طالبان کی شاعری
- ابو سعد خان
روس میں خونیں انقلاب کو ابھی چند عشرے ہی گزرے تھے‘ ہر طرف سرخ انقلاب کا چرچا تھا‘ لال ٹوپی والوں نے ہر شعبۂ زندگی میں قدم جمالیے تھے‘ شاعری کو بھی اس معاملے میں استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ ’’خدائی خدمت گار‘‘ کے بڑے فرزند غنی خان‘ معروف شاعر رحمت شاہ سائل اور اجمل خٹک وغیرہ پشتو شاعری کے محاذ پر سرخ انقلاب کے داعی شعرا کی رہنمائی کررہے تھے۔ اُس وقت پاکستان میںمعاشرتی تفریق اتنی نہیں بڑھی تھی۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق اتنا نہیں تھا جو آج ہے۔ ماؤں نے اپنے دل کے ٹکڑوں کے ساتھ ریل کی پٹڑیوں پر لیٹ کر جان دینا شروع نہیں کی تھی، اور نا ہی باپ بے روزگاری‘ بھوک و افلاس سے تنگ آکر بیوی بچوں کو مارکر خودکشی کرنے لگے تھے۔ اُن حالات میں بھی پشتو ادب میں ایسے اشعار کا اضافہ ہوا اور ان کو گاکرکیسٹوں میں چھاپنے کے ساتھ فلمایا بھی گیا۔ دَ چا پہ زڑہ کے ارمانونہ پہ سلگو پراتہ دی (کسی کے دل کے ارمان بکھر چکے ہیں) دَ چا قسمت کے راحتونہ پہ دلو پراتہ دی (کسی کی قسمت میں راحتوں کے ڈھیر لگے ہیں) سوک کوی خوب لاپہ چمن کے انتخاب دَ گلو (کوئی چمن میں پھولوں پر سو رہا ہے) سوک سر بربری لیونی وی پہ ازغو پراتہ وی (اور بکھرے بالوں والے دیوانے کانٹوں پر پڑے ہیں) د چا خوخیگی نہ چہ کومہ جوڑا واغوندمہ (کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سا جوڑا پہنے) سوک پہ کفن پورے حیرانہ پہ تختو پراتہ دی (کوئی تختہ پر کفن کے لیے حیران و پریشان پڑا ہے) د چا جونگڑہ‘ پکے نشتہ دہ د تیلو ڈیوہ (کسی کی جھونپڑی میں تیل کا دیا تک نہیں) وایہ قسمتہ پہ تیرو کے بہ ترسو پراتوی (بتائو میری قسمت میں کب تک تیرگی رہے گی) گرم پانیوں تک پہنچنے کی تمنا دل میں لیے کمیونسٹ روس کی ’’سرخ‘‘ نیّا بحیرۂ عرب پہنچنے سے قبل ہی افغانستان کی خشکی میں غرق ہوگئی اور اس کے ساتھ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ رحمت شاہ سائل پشتون نوجوانوں کو نصیحتیں کرتے رہ گئے کہ ’’راواخلئی بیا دَ انقلاب سر نشانونہ پختونو زلموں‘‘ (اے پشتون جوانو! پھر سے انقلاب کا سرخ نشان اٹھا لو) لیکن انہوں نے کسی کی خواہش کا غلام نہ بن کر اپنے دل سے پوچھا اور سرخ کے بجائے سبز عَلَم اٹھالیا۔ بات اُس دور کی ہورہی تھی تو یہ کوئی پہلی اور آخری نظریاتی شاعری نہیں تھی۔ پشتو زبان کے مشہور شاعر رحمان بابا کا تو ایک ایک مصرع ان کی بامقصد زندگی کا عکاس تھا۔ وہ تصوف کے قائل تھے اور ان کے اس شعر کو کون بھول سکتا ہے: دا دنیا رانہ پہ مہر کے دین غواڑی زکہ ماتہ قبول نہ دہ دا نکاح (یہ دنیا مجھ سے مہر میں میرا دین مانگتی ہے، اس لیے مجھے اس کے ساتھ نکاح قبول نہیں) پشتو ادب کے ماضی میں نظریاتی شاعری اور گانوں کے علاوہ بھی بامقصد شاعری کی گئی اور اس کو گایا گیا۔ آج کل پشتو زبان کا ایک مشہور گانا ’’بی بی شیرنئی‘‘ چل رہا ہے۔ یہ اتنا مشہور ہوا ہے کہ اس کا اُردو ورژن بھی جاری کردیا گیا۔ یہ جدید زمانے کا گانا ہے جب پختہ کار شاعروں کے بجائے گلوکار خود گانے کے بول لکھنے لگے ہیں۔ اس گانے میں گلوکار زیک آفریدی بی بی شیرنئی سے کہتا ہے ’’میرے اوپر سرخ شال اور اپنے دونوں ہاتھ ڈال دو، یا پھر سرخ شال بناکر اپنی زلفوں پر ڈال دو۔‘‘ زیک، بی بی شیرنئی سے دلوں کا جوا کھیلنے کا بھی کہتا ہے۔ شاید آج کی بی بی شیرنئی دل کا جوا کھیلنے لگی ہوں لیکن ماضی کی بی بی شیرنئی کون تھیں؟ بی بی شیرنئی کے اصل گانے میں کیا ہے؟ اصل گانا پشتو روایت اور روایتی حسن کا عکاس ہے‘ اس میں زلفیں نہیں، بی بی شیرنئی کا کرداد زیر بحث ہے۔ مشہور گلوکار گلزار عالم کی آواز میں اس گانے کی بی بی شیرنئی اذانِ فجر کے ساتھ ہی اُٹھ کر گھر کے کام شروع کردیتی ہے‘ وہ صبح سے شام تک کام کرکے تھک جاتی ہے‘ آرام کے لیے ایک لمحہ بھی میسر نہیں۔ اس کی زندگی دوسروں کی خدمت میں گزر جاتی ہے لیکن اس کے نصیب میں دوا دارو بھی نہیں۔ بیمار ہوتی ہے تو دم درود سے کام چلایا جاتا ہے۔ اس زندگی میں پختونوں کی زندگی کے ایک نہایت منفی عمل کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے جس میں بہن‘ بیٹی کو جائداد میں اس کے حصے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پس پرانے شاعر کی بی بی شیرنئی اپنی زمین‘ جائداد اپنے لالا (بڑے بھائی) کے نام لکھ کر اب خالی ہاتھ بیٹھی ہے۔ اور یہ بی بی شیرنئی کسی کو چادر بناکر اپنی زلفوں پر نہیں ڈالتی بلکہ یہ قوم کی ناموس‘ اورگھر کی حیا ہے‘ جس کے بھروسے بابا اپنی پگڑی باندھ رہے ہیں۔ ……٭٭٭…… پشتون صوفیائے کرام سے لے کر سُرخوں تک نے اپنے نظریات کے اظہار اور ابلاغ کے لیے ادب کی اس صنف کا استعمال کیا، اور اب تو جدیدیت کے پرستار تک اپنی بے مقصد باتیں اسی ذریعے سے پھیلا رہے ہیں۔ لیکن اب جہاں ایک طرف جدیدیوں کی ’’بی بی شیرنئی‘‘ جیسی بے مقصد شاعری سننے کو مل رہی ہے وہیں پشتو شاعری میں ’’طالبان کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے جس میں جنگ زدہ افغانوں کے احساسات کے اظہار کے علاوہ دلائل پر مبنی حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں۔ 2006ء سے طالبان کے زیر اثر قندھار میں مقیم جرمن محقق اور ہمارے دوست ایلیکس اسٹرک وان لِنشوٹین اور ان کے ساتھی فیلکس کوہن کی تدوین کردہ کتاب ’’طالبان کی شاعری‘‘ کی مئی 2012ء میں لندن میں رونمائی ہوئی۔ یہ کتاب امریکا میں فروخت کے لیے جولائی میں پیش کی جائے گی۔ پشتو شاعری کے اس انگریزی انتخاب کو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایٹم بم سمجھ کر اس کا توڑ کرنے کی ایک ایسی مہم شروع کردی جس طرح کی کوششیں ایران کو تنہا کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پشتو شاعری کی گونج دنیا بھر میں سنی گئی ہے۔ ’’طالبان کی شاعری‘‘ سے بہت پہلے خوشحال خان خٹک کا منتخب کلام انگریزی زبان میں طبع ہوکر داد و تحسین وصول کرچکا ہے۔ خوشحال خان خٹک بیک وقت صاحبِ سیف و قلم تھے، اور ان کی شاعری میں ان کی عسکری شخصیت کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں مقصدیت کا پہلو نمایاں رہا۔ ان کی پشتو شاعری کو ’’وزڈم آف دی ایسٹ‘‘ سیریز کے سلسلے میں برطانیہ سے شائع کیا گیا۔ علامہ اقبال بھی خوشحال خان کی اسی شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ ان کے درج ذیل مشہور اشعار خوشحال خان خٹک کی فارسی شاعری کا منظوم ترجمہ ہیں: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ……… وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری طالبان کا شباب بے داغ اور ضرب کاری ہے، لیکن ان کی شاعری کا موضوع صرف جنگ ہی نہیں، بلکہ یہ حکومتی بدعنوانیوں اور این جی اوز کی لوٹ مار سمیت ہر گوشۂ زندگی کا احاطہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ طالبان نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے شاعری کی صنف غزل کو چنا ہے۔ سینٹ انتھونی کالج‘ آکسفورڈ کے فیصل دویوجی نے طالبان کی شاعری کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’طالبان نے اپنے اظہار کے لیے غزل کو چُنا ہے‘ ان ترانوں کے برعکس جن کو طالبان اپنے پروپیگنڈا مواد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘ یہاں طالبان اور دائیں بازو کے مخالف نظریات رکھنے والے محمد حنیف کی، اس کتاب کے بارے میں رائے کو نقل کرنا یقینا دلچسپی کا باعث ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ محبت، جنگ اور دوستی کے اشعار ہیں اور ہمیں افغانستان کے بارے میں کروڑوں نیوز رپورٹوں سے زیادہ کچھ بتاتے ہیں۔ جو بھی افغان امور کا ماہر ہونے کا دعویدار ہے‘ اسے کوئی رائے دینے سے قبل اس شاعری کو ضرور پڑھ لینا چاہیے‘‘۔ ان کا مقصود شاید اس شاعری کے ذریعے افغان حریت پسندوں کا ذہن پڑھنا ہو، لیکن عام آدمی اس شاعری میں اُن عناصر کا مشاہدہ کرسکتا ہے جو جانب دار میڈیا بتانے سے گریزکرتا ہے۔ ہمیں بھی اس کتاب کی مفت کاپی ملنی تھی لیکن وہ نہ نجانے کہاں رہ گئی ہے! جس کو پڑھ کر ہمیںکئی نظموں کا مفہوم یہاں پیش کرنا تھا۔ کتاب نہ ہونے کی صورت میں ان اشعار کا ترجمہ پیش ہے جو انٹرنیٹ یا پھر اس شاعری سے متعلق انگریزی مضامین میں موجود ہیں۔ طالبان شاعر خپل واک اتحادیوں کو یاد دلا تا ہے: تمہارے کرسمس پر بگرام رہتا ہے روشن اور ہماری عیدپر جب بجھ جاتی ہیں سورج کی شعاعیں تو اچانک آدھی رات کو تمہارے بموں سے ہوتے ہیں گھر ہمارے روشن ……٭٭٭…… شادی کی تقریب پر ہونے والے ڈرون حملے کے سلسلے میں ایک طالبان شاعر کے احساسات کچھ یوں ہیں: جوان دلہن کو مارا گیا! اور دلہا اور اس کی خواہشات ہوگئیں شہید اُمیدو ں سے بھرے دل بھی ہوگئے شہید بچے بھی پا گئے مرتبہ شہادت کا اور محبتوں سے بھرپورکہانی ہوئی شہید ……٭٭٭…… طالبان شاعر نجیب اللہ اکرامی امریکی جارحیت اور افغانستان پر قبضے کی عکاسی اپنے اشعار کے ذریعے کچھ یوں کرتا ہے: وہ چھوٹاسا گھر ورثے میں بڑوں سے ملا ہوا جس میں، مَیں صرف خوشی سے واقف تھا میرے پیارے اور میں رہتے تھے بس اچانک ہوا ایک مہمان وارد اور رہ گیا یہاں دو دن کے لیے‘ بس لیکن جب وہ دو دن گزرگئے مہمان بن گیا ‘ میزبان اور کہنے لگا ’’آج تو آئے ہو تم خبردار کل مت پلٹنا ادھر‘‘ ……٭٭٭…… افغان معاشرے میںاپنی موجودگی کو روشنی سے تعبیر کرتے ہوئے طالبان شاعر کچھ یوں مخاطب ہے: ایک سورج تھا تمہاری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اور ہمراہ تھی‘ چاند اور تاروں کی ایک فوج ِعظیم جب تم آئے توجاہلیت کا اندھیرا روشنی میں بدل گیا اور تمہاری ہمراہی فوج نے تاریکی کا سینہ چیردیا ……٭٭٭…… تمہاری محبت ایک جانب‘ اور پھر رہ جاتا ہے کیا؟ یہ صحرا کے قریب آنے کی طرح ہے نقشِ پا پر گرد کی طرح دیکھو ‘ ایک پاگل نیچے گرا ہوا ……٭٭٭……… افغان مجاہد کون ہے ؟طالبان شاعر سے سنیے: بندوق میرے ہاتھ میں… خنجر میرے بازو کے نیچے میں جنگ کے لیے ہوں رواں میں افغان مجاہد ہوں ……٭٭٭……… دشمن کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے : تمہارے پاس ایٹم بم ہیں لیکن یہ ہر گز نہ بھولنا پاس ہمارے ہیں فدائی بمبار ……٭٭٭……… طالبان شاعرہ نصرت اپنے وطن سے محبت کا اظہار کچھ یوں کرتی ہے: ہمیں محبت ہے ان گردآلود، مٹی کے گھروندوں سے ہمیں اپنے وطن کے گردآلود صحراؤں سے پیار ہے پر چرائی ہیں دشمن نے اس کی روشنیاں ہمیں ان زخمی کالے پہاڑوں سے پیار ہے ……٭٭٭…… وہ جوہوئے قتل‘ ہاتھ کافروں کے شمار کرتا ہوں اپنے دل کو انہی میں ایک شہید یہ ہوگی تمہارے خیالوں کی شراب جو بناتا ہے میرے دل کو ساقی ‘ پانچ وقت ……٭٭٭…… افغانستان میں این جی اوز کا کردار‘ پاکستان یا کہیں اور سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔ افغانستان کے کالے پہاڑوں سے دشمن پر حملہ آور ان طالبان کو کابل سمیت دیگر شہروں میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کی پل پل کی خبر ہے۔ کون کیا ہے؟ کون کیا کررہا ہے؟ کس کا ایجنڈا کیا ہے؟ اس سب سے طالبان واقف ہیں۔ این جی اوز کے عنوان سے مطیع اللہ سرچاوال کی یہ نظم دنیا سے کہتی ہے کہ ہم کسی چیز سے بے خبر نہیں ہیں۔ مغرب کیا کررہا ہے اس پر ہماری نظر ہے۔ کتنی ہیں این جی اوز! کریں وقت ضائع‘ صرف بیٹھی رہیں دفتروں میں کتنی ہیں این جی اوز! ان کی تنخواہیں زیادہ ہیں وزیروں سے کتنی ہیں این جی اوز! کریں وقت ضائع‘ تجاویز کا کریں احترام وہ جن کے پاس نہیں کچھ تجاویز‘ ان کو یہ بھول جائیں کتنی ہیں این جی اوز! جب یہ لیں انٹرویوز تو پوچھیں کیا ہیں تجاویز تمہارے پاس؟ اس دوران میںیہ اچانک پھیلاتی ہیں ٹینشن کتنی ہیں این جی اوز! جب کہیں ہو کوئی جگہ خالی، یہ کریں بھرتی مردوں کو یہ نہیں کریں گی تسلیم کہ ان کی عمر ہوچکی ہے پوری کتنی ہیں این جی اوز! اور اگر یہ درخواست گزار ہیں لڑکیاں! تو پھر قبول ہوں گی بنا انٹرویو خواتین ہیں زیادہ اور مرد یہاں تھوڑے کتنی ہیں این جی اوز! جو چھوڑیں حکومت کا ساتھ‘ جوڑیں تعلق این جی اوز سے وجہ یہ کہ ان کی تنخواہیں ہیں ڈالروں میں کتنی ہیں این جی اوز! لوگ یہاں وہاں سے آتے ہیں اور لیتے ہیں تنخواہ ڈالروں میں وہ نہیں کرتے حکومت کے ساتھ کام کہ ان کا دل ٹوٹ چکا کتنی ہیں این جی اوز! اگر کوئی بنے کسی این جی او کا سربراہ‘ وہ ہوجائے گا مالدار وہ اٹھائیں گے لُطف زندگی کا جو کرزئی سے بھی ہے شاندار کتنی ہیں این جی اوز! چالیں یہ چلیں‘ خرچ کریں بڑی رقوم یہ نہیں واضح کہاں سے آتی ہیں یہ رقوم کتنی ہیں این جی اوز! ایک مداخلت کار گھومتا ہے ساتھ اپنے باڈی گارڈ کے یہ افغان نہیں سوچتا کچھ بھی بارے میں صورت حال کے کتنی ہیں این جی اوز! |
No comments:
Post a Comment