ادب اور غیر ادب
- پروفیسر سحر انصاری
تاریخِ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان مثبت اور منفی اوصاف کا مرکب ہے۔ انسانی تمدن کے ارتقا میں اس کی ذہانت، شعور اور تجربے سے حاصل کردہ نتائج کا خاص طور پر حصہ رہا ہے۔ انسانی معاشرے میں جو تغیرات رونما ہوتے رہے ہیں، اُن کے مظاہر پورے کرۂ ارض پر موجود ہیں، یہی نہیں بلکہ کائنات میں نظامِ شمسی سے لے کر دور افتادہ اور وسعت پذیر کائنات کے اسرار و رموز بھی انسان نے اسی زمین پر بیٹھے بیٹھے حاصل کرلیے، اور اب تسخیرِ ماہ کے بعد کسی اور کرۂ کائنات پر بود و باش اختیار کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ دنیا کے بڑے ذہنوں نے انسان کے اس عمل کو مختلف حوالوں سے پرکھا اور اپنے ردِ عمل کا اظہار بھی کیا۔ سات سو برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے جب شیخ سعدی نے کہا تھا: ُتو کارِ زمیں را نکو ساختی کہ باآسماں نیز پرداختی یعنی اے انسان! کیا ُتو نے زمین کے تمام تعمیری کاموں کو مکمل کرلیا ہے کہ اب تیری پرواز اور توجہ آسمان کی طرف ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ، لیکن انسانی ذہن کسی منزل پر رُکا نہیں۔ اُس کی یہی تخلیقی صلاحیت اُسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے۔ جدید دُنیا اپنے عقائد کے اعتبار سے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک کائنات کی تقویم و تشکیل کے نظریے کو آسمانی صحائف کے حوالے سے بیان کرتا ہے، جسے creationist کا نام دیا گیا ہے ایک اور طبقہ تاریخ کی مادّی تعبیر کرتے ہوئے انسانی ارتقا کو ایک تدریجی عمل سے تعبیر کرتا ہے اور اسے evolutionist کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ سقراط سے قبل کے فلسفیوں نے یہ بات کہی تھی، جسے بعد میں مختلف زبانوں میں مختلف پیرایے کے ساتھ دُہرایا جاتا رہا ہے کہ مطالعے کا سب سے اچھا موضوع خود انسان ہے۔ اب اس میں بھی کوئی ایک رائے حتمی طور پر موجود نہیں۔ اور جس نہج سے انسان کا مطالعہ کیا گیا ہے، اس کو بھی بعض مفکرین نے بہ نظرِ تنقید دیکھا ہے، مثلاً بیس ویں صدی میں مشل فوکو نے ایک نقطئہ نظر یہ پیش کیا کہ پانچ ہزار سال کی معلومہ ادبی تاریخ میں انسان کو زیادہ تر ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے، حالاںکہ ان حوالوں سے انسان کی مکمل تصویر نہیں بنتی، اس کے لیے تہذیب اور تاریخ کی تہوں کو اس طرح کھولنا اور دیکھنا چاہیے جیسے ماہرینِ آثارِ قدیمہ زمین کی تہوں کو کھنگال کر مدفون تہذیبوں کا سراغ لگاتے ہیں۔ گویا میرزا یگانہ کے لفظوں میں: شیطان کا شیطان، فرشتے کا فرشتہ انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی خود قرآنِ کریم نے احسنِ تقویم اور اسفل السافلین کہا ہے۔ انسان کے ان درجات کو مختلف علوم کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے لیکن جس قدر مدد اور سند تخلیقی ادب سے مل سکتی ہے، اُتنی کسی اور شعبۂ علم و تہذیب سے ممکن نہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ادب لفظوں کا فن ہے تو جتنے الفاظ لکھے جا رہے ہیں، کیا وہ سب کے سب ادب کہلانے کے مستحق ہیں؟ یہیں سے ادب اور غیر ادب کا فرق اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہیں سے کسی ادیب کے جینوئن اور نان جیوئن ہونے کا معیار سامنے آتا ہے۔ یہ بہت حساس موضوع ہے، کیوںکہ ہر صاحبِ تخلص خود کو اتنا ہی بڑا شاعر سمجھتا ہے جتنا میر اور غالب، اور ہر قلم بردار خود کو اتنا ہی بڑا نقاد سمجھتا ہے جتنا کولرج اور ٹی ایس ایلیٹ۔ اور اس کے برعکس جو واقعی بڑے تخلیقی ذہن ہوتے ہیں، اُن کے یہاں یہ خنّاس نہیں پایا جاتا، مثلاً مرزا غالب نے حاتم علی مہرکو ناسخ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ میں تمھارے استاد کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیوںکہ میں یک فنہ ہوں۔ اب غالب جیسے شخص کو اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں اور اگر ہے بھی تو اس قدر: میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں تخلیقی ادب جہاں تمام انسانی علوم اور فنونِ لطیفہ کا محور و مرکز ہوتا ہے، وہیں تخلیقی ادب سے دیگر شعبہ ہائے حیات بھی اخذ و استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال سگمنڈ فرائیڈ، سی جے ژونگ اور کارل مارکس ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر بڑے مفکرین نے اعتراف کیا ہے کہ انسان شناسی کے متعدد رموز اور زاویے انھیں ادب کے مطالعے ہی سے حاصل ہوئے۔ صحافت کے فروغ اور اہمیت کے بعد یہ سوال بھی مشرق و مغرب کے ادبی حلقوں میں اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ صحافت، ادب کیوں نہیں ہے؟ اور صحافی کو ادیب کیوں نہیں مانا جاتا؟ حالاںکہ کئی ادیب، صحافی اور کئی صحافی، ادیب بھی ہوسکتے ہیں، تاہم ایک ہی شخصیت میں اگر صحافی اور ادیب یک جا ہوجائیں تو اس کا فیصلہ ادبی محاکموں سے زیادہ مارکٹ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ یہ بات شاید ڈبلیو ایچ آڈن کی ایک مثال سے واضح ہوسکے۔ آڈن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں کوئی تحریر ایک گھنٹے میں گھسیٹ کر اخبار کو بھیج دیتا ہوں تو دو سو ڈالر مل جاتے ہیں اور ایک نظم جو میں کئی ہفتوں کی توجہ اور محنت کے بعد لکھتا ہوں، اُس کا معاوضہ بیس ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جب لکھنے والا ایک ہی شخص ہے تو اس کی تحریر کی یہ قدر و قیمت دو مختلف شعبوں میں اس طرح کیوں متعین ہوتی ہے؟ اس کے ممکنہ جوابات ایک سے زائد ہوسکتے ہیں، لیکن میرے ذہن میں یہ ہے کہ صحافت وقتی اور لمحاتی ضرورت ہے۔ کوئی خبر اور اس کا ردِعمل جتنی جلدی عوام تک پہنچ جائے، اُتنا ہی صحافی کو داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے۔ اس میں عجلت اور خبر رسانی میں پہل کاری کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اسی لیے جب کوئی ادیب یا شاعر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں موضوع یا فلاں اسلوب کا میں بنیاد گزار ہوں تو عموماً ثقہ حلقے اُسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ صحافت کی طرح تخلیقِ ادب کا محرک بھی لمحاتی ہوسکتا ہے لیکن ادب کا کرشمہ ہی یہ ہے کہ وہ لمحاتی تجربے کو آفاقی بناتا اور اس جوہر سے آمیز کرکے پیش کرتا ہے جو انسانی احساس کے ابدی عناصر سے مملو ہوتا ہے۔ لفظ و بیان کی دنیا میں تاریخ نویسی کو خاص اہمیت رہی ہے۔ اہلِ یونان تین شعبوں کو فکر و دانش کے حوالے سے خاص اہمیت دیتے تھے، تاریخ، فلسفہ اور شاعری۔ ارسطو نے جب یہ بات کہی کہ شاعری تاریخ سے زیادہ فلسفیانہ ہوتی ہے تو اُس کی وضاحت اُس نے یوں کی تھی کہ تاریخ میں وہ واقعات بیان کیے جاتے ہیں، جو پیش آچکے ہیں جب کہ شاعری میں امکانات کا دریچہ روشن رہتا ہے۔ صحافت کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں پیش آمدہ واقعات بیان کیے جاتے ہیں، اور تخیل یا اقدارِ حیات سے زیادہ تعلق نہیں رہتا۔ صحافت اور تاریخ ایک ایسا دل ہے، جو دھڑکنے اور محسوس کرنے سے عاری ہے۔ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ جب شائع ہوا تو کئی محترم شخصیات نے یہ بات کہی کہ اگر ہندوستان کی دو ہزار سالہ فکر و دانش کا مطالعہ کرنا مقصود ہو تو عینی کا ناول کیوں پڑھیں؟ براہِ راست تاریخ کا مطالعہ ہی کیوں نہ کیا جائے۔ تاریخ اور تخلیقی فن پارے کے فرق اور اہمیت کو ایک اور حوالے سے اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ انقلابِ فرانس پر ٹامس کارلائل نے ایک تحقیقی اور تاریخی کتاب تحریر کی، بعد میں چارلس ڈکنس نے اسی موضوع پر ایک ناول لکھا، ’’دو شہروں کی کہانی‘‘ (A Tale of Two Cities)۔ کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے واقعات کو پیشِ نظر رکھنے کے لیے کارلائل کی تحقیق سے بھی ڈکنس نے استفادہ کیا تھا۔ ڈکنس کا ناول کارلائل کی تاریخی کاوش سے زیادہ مقبول بھی ہوا اور آج تک اُسے جو اہمیت حاصل ہے، وہ کارلائل کی کتاب کو نہ مل سکی۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ڈکنس کا ناول انسانی اقدار اور محسوسات کے تانے بانے میں لپٹا ہوا ہے۔ ادب اور غیر ادب میں اقدار ہی کا فرق ہے۔ زندگی کی قدریں کیا ہیں اور وہ کس سطح اور انداز سے انسانی احساس کی صورت گر ہوسکتی ہیں اور انھیں زندگی کی جمالیات کے ساتھ کس طور ہم آہنگ کرکے پیش کیا جائے، بس یہی شعور لفظوں کے فن کو تخلیقی و ادبی فن پارے کی شکل دیتا ہے۔ زندگی میں سائنسی نقطئہ نظر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کو بھی اہمیت دینی چاہیے، ورنہ ادب اور سائنس کے فاصلوں سے ایک ایسی خلیج، ایک ہی معاشرے کے انسانوں میں پیدا ہوسکتی ہے، جس کی طرف کئی عشرے پہلے سی پی اسنو نے اپنے مشہور لیکچر Two Cultures میں اشارہ کردیا تھا اور جس کے بعد ہربرٹ ریڈ، لائنل ٹریلنگ اور ڈونلڈ ڈیوی جیسے اہلِ قلم کو انسانی کلچر اور اقدارِ حیات کی ازسرِنو اہمیت پر زور دینا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ تحریروں اور تصنیفات کو اقدارِ حیات سے دور رکھا جائے تو یہ ادب کو غیرانسانی (dehumanize) کرنے کے مترادف ہوگا، اور اس طرح خود کلچر، کلچر نہیں رہے گا بلکہ vulture میں بدل جائے گا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اقدار پسند ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کو ادب اور غیرِ ادب کا فرق کرتے ہوئے اپنے عہد کی ترجمانی کرنی چاہیے۔
|
No comments:
Post a Comment