Search This Blog

Sunday 17 June 2012

جاپان میں اسلام کی ابتداء

جاپان میں اسلام کی ابتداء


- ڈاکٹر ساجد خاکوانی
جاپان دوسری جنگ ِعظیم میں راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا، اس کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا اور ملک کی کارآمد آبادی جنگ کا ایندھن بن چکی تھی۔ امریکی افواج جب فاتح کی حیثیت سے جاپان میں داخل ہوئیں تو شاہ جاپان نے ان سے کہا کہ میں تم سے صرف ایک چیز مانگتا ہوں کہ میری قوم سے اس کی زبان نہ چھیننا۔ اپنی قومی زبان کا تحفظ کرنے والی قوم آج دنیا کے آسمان پر سورج کی طرح جگمگا رہی ہے اور کوئی اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتا، جو بھی اس جانب دیکھتا ہے چندھیا جاتا ہے۔ معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آج جاپان کا کوئی ثانی نہیں، اور تعلیم اور شرح خواندگی میں قومی زبان نے جاپان کی ترقی کو اوج ثریا تک پہنچا دیا ہے۔ جاپان کی ریاست براعظم ایشیا کے انتہائی مشرق میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں جاپان کے سمندر ہیں جس کے دوسرے ساحلوں پر شمالی اور جنوبی کوریا کی ریاستیں اور سائبیریا کے سرد ترین علاقے واقع ہیں، اور جنوب مغرب میں چین کے سمندر ہیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چھیالیس ہزار مربع میل کے رقبے پر واقع یہ ملک بہت سے جزائر پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سے چار بڑے بڑے جزائر جو اس ملک کے بیشتر رقبے پر واقع ہیں وہ ’’ہوکیدو‘‘، ’’ہانشو‘‘، ’’شکوکو‘‘ اور ’’کیوشو‘‘ ہیں۔ ان میں ’’ہانشو‘‘ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔ ان چار کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے جزائر اس ریاست کا حصہ ہیں۔ دارالحکومت ’’ٹوکیو‘‘ اسی سب سے بڑے جزیرے کا شہر ہے اور دنیا کے اہم شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ جاپان کا لگ بھگ 80 فیصد رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے جاپان کی سرزمین میں بہت زیادہ عدم استحکام ہے۔ یہاں کے دریا بہت چھوٹے اور بہت تیز بہاؤ کے حامل ہیں۔ کچھ دریاؤں کے پانی میں بہت زیادہ تیزابیت بھی پائی جاتی ہے جس کے باعث ان کا پانی زراعت کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے۔ ’’بیوا‘‘ نامی جھیل یہاں کی سب سے بڑی جھیل ہے جو کم وبیش دوسو ساٹھ مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث چھوٹی بڑی بہت سی جھیلیں یہاں پر قدرتی طور پر موجود ہیں، اور حکومت نے ان جھیلوں پر بند باندھ کر ان کے پانی کو انسانی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے بنارکھے ہیں۔ ملک کا موسم مجموعی طور پر گرم ہے لیکن پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث خوشگوار ہوائیں بھی چلتی ہیں، چنانچہ اوسطاً وہاں کا درجہ حرارت 4 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا جاتا ہے، جس میں ساحلِ سمندر سے پہاڑی چوٹیوں تک کا درجہ حرارت شامل ہے۔ جاپان کے شمالی جنگلات بندروں کی مختلف نسلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں پانچ فٹ لمبا سانپ نما چوہا یا چوہے نما سانپ بھی پایا جاتا ہے جو ضرر رساں نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ تازہ اور میٹھے پانی کے بہت سے جانوروںکی متعدد نایاب نسلیں بھی اس ملک میں موجود ہیں۔ جاپانی لوگ بنیادی طور پر ایشیائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سترہویں صدی کے آغاز میں ’’ٹوکو جاوا‘‘ دور میں وہاں کی آبادی کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا: جنگ کرنے والے، کسان، ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ اور تاجر۔ ان چاروں سے برتر ایک طبقہ ’’پڑھے لکھے لوگ‘‘ ہوا کرتے تھے۔ ان طبقات میں سے پڑھے لکھے لوگوں کے طبقے کو آج تک کسی نہ کسی صورت میں معاشرتی تفوق حاصل ہے۔ اسی دور میں جاپان کو دنیا سے کاٹ کر داخلی استحکام پر توجہ دی گئی۔ دوسو سال تک جاپان عالمی تنہائی کا شکار رہا، یہاں تک کہ 1854ء میں جاپان نے امریکا کے لیے اپنے بحری راستے کھولے، اور یوں جاپان میں صنعتی و عالمی تجارتی دور کا آغاز ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں جاپان ایک طاقت کی حیثیت سے ابھرا اور اس نے چین اور روس کے ساتھ فیصلہ کن جنگیں لڑیں، اور تائیوان اور کوریا سمیت متعدد دیگر جزائر پر قبضہ بھی کرلیا، یہاں تک کہ 1941ء میں جاپان نے امریکہ جیسے سانڈ سے بھی ٹکر لے لی، لیکن دوسری جنگ عظیم کی عالمی کشمکش میں جاپان کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے بعد جاپان کو فوج رکھنے کی اجازت نہ مل سکی، لیکن یہ صعوبت اس قوم نے سہولت سمجھ کر قبول کی اور پوری توجہ اپنی معیشت پر مرکوز کردی، جس کے خاطرخواہ ثمرات آج اس قوم کا مقدر ہیں۔ آج جاپان اپنی معاشی حیثیت کے باعث دنیا میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص اپنا کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ جاپان میں جاپانی زبان بولی جاتی ہے تاہم کورین اور چینی زبان بولنے والے متعدد قبائل بھی ایک طویل عرصے سے یہاں موجود ہیں۔ جاپانی زبان دراصل چینی زبان کی بیٹی ہے۔ چوتھی صدی عیسوی سے ان دونوں زبانوں کے درمیان علیحدگی شروع ہوئی اور بیٹی نے میکہ چھوڑکر اپنا گھر آباد کرلیا۔ چینی زبان دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اس کے یہی اثرات جاپانی زبان پر بھی تھے، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانی زبان میں سے بہت سے الفاظ کو کم کردیا گیا اور انگریزی کے بھی کچھ الفاظ کو جاپانی زبان کی لغت میں شامل کرلیا گیا۔ جاپانی زبان کے بہت سے لہجے ہیں لیکن ٹوکیو کے لہجے کو قومی لہجے کے طور پر ابلاغیات اور تعلیم میں رائج کیا گیا ہے۔ جاپان معدنیات کے معاملے میں ایک تشنہ ملک ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کوئلہ اور تیل درآمد کرنے والے صفِ اوّل کے ملکوں میں اس کا شمار ہے۔ صرف مچھلی اور لکڑی ہی یہاں کی قدرتی پیداوار ہے۔ یہاں کا پانی بھی تیزاب کی آمیزش کے باعث بہت نچلے درجے کا اور بے کار پانی ہے۔ جاپان کی آبادی اس وقت تیرہ کروڑ کو چھو رہی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح 191فیصد ہے، یعنی اصل میں سالانہ آبادی کم ہورہی ہے۔ شرح پیدائش 0.007فیصد ہے اور شرح اموات 0.9فیصد سالانہ ہے۔ جاپان میں 98.5فیصد جاپانی آباد ہیں، 0.5 فیصد کورین، 0.4فیصد چینی اور باقی دیگر اقوام سے وابستہ لوگ آباد ہیں۔ یہاں بدھ مت اور شینٹوازم کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، جبکہ 2فیصد عیسائی بھی یہاں رہتے ہیں۔ یہاں 99فیصد لوگ خواندہ ہیں اور یہ دنیا کی سب سے زیادہ شرح خواندگی والے ملکوں کے برابر ہے۔ 3 مئی 1947ء کے آئین کے مطابق جاپان میں آئینی بادشاہت کے تحت پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے، قومی نوعیت کے تمام فیصلوں کی توثیق شاہ جاپان کے دستخطوں سے کی جاتی ہے۔ 242 ارکان کا ہاؤس آف کونسلرز قائم ہے جسے ایوانِ بالا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں 146ارکان براہِ راست منتخب ہوکر آتے ہیں اور 96 ارکان متناسب نمائندگی کے تحت اس ایوان کے رکن بنتے ہیں۔ ایوان کو چھ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، لیکن آدھے ارکان تین سال کے بعد رکنیت سے مستعفی ہوجاتے ہیں اور پھر اس تعداد کے لیے دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں، اور اس طرح یہ نظام چلتا رہتا ہے۔ جاپان میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے عمر کی حد بیس سال مقرر کی گئی ہے۔ زیریں ایوان کا نام ایوانِ نمائندگان ہے، اس میں 480 اراکین ہوتے ہیں اور وزیراعظم ایوانِ نمائندگان کو کابینہ کے مشورے سے تحلیل کرسکتا ہے۔ وزیراعظم حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرتا ہے اور اس کی معاونت کے لیے کابینہ موجود ہوتی ہے۔ ’’بورڈ آف آڈٹ‘‘ وہ مرکزی آئینی ادارہ ہے جو ریاست کے جملہ مالیاتی امور کا ذمہ دار ہے۔ مملکت کو سینتالیس ذیلی انتظامی حصوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جرمن قانون میں برطانوی طرز کی ترامیم کرکے اسے یہاں پر رائج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ عدالت ہے، اور ججوں کا تقرر کابینہ کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ صوبوں کے اپنے گورنر اور صوبائی ایوان نمائندگان ہیں، جبکہ لوکل سطح کی حکومتوں کے میئر ہوتے ہیں۔ 1868ء میں یہاں پر مسلمانوں کا اوّلین ذکر ملتا ہے۔ 1877ء میں جاپانی زبان میں سیرت النبیؐ کا ترجمہ کیا گیا۔ عام جاپانی افراد کے اسلام سے تعارف کا یہ پہلا ذریعہ تھا۔ 1890ء میں عثمانی ترک خلیفہ نے جاپان میں اپنا وفد بھیجا تاکہ اس ملک کے ساتھ مراسم کی ابتدا ہوسکے، اس کے جواب میں جاپانیوں کا جو وفد ترکی گیا اس میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوئے لیکن وہ واپس جاپان نہیں آئے بلکہ ترکی کے ہی ہورہے۔ 1909ء میں ایک جاپانی ’’مٹسو ٹاروٹوکاؤکا‘‘ کا نام ملتا ہے جو ہندوستان میں تجارت کے لیے آیا اور مسلمان ہوگیا، اور اس کا نام ’’احمد اریگا‘‘ رکھا گیا۔ اس کے بعد اس نے حج بھی کیا۔ معلوم تاریخ کی حد تک یہ جاپان کا پہلا مقامی مسلمان تھا۔ روسی انقلاب اور پہلی جنگ عظیم کے بعد جاپان میں مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی اور بڑے بڑے شہروں میں مسلمانوں نے اپنی دینی تاریخ رقم کرنے کا آغاز کیا۔ 1935ء میں جاپان میں ’’کوبو‘‘ شہر میں پہلی مسجد تعمیر کی گئی اور 1938ء میں ٹوکیو جیسے شہر میں بھی ایک مسجد تعمیر کرلی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ’’اسلامک بوم‘‘ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ وجود میں آیا جس نے کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے موضوع پر لگ بھگ ایک سو کتابیں شائع کردیں۔ اِس وقت جاپان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان میں سے جاپانی الاصل مسلمان تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہرحال اس بہت کم تعداد کے باوجود مسلمان باہم ملتے رہتے ہیں اور انہوں نے ’’جاپان دعوۃ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنار کھی ہے جس کے مختلف پروگراموں میں مسلمانوں کی دینی تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اب تک جاپانی زبان میں اسلامی کتب کی شدید کمی ہے۔ جو جاپانی بھی اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتا ہے اسے انگریزی میں لکھی کتب ہی دستیاب ہوسکتی ہیں اور وہ بھی بہت مہنگی۔ مغربی میڈیا کا پروپیگنڈہ بھی جاپانیوں کی فکرکو اسلام کے بارے میں آلودہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی تعداد وہاں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے دین پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں۔

No comments:

Post a Comment