سر سید کی تحریک اور اس کی عصری معنویت
علیم خان فلکی
(یہ مقالہ ایک ادبی محفل میں پڑھا گیا)
معزز سامعین !
جس محفل میں آسمانِ علم کی درخشاں چاند ستاروں جیسی شخصیات موجود ہوں اس میں مجھ جیسے ایک کمزور طالب ِ علم کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا جانا میرے لئے باعثِ اعزاز بھی ہے اور باعثِ امتحان بھی۔ میں اس کے لئے آپ تمام کا شکر گزار ہوں ۔ یہ بات رسماً نہیں حقیقتاِ عرض کر رہا ہوں اس لئے کہ بالخصوص جناب ضیا الدین نیر صاحب اور جناب طارق غازی صاحب کا اس بات کا علم رکھتے ہوئے بھی کہ میں سر سید کی تحریک کی عصری معنویت کا زیادہ قائل نہیں ہوں جب انہوں نے مجھے اپنے اظہارِ خیال کی انتہائی وسعتِ قلبی کے ساتھ اجازت دی تو میرا دل ان کے لئے قدر و اعتراف سے بھر گیا۔ ایسے موقع پر مجھے آپ تمام کے جذبات کی نزاکت کا احساس ہے اس لئے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے مجھے تکلیف بھی ہے مگر یہ خیانت ہوگی کہ اگر محض نمائشی طور پر آپ کے جذبات کی رعائت کر کے وہ بات نہ کہوں جو میرے نزدیک سچی ہے اور جس کا اظہار کرنا عصر کی ایک اہم ضرورت بھی ہے ۔ عصری تعلیم میرے نزدیک سبھی کے لئے اور بالخصوص مسلمانوں کو جہدِ زندگی میں دوسری قوموں کے مقابلے میں سر بلند رہنے کے لئے اتنی ہی نا گزیر ہے جتنی کہ ہوا اور پانی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں پُر جوش داعیانِ تعلیمِ عصر کے لا شعور سے یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ عصری تعلیم سوائے بہتر روزگار اور بہتر رکھ رکھاؤ کے کوئی مقصدِ زندگی بھی عطا کرتی ہے سر سید ہی کے دیئے ہوئے علی گڑھ کے تقریباًسو سالہتجربے کو سامنے رکھ کر اس کی معنویت یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ عصری تعلیم ایک ہاتھ میں آنے کے بعد دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج آجائے یہ نا ممکن ہے۔ اس کے لئے امت کو کچھ اور تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جسے میں اپنے مضمون کے آخری حصہ میں پیش کروں گا۔
جس محفل میں آسمانِ علم کی درخشاں چاند ستاروں جیسی شخصیات موجود ہوں اس میں مجھ جیسے ایک کمزور طالب ِ علم کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا جانا میرے لئے باعثِ اعزاز بھی ہے اور باعثِ امتحان بھی۔ میں اس کے لئے آپ تمام کا شکر گزار ہوں ۔ یہ بات رسماً نہیں حقیقتاِ عرض کر رہا ہوں اس لئے کہ بالخصوص جناب ضیا الدین نیر صاحب اور جناب طارق غازی صاحب کا اس بات کا علم رکھتے ہوئے بھی کہ میں سر سید کی تحریک کی عصری معنویت کا زیادہ قائل نہیں ہوں جب انہوں نے مجھے اپنے اظہارِ خیال کی انتہائی وسعتِ قلبی کے ساتھ اجازت دی تو میرا دل ان کے لئے قدر و اعتراف سے بھر گیا۔ ایسے موقع پر مجھے آپ تمام کے جذبات کی نزاکت کا احساس ہے اس لئے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے مجھے تکلیف بھی ہے مگر یہ خیانت ہوگی کہ اگر محض نمائشی طور پر آپ کے جذبات کی رعائت کر کے وہ بات نہ کہوں جو میرے نزدیک سچی ہے اور جس کا اظہار کرنا عصر کی ایک اہم ضرورت بھی ہے ۔ عصری تعلیم میرے نزدیک سبھی کے لئے اور بالخصوص مسلمانوں کو جہدِ زندگی میں دوسری قوموں کے مقابلے میں سر بلند رہنے کے لئے اتنی ہی نا گزیر ہے جتنی کہ ہوا اور پانی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں پُر جوش داعیانِ تعلیمِ عصر کے لا شعور سے یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ عصری تعلیم سوائے بہتر روزگار اور بہتر رکھ رکھاؤ کے کوئی مقصدِ زندگی بھی عطا کرتی ہے سر سید ہی کے دیئے ہوئے علی گڑھ کے تقریباًسو سالہتجربے کو سامنے رکھ کر اس کی معنویت یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ عصری تعلیم ایک ہاتھ میں آنے کے بعد دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج آجائے یہ نا ممکن ہے۔ اس کے لئے امت کو کچھ اور تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جسے میں اپنے مضمون کے آخری حصہ میں پیش کروں گا۔
میں دیئے گئے موضوع کو دو الگ الگ حصوں میں رکھنا چاہوں گا۔
ایک تو سر سید کی شخصیت دوسری ان کی تحریک کی عصری معنویت۔
اس کی عصری معنویت پر اعتراض کے باوجود میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سر سید جیسی عظیم ، باہمت اور اولوالعزم ہستی جس نے حالی کے بقول ” کام کیا “ تاریخ میں مشکل سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ تاریخ کے ایک انتہائی ہولناک دور میں انہوں نے ایک شکستہ اور منتشر قوم کو کھڑا کرنے کی کوشش کیان کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
دو قومی نظریہ ، خلافت تحریک نظریۂ پاکستان کی عملی تشکیل جنگِ آزادئی ہند اور اس کے بعد سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی جنگ۔ ان تمام تاریخی مراحل کے تانے بانے جاکر سر سید ہی سے ملتے ہیں۔سر سید کی حرکی و انقلابی شخصیت پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائیگا کم ہے ۔
ایک تو سر سید کی شخصیت دوسری ان کی تحریک کی عصری معنویت۔
اس کی عصری معنویت پر اعتراض کے باوجود میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سر سید جیسی عظیم ، باہمت اور اولوالعزم ہستی جس نے حالی کے بقول ” کام کیا “ تاریخ میں مشکل سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ تاریخ کے ایک انتہائی ہولناک دور میں انہوں نے ایک شکستہ اور منتشر قوم کو کھڑا کرنے کی کوشش کیان کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
دو قومی نظریہ ، خلافت تحریک نظریۂ پاکستان کی عملی تشکیل جنگِ آزادئی ہند اور اس کے بعد سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی جنگ۔ ان تمام تاریخی مراحل کے تانے بانے جاکر سر سید ہی سے ملتے ہیں۔سر سید کی حرکی و انقلابی شخصیت پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائیگا کم ہے ۔
چونکہ وقت کی تنگی ہے اس لئے میں سر سید کی عصری معنویت پر آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ اور ظاہر ہے عصر سے مراد عصرِ حاضر ہی ہے جو اب اکیسویں صدی میں داخل ہونے جا رہا ہے۔کسی شخصیت با تحریک کی عصری معنویت تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے ان حالات کا جائزہ لینا بلکہ تقابل کرنا لازمی ہے جو ہر دو عصروں میں در پیش تھے ۔ 1857ء اور اس کے بعد کا مسلمانوں کی شکست و زوال کی تاریخ کا وہ بد ترین المناک دور جس کو سر سید نے اپنی آنکھوں دیکھا کیا آج بھی وہی دور درپیش ہے یا کہ مختلف ؟
کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخصیت یا تحریک جو اپنے عصر کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتی ہو کسی اور عصر کے لئے فرشتۂ اجل ثابت ہو۔ سر سید نے اپنے عصر میں جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً ایک پیغمبرانہ مشن تھا۔ جتنے بھی پیغمبر رُوئے زمین پر آئے انہوں نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے وقت کے مسائل کے حل کی جنگ لڑی۔ یہ سعادت سر سید کے حصے میں بھی آئی۔ وہ عمر کے پختہ شعوری حصہ میں تھے جب 1857ء کی ہولناک آگ پوری شدت سے بھڑک رہی تھی۔ ہزاروں علماء، رُوساء و دانشور شہید کئے جا چکے تھے۔نئے حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کو پسپا کرنے کا عمل مکمل کر لیا تھا مسلمان اپنی حکومت سے ہی نہیں اپنی تہذیب، تاریخ ، زبان اور مذہب سے تقریباً بے دخل کئے جا چکے تھے اب سر سید کے سامنے دہلی ، میرٹھ اور علی گڑھ کے اطراف و اکناف کی ایسی لُٹی پٹی قوم تھی جو نئے حکمراونوں کے عتاب کا اس لئے شکار تھی کہ اس کے پاس اب وہ ذریعہ ، تعلیم نہ تھا جو اسے دوبارہ انتظامیہ ہی نہیں عدالت ، کاروبار ، سیاست و معیشت ط اسکول کالج میں برابر کا حق دلوا سکے ۔
کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخصیت یا تحریک جو اپنے عصر کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتی ہو کسی اور عصر کے لئے فرشتۂ اجل ثابت ہو۔ سر سید نے اپنے عصر میں جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً ایک پیغمبرانہ مشن تھا۔ جتنے بھی پیغمبر رُوئے زمین پر آئے انہوں نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے وقت کے مسائل کے حل کی جنگ لڑی۔ یہ سعادت سر سید کے حصے میں بھی آئی۔ وہ عمر کے پختہ شعوری حصہ میں تھے جب 1857ء کی ہولناک آگ پوری شدت سے بھڑک رہی تھی۔ ہزاروں علماء، رُوساء و دانشور شہید کئے جا چکے تھے۔نئے حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کو پسپا کرنے کا عمل مکمل کر لیا تھا مسلمان اپنی حکومت سے ہی نہیں اپنی تہذیب، تاریخ ، زبان اور مذہب سے تقریباً بے دخل کئے جا چکے تھے اب سر سید کے سامنے دہلی ، میرٹھ اور علی گڑھ کے اطراف و اکناف کی ایسی لُٹی پٹی قوم تھی جو نئے حکمراونوں کے عتاب کا اس لئے شکار تھی کہ اس کے پاس اب وہ ذریعہ ، تعلیم نہ تھا جو اسے دوبارہ انتظامیہ ہی نہیں عدالت ، کاروبار ، سیاست و معیشت ط اسکول کالج میں برابر کا حق دلوا سکے ۔
میں یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہوں گا جو کہ شخصیت پرستی کے غلو میں بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ مسلمان تعلیم سے نا آشنا تھے اور سر سید نے مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان نا خواندہ تھے بارہ سو سالہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان ہی نہیں دنیا مین جہاں جہاں مسلمان گئے دوسری قومیں تعلیم اور تہذیب کے معاملے میں مسلمانوں کی مرہونِ منت رہیں۔ خود ہندوستان میں مسلمان دس بارہ فیصد ہونے کے باوجود اپنی طرزِ تعلیم کے ذریعے باقی نوے فیصد ہندوؤں پر حکومت کرتے رہے ۔ ہندو مسلمانوں کی زبان تعلیم تہذیب کے ذریعے ہی صدیوں حکومت کے انتظامیہ میں شریکِ کار رہے۔ خود انگریز برسہا برس تک مسلمانوں ہی کے دیئے ہوئے انتظامیہ کو اپنائے رہا۔ راجہ رام موہن رائے جیسا کٹر مذہب پرست ریفارمر فارسی اور اردو میں اخبار نکال کر اپنی قوم کو مسلمانوں کے قریب کرنے کی اسی طرح کوشش کرتا رہا جس طرح بعد میں سر سید نے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ۔
بہر حال مسلمان تعلیم یافتہ تھے لیکن اس اصطلاح میں نہیں جس اصطلاح میں نئے حکمرانوں کو مطلوب تھے اسی لئے مسلمانوں کی تعلیم و ہنر ، علوم و فنون ، عظیم ہونے کے باوجود ذریعہ ، روزگار بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ جو تعلیم باعثِ خوشنودئی حکمران تھی وہ مسلمانوں کے لئے اجنبی تھی اور اجنبی ہی نہیں باعثِ نفرت بھی ۔ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ یا تو اجنبی تعلیم کو اپنا کر اپنی تعلیم سے اجنبی ہو جائں یا پھر اپنی تعلیم کا تحفظ کرین اور اجنبی تعلیم سے کنارہ کش رہیں۔ ہندو کے لئے یہ مسلۂ در پیش نہیں تھا ۔ ایک محکوم جو صدیوں سے محکومیت کے عادی تھے ان کے لئے ایک حکمران سے دوسرے حکمران کی رعیت مین چلے جانااس طرح تھا جس طرح ایک ملازم کو پرانے منیجر کی ما تحتی سے نئے منیجر کی ماتحتی میں منتقل ہو جانا۔ سر سید کے سامنے جو مسائل تھے کہ کس طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں بیشتر خیر خواہ بھی ہیں ہر مسلمان ان سے عدم تعاون نہیں چاہتا کئی ایک ان کے ساتھ بہترین معاون و مدد گار بھی ہو سکتے ہیں ۔
اسی سلسلے میں انہوں نے Anglo Muslim Friendship پر کتاب اور مضامین بھی لکھے ۔ مسلمان جس تیزی سے سیاسی، سماجی و اخلاقی پستی کی طرف جا رہے تھے اسی رفتار سے معاشی بد حالی ان کا پیچھا کر رہی تھی ۔ دوسری طرف ہندو تیزی سے عہدوں اور اختیارات سے سر فراز ہو رہے تھے اور انگریز کے لئے مسلمانوں کو زیر کرنے بہترین دستِ تعاون بن رہے تھے ۔ یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ پدرم سلطان بود کا نعرہ دیا جاتا اور نہ ایسا وقت تھا کہ کوئی سیاسی تحریک شروع کی جاتی۔ سیاست میں اترنے کے لئے عصری تعلیم نا گزیر تھی جس کا سر سید نے تذکرہ کیا ہے ۔ اس لئے سر سید نے تہذیب الاخلاق اور اسبابِ بغاوتِ ہند کے ذریعۂ امراضِ قوم کی بالکل صحیح تشخیص کرنے کے بعد ایک علاج تجویز کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ یہ کارزارِ حیات میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہیں ۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہر طبیب یا ڈاکٹر جس کی تشخیص صحیح ہو اس کا تجویز کردہ نسخہ بھی کام کر جائے ۔ جس طرح شاہ اسمعیل شہید نے امت کس تشخیص کی اور نسخۂ جہاد پیش کیا ۔ قاسم ناناتوی نے بے شمار کتب و مذاکروں کے ذریعے اچھی طرح حالات کا جائزہ لیا اور نسخہ دیوبند پیش کیا اس صدی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ البلاغ اور الہلال کے ذریعے تشخیص نے ابوالکلام آزاد کو نسخۂ کانگریس سمجھایا اسی طرح جس طرح حسین المدنی کو بھی۔ الجمعیة اور ترجمان القرآن کے ذریعے پہلے مولانا ابولاعلی مودودی نے تشخیصِ امت کی اور پھر ایک تحریک کے ذریعہ بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنے کا نسخہ تجویز کیا۔ سبھی کو چند مخلص طالبانِ حق ساتھی میسر آئے اور انہوں نے پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ جو حل ذہن میں آیا اس پر عمل کیا۔ یہ سبھی وہ جہاندیدہ درد مندانِ قوم ہیں جن کے خلوص اور للہیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ بارگاہِ خداوندی میں یقیناً درجات کی بلندی منصوبہ بندیوں کی کامیابیوں پر نہیں بلکہ ان کے وقف کر دہ خلوصِ ہمت و عزیمت و للہیت پر منحصر ہے ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ان بزرگوں نے اپنا حقِ بندگی ادا کر دیا اور عند اللہ بلند ترین مقامات کے حقدار ہو گئے ۔ ہاں اب ہمیں اپنے عہد کی منصوبہ بندی کے لئے ان بزرگوں کے کارناموں کی عصری معنویت تلاش کرنا لازمی ہے ۔ نیت یہ نہ ہو کہ ان پر تنقید کی جائے بلکہ یہ ہو کہ ان کے منفی اور مثبت اثرات پر غور کر کے آئندہ کا لائحۂ عمل مرتب کیا جائے ۔
بہر حال مسلمان تعلیم یافتہ تھے لیکن اس اصطلاح میں نہیں جس اصطلاح میں نئے حکمرانوں کو مطلوب تھے اسی لئے مسلمانوں کی تعلیم و ہنر ، علوم و فنون ، عظیم ہونے کے باوجود ذریعہ ، روزگار بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ جو تعلیم باعثِ خوشنودئی حکمران تھی وہ مسلمانوں کے لئے اجنبی تھی اور اجنبی ہی نہیں باعثِ نفرت بھی ۔ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ یا تو اجنبی تعلیم کو اپنا کر اپنی تعلیم سے اجنبی ہو جائں یا پھر اپنی تعلیم کا تحفظ کرین اور اجنبی تعلیم سے کنارہ کش رہیں۔ ہندو کے لئے یہ مسلۂ در پیش نہیں تھا ۔ ایک محکوم جو صدیوں سے محکومیت کے عادی تھے ان کے لئے ایک حکمران سے دوسرے حکمران کی رعیت مین چلے جانااس طرح تھا جس طرح ایک ملازم کو پرانے منیجر کی ما تحتی سے نئے منیجر کی ماتحتی میں منتقل ہو جانا۔ سر سید کے سامنے جو مسائل تھے کہ کس طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں بیشتر خیر خواہ بھی ہیں ہر مسلمان ان سے عدم تعاون نہیں چاہتا کئی ایک ان کے ساتھ بہترین معاون و مدد گار بھی ہو سکتے ہیں ۔
اسی سلسلے میں انہوں نے Anglo Muslim Friendship پر کتاب اور مضامین بھی لکھے ۔ مسلمان جس تیزی سے سیاسی، سماجی و اخلاقی پستی کی طرف جا رہے تھے اسی رفتار سے معاشی بد حالی ان کا پیچھا کر رہی تھی ۔ دوسری طرف ہندو تیزی سے عہدوں اور اختیارات سے سر فراز ہو رہے تھے اور انگریز کے لئے مسلمانوں کو زیر کرنے بہترین دستِ تعاون بن رہے تھے ۔ یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ پدرم سلطان بود کا نعرہ دیا جاتا اور نہ ایسا وقت تھا کہ کوئی سیاسی تحریک شروع کی جاتی۔ سیاست میں اترنے کے لئے عصری تعلیم نا گزیر تھی جس کا سر سید نے تذکرہ کیا ہے ۔ اس لئے سر سید نے تہذیب الاخلاق اور اسبابِ بغاوتِ ہند کے ذریعۂ امراضِ قوم کی بالکل صحیح تشخیص کرنے کے بعد ایک علاج تجویز کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ یہ کارزارِ حیات میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہیں ۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہر طبیب یا ڈاکٹر جس کی تشخیص صحیح ہو اس کا تجویز کردہ نسخہ بھی کام کر جائے ۔ جس طرح شاہ اسمعیل شہید نے امت کس تشخیص کی اور نسخۂ جہاد پیش کیا ۔ قاسم ناناتوی نے بے شمار کتب و مذاکروں کے ذریعے اچھی طرح حالات کا جائزہ لیا اور نسخہ دیوبند پیش کیا اس صدی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ البلاغ اور الہلال کے ذریعے تشخیص نے ابوالکلام آزاد کو نسخۂ کانگریس سمجھایا اسی طرح جس طرح حسین المدنی کو بھی۔ الجمعیة اور ترجمان القرآن کے ذریعے پہلے مولانا ابولاعلی مودودی نے تشخیصِ امت کی اور پھر ایک تحریک کے ذریعہ بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنے کا نسخہ تجویز کیا۔ سبھی کو چند مخلص طالبانِ حق ساتھی میسر آئے اور انہوں نے پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ جو حل ذہن میں آیا اس پر عمل کیا۔ یہ سبھی وہ جہاندیدہ درد مندانِ قوم ہیں جن کے خلوص اور للہیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ بارگاہِ خداوندی میں یقیناً درجات کی بلندی منصوبہ بندیوں کی کامیابیوں پر نہیں بلکہ ان کے وقف کر دہ خلوصِ ہمت و عزیمت و للہیت پر منحصر ہے ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ان بزرگوں نے اپنا حقِ بندگی ادا کر دیا اور عند اللہ بلند ترین مقامات کے حقدار ہو گئے ۔ ہاں اب ہمیں اپنے عہد کی منصوبہ بندی کے لئے ان بزرگوں کے کارناموں کی عصری معنویت تلاش کرنا لازمی ہے ۔ نیت یہ نہ ہو کہ ان پر تنقید کی جائے بلکہ یہ ہو کہ ان کے منفی اور مثبت اثرات پر غور کر کے آئندہ کا لائحۂ عمل مرتب کیا جائے ۔
سر سید نے حل یہ پیش کیا کہ مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تا کہ دوسری قوموں کی طرح یہ بھی ہر میدان میں ترقی کریں یہ نہ صرف ایک ہنگامی اور Reactionary جذبہ تھا بلکہ قوم پرستانہ بھی۔ اپنی قوم کی ترقی کی خواہش فطرتِ انسانی میں داخل ہے وہ کوئی برہمن ہو کہ ہریجن انگریز ہوں کہ عرب ہر شخص کی یہ نیک تمنا ہوتی ہے کہ اس کی قوم دوسری قوموں سے آگے بڑھے ۔ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کا غلبہ ہو ۔ قومیت ، علاقائت، لسانئت یا رنگ و نسل کی بنیاد پر اٹھنے والی شخصیتیں یا تحریکیں وقتی طور پر تو کامیاب ہوتی ہیں لیکن مستقبل کے لئے عصبیتوں کے بیج بو جاتی ہیں ۔ سر سید کے اپنے عصر کے لئے بہرحال یہ حل ناگزیر تھا لیکن ہمارے عصرکے لئے نہیں کیونکہ اس وقت مسلمان نہ عصری تعلیم کا قائل تھا نہ اس کے پاس کوئیذ ریعہ تھا۔ سر سیدنے قائل بھی کیا اور ذریعہ بھی دیا ۔ آج ہندوستان میں اتنے بے شمار کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں آچکی ہیں کہ مسلم کالج یا یونیورسٹی ہی ہو یہ ضروری تو نہیں اس لئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نکلنے والے طلباء سے نہ فکر میں مختلف ہیں نہ عمل میں ۔ پوکھران دھماکوں کا مسلمانخالق سائنسدا ن کسی بھی یونیورسٹی سے آ سکتا ہے یہ قوم پرستانہ سوچ ہمارے عصر کے لئے زہرِ قاتل ہے اب مسلم اسکول مسلم کالج مسلم یونیورسٹی مسلم جماعت اسلامک آرٹ اسلامک انوسٹمنٹ اسلامک بینک اسلامک پورٹ وغیرہ کی سوچ بند ہونی چاہئے ہمارا ہر شعبہ حقیقتاً اسلامی ہو جائے یہ تو ہم سبھی کی تمنا ہے لیکن :
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
اور حقائق یہ ہیں کہ یہ سارے مسلم دریا پھر اسی غیر مسلم سمندر میں جا گرتے ہیں جن سے فرار کم از کم اس عصر کے لئے خود فریبی اور جہاں فریبی ہے۔ سر سید کے عصر سے یہ عصر قطعی مختلف ہے مسلمانوں کے لئے مقابلہ سخت ضرور ہے لیکن سر سید کی محنت و اولوالعزمی رکھنے والے کے لئے نہ نجات اللہ صدیقی بننا نا ممکن ہے نہ جسٹس احمدی۔
دوسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ سر سید نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ علیگڑھ سے نکلنے والے طلبا کے ایک ہاتھ میں عصری علوم ہونگے دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہوگا۔ کسی نقاد نے مسلمانوں کے بارے میں سچ ہی کہا ہے کہ ” یہ کام پہلے کرتے ہیں سوچتے بعد میں ہیں “ ۔ قاسم ناناتوی نے عصری تعلیم کو رد کیا اس لئے وہ کسی کالج یا یونیورسٹی سے الحاق کے پابند نہیں رہے اور آج تک بھی نہیں ہیں لیکن سر سید کے عصری تعلیمی مدرسہ و کالج کا کسی نہ کسی یونیورسٹی سے الحاق لازمی تھا جو پہلے کلکتہ یونیورسٹی اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے عمل میں آیا۔ الحاق یا Affliation آپ جانتے ہیں کہ آزادئی فکر کی صلیب ہوتی ہے۔ عصری تعلیم سے لیس ہونے کے بعد طلبا سے غلبۂ امت تحفظِ قوم بقائے تہذیب و زبان کے کام لینے کا خواب یقیناً سر سید کے ذہن میں رہا ہوگا۔ لیکن انگور کے بیج بو کر آم کی تمنا کی طرح ۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج وغیرہ جیسے مقاصد ہیں وہ دوسرے تیسرے درجہ کے مقاصد ہیں جو فطری طور پر خشت ِاول یعنی عصری تعلیم کے پہلے مقصد کے تابع تھے ۔عصری تعلیم کا الحاق جن یونیورسٹیوں سے کرنا ناگزیر تھا وہ یونیورسٹیاں کسی طالبِ علم کو اس وقت سند دینے سے قاصر تھیں جب تک طالبِ علم ان کے دیئے ہوئے نصاب کو نہ اپنا لے وہ ایسے طلباء کو تو سند عطا کر سکتی ہیں جو بہ آسانی حکومت کے بہترین کارندے بنانے والے نصاب پر محنت کر سکتے ہوں۔ آقا کبھی اپنے غلاموں کو ایسی تعلیم نہیں دیا کرتے جس کے ذریعے غلام آقا بننے کے قابل ہو جائیں۔
اگر انگریز یا ہندو مسلمانوں کی دینی و تہذیبی بقا کی تعلیم پر مشتمل نصاب کو سند دیتے تو پھر انہیں مسلمانوں کو برباد کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ یہ کیسے ممکن تھا Simple Interest اور Compound Interest سیکھ کر نکلنے والا طالبِ علم یونیورسٹی سے نکل کر سود کا دشمن ہو جائے ۔ لاکھوں میں چند ایک ہو بھی جائیں تو وہ محض اپنی صالح فطرت اور تربیت کی وجہ سے ہو سکتے ہیں نہ کہ یونیورسٹی کی وجہ سے ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مغربی طرزِ قانون بڑھ کر ایک طالبِ علم اسلامی نظامِ قانون کا قائل ہو جائے اگر مسلم کالج یا مسلم یونیورسٹی میں شامل لفظ مسلم کی رعایت سے دینیات پڑھانے کی اجازت مل بھی گئی ہوگی تو اسے پڑھ کر طلباء اور بھی زیادہ تضاداتِ ذہنی کا شکار ہوئے۔
ڈارون کی تھیوری پڑھ کر نکلنے والا طالبِ علم تخلیقِ آدم پر ایمان لائے ، یہ ممکن تو نہیں تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبا کی اکثریت مرعوب، منحرف اور مرتد ہو کر نکلی۔ اور نکل کر حکامِ وقت کے بہترین ترجمان و مددگار بنتے رہے ۔ علیگڑھ نے اپنے ابتدائی دور میں ہی ثنا خوانِ تہذیب ِ مغرب کا ایک ایسا جتھہ پیدا کر دیا جو انگریزی استمار کی رفیع الشان تجارت کو استحکام بخشنے والے پتھر ثابت ہوئے۔
یہ سورما خوفِ غلامی میں کامل تھے دینی جذبے سے عاری بے حیائی میں طاق اور دنیا کی کسی بھی بد ترین طرزِ فکر کو پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ خواہ وہ کمیونزم ہو کہ سوشلزم ، نیشنلزم ہو کہ الحاد و دہریت مسلمانوں میں اسلامی فکر سے اختلاف رکھنے والی ہندوستان میں جتنی بڑی ترقی اور خوشحالی عطا کرنے والی یونیورسٹیوں کی تعمیر کلیسا کو تعلیم سے الگ کرنے کی تھی اس لئے علیگڑھ کے لئے بھی یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں قرآن دے۔ یہ نا ممکن تھا کہ سر سید جیسے دور اندیش، قلندر دانش کی نظر سے عصری تعلیم کا یہ انجام اوجھل رہا ہوگا لیکن اس وقت کے حالات ہی ایسے تھے کہ جیسا کہ طارق غازی صاحب نے اپنے پچھلے سال کے مقالہ میں فرمایا کہ:
It was the change - not the agent of the change that mattered to Sir Syed
سوال یہ بھی ہے کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم جینے والے ایک سے اعلی ایک استاد تو انگلینڈ سے بھی بلا لئے گئے لیکن دوسرے ہاتھ میں قرآن دینے والے استاد بھی کوئی وہاں اتنی ہی تعداد میں موجود تھے؟ اور اگر ہوتے تو کیا ایک میان میں ایک دو تلواریں رہ پاتیں؟ یہی وجہ تھی کہ اکبر تو شروع سے سر سید کے مخالف تھے ہی لیکن شبلی بھی آخر عمر میں مخالف ہو گئے۔
دوسرا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ سر سید نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ علیگڑھ سے نکلنے والے طلبا کے ایک ہاتھ میں عصری علوم ہونگے دوسرے ہاتھ میں قرآن اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہوگا۔ کسی نقاد نے مسلمانوں کے بارے میں سچ ہی کہا ہے کہ ” یہ کام پہلے کرتے ہیں سوچتے بعد میں ہیں “ ۔ قاسم ناناتوی نے عصری تعلیم کو رد کیا اس لئے وہ کسی کالج یا یونیورسٹی سے الحاق کے پابند نہیں رہے اور آج تک بھی نہیں ہیں لیکن سر سید کے عصری تعلیمی مدرسہ و کالج کا کسی نہ کسی یونیورسٹی سے الحاق لازمی تھا جو پہلے کلکتہ یونیورسٹی اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے عمل میں آیا۔ الحاق یا Affliation آپ جانتے ہیں کہ آزادئی فکر کی صلیب ہوتی ہے۔ عصری تعلیم سے لیس ہونے کے بعد طلبا سے غلبۂ امت تحفظِ قوم بقائے تہذیب و زبان کے کام لینے کا خواب یقیناً سر سید کے ذہن میں رہا ہوگا۔ لیکن انگور کے بیج بو کر آم کی تمنا کی طرح ۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج وغیرہ جیسے مقاصد ہیں وہ دوسرے تیسرے درجہ کے مقاصد ہیں جو فطری طور پر خشت ِاول یعنی عصری تعلیم کے پہلے مقصد کے تابع تھے ۔عصری تعلیم کا الحاق جن یونیورسٹیوں سے کرنا ناگزیر تھا وہ یونیورسٹیاں کسی طالبِ علم کو اس وقت سند دینے سے قاصر تھیں جب تک طالبِ علم ان کے دیئے ہوئے نصاب کو نہ اپنا لے وہ ایسے طلباء کو تو سند عطا کر سکتی ہیں جو بہ آسانی حکومت کے بہترین کارندے بنانے والے نصاب پر محنت کر سکتے ہوں۔ آقا کبھی اپنے غلاموں کو ایسی تعلیم نہیں دیا کرتے جس کے ذریعے غلام آقا بننے کے قابل ہو جائیں۔
اگر انگریز یا ہندو مسلمانوں کی دینی و تہذیبی بقا کی تعلیم پر مشتمل نصاب کو سند دیتے تو پھر انہیں مسلمانوں کو برباد کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ یہ کیسے ممکن تھا Simple Interest اور Compound Interest سیکھ کر نکلنے والا طالبِ علم یونیورسٹی سے نکل کر سود کا دشمن ہو جائے ۔ لاکھوں میں چند ایک ہو بھی جائیں تو وہ محض اپنی صالح فطرت اور تربیت کی وجہ سے ہو سکتے ہیں نہ کہ یونیورسٹی کی وجہ سے ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مغربی طرزِ قانون بڑھ کر ایک طالبِ علم اسلامی نظامِ قانون کا قائل ہو جائے اگر مسلم کالج یا مسلم یونیورسٹی میں شامل لفظ مسلم کی رعایت سے دینیات پڑھانے کی اجازت مل بھی گئی ہوگی تو اسے پڑھ کر طلباء اور بھی زیادہ تضاداتِ ذہنی کا شکار ہوئے۔
ڈارون کی تھیوری پڑھ کر نکلنے والا طالبِ علم تخلیقِ آدم پر ایمان لائے ، یہ ممکن تو نہیں تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبا کی اکثریت مرعوب، منحرف اور مرتد ہو کر نکلی۔ اور نکل کر حکامِ وقت کے بہترین ترجمان و مددگار بنتے رہے ۔ علیگڑھ نے اپنے ابتدائی دور میں ہی ثنا خوانِ تہذیب ِ مغرب کا ایک ایسا جتھہ پیدا کر دیا جو انگریزی استمار کی رفیع الشان تجارت کو استحکام بخشنے والے پتھر ثابت ہوئے۔
یہ سورما خوفِ غلامی میں کامل تھے دینی جذبے سے عاری بے حیائی میں طاق اور دنیا کی کسی بھی بد ترین طرزِ فکر کو پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ خواہ وہ کمیونزم ہو کہ سوشلزم ، نیشنلزم ہو کہ الحاد و دہریت مسلمانوں میں اسلامی فکر سے اختلاف رکھنے والی ہندوستان میں جتنی بڑی ترقی اور خوشحالی عطا کرنے والی یونیورسٹیوں کی تعمیر کلیسا کو تعلیم سے الگ کرنے کی تھی اس لئے علیگڑھ کے لئے بھی یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں قرآن دے۔ یہ نا ممکن تھا کہ سر سید جیسے دور اندیش، قلندر دانش کی نظر سے عصری تعلیم کا یہ انجام اوجھل رہا ہوگا لیکن اس وقت کے حالات ہی ایسے تھے کہ جیسا کہ طارق غازی صاحب نے اپنے پچھلے سال کے مقالہ میں فرمایا کہ:
It was the change - not the agent of the change that mattered to Sir Syed
سوال یہ بھی ہے کہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم جینے والے ایک سے اعلی ایک استاد تو انگلینڈ سے بھی بلا لئے گئے لیکن دوسرے ہاتھ میں قرآن دینے والے استاد بھی کوئی وہاں اتنی ہی تعداد میں موجود تھے؟ اور اگر ہوتے تو کیا ایک میان میں ایک دو تلواریں رہ پاتیں؟ یہی وجہ تھی کہ اکبر تو شروع سے سر سید کے مخالف تھے ہی لیکن شبلی بھی آخر عمر میں مخالف ہو گئے۔
یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ کر دوں کہ بدر کے قیدیوں کو جزیہ کے طور پر مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام لیا جاتا جو کہ جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس لئے صحیح نہیں ہے کہ وہاں مسلمانوں کو اپنے مقصد اور ضرورتِ تعلیم کا پورا پورا شعور حاصل تھا اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے غیر مسلم استادوں کو بھی مامور کیا تھا علیگڑھ کے لئے یہ مثال اس لئے غیر موزوں ہے کہ وہاں روزِ اول سے ہی غیر مسلم نصاب پورا کرنے مسلم طلبا کو مامور کرنا ایک مجبوری تھی۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم یقیناً نا گزیر ہے اگر یہ نہ ہوتی تو آپ اور ہم اتنی بے فکری اور آرام کے ساتھ یہاں بیٹھ کر قوم کے ماضی اور مستقبل پر غور نہ فرماتے لیکن اس کا تعلق فرد کی معاشیات سے ہے ۔ اعلیٰ تعلیم اور اس کے نتیجے میں ملنے والے اعلیٰ عہدے اور اہم پیشے یہ سب فرد کو مالی استحکام ، خوشحال زندگی اور اچھے شہری ہونے کا شرف تو عطا کر سکتے ہیں لیکن اس سے قوم کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے یہ قابلِ غور نکتہ ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کے ان کی ناول ” ابن الوقت “ کے الفاظ میں
” ذلیل قوم کا آدمی چاہے کتنا مالدار یا ہنر مند ہو جائے ناصہ ، امارت سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتا “
ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم یقیناً نا گزیر ہے اگر یہ نہ ہوتی تو آپ اور ہم اتنی بے فکری اور آرام کے ساتھ یہاں بیٹھ کر قوم کے ماضی اور مستقبل پر غور نہ فرماتے لیکن اس کا تعلق فرد کی معاشیات سے ہے ۔ اعلیٰ تعلیم اور اس کے نتیجے میں ملنے والے اعلیٰ عہدے اور اہم پیشے یہ سب فرد کو مالی استحکام ، خوشحال زندگی اور اچھے شہری ہونے کا شرف تو عطا کر سکتے ہیں لیکن اس سے قوم کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے یہ قابلِ غور نکتہ ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کے ان کی ناول ” ابن الوقت “ کے الفاظ میں
” ذلیل قوم کا آدمی چاہے کتنا مالدار یا ہنر مند ہو جائے ناصہ ، امارت سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتا “
عصری تعلیم اکبر الہ آبادی کے بقول :
روٹی دے کر دین و مذہب سے چھین لیتی ہے ۔
بنارس ہندو یونیورسٹی سے نکلنے والے ہندو نوجوان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں رامائنا اور سر پر ہندوتوا کا تاج لے کر نکلے کیونکہ فی الحقیقت نہ رامائنا کوئی ٹھوس ہدایت ہے اور نہ ہندوتوا کوئی دین ہے۔ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے اس کے لئے یونیورسٹی صرف ذریعۂ روزگار ہے ۔ دین و تہذیب کے نعرے جو علی گڑھ تہذیب سے جوڑے گئے شرمندۂ تعبیر نہ ہونے والے خواب تھے ۔ ابنِ خلدون نے علم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے اور بالکل صحیح کی ہے ایک وہ جو ذریعۂ روزگار ہے دوسرے وہ جو ذریعۂ کمالِ ذات ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبا کو روزِ اول سے یہ احساس دلایا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں بہترین ذریعہ ، روزگار تو دے سکتی ہیں لیکن کمالِ ذات نہیں ورنہ وہ بھی پچھلی نسلوں کی طرح ڈگری حاصل کر کے اصلی ” تعلیم یافتہ “ کہلانے کے زعم میں زندگی ضائع کر دیں گے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ڈپلومیٹس وغیرہ کا دنیا میں اضافہ تو یقیناً ہوتا رہے گا لیکن مسلمانوں کا سیاسی، سماجی و اخلاقی گراف مسلسل گرتا رہے گاجیسا کہ آزادی کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں۔
اگر چیکہ ہم عصری تعلیم کے مبلغین کی زبانی ” نشاة ثانیہ “ کے پُر جوش بیانات سے دل بہلا لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ” ایک ملک ایک قوم اور ایک کلچر “ کے تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں یہ گراف مسلسل صفر کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ آج ہمارے پاس سر سید کے دور کے مقابلے میں so called تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد کئی ہزار فیصد زیادہ ہے۔ آخر میں میں سر سید کی عصری معنویت کی یوں توضیح کر وں گا کہ :
” عصری علوم کا حصول آج بھی مسلمانوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے تا کہ وہ نہ صرف بہتر سے بہتر روزگار حاصل کر سکیں بلکہ ایک ذمہ دار شہری کی طرح جمہوری اور سیکیولر ہندوستان میں زندگی گزار سکیں۔ لیکن اس تعلیم سے ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج بھی رو نما ہو جائے گا، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے عصری تعلیم کے مشن کو زندہ رکھتے ہوئے ایسے ادارے اور جماعتیں زیادہ سے زیادہ وجود میں آئیں جو عصری علوم حاصل کر کے نکلنے والے دینی اور تہذیبی طور پر خام ذہنوں کو پختگی کا سامان مہیا کرنے کا کام کریں تاکہ دین کی اصل روح ان میں زندہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم کے مجھ جیسے اور آپ سبھی جیسے پُر جوش حامیوں پر لازم ہے کہ وہ دین کے معاملے میں معذرت خواہانہ ، مرعوبانہ و معروزانہ رویّہ ترک کریں ، احساسِ کمتری اور خوف سے باہر آئیں ۔ جہاں عصری تعلیم کے مراکز لا دینی تحریکوں کو بھی اپنے اندر پھیلنے پھولنے کا جمہوری حق دیتے ہیں وہیں ہم اسلامی بیداری کی حامل جماعتوں اور اداروں کے لئے کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں “۔
شکریہ۔
روٹی دے کر دین و مذہب سے چھین لیتی ہے ۔
بنارس ہندو یونیورسٹی سے نکلنے والے ہندو نوجوان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک ہاتھ میں عصری تعلیم اور دوسرے ہاتھ میں رامائنا اور سر پر ہندوتوا کا تاج لے کر نکلے کیونکہ فی الحقیقت نہ رامائنا کوئی ٹھوس ہدایت ہے اور نہ ہندوتوا کوئی دین ہے۔ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے اس کے لئے یونیورسٹی صرف ذریعۂ روزگار ہے ۔ دین و تہذیب کے نعرے جو علی گڑھ تہذیب سے جوڑے گئے شرمندۂ تعبیر نہ ہونے والے خواب تھے ۔ ابنِ خلدون نے علم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے اور بالکل صحیح کی ہے ایک وہ جو ذریعۂ روزگار ہے دوسرے وہ جو ذریعۂ کمالِ ذات ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبا کو روزِ اول سے یہ احساس دلایا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں بہترین ذریعہ ، روزگار تو دے سکتی ہیں لیکن کمالِ ذات نہیں ورنہ وہ بھی پچھلی نسلوں کی طرح ڈگری حاصل کر کے اصلی ” تعلیم یافتہ “ کہلانے کے زعم میں زندگی ضائع کر دیں گے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ڈپلومیٹس وغیرہ کا دنیا میں اضافہ تو یقیناً ہوتا رہے گا لیکن مسلمانوں کا سیاسی، سماجی و اخلاقی گراف مسلسل گرتا رہے گاجیسا کہ آزادی کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں۔
اگر چیکہ ہم عصری تعلیم کے مبلغین کی زبانی ” نشاة ثانیہ “ کے پُر جوش بیانات سے دل بہلا لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ” ایک ملک ایک قوم اور ایک کلچر “ کے تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں یہ گراف مسلسل صفر کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ آج ہمارے پاس سر سید کے دور کے مقابلے میں so called تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد کئی ہزار فیصد زیادہ ہے۔ آخر میں میں سر سید کی عصری معنویت کی یوں توضیح کر وں گا کہ :
” عصری علوم کا حصول آج بھی مسلمانوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے تا کہ وہ نہ صرف بہتر سے بہتر روزگار حاصل کر سکیں بلکہ ایک ذمہ دار شہری کی طرح جمہوری اور سیکیولر ہندوستان میں زندگی گزار سکیں۔ لیکن اس تعلیم سے ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر کلمہ کا تاج بھی رو نما ہو جائے گا، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے عصری تعلیم کے مشن کو زندہ رکھتے ہوئے ایسے ادارے اور جماعتیں زیادہ سے زیادہ وجود میں آئیں جو عصری علوم حاصل کر کے نکلنے والے دینی اور تہذیبی طور پر خام ذہنوں کو پختگی کا سامان مہیا کرنے کا کام کریں تاکہ دین کی اصل روح ان میں زندہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم کے مجھ جیسے اور آپ سبھی جیسے پُر جوش حامیوں پر لازم ہے کہ وہ دین کے معاملے میں معذرت خواہانہ ، مرعوبانہ و معروزانہ رویّہ ترک کریں ، احساسِ کمتری اور خوف سے باہر آئیں ۔ جہاں عصری تعلیم کے مراکز لا دینی تحریکوں کو بھی اپنے اندر پھیلنے پھولنے کا جمہوری حق دیتے ہیں وہیں ہم اسلامی بیداری کی حامل جماعتوں اور اداروں کے لئے کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں “۔
شکریہ۔
{{مقالہ میں پیش کردہ خیالات مصنف کے ذاتی ہیں۔ امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔}}
No comments:
Post a Comment