شانِ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم قاسم عامر بشیر
جہاں تک رحمت و شفقت کا سوال ہے، ایک شفقت تو وہ ہے جو والدین کو اولاد سے، استاد کو شاگرد سے، بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن یہ شفقت مشروط ہوتی ہے،اطاعت اور وفاداری کے ساتھ ۔اگر اولاد باغی ہو جائے تو والدین کی شفقت باقی نہیں رہتی، اگرشاگرد نافرمان ہو جائے تو استاد کی شفقت ختم ہو جاتی ہے ۔اگر چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بات نہ مانے تو بڑا بھائی اسے محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا مگر حضور صلعم کی رحمت و شفقت عام ہے، دوستوں کے لئے بھی اور دشمنوں کے لئے بھی، اپنوں کے لئے بھی اور پرائے لوگوں کے لئے بھی، ماننے والوں کے لئے بھی اور انکار کرنے والوں کے لئے بھی، راستہ میں گندڈالنے والوں کے لئے بھی اور راہوں میں کانٹے بچھانے والوں کے لئے بھی، جان قربان کرنے والوں کے لئے بھی اور جانی دشمنوں کے لئے بھی۔حضور صلعم کی پوری پاک زندگی بے مثال محبت ورحمت ،غیر مشروط مودت وشفقت کا مظہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترسٹھ سالہ حیاتِ مبارکہ میں انتقام نام کی کوئی چیز نہیں ملتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمتہ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ؎
اندھیرا چھٹ گیا کفر و ضلالت کی کمر توڑی
سراپا نور بن کر جب حبیب کبریا ؐآئے
انسان میں ہر دور میںدشمن میں بدلہ لینے کا جذبہ، انتقام لینے کی مکروہ خواہش ،دشمن کو نیچا دکھانے اور اسے برباد کرنے کی ناپاک ذہنیت اور حریف کو ذلیل و رسوا کرنے کی تمنا ہر دور اور ہر زمانے میں موجود رہی ہے، چھوٹا ہویا بڑا، امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر،مفلس ہو یا مالدار سبھی اس مصیبت میں مبتلا رہے ہیں۔دنیا والوں نے ہر چیز کو ممکن العمل سمجھا کہ دشمن کو معاف کر دینا، حریف کے ساتھ عفو و درگزر کا سلوک کرنا اور مخالف کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ قطعاً محال سمجھا ہے۔
رسول اکرمؐ کی بعثت سے پہلے انتقامی کارروائیاں اپنے شباب پر تھیں، آتش ِانتقام کی ہلاکت آفرینیوں سے نہ اپنے محفوظ تھے نہ پرائے، نہ چھوٹے نہ بڑے بوڑھے نہ بچے، نہ مرد نہ عورتیں،وہاں نہ انسانی جان کی کوئی قدروقیمت تھی، نہ انسانی خون کا احترام تھا، انتقام میں دشمن کی جان، اس کی عزت، اس کی آبرو اور اس کی ناموس بہت ہی بے حقیقت چیز اور دلچسپی اور دل جمعی کے لئے خوبصورت کھلونے تھے۔
اس زمانے کو دورِجاہلیت کہہ کر چھوڑ دیجئے، سیرتِ طیبہ صلعم کو دیکھئے جس کے دم سے ہر چیز ترقی کے آسمان پر پہنچی ،روحانی کمالات، اخلاقی برتری،سماجی انصاف ،معاشی مساوات اور تمام مفیدعلوم و فنون حدکمال تک آگئے ۔آج کل تہذیب و شائستگی، مساوات اور جمہوریت کے نعروں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے، تمدن پر گھمنڈ ہے، غرض انسانی زندگی ہر شعبہ میں عروج کے جلوے نظر آتے ہیں، مگر کیا آتش انتقام میں کوئی کمی آئی؟عفو و درگزر میں کوئی خوبی اور بھلائی نظر آئی، رحمت و شفقت کے محاسن کا کچھ احساس ہوا؟ حریف سے انتقام لینے کی خواہش کو ٹھکرا کر اسے پیار و محبت کی ٓنکھوں میں جگہ دینے کا جذبہ پیدا ہوا؟یہ ساری صفات اور بابرکت عظمتیں انسانی تاریخ میں صرف اور صرف رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہیں ،مخصوص تھیں اور آگے بھی رہیں گی۔
|
Search This Blog
Friday 8 June 2012
شانِ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment