اللہ کی شانِ وحدانیت کے سلسلے میں ہزاروں خاصانِ ملّت اور عارفانِ امّت نے تبلیغ و اِرشاد‘ تحریر و تقریر ‘ اور علم و عمل کے ذریعے اپنے ذاتی تجربات‘ کیفیات‘ بصیرت و بصارت کے گہرے مشاہدات کی بدولت اپنا اپنا تصورِّ الٰہ پیش کیا ہے۔ اطاعت ‘ عبادت اور قربِ الٰہی کے صفات و درجات مترشح کیے ہیں۔ ذاتِ باری کے وجود و اثبات اور اس کے اسمأ و صفات پر مدمّل اور مُفصّل بحث و تمحیص کی ہے۔ دلائل ‘ مشاہدات ‘ آیات وعلامات اور رُویائے صادقہ کے توسُّط سے خدا کے وجود کے بارے میں اپنے محسوسات اور وِجدان کی کیفیات کا تذکرہ کیا ہے۔ وحدانیتِ خُدا کے انہی نامور ترجمانوں اور مبلغوں میں حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ عالم اسلام میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے اور یاد کیے جاتے ہیں ۔ آج کا یہ کالم ان کے مواعظ و خطبات کے بنیادی موضوعات سے متعلق ہے ۔
جنابِ پیر کاملؒ کا زمانہ سلجوقی اور عباسی خلیفوں کے درمیان رسہ کشی ‘ تناو‘ باہمی اِفتراق اور کشمکش کا زمانہ تھا۔ دنیا پرستی ‘ حُبِّ جاہ اور فکرِ آخرت سے بے نیازی کا معاملہ بڑھتا اور درازتر ہوتا جا رہا تھا۔ خدا پرستی کے بجاے دنیا پرستی کا مزاج تقویت پا رہا تھا‘ اور خلفاء و اُمرأ صوبوں اور شہروں پر تسلُّط قائم کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لیے جا رہے تھے ۔ اسی افراتفری اور خانہ جنگی کے زمانے میںحضرت جیلانیؒ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی اشاعت اور تفہیم و تدریس کا جذبہ ان کے وجود کا لازمی حصّہ تھا۔ پُر اثر شخصیت‘ کلام میں کمال درجہ کی جاذبیت اور فصاحت و بلاغت نے آپ کے خطبات میں ایسی قبولیت اور تاثیر پیدا کر دی تھی کہ آپ کے تبلیغی اجتماعات میں بغداد اور مضافات کے لوگ جوق در جوق شامل ہو کر گناہوں سے توبہ ‘ نیکیوں کی طرف توجّہ کرتے تھے۔ آپ کے اخلاص سے بھر پور مواعظ دلوں کی کایا پلٹ دیتے ۔ دنیا پرست آناً فاناً خدا پرست بن جاتے۔ لذاّت و مرغوباتِ نفس کے غلام اِطاعت و عبادت کو اپنا طریقۂ زندگی بنا دیتے۔ نفس اور مالِ دنیا کے صنم خانوں پر حضرت پیرِ کاملؒ حکمت و موعظت کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے ان پر غالب آجاتے اور اس طرح آپ دنیا داری اور سرمایہ پرستی کے پجاریوں کی دستگیری فرما کر انہیں دین داری اور خدا ترسی کے صفات سے بہرہ ور کرتے تھے۔ اقبال نے ایسے ہی مردانِ خدا کا نقشہ لفظوں کے سانچے میں یوں ڈھال دیا ہے ؎
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ‘ کار کُشا‘ کار ساز
اپنے ایک دل نشین خطبے میں سامعین کو وحدانیت خدا کا نظریہ سمجھاتے ہوئے پیر کاملؒ فرماتے ہیں ’’اس پر نظر رکھو ‘ جو تم پر نظر رکھتا ہے‘ اس کے سامنے رہو‘ جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔ اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے‘ اس کی بات مانو جو تم کو بلاتا ہے۔ اپنا ہاتھ اسے دو ‘ جو تم کو گرنے سے سنبھال لے گا اور تم کو جہل کی تاریکیوں سے نکال لے گا اور ہلاکتوں سے بچائے گا۔ کب تک عادت؟ کب تک خلق؟ کب تک خواہش؟ کب تک رعونت؟ کب تک دنیا؟ کب تک آخرت کب تک ماسوائے حق؟ کہاں چلے تم اس خدا کو چھوڑ کر جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور بنانے والا ہے ۔ اوّل ہے ‘ آخر ہے ‘ظاہر ہے باطن ہے۔ دلوں کی محبت ‘ روحوں کا اطمینان‘ گرانیوں سےسبکدوشی‘ بخشش و احسان ‘ ان کا سب کا رجوع اسی کی طرف سے اور اسی کی طرف سے اس کا صدور ہے‘‘۔
جناب سید عبدالقادر جیلانی ؒ کی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔ بغداد جو علمی اعتبار سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا‘ یہاں سے توحیدِ خالص کی آواز کا بلند ہونا اپنے اندر ایک زبردست اہمیت رکھتا تھا‘ چنانچہ تدریس ‘ اِفتا ‘ تربیت ‘ تصنیف و تالیف اور عوام الناس کی اصلاح اور عقائد میں استحکام کے لیے آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بحیثیت ایک کامیاب مُبلّغ اور مُصلح کے آپ ؒ اپنے خطبات میں ان لوگوں کی دلجوئی کرتے اور ان لوگوں کو ہمت اور حوصلہ دیتے تھے‘ جو دنیوی اعتبار سے کمزور ہوتے تھے اور جنہیں مادی زندگی کی خوشیوں سے محرومی کا احساس ہوتا تھا۔ احساسِ محرومیت کے مارے ہوئے ایسے لوگوں سے ایک بار خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
’’ اے خالی ہاتھ فقیرا ‘ اے وہ جس سے تمام دنیا برگشتہ ہے ۔ اے گمنام ‘ اے بھوکے پیاسے ،ننگے ،جگر جھلسے ہوئے ۔ اے مسجد و خرابات سے نکالے ہوئے اور اے ہر در سے پھٹکارے ہوئے ۔ یہ مت کہہ خدا نے مجھے محتاج کر دیا ۔ دنیا کو مجھ سے پھیر دیا۔ مجھے پامال کر دیا۔ چھوڑ دیا۔ مجھے پریشان کر دیا اس بارہ میں خداوند تعالیٰ تیرے حکم سے فارغ ہے۔ وہ تیری ضروریات سے باخبر ہے۔ اس نے آخرت میں تجھ کو مقام بخشا ہے‘ اور اس میں تجھ کو مالک بنایا ہے ‘‘ اس قسم کے جملوں اور نصیحتوں سے وہ دل شکستہ لوگوں کی مدد کرتے تھے اور انہیں دنیوی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فطری اور نفسیاتی گھٹن سے نجات دلاتے تھے۔
جناب سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے زمانے میں تصوف ‘ باطنیت‘ طریقت اور سریّت کے نام پر ایسی تحریریں ‘ تقریریں ‘ خطبات اور مواعظ لوگوں میں عام ہوتے جا رہے تھے‘ جن کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ارشادات سے بہت کم ہوتا تھا اور اس تصوف سے روحِ دین کو خطرہ لاحق ہو رہا تھا تو آپ نے تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب فراہم کیا اور اسے اصطلاحی پیچیدگیوں سے آزاد کر دیا۔ چالیس سال کے اپنے تبلیغی مشن میں انہوں نے لوگوں پر واضح کر دیا کہ تصوف و طریقت پر اہلِ خلوت کی اجارہ داری نہیں ۔ جناب شیخ عبدالقادر ؒ جیلانی تصوف میں ’’پُر اسرارر مزیت‘‘ کے خلاف تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صوفیا و مشائخ کے یہاں کچھ ایسے علوم واسرارہیں ‘ جن تک علمأ کی رسائی نہیں ہے۔ جناب شیخ کے زمانے میں تصوف پر غیر اسلامی نظریات کا اثر پڑنا شروع ہو چکا تھا۔ اس میں یونانی، بودھ ‘ ایرانی اور دیگر مشر کانہ عقائد کے اثرات شامل ہو چکے تھے‘ چنانچہ یہ حضرت پیر کاملؒ کی عظیم تبلیغی خدمات اور اسلام کے ساتھ سچی محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ نے تمام غیر اسلامی تصورات کو رد کر کے شریعت کو طریقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ منصور حلاّج کے بارے میں آپؒ نے کہا تھا ’’ منصورِ حلاّج کے دور میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا‘ جو اس کا ہاتھ پکڑتا اور اسے اس کی لغزش سے باز رکھتا ۔ اگر میں اس کے زمانے میں ہوتا‘ تو منصور کو اس صورت حال سے بچاتا جو اس نے اختیار کر لی تھی‘‘۔
حضرت شیخ کاملؒ جہاں تصوف و طریقت کو شریعت کے آداب سے جوڑتے رہے، وہیں آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بڑی بے باکی سے انجام دیتے رہے۔ اپنے دور کے پانچ عباسی خلفأ کو آپ نے ہمیشہ شاہراہِ شریعت پر گامزن رہنے ‘ عدل و انصاف کا طریقہ اپنانے اور عوام کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ آپ ان علمأ سے بالکل مختلف تھے جو خلفأ و امرأ کی خوشامد میں اپنی عافیت تصور کرتے تھے۔ آپ کے خطبات میں جو جملے بادشاہوں کے بارے میں ہوا کرتے تھے وہ جملے سن کر خلفأ پر لرزہ طاری ہوتا تھا‘ وہ زار و قطار روتے اور تائب ہو جاتے تھے‘ بادشاہوں اور خلیفوں کی چاپلوسی کرنے والے عالموں سے ایک بار مخاطب ہو کر یہ تاریخی کلمات آپ کی زبان سے نکلے ’’اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! تم کو ان سے کیا نسبت ‘ اے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنو! اے بندگانِ خدا کے ڈاکوؤ ! تم کھلے ظلم اور نفاق میں مبتلا ہو۔ یہ نفاق کب تک رہے گا۔ اے عالمو اور اے زاہدو! شاہان و سلاطین کے لیے کب تک منافق بنے رہو گے کہ ان سے دنیا کا زرومال اور اس کی شہوات اور لذّات لیتے رہو‘‘۔
حضرت پیرؒ کے بارے میں ان کی خدا ترسی ‘ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر مندی کے بے شمار واقعات تاریخ کی کتابوں میں وارد ہو چکے ہیں ۔ چنانچہ سلطانِ سنجرؔ نے آپکی مقبولیت ‘ شہرت اور عوام میں عزت کو زیر نظر رکھتے ہوئے نیمروزؔ کا علاقہ آپ ؒ کی جاگیر میں رکھنے کے لیے ایک خط آپ کے نام روانہ کیا۔ ایک طرف یہ خط آپ کے تئیں عزت و احترام کی عکاسی کر رہا تھا اور دوسری طرف سلطان کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ جنابِ پیرؒ زیرِ بارِ احسان بھی آجائیں گے۔ سلطان سنجر کو شایدیہ بات معلوم نہیں تھی کہ درس گاہِ نبوت و ولایت کے اس بطلِ جلیل کا ردِّ عمل کیا ہو گا؟ آپ ؒ نے خط کے اوپر یہ دو شعر تحریر فرمائے جو رہتی دنیا تک ایمان و یقین ‘ اور عرفان و سلوک کے رہرؤں کے لیے سنگِ راہ ثابت ہوںگے ؎
چوں چترِ سنجری رخِ بختم سیاہ باد
در دل اگر بود ہوسِ ملکِ سنجرم
تایافت جانِ من خبر از حالِ نیم شب
صد ملکِ نیمروزؔ بہ یک جَو نہ می خرم
ترجمہ:۔ میری قسمت کا منہ سلطانِ سنجر کی سیاہ چھتری کے مانند کا لاہو‘ اگر میرے دل میں سلطانِ سنجر کے ملک کی لالچ پیدا ہو جائے ۔ جب سے میری جان کو نصف شب کی ایمانی کیفیت کا حال نصیب ہوا‘ میں نیمروز جیسی ایک سو سلطنتیں جَو کے ایک دانے کے عوض بیچنے کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘ یہ منظر دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے ؎
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوے حیدرؓ بھی عطا کر
اقبال غیر اسلامی تصوف کے شدید مخالف تھے۔ وہ تصوف کو اسلام کی سر زمین میں’’ ایک اجنبی پودا ‘‘ تصور کرتے تھے ‘ اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے عملی‘ اور کار گاہِ حیات سے کنارہ کشی کا جو سلسلہ چل پڑا ‘ اس سے ملّتِ مسلمہ کے اندر ہزاروں مسائل پیدا ہو گئے لیکن حضرتِ پیر کاملؒ کے روحانی فکر سلسلۂ قادریہ کی بدولت دین و دنیا کا جو توازن پیدا ہوتا ہے اور اعمال میں جو طہارت و طراوت آجاتی ہے‘ اس کے اقبال بڑے معترف تھے۔ آج کرۂ ارض پر حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ کی روحانی فکر‘ ان کے کشف و کرامات‘ ان کی تعلیمات اور خدمات کے کروڑوں ماننے والے موجود ہیں ۔ ان سب پر حضرت پیر پیرانؒ کا یہ قرض ہے کہ جس مقصد کے لیے حضرت پیرؒ نے اپنی زندگی کی تمام سرگرمی‘ روشنی اور توانائی صرف کر دی ‘ اس مقصد کے ساتھ ان کے ماننے والوں مریدوں اور معتقدوں کا کیا روّیہ ہے؟ کیا وہ قرض ہم اپنی گردنوں سے اتار رہے ہیں ؟ کیا روحانی کیفیتوں اور ایمان کی حلاوتوں سے ہم اپنے کا م و دہن کو آشنا کر رہے ہیں ‘ جن کا سلسلہ قطب ربانی سے متعلق ہے۔ کیا ان مجالس اور مواعظ کا حقیقی اثر ہماری زندگیوں میں نمایاں ہے‘ جن مجالس میں بیٹھنے والے تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کیا کرتے تھے؟ جھوٹ بددیانتی ‘ فریب‘ بدعت‘ اور ریا کاری سے کوسوں دور بھاگتے تھے اور ابدی نجات کی راہ پر گامزن ہوا کرتے تھے۔ حضرت پیرؒ کی پاکیزہ تعلیمات کا غلام اور پیرو کار بننا دو جہانوں کی کامیابی کا پیش خیمہ ہے ؎
غلامِ شاہِ جیلانؒ ہوں اسی پر ناز کرتا ہوں
نہ کیوں ہو میرے سر پر دو جہاں میں تاجِ سُلطان
رابطہ :- اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی یونیورسٹی آف کشمیر
No comments:
Post a Comment