روس، چین، امریکہ اور مسلم اُمہ
- پروفیسر شمیم اختر
روس اور چین قریب ہوتے جارہے ہیں، اور یہ دونوں طاقتیں امریکہ اور اس کے فوجی ٹولے ناٹو کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے سدباب کے لیے سفارتی اور تزویراتی سطحوں پر تعاون کرتی رہی ہیں۔ روس اور چین کو توقع تھی کہ روس میں اشتراکیت کے خاتمے اور چین میں مائو کے سخت گیر نظریاتی رویوں کو خیرباد کہنے اور سرمایہ دار ممالک سے تجارت کرنے سے کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور فوجی معاہدوں کی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے معاہدۂ وارسا کو ختم کردیا، لیکن اس کی توقع کے برخلاف امریکہ نے روس کے اس اقدام کو اس کی کمزوری پر محمول کرتے ہوئے ناٹو میں توسیع کا عمل شروع کردیا اور معاہدۂ وارسا کی رکن سابق مشرقی یورپی ریاستوں کی کھیپ کی کھیپ بھرتی کرنا شروع کردی، یہاں تک کہ جارجیا، یوکرین اور قازقستان پر بھی ڈورے ڈالنے شروع کردیئے۔ اب ناٹو کی رکن ریاستوں کی تعداد 16 سے بڑھ کر 28 ہوگئی۔ پہلے تو ناٹو کا دائرۂ اختیار صرف یورپ تک تھا، لیکن سوویت یونین کے خاتمے سے ایک سال قبل اس نے عراق پر چڑھائی کردی جس کے لیے جارج بش اول نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی خود تاویل کرتے ہوئے اپنے جارحانہ اقدام کو جائز قرار دیا۔ اُس وقت سوویت روس کے صدر میخائل گورباچوف اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے کوئی راست اقدام نہ کرسکے، جب کہ چین بھی اندرون ملک امریکی سی آئی اے کی برپا کی ہوئی بغاوت سے نبرد آزما ہونے کے باعث کچھ نہ کرسکا… اور یوں بھی چین کی پالیسی انتہائی خودغرضی پر مبنی ہے، اور اس نے کبھی استعمار کے خلاف افرایشیائی لاطینی امریکی عوام کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت نہیں کی، البتہ مائوزے تنگ کے زمانے میں چین استعمار کے خلاف زبانی جمع خرچ ضرور کرتا رہا ہے۔ اس نے انیسویں صدی میں زارِ روس سے کیے گئے معاہدے کے ذریعے ولاڈی واسٹک، استراخان اور نواحی علاقے کی روس کو منتقلی کا تنازع کھڑا کرکے 80 کے تمام عشرے میں مغربی استعمار کے بجائے سوویت یونین کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی جس کے باعث ناٹو کو کھل کھیلنے کا موقع ہاتھ آگیا، جب کہ استعمار مخالف طاقتیںکمزور پڑگئیں۔ سوویت یونین اندرون ملک بدانتظامی اور بدعنوانی کے باعث مفلوج ہوگئی اور ناٹو کو کھلا میدان ہاتھ آگیا۔ اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ چین کس حد تک اپنے سب سے بڑے تجارتی ساجھے دار امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام دے سکتا ہے۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ چین کی پالیسی انتہائی خودغرضی پر مبنی ہے اور وہ ہر مسئلے کو اپنے قومی مفاد کے نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہے، اور اس کا ہر قدم اسی سمت بڑھتا ہے جدھر وہ اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ لیکن اب اسے امریکہ کچوکے لگا رہا ہے تو وہ بلبلا اٹھا۔ سب سے پہلے تو بارک اوباما نے تائیوان کو جدید جنگی طیاروں اور میزائلوں سے مسلح کردیا ہے اور اس کے اشارے پر تائیوان نے ان میزائلوں کو ساحلوں پر نصب کرکے ہانگ کانگ کو نشانے پر رکھ لیا ہے، جب کہ اس کا ساتواں بحری بیڑا سمندری علاقے میں متحرک ہے۔ شمالی بحرالکاہل میں جاپان اور جنوبی کوریا پر امریکی افواج بالترتیب 67 اور 62 سال سے قابض ہیں، اسی طرح جرمنی پر بھی 62 سال سے قابض ہیں، لہٰذا یہ ممالک عملاً امریکہ کے مقبوضہ علاقے ہیں جن کے لیے اتحادی کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ ولادی میر پیوٹن کے دورِِ صدارت میں روس اپنے پائوں پر کھڑا ہونے لگا اور گیس اور تیل کے ذخائر کے ذریعے نہ صرف کثیر زرمبادلہ کمایا بلکہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کیا۔ روس نے TNK-BP کمپنی میں برٹش پیٹرولیم (BP) کے سارے حصص جو پچاس فیصد تھے، خرید کر برطانوی کمپنی کی چھٹی کردی اور اس کے سربراہ Bob Dudley کو 2008ء میں ملک سے نکال باہر کیا، کیونکہ برطانوی کمپنی کاروبار کی آڑ میں روس مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ (ڈان 3 جون 2012ئ) اب روس کی Gazprom اور Rosneft کمپنیوں کو تیل اور گیس کے کاروبار پر مکمل اجارہ داری حاصل ہے۔ چین روس کے تیل اور گیس کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے کیونکہ اسے اپنی تیز رفتار صنعتی ترقی کے لیے وافر مقدار میں توانائی درکار ہے۔ 2009ء میں چین نے روس سے تیس سال تک کے لیے 70 ارب کیوبک میٹر سالانہ گیس کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا لیکن قیمت کے تعین پر طرفین میں اختلافات تھے۔ امید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس منعقدہ بیجنگ کے موقع پر یہ سودا بھی طے پا جائے گا (ڈان 4 جون 2012ئ)۔ چین اپنی ضرورت کے لیے 80 فیصد تیل درآمد کرتا ہے جو جنوبی بحرالکاہل سے گزرتا ہوا چین آتا ہے، اور اس کی یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکہ کو جانے والی برآمدات کی گزرگاہ بھی یہی سمندری شاہراہ ہے۔ اس لیے چین جنوبی بحیرہ چین کے زیادہ سمندری علاقے کو اپنی تجارت کے لیے محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں اسی سمندر میں واقع Parcel اور Spratley نامی جزائر میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں جنہیں چین استعمال کرنا چاہتا ہے، لیکن تائیوان، ویت نام، برونائی، فلپائن اور ملائیشیا بھی ان جزائر اور نواحی سمندری علاقے پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ اسی سمندر میں ماہی گیری پر چین اور فلپائن کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ تمام علاقائی ریاستیں سارے بحیرہ چین پر اس کے دعوے کو تسلیم نہیںکرتیں اور چین پر جارحانہ عزائم کا الزام لگاتی ہیں۔ اس صورت حال سے امریکہ نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور تائیوان اور فلپائن سے اپنے فوجی معاہدے کے بل پر وہ جنوبی بحیرہ چین کے تنازع میں فریق بن گیا ہے اور فلپائن اور تائیوان کو خاص کر یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر چین نے ان پر حملہ کیا تو مذکورہ معاہدے کے تحت وہ ان کا دفاع کرے گا۔ اس پر چین نے امریکہ کو بحیرہ چین میں مداخلت سے باز رہنے کا انتباہ کیا ہے۔ (3 جون 2012ئ) چین کا کہنا ہے کہ وہ اس سمندری شاہراہ کو دوستی اور تعاون کا خطہ بنانا چاہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 1982ء کے سمندری قانون کی رو سے ہر ملک کو اپنے ساحل سے 200 میل تک سمندری علاقے میں بلاشرکت غیرے وہاںکے قدرتی وسائل پر تصرف کا حق حاصل ہے، اور اگر ساحلی ریاستوں کے 200 میل کے خصوصی اقتصادی منطقات دونوں کی حدود میں آتے ہیں تو اسے ثالثی یا عدالتی فیصلے یا مذاکرات سے طے کرلیا جانا چاہیے، لیکن یہ درست نہیں ہوگا کہ کوئی بڑی ریاست دوسری ساحلی ریاست کے اقتصادی خطے (Exclusive Economic Zone) یا اس کے زیادہ حصے پر طاقت کے زور پر قبضہ کرلے جو چین چاہتا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر کوئی جزیرہ یا سمندری علاقہ ایک سے زیادہ ریاستوں کے خصوصی اقتصادی منطقہ میں واقع ہو تو ان کے قدرتی وسائل بقدرِ حصہ فریقین میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ چین اس تنازع سے امریکہ کو خارج کرنے کے لیے اسے جنوب مشرقی ایشیائی تنظیم کی کی سطح (ASEAN FORUM) پر حل کرنا چاہتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روس اس تنازع میں چین کی حمایت کرے گا` کیونکہ اس کے ویتنام، لائوس اور کمبوڈیا سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ یہ روس ہی تھا جس نے دس سالہ ویتنام جنگ میں امریکی جارحیت کے خلاف کھل کر اس کی حمایت کی تھی، جب کہ چین نے تو ویتنام پر حملہ بھی کردیا تھا جسے اس ریاست نے پسپا کردیا۔ جہاں تک مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا تعلق ہے تو وہ کیوں تائیوان پر چین کا ساتھ دیں، جب کہ چین اسرائیل کو تسلیم کیے بیٹھا ہے اور شام میں بشارالاسد کے ہاتھوں مقامی آبادی کے قتلِ عام کی حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح چین اور روس نے بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والی سرب حکومت کی بھرپور حمایت کی تھی جبکہ زنجیانگ اور شیشان میں چین اور روس کی جانب سے مسلمان آبادیوں پر ریاستی تشدد، ماورائے عدالت قتل روز کا معمول بن گیا ہے۔ اگر ہم مسلم امہ کے نقطہ نظر سے ان بڑی طاقتوں کے کرتوت دیکھیں تو ہمیں ان دونوں سے کراہیت ہوتی ہے۔ بھلے سے شنگھائی تنظیم برائے تعاون امریکہ/ ناٹو سے اپنا حساب چکتا کرتی رہے، مسلم امہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے، نہ ہی وہ شکار پر ان بھیڑیوں کی لڑائی میں فریق بننا چاہتی ہے۔ کیا چین اور روس سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق مسودۂ قرارداد کے خلاف ویٹو نہیں لگا سکتے تھے؟ اس کے برعکس وہ استعماری ٹولے سے مل گئے اور ان نامنصفانہ قراردادوں کو منظور کردیا۔ مسلم ریاستوں کو حقیقی ناوابستہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور باہمی تعاون سے اپنے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر غربت، جہالت، بیماری، پسماندگی کا خاتمہ کردینا چاہیے۔ اس کے لیے انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ |
No comments:
Post a Comment