Search This Blog

Friday 27 April 2012

قرآنی اور سائنسی نظریہ ارتقا کا موازنہ اور ایک دہریہ کا قبول اسلام

قرآنی اور سائنسی نظریہ ارتقا کا موازنہ اور ایک دہریہ کا قبول اسلام


پانچ فطری اصول :

۱:… سائنس کی بنیاد مشاہدہ و تجربہ پر ہے، اور جو چیزیں مشاہدہ یا تجربہ سے ماورا ہیں وہ سائنس کی دسترس سے باہر ہیں، ان کے بارے میں سائنس دانوں کا کوئی دعویٰ لائقِ التفات نہیں، جبکہ وحی اور نبوّت کا موضوع ہی وہ چیزیں ہیں جو انسانی عقل، تجربہ اور مشاہدہ سے بالاتر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اُمور میں وحی کی اطلاع قابلِ اعتبار ہوگی۔
۲:… بہت سی چیزیں ہمارے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کے مخفی علل و اسباب کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ان کے علم کے لئے ہم کسی صحیح ذریعہٴ علم کے محتاج ہوتے ہیں، ایسے اُمور کا محض اس بنا پر انکار کردینا حماقت ہے کہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آرہیں۔
۳:… دو چیزیں اگر آپس میں اس طرح ٹکراتی ہوں کہ دونوں کو بیک وقت تسلیم کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں صحیح ہوں، لامحالہ ایک صحیح ہوگی اور ایک غلط ہوگی۔ ان میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کا ثبوت یقینی و قطعی ذریعہ سے ہوا ہے؟ اور کس کا ظن و تخمین کے ذریعہ؟ پس جس چیز کا ثبوت کسی یقینی ذریعہ سے ہو وہ حق ہے اور دُوسری باطل یا موٴوّل۔
۴:… جو بات اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہو اور کسی سچے خبر دینے والے نے اس کی خبر دی ہو، اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، اور اس کا انکار کرنا محض ضد و تعصب اور ہٹ دھرمی ہے، جو کسی عاقل کے شایانِ شان نہیں۔
۵:… انسانی عقل پر اکثر و بیشتر وہم کا تسلط رہتا ہے، بہت سی چیزیں جو قطعاً صحیح اور بے غبار ہیں، لوگ غلبہٴ وہم کی بنا پر ان کو خلافِ عقل تصوّر کرنے لگتے ہیں، اور بہت سی چیزیں جو عقلِ صحیح کے خلاف ہیں، غلبہٴ وہم کی وجہ سے لوگ ان کو نہ صرف صحیح مان لیتے ہیں بلکہ ان کو مطابقِ عقل منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔

ڈارون کا نظریہ ارتقا حقیقت کے آئینہ میں  :۔
سوال یہ ہے کہ انسان کی آفرینش کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور کسی اندازے اور تخمینے کی بنا پر اس بارے میں کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جاسکتی۔ موجودہ دور کا انسان نہ تو ابتدائے آفرینش کے وقت خود موجود تھا کہ وہ جو کچھ کہتا چشمِ دیدہ مشاہدہ کی بنا پر کہتا، نہ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تجربے نے اس کی تصدیق کی ہو، ورنہ ہزاروں برس میں کسی ایک بندر کو انسان بنتے ہوئے ضرور دیکھا ہوتا، یا کسی ایک بندر کو انسان بنادینے کا اس نے تجربہ ضرور کیا ہوتا۔ پس جب یہ نظریہ مشاہدہ اور تجربہ دونوں سے محروم ہے تو اس کی بنیاد اَٹکل پچو تخمینوں، اندازوں اور وہم کی کرشمہ سازیوں پر ہی قائم ہوگی۔ اس کے مقابلے میں خود خالقِ کائنات کا قطعی، غیرمبہم اور دوٹوک ارشاد ہے ۔ اب دادِ انصاف دیجئے کہ ایک مسئلے میں، جو انسانی مشاہدہ و تجربہ سے ماورا ہے، مسٹر ڈارون اور ان کے مقلدوں کا اَٹکل پچو تخمینہ لائقِ اعتبار ہے یا خدائے علام الغیوب کا ارشاد․․․؟ اگر وحیٴ الٰہی نے اس مسئلے میں ہماری کوئی راہ نمائی نہیں کی ہوتی تب بھی عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ڈارون کے غیرمشاہداتی اور غیرتجرباتی تیرتکوں کو قبول نہ کرتے، کیونکہ اہلِ عقل، عقل کی مانا کرتے ہیں، غیرعقلی قیاسات اور تخمینوں پر اندھادُھند ایمان نہیں لایا کرتے۔ پس نظریہٴ ارتقا کے حامیوں کا انسان کے سلسلہٴ نسب کو بندر سے ملانا، جبکہ وحیٴ الٰہی اور مشاہدہ و تجربہ اس کی تکذیب کرتے ہیں، تو یہ نظریہ اہلِ عقل کے نزدیک کیسے لائقِ التفات ہوسکتا ہے؟

   نظریہٴ ارتقا کے موجدوں نے انسان کا سلسلہٴ نسب بندر تک پہنچاکر انسانی عقل کی جو مٹی پلید کی ہے، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانِ اوّل کے بارے میں ان کے دیگر تخمینوں اور قیاسات میں کتنی جان ہوگی، خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ: “انسانِ اوّل کو جنت سے نہیں اُتارا گیا تھا، بلکہ اسی زمین پر بندر سے اس کی جنس تبدیل ہوئی تھی”، یا یہ کہ: “حوا اس کی بیوی نہیں بلکہ ماں تھی”۔ کون نہیں جانتا کہ جنت و دوزخ عالمِ غیب کے وہ حقائق ہیں جو اس عالم میں انسانی مشاہدہ و تجربہ سے بالاتر ہیں، اور جن کے بارے میں صحیح معلومات کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل شدہ وحی۔ پس جو غیبی حقائق کہ انسان کے مشاہدہ و تجربہ کی دسترس سے قطعاً باہر ہیں اور مشاہدہ کی کوئی خوردبین ان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، خود ہی سوچئے کہ ان کے بارے میں وحیٴ الٰہی پر اعتماد کرنا چاہئے یا ان لوگوں کی لاف گزاف پر جو وہم و قیاس کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایک ایسے میدان میں ترکتازیاں کرنا چاہتے ہیں جو ان کے احاطہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے․․․؟
سائنس کے دقیق اسرار و رموز کے بارے میں ایک گھسیارے کا قول جس قدر مضحکہ خیز ہوسکتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ان لوگوں کے اندازے اور تخمینے مضحکہ خیز ہیں جو وحیٴ الٰہی کی روشنی کے بغیر اُمورِ الٰہیہ میں تگ و تاز کرتے ہیں۔ یہ مسکین نہیں سمجھتے کہ ان کی تحقیقات کا دائرہ مادّیات ہیں، نہ کہ ما بعد الطبعیات، جو چیز ان کے دائرہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے اس کے بارے میں وہ جو قیاس آرائی کریں گے اس کی حیثیت رجم بالغیب اور اندھیرے میں تیر چلانے کی ہوگی۔ قطعاً ممکن نہیں کہ ان کا تیر صحیح نشانے پر بیٹھے، وہ خود بھی مدة العمر وادیٴ ضلالت کے گم گشتہ مسافر رہیں گے اور ان کے مقلدین بھی۔ مسلمانوں کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ان وادیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، بحمداللہ ان کے پاس آفتابِ نبوّت کی روشنی موجود ہے، اور وہ ان اُمورِ الٰہیہ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، دن کی روشنی میں کہتے ہیں۔

فلاسفہ طبیعیین نے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ محض اٹکل مفروضے ہیں، جن کی حیثیت اوہام و ظنون کے سوا کچھ نہیں، اور ظن و تخمین کی حق و تحقیق کے بازار میں کوئی قیمت نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
:
وَمَا لَھُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ، اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ، وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔” (النجم:۲۸)۔
ترجمہ:…”اور ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں، صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بے اصل خیالات امر حق کے مقابلے میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔
 یہ نظریہ اب سائنس کی دُنیا میں بھی فرسودہ ہوچکا ہے، اس لئے اس طویل عرصے میں انسان نے کوئی ارتقائی منزل طے نہیں کی، بلکہ ترقیٴ معکوس کے طور پر انسان تدریجاً “انسان نما جانور” بنتا جارہا ہے۔
 جو قومیں نورِ نبوت سے محروم ہیں، وہ اگر قبل از تاریخ کی تاریک وادیوں میں بھٹکتی ہیں تو بھٹکا کریں، اور ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑاتی ہیں تو دوڑایا کریں، اہل ایمان کو ان کا پس خوردہ کھانے اور ان کی قے چاٹنے کی ضرورت نہیں! ان کے سامنے آفتابِ نبوت طلوع ہے، وہ جو کچھ کہتے ہیں دن کی روشنی میں کہتے ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی نے ظن و تخمین سے بے نیاز کردیا ہے۔

قرآن اور  ایک سابقہ دہریہ کے تاثرات :۔
میرے ایک دوست ہیں ، عبدالفتاخ انکا نام ہےبلجییم  کے رہنے والے ہیں ،  جدید سائنسی علوم  میں انہیں بہت رسوخ حاصل ہے، وہ پہلے    ایتھیسٹ  (دہریے) تھے اور پھر 2005 میں انہوں نے اسلام قبول کیا ، اسلام سے پہلے وہ دہریوں کی طرف سے بہت بڑے مناظر بھی رہے تھے۔ کسی مسلمان  دوست کے باربار قرآن پڑھنے کی درخواست کرنے پر قرآن پڑھنا شروع کیا، اور گائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا۔ وہ  قرآن کے بارے میں اپنے اس وقت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
 I was shocked by the profoundness and deepness of the words. I was also intrigued by how the book felt psychologically custom made for the human mind. Sometimes it even felt as if it was written just for me, since it was so applicable, as if the book interacts with me on a personal level and has anticipated all the reactions I have, and replies to them appropriately. It knows me better then I know myself, and answers all my questions. It knows science better then scientists. As I started reading I feeling emotions so profound, like I had never felt before in my life. Almost as if they were being rushed down trough me with a high pressure hose. Levels of fear but at the same time security, the most deepest of sadnesses but at the same time the most profound joy. I didn't even knew that such emotions existed. Next to all that, even though I was just reading a translation one can still see the traces of a magnificent poetic order and symphony that is complete in tune with the content of the text without such a thing compromising any of the other mentioned qualities. In summary, the book seemed like pure perfection on every level and aspect. "
 اسلام قبول کرنے کے بعد  انہوں نے ماڈرن سائنس اور ایتھیسٹ کے نظریات پر تنقیدی سٹائل میں  لکھنا شروع کیا،  اور دہریت کے تمام سائنسی نظریات پر لاجواب تحریریں لکھیں ،ان کو میں خود کئی سائنسی علم رکھنے والے  ایتھیسٹ کو میل کرچکا ہوں، کوئی بھی ان کو جھٹلا نہیں سکا۔انہوں نے اپنی ان تحریروں کو اپنی سائیٹ پر بھی دیا ہے۔ یہ انکی سائیٹ کا بینر اور لنک ہے۔


 آپ کو اگر انکی کسی تحریر پر اشکال ہو توانہوں نے سائیٹ پر فورم کا لنک بھی دیا ہوا ہے، آپ وہاں ان سے وضاحت لے سکتے ہیں۔
http://www.seemyparadigm.webs.com

سائنسی علوم کے ساتھ علوم وحی لازم ملزوم کیوں ....?

سائنسی علوم کے ساتھ علوم وحی لازم ملزوم کیوں ....?

حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کو دو قسم کے علم عطا کئے گئے ہیں۔
ایک کائنات کے اسرار و رموز، اشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کا علم جسے “علمِ کائنات” یا “تکوینی علم” کہا جاتا ہے، تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی “علمِ کائنات” کی شاخیں ہیں، مگر معلوماتِ خداوندی کے مقابلے میں انسان کا یہ کائناتی علم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی اور پہاڑ کی مقابلے میں ایک ذرّہ کی نسبت بھی نہیں رکھتا۔
اور دُوسرا وہ علم جو خالقِ کائنات کی ذات و صفات، اس کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے، اسے “علم الشرائع” یا “تشریعی علوم” سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں، مگر دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں۔ قسمِ اوّل کے لئے احساس، عقل، تجربہ اور فہم و فراست عطا کئے گئے ہیں، اور جہاں انسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے، چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی سے متعلقہ تمام علوم کے مبادیات وحی و اِلہام کے ذریعہ سکھائے گئے: “وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمَآءَ کُلَّھَا”۔ مزید براں انسان کی فطرت میں عقلی و تجرباتی علوم میں ترقی کی وافر استعداد رکھی گئی۔
دوسری قسم کے علم میں خالقِ کائنات کی ذات و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی ادراک سے بالاتر تھی، بنابریں اس کا مدار محض عقل و تجربے پر نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کی تعلیم کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا گیا، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو معرفتِ ذات و صفات، مبداء و معاد، سعادت و شقاوت، فضائل و رذائل، عذاب و ثواب کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا، ان کو اس صراطِ مستقیم کی دعوت پر مأمور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولادِ آدم کا مقتدا بناکر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ کردیا گیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں، وہ صرف انہیں کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دُنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان علومِ نبوّت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کرسکیں، نہ وہ تمام علومِ نبوّت کا احاطہ کرسکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہوکر انہیں علومِ نبوّت کا کوئی شمہ نصیب ہوسکتا ہے۔

علمائے سائنس کی حقیقت کبری سے محرومی اور دہریت کی طرف رغبت کی وجہ :.

اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والأرض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔(آل عمران : ۱۹۰۔۱۹۱

بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور دن ورات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکرکرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں[یہ کہتے ہوئے] اے ہمارے رب! آپ نے اس کو باطل پیدا نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

فلسفہ و سائنس کے ماہرین، علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبے پر فائز ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بوقلمونیوں سے بہ نسبت دُوسروں کے زیادہ واقف اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ قدرتِ خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوّت کی ضرورت و اہمیت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ انہی پر کھلے گی، وحیٴ الٰہی سے جو انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے ’ سب سے زیادہ استفادہ وہی کریں گے، انبیائے کرام علیہم السلام سے وفاداری و جاں نثاری اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر انہی کی جانب سے ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سائنسدان معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کو عار سمجھا اور تعلیماتِ نبوّت سے استغنا کا مظاہرہ کیا، یوں ارشادِ خداوندی:
(“وَأَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ”) (اور گمراہ کردیا اس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے) ان پر صادق آیا۔

انبیائے کرام علیہم السلام کے مقابلے میں سائنس دانوں کی اس متکبرانہ رَوِش کا سبب مادّیت کا غلط نشہ تھا، علمائے سائنس نے یہ فرض کرلیا کہ مادّیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوّت انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ سامانی ہے، فضاوٴں میں اُڑنا، دریاوٴں میں تیرنا، چاند پر پہنچنا، سورج کے طول و عرض کو ناپنا اور زہرہ و مشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری معراج ہے، اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس لئے نہ صرف یہ کہ سائنسی دور، دورِ نبوّت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو “مہذب دور” سے اور دورِ قدیم کو (جو انبیاء علیہم السلام کا دور تھا) “تاریک دور” سے تعبیر کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انا لله وانا الیہ راجعون!

بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو

حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے دور میں خود ان کے ہاتھوں مادّی ترقی کے نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دور آج کے دور کی بہ نسبت معاذ اللہ تاریک اور غیرمہذب تھا اور انسانیت نے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی تھیں، بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے مقابلے میں مادّیت کا یہ سارا کھیل بازیچہٴ اطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام “ایٹم” کی دریافت کے لئے نہیں آتے، بلکہ وہ اس ذاتِ عالی سے انسانیت کو آشنا کرتے ہیں جن کے ادنیٰ اشارہ “کُنْ” کے سامنے ہزار سورج کی طاقت ہیچ ہے، ان کی نگہِ بلند صرف کائنات کے باہمی ربط میں کھوکر نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ اس پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا، خالق کی قدرت سے کیا ربط ہے؟ ان کا موضوع چیزوں کی محنت نہیں ہوتا، بلکہ انسان سازی کی محنت ہوتا ہے، ان کے نزدیک ان چیتھڑوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو دُنیا کے نابالغوں نے بڑی خوبصورتی سے الماریوں میں سجا رکھا ہے، ان مٹی کے گھروندوں کی کوئی قیمت نہیں جن کو یہ نادان بچے نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، اور دُنیا کی ظاہری زرق برق میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں جس پر یہ طفلانِ بے شعور ریجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟

ما بعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس، جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے اس کو مشاہدے کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے، چونکہ اس حقیقت کو سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ “ایمان بالغیب” کے تمام سرمایہٴ نبوّت کو ایک خندہٴ استہزاء کی نذر کردیتی ہے، اور یہاں سے اس کی ملحدانہ شفقت کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہی  جہل و غرور   کی وجہ سے “نبوّت” سے کیا جانے والا  انحراف  سائنس دانوں کی تمام تر محرومی کا باعث ہے۔ اگر ان پر کائنات کی اندرونی حقیقت کھل جاتی تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کائنات صرف یہی نہیں جس کا تعلق موت سے قبل کے مشاہدے سے ہے، بلکہ یہ تو اصل کائنات کا ایک حقیر ذرّہ ہے، اور اس ایک ذرّہ کی حقیقت کا بھی ایک ذرّہ آج تک ان پر منکشف نہیں ہوا، اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالقِ کائنات کا راز ان پر کھل جائے تو انہیں معلوم ہوجائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرکے چاند سے چار سیر مٹی لے آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامنِ نبوّت سے کٹ کر سائنس کی اس “سفیہانہ محنت” نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و اضطراب کا “تحفہ” عطا کیا، اوراس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا۔ آج کا مفلوج انسان جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہٴ مشق بن کر رہ گیا ہے، اہلِ عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں “سائنسی ترقی” کا حصہ کتنا ہے؟

راقم الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوّت کے تابع نہیں ہوجاتی، جب تک سائنس کا رُخ دُنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑجاتا اور جب تک سائنس دان انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے، تب تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔

سر سید کی تحریک اور اس کی عصری معنویت

سر سید کی تحریک اور اس کی عصری معنویت

علیم خان فلکی
(یہ مقالہ ایک ادبی محفل میں پڑھا گیا)
معزز سامعین !
جس محفل میں آسمانِ علم کی درخشاں چاند ستاروں جیسی شخصیات موجود ہوں اس میں مجھ جیسے ایک کمزور طالب ِ علم کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا جانا میرے لئے باعثِ اعزاز بھی ہے اور باعثِ امتحان بھی۔ میں اس کے لئے آپ تمام کا شکر گزار ہوں ۔ یہ بات رسماً نہیں حقیقتاِ عرض کر رہا ہوں اس لئے کہ بالخصوص جناب ضیا الدین نیر صاحب اور جناب طارق غازی صاحب کا اس بات کا علم رکھتے ہوئے بھی کہ میں سر سید کی تحریک کی عصری معنویت کا زیادہ قائل نہیں ہوں جب انہوں نے مجھے اپنے اظہارِ خیال کی انتہائی وسعتِ قلبی کے ساتھ اجازت دی تو میرا دل ان کے لئے قدر و اعتراف سے بھر گیا۔ ایسے موقع پر مجھے آپ تمام کے جذبات کی نزاکت کا احساس ہے اس لئے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے مجھے تکلیف بھی ہے مگر یہ خیانت ہوگی کہ اگر محض نمائشی طور پر آپ کے جذبات کی رعائت کر کے وہ بات نہ کہوں جو میرے نزدیک سچی ہے اور جس کا اظہار کرنا عصر کی ایک اہم ضرورت بھی ہے ۔ عصری تعلیم میرے نزدیک سبھی کے لئے اور بالخصوص مسلمانوں کو جہدِ زندگی میں دوسری قوموں کے مقابلے میں سر بلند رہنے کے لئے اتنی ہی نا گزیر ہے جتنی کہ ہوا اور پانی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں پُر جوش داعیانِ تعلیمِ عصر کے لا شعور سے یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ عصری تعلیم سوائے بہتر روزگار اور بہتر رکھ رکھاؤ کے کوئی مقصدِ زندگی بھی عطا کرتی ہے سر سید ہی کے دیئے ہوئے علی گڑھ کے تقریباًسو سالہتجربے کو سامنے رکھ کر اس کی معنویت یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ عصری تعلیم ایک ہاتھ میں آنے کے بعد دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج آجائے یہ نا ممکن ہے۔ اس کے لئے امت کو کچھ اور تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جسے میں اپنے مضمون کے آخری حصہ میں پیش کروں گا۔
میں دیئے گئے موضوع کو دو الگ الگ حصوں میں رکھنا چاہوں گا۔
ایک تو سر سید کی شخصیت دوسری ان کی تحریک کی عصری معنویت۔
اس کی عصری معنویت پر اعتراض کے باوجود میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سر سید جیسی عظیم ، باہمت اور اولوالعزم ہستی جس نے حالی کے بقول ” کام کیا “ تاریخ میں مشکل سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ تاریخ کے ایک انتہائی ہولناک دور میں انہوں نے ایک شکستہ اور منتشر قوم کو کھڑا کرنے کی کوشش کیان کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
دو قومی نظریہ ، خلافت تحریک نظریۂ پاکستان کی عملی تشکیل جنگِ آزادئی ہند اور اس کے بعد سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی جنگ۔ ان تمام تاریخی مراحل کے تانے بانے جاکر سر سید ہی سے ملتے ہیں۔سر سید کی حرکی و انقلابی شخصیت پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائیگا کم ہے ۔
چونکہ وقت کی تنگی ہے اس لئے میں سر سید کی عصری معنویت پر آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ اور ظاہر ہے عصر سے مراد عصرِ حاضر ہی ہے جو اب اکیسویں صدی میں داخل ہونے جا رہا ہے۔کسی شخصیت با تحریک کی عصری معنویت تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے ان حالات کا جائزہ لینا بلکہ تقابل کرنا لازمی ہے جو ہر دو عصروں میں در پیش تھے ۔ 1857ء اور اس کے بعد کا مسلمانوں کی شکست و زوال کی تاریخ کا وہ بد ترین المناک دور جس کو سر سید نے اپنی آنکھوں دیکھا کیا آج بھی وہی دور درپیش ہے یا کہ مختلف ؟
کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخصیت یا تحریک جو اپنے عصر کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتی ہو کسی اور عصر کے لئے فرشتۂ اجل ثابت ہو۔ سر سید نے اپنے عصر میں جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً ایک پیغمبرانہ مشن تھا۔ جتنے بھی پیغمبر رُوئے زمین پر آئے انہوں نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے وقت کے مسائل کے حل کی جنگ لڑی۔ یہ سعادت سر سید کے حصے میں بھی آئی۔ وہ عمر کے پختہ شعوری حصہ میں تھے جب 1857ء کی ہولناک آگ پوری شدت سے بھڑک رہی تھی۔ ہزاروں علماء، رُوساء و دانشور شہید کئے جا چکے تھے۔نئے حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کو پسپا کرنے کا عمل مکمل کر لیا تھا مسلمان اپنی حکومت سے ہی نہیں اپنی تہذیب، تاریخ ، زبان اور مذہب سے تقریباً بے دخل کئے جا چکے تھے اب سر سید کے سامنے دہلی ، میرٹھ اور علی گڑھ کے اطراف و اکناف کی ایسی لُٹی پٹی قوم تھی جو نئے حکمراونوں کے عتاب کا اس لئے شکار تھی کہ اس کے پاس اب وہ ذریعہ ، تعلیم نہ تھا جو اسے دوبارہ انتظامیہ ہی نہیں عدالت ، کاروبار ، سیاست و معیشت ط اسکول کالج میں برابر کا حق دلوا سکے ۔
میں یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہوں گا جو کہ شخصیت پرستی کے غلو میں بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ مسلمان تعلیم سے نا آشنا تھے اور سر سید نے مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان نا خواندہ تھے بارہ سو سالہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان ہی نہیں دنیا مین جہاں جہاں مسلمان گئے دوسری قومیں تعلیم اور تہذیب کے معاملے میں مسلمانوں کی مرہونِ منت رہیں۔ خود ہندوستان میں مسلمان دس بارہ فیصد ہونے کے باوجود اپنی طرزِ تعلیم کے ذریعے باقی نوے فیصد ہندوؤں پر حکومت کرتے رہے ۔ ہندو مسلمانوں کی زبان تعلیم تہذیب کے ذریعے ہی صدیوں حکومت کے انتظامیہ میں شریکِ کار رہے۔ خود انگریز برسہا برس تک مسلمانوں ہی کے دیئے ہوئے انتظامیہ کو اپنائے رہا۔ راجہ رام موہن رائے جیسا کٹر مذہب پرست ریفارمر فارسی اور اردو میں اخبار نکال کر اپنی قوم کو مسلمانوں کے قریب کرنے کی اسی طرح کوشش کرتا رہا جس طرح بعد میں سر سید نے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ۔
بہر حال مسلمان تعلیم یافتہ تھے لیکن اس اصطلاح میں نہیں جس اصطلاح میں نئے حکمرانوں کو مطلوب تھے اسی لئے مسلمانوں کی تعلیم و ہنر ، علوم و فنون ، عظیم ہونے کے باوجود ذریعہ ، روزگار بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ جو تعلیم باعثِ خوشنودئی حکمران تھی وہ مسلمانوں کے لئے اجنبی تھی اور اجنبی ہی نہیں باعثِ نفرت بھی ۔ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ یا تو اجنبی تعلیم کو اپنا کر اپنی تعلیم سے اجنبی ہو جائں یا پھر اپنی تعلیم کا تحفظ کرین اور اجنبی تعلیم سے کنارہ کش رہیں۔ ہندو کے لئے یہ مسلۂ در پیش نہیں تھا ۔ ایک محکوم جو صدیوں سے محکومیت کے عادی تھے ان کے لئے ایک حکمران سے دوسرے حکمران کی رعیت مین چلے جانااس طرح تھا جس طرح ایک ملازم کو پرانے منیجر کی ما تحتی سے نئے منیجر کی ماتحتی میں منتقل ہو جانا۔ سر سید کے سامنے جو مسائل تھے کہ کس طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں بیشتر خیر خواہ بھی ہیں ہر مسلمان ان سے عدم تعاون نہیں چاہتا کئی ایک ان کے ساتھ بہترین معاون و مدد گار بھی ہو سکتے ہیں ۔
اسی سلسلے میں انہوں نے Anglo Muslim Friendship پر کتاب اور مضامین بھی لکھے ۔ مسلمان جس تیزی سے سیاسی، سماجی و اخلاقی پستی کی طرف جا رہے تھے اسی رفتار سے معاشی بد حالی ان کا پیچھا کر رہی تھی ۔ دوسری طرف ہندو تیزی سے عہدوں اور اختیارات سے سر فراز ہو رہے تھے اور انگریز کے لئے مسلمانوں کو زیر کرنے بہترین دستِ تعاون بن رہے تھے ۔ یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ پدرم سلطان بود کا نعرہ دیا جاتا اور نہ ایسا وقت تھا کہ کوئی سیاسی تحریک شروع کی جاتی۔ سیاست میں اترنے کے لئے عصری تعلیم نا گزیر تھی جس کا سر سید نے تذکرہ کیا ہے ۔ اس لئے سر سید نے تہذیب الاخلاق اور اسبابِ بغاوتِ ہند کے ذریعۂ امراضِ قوم کی بالکل صحیح تشخیص کرنے کے بعد ایک علاج تجویز کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ یہ کارزارِ حیات میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہیں ۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہر طبیب یا ڈاکٹر جس کی تشخیص صحیح ہو اس کا تجویز کردہ نسخہ بھی کام کر جائے ۔ جس طرح شاہ اسمعیل شہید نے امت کس تشخیص کی اور نسخۂ جہاد پیش کیا ۔ قاسم ناناتوی نے بے شمار کتب و مذاکروں کے ذریعے اچھی طرح حالات کا جائزہ لیا اور نسخہ دیوبند پیش کیا اس صدی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ البلاغ اور الہلال کے ذریعے تشخیص نے ابوالکلام آزاد کو نسخۂ کانگریس سمجھایا اسی طرح جس طرح حسین المدنی کو بھی۔ الجمعیة اور ترجمان القرآن کے ذریعے پہلے مولانا ابولاعلی مودودی نے تشخیصِ امت کی اور پھر ایک تحریک کے ذریعہ بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنے کا نسخہ تجویز کیا۔ سبھی کو چند مخلص طالبانِ حق ساتھی میسر آئے اور انہوں نے پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ جو حل ذہن میں آیا اس پر عمل کیا۔ یہ سبھی وہ جہاندیدہ درد مندانِ قوم ہیں جن کے خلوص اور للہیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ بارگاہِ خداوندی میں یقیناً درجات کی بلندی منصوبہ بندیوں کی کامیابیوں پر نہیں بلکہ ان کے وقف کر دہ خلوصِ ہمت و عزیمت و للہیت پر منحصر ہے ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ان بزرگوں نے اپنا حقِ بندگی ادا کر دیا اور عند اللہ بلند ترین مقامات کے حقدار ہو گئے ۔ ہاں اب ہمیں اپنے عہد کی منصوبہ بندی کے لئے ان بزرگوں کے کارناموں کی عصری معنویت تلاش کرنا لازمی ہے ۔ نیت یہ نہ ہو کہ ان پر تنقید کی جائے بلکہ یہ ہو کہ ان کے منفی اور مثبت اثرات پر غور کر کے آئندہ کا لائحۂ عمل مرتب کیا جائے ۔
سر سید نے حل یہ پیش کیا کہ مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ دوسری قوموں کی طرح یہ بھی ہر میدان میں ترقی کریں یہ نہ صرف ایک ہنگامی اور Reactionary جذبہ تھا بلکہ قوم پرستانہ بھی۔ اپنی قوم کی ترقی کی خواہش فطرتِ انسانی میں داخل ہے وہ کوئی برہمن ہو کہ ہریجن انگریز ہوں کہ عرب ہر شخص کی یہ نیک تمنا ہوتی ہے کہ اس کی قوم دوسری قوموں سے آگے بڑھے ۔ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کا غلبہ ہو ۔ قومیت ، علاقائت، لسانئت یا رنگ و نسل کی بنیاد پر اٹھنے والی شخصیتیں یا تحریکیں وقتی طور پر تو کامیاب ہوتی ہیں لیکن مستقبل کے لئے عصبیتوں کے بیج بو جاتی ہیں ۔ سر سید کے اپنے عصر کے لئے بہرحال یہ حل ناگزیر تھا لیکن ہمارے عصرکے لئے نہیں کیونکہ اس وقت مسلمان نہ عصری تعلیم کا قائل تھا نہ اس کے پاس کوئیذ ریعہ تھا۔ سر سیدنے قائل بھی کیا اور ذریعہ بھی دیا ۔ آج ہندوستان میں اتنے بے شمار کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں آچکی ہیں کہ مسلم کالج یا یونیورسٹی ہی ہو یہ ضروری تو نہیں اس لئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نکلنے والے طلباء سے نہ فکر میں مختلف ہیں نہ عمل میں ۔ پوکھران دھماکوں کا مسلمانخالق سائنسدا ن کسی بھی یونیورسٹی سے آ سکتا ہے یہ قوم پرستانہ سوچ ہمارے عصر کے لئے زہرِ قاتل ہے اب مسلم اسکول مسلم کالج مسلم یونیورسٹی مسلم جماعت اسلامک آرٹ اسلامک انوسٹمنٹ اسلامک بینک اسلامک پورٹ وغیرہ کی سوچ بند ہونی چاہئے ہمارا ہر شعبہ حقیقتاً اسلامی ہو جائے یہ تو ہم سبھی کی تمنا ہے لیکن :
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
اور حقائق یہ ہیں کہ یہ سارے مسلم دریا پھر اسی غیر مسلم سمندر میں جا گرتے ہیں جن سے فرار کم از کم اس عصر کے لئے خود فریبی اور جہاں فریبی ہے۔ سر سید کے عصر سے یہ عصر قطعی مختلف ہے مسلمانوں کے لئے مقابلہ سخت ضرور ہے لیکن سر سید کی محنت و اولوالعزمی رکھنے والے کے لئے نہ نجات اللہ صدیقی بننا نا ممکن ہے نہ جسٹس احمدی۔
دوسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ سر سید نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ علیگڑھ سے نکلنے والے طلبا کے ایک ہاتھ میں عصری علوم ہونگے دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہوگا۔ کسی نقاد نے مسلمانوں کے بارے میں سچ ہی کہا ہے کہ ” یہ کام پہلے کرتے ہیں سوچتے بعد میں ہیں “ ۔ قاسم ناناتوی نے عصری تعلیم کو رد کیا اس لئے وہ کسی کالج یا یونیورسٹی سے الحاق کے پابند نہیں رہے اور آج تک بھی نہیں ہیں لیکن سر سید کے عصری تعلیمی مدرسہ و کالج کا کسی نہ کسی یونیورسٹی سے الحاق لازمی تھا جو پہلے کلکتہ یونیورسٹی اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے عمل میں آیا۔ الحاق یا Affliation آپ جانتے ہیں کہ آزادئی فکر کی صلیب ہوتی ہے۔ عصری تعلیم سے لیس ہونے کے بعد طلبا سے غلبۂ امت تحفظِ قوم بقائے تہذیب و زبان کے کام لینے کا خواب یقیناً سر سید کے ذہن میں رہا ہوگا۔ لیکن انگور کے بیج بو کر آم کی تمنا کی طرح ۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج وغیرہ جیسے مقاصد ہیں وہ دوسرے تیسرے درجہ کے مقاصد ہیں جو فطری طور پر خشت ِاول یعنی عصری تعلیم کے پہلے مقصد کے تابع تھے ۔عصری تعلیم کا الحاق جن یونیورسٹیوں سے کرنا ناگزیر تھا وہ یونیورسٹیاں کسی طالبِ علم کو اس وقت سند دینے سے قاصر تھیں جب تک طالبِ علم ان کے دیئے ہوئے نصاب کو نہ اپنا لے وہ ایسے طلباء کو تو سند عطا کر سکتی ہیں جو بہ آسانی حکومت کے بہترین کارندے بنانے والے نصاب پر محنت کر سکتے ہوں۔ آقا کبھی اپنے غلاموں کو ایسی تعلیم نہیں دیا کرتے جس کے ذریعے غلام آقا بننے کے قابل ہو جائیں۔
اگر انگریز یا ہندو مسلمانوں کی دینی و تہذیبی بقا کی تعلیم پر مشتمل نصاب کو سند دیتے تو پھر انہیں مسلمانوں کو برباد کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ یہ کیسے ممکن تھا Simple Interest اور Compound Interest سیکھ کر نکلنے والا طالبِ علم یونیورسٹی سے نکل کر سود کا دشمن ہو جائے ۔ لاکھوں میں چند ایک ہو بھی جائیں تو وہ محض اپنی صالح فطرت اور تربیت کی وجہ سے ہو سکتے ہیں نہ کہ یونیورسٹی کی وجہ سے ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مغربی طرزِ قانون بڑھ کر ایک طالبِ علم اسلامی نظامِ قانون کا قائل ہو جائے اگر مسلم کالج یا مسلم یونیورسٹی میں شامل لفظ مسلم کی رعایت سے دینیات پڑھانے کی اجازت مل بھی گئی ہوگی تو اسے پڑھ کر طلباء اور بھی زیادہ تضاداتِ ذہنی کا شکار ہوئے۔
ڈارون کی تھیوری پڑھ کر نکلنے والا طالبِ علم تخلیقِ آدم پر ایمان لائے ، یہ ممکن تو نہیں تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبا کی اکثریت مرعوب، منحرف اور مرتد ہو کر نکلی۔ اور نکل کر حکامِ وقت کے بہترین ترجمان و مددگار بنتے رہے ۔ علیگڑھ نے اپنے ابتدائی دور میں ہی ثنا خوانِ تہذیب ِ مغرب کا ایک ایسا جتھہ پیدا کر دیا جو انگریزی استمار کی رفیع الشان تجارت کو استحکام بخشنے والے پتھر ثابت ہوئے۔
یہ سورما خوفِ غلامی میں کامل تھے دینی جذبے سے عاری بے حیائی میں طاق اور دنیا کی کسی بھی بد ترین طرزِ فکر کو پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ خواہ وہ کمیونزم ہو کہ سوشلزم ، نیشنلزم ہو کہ الحاد و دہریت مسلمانوں میں اسلامی فکر سے اختلاف رکھنے والی ہندوستان میں جتنی بڑی ترقی اور خوشحالی عطا کرنے والی یونیورسٹیوں کی تعمیر کلیسا کو تعلیم سے الگ کرنے کی تھی اس لئے علیگڑھ کے لئے بھی یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں قرآن دے۔ یہ نا ممکن تھا کہ سر سید جیسے دور اندیش، قلندر دانش کی نظر سے عصری تعلیم کا یہ انجام اوجھل رہا ہوگا لیکن اس وقت کے حالات ہی ایسے تھے کہ جیسا کہ طارق غازی صاحب نے اپنے پچھلے سال کے مقالہ میں فرمایا کہ:
It was the change - not the agent of the change that mattered to Sir Syed
سوال یہ بھی ہے کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم جینے والے ایک سے اعلی ایک استاد تو انگلینڈ سے بھی بلا لئے گئے لیکن دوسرے ہاتھ میں قرآن دینے والے استاد بھی کوئی وہاں اتنی ہی تعداد میں موجود تھے؟ اور اگر ہوتے تو کیا ایک میان میں ایک دو تلواریں رہ پاتیں؟ یہی وجہ تھی کہ اکبر تو شروع سے سر سید کے مخالف تھے ہی لیکن شبلی بھی آخر عمر میں مخالف ہو گئے۔
یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ کر دوں کہ بدر کے قیدیوں کو جزیہ کے طور پر مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام لیا جاتا جو کہ جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس لئے صحیح نہیں ہے کہ وہاں مسلمانوں کو اپنے مقصد اور ضرورتِ تعلیم کا پورا پورا شعور حاصل تھا اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے غیر مسلم استادوں کو بھی مامور کیا تھا علیگڑھ کے لئے یہ مثال اس لئے غیر موزوں ہے کہ وہاں روزِ اول سے ہی غیر مسلم نصاب پورا کرنے مسلم طلبا کو مامور کرنا ایک مجبوری تھی۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم یقیناً نا گزیر ہے اگر یہ نہ ہوتی تو آپ اور ہم اتنی بے فکری اور آرام کے ساتھ یہاں بیٹھ کر قوم کے ماضی اور مستقبل پر غور نہ فرماتے لیکن اس کا تعلق فرد کی معاشیات سے ہے ۔ اعلیٰ تعلیم اور اس کے نتیجے میں ملنے والے اعلیٰ عہدے اور اہم پیشے یہ سب فرد کو مالی استحکام ، خوشحال زندگی اور اچھے شہری ہونے کا شرف تو عطا کر سکتے ہیں لیکن اس سے قوم کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے یہ قابلِ غور نکتہ ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کے ان کی ناول ” ابن الوقت “ کے الفاظ میں
” ذلیل قوم کا آدمی چاہے کتنا مالدار یا ہنر مند ہو جائے ناصہ ، امارت سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتا “
عصری تعلیم اکبر الہ آبادی کے بقول :
روٹی دے کر دین و مذہب سے چھین لیتی ہے ۔
بنارس ہندو یونیورسٹی سے نکلنے والے ہندو نوجوان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں رامائنا اور سر پر ہندوتوا کا تاج لے کر نکلے کیونکہ فی الحقیقت نہ رامائنا کوئی ٹھوس ہدایت ہے اور نہ ہندوتوا کوئی دین ہے۔ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے اس کے لئے یونیورسٹی صرف ذریعۂ روزگار ہے ۔ دین و تہذیب کے نعرے جو علی گڑھ تہذیب سے جوڑے گئے شرمندۂ تعبیر نہ ہونے والے خواب تھے ۔ ابنِ خلدون نے علم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے اور بالکل صحیح کی ہے ایک وہ جو ذریعۂ روزگار ہے دوسرے وہ جو ذریعۂ کمالِ ذات ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبا کو روزِ اول سے یہ احساس دلایا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں بہترین ذریعہ ، روزگار تو دے سکتی ہیں لیکن کمالِ ذات نہیں ورنہ وہ بھی پچھلی نسلوں کی طرح ڈگری حاصل کر کے اصلی ” تعلیم یافتہ “ کہلانے کے زعم میں زندگی ضائع کر دیں گے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ڈپلومیٹس وغیرہ کا دنیا میں اضافہ تو یقیناً ہوتا رہے گا لیکن مسلمانوں کا سیاسی، سماجی و اخلاقی گراف مسلسل گرتا رہے گاجیسا کہ آزادی کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں۔
اگر چیکہ ہم عصری تعلیم کے مبلغین کی زبانی ” نشاة ثانیہ “ کے پُر جوش بیانات سے دل بہلا لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ” ایک ملک ایک قوم اور ایک کلچر “ کے تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں یہ گراف مسلسل صفر کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ آج ہمارے پاس سر سید کے دور کے مقابلے میں so called تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد کئی ہزار فیصد زیادہ ہے۔ آخر میں میں سر سید کی عصری معنویت کی یوں توضیح کر وں گا کہ :
” عصری علوم کا حصول آج بھی مسلمانوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے تا کہ وہ نہ صرف بہتر سے بہتر روزگار حاصل کر سکیں بلکہ ایک ذمہ دار شہری کی طرح جمہوری اور سیکیولر ہندوستان میں زندگی گزار سکیں۔ لیکن اس تعلیم سے ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج بھی رو نما ہو جائے گا، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے عصری تعلیم کے مشن کو زندہ رکھتے ہوئے ایسے ادارے اور جماعتیں زیادہ سے زیادہ وجود میں آئیں جو عصری علوم حاصل کر کے نکلنے والے دینی اور تہذیبی طور پر خام ذہنوں کو پختگی کا سامان مہیا کرنے کا کام کریں تاکہ دین کی اصل روح ان میں زندہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم کے مجھ جیسے اور آپ سبھی جیسے پُر جوش حامیوں پر لازم ہے کہ وہ دین کے معاملے میں معذرت خواہانہ ، مرعوبانہ و معروزانہ رویّہ ترک کریں ، احساسِ کمتری اور خوف سے باہر آئیں ۔ جہاں عصری تعلیم کے مراکز لا دینی تحریکوں کو بھی اپنے اندر پھیلنے پھولنے کا جمہوری حق دیتے ہیں وہیں ہم اسلامی بیداری کی حامل جماعتوں اور اداروں کے لئے کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں “۔
شکریہ۔



{{مقالہ میں پیش کردہ خیالات مصنف کے ذاتی ہیں۔ امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔}}

A General Overview of the Relationship between Islam and Science

A General Overview of the Relationship between Islam and Science

 The relationship between Islam and science has varied over time. Most Muslims consider that natural science and all other scientific pursuits are related to Tawhid. This term is used to refer to a concept that is at the center of Islam: the Oneness of God. Muslims do not consider the workings of the Universe and of Nature as something separate from God, but as something that is intimately linked to the relationship between God and Humanity. It is because of this that the Science is considered a noble pursuit within Islam.

The Qur'an considers that the study of nature is a path that enlightens Man by pointing him toward God. This is why Science has always occupied an exalted place in Islamic society, especially during the Golden Age of Islam, before the fall of the great Muslim Caliphates. Muslim scientists can be credited with pioneering the basis of all modern science, the scientific method. The contributions of great Muslim thinkers like Alhazen paved the way for the scientific advances that followed in the West. Most historians will agree that the knowledge that was preserved and that originated in the Islamic world of the Golden Age of Islam is the basis for all modern science.
In modern times, Muslim philosophers have attempted to integrate the pursuit of scientific knowledge within Islam; however, there is much dissent on many controversial details about certain scientific advances and concepts. Even so, it is generally agreed by most Muslim scholars that the pursuit of knowledge of the physical world and scientific experimentation in them are not opposed to core Islamic values. Islam in itself has its own core beliefs about how the world works which are detailed in the Qur'an, a message for Mankind that was revealed to the Prophet Muhammad. Meanwhile, the scientific method does not accept dogma, but states that knowledge must be gained through experimentation and through a specific method. While these two concepts would seem to be opposed, it is important to understand the Muslim viewpoint of the physical world. Muslims believe that there is no possibility of the paranormal or the supernatural in this life. This is due to the fact that Muslims believe that God, in His perfection, would not allow His own laws to be broken. Because of this, Islam has always rejected the supernatural and superstition – especially in a historical period in which most of the world still adhered to the supernatural as a reasonable explanation of nature's phenomena.
Religion in itself has several elements that are opposed to Science; Islam is no exception. However, the unique viewpoints of Islam in regards to Man's freedom to explore and learn about Nature and the World have always made Islam a religion that welcomes and rewards scientific knowledge.


-- Al Arabiya Digital

 

Islam And Tolerance And Non-Violence

Islam And Tolerance And Non-Violence

Islam is a religion of peace – peace to humanity and one and all. It is a religion to lead mankind from the depths of darkness and ignorance towards the path of light and knowledge. The literal meaning of Islam, derived from the Arabic word Salaam, means peace. The word “Islam” has another root derivation – Slim – which means surrender or submission. In short, Islam means peace acquired by humans by submitting their will to the Will of Allah.

Moreover, Islam not only fosters love between fellow Muslims; rather it is a merciful for all of humankind. The “peace” of Islam has got many dimensions: peace with Allah, peace with society and peace with all of mankind irrespective of caste, creed and religion. Islam guides people to the path of non-violence and tolerance and shows the path of righteousness and piety.
Coming to the point, a religion with such high values enshrined in its very name is misunderstood by the bulk of humans as violent and intolerant. If any Muslim commits a wrong, it is directly or indirectly attributed to Islam. The misinterpretation of many mischievous people has given a bad name to this “religion of peace”. But, at this critical point, people should know that Islam is not what X or Y says. It is not this scholar’s or that scholar’s interpretation; Islam is what the Holy Scripture – the Quran says and what Muhammad– the Prophet of Islam says. They are the two primary sources of Islam.
Islam is against compulsion in religion
It is enshrined in the the Holy Quran that there is no compulsion in Islam. Muslims are prohibited to force people of other faiths to accept Islam. There is no tolerance for one who forces another person to submit to his/ her will and convert to the religion unwillingly. Allah says:
“Let there be no compulsion in religion: Truth stands out clear from Error: whoever rejects evil and believes in Allah has grasped the most trustworthy hand-hold, that never breaks. And Allah hears and knows all things. ” [Sura Baqara 2:256]
This is the foundation for tolerance towards any and every religion and their people. There is no force and no compulsion on any individual to accept Islam. If he or she wants to accept Islam, it has to be necessarily out of their own free will and not at the point of sword. This is the essence of Islam. Islam is an open invitation to mankind and they have the full right either to accept it or to reject it.
Islam is non-violent and tolerant
Violence is not in the dictionary of Islam. There is no place for violence, neither in the Holy Quran nor in the Sunnah (Prophetic traditions). It is mentioned at several places in the Holy Quran that Allah does not like those who spread mischief on this earth. One such verse is:
 “…Allah does not love those who do mischief…” [Sura Mai’dah 5:64]. “Mischief”, in Arabic is Fasad, and it can refer to murder, corruption, evil and violence. So, when Allah does not like those who spread violence, how can He legislate violence in His Deen? These two opposites can never exist in Islam.
Moreover, the biggest violence – killing innocent people – is repudiated in such strong words the likes of which are found in no other religious scripture:
“…if any one kills a person - unless it be for murder or for spreading mischief in the land - it would be as if he killed the whole humanity: and if any one saved a life, it would be as if he saved the life of the whole humanity…”[Sura Mai’dah 5:31]
This verse explicitly denounces any innocent killing. Even in retaliation or in war, Muslims are not supposed to kill innocent people. In a Hadith (Prophetic Tradition), Muhammad said: “Go out in the name of Allah and by the help of Allah, following the way of the Messenger of Allah. Do not kill any old man, infant, child or woman… spread goodness and do good, for Allah loves those who do good.”(Abu Dawood).
At other place in the Holy Quran, Allah asks the believer to keep the door for peace wide open. The door of peace is open all the time in Islam, even in a battle field. Allah says, “… If the enemy incline towards peace, you (also) incline towards peace, and trust in Allah…”[Sura Anfal 8:61].
Even in retaliation, a Muslim is not supposed to transgress. If you have been wronged by some person, you have no right to wrong them or any other person to take revenge. And, if you are helpless and unable to do anything, Islam orders you to cling to patience. There is no permission for violence, whatsoever, in Islam at any point of time. Reflecting on the following Hadith: "If anyone harms (others), Allah will harm him, and if anyone shows hostility to others, Allah will show hostility to him." (Abu Dawood), makes it clear that complete tolerance, peace and perseverance are the virtues ascribed by the religion. 

courtesy Islamonline

 

حسن اخلاق اور خانقاہی تعلیمات


اسلامی نظرءیہ کاءنات کے اثرات


Thursday 26 April 2012

امام غزالی ۔

امام غزالی

ماخذ :تجدید احیاۓ دین ۔ سید ابو الاعلی مودودی

     عمر ابن عبد العزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور پھر ترکی النسل پادشاہوں کا اقتدار قائم ہوا۔ ان حکومتوں نے جو خدمات انجام دیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف یونان، روم اور عجم کے جاہلی فلسفوں کو جوں کا توں لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا اور دوسری طرف علوم و فنون اور تمدن و معاشرت میں جاہلیتِ اولٰی کی تمام گمراہیوں کو اپنی دولت اور طاقت کے زور سے شائع و ذائع کیا۔ عباسی خاندان کے تنزل نے مزید نقصان یہ پہنچایا کہ ابتدائی عباسی "خلفاء" کے بعد دنیوی اقتدار کی باگیں جن لوگوں کے ہاتھ میں آئیں وہ علومِ دینی سے بالکل ہی کورے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ قضاء اور افتاء کے عہدوں کے لیے اہل آدمی منتخب کر سکتے۔ اپنی جہالت اور سہولت پسندی کی وجہ سے وہ احکامِ شرعیہ کی تنفیذ کا کام ایسے لگے بندھے طریقوں پر کرنا چاہتے تھے جن میں کسی کدّ و کاوِش کی ضرورت نہ ہو، اور اس کے لیے تقلیدِ جامد ہی کا راستہ موزوں تھا۔ مزید برآں دنیا پرست علماء نے ان کو مذہبی مناظروں کی چاٹ بھی لگا دی، اور پھر شاہی سرپرستی میں یہ مرض اتنا پھیلا کہ اس نے تمام مسلم ممالک میں فرقہ بندی، اختلاف اور سر پھٹول کی وبا پھیلا دی۔ امراء و سلاطین کے لیے تو مذہبی مناظرے ، مرغ بازی اور بٹیر بازی کی طرح محض ایک تفریح تھے ، مگر عام مسلمانوں کے لیے یہ وہ قینچیاں تھیں جنہوں نے ان کی دینی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ پانچویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا کہ:
(1) یونانی فلسفے کی اشاعت سے عقائد کی بنیادیں ہل گئیں۔ محدثین و فقہاء علومِ عقلیہ سے ناواقف تھے اس لیے نظامِ دین کو مقتضائے زمانہ کے مطابق معقولی انداز میں نہ سمجھا سکتے تھے اور زجر و توبیخ سے اعتقادی گمراہیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ علومِ عقلیہ میں جن لوگوں کے کمال کا شہرہ تھا وہ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ میں کوئی بصیرت نہ رکھتے تھے بلکہ خود علومِ عقلیہ میں بھی انہیں کوئی مجتہدانہ نظر حاصل نہ تھی۔ وہ فلاسفۂ یونان کے بالکل غلام تھے ، ان میں کوئی ایسا بالغ النظر آدمی نہ تھا جو تنقید کی نگاہ سے اس یونانی لٹریچر کا جائزہ لیتا۔ انہوں نے وحی یونانی کو اٹل سمجھ کر لیا اور وحی آسمانی کو توڑنا مروڑنا شروع کیا تاکہ وہ وحی یونانی کے مطابق ڈھل جائے۔ ان حالات کا عام مسلمانوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ دین کو ایک غیر معقول چیز سمجھنے لگے ، اس کی ہر چیز انہیں مشکوک نظر آنے لگی اور ان میں یہ خیال جاگزیں ہوتا چلا گیا کہ ہمارا دین ایک چھوئی موئی کا درخت ہے جو عقلی امتحان کی ایک ذرا سی ٹھیس ہی سے مرجھا جاتا ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے متبعین نے اس رو کو بدلنے کی کوشش کی، مگر یہ گروہ متکلمین کے علوم سے تو واقف تھا لیکن معقولات کے گھر کا بھیدی نہ تھا، اس لیے وہ اس عام بے اعتقادی کی رفتار کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، بلکہ معتزلہ کی ضد میں اس نے بعض ایسی باتوں کا التزام کیا جو فی الواقع عقائدِ دین میں سے نہ تھیں۔
(2) جاہل فرمانرواؤں کے اثر سے ، اور علومِ دینی کو مادّی وسائل کی تائید بہم نہ پہنچنے کے سبب اجتہاد کے چشمے خشک ہو گئے ، تقلیدِ جامد کی بیماری پھیل گئی، مذہبی اختلافات نے ترقی کر کے ذرا ذرا سے جزئیات پر نئے نئے فرقے پیدا کر دیے اور ان فرقوں کی باہمی لڑائیوں سے مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی کہ گویا علٰی شفا حفرة مّن النّار ہیں۔
(3) مشرق سے مغرب تک مسلم ممالک میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو گیا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ قرآن اور نبوت کی روشنی سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی بڑی حد تک خالی ہو گئی۔ علماء، امراء، عوام، سب بھول گئے کہ خدا کی کتاب اور رسول کی سنت بھی کوئی چیز ہے جس کی طرف ہدایت و رہنمائی کے لیے کبھی رجوع کرنا چاہیے۔
(4) شاہی درباروں ، خاندانوں اور حکمران طبقوں کی عیاشانہ زندگی اور خود غرضانہ لڑائیوں کی وجہ سے عموماً رعایا تباہ حال ہو رہی تھی۔ ناجائز ٹیکسوں کے بار نے معاشی زندگی کو نہایت خراب کر دیا تھا۔ تمدن کو حقیقی فائدہ پہنچانے والے علوم و صنائع رو بہ تنزل تھے اور ان فنون کا زور تھا جو شاہی درباروں میں قدر و منزلت رکھتے تھے مگر اخلاق و تمدن کے لیے غارت گر تھے۔آثار سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ عام تباہی کا وقت قریب آ لگا ہے۔
     یہ حالات تھے جب پانچویں صدی کے وسط میں امام غزالی15 پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتداءً اُسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانہ میں دنیوی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ انہی علوم میں کمال پیدا کیا جن کی بازار میں مانگ تھی۔ پھر اس جنس کو لے کر وہیں پہنچے جہاں کے لیے تیار ہوئے تھے اور ان بلند ترین مراتب تک ترقی کی جن کا تصور اس زمانے میں کوئی عالم کر سکتا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ----نظامیہ بغداد ----- کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور "خلیفہ" بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرمانروا اور عباسی "خلیفہ" کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے تھے ان کو سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان کی زندگی میں انقلاب رونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے اُسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا، اور اسی قدر ان کے ضمیر نے زیادہ زور سے صدا لگانی شروع کی کہ تم اس گندے سمندر کی شناوری کے لیے نہیں بلکہ تمہارا فرض کچھ اور ہے۔ آخر کار اُن تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ فقیر بن کر سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گوشوں اور ویرانوں میں غور و خوض کیا۔ چل پھر کر عام مسلمانوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا۔ مدتوں تک مجاہدات و ریاضات سے اپنی روح کو صاف کرتے رہے۔ 38 سال کی عمر میں نکلے تھے ، پورے دس برس کے بعد 48 برس کی عمر میں واپس ہوئے۔ اس طویل غور و فکر و مشاہدہ کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی، جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرز پر تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی کیونکہ پانچ چھ سال سے زیادہ ان کو اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی۔
     امام غزالی کے تجدیدی کام کا خلاصہ یہ ہے :
     اولاً انہوں نے فلسفۂ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کر کے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھ بیٹھے تھے ، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سوا دین کے بچاؤ کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آتی تھی، اُن کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفۂ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا فتحِ باب کرنے میں حصہ لیا۔
     ثانیاً انہوں نے اُن غلطیوں کی اصلاح کی جو فلاسفہ اور متکلمین کی ضد میں اسلام کے وہ حمایتی کر رہے تھے جو علومِ عقلیہ میں گہری بصیرت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی قسم کی حماقتیں کر رہے تھے جو بعد میں یورپ کے پادریوں نے کیں ، یعنی مذہبی عقائد کے عقلی ثبوت کو بعض صریح غیر معقول باتوں پر موقوف سمجھ کر خواہ مخواہ اُن کو اصولِ موضوعہ قرار دے لینا، پھر اُن اصولِ موضوعہ کو بھی عقائد دین میں داخل کر کے ہر اُس شخص کی تکفیر کرنا جو اُن کا قائل نہ ہو، اور ہر اُس برہان یا تجربے یا مشاہدہ کو دین کے لیے خطرہ سمجھنا جس سے ان خود ساختہ اصولِ موضوعہ کی غلطی ثابت ہوتی ہو۔ اسی چیز نے یورپ کو بالآخر دہریت کی طرف دھکیل دیا اور یہی مسلم ممالک میں بھی شدت کے ساتھ کارفرما تھی اور لوگوں میں بے اعتقادی پیدا کر رہی تھی۔ مگر امام غزالی نے بروقت اس کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمہارے عقائدِ دینی کا اثبات ان غیر معقولات کے التزام پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے معقول دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں پر اصرار فضول ہے۔
     ثالثاً، انہوں نے اسلام کے عقائد اور اساسیات (fundamentals) کی ایسی معقول تعبیر پیش کی جس پر کم از کم اس زمانہ کے ، اور بعد کی کئی صدیوں تک کے معقولات کی بناء پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے احکامِ شریعت اور عبادات و مناسک کے اسرار و مصالح بھی بیان کیے اور دین کا ایک ایسا تصور لوگوں کے سامنے رکھا جس سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جن کی بناء پر یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اسلام عقلی امتحان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔
     رابعاً، انہوں نے اپنے وقت کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات پر نظر ڈالی اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں ، کن حدود کے اندر انسان کے لیے رائے و تاویل کی آزادی ہے اور کن حدود سے تجاوز کرنے کے معنی اسلام سے نکل جانے کے ہیں ، اسلام کے اصلی عقائد کون سے ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جن کو خواہ مخواہ عقائدِ دین میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اس تحقیقات نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور تکفیر بازی کرنے والے فرقوں کی سرنگوں میں سے بہت سی بارود نکال دی اور لوگوں کے زاویۂ نظر میں وسعت پیدا کی۔
     خامساً، انہوں نے دین کے فہم کو تازہ کیا۔ بے شعور مذہبیت کو فضول ٹھیرایا۔ تقلیدِ جامد کی سخت مخالفت کی۔ لوگوں کو کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ کے چشمۂ فیض کی طرف پھر سے توجہ دلائی،اجتہاد کی روح کو تازہ کرنے کی کوشش کی، اور اپنے عہد کے تقریباً ہر گروہ کی گمراہیوں اور کمزوریوں پر تنقید کر کے اصلاح کی طرف عام دعوت دی۔
     سادساً، انہوں نے اُس نظامِ تعلیم پر تنقید کی جو بالکل فرسودہ ہو چکا تھا اور تعلیم کا ایک نیا نظام تجویز کیا۔ اس وقت تک مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم قائم تھا اس میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ایک یہ کہ علومِ دنیا و علومِ دین الگ الگ تھے اور اس کا نتیجہ لامحالہ تفریقِ دنیا و دین کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا جو اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ شرعی علوم کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں داخلِ درس تھیں جو شرعی اہمیت نہ رکھتی تھیں اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دین کے متعلق لوگوں کے تصورات غلط ہو رہے تھے اور بعض غیر جنس کی چیزوں کو اہمیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے فرقہ بندیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ امام غزالی نے ان خرابیوں کو دور کر کے ایک سمویا ہوا نظام بنایا جس کی ان کے ہم عصروں نے سخت مخالفت کی مگر بالآخر تمام مسلم ممالک میں اس کے اصول تسلیم کر لیے گئے اور بعد میں جتنے نئے نظاماتِ تعلیم بنے وہ تمام تر انہی خطوط پر بنے جو امام نے کھینچ دیئے تھے۔ اس وقت تک مدارسِ عربیہ میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کی ابتدائی خط کشی امام غزالی ہی کی رہینِ منت ہے۔
     سابعاً، انہوں نے اخلاقِ عامہ کا پورا جائزہ لیا۔ انہیں علماء، مشائخ، امراء، سلاطین، عوام، سب کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خوب مواقع ملے تھے۔ خود چل پھر کر وہ مشرقی دنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکے تھے۔ اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی کتاب احیاء العلوم ہے جس میں انہوں نے ہر طبقہ کی اخلاقی حالت پر تنقید کی ہے ، ایک ایک برائی کی جڑ اور اس کے نفسیاتی اور تمدنی اسباب کا کھوج لگایا ہے ، اور اسلام کا صحیح اخلاقی معیار پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
     ثامناً، انہوں نے اپنے عہد کے نظامِ حکومت پر بھی پُوری آزادی کے ساتھ تنقید کی۔ براہ راست حکامِ وقت کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہے ، اور عوام میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے کہ منفعلانہ انداز سے جبر و ظلم کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کریں بلکہ آزاد نکتہ چینی کریں۔ احیاء میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "ہمارے زمانہ میں سلاطین کے تمام یا اکثر اموال حرام ہیں۔" ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ "ان سلاطین کو نہ اپنی صورت دکھانی چاہیے ، نہ ان کی دیکھنی چاہیے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان کے ظلم سے بغض رکھے ، ان کے بقاء کو پسند نہ کرے ، ان کی تعریف نہ کرے ، ان کے حالات سے کوئی واسطہ نہ رکھے اور ان کے ہاں رسائی رکھنے والوں سے بھی دور رہے "۔ ایک اور جگہ اُن آدابِ پرستش و عبودیت پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو درباروں میں رائج تھے ، اس معاشرے کی مذمت کرتے ہیں جو بادشاہوں اور امراء نے اختیار رکھی تھی، حتیٰ کہ ان کے محلات، ان کے لباس، ان کی آرائش، ہر چیز کو نجس بتلاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے عہد کے بادشاہ کو ایک مفصل خط لکھا جس میں اس کو اسلامی طرزِ حکومت کی طرف دعوت دی، حکمرانی کی ذمہ داریاں سمجھائیں اور اسے بتایا کہ تیرے ملک میں جو ظلم ہو رہا ہے ، خواہ تو خود کرے یا تیرے عمال کریں ، بہرحال اس کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ ایک دفعہ مجبوراً دربارِ شاہی میں جانا پڑا تو دورانِ گفتگو میں بادشاہ کے منہ در منہ کہا کہ:
     "تیرے گھوڑوں کی گردن ساز زرّیں سے نہ ٹوٹی تو کیا ہوا، مسلمانوں کی گردن تو فاقہ کشی کی مصیبت سے ٹوٹ گئی۔"
     ان کے آخری زمانہ میں جتنے وزراء مقرر ہوئے ، قریب قریب سب ہی کو انہوں نے خطوط لکھے اور رعایا کی تباہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک وزیر کو لکھتے ہیں :
     "ظلم حد سے گزر چکا ہے۔ چونکہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس میں قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم و بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے سے خلاصی پاؤں۔"
     ابن خلدون کے بیان سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے قیام کے خواہاں تھے جو خالص اسلامی اصول پر ہو، خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو۔ چنانچہ مغرب اقصٰی میں موحدین کی سلطنت انہی کے اشارہ سے ان کے ایک شاگرد نے قائم کی۔ مگر امام موصوف کے کارنامے میں یہ سیاسی رنگ محض ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سیاسی انقلاب کے لیے انہوں نے باقاعدہ کوئی تحریک نہیں اٹھائی، نہ حکومت کے نظام پر کوئی خفیف سے خفیف اثر ڈال سکے۔ ان کے بعد جاہلیت کی حکمرانی میں مسلمان قوموں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک صدی بعد تاتاری طوفان کے دروازے ممالک اسلامیہ پر ٹوٹ پڑے اور اس نے ان کے پورے تمدن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
     امام غزالی کے تجدیدی کام میں علمی و فکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک قسم ان نقائص کی جو حدیث کے علم میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے 16، دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے۔ اور تیسری قسم ان نقائص کی جو تصوّف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔
     ان کمزوریوں سے بچ کر امامِ موصوف کے اصل کام یعنی اسلام کی ذہنی و اخلاقی روح کو زندہ کرنے اور بدعت و ضلالت کی آلائشوں کو نظامِ فکر و نظامِ تمدن سے چھانٹ چھانٹ کر نکالنے کے کام کو جس شخص نے آگے بڑھایا وہ ابن تیمیہ تھا۔

خلافت فاروقی -عصر حاضر میں ایک قابلِ تقلید دور حکومت

خلافت فاروقی -عصر حاضر میں ایک قابلِ تقلید دور حکومت
 

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کا عہدِ خلافت ایک مثالی، قابل فخر اور قابل تقلید دورِ حکومت تھا۔ چودہ سو سال قبل ایک بہترین نظامِ حکومت دیا جبکہ عرب حکومت کے بنیادی قواعد سے نا آشنا تھے۔ وسیع سلطنت کے باوجود امور حکمرانی پر مکمل کنٹرول تھا۔ امن و امان ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، تعلیم و تربیت، عدل و انصاف اور مختلف انواع کے ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے ایک مثالی دور تھا۔ آج کے دور کے حکمرانوں کے لیے مینارہ نور ہے۔ اس کی روشنی میں آج انداز حکمرانی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ دور فاروقی کی بعض اہم خصوصیات حسبِ ذیل ہیں:

۱۔ صوبوں اور اضلاع کی تقسیم

نظامِ حکومت کی ابتداء تقسیم کار پر ہے۔ اسلام میں عمر فاروقؓ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کا آغاز کیا اور ملک کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیاجیسے آپ نے فلسطین کے دو صوبے بنائے ۔ ایک کا صدر مقام’’ ایلیا ‘‘اور دوسرے کا ’’رملہ‘‘قرار دیا۔ اسی طرح مصر کو دو صوبوں میں تقسیم کیا۔ ایک کے 28 اور دوسرے کے 15 اضلاع تھے۔ پھر صوبوں میں والی، کاتب، کاتبِ دیوان، صاحب الخراج (کلکٹر)، صاحب احداث (پولیس آفیسر)، صاحب بیت المال (افسر خزانہ) اور قاضی مقرر کیے۔ اسی طرح اضلاع میں بھی عامل، افسر خزانہ اور قاضی ہوتے تھے۔( تاریخ طبری) آج صدیوں بعد اختیارات کی تقسیم (Devolution of powers)کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے زیادہ صوبے اور اضلاع بنانے اور ان کو اختیارات دینے کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس پر بہتر طریقے سے عمل کی ضرورت ہے۔

۲۔ نئے شہروں کو بسانا

عمر فاروقؓ کے دور میں بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل جیسے معروف شہر بسائے گئے۔(تاریخ طبری؛ فتوح البلدان) ان شہروں کی
تاریخی اور علمی اعتبار سے شہرت سب پر عیاں ہے۔ آج کے دور میں ہمارے شہر آبادی اور مسائل کے اعتبار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک اور پانی
جیسے کئی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سو آج دور فاروقی کی تقلید کرتے ہوئے بہتر محل وقوع اور سہولیات کے ساتھ نئے شہر بسانے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کی
مخصوص شہروں میں نقل مکانی کے رجحان میں بھی کمی آئے اور انہیں بہتر سہولیات بھی میسر آئیں۔

۳۔ عدلیہ کو رشوت سے بچانے کے لیے اقدامات

عمر فاروقؓ اکثر عملی امتحان اور ذاتی تجربہ کے بعد لوگوں کا انتخاب کرتے تھے۔ آپ
نے ججز کو ناجائز وسائل آمدنی سے روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ (شبلی نعمانی، الفاروق)
(i) زیادہ تنخواہیں مقرر کیں تا کہ ان کو بالائی رقم کی ضرورت نہ پڑے۔
(ii) ان کا دولت مند اور معزز گھرانوں سے تعلق ہو تا کہ وہ رشوت کی طرف راغب نہ ہوں اور کسی معزز اور با اثر آدمی کا رعب ان کے فیصلے پر موثر نہ ہو۔
(iii) ججز کو تجارت اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ وہ اصول ہے جو مدتوں کے تجربات کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کیا گیا تا کہ ججز کو تجارت
کے دوران ان سے کوئی معمولی چیز مہنگے داموں خریدنے یا مہنگی چیز سستے داموں فروخت کر کے بالواسطہ رشوت نہ دی جائے۔
سو آج کے دور میں عدلیہ کے علاوہ دیگر انتظامی آفیسرز کے حوالے سے بھی ایسے اقدامات کر کے رشوت سے بچایا جا سکتا ہے۔

۴۔ عدل کا ارزاں و آسان ہونا

عہد فاروقی میں آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کافی تھی نیز حضرت عمرؓ کے اصول اور آئین اس قدر سہل اور آسان تھے
کہ عدل و انصاف کے حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہو سکتی تھی۔ آجکل مہذب ملکوں نے عدل و انصاف اور داد رسی کو ایسی قیود میں جکڑ دیا ہے کہ داد خواہوں کو
دعوی سے باز آنا حصولِ عدل کی نسبت آسان ہے۔ (شبلی نعمان ، الفاروق)
سو آج کے دور میں عدل کا حصول مہنگا ہونے اور طوالت کے باعث مشکل ہو گیا ہے اور یوں نظامِ عدل غیر مؤثر ہو کر ظالموں اور مجرموں کی مدد اور مظلوموں سے زیادتی
کا سبب بن رہا ہے ۔ سو فوری ، سستا اور سہل عدل و انصاف آج کی اہم ضرورت ہے۔

۵۔ عمال کی اصلاح کے لیے اہم اقدامات

عمر فاروقؓ نے عمال کی اصلاح کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ بعض اقدامات کا ذکر حسب
ذیل ہے:
(i) عمال کے تقرر کے لیے مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوتا۔ بعض اوقات صوبے اور ضلع کے لوگوں کو حکم دیا جاتا کہ قابل ترین شخص کا انتخاب کر کے بھجوائیں۔
(ii) عامل مقرر کرتے وقت اس کے مال و اسباب کی مکمل فہرست تیار کرا کر محفوظ رکھی جاتی تھی اور اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تھی تو اس سے
مواخذہ کیا جاتا تھا۔ (فتوح البلدان)عصر حاضر میں اس ضابطے پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے تا کہ کرپشن سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے۔
(iii) ہر عامل سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا۔ نفیس،قیمتی اور باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔غیر معمولی کھانا نہیں کھائے گا۔ دروازے پر دربان
نہ رکھے گا۔ اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ (کتاب الخراج) بلند و بالا رہائش گاہیں نہ بنائیگا۔ (بخاری ، الادب المفرد)
یہ شرطیں اکثر تقرری کے کاغذات پر درج کی جاتیں اور ان کو مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ ان شرطوں کا مقصد یہ تھا کہ عمال اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے
ممتاز خیال نہ کریں بلکہ ان عہدوں کو ذمہ داری سمجھیں اور انتہائی سادگی سے گذر اوقات کریں۔ اور یوں لوگوں کو ان سے ملنے اور مسائل حل کرانے میں مشکلات کا
سامنا نہ کرنا پڑے۔ آج کے دور میں وزراء ، اراکین پارلیمنٹ اور آفیسرز پر مخصوص اعلیٰ قسم کی گاڑیوں ، انتہائی قیمتی اور متکبرانہ کپڑے، خاص ڈشز اور سکیورٹی وپروٹو
کول کے نام پر عوام الناس اور حکمرانوں کے مابین حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ضروری ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو مخدوم کی بجائے خادم سمجھیں اور عوامی مسائل بھی
ان تک با آسانی اور براہ راست پہنچ سکیں۔
(iv) زمانہ حج میں تمام عمال کو حکم دیا جاتا کہ وہ حاضر ہوں۔ تمام لوگوں کی موجودگی میں عمر فاروقؓ اعلان فرماتے کہ جس کسی کو کسی عامل سے کچھ شکایت ہو تو پیش
کرے۔ (تاریخ طبری) سو ان شکایات پر احکامات جاری ہوتے۔ بعض اوقات تحقیقات کے عمل کے بعد ان کا تدارک کیا جاتا ۔ تحقیقات کے لیے ایک
خاص عہدہ کیا گیااس کے سربراہ بزرگ صحابی محمد بن مسلمہ انصاریؓ تھے۔
(v) عمال کی دیانت اور راستبازی کے قائم رکھنے کے لیے نہایت عمدہ اصول اختیار کیا تھا کہ ان کی زیادہ تنخواہیں مقرر کیں۔ یورپ نے مدتوں کے تجربے کے
بعد یہ اصول سیکھا ہے۔ اور ایشیائی سلطنتیں تو اب تک اس راز کو نہیں سمجھیں جس کی وجہ سے رشوت اور غبن ایشیائی سلطنتوں کا خاصہ ہو گیا ہے۔ (الفاروق)

۶۔ نہروں کا اجراء

عمر فاروقؓ نے زرعی زمینوں کی آب پاشی ، بحری آمدو رفت اور لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی ایک اعلیٰ قسم کا نہری نظام دیا۔ زراعت کے
علاوہ بعض اہم نہریں انہوں نے جاری کیں جیسے نہر ابو موسیٰ ، نہر معقل، نہر سعد، نہر امیر المؤمنین۔ (الفاروق) آج کے دور میں بھی پانی کی فراہمی، تجارتی مقاصد اور
زرعی مقاصد کے لیے نہروں کی تعمیر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

۷۔ خلیفہ وقت کا مشاہرہ

خلافت سے پہلے عمر فاروقؓ تجارت کے ذریعہ سے کسب معاش کرتے تھے۔ خلافت کی مہمات کے باعث یہ شغل برقرار نہیں
رہ سکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے اپنی ضروریات بیان کیں اور کہا کہ بیت المال میں سے کس قدر اپنے مصارف کے لیے لے سکتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے
فرمایا’’صرف معمولی درجہ کی خوراک اور لباس‘‘ چنانچہ ان کے اور ان کی بیوی بچوں کے لیے بیت المال سے کھانا اور کپڑا مقرر ہو گیا ۔ (تاریخ طبری)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اتنی وسیع سلطنت کا خلیفہ بیت المال سے مالِ مفت سمجھ کراپنی ذات یا اپنے خاندان پر بے دریغ پیسہ نہیں خرچ کر رہا۔ سو تعیشات پر خرچ کرنا تو
درکنار بنیادی ضروریات کے لیے بھی مناسب سا خرچ بیت المال سے لینے پر اکتفا کیا۔ جب خلیفہ ایسی مثال اپنی ذات کے لیے قائم کرے گا تو وہ اپنے عمال پر
بہترین سواری (ترکی گھوڑے)، قیمتی اور نفیس کپڑے، غیر معمولی کھانے ،دربان نہ بٹھانے جیسی شروط نافذ کر سکے گا (مصنف ابن ابی شیبہ؛تاریخ طبری) اس لیے آج
حکمرانوں کو خود ایسی مثالیں قائم کرنہ ہوں گی تا کہ ملکی پیسہ تعیشات پر خرچ نہ ہو۔

۸۔ ناگہانی صورتِ حال اور خلیفہ وقت

قحط سالی ہو یا کوئی اور ناگہانی صورتِ حال میں عمر فاروقؓ نے اس دوران جو معمولات اپنائے وہ حسب
ذیل ہیں۔ (الفاروق)
(i) بیت المال کا تمام نقد وغلہ صرف کیا۔ (ii) پھر تمام صوبوں کے افسروں کو کہا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔
(iii) قحط زدہ لوگوں کا نقشہ بنوایا گیا اور تمام لوگوں کے نام اور غلہ کی مقدار کا رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چیک تقسیم کیا گیا جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔
چیک پر حضرت عمرؓ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔
(iv) حضرت عمرؓہر روز 20 اونٹ خود ذبح کراتے اور قحط ذدہ افراد کو کھلاتے۔
(v) ایسے مواقعوں پر بھی لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا رواج پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔
(vi) جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی، جب تک قحط رہا گوشت، گھی، مچھلی غرض کوئی لذیز چیز نہ کھائی۔ (سیوطی، تاریخ الخلفاء؛ شبلی، الفاروق)
اس سے معلوم ہوا کہ ناگہانی صورت حال میں خلیفہ وقت اپنے سارے وسائل کو بروئے کار لائے ، نظم و ضبط سے تقسیم کا انتظام کرے، قوم کو مفت خوری کی
عادت نہ پڑنے دے نیز خود غیر معمولی اور اعلیٰ قسم کے کھانے ترک کر دے۔ایسے حالات میں یا مقروض ملک کے حکمرانوں کو بڑے قافلوں کے ساتھ غیر ملکی سفروں ،
اعلیٰ ہوٹلز میں قیام اور اس کے علاوہ بھی قومی خزانے سے بے دریغ خرچ کرتے ہوئے اسوۂ فاروقی کو سامنے رکھنا چاہئیے۔

۹۔ لازمی تعلیم کا انتظام

عمر فاروقؓ نے ہر جگہ قرآن حکیم کی تعلیم کا انتظام کیا۔ معلمین قرآن کے لیے اچھی تنخواہیں مقرر کیں۔ خانہ بدوش بدوؤں کے
لیے بھی قرآن حکیم کی لازمی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔اسی طرح تمام اضلاع میں یہ احکامات پہنچائے گئے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ (الفاروق)
سو آج کے دور میں لازمی تعلیم کے تصور پر زور دیا جا رہا ہے۔ عمر فاروقؓ نے صدیوں قبل یہ کام کیا۔ پھر قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا اورمعلمین کی تنخواہیں
خلافت کی طرف سے دی گئیں۔ آج کے دور میں یہ امر خالصۃً پرائیویٹ سیکٹر میں دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مذہب میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی آئی ہے۔

۱۰۔ فلاحی ریاست

خلافت فاروقی ایک مکمل فلاحی ریاست تھی۔ ان کے عہد میں پیداوار اور آمدنی میں نمایاں ترقی ہوئی۔ بلا تخصیص مذہب غربا اور مساکین کے
روزینے مقرر کیے گئے۔ لاوارث افراد کے تمام مصارف کا انتظام بھی بیت المال کے ذمے تھا۔ (الفاروق)یہ وہ دور تھا جب تمام رعایا کی بنیادی ضروریات کا بہت
خیال رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول اس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے: اگر فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو عمر سے اس کے
بارے پوچھ گچھ ہوگی۔ (ابن جوزی ، سیرۃ عمر )ایک اور روایت میں بکری کی بجائے اونٹ کے الفاظ آئے ہیں۔ (طبقات ابن سعد)سو آج اس طرح کی فلاحی
ریاست کے قیام کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد کو اس کی بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں۔
دور فاروقیؓ کے نظام حکومت کی بعض اہم خصوصیات کا ذکر کیا گیا یہ نظام آج کے دور کے کسی بھی نظام حکومت سے کہیں بلند تر اور بہتر تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا
ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس دور حکومت کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست کو اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر سکیں۔ آمین

استعمار و استحصال کا مقابلہ اور تعلیم

استعمار و استحصال کا مقابلہ اور تعلیم

 ڈاکٹر محمد رفعت

 رکن مرکزی مجلس شوری  و امیر حلقہ دلی و ہریانہ
پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

حقیقی آزادی کی ضرورت
      

آزاد ہندوستان
ہمارا ملک 1947 میں یوروپی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ اس آزادی کا تقاضا یہ تھا کہ اس نئے دور میں ملک کی تعمیر اس انداز میں کی جاتی کہ یہاں کے باشندوں کو سیاسی و رسمی آزادی کے ساتھ ساتھ حقیقی آزادی بھی حاصل ہوجاتی۔ اُن کے جسم اور دل و دماغ سب آزاد ہوتے اور وہ استحصال سے پاک، انصاف پر مبنی سماج کے اندر زندگی گزارسکتے۔
لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ رسمی آزادی کے بعد بھی ملک کے اندر استحصال، بے انصافی اور ظلم و جبر بدستور جاری رہا اور بعض پہلوؤں سے ان خرابیوں میں مزید شدت آگئی۔
خرابی کے اسباب
فطری طور پر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟
غور کیا جائے تو تین بڑے اسباب پر نگاہ جاتی ہے:
(الف)     پہلا سبب یہ ہے کہ ملک رسماً تو آزاد ہوگیا لیکن بالواسطہ (چھُپے ہوئے) طریقوں سے ملک کی آزادی چھینی جاتی رہی اور یہاں باہر کی طاقتوں کی مداخلت جاری رہی۔
(ب)      دوسرا سبب یہ ہے کہ کمزوروں اور مظلوموں پر جو ظلم و ستم خود اُن کے ہم وطن کررہے تھے (اور صدیوں سے کرتے چلے آرہے تھے) اُس کو روکنے کی مؤثر تدبیریں اختیار نہ کی جاسکیں۔
(ج)       تیسرا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ خدا پرستی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر نو کے لیے مادہ پرستانہ فلسفوں کو بنیاد بنایا گیا، چنانچہ حق پرستی اور کردار سازی کے تعمیری رجحانات کے بجائے اس ملک کے اندر اخلاقی بحران اور باطل افکار کو فروغ حاصل ہوا۔
پہلا سبب : نیا  استعمار
دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہی دنیا دو بڑی طاقتوں (روس اور امریکہ) کے زیرِ اثر دو بلاکوں میں بٹ گئی۔ کسی ملک کے لیے یہ بات آسان نہیں رہی کہ وہ اپنا حقیقی آزاد  و جود قائم رکھ سکے۔ اسے چارو ناچار اِس بلاک یا اُس  بلاک کا حصہ بننا پڑا۔ ہر بلاک نے اپنے زیرِ اثر ممالک کو فوجی و معاشی معاہدوں کے ذریعے اپنے جال میں جکڑنے اور اپنا پابند بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس طرح براہِ راست استعمار تو ختم ہوگیا، لیکن ایک ’’نیا استعمار‘‘  وجود میں آگیا جو ملکوں پر اپنا تسلط قائم رکھتا تھا۔ شروع میں پنڈت نہرو کی قیادت میں ہمارے ملک نے کوشش کی کہ آزاد رہے اور ’’ناوابستہ‘‘ تحریک برپا بھی کی۔ لیکن حالات کے دباؤ کے تحت ہمارا ملک رفتہ رفتہ ’’روسی بلاک‘‘ کا حصہ بنتا گیا۔ اس میں بڑا دخل ہندوپاک کے درمیان کشیدگی کا بھی تھا، جس نے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بننے پر مجبور کردیا تھا۔
روس کا انتشار
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اچانک حالات نے پلٹا کھایا۔ روس جیسا عظیم ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا چنانچہ روسی بلاک عملاً ختم ہوگیا۔ اور دنیا میں ایک ہی بڑی طاقت (امریکہ کی) باقی رہ گئی۔
روس کے اس انتشار کے بعد امریکہ گلوبلائزیشن، لبرلائزیشن، اور نئے عالمی نظام کے نعروں کے ساتھ میدان میں آیا اور اپنی طاقت کو منوانے کے لیے دنیا کے ہر خطے میں اس نے اپنے اثرات بڑھانے شروع کیے۔
ہمارا ملک بھی حالات کی اس نئی گردش سے متاثر ہوا۔ اس نے ’’لبرلائزیشن‘‘ کے تحت نئے معاشی اقدامات شروع کیے۔ اب تک کے معاشی قوانین اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور بیرونی سرمائے کے ملک کے اندر آنے کی راہ ہموار کی گئی۔ معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی۔ امریکہ اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ بڑھتا گیا اور ’’ناوابستگی‘‘ کی تحریک محض ایک رسم کے طور پر زندہ رہ گئی۔ دفاعی اور فوجی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل سے قُربت روز بروز بڑھتی گئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ ہمارا ملک روسی بلاک کے بجائے اب ’’امریکی استعمار‘‘ کے زیرِ اثر آگیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا احیاء
لبرلائزیشن کا نیا نعرہ دراصل سرمایہ داری کے احیاء کا اعلان تھا چنانچہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام دوبارہ زندہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس نئی زندگی کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی تین بنیادی خصوصیات دوبارہ ابھر کر سامنے آنے لگیں:
(الف) استحصال
(ب) عدمِ توازن
(ج) انسانی خصوصیات سے عاری سماج کا ظہور۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت استحصال ہے۔ اس میں سرمایہ دار طبقہ، مزدوروں کا استحصال کرتا ہے۔ ایک ملک کے اندر منظم طبقات، غیر منظم افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ زیادہ باخبر اور با ہنر لوگ کم صلاحیت والوں کا استحصال کرتے ہیں۔ شہروں سے وابستہ صنعتی سیکٹر، دیہی اور زرعی سیکٹر کا استحصال کرتا ہے (چنانچہ دیہی علاقے وسائلِ حیات اور وسائلِ ترقی سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں) اور اسی طرح طاقتور ممالک کمزور ملکوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر ’’نظامِ استحصال‘‘ ہے جو سرمایہ داری پیدا کرتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا نتیجہ ’’عدمِ توازن‘‘ ہے۔ دولت سماج کے ایک طبقے کے پاس سمٹ جاتی ہے اور بقیہ افراد اس سے محروم ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ کسی مفید معاشی سرگرمی کے اہل نہیں رہتے۔ عدمِ توازن کا دوسرا پہلو قدرتی وسائل کا مسرفانہ اور بے جا استعمال ہے جس کا نتیجہ ’’فطری ماحول‘‘ کا عدمِ توازن ہے۔
ہمہ گیر استحصال کے نتیجے میں سماج میں تمام اچھی اخلاقی خصوصیات ختم ہونے لگتی ہیں۔ ہمدردی، غم خواری اور تعاونِ باہمی کے بجائے خود غرضی، لالچ اور قساوتِ قلبی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انسان مشین بننے لگتے ہیں اور انسانی جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اُس اخلاقی طاقت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جو انہیں استحصال سے جنگ پر آمادہ کرسکتی تھی۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک نتائج ہیں اور آج پوری دنیا ان نتائج کو اپنی آنکھو ںسے دیکھ رہی ہے۔
ہمارے ملک نے سرمایہ دارانہ نظام اور امریکہ کے نئے استعمار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیںاور اس طرح اپنی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطرے کی سب سے نمایاں علامت Sepcial Economic Zone (SEZ) ہیں۔

خرابی کا دوسرا سبب ۔ ہم وطنوں کا ظلم و جبر
یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ظلم و جبر کے اسباب صرف ملک کے باہر ہیں یا محض ’’عالمی سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی دَین ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ظلم و جبر کی بہت سے شکلیں وہ ہیں جو خود ملک کے اندر اپنی جڑیں رکھتی ہیں۔
صدیوں سے ہمارے ملک کے اندر انسانوں کو ’’اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں‘‘ میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس نامعقول تقسیم کو دیومالائی تصورات کی تائید بھی حاصل ہے۔ اس تقسیم کے مظاہر یہ ہیں:
(الف)     ہر فرد کو کسی نہ کسی ’’ذات‘‘ سے متعلق قرار دینا۔
(ب)      ’’ذات‘‘ کے اس تعین کے مطابق اُس کا سماجی ’’مرتبہ‘‘ متعین کرنا ۔ (یعنی فلاں ذات، فلاں دوسری ذات سے ’’کم تر‘‘ ہے اور فلاں تیسری ذات سے ’’برتر‘‘ ہے۔)
(ج)       (کم از کم دیہی علاقوں میں) اپنی ذات کے مطابق پیشہ (یا معاشی سرگرمی) اختیار کرنے کے لیے افراد کا مجبور ہونا۔
(د)        چھوت چھات کا برتاؤ اور آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی سے نچلی ذاتوں کا محروم کردیا جانا۔
(ہ)        سہولتوں سے محرومی مثلاً ’’نچلی‘‘ ذات والوں کو کنویں سے پانی نہ لینے دینا اور اسکول میں تعلیم نہ حاصل کرنے دینا۔
(و)        ظلم کی صریح شکلیں مثلاً بے گار لینا، پنچایتوں کے ذریعے مالی تاوان عائد کردینا، آبرو ریزی، لوٹ مار، زدو کوب کرنا، بے عزت کرنا وغیرہ۔
’’ذات پات کے نظام‘‘ کے علاوہ ظلم و جبر کی دوسری شکلیں جو ہمارے ملک میں رائج ہیں ،درج ذیل ہیں:
(الف)     شہروں کے مقابلے میں گاؤوں کی سہولیات سے محرومی (گاؤں تعلیم، علاج اور روزگار کے مواقع سے محروم ہیں اور یہ سہولتیں صرف شہروں تک محدود ہیں)۔
(ب)      زرعی سیکٹر اور کسانوں کا استحصال (سودی نظام کسانوں کا استحصال کرتاہے اور صنعتی سیکٹر کے بالمقابل کسان زرعی پیداوار کے لیے متناسب قیمتوں سے محروم رکھے جاتے ہیں۔)
(ج)       ملک کے خاصے بڑے حصے میں جاگیردارانہ نظام کے باقیات کی موجودگی۔ جس کے نتیجے میں زمین نہ رکھنے والے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔
(د)        ملک کا اپنا سرمایہ دارانہ نظام جو عالمی سرمایہ داری سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔
(ہ)        بندھوا مزدوری اور بچہ مزدوری۔
ظلم و جبر کی ان ساری شکلوں کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ قانونی اقدامات ضرور کیے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور اکثر صورتوں میں مسئلے کی اصل جڑ سے تعرض نہیں کرتے۔ قانونی اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے ایک طاقتور رائے عامہ کی بھی ضرورت ہے اور سماجی تصورات میں تبدیلی بھی درکار ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو ملک کی قیادت نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔
خرابی کا بنیادی سبب ۔ خدا پرستی سے انحراف
واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی طرزِ عمل حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکتا ہے تو وہ صرف ’’خدا پرستی‘‘ کا رویہ ہے۔’’خدا پرستی‘‘ انسانوں سے جس طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے:
(الف)     تمام انسانوں کو برابر اور ایک برادری کے اجزاء سمجھا جائے۔
(ب)      انسانی زندگی کے لیے بنیادی قانون ’’خدائی ہدایت‘‘ کو قرار دیا جائے۔
(ج)       اجتماعی معاملات کو باہمی مشورے سے چلایا جائے۔
جو سماج ان نکات پر عمل پیرا ہو وہ ایک آزاد سماج ہوتا ہے۔ یہ ’’طرزِ عمل‘‘ (جو مندرجہ بالا تین نکات پر مشتمل ہے) کیوں اختیار کیا جائے، اس کا جواب ’’خدا پرستانہ نظریے‘‘ میں ملتا ہے۔ وہ جواب یہ ہے:
(الف)     ایک خدا تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے۔ اس نے ان سب (انسانوں) کو ایک انسانی جوڑے سے پیدا کیا ہے۔ اس لیے ’’تمام انسان برابر ہیں اور ایک ہی برادری کے افراد ہیں۔‘‘
(ب)      حقیقی مالک اور حاکم کی ’’ہدایت‘‘ ہی ماننے کے لائق ہے۔ جب انسان برابر ہیں تو ایک انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنی من مانی چلانے کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے؟
(ج)       انسانوں کی برابری کا یہ فطری تقاضا ہے کہ ’’اجتماعی معاملات‘‘ کو چلانے میں وہ سب شریک ہوں۔ (کسی کو محروم نہ کیا جائے۔)
اس فکری اساس کے علاوہ ’’خدا پرستی‘‘ انسان کو ’’قوتِ محرّکہ ‘‘ (Motivation) بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ محرّک درجِ ذیل حقائق کے ادراک پر مشتمل ہے:
(الف)     اگر انسان ’’خدا پرستی‘‘ اختیار کرے گا تو اپنی ذات کی تکمیل کرلے گا۔ اس کا تزکیہ ہوجائے گا اور وہ انسانیت کے ’’بامِ عروج‘‘ پر پہنچ جائے گا۔
(ب)      اگر انسان ’’خدا پرستی‘‘ کو اپنائے گا تو وہ خدا سے قریب ہوگا اور اس کی رضا اس کو حاصل ہوگی۔
(ج)       ’’خدا پرستی‘‘ کے نتیجے میں انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوگا اور ایسا خاندان اور سماج وجود میں آئے گا جہاں توازن اور عدل موجود ہوگا۔
(د)        ’’خدا پرستی‘‘ کا رویہ اختیار کرنے والا انسان خدا کے امتحان میں کامیاب ہوگا اور اس کے غضب اور گرفت سے بچ سکے گا۔
مادہ پرستانہ نظریات کی ناکامی
’’خدا پرستی‘‘ کے مقابلے میں مادہ پرستانہ افکار و نظریات (Materialistic Ideologies) کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریات یا تو خدا کے وجود کے ہی قائل نہیں ہیں یا اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو اس کو ہدایت دینے والا اور رہنما نہیں مانتے۔
ان نظریات نے انسانوں کو ایک عالم گیر برادری تسلیم کرنے کے بجائے اُن کو اقوام (Nations) میں تقسیم کیا ہے۔ رہا ایک قوم (Nation) کا اجتماعی و سیاسی نظام تو اس کو چلانے کے لیے مادّی نظریات ’’قومی ریاست ‘‘ (Nation State) کی شکل تجویز کرتے ہیں۔ اس ریاست کے اندر اُن کے اصول درجِ ذیل ہیں:
(الف)     اصولاً ریاست کے تمام باشندے برابر سمجھے جائیں گے اور اجتماعی معاملات چلانے میں سب شریک ہوں گے۰
(ب)      ’’قانون‘‘ وہ ہوگا جو عوام کے ’’نمائندے‘‘ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے تجویز کریں۔
بظاہر اِن میں پہلا اصول بہت خوش آئند ہے، لیکن مادّی نظریات اِس اصول کے لیے نہ کوئی اساس (Basis) رکھتے ہیں نہ Motive (محرّک) چنانچہ یہ اصول مسلسل پامال ہوتا رہتا ہے۔ عملاً ہوتا یہ ہے کہ طاقتور گروہ پورے نظامِ ریاست پر قابض ہوجاتے ہیں اور مادّی نظریات کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ طاقتور گروہوں کو اس زیادتی سے باز رکھ سکیں۔ وہ افراد کی ایسی تربیت کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو انھیں حدود آشنا بنادے۔
واقعہ یہ ہے کہ ’’مادّی نظریات‘‘ نے انسانی مساوات کا یہ اصول ’’خدا پرستی‘‘ کے نظریے سے لیا ہے (چونکہ مادیت کے فلسفے میں مساوات کے اِس اصول کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔) لیکن خدا پرستی کے انکار کے بعد یہ اصول صِرف ایک مقدس نعرہ بن کر رہ جاتا ہے اور کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔
رہا دوسرا اصول یعنی ’’عوامی نمائندوں کا حقِ قانون سازی‘‘ تو وہ انسانوں کو اپنی خواہشات کا (یا طاقتور طبقات کے مفادات و اغراض کا) غلام بنادیتا ہے اور رسمی آزادی کے باوجود انسان اپنے جیسے انسانوں کے محکوم بن کر رہ جاتے ہیں۔ جب انسانوں کے سامنے قانون سازی کے لیے ’’خواہشات و مفادات‘‘ کے علاوہ کوئی بنیاد موجود نہ ہو تو استحصال کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
اقبال نے اس حدود نا آشنا ’’قانون سازی‘‘ پر یوں تبصرہ کیا ہے:

مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں، غیراز نوائے قیصری

(اقبالؒ)


واقعہ یہ ہے کہ رسمی آزادی کے باوجود ہمارے ملک کے باشندے حقیقتاً آزاد نہیں ہیں۔ وہ عالمی استحصالی نظام کی زَد میں آچکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ خدا پرستی کی بنیاد پر قیامِ عدل کے لیے تحریک چلائی جائے جو ملک اور باشندگانِ ملک کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکے۔ تعلیم کا موضوع قیامِ عدل کی تحریک کی اس دلچسپی کا ایک اہم موضوع ہے۔

تعلیم کا رول
      

مقصد
تعلیم کے سلسلے میں پہلا سوال ’’مقصد‘‘ کا پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف سماجوں نے تعلیم کے یہ دو مقاصد عام طور پر تسلیم کیے ہیں:
(الف)     نئی نسل کو اس لائق بنانا کہ وہ دنیا اور اس کے وسائل کو برت سکے۔
(ب)      انسانوں نے تحقیق و جستجو اور تجربات کے ذریعے جو معلومات حاصل کی ہیں، اُن کو نئی نسل تک منتقل کرنا۔ جن سماجوں میں اخلاقی و سماجی شعور نے ترقی کی ہے، انھوں نے درجِ بالا مقاصد میں ایک تیسری بات کا بھی اضافہ کیا ہے:
(ج)       انسان کی اخلاقی حس (Moral Sense) اور سماجی شعور کی نشو ونما تاکہ وہ سماج کا ایک ذمہ دار عنصر بن سکے۔اس سے آگے بڑھ کر جن سماجوں نے ’’خدائی ہدایت‘‘ کو مشعلِ راہ بنایا ہے وہ اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ افراد میں مذکورہ بالا ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ پیدا کرنے کے لیے ایک چوتھے مقصد کا اضافہ بھی ضروری ہے۔
(د)        انسانوں کو مبنی بر حقیقت تصورِ کائنات (World View) سے واقف کرانا، ان کو اخلاقی قدروں سے روشناس کرانا اور ’’خدائی ہدایت‘‘ کی تفصیلات سے آگاہ کرنا۔

علمی ترقی
مندرجہ بالا مقاصد کی روشنی میں کسی سماج میں رائج نظامِ تعلیم کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اِن میں تعلیم کا وہ پہلو زیرِ بحث آیا ہے، جس کا تعلق ’’علمی ورثے (Heritage) کی منتقلی‘‘ سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علمی ورثے کی ایک نسل سے آئندہ نسل تک منقتلی بہت اہم کام ہے۔ اس طرح ہر نسل پچھلوں کی معلومات و تجربات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آتی ہے اور ازسرِ نو تجربات کرنے کی زحمت سے بچ جاتی ہے۔ ’’منتقلی‘‘ کا یہ کام مؤثر طریقے سے انجام پانا چاہیے۔ کسی بھی نظامِ تعلیم کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے یہ ایک اہم معیار ہوگا۔
لیکن یہ ’’منتقلی‘‘ ، تعلیم کے پورے عمل کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو (جو اپنی اہمیت میں کچھ کم نہیں ہے) یہ ہے کہ ہر نئی نسل موجود ’’علمی ورثے‘‘ میں اضافہ کرنے کی اہل بنے اور خود اپنی محنت، تحقیق اور کاوش سے نئی معلومات فراہم کرے اور حقائق کے نئے خزانے دریافت کرے۔ جو نظامِ تعلیم نئی نسل کو تحقیق کے لیے آمادہ کرے، نئی معلومات کے حصول کے صحیح طریقے سکھائے اور معلومات کی ’’درستگی‘‘ کی جانچ کے لیے مستند معیارات تجویز کرسکے وہ ایک ’’کامیاب‘‘ نظامِ تعلیم کہلائے گا۔ اس کے برعکس جو نظامِ تعلیم نئی نسل کے افراد کو تحقیق و جستجو کے لیے آمادہ نہ کرسکے یا اُن کو علمی دریافتوں کے طریقے نہ بتاسکے یا اُن کو وہ ’’معیار‘‘ نہ دے سکے جس کو استعمال کرکے وہ ’’قابلِ اعتماد‘‘ اور ’’ناقابلِ اعتماد‘‘ باتوں میں امتیاز کرسکیں، تو ایسا نظامِ تعلیم ایک ’’ناکام نظام‘‘ ہوگا (چاہے ’’معلومات کی منتقلی‘‘ کا کام اس میں انجام پارہا ہو۔)
اور اگر نظامِ تعلیم ایسا ہو کہ وہ ’’ذوقِ تحقیق‘‘ کو دبائے، اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ پچھلی معلومات پر محض انحصار کرنا سکھائے، علمی جستجو کے طریقے بتانے اور سکھانے سے گریز کرے اور ’’صحیح‘‘ اور ’’غلط‘‘ میں حقیقی تمیز سکھانے کے بجائے غالب قوموں کے افکار کو ’’معیارِ صحت‘‘ قرار دے دے تو ایسانظامِ تعلیم ایک ’’مضر نظامِ تعلیم‘‘ ہوگا اور وہ کسی سماج کو آزادی و حرّیت کے بجائے ’’غلامی‘‘ کی سمت لے جائے گا۔

تعلیم اور حصولِ قوت
’’تعلیم‘‘ کے ذریعے ایک فرد معلومات حاصل کرتا ہے اور ہنر (Skills) سیکھتا ہے۔ اس طرح اُس فرد کی ’’قوت‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ گروہوں (Communities) کا ہے۔ جس گروہ کے افراد معلومات رکھتے ہیں اور ہنر جانتے ہیں وہ گروہ طاقتور گروہ بن جاتا ہے اور اس کے برعکس معلومات سے محروم گروہ کمزور ہوکر رہ جاتے ہیں چنانچہ تعلیم قوت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اگر کسی فرد کو تعلیم سے محروم کردیا جائے تو وہ ایک ’’کمزور‘‘ فرد کے طور پر زندگی گزارے گا۔ اسی طرح اگر کوئی گروہ تعلیم سے محروم کردیا گیا ہو تو وہ ایک کمزور گروہ بن جائے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے افراد اور گروہ تعلیم سے محروم ہیں اور بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں تعلیمی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ یہ صورتِ حال ’’عدل‘‘ کے صریحاً منافی ہے۔
قیامِ عدل کے لیے یہ لازم ہے کہ تعلیم تمام افراد اور گروہوں کو فراہم کی جائے اور اس راہ میں جو رکاوٹیں بھی حائل ہوں وہ دور کی جائیں۔
تعلیم سے محرومی کے اسباب
تعلیم سے محرومی کے متعدد اسباب ہیں۔ ان میں دو اسباب بنیادی ہیں:
(الف) غربت (  ب) تعلیمی اداروں کی غیر موجودگی
غریبی کی بنا پر آبادی کا بہت بڑا حصہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ تعلیمی اخراجات برداشت کرسکے یا اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بچوں کا وقت اسکول کے لیے فارغ کرسکے (یعنی اُن کو کھیتی یا کاروبار میں مصروف نہ کرے۔)
چنانچہ اس حد تک تعلیمی مدد (وظائف کی شکل میں) ناگزیر ہے جس سے تعلیمی اخراجات پورے ہوجائیں اور ایک غریب خاندان کی آمدنی متاثر نہ ہو۔
دوسرا بڑا سبب اسکولوں کا نہ ہونا ہے۔ بہت سے علاقوں میں اسکول اور کالج موجود نہیں ہیں اس لیے طلباء تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
تعلیم سے محرومی کے دوسرے اسباب بھی ہیں:
(۱) مادری زبان میں تعلیم کی سہولت نہ ہونا۔ (بہت سے والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ اُن کے بچے پر ایک اجنبی زبان، بطورِ ذریعہ تعلیم کے، مسلط کی جائے۔)
(۲) مخلوط تعلیم(بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں نہیں بھیجنا چاہتے۔)
(۳) سرکاری اداروں میں معیاری تعلیم کا فقدان (سرکاری اداروں کی تعلیم کا معیار گھٹیا ہوتا ہے اور غیر سرکاری ادارے اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ اُن میں تعلیم دلانا عام افراد کی سکت سے باہر ہوتا ہے)
(۴) تہذیبی گروہوں کے جداگانہ تعلیمی اداروں کی حوصلہ شکنی(بہت سے تہذیبی گروہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے قائم کریں اور اپنی روایات اور اقدار کے مطابق اپنے تہذیبی ماحول میں طلباء کو تعلیم دیں۔ لیکن ایسے اداروں کو سہولتیں ملنے میں تاخیر ہوتی ہے، اُن کو جلد تسلیم نہیں کیا جاتا (Recognition نہیں ملتا اور اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔)ضرورت ہے کہ حصولِ تعلیم کی راہ میں حائل ان سب رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔

تعلیم کیسی ہو؟ (Content)
تعلیم جیسی بھی ہو بہرحال ایک قوت ہے اس لیے ہر فرد اور ہر گروہ کو تعلیم ملنی چاہیے اور کسی کو بھی تعلیم سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ اس ابتدائی بات کے بعد جو اہم سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’تعلیم کیسی ہو؟‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم ایسی ہو جو سارے مقاصد کو پورے کرے اور کسی کو نظر انداز نہ کرے یعنی
(الف)     تعلیم انسان کو ایک خدا ترس انسان بنائے، اُس کو صحیح تصورِ کائنات بتائے اور اس کو ایک ذمہ دار اور باکردار شخص بنائے۔
(ب)      اس کو معلومات فراہم کرے، ہنر سکھائے اور دنیا کو مفید اور کارگر طریقے سے برتنا سکھائے ۔
(ج)       انسان کو پچھلی معلومات کو سیکھنے کے علاوہ خود تحقیق کرنے اور تجربات سے سیکھنے کا اہل بنائے۔جو تعلیم ان مقاصد کو پورا کرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک آزاد سماج کے قیام میں مدد گار ہوگی۔

تعلیم اور قریبی ماحول
مقاصدِ تعلیم کے علاوہ تعلیم کے طریقوں کی بڑی اہمیت ہے۔ تعلیم ایسے ڈھنگ سے دی جانی چاہیے جو فطری ہوں اور طلباء پر مسلّط نہ کیے گئے ہوں۔ ’’فطری‘‘ طریقِ تعلیم کے تقاضے درجِ ذیل ہیں:
(الف)     ذریعہ تعلیم ابتدائی مراحل میں مادری زبان کو بنایا جائے۔
(ب)      ان موضوعات کو زیرِ بحث لایا جائے جو قریبی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔(مثلاً یوروپ کی تاریخ کے بجائے اپنے ملک کی تاریخ پڑھائی جائے۔مجرّد (Abstract) سوالات کے بجائے اُن سماجی حالات پر گفتگو کی جائے جو ہمارے گاؤں اور شہروں میںموجود ہیں۔بڑی صنعتوں کے بجائے ابتداً طلباء کو زراعت سے روشناس کرایا جائے، جس سے ملک کی بڑی آبادی وابستہ ہے۔)
(ج)       تعلیمی کام میں قریبی ماحول کی مثالیں لی جائیں، مباحثے اور پراجیکٹ قریبی ماحول سے متعلق ہوں اور عملی کام کو ( جوسائنس اور سماجی علوم سے متعلق ہو) طالب علم کے فطری ماحول سے مربوط کیا جائے۔
(د)        طالب علم کی عمر، ذہنی استعداد اور صلاحیتیوں کے مطابق تعلیمی بار، بتدریج بڑھایا جائے۔
(ہ)        موجودہ برداشت سے باہر ’’نصابی بار‘‘ کو معقول حد تک کم کیا جائے۔
(و)        طریقِ تدریس اور طریقِ امتحان میں دنیا میں ہورہے مفید تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اخلاقی و تہذیبی ماحول
تعلیمی اداروں کے اخلاقی و تہذیبی ماحول میں تین بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں:
(الف)     تعلیمی ادارے میں طلباء کی تعداد کی مناسبت سے کافی جگہ اور کلاس روم ضروری ہیں۔ جگہ ناکافی ہو تو تعلیمی نقصان کے علاوہ اخلاقی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔
(ب)      مخلوط تعلیم کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ مخلوط تعلیم متعدد اخلاقی وسماجی برائیوں کی جڑ ہے۔
(ج)       اساتذہ ایسے ہونے چاہئیں جو اخلاق و کردار کے اعتبار سے اچھے انسان ہوں۔ اُن میں فرض شناسی، امانت و دیانت اور حیاو پاکبازی جیسی اعلیٰ صفات پائی جاتی ہوں۔
اِن اصلاحات کے ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ اسکول کے ماحول کو باہر کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اسکول قریبی بستی پر اچھا اثر تو ڈالے مگر اس کے برے اثرات قبول نہ کرے۔

ریسرچ
تدریس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ایک اہم کام ریسرچ ہے۔ ریسرچ کے لیے آزاد ذہن ناگزیر ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں جو ریسرچ ہوتی ہے اس کے موضوعات اور طریقے سب مغربی ممالک سے لیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ ’’آزاد ذہن‘‘ کے بجائے ’’غلامانہ ذہن‘‘ کی علامت ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے دائرے میں تحقیق اسی وقت اپنے قریبی سماج کے لیے مفید ہوسکتی ہے جب اس کے موضوعات اس سماج کی حقیقی ضروریات کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر ہندوستان جیسے ملک میں نیوکلیائی توانائی کے بجائے یہاں کی سائنس اور ٹکنالوجی کا مرکزِ توجہ اس ملک کے آبی ذخائر، گرتی ہوئی سطحِ آب، ریگستانی علاقے کی حدود میں غیر فطری اضافہ، جنگلات کی کمی اور قدرتی توازن کی بحالی جیسے موضوعات ہونے چاہئیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ’’خالص سائنس ‘‘ (Pure Science) کی بھی اہمیت ہے اور اس کے موضوعات تمام دنیا میں ایک جیسے ہوسکتے ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ سائنسی تحقیق و ریسرچ کا بڑا حصہ Applied(انطباقِ سائنس) ہے۔ اس دائرے میں قریبی ماحول اور ’’فطری‘‘ موضوعات کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔ یہی معاملہ طریقِ ریسرچ کا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ریسرچ محض روایتی طریقوں سے ہو جو مغرب سے سیکھے گئے ہیں بلکہ وہ تمام طریقے اپنائے جاسکتے ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں اور خصوصاً ہمارے ملک میں ماضی میں مفید پائے گئے ہیں۔
یہی معاملہ سماجی علوم کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب نے جو موضوعات چھیڑے ہیں وہ بھی اہمیت رکھتے ہیں اور ہمارے سماجی محققین Modernism ، Post Modernism ، Civilization Clash ، End of History ، Feminism ، Liberalism اور Pluralism پر بات کرسکتے ہیں لیکن اُن کو ان مسائل اور موضوعات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جو ہندوستانی سماج کے زندہ موضوعات ہیں مثلاً ذات پات کا نظام، برہمنیت کا احیاء، Modernityکے ہندوستان پر اثرات، اقدار کا بحران، Urbanizationکے مسائل، غربت کا مسئلہ وغیرہ۔

استعمار، استحصال اور اسلام
      

ہمارا ملک بیرونی استعمار کا بھی شکار ہے اور اندرونی استحصال کا بھی۔ استعمار اور استحصال سے نجات پانے اور سماج اور افراد کو حقیقی آزادی دلانے کے لیے اسلام ایک ہمہ گیر حل پیش کرتا ہے۔ اس میں تعلیم اور نظامِ تعلیم کی اصلاح بھی شامل ہے اور زندگی کے دیگر گوشوں کی بھی۔ اسلام کے پیش کردہ اِس حل کو درجِ ذیل ایجنڈے کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے:

ایجنڈا

(الف) آزادی کی بحالی:
(۱)        ہمارا ملک اُن تمام رسمی و غیر رسمی دفاعی، فوجی و معاشی معاہدوں سے آزاد ہو جو اس نے امریکہ اور اسرائیل سے کررکھے ہیں۔اور جن سے ملک کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔
(۲)        ہمارا ملک عدل و انصاف اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی اپنائے۔
(۳ (      Special Economic Zone ختم کیے جائیں اور بیرونی سرمائے کی ملک میں آمد پر معقول پابندیاں عائد کی جائیں۔

(ب) مظالم کا سدِ باب
(۴)       مزدوروں، کسانوں اور محروم طبقات کے حقوق بحال کیے جائیں جو ’’لبرلائزیشن‘‘ کے نتیجے میں ختم کردیے گئے ہیں۔
(۵)       جاگیر داری کے نظام کے باقیات، بندھوا مزدوری اور مہاجنی سودکا خاتمہ کردیا جائے۔
(۶)        ذات پات پر مبنی مظالم کے خاتمے کے لیے مؤثر سماجی تربیت کی جائے۔

(ج) تعلیم:
(۷)       نظامِ تعلیم کی بنیاد خداپرستانہ تصورِ کائنات کو بنایا جائے (جو کسی مذہب کی حقیقی تعلیم سے نہیں ٹکراتا۔ اس لیے ہر مذہب کے پیروؤں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔)
(۸)       تعلیم کے دوران طلباء کو اخلاقی قدروں سے آگاہ کیا جائے اور ’’غلط‘‘ اور ’’صحیح‘‘ کا فرق سکھایا جائے تاکہ وہ آزاد ذہن سے سوچ سکیں۔

(د) نظامِ تعلیم:
(۹)        حصولِ تعلیم کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔
(۱۰)       ابتدائی سطح پر مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
(۱۱)        غریب خاندانوں کی اس حد تک مدد کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔
(۱۲)       تمام علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں معیاری سرکاری تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔
(۱۳)      مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور طالبات کے لیے کافی تعداد میں ادارے قائم کیے جائیں۔
(۱۴)       سرکاری اداروں کا معیار اونچا کیا جائے تاکہ لوگ پرائیویٹ اداروں کی طرف رجوع کرنے کے لیے مجبور نہ ہوں۔
(۱۵)       قانون کے ذریعے پرائیویٹ اداروں کو استحصال سے روکا جائے۔

(ہ) نصاب اور طرزِ تعلیم:
(۱۶)       نصاب اور درسی کتب میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں، تعلیمی بار کم کیا جائے اور تعلیم کو قریبی ماحول سے مربوط کیا جائے۔
(۱۷)      جنسی تعلیم (Sex Education) کے بجائے سماجی اخلاقیات (Social Morality) کی تعلیم دی جائے جس میں آن آداب کی تعلیم بھی شامل ہے جو لڑکوں، لڑکیوں اور مرد، عورتوں کے میل جول کو اخلاقی حدود کا پابند بناتے ہیں۔ اسی طرح طلباء کو  شرم و حیا و عفت و پاکیزگی کی اہمیت بتائی جائے۔
(۱۸)       طریقِ تدریس اور طریقِ امتحان میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں۔
(۱۹)       صرف ماہرین اور باکردار اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔
(۲۰)      ریسرچ کی ترجیحات از سرِ نو طے کی جائیں اور ملک و سماج کے حقیقی مسائل کو موضوعِ توجہ بنایا جائے۔

خرابی کے اسباب
      





Indirect Imperialism

Internal Indigenous Exploitation

Materialism
  

بالواسطہ استعمار

اندرونی استحصال

مادہ پرستانہ نظریات

 سرمایہ داری کے خصائص
      





Exploitation

Imbalance

Alienation
سرمایہ دارانہ نظام کا ہمہ گیر استحصال
      





طاقتور کے ذریعے

صنعتی سیکٹر کے ذریعے

باخبروں ‘‘کے ذریعے’’

طاقتور ملکوں کے ذریعے

سرمایہ دار کے ذریعے
  

کمزوروں کا                                   
کسانوں کا                                     
بے ہنر (Unskilled) سیکٹر کا              

کمزور ملکوں کا

مزدوروں کا

 سرمایہ دارانہ نظام
      

خدا پرستانہ نظام
  
سرمایہ دارانہ نظام
خدا پرستی
  
مادہ پرستی
ہمدردی
  
بے رحمی
غمخواری
  
خود غرضی
تعاونِ باہمی
  
جبرو تسلط
فیاضی
  
لالچ
امن و سکون
  
انتشار و بے چینی


ذات پات کا نظام
      


اونچ نیچ
دیو مالائی داستانیں
چھوت چھات
آزادی سے محرومی
حقوق سے محرومی
مظالم
ظلم و جبر کی دیگر شکلیں
      



گاؤں اور شہر کا عدمِ توازن
کسانوں کا استحصال
جاگیر داری کے باقیات
بندھوا مزدوری
بچہ مزدوری
خدا پرستی
      
مادّہ پرستی
  
خدا پرستی
قوموں میں تقسیم ہیں
  
انسان ایک برادری ہیں
خواہشات کے بندے ہیں
  
انسان خدا کے بندے ہیں
قانون ساز ہمارے جیسے انسان ہیں
  
قانون ساز خدا ہے
کوئی حقیقی ’’بنیاد‘‘ موجود نہیں ہے
  
عدل کی بنیاد خدا ترسی ہے
کوئی ’’محرّک‘‘ نہیں ہے
  
اچھے طرزِ عمل کا محرک خدا کی رضاکا حصول ہے
افراد کی ’’تربیت‘‘ کا کوئی نظام نہیں
  
خدا پرستی افراد کی تربیت کاہمہ گیر نظام  فراہم کرتی ہے


تعلیم کے مقاصد
      



دنیا کو برتنے کا سلیقہ سیکھنا
’’پچھلی‘‘ معلومات کی منتقلی
اخلاقی حس اور سماجی شعور کی نشو ونما
خدائی ہدایت سے آگاہی
تخلیقی ذوق کی ترویج

ہندوستان میں ابتدائی تعلیم کی موجودہ صورتحال
      



12لاکھ
ایک لاکھ
ایک لاکھ
40
13کروڑ
9کروڑ
52لاکھ
  

 اسکولوں کی تعداد
درجہ 12 تک کے اسکول
صرف ’’ایک کمرے‘‘ والے اسکول
ایک کلاس روم میں بچوں کی اوسط تعداد
پرائمری کلاسوں میں طلباء کی تعداد
ثانوی درجات میں تعدادِ طلباء
اساتذہ کی تعداد

آدھے کی تعداد میں سرکاری اساتذہ ایسے ہیں جو محض درجہ ۱۰یا درجہ ۱۲ تک تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں۔

 حصولِ تعلیم میں حائل رکاوٹیں
      



غریبی
اداروں کا نہ ہونا
مادری زبان میں تعلیم کی سہولت نہ ہونا
مخلوط تعلیم
گھٹیا معیار
تہذیبی گروہوں کے اداروں کی حوصلہ شکنی