سید سعادت اللہ حسینی
گلوبلائزیشن اوراس کے اثرات
شاید اس بات سے کم ہی لوگ اختلاف کریں کہ
نرسمہاراؤ حکومت کی معاشی آزاد کاری Liberalisation کی پالیسیاں آزاد
ہندوستان میں عوامی سطح پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی حکومتی پالیسی
تھی۔ گرچہ یہ محض ایک معاشیاتی فیصلہ تھا لیکن دنیا کے دیگر لبرلائزڈ
معاشروں کی طرح اس نے ہندوستان میں بھی ہرشعبۂ زندگی کو متاثر کیا۔
۱۹۹۰ء میں جیسے ہی معاشی لبرلائزیشن کا اعلان ہوا
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ملک میں اپنے کام شروع کئے۔ ہندوستان نے ایک بڑا
بازار انہیں فراہم کیا۔ یہاں آئی ٹی اور سروس کمپنیوں کے لئے باصلاحیت
افرادی قوت کا بڑا ذخیرہ دستیاب تھا۔ مصنوعاتی کمپنیوں کے لئے صارفین کی
بڑی عظیم تعداد موجود تھی جبکہ آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے لئے نہایت سستی خدمات
حاصل تھیں۔ چنانچہ کمپنیوں نے ہندوستان میں داخلہ کے لئے قطار لگا دی۔
اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں ایک نئے انقلاب کا
آغاز ہوا۔ ہندوستان کے شہروں میں دولت ابلنے لگی۔ تفریحی مراکز اور نگاہوں
کو خیرہ کرنے والے شاپنگ مالوں نے ہمارے شہروں کی چکاچوند میں بے نظیراضافہ
کردیا۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ہمارے خوشحال طبقہ کو دنیابھر سے جوڑ
دیا۔ سڑکیں چوڑی ہونے لگیں۔ ہوائی جہازوں کی ریل پیل بڑھ گئی ۔ شہروں کے
باہر فارم ہاؤسوں اور آرام گاہوں (Resorts)کی ایک نئی دنیا آباد ہوگئی۔
ہندوستان کے شہر، ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ’ہندوستانی‘ نہیں رہے۔
ہمارے حکمران اور پالیسی ساز دولت کے ان کرشماتی مظاہروں
کے آگے حیرت کا سمندر بنے رہے۔ چکاچوند نے ان کی آنکھیں خیرہ کردیں ۔ اس
واقعہ کے اخلاقی وسماجی اثرات پر نظر ڈالنے کا انہیں موقع ہی نہ مل سکا۔ وہ
لبرلائزیشن کے اصل استفادہ کنندگان یعنی خوشحال شہری طبقہ پر اپنی نظروں
کو مرکوز کرکے ’فیل گوڈ‘ کی کیفیت میں جیتے رہے۔ اس صورتحال نے ایک نئی
تہذیب اور ایک نئے طرز زندگی کو جنم دیا۔ اور سماج کے ہر طبقہ کو متاثر
کیا۔ زیر نظر مضمون میں لبرلائزیشن کے عمل کے نوجوانوں پر اثرات کا جائزہ
مقصود ہے۔
گلوبلائزیشن کے بلاشبہ مثبت پہلو بھی ہیں۔ راست
بیرونی سرمایہ کاری (F.D.I) بہت سے ملکوں میں غربت کم کرنے میں معاون ثابت
ہوئی ہے۔ ہندوستان میں بھی آئی ٹی، آؤٹ سورسنگ وغیرہ میں بے شمار ملازمتوں
کو پیدا کرکے اس نے سماج کے ایک طبقہ میں امید و خوشحالی کی نئی جوت جگائی
ہے۔ لیکن دنیابھر میں اس پر ،اس کے زیادہ وسیع نقصانات کی وجہ سے تنقید بھی
کی گئی ہے۔ ہرجگہ اس نے معاشی عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔ اور کثیر لوگوں کی
پریشاں حالی اور افلاس کی قیمت پر قلیل لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔
عدم مساوات :
گزشتہ دہے میں ہمارے ملک میں سماجی ومعاشی ثقافت
میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ کا بہاؤ صرف شہروں میں رہا جو ہندوستان
کی جملہ آبادی کے بہت چھوٹے حصہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ بہاؤ پھر صرف چند
شعبوں تک محدود رہا اور اس کے نفع پانے والے شہری خوشحال طبقہ کی ایک چھوٹی
سی اقلیت تک محدود رہے۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت کے لئے زندگی پہلے جیسے
ہی بلکہ بدسے بدتر ہوتی گئی۔
گلوبلائزیشن نے ایک کے بعد دیگرے، ہر حکومت کو
مجبور کیا کہ وہ عوام کی نہایت بنیادی ضرورتوں سے منھ موڑیں۔ اب صاف پانی
کی فراہمی، غریبوں کے لئے سستے مکانات کی فراہمی، شہری غریبوں کیلئے صفائی
کا مناسب انتظام ، دیہی علاقوں میں پائپ کے پانی اوربجلی کی فراہمی وغیرہ
جیسے رفاہی کام، حکومت کی ترجیحات میں نہیں رہے۔ ہماری معاشی پالیسیوں کا
واحد مقصد یہ رہا کہ بڑی کمپنیوں کے لئے جو شعبے نفع بخش ہیں، ان میں
بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ممکنہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔
قحط الرجال:
اس سرخی پر چونکئے نہیں۔ ۔ ۔ بے شک گلوبلائزیشن
کا عمل ہماری افرادی قوت اور صلاحیتوں ہی کی وجہ سے کامیاب ہے۔ لیکن المیہ
یہ ہے کہ ہماری ساری کارآمد صلاحیتیں صرف بڑی کمپنیوں کی خدمت کے لئے تیار
ہورہی ہیں۔ ہماری قومی زندگی کی اعلیٰ ضرورتوں کی تکمیل کے لئے افراد نہیں
ہیں۔ ’بڑے لوگ‘ بننے کی صلاحیت رکھنے والے بھی چھوٹے بنے رہنے اور چھوٹے
کاموں پر قانع ہیں۔ یہ قحط الرجال کی بدترین شکل ہے۔
ہمارے خوشحال متوسط طبقے بھی اس بات پر خوش ہیں
کہ ان کے ہونہار فرزندان اپنی تعلیم چھوڑ کر کسی Bussiness Process
Outsourcingمیں نہایت معمولی کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ بھاری بھرکم
تنخواہوں نے اسی نوکری کو جو پہلے ہمارے شہری اشراف کے مقام ومرتبہ سے
نہایت کم تر سمجھی جاتی تھی، اب اشرفیت کی علامت Status Symbolاور نہایت
درجہ پسندیدہ کام میں بدل چکی ہے۔ نتیجتاً اعلیٰ تعلیم کا شوق کم سے کم
ہوتا جارہا ہے ۔ ایک MCA، یا سافٹ ویئر صلاحیت کے ساتھ کوئی معمولی گریجویٹ
بلکہ اچھی انگریزی بولنے والا دسویں کلاس پاس، ۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ کی جاب
آسانی سے حاصل کر رہا ہے جبکہ بہت سے پی ایچ ڈی ۲۰۰۰ روپے ماہانہ پر کام
کرنے پر مجبور ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسانی علوم Humanities اور خالص سائنس
کے شعبہ جات ہر شہر میں طلبہ کی کمی کا رونا رورہے ہیں۔ اسکول کے کسی لڑکے
کا خواب اب سائنسداں ،مصنف بننا نہیں ہے۔ اس کے خوابوں کی انتہا وہ کال
سنٹر ہے جہاں اس کا بڑا بھائی ملازمت کرتا ہے۔ اور ہر طرح کے عیش وآرام کو
حاصل کرتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ BPO یا کال سینٹر کی ساری اچھی
نوکریاں دراصل گلوبلائزیشن کے منصوبہ سازوں کے چھوٹے موٹے بیک آفس کام ہیں ۔
یہ سب کلرک یا محرر کی سطح کی سرگرمیاں ہیں۔ جن کی انجام دہی کے لئے ہمارے
وہ نوجوان قطار لگائے ہوئے ہیں جن کی پچھلی نسلیں ادیب، مصنف، سائنسداں یا
سول سروس عہدیدار بننے کے خواب دیکھتی تھیں۔
ہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عام شکایت پائی جاتی ہے کہ
نوجوانوں کی تحریکات کا دور ختم ہورہا ہے اورطلبہ کی فعالیت Student
Activism مر رہی ہے۔ اگر نوجوان ہی اپنے احوال سے مطمئن ہے تو پھر کون کھڑا
ہوکر بغاوت کرے گا؟ فعالیت اگر طلبہ میں مر رہی ہے تو کون عمل کی جرأت کر ے
گا؟ اس سے ہم کو اس عمومی الزام کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ گلوبلائزیشن
ایسے بے دماغ غلاموں کا معاشرہ پیدا کرتا ہے جو یہ سوچنے کی بھی جرأت نہیں
کرتے کہ ان کے ساتھ کیا غلط ہورہا ہے؟
تہذیبی قدروں سے بیگانگی:
گلوبلائزیشن ہمارے نوجوانوں کو ان کی جڑو ں سے
کاٹ رہا ہے۔ اس انقطاع کا آغاز ایک منفرد نوعیت کے نسلی خلاء (Generation
Gap) سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بالکل نئی دنیا ہے۔ اس لئے تعلیم یافتہ والدین
بھی اپنے نوجوان ٹیکنالوجی کے دیوانے، بچوں کی کوئی مدد یا رہنمائی کرنے کی
پوزیشن میں خود کو نہیں پاتے۔ رہنمائی تو دور کی بات ہے، اس بات کو سمجھنا
بھی ان کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ ان کے نوجوان لڑکے لڑکیاں آخر کر کیا رہے
ہیں؟ نامانوس الفاظ، عجیب وغریب اصطلاحات،ان کے مشغلوں کی دنیا کے کسی جزسے
وہ آشنا نہیں ہیں۔ کال سینٹر کیا ہے؟ سافٹ ویئر انڈسٹری میں آخر بنتا کیا
ہے؟ بی پی او صرف راتوں میں کیوں کام کرتا ہے؟ وہ لوگ کلاس ون اور سپر کلاس
ون افسر رہے۔ سخت محنت اور وفاداری کے لمبے کیریرز کے بعدانہیں یہ عہدے
ملے ۔ آخر یہ نوجوان کیا کرتے ہیںکہ کیریئر کے آغاز ہی میں وہ ان سے زیادہ
کمانے لگے ہیں؟ یہ سوالات ان کے اندر پیدا تو ہوتے ہیں۔ لیکن جوابات نہ
پانے کی وجہ سے وہ سوچنا اور مداخلت کرناچھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اتنا جانتے ہیں
کہ ان کے بچے کمپیوٹر سے متعلق کچھ کام کرتے ہیں اوراچھی تنخواہیں پاتے
ہیں۔ اچھی تنخواہ، ان کے نزدیک اس بات میں یقین کرنے کے لئے کافی ہے کہ ان
کا لڑکا ایک کامیاب پروفیشنل ہے۔ یہ سوچنا ان کے بس میں ہی نہیں کہ وہ آخر
کیاکر رہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟ وہ اپنے کیریئر کے آخر میں گھر بنا
پاتے تھے، آسان قرضوں کی وجہ سے ان کے بیٹے نے ابھی گھر بنانا شروع کردیا
ہے۔ وہ سرکاری گاڑی ایمبسڈر پر ہی خوش تھے۔ بیٹا لگژری کار لے آیا ہے۔ پھر
آخر اس کے کیریئر پر فکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ اقدار اور اخلاق کے
تصورات میں بھی بڑی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ آج ایک مسلمان لڑکی کو بھی
کال سینٹر کے ماحول میں رات کی شفٹ میں کام کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا۔
آئی ٹی کے مراکز شہروں میں ہمارے نوجوانوں کے لئے کسی خاتون ساتھی کے ساتھ
سنگل بیڈ روم فلیٹ میں رہائش اختیار کرنے میں کوئی قباحت باقی نہیں رہی۔
شادی کے بغیر شادی شدہ جوڑے کی طرح رہنا Live-in Relationship کواب کیریئر
کی ایک ضرورت ، باور کرایاجارہا ہے۔ اگر انگریزی جریدوں میں شائع ہورہی
سروے رپورٹوں پر بھروسہ کیا جائے تو شہری ہندوستان کے اخلاقی نظام میں ایک
بڑی تبدیلی آرہی ہے۔
تعلیم:
تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ تعلیم
کے بڑھتے پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے ملٹی نیشنل تعلیمی ایمپائرز کے زیر
قیادت جاری مہنگی تعلیم صرف امیر خوشحال طبقوں کے لئے مختص ہے۔ پالیسی ساز
منصوبہ بند طریقوں سے دو طرح کے متوازن نظامہائے تعلیم کی حوصلہ افزائی کر
رہے ہیں۔ ایک ایم اے ایم ایس سی کی طرز کی سادی تعلیم جو سرکاری کالجوں میں
دی جاتی رہے گی اور جس میں غریب اور دیہی ونیم شہری علاقوں کے طلبہ پڑھیں
گے اور دوسرے بڑے شہروں کے خوشحال طبقات کے لئے معیاری تعلیم، جس کی تکمیل
کے بعد ہی ہر طرح کے مواقع حاصل رہیں گے۔
تعلیم سچائی کی آزادانہ تلاش، کی صلاحیت سے محروم
ہوتی جارہی ہے۔ اب تعلیم کا مطلب محض ماقبل داخلہ کا رپوریٹ ٹریننگ ہے جس
کے ذریعہ بچوں کو دو تین سال کی عمر ہی سے کارپوریٹ ایمپائر کے وفادار خادم
کی حیثیت سے تیار کیا جاتا ہے۔ اب تعلیم ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے جس سے
نفع کمانا ہے۔ ایک تجارت جس میں داخل ہونے والا اول روز سے ان حسابات
(Calculations) کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ اسے ڈگری پر کتنا خرچ کرنا ہوگا
اور نتیجتاً اس کے بعد اسے کتنا ’منافع‘ حاصل ہوگا۔
یونیورسٹی کے سامنے کسی کورس کے تعلق سے فیصلہ کرتے ہوئے
واحد کسوٹی یہ ہے کہ بازار میں اس کورس کی کتنی مانگ ہے؟ چنانچہ ہماری
تعلیم کے طرز اور مشتملات کا فیصلہ قومی ضرورتوں یا قوم کی امنگوں کی بنیاد
پر نہیں ہورہا ہے بلکہ بیرون ملک مرکوز ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تقاضے اس کی
اساس بن رہے ہیں۔
مذکورہ صورت حال میں نظام تعلیم سے ہی امید تھی
کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو کارپوریٹ چیلنج‘ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرے
گا لیکن بدقسمتی سے نظام تعلیم خود اس لعنت کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ نظام
تعلیم بھی ہمارے نوجوانوں میں حرص وہوس اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ
ذہنیت پیدا کرنے میں، بازار کی قوتوں کی مدد کر رہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کا سب
سے بڑا مسئلہ ہے۔
مسلمان:
مسلما ن بھی گلوبلائزیشن کی صورتحال سے یکساں طور
پر ڈسٹر ب ہیں۔ گرچہ دیگر طبقات کے مقابلہ میں مسلمانوں میں سماجی تفاوت
کم ہے، لیکن اس میں اضافہ ضرور ہوتا جارہا ہے۔ مسئلہ مسلمانوں میں اس لئے
گمبھیر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں میں پہلے ہی امیر اور خوشحال طبقہ بہت چھوٹا
ہے۔ اس لئے عوام سے اس کی دوری زیادہ شدید مسائل پیدا کردے گی۔
بعض پہلوؤں سے گلوبلائزیشن مسلمانوں کے لئے فائدہ
مند بھی رہا ہے۔ مسابقت کی دوڑ میں کوئی بھی پرعزم معیشت نسلی عصبیتوں کی
متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لئے برسوں پرانے تعصبات ختم ہورہے ہیں اور مسلمانوں
کے لئے نوکریوں کے مواقع بڑھے ہیں ۔ صدیوں سے تجارت کے بعض میدانوں میں کچھ
مخصوص ذاتوں کو بالادستی ہے اور کسی دوسری ذات کے تاجر کیلئے اس میدان میں
داخلہ تقریباً ناممکن ہے۔ گلوبلائزیشن اس تسلط کو بھی ختم کر رہا ہے اور
مسلم تاجروں کیلئے مواقع بڑھ رہے ہیں۔
سروس انڈسٹری کے فروغ نے متوسط طبقہ کو بہت فائدہ پہنچایا
ہے بغیر سرمایہ کے بڑی سے بڑی تجارت اس سیکٹر میں ممکن ہے۔ یہ صورتحال بھی
مسلمانوں کے لئے مفید ہے۔
لیکن ان فائدوں پر اس کے نقصانات غالب ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کسانوں، چھوٹے تاجروں ، مزدوروں اور چھوٹے صنعت کاروں
پر مشتمل ہے۔ یہی گلوبلائزیشن کے اصل شکار ہیں۔ چھوٹی صنعتیں شمالی ہند کے
مسلمانوں کے لئے روزگار کا بڑا ذریعہ تھیں۔ مراد آباد کی پیتل کی صنعت ،
تامل ناڈو کی چمڑے کی صنعت، بھیونڈی اور مالیگاؤں کی پاورلوم کی صنعت اور
اس طرح کی دیگر صنعتوں نے بہت سے مسلمانوں کو خوشحالی عطا کی تھی اور
ہزاروں مسلمانوں کو روزگار بخشا تھا۔ لبرلائزیشن کے بعد یہ سب صنعتیں خطرہ
میں ہیں۔ مسلمانوں کے پاس بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ٹائی اپ یا بڑی
کمپنیوں اور سپر مارکیٹ کے قیام کے لئے نہ سرمایہ ہے نہ اثر ورسوخ۔ یہ کہا
جاسکتا ہے کہ گلوبلائزیشن سے فائدہ اٹھانے والوں کے مقابلہ میں اس سے نقصان
اٹھانے والوں کی تعداد مسلمانوں میں کہیں زیادہ ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس چیلنج کا کیسے سامنا کیا
جائے؟ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اور علیٰحدہ کلام کا متقاضی ہے۔ فی الحال صرف
اتنی بات ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں اور قائدین کو اس صورتحال کو اس کی
تمام گہرائیوں کے ساتھ سمجھنا چاہئے اور رہنمائی، تربیت و عمل کے نظام کو
اس نئے پس منظر میں ازسرنو ترتیب دینا چاہئے
گلوبلائزیشن اور مسلم نوجوانوں کا ردِّ عمل
سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ہمیں اس پر
کس طرح کا ردِّ عمل کرنا چاہیے۔ گلوبلائزیشن اور اس کے نتیجے میں تہذیبی
قدروں کے زوال کاکیسے مقابلہ کیا جائے؟
حاصل کلام یہ کہ گلوبلائزیشن کے مسئلہ کا حل سہ نکاتی ہے۔
اصل طویل المیعاد حل عقائد (Beliefs) اور قدروں (Values) کے نظام کی
تبدیلی ہے یعنی گلوبلائزیشن اسلامی عقائد اور اسلامی قدروں کے ذریعہ منضبط
ہو۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر اسلامی دعوت، اور اہلِ اسلام کی صلاحیت و قوت
کے اعتبار سے اس حد تک ترقی کہ وہ گلوبلائزیشن کے پروسیس کے قائد (Leader)
اور منضبط کار (Regulator) بن جائیں۔ ان دونوں امور کو یقینی بنانا ضروری
ہوگا۔اس کوشش کے دوران وقتی ازالۂ نقصان (Damage Control) تدابیر، کے تحت
پہلا کام بڑے پیمانے پر عوامی بیداری اور متبادل طرز ہائے زندگی کا فروغ ہے
اور دوسرا کام تخلیقی اور قابل عمل آئیڈیاز کے نفاذ کے لیے سیاسی دباؤ کی
کاوشیں ہیں۔
زیر نظر مضمون صرف ان اشارات کا متحمل تھا۔ ان
میں سے ہر اشارہ کے سلسلے میں غوروفکر اور آئیڈیاز کے ارتقاء کا کام ہونا
چاہیے اور بیرونی دنیا میں ان محاذوں پر جو تجربات ہورہے ہیں ان سے واقفیت
ہونی چاہیے۔ اگر قارئین دلچسپی لیں تو یہ سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
ترقی یا تنزّل[L:151]؟
ضیاء الدین سردار نے اپنی کتاب ’’Touch of
Midas‘‘ کا آغاز ایک دیو مالائی داستان سے کیا ہے۔ مِداس کو دیوتاؤں نے خوش
ہوکر پیش کش کی کہ وہ جو مانگے گا اسے دے دیا جائے گا۔ اس نے خواہش کی کہ
اس کے اندر ایسی صلاحیت پیدا کردی جائے کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگائے وہ سونے
کی ہوجائے۔ اس کی دعا قبول ہوگئی۔ لیکن جلد ہی یہ نوبت آگئی کہ وہ کھانے
کو ہاتھ لگاتا، وہ سونا ہوجاتا، پانی سونا ہوجاتا، بیوی سونا ہوجاتی۔
سردار نے کہا ہے کہ جدید سائنس اور ترقیات بھی
ایسی ہی ایک نعمت۔ یہ گویا مِداس کا مس (Touch of Midas) ہے کہ ہر طرح کی
آسائشیں تو مل جاتی ہیں لیکن ہوا، پانی، غذا جیسی بنیادی ضرورتیں فنا
ہوجاتی ہیں۔
گلوبلائزیشن کا اصل ہدف یہ ہے کہ ترقی (ڈیولپمنٹ
یا پروگریس) کا مغربی ماڈل ساری دنیا میں عام کیا جائے۔ اس ترقی کا مطلب
کیا ہے؟ جدید معاشیات کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
فی کس آمدنی بڑھے، جی ڈی پی بڑھے، ملک کی مجموعی دولت میں اضافہ ہو۔لوگوں
کی صرف کرنے (Consumption) کی صلاحیت بڑھے۔ اس کے نتیجے میں مصنوعات کی
مانگ بڑھے، مانگ کی تکمیل کے لیے پروڈکشن بڑھے۔ پروڈکشن کے لیے
انفرااسٹرکچر ترقی کرے۔ یعنی کشادہ ہشت رو سڑکوں کی تعمیر ہو۔ بڑے بڑے
باندھ بنائے جائیں۔ بڑے میٹروپولیٹن شہر بسیں، ایئر پورٹ بنیں، کمیونی کیشن
ترقی پائے، شاپنگ مال اور فلک بوس عمارتیں بنیں وغیرہ۔
پھر گلوبلائزیشن کی کارفرما قوتوں کا یہ بھی
اصرار ہے کہ یہ سب ان کے معیارات اور ان کے پیمانوں کے مطابق ہی ہو۔ علاج
معالجہ ان کی مرضی کے مطابق، ان کے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے ذریعہ ہو۔
تعمیراتی کام کی نگرانی ان کے انجینئرز کریں۔ ان کے معاشی مشیر ہوں۔
مسلمان اور نظام تعلیم کا چیلنج
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم
کا شوق بڑھ رہا ہے۔ پورے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے مسلمان قائم کر رہے
ہیں۔ اور معیاری وباوقار تعلیمی اداروں اور کورسیز میں مسلمانوں کا تناسب
بڑھ رہا ہے۔ مسلمان والدین اپنے بچوں کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ
میں اب زیادہ سنجیدہ ہیں۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی
ہیں۔
یہ تما م خوش گوار ترقیاں اسلام اور ملت اسلام کے
لیے صحیح معنوں میں اس وقت مفید ثابت ہو سکتی ہیں جب پڑھنے والے بھی اور
پڑھانے والے بھی (خاص طور پر والدین) اس بات کے شعور کے ساتھ آگے بڑھیں کہ
انہیں تعلیم کس لیے حاصل کرنی ہے۔؟ اور بحیثیت مسلمان ان کی تعلیم کا حقیقی
مقصد کیا ہے۔؟
رائج تعلیمی تصور
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی
مقاصد ملک کے عام باشندوں کے تعلیمی مقاصد سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
بلکہ شائید عام باشندوں سے بھی زیادہ پست ہیں ۔ اکثر پڑھنے والوں اور
پڑھانے والوں کے ذہنوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہے کہ بچپن اور
نوجوانی کے قیمتی ۲۰، ۲۵ سال اس مقصد کے لیے تعلیم میں صرف کیے جائیںکہ
باقی ۳۰، ۳۵ سال خوشحال اور آرام دہ زندگی گذاری جاسکے۔ چونکہ خوش حال اور
آرام دہ زندگی کا شارٹ کٹ راستہ ذہنی پستی کی وجہ سے ،بعض مخصوص شعبوں سے
وابستہ سمجھا گیا ہے، اس لیے ہر ماں اور ہر باپ کے نزدیک زندگیکی معراج یہ
ہے کہ بچہ ڈاکٹر یاانجنئیربن جائے۔ اور چونکہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا اس
مسابقتی دور میں ایک مشکل کام ہے ۔اس لیے بچہ کے پیدا ہوتے ہی دیگر تمام
تربیتی اور تعلیمی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، یا کم ازکم ثانوی درجہ
میں رکھتے ہوئے، ماں، باپ، بچہ اور اس کے پورے خاندان کو اسے ڈاکٹر یا
انجنیئر بنانے کے پروجیکٹ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہو جانا چاہیے۔۔ چونکہ
مسلمانی کا بھرم بھی نبھانا ہے اس لیے کسی مولوی کے ذریعہ حسب موقع وحسب
فرصت ناظرہ قرآن اور طریقہ نماز سکھلا کر ’’دینی تعلیم‘‘ کے تقاضے بھی
نبھانے ہیں۔
بعض مستثنیات کو چھوڑ کر ۔الا ماشاء اللہ ۔ بڑی حد تک اس وقت تعلیم یافتہ مسلم مڈل کلاس میں تعلیم کایہی منظر نامہ ہے۔
رائج تصور کے نقصانات
اس سطحی اورپست تعلیمی تصور کے نتائج نہایت
بھیانک ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کے مطابق 2006 ء میں 5857 طلبہ نے
خود کشی کی تھی۔ اس سال ابھی امتحانات کا سیزن شروع ہورہا ہے اور تادم
تحریر ملک بھر میں تقریباً 800 طلبہ خودکشی کر چکے ہیں۔ دہلی کے ڈاکٹروں کے
مطابق تناؤ ختم کرنے کی دواؤں کو ختم کرنے کا سب سے زیادہ چلن طلبہ میں
ہے۔بعض خطرناک ادویات مثلاًAntiepilepsy drugs کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی
گمراہ کن ویب سائٹس کی مدد سے چھپکلیوں کے جسمانی اعضاء جوتوں کی پالش ،
نیل پالش ریموور وغیرہ جیسی چیزوں سے طلبہ تناؤ دور کرنے کی اپنی دوائیں
خود تیار کررہے ہیں۔ (ان میں اکثریت اسکول کے طلبہ کی ہے۔) اس طرح تعلیم کا
عمل جو کہ ایک مسرت بخش تجربہ ہونا چاہیے تھا ایک تناؤ سے پر تکلیف دہ
تجربہ بنتا جارہا ہے۔
ہر ایک کو ڈاکٹراور انجنیئر بنانے کی اس دیوانگی
نے بچوں سے صرف ان کا بچپن، بچپن کی شوخیاں اور مسکراہٹیں اور بچپن کا حسن
ولطافت ہی نہیں چھینا ہے بلکہ ان سے ان کی شخصیتیں چھین لی ہیں۔ وہ انمول
خزانے چھین لیے ہیں جو فطرت نے ان کے اندر ودیعت کر رکھے تھے۔ عظیم الشان
کارناموں کے وہ لامحدود امکانات چھین لیے ہیں جو ان کی مخصوص شخصیتوں کے
ساتھ وابستہ تھے۔ اس دیوانگی نے انسانیت کو نہ جانے کتنے فارابیوں، بوعلی
سیناؤں، غزالیوں اور مودودیوں سے محروم کر دیا ہے۔
شخصیتوں کے اس قتل عام کے لیے سماج کے ساتھ ساتھ
وہ ماں باپ بھی ذمے دار ہیںجو اپنی پامال آرزووں کی اپنے بچوں کے ذریعہ
تکمیل چاہتے ہیں اور اپنے خوابوں کوبالجبر اپنے بچوں پر تھوپتے ہیں۔
وپرو کے چیرمین عظیم ہاشم پریم جی نے چند سال قبل
ایک دلچسپ مضمون ٹائمز آف انڈیا میں لکھا تھا جس میں بحیثیت ایک باپ کے
("As a Parent") اپنے تعلیمی تجربات بیان کیے تھے ۔وہ لکھتے ہیں۔
’’اسکول کا بنیادی مقصد طالب علم کو اپنے آپ کو
پہچاننے میں مدد کرنا ہے۔ تاکہ وہ خود کی، اور اپنی مخصوص دنیا کی معرفت
حاصل کرسکے۔ اور پھر اس کی مخصوص صلاحیتوں کی نشونما کرنا ہے۔ جس طرح ہر
بیج، مستقبل کا ایک سر سبز و شاداب درخت ہوتا ہے؛ اس طرح ہر بچہ مستقبل کے
مخصوص لیکن لا محدود امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ سرپرستوں اور اساتذہ
کو ایک محنتی باغبان کی طرح اس درخت کی نشونما کرنی ہے۔اور اس کی فطری
خاصیتوں کو کمال تک پہنچانا ہے۔ نہ کہ ایک کمہار کی طرح اپنی پسند کے
مخصوص سانچوں میں بچوں کو ڈھالنے کی غیر فطری کوشش کرنی ہے۔
مطلب
یہ ہے کہ کمہار تو اپنی خواہش ، آرزو اور خواب کے مطابق برتن مٹی کے ذریعہ
ڈھال سکتا ہے۔ اور اپنی پسند کے ڈیزائن تیار کر سکتا ہے۔لیکن باغبان اپنی
مرضی کا درخت نہیں پیدا کر سکتا ۔ باغبانی کا فلسفہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کو
بالائے طاق رکھ کر بیچ کے مخصوص امکانات پر توجہ مرکو زکی جائے اور یہ
کوشش کی جائے کہ بیج کے مخصوص امکانات اپنے کمال کو پہنچیں۔ اور درخت سے جو
مخصوص فائدے (چاہے وہ باغبان کی خواہش اور ترجیح نے خلاف ہی کیوں نہ ہوں)
متوقع ہیں وہ بدرجہ کمال حاصل ہوں۔
میکاؤلے کا نظام تعلیم
کمہار کی طرح نظام تعلیم کے ذریعہ اپنی پسند کے
افراد ڈھالنے کا یہ مکروہ عمل رسوائے زمانہ برطانوی ماہر تعلیم میکاؤلے نے
شروع کیا جس نے برطانوی سامراج کی خدمت کے لیے کم عقل، کند دماغ، یک رنگ
بابوؤں اور اہل فن (Skilled Labour) کی فوج کی تخلیق کا بیڑا اٹھایا تھا۔
یعنی اوسط ذہنی صلاحیت (mediocres) کے ایسے افراد جو ایمپائر کے آقاؤں کے
دیئے ہوئے پیمانوں، طریقوں اور معیارات کے تحت سر جھکا کر اپنے اپنے شعبوں
میں یکسوئی وفرماں برداری کے ساتھ انگریز بہادر کا حق نمک ادا کرتے رہیں۔
ان کی کسی چیز کو چیلنچ نہ کریں۔ ان کی جانب سے آنے والی ہر بات کو وحی
الٰہی سمجھین اور اپنے شعبہ اور پیشہ کے علاوہ دیگر معاملات سے سروکار نہ
رکھیں۔
انگریز کے جانے کے بعد بھی ہمارا نظام پوری
وفاداری کے ساتھ میکاؤلے کے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا۔ اب جدید امریکی
سامراج کو بھی اپنے وسیع ایمپائر کی خدمت کے لیے ایسے ہی بے دام غلاموں کی
ضرورت ہے۔ جو ۲۵، ۳۰، برس اُن سارے علوم وفنون کو سیکھنے میں لگائیں جو اس
نظام کا کل پرزہ بنے رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ اور پھر باقی عمر بے جان مشین
کی طرح، احکامات وصول کرنے اور ان کی تعمیل کرنے میں لگادیں۔
اس نظام تعلیم کی وجہ سیسطحیت اور کند دماغی کا پیدا ہونا فطری
ہے۔ صدیوں سے اہل علم، علم اور فن (skill) میں فرق کرتے رہے ہیں۔ ایک
کامیاب انسان کے لیے علم بھی ضروری ہے اور فن بھی۔ بڑھئی کا کام ، حجامت
کرنا، جوتا بنانا، کپڑے سینا، سافٹ ویر لکھنا، موٹر کا ڈیزائن بنانا، علاج
کرنا، سرجری کرنایہ سب فنون ہیں جو روزگار کے لیے ضروری ہیں۔جبکہ علم کا
تعلق اپنی ذات ، سماج ، ملک ، دنیا ، خدا، فطرت وغیرہ کے متعلق اور ان سے
اپنے رشتہ کے متعلق گہرے شعور سے ہے۔ جدید نظام تعلیم علم کا المیہ یہ ہے
کہ وہ علم کے نام پر صرف فن پیدا کررہا ہے۔
تعلیم کے مقاصد اسلام کے نزدیک
اسلام کے نزدیک اس دنیا میں انسان اللہ کاخلیفہ
ہے۔(وا ذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ البقرہ)خلیفہ ہونے کی
حیثیت سے اس کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے دین کو اس زمین میں غالب
کرے۔ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی تعمیر کا
فریضہ انجام دے ۔ زندگی کے ہر شعبہ کو اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کی آلود
گیوں سے پاک کرے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کی خاطر انسان اس دنیا میں
پیدا کیا گیا ہے۔
تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس نصب العین کے
حصول کی خاطر جدوجہد کے لیے تیار ہو۔ یہ نصب العین اتنا ہمہ گیر ہے کہ
زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔اس کے حصول کے لیے ہر صلاحیت ، ہر فن
اور ہر علم کی ضرورت ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی
مخصوص صلاحیتوں کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ وہ کس شعبہ میں اس نصب العین کی
بہتر خدمت انجام دے سکتے ہیں۔؟ ان کی دلچسپی، افتاد طبع، رجحان کے مطابق
انہیں ان کے مخصوص شعبوں میں اس طرح کریں کہ وہ ان شعبوں میں اس نصب العین
کی اعلیٰ سے اعلیٰ خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔
چونکہ اس نصب العین کا تعلق اس دنیا سے ہے، اس
لیے اس کے حصول کے لیے ا ن علوم میں بھی مہارت ضروری ہے جنہیں نہایت غلط
طور پر دنیوی علوم کہا جاتا ہے۔اسلام میں علم کی عصری (یا دنیوی) اور دینی
خانوں میں کوئی تقسیم نہیں ہے، دین نام ہی دنیا کو اللہ کی مرضی کے مطابق
برتنے کا ہے۔ اس لیے دین اور دنیا کی تقسیم ایک نامعقول تقسیم ہے۔ اسلام
میں علم کی تقسیم ’’نافع‘‘اور ’’غیر نافع‘‘ علوم میں کی گئی ہے۔ اللہ کے
رسولؐ نے غیر نافع علم سے پنا ہ چاہی ہے (و نعوذبک من علم لا ینفع )پس
نافع علوم سیکھنے چاہییں چاہے وہ مدارس میں پڑھائے جایئں یا کالجوں میں ۔
اور غیر نافع علوم سے بچنا چاہیے چاہے وہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جائیں یا
مدارس میں۔
یہی وجہ ہے کہ امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے
نام نہاد’’ دنیوی علوم‘‘ کے حصول کو بھی مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ قرار
دیا ہے۔ اس لیے اگر کوئی انجنئیرنگ، میڈیسن، معاشیات ، فلسفہ، سماجیات،
وغیرہ جیسے علوم کو بھی اس مقصد کے لیے حاصل کررہا ہے کہ ان کے ذریعہ
بحیثیت خلیفۃاللہ اپنی ذمہ داریوں کو اداکرے گا، تو اس کی یہ کوشش بھی و
یسے ہی عین عبارت ہے جیسے تفسیر ، فقہ اور حدیث کے علم کا حصول کی کوشش۔
یہ بلند نصب العین اس بات کا بھی مطالبہ کرتا ہے
کہ ہمارے طالب علم اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل کریں۔ دنیا
کاطئے شدہ اصول ہے کہ غلامی کے لیے اعلیٰ صلاحیتیں درکار نہیں ہوتیںنہ بنے
بنائے طریقوں کے مطابق مشینی انداز میں کچھ کام کرنے کے لیے اعلیٰ
صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ یہ سارے امور متوسط درجہ کی صلاحیتوں سے بھی تکمیل
پاجاتے ہیں۔
مطلوب تعلیمی اسکیم
پہلی ترجیح ۔ مقصد کا شعور
اگر ہم تعلیم کے میدان میں بھی اسلام کی راہ
نمائی کو اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پہلی تعلیمی ترجیح یہ ہونی چاہیے
کہ ہمارا بچہ یہ جان لے کہ زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟ اگر کسی فرد کو یہ
معلوم نہ ہو کہ پیڑ کے اندر سبز پتوں کا مقصد کیا ہے تو وہ جاہل سمجھا
جاتا ہے۔اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی حیاتیات بھی نہیں جانتا اور
اس کا جنرل نالج بہت کمزور ہے۔لیکن اس سے کہیں زیادہ جاہل وہ شخص ہے جو
پیڑ پودوں، بے جان اشیااور اپنے جسم کے ہر عضو اور ہر عمل کے مقصد سے واقف
ہو لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خود کس لیے پیدا ہوا ہے؟ اور زندگی میں
اس کا مقصد کیا ہے؟
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
تعلیم کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہطالب علم
بحیثیت مسلمان، اس دنیا میں اپنے حقیقی رول اور مقصد کو سمجھ لے اور اسے
معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں وہ یوں ہی نہیں آیا ہے بلکہ ایک بہت بڑا کام
کرنے کے لیے آیا ہے۔ اور وہ کام یہ ہے کہ تمام شیطانی قوتوں کو میدان سے
ہٹا کر اسے اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئے تمدن کی تعمیر کرنی ہے۔اور خدا
کی خلافت کا فریضہ انجام دینا ہے۔
دوسری ترجیح : اللہ کی مرضی کا عل
اس اسکیم میں تعلیم کی دوسری ترجیح یہ ہونی چاہیے
کہطالب علم اللہ کی مرضی سے واقف ہوجائے۔ دین کا صحیح فہم اور شعور اسے
حاصل ہو۔ یہ کام محض ناظرہ قرآن کی تعلیم سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ضروری
ہے کہ ماں باپ قرآن وسنت کی مکمل تعلیم کی فکر کریں۔ ایک طرف دین کا
بنیادی فہم ،جو تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے، اسے بھی حاصل ہو۔
قرآن کا پیغام اور اس کی دعوت اسے معلوم ہو۔ قرآن کیسا انسان بنانا چاہتا
ہے اور کیسی دنیا کی تعمیر چاہتا ہے، وہ اسے معلوم ہو۔دوسری طرف جس شعبہ کو
اس نے اپنی تعلیم کے لیے منتخب کیا ہے اس شعبہ میں اسلام کی تعلیمات کا
گہر ا فہم اور شعور اسے حاصل ہو۔ مثلاً اگر کوئی بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے تو طب
اور صحت سے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اسلام کا فلسفہ اسے معلوم ہو۔
ہمارے اسلاف نے اس موضوع پر جو کچھ کہاہے، اس سے وہ واقف ہو۔ جدید علم طب
کے اسلامی نقطہ نظر سے کیا نقائص ہیں اسے وہ جانے۔اسے معلوم ہو کہ طب کی
اسلامی اخلاقیات Islamic Medical Ethics جدید مغربی اخلاقیات سے مختلف ہے۔
اس فرق کا اسے گہرا شعور ہو۔ مسلمان اہل علم نے دنیا بھر میں جدید میڈیسن
پر جو تنقیدیں کی ہیں۔ اس کا اسے اندازہ ہو۔ اور اس کے ذہن میں صاف ہو کہ
اسلام کس طرح کا نظام صحت چاہتا ہے۔؟
تیسری ترجیح: رجحان کے مطابق تربیت
اس اسکیم کے مطابق تیسری ترجیح یہ ہے کہ ہم اپنے
بچہ کو ان مخصوص میدانوں میں آگیبڑھنے کے بھر پور مواقع فراہم کریں جن میں
وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے زیادہ بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اس
لیے کہ صلاحیت بھی اللہ کا عطیہ ہے اور س کی نشونما اور صحیح استعمال کے
سلسلہ میں ہمیں خداکے سامنے ہمیں جوا دینا ہے۔ اگر ہمارا بچہ ایک اچھا قلم
کار بن سکتا تھا اور نیوز ویک اور ٹائمز کی سطح پر بین الاقوامی معیارات کے
مطاق اسلام کا صحافتی دفاع کر سکتا تھا لیکن ہم نے محض اپنی خواہش کی خاطر
اسے زبردستی ڈاکٹر بنادیا تو شرعاً نہ سہی، عملاً ہمارا جرم اس ظالم
حکمران سے کم تر درجہ کا نہیں ہے جس نے ایک بڑیقلم کار کو پھانسی پر
لٹکادیا۔!
بچوں کو ان کی فطری صلاحیت کے مطابق آگے بڑھانے
کے لیے پہلی ضرورت یہہے کہ ہم اپنے بچہ کی تعلیم کے لیے ایسا اسکول منتخب
کریں جہاں بین الاقوامی معیارات کے مطابق، تخلیقیت Creativity اور بچہ کی
فطری صلاحیتوں کو اہمیت دی جاتی ہے یعنی جہاں باغبانی کی جاتی ہے۔ ایسے
روایتی اسکولوں سے بچیں جہاں ۔’’رٹ‘‘ ’’ہوم ورک‘‘ ’’امتحانات ‘‘ ’’رینک‘‘
وغیرہ وغیرہ جیسے روایتی ہندوستانی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے کمہاری کی
جاتی ہے۔
گلوبلائزیشن اور تہذیب
اس وقت دنیا میں ایک مخصوص تہذیب جسے ہم امریکی
تہذیب کہتے ہیں، جس تیزی سے دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اثر انداز ہورہی ہے اس
کی نظیر انسانی تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ نو آبادیاتی دور میں بھی
مغربی تہذیب کے فروغ کو ایک بڑا مسئلہ سمجھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت یہ
تہذیبی غلبہ شہری آبادیوں اور اشراف (Elites) کے طبقات تک ہی محدود تھا۔
گلوبلائزیشن کے دور کاتہذیبی غلبہ ہمہ گیر ہے۔ اور آبادی کے ایک بڑے حصہ کا
احاطہ کرنے کے ساتھ انسانی زندگی کے زیادہ سے زیادہ شعبوں کا احاطہ کرتا
ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی غالب تہذیبیں
ہمیشہ عالمی سطح پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ اسلامی تہذیب نے بھی ساری دنیا
پر اثرات چھوڑے تھے۔ لیکن گلوبلائزیشن کی دو خصوصیات ایسی ہیں جن کی وجہ
سے اس کے تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے۔ اول یہ کہ اس عمل کی قیادت ایک ایسی
خود غرض اور مادہ پرست تہذیب کے ہاتھوں میں ہے جس کے پیش نظر انسانیت کا
عمومی مفاد نہیں ہے۔ اور دوسرے یہ کہ گلوبلائزیشن کا عمل سابق کی طرح
تہذیبی قدروں کے اختیار و رد کا حق نہیں دیتا۔ غالب تہذیب کی قدریں اس سے
متاثر ہوکر اختیار نہیں کی جارہی ہیں۔ یہ قدریں استدلال اور عقلی اپیل کے
ذریعہ نہیں فروغ پارہی ہیں۔ ان کی پشت پر کوئی ٹھوس نظریہ یا فکر موجود
نہیں ہے۔ بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ کمیونیکشن و انفارمیشن کے ترقی یافتہ ذرائع
اور میڈیا اور اشتہارات کی چکا چوندھ کے ذریعہ لوگوں کی آنکھوں پرپردے ڈال
کر ان سے قبول و رد کا حق چھینا جارہا ہے۔ اور انہیں مخصوص تہذیبی قدروں کو
اختیار کرنے کے لیے ایک طرح سے مجبور کیا جارہا ہے۔
یہ تہذیبی اثر لوگوں کے مزاجوں اور ذہنی سانچوں تک بھی
محیط ہے۔ امریکہ کی بدنام زمانہ انفرادیت پسند (Individualsim) اب ایک
عالمی صورتحال بنتی جارہی ہے۔ یہ خود غرضی کی بدترین شکل ہے جس میں آدمی
صرف اپنے آپ سے مطلب رکھتا ہے۔ پہلے وہ ملک، قوم انسانیت، سماج وغیرہ سے بے
نیاز ہوکر صرف اپنے خاندان پر مرکوز ہوجاتا ہے پھر دھیرے دھیرے خاندانی
رشتوں کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور آدمی کی دلچسپیوں کا واحد مرکز اس کی
اپنی ذات ہوتی ہے۔ فرد کی آزادی، فرد کے حقوق، اور فرد کے مفادات اتنے اہم
ہوجاتے ہیں کہ سماج اور اجتماعی مفادات اور ضرورتوں کے لیے کوئی گنجائش ہی
باقی نہیں رہتی۔
تہذیبوں کے زوال کی یہ صورتحال اتنی تشویش ناک
ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنے ملینیم اعلامیہ میں تہذیبی تنوع کے تحفظ
کو بین الاقوامی پالیسی کی ایک اہم قدرقرار دیا ہے اور اسے وہی اہمیت دی ہے
جو حیاتیاتی تنوع ’Bio diversity‘ کو حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے نشانہ کے
مطابق اس سال کے ختم تک تہذیبی تنوع کے تحفظ کا معاہدہ International
Convention on the Protection of Cultural Diversityاور اس سے متعلق ضروری
عالمی معیارات (International Standards) کو قطعیت دیا جانا طے ہے۔
کوریائی کالم نگار جیریمی سی بروک نے صحیح لکھا ہے:
’’گلوبلائزیشن دیگر تمام تہذیبوں کے خلاف اعلانِ
جنگ ہے۔ اور تہذیبی جنگوں میں ہر شہری شریک ہوتا ہے۔ یہاں کوئی بے گناہ
تماشائی نہیں ہوتا۔ آخر دنیا کے قدیم ترقی یافتہ تمدن کیوں اس بات کو ٹھنڈے
پیٹوں گوارا کررہے ہیں کہ انہیں حاشیہ پر چڑھادیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ
گلوبلائزیشن اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ غربت ختم کرے گا اور تحفظ فراہم
کرے گا۔ یہ سمجھا گیا ہے کہ عالمی سرمایہ داروں کے پاس دولت پیدا کرنے کی
عظیم صلاحیت ہے۔ اور دولت ایک ایسی ترجیح ہے جس کے آگے تمام مشغلے، موجود
ادارے تعبیرات اور زندگی کی معنویت کی تلاش ہیچ ہے۔‘‘
آپ ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں ادیبوں کا
ادب، آرٹسٹوں کا فن، بڑے بڑے اخبارات کے مشتملات، ٹی وی اور ریڈیو کے
پروگرام، دانشوروں کا علم و دانش اور مصلحین کے اخلاقی تصورات، سب کچھ قابل
فروخت ہوں اور جو انہیں پیسہ دے سکتا ہو اس کی خاطر وقف ہوں۔ اور انہیں ان
کی قیمت ادا کرنے کی صلاحیت بڑی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے پاس ہو جن
کا واحد مشن دنیا کی دولت پر بلاشرکت غیرے قبضہ کرنا ہو۔
سوچئے کہ ایسی دنیا کیسی یک رنگ اور بور ہوگی۔
نظریات کی کشمکش، اصولوں اور قدروں پر مباحث، تہذیبوں کا تعامل، انقلابات
وغیرہ جیسے امور جنھوں نے انسان کی تمدنی تاریخ کو رنگا رنگ بنایا ہے، اس
دنیا میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ پیسے کے گرد گھومتی ہوئی واحد عالمی
تہذیب گلوبلائزیشن کا ہدف ہے۔ اس کا مطلب ایک ایسی دنیا کا ظہور ہے جہاں
تمدن کے نام پر مشین اور تہذیب کے نام پر حیوان بستے ہوں۔
آؤ ایک نئے تمدن کا خواب دیکھیں
اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی
ہے کہ آپؐ نے قائم شدہ سماجی ڈھانچوں کو بیک وقت ڈھادینے کی مصنوعی کوشش
نہیں فرمائی۔ اسلام کے نشانے کے مطابق سماجی تبدیلی کے لیے آپ نے تدریجی
راستے اختیار کیے۔ ان میں سے بعض کا تدریجی سلسلہ تو آپ کی وفات کے بعد بھی
جاری رہا اور آپ کی وفات کے ایک عرصے بعد مطلوب مقاصد حاصل ہوئے۔
اس ذیل میں فی الحال دو مثالیں پیش کی جاسکتی
ہیں۔ غلامی کو اسلام نے پسند نہیں کیا ہے۔ اور غلامی کی رسم کا خاتمہ اسلام
کا مطلوب و مقصود رہاہے۔ اس بات پر بڑی حد تک اتفاق ہے۔ لیکن اللہ کے رسول
ﷺ نے اپنے وصال تک بھی غلامی کو ممنوع قرار نہیں دیا۔ اس لیے کہ برسوں
پرانی اس رسم کی جڑیں سماج میں کافی گہری تھیں۔ چاہے یہ اسلام کے مزاج و
منشا کے خلاف ہو لیکن فوری اس رسم کا خاتمہ سماجی ڈھانچہ میں عملی دشواریوں
کا سبب بن سکتا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے غلامی اور غلام بنانے کے عمل کی کراہیت
لوگوں کے مزاجوں میں پیدا کردی اور ایسے اقدامات کو رائج کیا جن کے نتیجے
میں پہلے غلاموں کا مقام و مرتبہ بڑھا، پھر دھیرے دھیرے خود بخود غلامی کی
رسم اسلامی معاشرہ سے ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ اسلامی تہذیب، دنیا کی پہلی
غلامی کی رسم سے پاک تہذیب بن گئی۔
اسی طرح اسلام کا مطلوب و مقصود بنی آدم کی
مساوات اور نسلی و قبائلی تفریقات کا خاتمہ رہا ہے۔ دنیا کے تمام انسانوں
کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل رہیں، یہاں تک کہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ کو
خلافت کے منصب پر فائز کیا جاسکے۔ اول روز سے یہ اسلام کا ہدف رہا ہے۔ لیکن
عرب کے قبائلی نظام میں آدمی کی اثر انگیزی، شخصی وجاہت اور رعب و دبدبہ
کا اس کے نسلی و قبائلی پس منظر سے گہرا تعلق ہوتا تھا، اگر اول روز ہی سے
مساوات کے اصول کو سختی سے نافذ کیا جاتا اور کسی کمزور قبیلہ کے باصلاحیت
آدمی کو بھی سربراہ بنادیا جاتا تو شاید نو خیز اسلامی مملکت کا نظام و
انصرام ہی ممکن نہ ہوپاتا۔ اس لیے ایک عرصہ تک امامت کے لیے قریشیت کی شرط
رہی۔ لیکن اسلامی تعلیمات نے دھیرے دھیرے مسلمانوں کے قومی مزاج میں ایسی
تبدیلی پیدا کی کہ بعد کے ادوار میں ترک، بربر، ایرانی حتی کہ غلام بھی
اسلامی ممالک کے سربراہ بنے اور اسلامی معاشروں نے انہیں خوش دلی سے قبول
بھی کیا۔
No comments:
Post a Comment