Search This Blog

Thursday, 26 April 2012

استعمار و استحصال کا مقابلہ اور تعلیم

استعمار و استحصال کا مقابلہ اور تعلیم

 ڈاکٹر محمد رفعت

 رکن مرکزی مجلس شوری  و امیر حلقہ دلی و ہریانہ
پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

حقیقی آزادی کی ضرورت
      

آزاد ہندوستان
ہمارا ملک 1947 میں یوروپی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ اس آزادی کا تقاضا یہ تھا کہ اس نئے دور میں ملک کی تعمیر اس انداز میں کی جاتی کہ یہاں کے باشندوں کو سیاسی و رسمی آزادی کے ساتھ ساتھ حقیقی آزادی بھی حاصل ہوجاتی۔ اُن کے جسم اور دل و دماغ سب آزاد ہوتے اور وہ استحصال سے پاک، انصاف پر مبنی سماج کے اندر زندگی گزارسکتے۔
لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ رسمی آزادی کے بعد بھی ملک کے اندر استحصال، بے انصافی اور ظلم و جبر بدستور جاری رہا اور بعض پہلوؤں سے ان خرابیوں میں مزید شدت آگئی۔
خرابی کے اسباب
فطری طور پر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟
غور کیا جائے تو تین بڑے اسباب پر نگاہ جاتی ہے:
(الف)     پہلا سبب یہ ہے کہ ملک رسماً تو آزاد ہوگیا لیکن بالواسطہ (چھُپے ہوئے) طریقوں سے ملک کی آزادی چھینی جاتی رہی اور یہاں باہر کی طاقتوں کی مداخلت جاری رہی۔
(ب)      دوسرا سبب یہ ہے کہ کمزوروں اور مظلوموں پر جو ظلم و ستم خود اُن کے ہم وطن کررہے تھے (اور صدیوں سے کرتے چلے آرہے تھے) اُس کو روکنے کی مؤثر تدبیریں اختیار نہ کی جاسکیں۔
(ج)       تیسرا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ خدا پرستی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر نو کے لیے مادہ پرستانہ فلسفوں کو بنیاد بنایا گیا، چنانچہ حق پرستی اور کردار سازی کے تعمیری رجحانات کے بجائے اس ملک کے اندر اخلاقی بحران اور باطل افکار کو فروغ حاصل ہوا۔
پہلا سبب : نیا  استعمار
دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہی دنیا دو بڑی طاقتوں (روس اور امریکہ) کے زیرِ اثر دو بلاکوں میں بٹ گئی۔ کسی ملک کے لیے یہ بات آسان نہیں رہی کہ وہ اپنا حقیقی آزاد  و جود قائم رکھ سکے۔ اسے چارو ناچار اِس بلاک یا اُس  بلاک کا حصہ بننا پڑا۔ ہر بلاک نے اپنے زیرِ اثر ممالک کو فوجی و معاشی معاہدوں کے ذریعے اپنے جال میں جکڑنے اور اپنا پابند بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس طرح براہِ راست استعمار تو ختم ہوگیا، لیکن ایک ’’نیا استعمار‘‘  وجود میں آگیا جو ملکوں پر اپنا تسلط قائم رکھتا تھا۔ شروع میں پنڈت نہرو کی قیادت میں ہمارے ملک نے کوشش کی کہ آزاد رہے اور ’’ناوابستہ‘‘ تحریک برپا بھی کی۔ لیکن حالات کے دباؤ کے تحت ہمارا ملک رفتہ رفتہ ’’روسی بلاک‘‘ کا حصہ بنتا گیا۔ اس میں بڑا دخل ہندوپاک کے درمیان کشیدگی کا بھی تھا، جس نے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بننے پر مجبور کردیا تھا۔
روس کا انتشار
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اچانک حالات نے پلٹا کھایا۔ روس جیسا عظیم ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا چنانچہ روسی بلاک عملاً ختم ہوگیا۔ اور دنیا میں ایک ہی بڑی طاقت (امریکہ کی) باقی رہ گئی۔
روس کے اس انتشار کے بعد امریکہ گلوبلائزیشن، لبرلائزیشن، اور نئے عالمی نظام کے نعروں کے ساتھ میدان میں آیا اور اپنی طاقت کو منوانے کے لیے دنیا کے ہر خطے میں اس نے اپنے اثرات بڑھانے شروع کیے۔
ہمارا ملک بھی حالات کی اس نئی گردش سے متاثر ہوا۔ اس نے ’’لبرلائزیشن‘‘ کے تحت نئے معاشی اقدامات شروع کیے۔ اب تک کے معاشی قوانین اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور بیرونی سرمائے کے ملک کے اندر آنے کی راہ ہموار کی گئی۔ معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی۔ امریکہ اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ بڑھتا گیا اور ’’ناوابستگی‘‘ کی تحریک محض ایک رسم کے طور پر زندہ رہ گئی۔ دفاعی اور فوجی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل سے قُربت روز بروز بڑھتی گئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ ہمارا ملک روسی بلاک کے بجائے اب ’’امریکی استعمار‘‘ کے زیرِ اثر آگیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا احیاء
لبرلائزیشن کا نیا نعرہ دراصل سرمایہ داری کے احیاء کا اعلان تھا چنانچہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام دوبارہ زندہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس نئی زندگی کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی تین بنیادی خصوصیات دوبارہ ابھر کر سامنے آنے لگیں:
(الف) استحصال
(ب) عدمِ توازن
(ج) انسانی خصوصیات سے عاری سماج کا ظہور۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت استحصال ہے۔ اس میں سرمایہ دار طبقہ، مزدوروں کا استحصال کرتا ہے۔ ایک ملک کے اندر منظم طبقات، غیر منظم افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ زیادہ باخبر اور با ہنر لوگ کم صلاحیت والوں کا استحصال کرتے ہیں۔ شہروں سے وابستہ صنعتی سیکٹر، دیہی اور زرعی سیکٹر کا استحصال کرتا ہے (چنانچہ دیہی علاقے وسائلِ حیات اور وسائلِ ترقی سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں) اور اسی طرح طاقتور ممالک کمزور ملکوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر ’’نظامِ استحصال‘‘ ہے جو سرمایہ داری پیدا کرتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا نتیجہ ’’عدمِ توازن‘‘ ہے۔ دولت سماج کے ایک طبقے کے پاس سمٹ جاتی ہے اور بقیہ افراد اس سے محروم ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ کسی مفید معاشی سرگرمی کے اہل نہیں رہتے۔ عدمِ توازن کا دوسرا پہلو قدرتی وسائل کا مسرفانہ اور بے جا استعمال ہے جس کا نتیجہ ’’فطری ماحول‘‘ کا عدمِ توازن ہے۔
ہمہ گیر استحصال کے نتیجے میں سماج میں تمام اچھی اخلاقی خصوصیات ختم ہونے لگتی ہیں۔ ہمدردی، غم خواری اور تعاونِ باہمی کے بجائے خود غرضی، لالچ اور قساوتِ قلبی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انسان مشین بننے لگتے ہیں اور انسانی جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اُس اخلاقی طاقت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جو انہیں استحصال سے جنگ پر آمادہ کرسکتی تھی۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک نتائج ہیں اور آج پوری دنیا ان نتائج کو اپنی آنکھو ںسے دیکھ رہی ہے۔
ہمارے ملک نے سرمایہ دارانہ نظام اور امریکہ کے نئے استعمار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیںاور اس طرح اپنی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطرے کی سب سے نمایاں علامت Sepcial Economic Zone (SEZ) ہیں۔

خرابی کا دوسرا سبب ۔ ہم وطنوں کا ظلم و جبر
یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ظلم و جبر کے اسباب صرف ملک کے باہر ہیں یا محض ’’عالمی سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی دَین ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ظلم و جبر کی بہت سے شکلیں وہ ہیں جو خود ملک کے اندر اپنی جڑیں رکھتی ہیں۔
صدیوں سے ہمارے ملک کے اندر انسانوں کو ’’اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں‘‘ میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس نامعقول تقسیم کو دیومالائی تصورات کی تائید بھی حاصل ہے۔ اس تقسیم کے مظاہر یہ ہیں:
(الف)     ہر فرد کو کسی نہ کسی ’’ذات‘‘ سے متعلق قرار دینا۔
(ب)      ’’ذات‘‘ کے اس تعین کے مطابق اُس کا سماجی ’’مرتبہ‘‘ متعین کرنا ۔ (یعنی فلاں ذات، فلاں دوسری ذات سے ’’کم تر‘‘ ہے اور فلاں تیسری ذات سے ’’برتر‘‘ ہے۔)
(ج)       (کم از کم دیہی علاقوں میں) اپنی ذات کے مطابق پیشہ (یا معاشی سرگرمی) اختیار کرنے کے لیے افراد کا مجبور ہونا۔
(د)        چھوت چھات کا برتاؤ اور آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی سے نچلی ذاتوں کا محروم کردیا جانا۔
(ہ)        سہولتوں سے محرومی مثلاً ’’نچلی‘‘ ذات والوں کو کنویں سے پانی نہ لینے دینا اور اسکول میں تعلیم نہ حاصل کرنے دینا۔
(و)        ظلم کی صریح شکلیں مثلاً بے گار لینا، پنچایتوں کے ذریعے مالی تاوان عائد کردینا، آبرو ریزی، لوٹ مار، زدو کوب کرنا، بے عزت کرنا وغیرہ۔
’’ذات پات کے نظام‘‘ کے علاوہ ظلم و جبر کی دوسری شکلیں جو ہمارے ملک میں رائج ہیں ،درج ذیل ہیں:
(الف)     شہروں کے مقابلے میں گاؤوں کی سہولیات سے محرومی (گاؤں تعلیم، علاج اور روزگار کے مواقع سے محروم ہیں اور یہ سہولتیں صرف شہروں تک محدود ہیں)۔
(ب)      زرعی سیکٹر اور کسانوں کا استحصال (سودی نظام کسانوں کا استحصال کرتاہے اور صنعتی سیکٹر کے بالمقابل کسان زرعی پیداوار کے لیے متناسب قیمتوں سے محروم رکھے جاتے ہیں۔)
(ج)       ملک کے خاصے بڑے حصے میں جاگیردارانہ نظام کے باقیات کی موجودگی۔ جس کے نتیجے میں زمین نہ رکھنے والے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔
(د)        ملک کا اپنا سرمایہ دارانہ نظام جو عالمی سرمایہ داری سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔
(ہ)        بندھوا مزدوری اور بچہ مزدوری۔
ظلم و جبر کی ان ساری شکلوں کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ قانونی اقدامات ضرور کیے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور اکثر صورتوں میں مسئلے کی اصل جڑ سے تعرض نہیں کرتے۔ قانونی اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے ایک طاقتور رائے عامہ کی بھی ضرورت ہے اور سماجی تصورات میں تبدیلی بھی درکار ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو ملک کی قیادت نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔
خرابی کا بنیادی سبب ۔ خدا پرستی سے انحراف
واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی طرزِ عمل حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکتا ہے تو وہ صرف ’’خدا پرستی‘‘ کا رویہ ہے۔’’خدا پرستی‘‘ انسانوں سے جس طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے:
(الف)     تمام انسانوں کو برابر اور ایک برادری کے اجزاء سمجھا جائے۔
(ب)      انسانی زندگی کے لیے بنیادی قانون ’’خدائی ہدایت‘‘ کو قرار دیا جائے۔
(ج)       اجتماعی معاملات کو باہمی مشورے سے چلایا جائے۔
جو سماج ان نکات پر عمل پیرا ہو وہ ایک آزاد سماج ہوتا ہے۔ یہ ’’طرزِ عمل‘‘ (جو مندرجہ بالا تین نکات پر مشتمل ہے) کیوں اختیار کیا جائے، اس کا جواب ’’خدا پرستانہ نظریے‘‘ میں ملتا ہے۔ وہ جواب یہ ہے:
(الف)     ایک خدا تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے۔ اس نے ان سب (انسانوں) کو ایک انسانی جوڑے سے پیدا کیا ہے۔ اس لیے ’’تمام انسان برابر ہیں اور ایک ہی برادری کے افراد ہیں۔‘‘
(ب)      حقیقی مالک اور حاکم کی ’’ہدایت‘‘ ہی ماننے کے لائق ہے۔ جب انسان برابر ہیں تو ایک انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنی من مانی چلانے کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے؟
(ج)       انسانوں کی برابری کا یہ فطری تقاضا ہے کہ ’’اجتماعی معاملات‘‘ کو چلانے میں وہ سب شریک ہوں۔ (کسی کو محروم نہ کیا جائے۔)
اس فکری اساس کے علاوہ ’’خدا پرستی‘‘ انسان کو ’’قوتِ محرّکہ ‘‘ (Motivation) بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ محرّک درجِ ذیل حقائق کے ادراک پر مشتمل ہے:
(الف)     اگر انسان ’’خدا پرستی‘‘ اختیار کرے گا تو اپنی ذات کی تکمیل کرلے گا۔ اس کا تزکیہ ہوجائے گا اور وہ انسانیت کے ’’بامِ عروج‘‘ پر پہنچ جائے گا۔
(ب)      اگر انسان ’’خدا پرستی‘‘ کو اپنائے گا تو وہ خدا سے قریب ہوگا اور اس کی رضا اس کو حاصل ہوگی۔
(ج)       ’’خدا پرستی‘‘ کے نتیجے میں انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوگا اور ایسا خاندان اور سماج وجود میں آئے گا جہاں توازن اور عدل موجود ہوگا۔
(د)        ’’خدا پرستی‘‘ کا رویہ اختیار کرنے والا انسان خدا کے امتحان میں کامیاب ہوگا اور اس کے غضب اور گرفت سے بچ سکے گا۔
مادہ پرستانہ نظریات کی ناکامی
’’خدا پرستی‘‘ کے مقابلے میں مادہ پرستانہ افکار و نظریات (Materialistic Ideologies) کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریات یا تو خدا کے وجود کے ہی قائل نہیں ہیں یا اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو اس کو ہدایت دینے والا اور رہنما نہیں مانتے۔
ان نظریات نے انسانوں کو ایک عالم گیر برادری تسلیم کرنے کے بجائے اُن کو اقوام (Nations) میں تقسیم کیا ہے۔ رہا ایک قوم (Nation) کا اجتماعی و سیاسی نظام تو اس کو چلانے کے لیے مادّی نظریات ’’قومی ریاست ‘‘ (Nation State) کی شکل تجویز کرتے ہیں۔ اس ریاست کے اندر اُن کے اصول درجِ ذیل ہیں:
(الف)     اصولاً ریاست کے تمام باشندے برابر سمجھے جائیں گے اور اجتماعی معاملات چلانے میں سب شریک ہوں گے۰
(ب)      ’’قانون‘‘ وہ ہوگا جو عوام کے ’’نمائندے‘‘ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے تجویز کریں۔
بظاہر اِن میں پہلا اصول بہت خوش آئند ہے، لیکن مادّی نظریات اِس اصول کے لیے نہ کوئی اساس (Basis) رکھتے ہیں نہ Motive (محرّک) چنانچہ یہ اصول مسلسل پامال ہوتا رہتا ہے۔ عملاً ہوتا یہ ہے کہ طاقتور گروہ پورے نظامِ ریاست پر قابض ہوجاتے ہیں اور مادّی نظریات کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ طاقتور گروہوں کو اس زیادتی سے باز رکھ سکیں۔ وہ افراد کی ایسی تربیت کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو انھیں حدود آشنا بنادے۔
واقعہ یہ ہے کہ ’’مادّی نظریات‘‘ نے انسانی مساوات کا یہ اصول ’’خدا پرستی‘‘ کے نظریے سے لیا ہے (چونکہ مادیت کے فلسفے میں مساوات کے اِس اصول کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔) لیکن خدا پرستی کے انکار کے بعد یہ اصول صِرف ایک مقدس نعرہ بن کر رہ جاتا ہے اور کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔
رہا دوسرا اصول یعنی ’’عوامی نمائندوں کا حقِ قانون سازی‘‘ تو وہ انسانوں کو اپنی خواہشات کا (یا طاقتور طبقات کے مفادات و اغراض کا) غلام بنادیتا ہے اور رسمی آزادی کے باوجود انسان اپنے جیسے انسانوں کے محکوم بن کر رہ جاتے ہیں۔ جب انسانوں کے سامنے قانون سازی کے لیے ’’خواہشات و مفادات‘‘ کے علاوہ کوئی بنیاد موجود نہ ہو تو استحصال کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
اقبال نے اس حدود نا آشنا ’’قانون سازی‘‘ پر یوں تبصرہ کیا ہے:

مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں، غیراز نوائے قیصری

(اقبالؒ)


واقعہ یہ ہے کہ رسمی آزادی کے باوجود ہمارے ملک کے باشندے حقیقتاً آزاد نہیں ہیں۔ وہ عالمی استحصالی نظام کی زَد میں آچکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ خدا پرستی کی بنیاد پر قیامِ عدل کے لیے تحریک چلائی جائے جو ملک اور باشندگانِ ملک کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکے۔ تعلیم کا موضوع قیامِ عدل کی تحریک کی اس دلچسپی کا ایک اہم موضوع ہے۔

تعلیم کا رول
      

مقصد
تعلیم کے سلسلے میں پہلا سوال ’’مقصد‘‘ کا پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف سماجوں نے تعلیم کے یہ دو مقاصد عام طور پر تسلیم کیے ہیں:
(الف)     نئی نسل کو اس لائق بنانا کہ وہ دنیا اور اس کے وسائل کو برت سکے۔
(ب)      انسانوں نے تحقیق و جستجو اور تجربات کے ذریعے جو معلومات حاصل کی ہیں، اُن کو نئی نسل تک منتقل کرنا۔ جن سماجوں میں اخلاقی و سماجی شعور نے ترقی کی ہے، انھوں نے درجِ بالا مقاصد میں ایک تیسری بات کا بھی اضافہ کیا ہے:
(ج)       انسان کی اخلاقی حس (Moral Sense) اور سماجی شعور کی نشو ونما تاکہ وہ سماج کا ایک ذمہ دار عنصر بن سکے۔اس سے آگے بڑھ کر جن سماجوں نے ’’خدائی ہدایت‘‘ کو مشعلِ راہ بنایا ہے وہ اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ افراد میں مذکورہ بالا ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ پیدا کرنے کے لیے ایک چوتھے مقصد کا اضافہ بھی ضروری ہے۔
(د)        انسانوں کو مبنی بر حقیقت تصورِ کائنات (World View) سے واقف کرانا، ان کو اخلاقی قدروں سے روشناس کرانا اور ’’خدائی ہدایت‘‘ کی تفصیلات سے آگاہ کرنا۔

علمی ترقی
مندرجہ بالا مقاصد کی روشنی میں کسی سماج میں رائج نظامِ تعلیم کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اِن میں تعلیم کا وہ پہلو زیرِ بحث آیا ہے، جس کا تعلق ’’علمی ورثے (Heritage) کی منتقلی‘‘ سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علمی ورثے کی ایک نسل سے آئندہ نسل تک منقتلی بہت اہم کام ہے۔ اس طرح ہر نسل پچھلوں کی معلومات و تجربات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آتی ہے اور ازسرِ نو تجربات کرنے کی زحمت سے بچ جاتی ہے۔ ’’منتقلی‘‘ کا یہ کام مؤثر طریقے سے انجام پانا چاہیے۔ کسی بھی نظامِ تعلیم کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے یہ ایک اہم معیار ہوگا۔
لیکن یہ ’’منتقلی‘‘ ، تعلیم کے پورے عمل کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو (جو اپنی اہمیت میں کچھ کم نہیں ہے) یہ ہے کہ ہر نئی نسل موجود ’’علمی ورثے‘‘ میں اضافہ کرنے کی اہل بنے اور خود اپنی محنت، تحقیق اور کاوش سے نئی معلومات فراہم کرے اور حقائق کے نئے خزانے دریافت کرے۔ جو نظامِ تعلیم نئی نسل کو تحقیق کے لیے آمادہ کرے، نئی معلومات کے حصول کے صحیح طریقے سکھائے اور معلومات کی ’’درستگی‘‘ کی جانچ کے لیے مستند معیارات تجویز کرسکے وہ ایک ’’کامیاب‘‘ نظامِ تعلیم کہلائے گا۔ اس کے برعکس جو نظامِ تعلیم نئی نسل کے افراد کو تحقیق و جستجو کے لیے آمادہ نہ کرسکے یا اُن کو علمی دریافتوں کے طریقے نہ بتاسکے یا اُن کو وہ ’’معیار‘‘ نہ دے سکے جس کو استعمال کرکے وہ ’’قابلِ اعتماد‘‘ اور ’’ناقابلِ اعتماد‘‘ باتوں میں امتیاز کرسکیں، تو ایسا نظامِ تعلیم ایک ’’ناکام نظام‘‘ ہوگا (چاہے ’’معلومات کی منتقلی‘‘ کا کام اس میں انجام پارہا ہو۔)
اور اگر نظامِ تعلیم ایسا ہو کہ وہ ’’ذوقِ تحقیق‘‘ کو دبائے، اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ پچھلی معلومات پر محض انحصار کرنا سکھائے، علمی جستجو کے طریقے بتانے اور سکھانے سے گریز کرے اور ’’صحیح‘‘ اور ’’غلط‘‘ میں حقیقی تمیز سکھانے کے بجائے غالب قوموں کے افکار کو ’’معیارِ صحت‘‘ قرار دے دے تو ایسانظامِ تعلیم ایک ’’مضر نظامِ تعلیم‘‘ ہوگا اور وہ کسی سماج کو آزادی و حرّیت کے بجائے ’’غلامی‘‘ کی سمت لے جائے گا۔

تعلیم اور حصولِ قوت
’’تعلیم‘‘ کے ذریعے ایک فرد معلومات حاصل کرتا ہے اور ہنر (Skills) سیکھتا ہے۔ اس طرح اُس فرد کی ’’قوت‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ گروہوں (Communities) کا ہے۔ جس گروہ کے افراد معلومات رکھتے ہیں اور ہنر جانتے ہیں وہ گروہ طاقتور گروہ بن جاتا ہے اور اس کے برعکس معلومات سے محروم گروہ کمزور ہوکر رہ جاتے ہیں چنانچہ تعلیم قوت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اگر کسی فرد کو تعلیم سے محروم کردیا جائے تو وہ ایک ’’کمزور‘‘ فرد کے طور پر زندگی گزارے گا۔ اسی طرح اگر کوئی گروہ تعلیم سے محروم کردیا گیا ہو تو وہ ایک کمزور گروہ بن جائے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے افراد اور گروہ تعلیم سے محروم ہیں اور بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں تعلیمی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ یہ صورتِ حال ’’عدل‘‘ کے صریحاً منافی ہے۔
قیامِ عدل کے لیے یہ لازم ہے کہ تعلیم تمام افراد اور گروہوں کو فراہم کی جائے اور اس راہ میں جو رکاوٹیں بھی حائل ہوں وہ دور کی جائیں۔
تعلیم سے محرومی کے اسباب
تعلیم سے محرومی کے متعدد اسباب ہیں۔ ان میں دو اسباب بنیادی ہیں:
(الف) غربت (  ب) تعلیمی اداروں کی غیر موجودگی
غریبی کی بنا پر آبادی کا بہت بڑا حصہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ تعلیمی اخراجات برداشت کرسکے یا اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بچوں کا وقت اسکول کے لیے فارغ کرسکے (یعنی اُن کو کھیتی یا کاروبار میں مصروف نہ کرے۔)
چنانچہ اس حد تک تعلیمی مدد (وظائف کی شکل میں) ناگزیر ہے جس سے تعلیمی اخراجات پورے ہوجائیں اور ایک غریب خاندان کی آمدنی متاثر نہ ہو۔
دوسرا بڑا سبب اسکولوں کا نہ ہونا ہے۔ بہت سے علاقوں میں اسکول اور کالج موجود نہیں ہیں اس لیے طلباء تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
تعلیم سے محرومی کے دوسرے اسباب بھی ہیں:
(۱) مادری زبان میں تعلیم کی سہولت نہ ہونا۔ (بہت سے والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ اُن کے بچے پر ایک اجنبی زبان، بطورِ ذریعہ تعلیم کے، مسلط کی جائے۔)
(۲) مخلوط تعلیم(بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں نہیں بھیجنا چاہتے۔)
(۳) سرکاری اداروں میں معیاری تعلیم کا فقدان (سرکاری اداروں کی تعلیم کا معیار گھٹیا ہوتا ہے اور غیر سرکاری ادارے اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ اُن میں تعلیم دلانا عام افراد کی سکت سے باہر ہوتا ہے)
(۴) تہذیبی گروہوں کے جداگانہ تعلیمی اداروں کی حوصلہ شکنی(بہت سے تہذیبی گروہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے قائم کریں اور اپنی روایات اور اقدار کے مطابق اپنے تہذیبی ماحول میں طلباء کو تعلیم دیں۔ لیکن ایسے اداروں کو سہولتیں ملنے میں تاخیر ہوتی ہے، اُن کو جلد تسلیم نہیں کیا جاتا (Recognition نہیں ملتا اور اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔)ضرورت ہے کہ حصولِ تعلیم کی راہ میں حائل ان سب رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔

تعلیم کیسی ہو؟ (Content)
تعلیم جیسی بھی ہو بہرحال ایک قوت ہے اس لیے ہر فرد اور ہر گروہ کو تعلیم ملنی چاہیے اور کسی کو بھی تعلیم سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ اس ابتدائی بات کے بعد جو اہم سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’تعلیم کیسی ہو؟‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم ایسی ہو جو سارے مقاصد کو پورے کرے اور کسی کو نظر انداز نہ کرے یعنی
(الف)     تعلیم انسان کو ایک خدا ترس انسان بنائے، اُس کو صحیح تصورِ کائنات بتائے اور اس کو ایک ذمہ دار اور باکردار شخص بنائے۔
(ب)      اس کو معلومات فراہم کرے، ہنر سکھائے اور دنیا کو مفید اور کارگر طریقے سے برتنا سکھائے ۔
(ج)       انسان کو پچھلی معلومات کو سیکھنے کے علاوہ خود تحقیق کرنے اور تجربات سے سیکھنے کا اہل بنائے۔جو تعلیم ان مقاصد کو پورا کرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک آزاد سماج کے قیام میں مدد گار ہوگی۔

تعلیم اور قریبی ماحول
مقاصدِ تعلیم کے علاوہ تعلیم کے طریقوں کی بڑی اہمیت ہے۔ تعلیم ایسے ڈھنگ سے دی جانی چاہیے جو فطری ہوں اور طلباء پر مسلّط نہ کیے گئے ہوں۔ ’’فطری‘‘ طریقِ تعلیم کے تقاضے درجِ ذیل ہیں:
(الف)     ذریعہ تعلیم ابتدائی مراحل میں مادری زبان کو بنایا جائے۔
(ب)      ان موضوعات کو زیرِ بحث لایا جائے جو قریبی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔(مثلاً یوروپ کی تاریخ کے بجائے اپنے ملک کی تاریخ پڑھائی جائے۔مجرّد (Abstract) سوالات کے بجائے اُن سماجی حالات پر گفتگو کی جائے جو ہمارے گاؤں اور شہروں میںموجود ہیں۔بڑی صنعتوں کے بجائے ابتداً طلباء کو زراعت سے روشناس کرایا جائے، جس سے ملک کی بڑی آبادی وابستہ ہے۔)
(ج)       تعلیمی کام میں قریبی ماحول کی مثالیں لی جائیں، مباحثے اور پراجیکٹ قریبی ماحول سے متعلق ہوں اور عملی کام کو ( جوسائنس اور سماجی علوم سے متعلق ہو) طالب علم کے فطری ماحول سے مربوط کیا جائے۔
(د)        طالب علم کی عمر، ذہنی استعداد اور صلاحیتیوں کے مطابق تعلیمی بار، بتدریج بڑھایا جائے۔
(ہ)        موجودہ برداشت سے باہر ’’نصابی بار‘‘ کو معقول حد تک کم کیا جائے۔
(و)        طریقِ تدریس اور طریقِ امتحان میں دنیا میں ہورہے مفید تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اخلاقی و تہذیبی ماحول
تعلیمی اداروں کے اخلاقی و تہذیبی ماحول میں تین بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں:
(الف)     تعلیمی ادارے میں طلباء کی تعداد کی مناسبت سے کافی جگہ اور کلاس روم ضروری ہیں۔ جگہ ناکافی ہو تو تعلیمی نقصان کے علاوہ اخلاقی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔
(ب)      مخلوط تعلیم کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ مخلوط تعلیم متعدد اخلاقی وسماجی برائیوں کی جڑ ہے۔
(ج)       اساتذہ ایسے ہونے چاہئیں جو اخلاق و کردار کے اعتبار سے اچھے انسان ہوں۔ اُن میں فرض شناسی، امانت و دیانت اور حیاو پاکبازی جیسی اعلیٰ صفات پائی جاتی ہوں۔
اِن اصلاحات کے ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ اسکول کے ماحول کو باہر کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اسکول قریبی بستی پر اچھا اثر تو ڈالے مگر اس کے برے اثرات قبول نہ کرے۔

ریسرچ
تدریس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ایک اہم کام ریسرچ ہے۔ ریسرچ کے لیے آزاد ذہن ناگزیر ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں جو ریسرچ ہوتی ہے اس کے موضوعات اور طریقے سب مغربی ممالک سے لیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ ’’آزاد ذہن‘‘ کے بجائے ’’غلامانہ ذہن‘‘ کی علامت ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے دائرے میں تحقیق اسی وقت اپنے قریبی سماج کے لیے مفید ہوسکتی ہے جب اس کے موضوعات اس سماج کی حقیقی ضروریات کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر ہندوستان جیسے ملک میں نیوکلیائی توانائی کے بجائے یہاں کی سائنس اور ٹکنالوجی کا مرکزِ توجہ اس ملک کے آبی ذخائر، گرتی ہوئی سطحِ آب، ریگستانی علاقے کی حدود میں غیر فطری اضافہ، جنگلات کی کمی اور قدرتی توازن کی بحالی جیسے موضوعات ہونے چاہئیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ’’خالص سائنس ‘‘ (Pure Science) کی بھی اہمیت ہے اور اس کے موضوعات تمام دنیا میں ایک جیسے ہوسکتے ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ سائنسی تحقیق و ریسرچ کا بڑا حصہ Applied(انطباقِ سائنس) ہے۔ اس دائرے میں قریبی ماحول اور ’’فطری‘‘ موضوعات کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔ یہی معاملہ طریقِ ریسرچ کا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ریسرچ محض روایتی طریقوں سے ہو جو مغرب سے سیکھے گئے ہیں بلکہ وہ تمام طریقے اپنائے جاسکتے ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں اور خصوصاً ہمارے ملک میں ماضی میں مفید پائے گئے ہیں۔
یہی معاملہ سماجی علوم کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب نے جو موضوعات چھیڑے ہیں وہ بھی اہمیت رکھتے ہیں اور ہمارے سماجی محققین Modernism ، Post Modernism ، Civilization Clash ، End of History ، Feminism ، Liberalism اور Pluralism پر بات کرسکتے ہیں لیکن اُن کو ان مسائل اور موضوعات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جو ہندوستانی سماج کے زندہ موضوعات ہیں مثلاً ذات پات کا نظام، برہمنیت کا احیاء، Modernityکے ہندوستان پر اثرات، اقدار کا بحران، Urbanizationکے مسائل، غربت کا مسئلہ وغیرہ۔

استعمار، استحصال اور اسلام
      

ہمارا ملک بیرونی استعمار کا بھی شکار ہے اور اندرونی استحصال کا بھی۔ استعمار اور استحصال سے نجات پانے اور سماج اور افراد کو حقیقی آزادی دلانے کے لیے اسلام ایک ہمہ گیر حل پیش کرتا ہے۔ اس میں تعلیم اور نظامِ تعلیم کی اصلاح بھی شامل ہے اور زندگی کے دیگر گوشوں کی بھی۔ اسلام کے پیش کردہ اِس حل کو درجِ ذیل ایجنڈے کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے:

ایجنڈا

(الف) آزادی کی بحالی:
(۱)        ہمارا ملک اُن تمام رسمی و غیر رسمی دفاعی، فوجی و معاشی معاہدوں سے آزاد ہو جو اس نے امریکہ اور اسرائیل سے کررکھے ہیں۔اور جن سے ملک کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔
(۲)        ہمارا ملک عدل و انصاف اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی اپنائے۔
(۳ (      Special Economic Zone ختم کیے جائیں اور بیرونی سرمائے کی ملک میں آمد پر معقول پابندیاں عائد کی جائیں۔

(ب) مظالم کا سدِ باب
(۴)       مزدوروں، کسانوں اور محروم طبقات کے حقوق بحال کیے جائیں جو ’’لبرلائزیشن‘‘ کے نتیجے میں ختم کردیے گئے ہیں۔
(۵)       جاگیر داری کے نظام کے باقیات، بندھوا مزدوری اور مہاجنی سودکا خاتمہ کردیا جائے۔
(۶)        ذات پات پر مبنی مظالم کے خاتمے کے لیے مؤثر سماجی تربیت کی جائے۔

(ج) تعلیم:
(۷)       نظامِ تعلیم کی بنیاد خداپرستانہ تصورِ کائنات کو بنایا جائے (جو کسی مذہب کی حقیقی تعلیم سے نہیں ٹکراتا۔ اس لیے ہر مذہب کے پیروؤں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔)
(۸)       تعلیم کے دوران طلباء کو اخلاقی قدروں سے آگاہ کیا جائے اور ’’غلط‘‘ اور ’’صحیح‘‘ کا فرق سکھایا جائے تاکہ وہ آزاد ذہن سے سوچ سکیں۔

(د) نظامِ تعلیم:
(۹)        حصولِ تعلیم کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔
(۱۰)       ابتدائی سطح پر مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
(۱۱)        غریب خاندانوں کی اس حد تک مدد کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔
(۱۲)       تمام علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں معیاری سرکاری تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔
(۱۳)      مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور طالبات کے لیے کافی تعداد میں ادارے قائم کیے جائیں۔
(۱۴)       سرکاری اداروں کا معیار اونچا کیا جائے تاکہ لوگ پرائیویٹ اداروں کی طرف رجوع کرنے کے لیے مجبور نہ ہوں۔
(۱۵)       قانون کے ذریعے پرائیویٹ اداروں کو استحصال سے روکا جائے۔

(ہ) نصاب اور طرزِ تعلیم:
(۱۶)       نصاب اور درسی کتب میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں، تعلیمی بار کم کیا جائے اور تعلیم کو قریبی ماحول سے مربوط کیا جائے۔
(۱۷)      جنسی تعلیم (Sex Education) کے بجائے سماجی اخلاقیات (Social Morality) کی تعلیم دی جائے جس میں آن آداب کی تعلیم بھی شامل ہے جو لڑکوں، لڑکیوں اور مرد، عورتوں کے میل جول کو اخلاقی حدود کا پابند بناتے ہیں۔ اسی طرح طلباء کو  شرم و حیا و عفت و پاکیزگی کی اہمیت بتائی جائے۔
(۱۸)       طریقِ تدریس اور طریقِ امتحان میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں۔
(۱۹)       صرف ماہرین اور باکردار اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔
(۲۰)      ریسرچ کی ترجیحات از سرِ نو طے کی جائیں اور ملک و سماج کے حقیقی مسائل کو موضوعِ توجہ بنایا جائے۔

خرابی کے اسباب
      





Indirect Imperialism

Internal Indigenous Exploitation

Materialism
  

بالواسطہ استعمار

اندرونی استحصال

مادہ پرستانہ نظریات

 سرمایہ داری کے خصائص
      





Exploitation

Imbalance

Alienation
سرمایہ دارانہ نظام کا ہمہ گیر استحصال
      





طاقتور کے ذریعے

صنعتی سیکٹر کے ذریعے

باخبروں ‘‘کے ذریعے’’

طاقتور ملکوں کے ذریعے

سرمایہ دار کے ذریعے
  

کمزوروں کا                                   
کسانوں کا                                     
بے ہنر (Unskilled) سیکٹر کا              

کمزور ملکوں کا

مزدوروں کا

 سرمایہ دارانہ نظام
      

خدا پرستانہ نظام
  
سرمایہ دارانہ نظام
خدا پرستی
  
مادہ پرستی
ہمدردی
  
بے رحمی
غمخواری
  
خود غرضی
تعاونِ باہمی
  
جبرو تسلط
فیاضی
  
لالچ
امن و سکون
  
انتشار و بے چینی


ذات پات کا نظام
      


اونچ نیچ
دیو مالائی داستانیں
چھوت چھات
آزادی سے محرومی
حقوق سے محرومی
مظالم
ظلم و جبر کی دیگر شکلیں
      



گاؤں اور شہر کا عدمِ توازن
کسانوں کا استحصال
جاگیر داری کے باقیات
بندھوا مزدوری
بچہ مزدوری
خدا پرستی
      
مادّہ پرستی
  
خدا پرستی
قوموں میں تقسیم ہیں
  
انسان ایک برادری ہیں
خواہشات کے بندے ہیں
  
انسان خدا کے بندے ہیں
قانون ساز ہمارے جیسے انسان ہیں
  
قانون ساز خدا ہے
کوئی حقیقی ’’بنیاد‘‘ موجود نہیں ہے
  
عدل کی بنیاد خدا ترسی ہے
کوئی ’’محرّک‘‘ نہیں ہے
  
اچھے طرزِ عمل کا محرک خدا کی رضاکا حصول ہے
افراد کی ’’تربیت‘‘ کا کوئی نظام نہیں
  
خدا پرستی افراد کی تربیت کاہمہ گیر نظام  فراہم کرتی ہے


تعلیم کے مقاصد
      



دنیا کو برتنے کا سلیقہ سیکھنا
’’پچھلی‘‘ معلومات کی منتقلی
اخلاقی حس اور سماجی شعور کی نشو ونما
خدائی ہدایت سے آگاہی
تخلیقی ذوق کی ترویج

ہندوستان میں ابتدائی تعلیم کی موجودہ صورتحال
      



12لاکھ
ایک لاکھ
ایک لاکھ
40
13کروڑ
9کروڑ
52لاکھ
  

 اسکولوں کی تعداد
درجہ 12 تک کے اسکول
صرف ’’ایک کمرے‘‘ والے اسکول
ایک کلاس روم میں بچوں کی اوسط تعداد
پرائمری کلاسوں میں طلباء کی تعداد
ثانوی درجات میں تعدادِ طلباء
اساتذہ کی تعداد

آدھے کی تعداد میں سرکاری اساتذہ ایسے ہیں جو محض درجہ ۱۰یا درجہ ۱۲ تک تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں۔

 حصولِ تعلیم میں حائل رکاوٹیں
      



غریبی
اداروں کا نہ ہونا
مادری زبان میں تعلیم کی سہولت نہ ہونا
مخلوط تعلیم
گھٹیا معیار
تہذیبی گروہوں کے اداروں کی حوصلہ شکنی

 

No comments:

Post a Comment