Search This Blog

Sunday 24 June 2012

اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ

اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ

- عابد علی جوکھیو
نام علی، ابوالحسن اور ابوتراب کنیت، حیدر لقب۔ والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضرت علیؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئے، ابوطالب کثیرالعیال تھے اور معاشی تنگی کا شکار تھے، قحط و خشک سالی نے اس مصیبت میں مزید اضافہ کردیا، اس لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ ہم کو اپنے چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے، چنانچہ حضرت عباس ؓ نے جعفر کی کفالت اپنے ذمہ لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کا انتخاب کیا۔ اسی وقت سے آپؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی زیر تربیت رہے۔ چونکہ حضرت علیؓ کے والد ابو طالب غریب اور کثیر الاولاد تھے، اس لیے بچپن ہی سے آپؓ کی پرورش کا ذمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیا تھا۔ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت آپؓ کی عمر صرف 10 سال تھی۔ اسی عمر میں آپؓ ایمان لائے اور تنگی اور مشکل حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ 2ھ میں جب آپؓ کی شادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ ہوئی تو آپؓ کے پاس حق مہر کے لیے بھی کچھ رقم موجود نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے مطابق آپؓ حق مہر کی ادائیگی کے لیے اپنی زرہ بیچنے نکلے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپؓ نے یہ زرہ چار سو درہم میں خریدلی۔ بعد ازاں زرہ بھی واپس حضرت علیؓ کو دے دی۔ اسی چار سو درہم کی رقم میں سے کچھ رقم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے گھر کی تعمیر کے سلسلے میں خرچ کی، کیونکہ ابھی تک حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہتے تھے اور اب علیحدہ گھر کی ضرورت تھی۔ اور باقی رقم حق مہر کے طور پر ادا کی گئی۔ آپؓ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے، اس لیے ابتداء ہی سے امین تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی امانتیں جمع تھیں، جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی خدمت حضرت علیؓ کے سپرد ہوئی۔ بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دنیاوی عیش کا سامان کہاں تھا؟ حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ شادی ہوئی تو علیحدہ مکان میں رہنے لگے۔ اس نئی زندگی کے ساز و سامان کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ سیدۂ جنت جو سازو سامان اپنے میکے سے لائی تھیں اس میں ایک چیز کا بھی اضافہ نہ ہوسکا۔ چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے، گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی، وہ بھی اس قدر چھوٹی کہ پائوں چھپاتے تو سر برہنہ ہوجاتا اور سر چھپاتے تو پائوں کھل جاتا۔ معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں گھر سے دھواں نہیں اٹھتا تھا، بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ سے پتھر باندھ لیتے۔ ایک دفعہ شدتِ بھوک میں کاشانۂ اقدس سے باہر مزدوری کی غرض سے نکلے کہ کچھ کما لائیں۔ مدینہ شہر کے باہر دیکھا کہ ایک ضعیف خاتون کچھ اینٹ پتھر جمع کررہی ہے۔ آپ سمجھے کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اور پانی سینچنے لگے۔ یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ غرض اس محنت و مشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت میں ملیں، لیکن اکیلے کھانے کی عادت نہ تھی، یہ لیے ہوئے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ اپنے ہاتھ کی کمائی کی تعریف بیان کی۔ حضرت علیؓ کی حضرت فاطمہ ؓ سے شادی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے پوچھا: تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ جواب دیا کہ ایک گھوڑے اور ایک زرہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تو جہاد کے لیے ہے، البتہ زرہ کو فروخت کردو۔ حضرت علیؓ نے اس کو حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ چار سو اسّی درہم میں فروخت کیا اور قیمت لاکر آنحضرتؐ کے سامنے پیش کی۔ آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بازار سے عطر اور خوشبو خرید لائیں، اور خود نکاح پڑھایا اور دونوں میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر خیر و برکت کی دعا دی۔ حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز میں یہ سامان ملا تھا: ایک چارپائی، ایک بستر، ایک چادر، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ۔ اور عجب بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ ان میں کچھ بھی اضافہ نہ کرسکے۔ شادی کے بعد جب آپؓ علیحدہ مکان میں رہنے لگے تو حصول معاش کی فکر لاحق ہوئی، چونکہ شروع سے اس وقت تک آپؓ کی زندگی سپاہیانہ کاموں میں بسر ہوئی تھی اس لیے کسی قسم کا سرمایہ پاس نہ تھا۔ محنت مزدوری اور جہاد کے مالِِ غنیمت پر گزر اوقات ہوتی تھی۔ خیبر فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک قطعہ زمین جاگیر کے طور پر عنایت فرمایا۔ حضرت عمر ؓنے اپنی خلافت میں باغ فدک کا انتظام بھی آپؓ کے حوالے کردیا اور دوسرے صحابہؓ کی طرح آپؓ کے لیے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا جس پر آخری لمحۂ حیات تک قانع رہے۔ ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام آئے ہیں، آپ ان سے ایک خادم کی درخواست کریں۔ انہوں نے بھی کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے ہیں۔ چنانچہ حضرت فاطمہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: بیٹی کسی کام سے آئی ہو؟ بولیں: بس سلام کرنے۔ لیکن سوال کرنے سے شرم آئی اور واپس چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ تم نے کیا کیا؟ بولیں کہ مجھے سوال کرنے سے شرم آئی اور میں ایسے ہی واپس آگئی۔ دوبارہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیاکہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا ہے، اور حضرت فاطمہؓ نے کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں، خدا نے آپؐ کے پاس لونڈی غلام اور مال بھیجا ہے، ہم کو بھی ایک خادم عنایت فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو دوں اور اہلِ صفہ کو فاقہ کی حالت میں چھوڑ دوں۔ میں ان غلاموں کو فروخت کرکے ان کی قیمت اہلِ صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ جواب سن کر دونوں لوٹ آئے۔ ان کی واپسی کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ چادر اوڑھ کر سوچکے تھے۔ یہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ جب سر ڈھکتے تھے تو پائوں، اور جب پائوں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر دونوں اٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم کو میں ایسی چیز نہ بتائوں جو اس چیز سے بہتر ہے جسے تم مجھ سے مانگ رہے ہو۔ دونوں نے فرمایا: ہاں۔ فرمایا: مجھ کو جبریل علیہ السلام نے چند کلمات سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح (سبحان اللہ)، دس بار تحمید (الحمدللہ) اور دس بار تکبیر (اللہ اکبر) پڑھا کرو، اس لیے تم دونوں سوتے وقت 33 بار تسبیح، 33 بار تحمید اور 34 بار تکبیر پڑھ لیا کرو۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے، اُس وقت سے میں نے ان کو نہیں چھوڑا۔ اپنے عہدِ خلافت میں آپؓ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جیسی امانت داری فرمائی اس کا اندازہ حضرت اُم کلثوم ؓ کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسنؓ، امام حسین ؓ نے ایک نارنگی اٹھالی، حضرت علیؓ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کردی۔ (ازالۃ الخلفائ) مالِ غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگا کر انتہائی احتیاط سے۔ قرعہ ڈالتے کہ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو آپؓ اس سے بری ہوجائیں۔ ایک دفعہ اصفہان سے مال آیا، اس میں ایک روٹی بھی تھی۔ حضرت علی ؓ نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے بھی سات ٹکڑے کیے اور قرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا۔ ایک دفعہ بیت المال کا تمام مال تقسیم کرکے اس میں جھاڑو لگائی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی کہ وہ جگہ قیامت کے دن ان کی امانت اور دیانت کی شاہد رہے۔ آپؓ کی ذات ِگرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی۔ آپؓ کے کاشانۂ فقر میں دنیاوی شان و شکوہ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ کوفہ تشریف لائے تو دارالامارت کے بجائے ایک میدان میں پڑائو ڈالا اور فرمایا کہ عمرؓ بن خطاب نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا، مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میدان ہی میرے لیے کافی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک سال میں تین مرتبہ مال تقسیم کیا، پھر آپؓ کے پاس مزید مال آیا تو آپؓ نے اعلان کروایا کہ صبح ہوتے ہی سب لوگ جمع ہوجائیں تاکہ میں انہیں ان کا حصہ دے دوں، میں تم لوگوں کا خزانچی نہیں ہوں (کہ مال کی حفاظت کروں)۔ چنانچہ آپؓ نے سب مال تقسیم کردیا، حتیٰ کہ ایک رسّی بھی نہ چھوڑی۔ اس وقت لوگوں کی خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس موقع پر بہت سے لوگوں نے مال لیا اور بہت سوں نے واپس کردیا۔ (کنزالعمال) بیت المال کے معاملے میں آپؓ کا رویہ انتہائی سخت تھا۔ ایک مرتبہ آپؓ کے چچیرے بھائی حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بصرہ کے بیت المال سے دس ہزار کی رقم لے لی، حضرت علیؓ کو علم ہوا تو انہیں واپس کرنے کو کہا، انہوں نے انکار کیا، ان کے انکار کے باوجود حضرت علیؓ نے ان سے وہ رقم واپس کرادی۔ آپؓ اپنے اور اپنے اہل کے لیے بیت المال سے کچھ بھی نہ لیتے۔ ایک مرتبہ عمرو بن سلمہ اصفہان کا خراج لائے، اس میں شہد اور چربی بھی تھی، حضرت علیؓ کی صاحبزادی کلثومؓ نے یہ چیزیں منگوائیں تو عمرو بن سلمہ نے ایک پیپا شہد اور ایک پیپا چربی بھیج دی۔ دوسرے دن حضرت علیؓ نے حساب لگایا تو ان میں دو پیپے کم پائے، عمرو بن سلمہ سے سختی سے پوچھا، انہوں نے بتادیا۔ آپؓ نے اسی وقت دونوں پیپے منگا لیے اور اس میں سے جو کچھ استعمال ہوچکا تھا اس کا حساب لگاکر اس کی قیمت ادا کردی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافعؓ بیت المال کے نگران تھے، انہوں نے بیت المال سے ایک موتی لے کر اپنی بیٹی کو پہنادیا۔ حضرت علی ؓ نے دیکھ کر پہچان لیا، پوچھا یہ موتی کہاں سے آیا؟ میں اس کے لانے والے کا ہاتھ قلم کردوں گا۔ ابو رافع ؓ نے اپنی غلطی کا اقرار کرلیا۔ حضرت علیؓ نے ان سے کہا کہ تمہارا یہ حال ہے کہ اپنی بیٹیوں کو موتیوں سے آراستہ کرتے ہو۔ جب فاطمہ ؓ کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی تو میرے پاس مینڈھے کی صرف ایک کھال تھی، جس پر رات کو سوتا تھا اور دن کو اس پر مویشیوں کو چارہ دیتا تھا۔ اور میرے پاس ایک خادم تک نہ تھا۔ مجمع تیمی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ بیت المال میں جھاڑو لگاتے، اس میں نماز ادا کرتے اور اس کو سجدہ گاہ بناتے، تاکہ وہ حصہ آپ کے لیے بروز قیامت گواہی دے۔ (الاستیعاب) حضرت معاذ بن علا کے دادا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب سے سنا ہے کہ آپ فرما رہے تھے: مجھے تمہارے اس فئے (مالِ غنیمت) سے تمہاری اس شیشی کے سوا کچھ نہیں ملا جو مجھے ایک دہقان نے ہدیہ کی تھی۔ پھر بیت المال میں تشریف لائے اور اس میں جوکچھ تھا تقسیم کردیا، اس کے بعد فرمایا: وہ آدمی فلاح پا گیا جس کے پاس ایک ہی ٹوکری ہو اور وہ اس میں سے ہر روز ایک مرتبہ ہی کھا سکے۔ عنترہ شیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ جزیہ اور خراج میں ہر پیشہ ور کے پیشے سے تیار شدہ چیز کو لیا کرتے، یہاں تک کہ آپ سوئی والے سے سوئی، سُوّے والے سے سُوّے، تاگے والے سے تاگا اور رسّی بنانے والے سے رسّی لیا کرتے، پھر ان کو لوگوں میں تقسیم کردیتے۔ آپؓ بیت المال میں ایک رات کے لیے بھی مال نہ چھوڑتے تھے، یہاں تک کہ آپؓ اس کو تقسیم کردیتے۔ ہاں اگر کسی کام میں مشغول ہوتے تو پھر علی الصبح اس مال کو تقسیم کرتے، اور آپؓ کہا کرتے: اے دنیا! تُو مجھ کو دھوکا نہ دے۔ عنترہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ کے پاس قنبر نے آکر کہا: اے امیرالمومنین! آپؓ ایک ایسے آدمی ہیں کہ کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتے، آپؓ کے گھر والوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے، میں نے آپؓ کے لیے کچھ چھپا رکھا ہے۔ آپؓ نے پوچھا:کیا ہے؟ قنبر نے کہا: چلیے اور خود دیکھ لیجیے کہ وہ کیا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ قنبر نے آپؓ کو ایک کوٹھری میں داخل کیا جس میں سونے اور چاندی کے برتنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ حضرت علیؓ نے اسے دیکھ کر کہا کہ تجھے تیری ماں گم کرے، تم نے تو میرے گھر میں ایک بہت بڑی آگ کو داخل کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ پھر آپؓ نے ان کو تولا اور تقسیم کرکے فرمایا: اے دنیا مجھے دھوکا نہ دے۔ (کنزالعمال) (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment