Search This Blog

Friday 22 June 2012

قرآن میں ٹیلی ٹرانسپورٹیشن اور سائنسی تحقیق

قرآن میں ٹیلی ٹرانسپورٹیشن اور سائنسی تحقیق


وصی احمد نعمانی 
قرآن کریم اللہ کا کام ہے جو تمام زمانوں کے لئے ہے۔اس سائنس و ٹکنالوجی کے دور میں بے شمار سوالات اٹھتے ہیں یا اٹھائے جاتے ہیں جو سائنسی تجزیہ اور تحقیقات پر مبنی ہوتے ہیں اور ان سب کا جواب قرآن کریم کی آیات مبارکہ کے تناظر میں تلاشا جاتا ہے۔سائنس کے بے شمار تحقیق شدہ اور ثابت شدہ مضامین میں سے ایک ہے ’’ ٹیلی پورٹیشن‘‘ سائنسی تجزیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وزنی سے وزنی چیز بشمول انسان کو لاکھوں میل کی دوری پر اس کی اپنی تمام خصوصیت اور لوازمات کے ساتھ ’’ ٹرانسپورٹ‘‘ کیا جا سکتاہے۔مثلاً انسان جو سائنس و ٹکنالوجی دنیا کے کسی بھی کونہ میں رہتا ہے اسے اس کے پورے جسم کے ساتھ دنیا کے دوسرے کونہ میں بغیر کسی تاخیر کے پلک جھپکتے بھیج دیا جاسکتا ہے۔ سائنس نے اس نظریہ ’’ ٹیلی ٹرانسپورٹیشن‘‘ کو 1993 میں ثابت کیا ہے جبکہ بالکل یہی نظریہ بلکہ اس سے زیادہ ٹھوس اور ثابت شدہ نظریہ کا حوالہ قرآن کریم میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل پیش کردیا گیا ہے۔سائنسی تحقیق اور قرآن کریم کے حوالہ کو آسانی سے جاننے کے لئے ہمیں ’’ٹیلی پورٹیشن‘‘ اور ’’ انسانی ٹیلی پورٹیشن‘‘ جیسے ٹکنیکی ٹرمز کو سمجھنا ہوگا ۔ٹیلی پورٹیشن کیا ہے۔
’’ ٹیلی ٹرانسپورٹیشن‘‘ سائنسی تجزیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وزنی سے وزنی چیز بشمول انسان کو لاکھوں میل کی دوری پر اس کی اپنی تمام خصوصیت اور لوازمات کے ساتھ ’’ ٹرانسپورٹ‘‘ کیا جا سکتاہے۔مثلاً انسان جو دنیا کے کسی بھی کونہ میں رہتا ہے اسے اس کے پورے جسم کے ساتھ دنیا کے دوسرے کونہ میں بغیر کسی تاخیر کے پلک جھپکتے بھیج دیا جاسکتا ہے۔ سائنس نے اس نظریہ ’’ ٹیلی پورٹیشن‘‘ کو 1993 میں ثابت کیا ہے جبکہ بالکل یہی نظریہ بلکہ اس سے زیادہ ٹھوس اور ثابت شدہ نظریہ کا حوالہ قرآن کریم میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل پیش کردیا گیا ہے۔
ٹیلی پورٹیشن: سائنس نے بے پناہ ترقی کی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں معجزانہ کامیابی حاصل کی ہے۔ دنیا کی ساری دور ی کو سمیٹ کر اسے گائوں کی طرح بنا دیا گیا ہے۔موبائل اور مواصلات کی کامیابی نے تو دوری کے تصور کو ہی ختم کر ڈالا ہے۔ ٹیلی پورٹیشن کے ذریعہ سفر اور سیاحت کی دوری کا تصور بدل کر صرف ایک لمحہ کی دوری میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس نئی ٹیکنک ’’ ٹیلی پورٹیشن‘‘ کے ذریعہ ہندوستان سے امریکہ پلک جھپکتے جایا جاسکتا ہے۔ یعنی اب نہ تو دوری کی کوئی حیثیت ہے اور نہ کسی وقت کی مدت درکار ہے۔بس سوچئے اور مسافت طے ہوجائے گی ۔ سائنس دانوں کے دعویٰ کے مطابق ابتدائی طور پر فوٹان پر تجربات کیے ہیں جو کامیابی سے ہمکنا ر ہوئے ہیں۔
ٹیلی پورٹیشن سے مراد کسی بھی مادی چیز کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر اس طرح منتقل کرنا جس کے ذریعہ یہ چیز پہلے مقام سے غائب ہوجاتی ہے اور دوسرے مقام پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ ۔ٹیلی پورٹیشن کے ذریعہ منتقل کی جانے والی چیز کی صحیح ترین ایٹمی معلومات ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کی جاتی ہیں، جہاں یہ یکجا ہوکر ہو بہو وہی چیز تشکیل دے دیتی ہے جو روانہ کی گئی مقام پر فنا ہوچکی تھی۔ اس طرح سفر کے دوران فضا اور وقت دونوں ہی آڑے نہیں آتے ہیں ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کو پلک جھپکتے ہی کسی بھی مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔مسافت چاہے ایک فٹ کی ہو یا میلوں کی ،مسافر کو کوئی فاصلہ نہیں طے کرنا پڑے گا۔
1993 کے پہلے ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ صرف ایک تصوراتی مرحلہ پر تھا مگر ماہر طبیعات ’’ چارلس بینٹ‘‘ نے اس امر کا اعلان امریکی فیزیکل سوسائٹی کے سالانہ اجلاس میں کیا اور پھر 29 مارچ1993 کو فزیکل ریو یو لیٹرز میں چار لس بینٹ کے اعلان پر ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس کی بنیاد پر سائنسدانوں نے کافی عرق ریزی اور جد وجہد کے بعد اپنی تحقیق کی بنیاد پر یہ بات ثابت کرتے میں کامیابی حاصل کی کہ ’’ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ‘‘ ممکن ہے اور اسی بنیاد پر ٹیلی پورٹیشن کو کامیاب ثابت کیا ہے۔ اس کے بعد 1998 میں کیلفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی‘‘ کے علم طبیعات کے ماہرین نے یوروپی ماہرین کے ساتھ مل کر کئی تجربات کیے اور فوٹائنز کو کامیابی کے سات ٹیلی پورٹیشن کے عمل سے گزارا۔یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ فوٹان روشنی کا انتہائی چھوٹا ذرہ ہے جن میں توانائی موجود ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کی اس ٹیم نے فوٹان کی ایٹمی ساخت کا کامیابی سے مطالعہ کیا۔ اس کی ساخت کے بارے میں تمام معلومات حاصل کی۔ اسے ایک میٹر کی دوری تک تار کے ذریعہ روانہ کیا۔ فوٹان کی ایک نقل پیدا ہوگئی مگر اب اصل فوٹان کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ بالکل اس کی نقل کا فوٹان پیدا ہوگیا ۔ اس طرح ایک مادی چیز کو بغیر اس کے ذریعہ سفر کئے یا دوری طے کئے دوسری جگہ اس کی اصل حالت میں منتقل کردیا گیا۔ اسی مذکورہ بالا اصول کی بنیاد پر انسان کا ٹیلی پورٹیشن بھی ممکن ہوگیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹیلی پورٹیشن کے لئے ایک اہم مشین کی تخلیق کی جاتی ہے مگر اس میں ابھی وقت درکار ہے ۔جب یہ مشین وجود میں لے آئی جائے گی تو ٹیلی پورٹیشن کے عمل میں انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پلک جھپکتے بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح انسان کے جسم کا ایک سو کھرب خلیہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر اس انداز میں منتقل ہوسکیں گے کہ کسی ایٹم کی جسم میں کوئی جگہ تبدیل نہیں ہوگی۔ٹیلی پورٹیشن مشین کے ذریعہ انسانی جسم کے ایٹموں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان ایٹموں میں پائی جانے والی خصوصی اطلاعات و معلومات بھی روانہ کرنا پڑیں گیں اور مطلوبہ مقام پر یہ تمام ایٹم ہو بہو اسی انداز میں یکجا ہوجائیںگے جس انداز میں اصل جسم میں موجود تھے۔ ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی جسمانی ساخت میں تغیر کا سبب نہیں بنیں گی۔یعنی ٹیلی پورٹیشن میں جینیاتی کلوننگ اور ڈیجیٹلائزیشن دونوں ملک کر کام کرسکیںگے۔ اسے بائیو ڈیجیٹل کلوننگ کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح ٹیلی پورٹیشن کے عمل کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا شخص ،اپنی روانگی کے مقام پر در حقیقت مرجائے گا اور مطلوبہبہ منزل پر اس کی ہو بہو نقل موجود ہوگی جس میں اس کی ساخت ، حسیات ، یاد داشت ، جذبات اور خواب و خیالات امید و یاس سب کچھ پہلے کی طرح ہو بہو نقل میں موجود ہوںگی۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیلی پورٹ کیا جانے والا انسان اپنی مطلوبہ منزل پر زندہ تو پہنچے گا مگر اس کا حقیقی جسم نہیں ہوگا۔ اس کی مثال فیکس کی طرح سے تمام مواد، عبارت اصل کی ہو بہو نقل ہوتی ہے مگر اصل عبارت نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹیلی پورٹ کیا گیا انسان بالکل اصل کی پوری نقل ہوگا مگر اصل نہیں ہوگا اگرچہ فیکس کے مقابلہ میں اصل کے زیادہ قریب ہوگا لیکن فیکس اور ٹیلی پورٹیشن میں بنیادی فرق یہ ہوگا کہ فیکس کا اصل مواد اور اصل کاغذ اپنی جگہ باقی بچتا ہے صرف اس کے مواد کی کاپی چلی جاتی ہے جبکہ انسانی ٹیلی پورٹیشن میں انسان اصلی جگہ باقی نہیں رہے گا ،جس کے ساتھ چلا جائے گا ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی نے جس طرح انسان کی زندگی کے تمام لوازمات کو بدل کر رکھ دیاہے اس سے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ٹیلی پورٹیشن کی پوری کامیابی کے بعد ایک دن ایسا آئے گاجب انسان سفر کی تمام صعوبتوں سے نجات حاصل کرلے گا اور مستقبل میں ہماری اولادوں میں سے کوئی بھی کئی سو ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاں کے کسی سیارے میں قائم دفتر میں کام کاج ختم کرکے اپنی کلائی کی گھڑی سے کہے گا کہ اب ہم زمین پر اپنے گھر کھانا کھانے کے لئے رات میں پہنچنا چاہتے ہیں ۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ابھی پورے بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ وہ زمین پر اپنے گھر میں رات کے کھانے پر موجود ہوگا۔ یعنی ٹیلی پورٹیشن کے ذریعہ انسان انسان کی ملکیت ، منوں اور ٹنوں وزنی سامان زمین کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ میں پلک جھپکتے پہنچادیا جائے گا۔ وقت اور دوری کوئی معنی نہیں رکھے گا۔ 1993 اور 1998 کی سائنسی تحقیق و تجزیہ کا حوالہ اگر سامنے رکھیں تو سورہ النمل چیپٹر 42 آیت نمبر 38-40 میں اس ٹیلی پورٹیشن کا تذکرہ ثبوت کے ساتھ ملتا ہے۔

بہ شکرءیہ چوتھی دنیا

No comments:

Post a Comment