ہجرتِ اسلامی جب مدینہ منورہ کی قسمت چمک اُٹھی سیّدعبدالرشید نقشبندی
میدانِ عرفات میں واقع جبل رحمہ پر جو تاریخی خطبہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ دُرفشاں سے مرحمت فرمایا ،اُس کا من وعن ترجمہ پیش خدمت ہے:
لوگو!میری باتیں آج غور سے سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ آج کے بعد میں کبھی دوبارہ تمہارے ساتھ یہاں ہوں گا ۔لہٰذا میری باتیں ذرا غور سے سنو اور اُن تک پہنچائوں جو آج کسی وجہ سے یہاں جمع نہیں ۔
زمانۂ جاہلیت کے تمام خون بہا معاف کئے جاتے ہیں اور سب سے پہلا خون ربیعہ بن حارث بن عبداللہ کا معاف کیا جاتاہے ۔
اے لوگو!اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے ۔ تم مٹی سے پیدا کئے گئے اور تم میں سے بزرگ وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہو اور واقعی اللہ سب حالات سے باخبر ہے اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہاں صرف تقویٰ اور نیکی کی بنیادپر۔
اے لوگو ! تمہارے مال اور تمہاری جانیں ایک دوسرے پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح آ ج کا دن اور مہینہ، یہاں تک کہ تم اللہ سے ملو ۔
کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کیلئے جائز نہیں اِلایہ کہ باہمی رضامندی سے لے ۔ لہٰذا اپنی ذات اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم نہ کرنا ۔
سود کے تمام معاملات آج کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں ۔تمہارے لئے صرف تمہارا مال ہے (نہ تم بے انصافی سہنا نہ تم بے انصافی کرنا) خدا نے سود کی حرمت کا فیصلہ کرلیاہے ۔ عباس بن عبدالمطلب کے تمام سودی لین دین آج کالعدم قرار دئے جاتے ہیں ۔
لوگو!تمہاری عورتوں کے تمہارے اوپر حقوق ہیں اور ان کے اوپرتمہارے حقوق ہیں ۔ عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک اور نیک برتائو کرنا کیونکہ وہ تمہاری رفیق او رتمہاری زیردست (معاون ومددگار) ہیں ۔
لوگو!شیطان اس بات سے قطعی طور مایوس ہوچکا ہے کہ اس سرزمین پر دوبارہ اس کی عبادت کی جائے گی لیکن وہ تمہیں تمہارے اعمال سے غافل کرنے کے لئے اب بھی فکر مندہے ۔ اپنے دین کی حفاظت کے لئے شیطان سے خبردار رہنا۔
امانت دار کی امانتیں ان کو واپس کرنا تمہارے لئے لازم ہے ۔ یاد رکھو تم بے شک اپنے رب سے ملوگے او ربے شک وہ تمہارے اعمال کی جانچ کرگا۔ اس لئے میں تم کو باخبر کرتاہوں ۔
اللہ نے خود ہی وقت کا تعین کیا ہے جب سے اس نے زمین وآسمان پیداکئے ہیں ۔ اس کے نوشتے میں مہینوں کی تعداد بارہ مقرر ہے۔اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے او ران میں چار حرام مہینے ہیں یعنی حرمت والے ! رجب ، ذیعقدہ، ذی الحجہ اور محرم۔
لوگو!میری باتوں پر ذرا غور کرو جو میں نے تم تک پہنچائی ہیں ۔ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب اور اسوۂ حسنہ چھوڑ رہاہوں ۔ اگر تم اس کی پیروی کروگے ، تم کبھی گمراہ نہیں ہوجائو گے ۔
لوگو !میری باتوں کو غور سے یاد رکھو ۔ ہرایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے او رتمام مسلمان ایک برادری ہیں اس لئے ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو ۔
سنو! تم میں سے جو یہاں موجود ہیں وہ میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچاے جو یہاں نہیں ہیں ۔ ممکن ہے جو یہاں موجود ہیں وہ میرے پیغام کو ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور سمجھ لیں جو یہاں موجود ہیں ۔
کیا میں نے یہ پیغام تم تک پہنچایا ؟ گواہ رہو ۔
ا ے اللہ! تو بھی گواہ رہ۔ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچایا ۔
غور فرمائیے !آقائے دوجہاں صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں آٹھ مرتبہ لفظ ’’لوگو‘‘ استعمال فرمایا نہ کہ لفظ ’مسلمان‘ یالفظ ایمان والو یا مومنو۔ آپؐ کا پیغام تب بھی اور آج بھی پوری بنی نوع انسان کے لئے نافذالعمل ہے۔ بلاتمیز مذہب وملت یا سیاسی وابستگی اور جغرافیائی حد بندی۔ یکسانیت واخوت کے اس عظیم فلسفے میں عدل وانصاف جھلکتاہے ۔
اسلام میں انسان کے بنیادی حقوق متعین ہیں ۔ ان حقوق کو تسلیم کیا گیا ۔ ان کی تشہیر کی گئی اور چودہ سوبرس تک ان پر عمل پیرا جاری رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم الشان خطبے سے انسان کے بنیادی حقو ق کا اسلامی چارٹر جھلکتاہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپؐ اہل مدینہ کے درمیان معاہدہ نہ ہو ا ہوتا تو ہجرت نبوی ؐممکن نہ تھی ۔ اپنے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ مدینہ منورہ میں اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلے جائیں اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے نئے بھائی مہیا فرمائے ہیں اور امن والا علاقہ عطا فرمایاہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسلسل مدینہ روانہ ہونے لگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لئے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے انتظار میں مکہ مکرمہ میں ہی مقیم رہے ۔
جب قریش نے محسوس کیا کہ مسلمان آہستہ آہستہ جارہے ہیں تو انہیں یقین ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو کوئی محفوظ جگہ مل گئی ہے ۔ انہیں خطرہ محسوس ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکل جائیں گے لہٰذا وہ اس کے بارے میں باہمی مشورے کے لئے دارالندوہ میں اکٹھے ہوئے ۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’ہم خود ہی انہیں نکال دیتے ہیں ۔ کچھ کہنے لگے نہیں ۔ ہم انہیں قید کردیتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ۔
ابوجہل ملعون نے کہا ۔واللہ میں تمہیں ایسا حتمی مشورہ دیتاہوں کہ تم اپنی باتیں بھول جائو گے ۔ کہنے لگا ہم ہرقبیلے سے ایک ایک نامور ، طاقتور، بھرپورنوجوان لیں اور اسے تیز ترین تلواریں مہیا کریں ۔ پھر وہ سب مل کر آ پ ؐپر حملہ کردیں۔اگر آپ ؐمعاذ اللہ وصل دائمی گئے تو قتل کی ذمے داری تمام قبائل پر پڑے گی او رمیں نہیں سمجھتا کہ قبیلہ بنو ہاشم سب قبائلوں سے لڑائی مول سکے گا ۔ لازماً وہ خون بہا پر راضی ہوجائیں گے ۔ اس طرح ہم آپؐ سے نجات پالیں گے ۔ چنانچہ اسی رائے پر اتفاق ہو گیا۔
اِدھر سیدنا جبرئیل علیہ السلام فوراً آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور آپؐ کو ان دشمنانہ منصوبوں سے مطلع کیا۔ فرمایا ’’آپؐ رات اپنے گھر میں آرام نہ فرمائیں ۔اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ صلعم کو ہجرت کا حکم دیا ۔ اُس رات آپؐ اپنے گھر میں محواستراحت نہ ہوئے بلکہ آپؐ نے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کو بلایا اور حکم دیا کہ میری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جائو ‘‘۔
حضرت علیؓنے ایسا ہی کیا ۔اسی اثناء میں آپؐ باہرنکل آئے ۔ وہ لوگ دروازے پر کھڑے تھے ۔ وہ ایسے اندھے ہوئے کہ آپؐ کو دیکھ نہ سکے اور آپ صلعم سورۂ یٰسین کی ابتدائی نو آیات پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ اُس وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپؐ کے ساتھ مکہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔صدیق اکبرؓنے بھی ہجرت کی خواہش ظاہر کی تھی مگر آپؐ نے فرمایا جلدی نہ کرو اُمید ہے اللہ تعالیٰ مجھے کوئی ساتھی عطا فرمائیں گے۔ ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ وہ آپ ہی ہوں گے ۔
اس لئے انہوں نے دواونٹنیاں خرید کر گھر میں ان کوچارہ وغیرہ ڈالنا شروع کیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز بلاناغہ دن میں ایک دفعہ ضرور سیّدنا ابوبکرؓ کے گھر تشریف لایا کرتے تھے ۔ کبھی صبح کے وقت اور کبھی شام کے وقت لیکن جس دن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہجرت کا حکم دیا آپؐ ابوبکر صدیقؓ کے گھرمیں دوپہر کے وقت تشریف لائے ۔حضرت ابوبکر ؓ نے آپؐ کو دیکھا تو سمجھ گئے کوئی اہم معاملہ ہے ۔
جب آپؐ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے آپ ؐکے لئے چارپائی خالی کردی۔آپؐ تشریف فرماہوئے تو فرمایا ’’سب کو کمرے سے نکال دو ‘‘۔
سیدناابو بکرؓعرض پرداز ہوئے،اے اللہ کے رسولؐ ! یہاں صرف میری دو بیٹیاں (عائشہ اور اسما ؓ)ہی ہیں ۔ آپؐ فرمائیں کیا بات ہے ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے ہجرت کا حکم دیاہے ۔
حضرت ابوبکر ؓنے گزارش کی یا رسول اللہ ؐ آپ کے ساتھ جانے کی آرزو ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا ہاں تم میرے ساتھ جائو گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے ساتھی سمیت مکہ مکرمہ سے نکل کر غارِ ثورکی طر ف چل پڑے ۔ (ثور مکہ مکرمہ کی نشیبی جانب جنوب میں ایک پہاڑ ہے) اور غار میں داخل ہوگئے ۔
جب مدینہ والوں کو رسول اللہ صلعم کے سفر کا پتہ چلا تو انہوں نے آپ صلعم کی تشریف آوری کا انتظار شروع کردیا ۔ وہ ہر روز صبح کی نماز کے بعد مدینہ منورہ سے باہرنکل کر آپؐ کا انتظار کرتے ۔کڑی دھوپ میں وہ سائے کی پناہ لیتے ۔ سب سے پہلے آپ صلعم کو ایک یہودی نے دیکھا۔ چونکہ اس کو علم تھاکہ اہل مدینہ آپؐ کی تشریف آوری کی شدت سے منتظر ہیں ، اس لئے اس نے بلندآواز میں اعلان کیا : اے بنو قبیلہ !(انصار کا سابقہ نام) تمہاری قسمت جاگ اُٹھی ۔ جن کا انتظار تھا وہ تشرف لے آئے ۔ انصار بھاگتے بھاگتے آئے تو رسول اللہ صلعم ایک کھجور کے درخت کے سائے تلے تشریف فرما تھے ۔آپ ؐ کے ساتھ سیدنا ابوبکر ؓ بھی آپؐ کے تقریباً ہم رکاب تھے۔ اکثرلوگوں نے اس سے قبل آپؐ کو نہیں دیکھا تھا ، اس لئے ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ دو میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے ہیں ۔ لوگوں کا زبردست رَش تھا ۔اتفاقاً رسول اللہ صلعم کے سرمبارک سے سایہ ہٹ گیا ۔ابوبکرؓفوراً اُٹھے اوراپنی چادر سے آپ صلعم کو سایہ کرنے لگے،تب لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ چلا ۔
یہ پیر کا ردن تھا ۔تاریخ 12ربیع الاول تھی اور آپؐ کی بعثت کا تیرہواں سال تھا ۔ آپؐ قبا میں چودہ دن ٹھہرے جیساکہ صحیح بخاری میں سیدنا انسؓ سے روایت ہے ۔ ان ہی دنوں آپ صلعم نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی ۔ یہ مسجد آج جدید فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قبا سے مدینہ منورہ تشریف لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے ننھیال ’’بنو نجار‘‘ کو پیغام بھیجا ۔ وہ صہیار سجاکر آئے تو رسول اللہ صلعم سوار ہو کر ان کے جَلو میں تشریف لے گئے۔ سیّدنا ابوبکرؓ آپؐ کے پیچھے سوار تھے ۔ بنو نجار اور مسلمانوں کاایک ہجوم آپؐ کے اردگرد تھا۔ کوئی سوار ، کوئی پیدل ،کوئی دائیں اور کوئی بائیں ، کوئی پیچھے ۔ جب بھی آپ صلعم کسی کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے تو یہ گھروالے آپ صلعم سے اُترنے کی درخواست کرتے مگر آپ نے فرمایا :-’’میری اونٹنی کو چلنے دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رُکے گی‘‘ ۔ رسول اللہ صلعم کی اونٹنی ’’قصوا‘‘ چلتی رہی ۔ جب یہ بنومالک بن نجار کے محلے میں پہنچی ،وہاں رکی ۔یہ جگہ سیّدناابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے تھی ۔
قافلہ رات کے وقت مدینہ منورہ پہنچا۔ ہر شخص کو شش کررہاتھا کہ رسول اللہ صلعم میرے مہان بنیں۔آپؐ نے فرمایا ’’آج میں اپنے دادامحترم عبدالمطلب کے ننھیال بنونجار کا مہمان بنوں گا ۔یہ عزت وسعادت انہیں حاصل ہوگی ۔ بھاری ہجوم کی وجہ سے مرد ، عورتیں چھتوں پر بھی چڑھے ہوئے تھے ۔وہ نعرہ زن تھے ۔
یا محمدؐ ، یا رسول اللہ ؐ، یا محمد ، یارسو ل اللہ ؐ
سیّدنا انسؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلعم اور سیدنا ابوبکرؓ کی مدینہ میں تشریف آوری کے دن سے بڑھ کر خوبصورت اور بارونق کوئی دن نہیں دیکھا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کا حکم دیا ۔
آپ صلعم نے بنونجار کے سرداروں کو بلا بھیجا اور فرمایا:
مجھ سے اپنے اس احاطے کا سودا کرلو ۔ وہ کہنے لگے ۔ اللہ کی قسم ، ہم اس کی کوئی قیمت آپؐ سے نہیں لیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اجر حاصل کریں گے ۔ مسجد والی جگہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی جو سیدنا اسعد بن زرراہؓ کے زیرپرورش تھے ۔یتیم بچوں کا نام تھا سہل اور سہیل ۔ اس جگہ جب اونٹنی بیٹھی تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا :انشاء اللہ یہ جگہ ہمارا ٹھکانہ ہوگی۔ آپ صلعم نے ان بچوں کو بلایا اور ان سے کھلیان کاسودا کیا تاکہ یہ جگہ مسجد بن سکے ۔ دونوں بچے کہتے نہیں ہم یہ جگہ آپ کو بطور عطیہ دیتے ہیں ۔
رسول اللہ صلعم کے دور مسعود میں مسجد نبوی ؐکچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں سے تیار کی گئی تھی اور اس کے ستون کھجورکے تنے تھے ۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو مسجد نبویؐ میں پہلی دفعہ توسیع کی گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی ۔ آپؐ نے چوڑائی میں چالیس ہاتھ اور لمبائی میں تیس ہاتھ اضافہ فرمایا ۔ اس طرح مسجد مربع کی صورت اختیار کرگئی ۔اس کا کل رقبہ 2500 مربع میٹر ہوگیا ۔البتہ قبلے کی طرح مسجد اپنی پہلی حد تک ہی رہی ۔ اس کی بنیاد پتھروں کی تھی اور دیواریں کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھیں ۔
بعدازاں سیدنا ابوبکرؓ ،سیدناعمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے ادوار آئے ۔
Courtesy: Kashmir Uzma
|
Search This Blog
Friday 22 June 2012
ہجرتِ اسلامی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment