دانائے راز....!
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ
یوم اقبال ایک دن نہیں۔ علامہ اقبالؒ بھی صرف شاعر نہیں۔ میرے حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اگلا دن پچھلے دن سے مختلف نہیں۔ تو سمجھو کہ یہ دن تمہاری زندگی میں آیا ہی نہیں۔ ہر سال یوم اقبال پچھلے یوم اقبال سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ مگر ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔اقبالؒ مستقبل کا شاعر ہے۔ وہ آگے کی خبر دیتا ہے۔ خبر سے اس کی مراد راز ہے۔ عاشق رسول اور عاشق اقبالؒ، عرفان و آگہی کے پیکر بصیرت اور حکمت والے بابا عرفان الحق نے فرمایا کہ اقبالؒ مفکر اور شاعر سمجھتے جاتے ہیں۔ مگر وہ ایک عاشق رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں
من از میر امم داد از تو خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمردند
ترجمہ: ”اے امتوں کے میر کارواں۔ میں تجھ سے انصاف چاہتا ہوں۔ شاعری کے لئے داد ہوتی ہے۔ اقبالؒ نے ”داد“ کے بھی معانی بدل دئیے ہیں۔ مجھے یار لوگوں نے غزل خواں (شاعر) سمجھ لیا ہے“۔ بابا عرفان الحق نے اقبالؒ کو اللہ کا خاص بندہ کہا ہے۔ وہ اللہ کے مقرب اور منتخب انسان ہیں۔ اُنہیں لوگوں نے منتخب نہ کیا اُن کا انتخاب اللہ نے کیا ہے۔ پھر اللہ کے بندے ان کے عاشق ہو گئے۔ اللہ جس سے کام لینا چاہتا ہے۔ انہیں حیران کر دینے والی اہلیت سے نواز دیتا ہے۔ باباجی نے فرمایا۔ ابھی لوگ اقبالؒ کو جانتے نہیں۔ عجیب بات ہے کہ اپنے ایسے بندوں کے لئے اللہ محبت اور نسبت ہوا کی آنکھوں میں رکھ دیتا ہے۔ ہوا جہاں جہاں جاتی ہے۔ ان کے لئے محبت کی خوشبو کو عام کرتی جاتی ہے۔ طائف کے مقام پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کر دیا گیا۔ فرشتے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور اجازت چاہی کہ اس بستی کو پہاڑوں کے درمیان پیس کے رکھ دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کریں کہ میں رحمتہ اللعالمین بنا کے بھیجا گیا ہوں۔ یہ لوگ مجھے نہیں جانتے۔ یقیناً ان کی آئندہ نسلیں مجھ پر ایمان لائیں گی۔ خدا کی قسم ہم آج بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے ہیں انہیں جانتے نہیں یہی بات بابا جی نے اقبالؒ کے لئے کہی کہ ہم انہیں مانتے ہیں۔ جانتے نہیں۔ عشق رسول نے یہ مرتبہ اقبال کو بخشا ہے۔ عشق رسول کے لئے سیرت محمد کی تعلیم ضروری ہے اور اس دور میں اقبالؒ کی تفہیم کو بھی آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ بابا جی فرماتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندوں کا مشن ایک ہی ہے۔ یہی مشن اللہ اور محمد والوں کا ہے۔ یہی مشن اقبالؒ کا ہے۔ ان کا کلام شاعری سے بہت آگے کی چیز ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے سرہانے قرآن مجید دھرا ہوتا تھا اور مثنوی مولانا روم.... ع
”نیست ممکن جُز بہ قراں زیستن
اور ”ہست قرآں در زبان پہلوی“ اس علم کو پانے کے لئے حضور غار حرا میں گئے تھے آج بھی اللہ والے محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ علم ایک راز ہے اور راز دو آدمیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ اس راز کو پھیلانے کے لئے دل والوں نے یہ کیا ہے کہ لوگوں کو اپنا ہمراز بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح راز دوسروں تک بھی پہنچتا ہے اور راز بھی رہتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس راز کی حفاظت کی اور اُسے فروغ بھی دیا۔ علم وہ راز ہے جو ہمیں عشق کی منزل کی طرف لے جائے۔ ہمیں یہ منزل اپنے راستے پر چل کر ملے گی۔ مغرب کا علم اور کلچر ہمیں کمزور اور گمراہ کرے گا
خیرہ نہ کر سکی مجھے دانش جلوہ ¿ فرنگ
سُرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اس کے بعد اقبال کا کھوج لگائیے
سرود رفتہ باز آید کہ نہ آید
نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
بابا عرفان الحق نے اقبالؒ کے لئے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا کہ پردہ رہنے بھی دیا۔ امت مسلمہ کی بے قراری اور بیداری کو زندہ رکھنے کے لئے ایک تڑپ اپنے لفظوں کے دلوں میں رکھ دی وہ شخص جو گھر میں دھوتی باندھے رہتا تھا پنجابی بولتا تھا۔ حقہ پیتا تھا۔ غریب و غیور تھا۔ غیرت اُسے عشق رسول سے تحفہ ملی تھی۔ اور غریبی بھی اس کا چوائس تھی کہ غریبی حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی چوائس تھی۔ اصل میں یہ فقیری ہے۔ انہوں نے فرمایا۔ الفقر فخری۔ اقبال نے کہا
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں، میں ہوں امیر
اپنے بیٹے جاوید اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے سارے نوجوانوں کو پیغام دیا۔ یہ پیغام قیامت تک نوجوان نسل کے لئے ہے
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
میں نے بابا عرفان الحق کی انوکھی اور نرالی باتوں میں اقبال کی گمشدہ آرزو کی جستجو میں اپنے آپ کو بے تاب پایا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اقبالؒ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا ذکر قرآن کی طرف کھلنے والی کھڑکی سورة فاتحہ میں کیا گیا ہے۔ اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر لے جا جن پر تو نے انعام کیا۔ اقبالؒ اللہ کے انعام یافتگان میں سے ہیں۔ ان کا ذکر ان کے پچھلوں میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اقبالؒ کا ذکر نہ ہو ان پر بے شمار تحقیقی کام ہوا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے نام کی لائبریریاں ہیں۔ اللہ اور رسول کے نام پر بنے ملک پاکستان کے قومی شاعر ہونے کا مقام انہیں ملا۔ شہروں محلوں پارکوں باغوں اور اداروں کا نام ان کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ماضی کو مستقبل کے ساتھ جوڑا اور نئے زمانوں کی خبر دی۔ خبر کو راز بنایا۔ انہوں نے جو دیکھا وہ دکھانے کی کوشش کی مگر بہت سا ابھی ان دیکھا ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم بے حد تخلیقی آدمی منیر نیازی نے کہا کہ تخلیق اس آدمی کی بے تابیوں کا اظہار ہے جو معلوم سے نامعلوم کی طرف جائے۔ اقبالؒ کے ساتھ دل کے تعلق خاطر کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ معلوم سے نامعلوم کی طرف جانے کا حق اس کا ہے جو نامعلوم سے پھر معلوم کی طرف آئے۔ اور یہی سفر اقبالؒ نے کیا۔ اقبالؒ کے پاس شب معراج کا ذکر ہوا۔ ایک آدمی نے کہا کہ حضور آسمانوں سے واپس زمین کی طرف آئے۔ میں ہوتا تو نہ آتا۔ اقبالؒ نے کہا کہ تیرے اور پیغمبر میں یہی فرق ہے۔ ساتوں آسمانوں سے پرے، حضور کے دل میں دھرتی دھڑک رہی تھی۔ انہوں نے دھرتی کو دل دھرتی بنا دیا تھا۔ وہ زمین پر رہنے والوں کا نمائندہ بن کے گئے تھے کہ وہاں مرے بعد اور مرنے کے بعد ہی آدمی جا سکے گا۔ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے رسول ہیں اور زندگی کے بعد کی زندگی کے رسول ہہیں۔ انہوں نے دونوں زندگیوں کو رلا ملا کے دیکھ لیا تھا۔ یہ کیفیت اقبالؒ کے اندر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی گہرائیوں میں پیدا ہوتی تھی۔ اور یہ گہرائیاں سربلندیاں بن گئی تھیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں
No comments:
Post a Comment