Search This Blog

Thursday, 19 April 2012

بنک کا سود اور تجارت کے لیے سودی قرضے

بنک کا سود اور تجارت کے لیے سودی قرضے

اسلامی نقطۂ نظر

۱۵فروری ۱۹۶۰ء کو ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی طرف سے دو نشستوں میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی گئی تھی، جس کا موضوع ’بنک کا سود اور انشورنس اسلامی نقطۂ نظر سے‘ تھا۔ مسئلے کی دینی و علمی اہمیت کی وجہ سے اس مذاکرے کی مختصر روداد ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی، اپریل اور جولائی ۱۹۶۰ء سے پیش ہے۔ (مدیر)

پہلی نشست کے شرکا: پروفیسر میاں شریف، جسٹس ایس اے رحمن، مولانا مودودی، غلام احمد پرویز، منظور احسن عباسی، یعقوب شاہ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی، مولانا جعفرشاہ پھلواری۔

ادارہ ثقافت اسلامیہ کا وسطی ہال گنجایش کی حد تک بھرچکا تھا اور اب صوفوں کے بعد کرسیاں بھرنے کی باری تھی، حتیٰ کہ بعد میں بعض میزبانوں کو پیچھے کھڑا ہونا پڑا۔ مجلس کی کارروائی کا صحیح وقت چار بجے شام تھا لیکن جسٹس ایس اے رحمن اور مولانا مودودی کے انتظار کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی تھی۔ قبل اس کے کہ آپ کارروائی کی روداد سنیں، ایک نظر شرکاے مجلس پر بھی ڈال لیجیے۔ درمیانی صوفے پر مولانا مودودی، جسٹس ایس اے رحمن اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائرکٹر پروفیسر شریف (میاں صاحب) رونق افروز ہیں۔ ان کے بائیں طرف کے صوفوں پر پروفیسر منظوراحسن عباسی، پھر یعقوب شاہ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور غلام احمد پرویز ہیں۔ اگلے صوفوں پر ادارے کے بعض ممبران اور دوسرے معزز مہمان ہیں۔ پیچھے کھڑے ہونے والوں میں ادارے کے ایک رفیق مولانا جعفرشاہ پھلواری بھی ہیں۔ دائیں طرف بھی معزز مہمان ہیں جن میں زیادہ تر مقامی کالجوں کے پروفیسر ہیں۔

مجلس کا آغاز کرتے ہوئے میاں محمدشریف صاحب نے بنکنگ اور انشورنس کے سود کی اسلامی نقطۂ نظر سے مختلف وضاحتوں کا خلاصہ پیش کیا، اور اس کے بعد شرکا کو ایک ایک کاپی اس سوال نامے کی دے دی گئی جس پر مباحثہ ہونا تھا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ: آنحضرتؐ کے زمانے میں قرض لین دین کے کیا طریقے رائج تھے؟
اس سوال پر پروفیسر منظوراحسن عباسی نے ایک بہت مختصر لیکن جامع مقالہ پیش کیا، اور دراصل اس موضوع پر مزید بحث اسی مقالے کی روشنی میں شروع ہوئی۔ عباسی صاحب نے اپنے مضمون میں وہی سب کچھ بیان کیا تھا جو عام طور سے اس موضوع پر لکھنے والے پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن جسٹس ایس اے رحمن اور یعقوب شاہ صاحب نے اس کو مدلّل تسلیم نہیں کیا۔

سوال یہ تھاکہ موطا امام مالک میں قرض لین دین کی جن صورتوں کا ذکر ہے، ان سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں تجارتی مقاصد کے لیے بھی قرض لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی تاریخ کی کسی کتاب میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آتی جس کے پیش نظر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ حضوؐر کے زمانے میں بھی تجارتی مقاصد کے لیے قرض لیا جاتا تھا اور اس پر سود وصول کیاجاتا تھا۔ اس نکتے پر سب سے زیادہ زور سابق آڈیٹر جنرل یعقوب شاہ صاحب دے رہے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر ایک کتابچہ بھی قلم بند فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ: جس ’ربو.ٰ‘ جاہلیت کو قرآن میں ممنوع اور حدیث میں مطعون ٹھیرایا گیا ہے وہ عرب کا رائج الوقت ’ربو.ٰ‘ تھا اور اس زمانے میں دنیا میں کہیں پر بھی نہ تجارتی قرضے لینے اور نہ ان پر سود کا سوال تھا۔ تجارت کے لیے قرض لین دین پر سود بعد کا رواج ہے اور مدت میں اختلاف کی وجہ سے اس سود کو حرام قرار دینا حکمت اور مصلحت کے منافی ہے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ پوری کارروائی دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجلس مباحثہ میں تجارتی سود کے جواز میں استدلال کرنے والوں میں یعقوب شاہ صاحب اور اس کے خلاف راے رکھنے والوں میں مولانا مودودی اپنی اپنی ٹیم کے لیڈر تھے۔ چنانچہ ادھر شاہ صاحب اور ان کے ہم مکتب حضرات اس پر زور دے رہے تھے کہ ’تجارتی سود‘ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ ادھر مولانا مودودی ۱۳۰۰سال سے بھی پیچھے ہٹ کر نینوا اور بابل کی تہذیبوں میں سے آثار پیش کر رہے تھے۔ مولانا نے یہ جواب دیا کہ: ’’۱۳سو سال پیچھے تو درکنار تجارتی سود کا وجود تو بابل کے کھنڈرات نے ثابت کر دیا ہے اور بعض کتبوں میں بنک کے حسابات اور قرض لین دین اور ان پر سود کی تفصیلات تک برآمد ہوئی ہیں‘‘۔ یہ واضح رہے کہ بابل کے جن کھنڈرات کا مولانا مودودی نے حوالہ دیا وہ آج سے کم سے کم تین چار ہزار سال پرانی تہذیب کی یادگار ہیں لیکن مولانا کی یہ دلیل شاہ صاحب کی تسلی کے لیے کافی نہیں تھی۔ آپ اس سے پہلے ولیم جیمز ایشلے (Ashley) کے حوالے سے یہ دلیل پیش کرچکے تھے کہ یورپ میں تجارتی قرضوں کا رواج دسویں صدی کے بعد سے شروع ہوا۔ اب آپ نے بابل کے کھنڈرات کے جواب میں مہابھارت کے اوراق پارینہ پیش کردیے جن میں بتایا گیا تھا کہ اگر تم سینگوں کی تجارت کے لیے قرض لو گے تو نفع میں سے ۱۶/۱دینا پڑے گا اور اگر کُھر کی تجارت کے لیے لو گے تو ۸/۱۔ اور اس طرح یہ سود نہیں بلکہ مضاربت کی تعریف میں آتا ہے۔

دلائل کی گرما گرمی جارہی تھی۔ کمرشل انٹرسٹ کے مصنف مولانا جعفرشاہ اس مباحثے میں حصہ لینے کے لیے نہایت بے چینی سے موقع ڈھونڈ رہے تھے اور شاید یہی عصبی کش مکش دُور کرنے کے لیے انھیں بار بار اہلِ مجلس کی نظریں بچا کر پان کھائے جانا پڑ رہا تھا۔ اتنی سی دیر میں دوسری گلوری منہ میں رکھ کر ہال میں واپس ہوئے ہی تھے کہ میاں محمدشریف صاحب نے مولانا جعفر سے اظہارِ خیال کا تقاضا کیا، پھر کیا تھا ع تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز

مولانا جعفرشاہ نے ایک سانس میں اپنے پورے کتابچے کا خلاصہ سامنے رکھ دیا۔ ان کے سارے دلائل فی الحقیقت یعقوب شاہ صاحب کے دلائل کی تائید میں تھے اور کیوں کہ یعقوب شاہ صاحب کے نقطۂ نظر سے قرآنی حرمت کا انحصار عرب کے رواج پر ہے نہ کہ کہیں اور کے معاشی لین دین سے۔ اس نقطۂ نظر سے مولانا مودودی کو بھی اختلاف تھا اور پروفیسر منظور عباسی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور دوسروں کو بھی، بلکہ ان لوگوں کا اصرار تو یہ تھا کہ سود کے احکام مطلق ہیں اور ان کو مخصوص عرب کے وقتی رواج کا تابع نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے اگر تلاش کیا جائے تو کتابوں میں تجارتی سود یا تجارتی لین دین کے ثبوت فراہم ہوجائیں گے۔ لیکن دوسری طرف یعقوب شاہ اور ان کے ساتھی اس پر مُصر تھے کہ اگر تاریخ، عرب قدیم میں اس رواج کو واضح الفاظ میں ثابت کرتی ہے تو وہ ان احکام کو تجارتی سود پر بھی حاوی سمجھیں گے ورنہ نہیں۔ دراصل سوال نامہ عین وقت پر تقسیم کیا گیا اور جواب دینے والوں کو تیاری کا کوئی موقع نہ مل سکا۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ فی الحال اس بحث کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔

اب دوسرا سوال یہ تھا کہ:’’ربو.ٰ کی تعریف کیا ہے؟‘‘ پروفیسر منظوراحسن صاحب نے اس کے جواب میں اپنے ایک مقالے کا خلاصہ پیش کیا، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ’ربو.ٰ‘ زیادتی مطلق کو کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنی تقریر میں ’ربو.ٰالفضل‘ اور ’ربو.ٰ النسیہ‘ کو خلط ملط کردیا۔ جسٹس ایس اے رحمن نے اس تعریف کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا کہ جس ’ربو.ٰ‘کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے، وہ موجودہ قسم کا تھا یا مخصوص۔ اس پر مولانا مودودی نے ’ربو.ٰ‘ کی تعریف میں قرآن کی آیات پیش کیں اور بتایا کہ ان آیات (البقرہ۲: ۲۷۸۔۲۸۰) کی روشنی میں راس المال سے زائد کو ’ربو.ٰ‘ قرار دیا گیا ہے۔وہ آیات یہ ہیں:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ oفَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ج وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ج لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ oوَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o(البقرہ ۲:۲۷۸۔۲۸۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمھارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔

اس موقع پر غلام احمد پرویز صاحب نے ’ربو.ٰ‘کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ آپ نے قرآن پاک کی دو مختلف آیتوں کو ملا کر یہ تشریح کی کہ: ’’قرآن کی رُو سے انسان محنت کا معاوضہ لے سکتا ہے، سرمایے کا نہیں، کیوں کہ سرمایے کا معاوضہ سود ہے‘‘۔ لیکن پرویز صاحب کی اس جدید ’اسلامی تعریف‘ پر کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ اور اسی دوران میں مباحثہ اس سوال پر شروع ہوگیا تھا کہ راس المال سے زائد وصول کرنے پر وہ علّت کون سی ہے جو اسے حرام قرار دیتی ہے۔ جعفرشاہ صاحب نے لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ کو عدم جواز کی اور الا ان تراض منکم کو جواز کی علّت قرار دیا۔ لیکن مولانا مودودی نے لَا تَظْلِمُوْنَ والی آیت کو علّت کے بجاے معلول ٹھیرایا اور بتایا کہ: ’’اب تک کسی مُفسر نے اس کے وہ معنی نہیں لیے جو یہاں لیے جارہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور جسٹس ایس اے رحمن بھی اپنی اپنی دلیلیں اور جوابی دلیلیں پیش کرتے رہے۔ اور آخر بات گھوم پھر کر وہیں آگئی کہ جس راس المال پر یہ زیادتی وصول کی جاتی تھی، وہ کس مقصد کے لیے قرض لیا جاتا تھا۔ جب اس گفتگو کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا توتیسرا اور اسی طرح پھر چوتھا سوال زیربحث آیا لیکن آخر میں یہی طے پایا کہ جب تک ’ربو.ٰ‘ کی صحیح صحیح تعریف متعین نہ ہوجائے اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے رواج کا پتا نہ چل جائے، اس مسئلے پر مزید مباحثہ کرنا بے نتیجہ رہے گا۔

اب انشورنس کے مسائل زیربحث آئے لیکن مودودی صاحب نے یہ اپیل کی:’’چوں کہ انشورنس کا سودی کاروبار سے گہرا تعلق ہے، اس لیے اس کی بحث بھی ملتوی رکھی جائے‘‘۔ آپ نے اس موضوع پر ایک مقالہ پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
مباحثے کی کارروائی تین ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی اور درمیان میں صرف نمازِ مغرب کے لیے کارروائی کو ملتوی کیا گیا۔ غلام احمد پرویز صاحب نے مودودی صاحب کی اقتدا کی، لیکن ثقافتِ اسلامی کے بعض خاص ممبران شریکِ جماعت نہ ہوئے۔بحیثیت مجموعی یہ مباحثہ کافی حد تک خوش گوار فضا میں ہوتا رہا۔ یہ ہماری قوم کی بدنصیبی ہے کہ ارباب حل و عقد اختلافی مسائل کے تصفیے کے وقت اپنے مقام سے کافی گر جاتے ہیں۔ کہیں معاملہ فقہی موشگافیوں اور جذباتی اختلافات کی نذر ہوجاتا ہے، اور کہیں حد سے زیادہ پارلیمانیت سارے مقصد کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اس کے برعکس اس مباحثے کا ماحول باوقار اور عالمانہ تھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس میں زیادہ تر حصہ لینے والے بھی باوقار تھے۔ پھر میاں صاحب نے بھی بڑی حکمت کے ساتھ نظم و ضبط قائم رکھنے کی کوشش کی اور سارے وقت تک اسپیکر کے سے فرائض انجام دیتے رہے۔ باقی کارروائی رمضان المبارک کے بعد ہونا طے پائی۔
_______________

’بنکاری، سود اور بیمہ اسلامی نقطۂ نظر سے‘___ اس موضوع پر دوسری مجلس مذاکرہ ۲۹اور ۳۰؍اپریل کو پھر اسی مقام پر منعقد ہوئی۔ اس مرتبہ ڈاکٹر انور اقبال قریشی نہیں پہنچے تھے اور غلام احمد پرویز صاحب نے شریک نہ ہونا ہی مفید سمجھا تھا۔ البتہ میاں افضل حسین (سابق وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی اور ممبر تعلیمی کمیشن)، علامہ علاؤالدین صدیقی، اور مولانا محمدعلی مجتہد نئے شرکا میں خاص طور پر قابلِ ذکر تھے۔ موضوع وہی تھا، یعنی پہلا سوال یہ کہ: ’’آنحضرتؐ کے زمانے میں تجارتی قرضوں کا اور ان پر سود کا رواج تھا یا نہیں تھا‘‘___ مولانا مودودی، پروفیسر منظور احسن عباسی، جناب ابوحمزہ شامی اور مولانا محمدجعفر پھلواری نے اس موضوع پر مقالے پڑھے۔

مباحثے کا آغاز مولانا مودودی کے مقالے سے ہوا۔ مولانا نے اپنے مضمون کو تین مباحث میں تقسیم کیا تھا۔ ایک یہ کہ حضوؐر کے زمانے میں اور اس سے قبل عرب اور پاس پڑوس میں ہرقسم کے قرضے لیے اور دیے جاتے تھے، یا صرف صرفیاتی قرضے؟ پھر یہ کہ ان قرضوں پر سود کی وصولی ہوتی تھی یا نہیں؟ اور آخر میں یہ کہ عرب میں اصل سے زیادہ رقم وصول کرنے کے لیے ’ربو.ٰ‘ کی ہی اصطلاح مستعمل تھی یا کوئی اور؟

پہلے حصے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اس زمانے اور اس سے قبل کے زمانے کا مالی اور تجارتی پس منظر پیش کیا، اور ثابت کیا کہ: ’’صرف عرب میں تجارتی قرضوں اور سود کا رواج نہیں تھا، بلکہ عرب کے پڑوس کے ممالک میں بھی آپ نے خاص طور سے یہود اور قریش کی زمانۂ قدیم سے تجارت اور دوسرے ممالک سے ان کے تجارتی تعلقات پر روشنی ڈالی، اور اس پر زور دیا کہ مکہ چونکہ اپنے وسائلِ پیداوار کے لحاظ سے صفر کے برابر تھا، اس لیے اس کو ہر زمانے میں خودکفیل رہنے کے لیے بیک وقت کئی ممالک سے تجارتی وابستگی رکھنا پڑتی تھی۔ قریش اور بنوثقیف وغیرہ نہ صرف اپنی ضروریات کے لیے تجارت کرتے تھے، بلکہ دوسرے قبیلوں میں بھی تھوک فروشی کرتے تھے اور اس کا انحصار قرض پر ہوتا تھا۔ پھر قریش غیرممالک کے مالی اور تجارتی اداروں سے گہرا تعلق رکھتے تھے، اس لیے یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ ان ممالک کے رواج سے واقف نہ ہوتے ہوں۔ مثلاً ان لوگوں کے تجارتی تعلقات شام سے تھے اور جہاں پر یہ حال تھا کہ مہاجن تو درکنار مندر بھی بنک کا کام انجام دیتے تھے اور زرعی مقاصد کے لیے سود پر قرض دیا کرتے تھے۔ اسی طرح قدیم زمانے میں ان لوگوں کے بابل سے تعلقات تھے بلکہ بابل تو کافی عرصے تک شمالی عرب پر قابض بھی رہ چکا تھا۔ یہاں یہ حال تھا کہ تجارتی اور غیر تجارتی مقاصد کے سود کی مختلف شرحیں تھیں‘‘۔

مولانا مودودی نے مزید بتایا: ’’اسی طرح اسیر، اور یونان سے بھی یہ لوگ تجارت کرتے تھے۔ اسیر میں صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے ۲۵فی صد شرح سود رائج تھی اور یونان میں ۱۲سے ۳۰فی صد تک تجارتی سود وصول کیا جاتا تھا، بلکہ یہاں تو ۵ویں صدی عیسوی ہی میں باقاعدہ بنک قائم ہوچکے تھے۔ یونان اور شام کے ساہوکاروں کا یہ حال تھا کہ انھوں نے پہلی صدی ہی میں روم کے ہرہرحصے میں بنک قائم کردیے تھے اور آگسٹن نے ۴سے ۱۰فی صد تک شرحِ سود مقرر کر دی تھی‘‘۔

مولانا مودودی نے عرب کے یہودیوں کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے ۲لاکھ درہم سود پر قرض دیا تھا۔ ان میں مولانا نے سب سے زیادہ زور قیصرِروم کے قرض پر دیا۔ قیصرِروم نے ٹھیک حضوؐر کے زمانے میں ایران سے جنگ کرنے کے لیے کلیسا سے بھاری قرض لیا تھا۔ اس پر سود کی رقم بھی ادا کی تھی۔ مولانا نے استدلال کیا کہ: ’’اس لڑائی سے عربوں کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ قریش میں روم کی فتح و شکست کے معاملے میں شرطیں لگائی گئی تھیں اور ان میں کا ہرہرشخص جنگ کے مختلف مرحلوں سے پوری دل چسپی رکھتا تھا، حتیٰ کہ اس جنگ کے متعلق قرآن میں پیش گوئی نازل ہوچکی تھی: غُلِبَتِ الرُّوْمُ oفِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ o(الروم ۳۰:۲۔۳) ’’رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے‘‘۔ آخر کیسے ممکن تھا کہ عربوں کی اور خود حضوؐر کی تجارتی سلسلے میں آئے دن کی آمدورفت رہتی ہو، حتیٰ کہ اس ملک کی جنگ اور صلح سے بھی گہری دل چسپی ہو، لیکن انھیں یہ نہ معلوم ہو کہ یہاں صرفیاتی قرضوں کے علاوہ بھی قرضوں کا رواج ہے اور ان پر سود لیا اور دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس جنگ کے لیے قیصرِروم نے سودی قرض لیا ہے۔ ان حقائق سے انکار ایک ایسا طرزِفکر ہے جس کو عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرسکتی‘‘۔

مضمون کے تیسرے حصے میں مولانا مودودی نے تفاسیر کے حوالے سے ’ربو.ٰ‘ کی حیثیت پر روشنی ڈالی۔ پھر بعض احادیث پیش کیں، جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا تھا کہ حضوؐر تجارتی مقاصد کے لیے قرض کے تخیل سے آشنا تھے۔ یہ حدیث بخاری نے متعدد موضوعات کے تحت پیش کی ہے اور نسائی نے بھی اس کو اپنی سنن میں داخل کیا ہے۔ اس حدیث میں ایک بنی اسرائیلی کا قرض لے کر تجارت کے لیے سمندر پارجانا اور پھر اس کی خوش معاملگی پر اس کی نیت اور اس کے مال میں برکت ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضوؐر کے دور میں غیرصرفیاتی قرضوں کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خود حضوؐر نے عبداللہ بن ربیعہ سے جنگِ حنین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ۴۰ہزار درہم کا قرض لیا تھا‘‘۔(مکمل مقالے کے لیے دیکھیے: سود از مولانا مودودی، ص۱۹۸۔۲۲۷)
مولانا مودودی کا مقالہ کافی مدلّل اور مسکت تھا لیکن بعد کے دو مزید مقالوں نے جو دراصل اسی دعوے کی تائید میں تھے، بحیثیت مجموعی ایک ایسا تاثر پیدا کیا جس کے بعد مخالفین کے لیے حجت کی گنجایش تو نکل سکتی تھی، دلیل کی نہیں۔
پروفیسر منظور احسن عباسی صاحب السنۂ قدیمہ سے شغف رکھتے ہیں اور پرانی دستاویزیں پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ نے رازی کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ: ’’اس زمانے میں اجتماعی قرضے عام تھے جو بین القبائل نوعیت کے ہوتے تھے۔ بعض اوقات چند ساہوکار مل کر بڑے بڑے قرضے دیتے اور ان پر سود وصول کرتے تھے، جیسے بنومغیرہ اور بنوعباس کی شراکت۔ اسی طرح بنوثقیف اور بنوقریش۔ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عرب میں تجارتی قافلے افراد سے زیادہ پورے قبیلے کے نمایندہ ہوتے تھے، اور ان میں قبیلے کے ہرہرفرد کا حصہ ہوتا تھا۔ قافلے کو روکنے کے معنی ناکہ بندی کرکے ایک پورے شہر کی مالیات کو متاثر کرنا اور انھیں ان کی شرارت کامزا چکھانا ہوتا تھا۔ عرب میں حکومتیں نہیں تھیں، خودمختار قبیلے ہی اسٹیٹ تھے اور قبیلے کی تجارتی ناکہ بندی بالکل وہی معنی رکھتی تھی جو آج کے دور میں نہرسوئز سے گزرنے میں اسرائیل کے جہازوں پر پابندی رکھتی ہے۔

جناب ابوحمزہ شامی نے اپنے مقالے میں حضوؐر کے زمانے کی مثالوں کے بجاے حضوؐر کے فوراً بعد کے زمانے میں تجارتی قرضوں کی شمولیت کی کئی مثالیں پیش کیں، اور بتایا کہ تجارت کے مختلف طریقے، مالیات کی ترقی یافتہ تکنیک، بنکاری کا اعلیٰ نظام، یہ سب چیزیں دراصل پہلی اور دوسری صدی ہجری ہی میں تشکیل پاچکی تھیں، لیکن اس زمانے کے اَئمہ اور فقہا کا متفقہ فیصلہ تھا کہ سود جہاں بھی ہو، حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک یہ ادارے مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے سود سے پاک رہے۔ مثالوں میں موطا امام مالک کی مشہور مثال جسے اکثر مضاربت کے جواز میں بھی نقل کیا جاتا ہے، کافی زیربحث رہی۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف واقعات چھوڑ کر یہ تھیوری بھی قائم کی کہ زبیر بن عوام کے پاس حضرت عثمان، عبداللہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن عوف اپنی ودیعات [جمع شدہ پونجی] جمع کرایا کرتے تھے۔ اس طرح خود زبیر بن عوام ایک چلتے پھرتے بنک تھے، جہاں سودی کاروبار حرام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مرتے وقت آپ کے پاس ۲۲لاکھ درہم موجود تھے۔ امام ابوحنیفہ کا واقعہ اس سے زیادہ اہم ہے۔ ان کے پاس قرض اور امانتوں کی رقم کی مجموعی مقدار ۵کروڑ درہم سے زیادہ تھی۔ امام اعظم ایک طرف تو قرض امانتیں رکھتے تھے اور دوسری طرف یہی رقم دوسروں کو کاروبار کے لیے بطور قرض دے دیتے تھے، لیکن سود کو آپ بھی حرام قرار دیتے تھے۔ اسی طرح ابوحمزہ شامی صاحب نے ہند بنت عتبہ کی مثال بھی پیش کی تھی، جس نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیت المال سے تجارت کے لیے ۴ہزار درہم قرض لیے تھے۔ہند بن عتبہ کی روایت مولانا محمدعلی مجتہد کے نزدیک احاد میں سے تھی، لیکن مولانا مودودی اس کو بطور ثبوت کے تسلیم کرنے پر زور دے رہے تھے۔ یہ واقعہ حضوؐر کے وصال کے صرف ۱۳سال بعد کا نقل کیا جاتا ہے۔

ابوحمزہ شامی صاحب کی پیش کی ہوئی مثالوں میں سب سے زیادہ معرض بحث موطا کی مشہور روایت آئی، جس میں عراق کے گورنر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کے دونوں صاحبزادوں کو کچھ سرکاری رقم مرکزی بیت المال میں پہنچانے کے لیے دی تھی۔ اس پر شامی صاحب کا استدلال تھا کہ یہ رقم امانت کے بجاے بطورِ قرض دی گئی تھی، تاکہ مرکز میں بحفاظت پہنچ سکے۔ اس رقم سے ان دونوں نے کاروبار کرڈالا اور نفع اپنی جیب میں رکھ کر اصل رقم بیت المال میں داخل کردی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے محض اقربانوازی کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ایک نظیر قائم کرنی چاہی اور منافع کا مطالبہ بھی کردیا۔ بالآخر ثالثوں نے بیچ میں پڑ کر نصف منافع ان دونوں کو دلایا اور نصف بیت المال میں۔ اس مثال پر یعقوب شاہ صاحب سود کے جواز میں استدلال کررہے تھے اور مودودی صاحب، شامی صاحب اور عباسی صاحب سود کی حُرمت پر۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد تمام حضرات اس پر متفق ہوئے کہ یہاں تقسیم منافع کسی اصول، حکم یا قانون کے تحت وصول نہیں کیا گیا ہے، بلکہ مضاربت کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔

شامی صاحب نے جہاں اپنے مقالے کو واضح مثالوں اور ٹھوس دلیلوں سے سجایا تھا، وہیں یہ بات کھٹکتی تھی کہ اس کے آغاز میں انھوں نے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ایک تہائی حصے میں اپنے میزبانوں (یعنی ادارہ ثقافت اسلامیہ) کا اچھی طرح ’پول کھولا‘ اور ’متجددین‘ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور پھر موضوع پر کچھ دلیلیں پیش کر کے الگ ہوگئے۔

ابوحمزہ شامی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ تم لوگ ہر بے دینی کو دین قرار دینے اور ہرحرام کو حلال ٹھیرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہو۔ اب تجارتی سود جیسے بڑے حرام کو حلال کرنا چاہتے ہو، اس کے بعد ’تجارتی زنا‘ کو جائز قرار دو گے لیکن اللہ نے چاہا تو ہم تمھاری ایک نہ چلنے دیں گے اور ڈھول کا سارا پول کھول کر رکھ دیں گے۔ حلال کرنا ہے تو سرکاری روپیہ حلال کرو، محرمات نہیں۔ شامی صاحب کے اس تبصرے سے ادارہ ثقافت کے ممبروں پر جو گزری ہوگی اس کو وہی جانتے ہیں۔ لیکن اس تمہید سے بعض دوسرے سنجیدہ حضرات کی طبیعت بھی مکدر ہوگئی تھی اور جسٹس ایس اے رحمن نے اس طرف توجہ بھی دلائی۔ کہیں کہیں عباسی صاحب نے بھی نوکِ قلم تیز کردی تھی، لیکن بس چھینٹوں کی حد تک۔
تبصروں اور بحث و تمحیص سے پہلے مولانا جعفر پھلواری نے بھی ایک مختصر سا مقالہ پڑھا۔ مولانا پھلواری کے مقالے نے اول الذکر تینوں مقالوں سے ہٹ کر ایک بالکل نیا ہی نکتہ اُٹھایا، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی اور نہ اسے موضوع بحث بنایا گیا۔ آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ: ’’حضوؐر کے زمانے میں تجارتی قرضوں کا رواج ہو یا نہ ہو، بہرحال اس زمانے کے پیچیدہ حالات میں اس زمانے کے لحاظ سے فرق ہے۔ پہلے سود کی اسپرٹ جبروظلم تھی اور اب باقاعدہ ایجاب و قبول کے بعد سود لیا جاتا ہے۔ قرض لینے والا ایک سے دس پیدا کرتا ہے اور بخوبی سود ادا کرتا ہے۔ احکامِ سود کی علّت میں اس اختلاف کی بنا پر موجودہ بنکاری پر سود کے احکام کا انطباق نہیں ہوسکتا۔

مولانا جعفر کی بات اگر اتنی ہی مبہم اور مختصر رہے تو بظاہر بڑی دل لگتی معلوم ہوتی ہے۔ زید ایک لاکھ قرض لیتا ہے اور اس سے ۱۰لاکھ کماتا ہے۔ آخر ۵ہزار روپے سود کے ادا کردینے سے اس پر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات اتنی سادہ اور مختصر نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دراصل تجارتی سود ذاتی ضروریات کے قرض پر سود سے زیادہ ظالمانہ اور خطرناک ہے، کیونکہ اس میں سود کا اثر صرف ایک شخص کی ذات پر پڑتا ہے لیکن اس تجارتی سود کا سارا اثر قوم پر پڑتا ہے، کیونکہ سودی قرض لینے والا سود کی ساری رقم قیمت فروخت میں لگادیتا ہے۔ اس طرح گویا سود کی رقم ادا تو صارفین کرتے ہیں لیکن قرض کا فائدہ قرض خواہ اور سود کا فائدہ سود خور حاصل کرتا ہے۔ بات موٹی سی ضرور ہے لیکن اتنی موٹی بھی نہیں ہے کہ ’باریک عقل‘ کا ’پردہ‘ بن جائے۔

بات کچھ عجیب سی تھی لیکن تھی حضوؐر کے زمانے میں تجارتی قرضوں کے رواج کے فقدان کے دعوے میں، سب سے زیادہ پیش پیش محترم یعقوب شاہ صاحب تھے۔ لیکن آج کی مجلس میں وہ اس وقت افتاں و خیزاں پہنچے، جب شامی صاحب اپنا مقالہ ختم کرنے والے تھے۔ پھر بھی شاہ صاحب نے میدان میں اُترتے ہی ’فری اسٹائل‘ دلائل شروع کردیے اور آخر مجبور ہوکر مولانا مودودی کو اپنے مقالے کا کچھ حصہ دوبارہ پڑھنا پڑا۔ شاہ صاحب کو حیرت بار بار اس بات پر ہورہی تھی کہ ولیم جیمز ایشلے نے تو یہ لکھا ہے کہ یورپ میں دسویں صدی عیسوی تک تجارتی قرضوں کا رواج نہ تھا، آخر یہ عرب میں کیسے رائج ہوگیا؟ اس طرزِفکر کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو بڑے خطرناک نتائج حاصل ہوں گے۔ پھر دل چسپ بات یہ کہ خود شاہ صاحب نے ’ایشلے‘ کی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، بلکہ اس کا اقتباس ڈاکٹر انور اقبال قریشی صاحب کی کتاب سود میں ملاحظہ فرمایا ہے، اور اب اس کو ایک الہامی دعویٰ سمجھتے ہیں، حالانکہ اگر یورپ کی معاشی تاریخ کا غائر مطالعہ فرماتے تو خود ڈاکٹر صاحب کو یہ اقتباس نکالنے پر مجبور کرتے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ وہ حضرات جو تجارتی قرضوں کے وجود ہی سے لاعلمی کا اظہار فرماتے ہیں۔ پہلے پرنسپلز آف پولیٹیکل اکانومی کا مطالعہ فرمائیں، پھر ۵ہزار سالہ تجارتی، مالی اور معاشی تاریخ کا اور بعد میں خود ٹھنڈے دل سے راے قائم کریں۔ اگر یہ حضرات صرف قرآن کا غائر مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ لین دین میں بے ایمانی ثمود کا اور سودخواری قومِ یہود کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔

اس مباحثے میں ایک اور دل چسپ نکتہ سامنے آیا اور وہ قانونی ’ربو.ٰ‘ اور معنوی ’ربو.ٰ‘ میں امتیاز کا تھا۔ مولانا مودودی نے بتایا کہ لین دین کے بعض معاملات میں کھلم کھلا سود کا عنصر پایا جاتا ہے، جیسے علانیہ طور پر نقد کے مقابلے میں قرض فروخت کی قیمت میں اضافہ۔ لیکن بعض معاملات میں صرف نیت اور روح کی حد تک سود کا عنصر ہوتا ہے، جیسے گاہک سے واقفیت کی بنیاد پر قرض فروخت کی قیمت بغیر کسی سوال جواب یا بغیر ادایگی کی شرط معلوم کیے بڑھا دی جائے۔
یہ کارروائی تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔ مولانا محمد علی مجتہد پہلی مرتبہ تشریف لائے تھے اور آج صرف کارروائی سنتے رہے، البتہ کبھی کبھی مولانا مودودی پر چھینٹ اُڑا دیتے تھے۔ آج کے مقالے جتنے علمی اور مدلّل تھے، مباحثہ اتنا علمی اور مدلّل نہیں ہوا۔ حالانکہ اس مجلس میں شرکت کرنے والے سب کے سب سنجیدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز حضرات تھے۔

No comments:

Post a Comment