی کسی مقصد کے تحت انجام دی جاتی ہے اور اس کے کچھ طریقے اور آداب ہوتے ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سرگرمی کا مقصد بھی اچھا ہو اور اس کے انجام دینے کے طریقے بھی بھلے ہوں۔ اسی طرح جو ضوابط ، آداب اور قوانین ان سرگرمیوں کو منظم کریں وہ بھی معقول اور عادلانہ ہوں۔ انسانی اور سماجی علوم میں تحقیق کا ایک اہم مقصد انسانی سرگرمیوں کو مثبت اقدار سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
احتساب کائنات:
انسانی سرگرمیوں کو اسلامی نظام اقدار سے ہم آہنگ کرنے کا مذکورہ بالا کام وسیع تقاضے رکھتا ہے۔ ایک طرف تو محقق کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی سرگرمیاں فی الواقع ہیں کیا؟ مختلف سماجوں کے اعتبار سے ان میں کس قسم کا تنوع پایا جاتا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں ان میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں؟ دوسری طرف محقق کو اسلامی اقدار کی معنویت کا تفصیلی علم ہونا چاہیے۔ ان ابتدائی شرطوں کے پورا ہونے کے بعد اہل تحقیق کا کام یہ ہے کہ متعین سرگرمیوں کے بارے میں طے کرے کہ وہ معروف کے دائرے میں آتی ہیں یا اس سے تجاوز کرتی ہیں اور یہ تجاوز مقاصد میں ہے یا طریقوں میں۔ مزید برآں اگر مقاصد درست ہوں ، لیکن طریقے غلط ہوں تو مسلمان محقق پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ درست مقاصد کے حصول کے لیے درست طریقے تجویز کرے اور نئی راہیں دریافت کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ سماجی علوم میں تحقیق کا یہ کام ایسا ہے جو بہت محنت چاہتا ہے اور تخلیقی صلاحیت کا بھی طالب ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کام سے کوئی مفر نہیں ہے۔ اگر امت مسلمہ کو انسانوں کی رہنمائی کرنی ہے تو اسے انسانی سرگرمیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مطلوب تحقیق بہر حال کرنی ہوگی۔ اس طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر امت اس پہلو سے انسانی سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کام شروع کردے تو اس اس کی قوت تسخیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ علامہ اقبال کے بقول ابلیس کو جو خوف ہے وہ یہی ہے کہ کہیں امت مسلمہ بیدار نہ ہوجائے۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
(ابلیس کی مجلس شوریٰ)
دور اول کے مسلمان اس پہلو سے بیدار تھے وہ نہ صرف کار جہاں بانی سے واقف تھے بلکہ ’’جہاں بیں‘‘ بھی تھے۔ وہ انسانی سرگرمیوں میں حسن و قبح کو پہچاننے پر قادر تھے اور ان کی حِس اس پہلو سے زندہ تھی۔ علامہ اقبال نے موجودہ دور کے مسلمان نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی سیرت کا یہ پہلو یاد دلایا ہے:
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں بین و جہاں بان و جہاں گیر و جہاں آرا
علامہ اقبال کو اس کام کی مشکلات کا بھی اندازہ تھا:
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
لیکن وہ جانتے تھے کہ صفت احتساب امت مسلمہ کو حقیقی معنوں میں زندہ کرتی ہے اور اسے ناقابل تسخیر بناتی ہے:
صورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں میں اپنے عمل کا حساب
محقق کی شخصیت:
مغربی مزاج یہ ہے کہ تحقیق کے دوران محقق اپنی شخصیت کو الگ رکھے۔ اس کو معروضیت کہا جاتا ہے۔ اسلام اس حد تک تو اس رجحان کو ٹھیک سمجھتا ہے کہ محقق واقعات و حقائق کو ٹھیک ویسا ہی باور کرے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس مزاج کی عکاسی کرتی ہے: اللہم ارنی الاشیاء کما ہی۔ ’’(اے اللہ ! مجھے چیزوں کو ایسا ہی دکھا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔)
لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا کہ محقق جذبات سے عاری ہوجائے۔ اس کے برعکس اسلام یہ چاہتا ہے کہ دوران تحقیق ، مشاہدہ اور غورو فکر کرنے والے شخص کے اندرون میں اللہ کی عظمت کا احساس جاگے، وہ اس کے ذکر کی طرف متوجہ ہو اور اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
(بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل رکھنے والوں کے لیے بہت ہی نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں یاد کرتے ہیں اورآسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ یہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ سب عبث نہیں بنایا۔ تو سب عیبوں سے پاک ہے ، پس تو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالے۔) (سورہ آل عمران آیات۱۹۱۔۱۹۰)
دوسرے مقام پر جذبہ شکر کا تذکرہ ہے:
(اللہ وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے جہاز اس میں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کروا ور تاکہ تم شکر کرو اور اس نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ اشیاء ہیں سب کو مسخر کردیا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو غور و فکر کرتے ہیں۔) (سورہ جاثیہ۔ آیات: ۱۲۔۱۳)
آیات بالا میں طبعی دنیا کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں کا تذکرہ ہے۔ لیکن اسی طرح کی نشانیاں انسانی دنیا میں بھی موجود ہیں۔ وہ تقاضا کرتی ہیں کہ ان پر غور و فکر کیا جائے۔
(اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمارے لیے تمہاری ہی قسم سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان مودت اور رحمت رکھ دی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ تمہارا رات اور دن کو سونا اور اس کے فضل کی تلاش کرنا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔) (سورہ روم۔آیات: ۲۱ تا ۲۳)
چنانچہ مسلمان محقق کے مزاج کے لیے مناسب اصطلاح معروضیت (Objectivity) نہیں ہے۔ اس کے بجائے ’’دیانت‘‘ موزوں اصطلاح ہے جو مطلوبہ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔
محقق کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نافع اور مضر علم کے درمیان امتیاز کرے اور ہر مضر شے کو چھوڑ دے۔
اہل کتاب کو ہدایت دی گئی تھی کہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں لیکن انہوں نے کتاب اللہ کو چھوڑ دیا اور جادو جیسی مضر چیزوں کے پیچھے لگ گئے۔ قرآن مجید اس جرم کی سخت مذمت کرتا ہے
(صورتحال یہ تھی کہ ) جب بھی اہل کتاب کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا آیا، جو ان کے پاس موجود تھی تو اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین، سلیمان، کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے ہر گز کفر نہیں کیا۔ کفر تو ان شیاطین نے کیا جو انسانوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ اس چیز کے پیچھے لگے جو بائبل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتری تھی۔ وہ فرشتے جس کو بھی یہ چیز سکھاتے، اسے صاف بتادیتے تھے کہ ہم آزمائش ہیں تو تم کفر نہ کرو۔ پھر بھی وہ لوگ ان سے وہ تدبیر سیکھتے تھے ، جس سے شوہر و بیوی میں جدائی ڈال سکیں۔ حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ اس تدبیر سے کسی کو نقصان نہ پہنچا سکتے تھے اور وہ سیکھتے تھے وہ چیز جو ان کے لیے مضر تھی، نفع پہچانے والی نہ تھی۔ وہ خوب جانتے تھے کہ جس نے اسے خریدا، اس کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ، بہت بری چیز تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔)
(سورہ بقرہ ۔ آیات ۱۰۱۔۱۰۲)
ڈاکٹر محمد رفعت
پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ
پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ
No comments:
Post a Comment