Search This Blog

Friday, 20 April 2012

سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کا جائزہ

سیرتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اعتراضات کا جائزہ
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفات ہر لحاظ سے جامع ومکمل ہے اور پوری انسانیت کے لیے اس میں اسوہ ہے۔یہی وہ دنیا کی واحد عظیم ہستی ہے جس کی آمد اور مبعوث کیے جانے کی بشارت بشمول ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی ہے، اور ان کے کاموں کو بھی متعین کیا گیا ہے اور پوری انسانیت سے کہاگیا ہے کہ جب ان کا زمانہ پاؤ تو ان کی اتباع کرو۔اسی بات کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’وہ آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو‘‘(البقرہ ۲:۱۴۶)، کیوں کہ حضور کی نبوت بہ مقابلہ اپنی اولاد کی پہچان کے بھی زیادہ واضح ہے (حافظ ابن کثیر،تفسیرالقرآن العظیم، دیوبند، ۲۰۰۲ء، ج ۱، ص۲۲۵)۔ اس لیے یہ بات سرے سے ہی بے بنیاد ہے کہ نبی آخرالزماں کی بعثت اور ان کے مقام ومرتبہ سے دنیا ناواقف ہے۔
مشرکین کے اعتراضات اور احترامِ رسول
آپ انتہائی نازک دور میں انسانیت کی ہدایت وفلاح کے لیے مبعوث کیے گئے تاکہ اخلاقی قدروں کو بحال کیا جاسکے اور دین اسلام کو تکمیل کے آخری مرحلے تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔’’آج کے دن تمھارادین مکمل ہوگیا اور ہم نے اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا‘‘(المائدہ ۵:۳)، اور’’محمد مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیا ہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳:۴۰ ) کا یہی مطلب ہے۔ خود نبی اکرم نے فرمایا: ’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں کی مثال اس عمارت کی سی ہے کہ جس نے ایک خوب صورت حسین وجمیل عمارت بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس عمارت کو دیکھ کر حیرت کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔آپ نے فرمایا: ’’وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (بخاری،کتاب المناقب)۔ دوسرے کئی مواقع پر بھی آپ نے خود کو خاتم النبیین ہونے کی خبر دی ہے۔(مسلم،کتاب الفضائل، ترمذی،ابواب الفتن، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۳۹۸، ۴۱۳، ج ۳، ص ۷۹، ۲۴۸، ج ۴، ص ۸۱، ۸۴، ۱۳۷)
نبی اکرم نے پہلی بار اپنی نبوت کااعلان کیا تو سواے چند ایک کے پورا مکہ آپ کا مخالف اور درپے آزار ہوگیا۔یہ عداوت آپ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی شقاوت کا مظاہرہ کیا گیا جو حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔کفارو مشرکین نے اپنے عقائد کے مینار کو، زمیں بوس ہوتا ہوا دیکھ کر ضرور بے تُکے پن کا اظہار کیا، لیکن کیا تمام لوگوں نے آپ کی باتوں سے منہ پھیر لیاتھا اور کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی؟نہیں،بلکہ ان کی مثال اس عاشق کی تھی کہ نفرت اور غصے کی حالت میں بھی اپنے معشوق کو دزدیدہ اور ترچھی نگا ہ سے دیکھتا اور اپنے من کی دنیا کو سرشار کرتا ہے۔
مکی دور کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے کفار ومشرکین وہاں پہنچ جاتے اوراپنے منشا کے خلاف کوئی بات سنتے توہڑ بونگ مچادیتے۔ قرآن مجید میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں شور وغل کرو شاید کہ تم غالب آجاؤ‘‘(فصلت ۴۱:۲۶)۔ ان اوچھی حرکتوں کے باوجود چھپے دل سے وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپ کے کلام میں صداقت اور عجیب طرح کی حلاوت ہے۔بعض وقت یہ لوگ چھپ چھپاکر رات کے ا ندھیرے میں قرآن کریم کو سننے کے لیے وہاں پہنچ جاتے جہاں نبی اس کی تلاوت کررہے ہوتے (محمد بن عبداللہ بن ہشام،سیرت النبی ،مطبع حجازی، قاہرہ، ج۱، ص۳۳۷۔۳۳۸)۔ کفار مکہ نے آپ کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے،توہمات کو منسوب کیا اور لوگوں میں اس کی تشہیر کی،مگر آپ کی سیرت وشخصیت اور آپ کے کردا رپر کبھی کوئی حملہ نہ کیا، اور نہ یہ کہا کہ آپ فلاں برائی کے عادی اور اس میں ملوث ہیں۔
حج کے موقع پر کفار نے مل کر ایک لائحہ عمل تیار کیا ،تاکہ نوواردوں کو آپ کی باتیں سننے سے روکا جاسکے ۔ سب لوگوں نے اپنی اپنی راے پیش کی کہ ان لوگوں کے سامنے ایساویسا کہا جائے لیکن ولید بن مغیر ہ نے یک لخت ان کی راے کو کالعدم کر دیا ۔اس نے کہا: اس کے کلام کی جڑیں وسیع اور مستحکم ہیں اور اس کی شاخیں ثمردار ہیں، اس کے متعلق تم جوبھی راے قائم کروگے، وہ تمھارے خلاف جائے گی۔بہترین بات جو تم محمد کے متعلق کہہ سکتے ہو وہ یہ کہ یہ شخص جادو گر ہے اور جو باتیں وہ کہتا ہے وہ ایسا سحر ہے کہ اپنوں کواپنوں سے بے گانہ اور خاندان کو خاندان سے جدا کردیتا ہے۔(ایضاً ،ص ۲۸۳۔۲۸۴)
عتبہ بن ربیعہ سرداران قریش کے مشورے سے حضور کی خدمت میں پہنچا اوراپنا مدعا ظاہر کیا۔ یہ بھی پیش کش کی کہ اس کے عوض آپ کو جو مطلوب ہو اسے واضح کریں ہم اسے پورا کیے دیتے ہیں۔ اللہ کے رسول نے اس کی باتوں کو سننے کے بعد سورۂ حم سجدہ کی تلاوت کی ۔اس کے بعد فرمایا: آپ نے میری باتوں کو بہ غور سن لیا ۔اب آپ جانیں اور وہ۔عتبہ وہاں سے اٹھا اور سیدھے قریش کی مجلس میں پہنچا۔ لوگوں کی نظر میں اب عتبہ وہ نہ رہا جو جاتے وقت تھا۔عتبہ نے اپنا تاثر لوگوں کے سامنے جس انداز اور الفاظ میں ظاہرکیا اس سے بہ خوبی واضح ہوتا ہے کہ اس نے حضور کی کا میابی اور ناکامی کو ہر دو اعتبار سے اپنی اور اپنی قوم ہی کی کامیابی پر محمول کیا۔(ایضاً، ص ۳۱۳۔۳۱۴)
دین کی توسیع واشاعت کے لیے اللہ کے رسول نے طائف کا سفر کیا۔وہاں کے سرداروں میں سے ایک نے یہ بھی کہا:’’اگر تو واقعی اللہ کا نبی ہے تو اپنی زبان سے تیری بے ادبی کرکے میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرسکتا‘‘ (ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۶ء، ج ۲،ص ۶۳۔۶۴)۔ ایسااس نے اس وقت کہا، جب کہ اس پر ابھی نبوت کی حقیقت پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی، مگر اب صورت حال دوسری ہے۔حق واضح ہوگیا ہے اور اس کی تفصیلات کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔ اسے تسلیم کرنے کے لیے ایمان کامل اور یقین راسخ کی ضرورت ہے۔
شاہ حبشہ کے دربار میں کفار کے سفیر نے آپ کے متعلق مختلف قسم کی باتیں کہیں، مگر اس نے آپ کے اخلاق وکردارپر جارحانہ حملہ نہیں کیا (سیرت النبی،ج ۱،ص ۳۵۸۔ ۳۶۴)۔ ہرقل شاہ روم نے صرف مکہ کے کچھ لوگوں کی زبانی جو آپ پر ایمان نہیں لائے تھے آپ کے احوال سنے تھے، آپ کا گرویدہ ہوگیا مگر وہ بعض وجوہ سے ایمان نہ لاسکا۔اپنی آسمانی کتاب کی بشارت کی روشنی میں وہ فوراً ہی سمجھ گیا کہ آپ نبی برحق ہیں،جس کا پوری دنیا کو شدت سے انتظار ہے (بخاری، کتاب الوحی، باب کیف کان بدء الوحی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱، ص۳۱۔۳۵)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آپ کا تعار ف جس آدمی نے کرایا وہ آپ کا جانی دشمن تھا۔ اس نے وہی بات بادشاہ کے سامنے دہرائی جس کا تعلق حقیقت سے تھا،حالاں کہ ایک لحظے کے لیے اس کے دل میں خیانت کرنے کی بات بھی آئی ، مگر وہ ایسا نہ کرسکا۔
حضور کے متعلق کفارو مشرکین نے جو نظریات قائم کیے اور آپ کے سلسلے میں خود ان کی ذاتی راے کیا تھی، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک ہندو دانش ور لکھتے ہیں: ’’تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معاصرین خواہ وہ دوست ہوں یا دشمن ،زندگی کے ہرشعبے اور انسانی سرگرمیوں کے ہر میدان میں پیغمبر اسلام کی اعلیٰ خوبیوں ،ان کی بے داغ ایمان داری، اخلاقی اوصاف ،بے پناہ خلوص اور شبہے سے بالاتر امانت ودیانت کے معترف تھے۔یہاں تک کہ یہودی اور وہ لوگ جو آپ کی دعوت پر ایمان نہیں لائے تھے ،ذاتی معاملات میں آپ کو ثالث بناتے تھے کیوں کہ وہ آپ کی غیر جانب داری پر کامل یقین رکھتے تھے۔حتیٰ کہ آپکے پیش کردہ دین کو قبول نہ کرنے والے بھی کہتے تھے:’’اے محمد! ہم تمھیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن ہم اس کا انکار کرتے ہیں جس نے تم پر کتاب اتاری اور تمھیں رسول بناکر بھیجا ‘‘۔وہ سمجھتے تھے کہ آپ پر کسی جِن یا بھوت کا اثر ہے ۔ آپ کو اس اثر سے چھڑانے کے لیے وہ تشدد پر آمادہ ہوگئے۔لیکن ان کے بہترین انسانوں نے دیکھا کہ آپ ایک انوکھی بصیرت کے مالک ہیں اور پھر وہ اس بصیرت کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے‘‘۔(راماکرشنا راؤ،اسلام کے پیغمبر محمد، دہلی،۲۰۰۶ء،ص ۱۴)
مغرب کی عداوت اور اعتراضات
جیسے جیسے مدینہ کے یہودیوں کو علم ہوتا گیا کہ نبی کریم بنی اسماعیل میں سے ہیں ،ان کی عداوت بڑھتی چلی گئی۔ حضور کو جانی ومالی اذیت پہنچانے کے ساتھ انھوں نے آپ کی سیرت اور شخصیت پر پروپیگنڈے کی شکل میں اعتراضات کیے۔ تقریباً یہی صورت اس وقت تک برقرار رہی جب تک مغربی دنیا نے اسلامی علوم سے واقفیت نہ حاصل کرلی تھی۔مذہبی رہنماؤں کے ذریعے برپاکی ہوئی صلیبی جنگوں میں ناکامی نے یورپ کے بُغض وعناد کو مزید بھڑکا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے انتہائی تکلیف دہ باتیں نبی سے منسوب کیں ۔ زمانے کے تغیر کے ساتھ مغرب میں دور دانش کی ہواچلی تو انھوں نے اپنی حکمت عملی بدلی اور علمی بنیادوں پر سیرتِ رسول پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے ،نہایت کم زور اور فرضی دلائل کے ساتھ۔ ہر بری بات کو آپ سے منسوب کیا:صنمیات وضع کیں،چڑیا اور چڑے کی کہانیاں گھڑیں، وحوش وبہائم کی دل خراش داستانیں ترتیب دیں۔ کنویں کا افسانہ تراشا،بیماری کے قصے تیار کیے،نزول وحی کی کیفیات کو صرع سے تعبیرکیااوروحی کو لاشعوری واہمہ ٹھیرایا،تعدد ازواج کو نفس پرستی پر محمول کیا، آپ کی تنگی وترشی کو عیش وعشرت سے تعبیر کیا،اسلام کو پر تشدد مذہب ثابت کیا اور نبی کواس کا علم بردار،چنگیز کے اسلاف سے تعلق ثابت کرنے کے لیے خراسان کی وطنیت موسوم کی ،ہسپانیہ کے مفروضہ سفر کے اہتمام کیے، راہبوں سے نام نہاد تعلیم کے حصول کے ڈھول پیٹے،عیسائی فوج میں تربیت کی داستان تراشی،فرضی حکم رانوں کے خون کا الزام رکھا،عیسائی عہدہ داری اور الوہیت کی تہمت دھری،پھر جو کروٹ بدلی تو جہنم کے شیاطین کو بھی پناہ مانگنے پر مجبور کردیا۔منفی جذبات ہمیشہ انصاف کا خون کرتے ہیں۔ مغرب کو حقائق کاعلم ہوچکا ہے ،لیکن تعصب اور دشمنی ابھی تک ذہن سے چمٹے ہوئے ہیں۔(ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، ۲۰۰۷ء،ص ۱۶۲ و ۳۱۹)
پرانے الزامات کو نئے روپ میں اور اسی قدیم نظریے کو نئے الفاظ کے کے قالب میں ڈھالاجاتا ہے۔ ان باتوں کو اشاعت کے لیے فلموں ، ڈراموں اور کارٹونوں کا بھی سہارا لیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں: ’’کائنات کی کوئی اور شخصیت اس قدر موضوع گفتگو نہیں بنی، جس قدر کہ سرور کائنات کی ہمہ جہت شخصیت۔عالم اسلام میں قلم ان کے عشق ومستی میں سرشار تو عالم عیسائیت کا قلم بُغض وعناد میں ڈوبا ہوا۔ابو جہل وابو لہب نے اگر انھیں شاعرو ساحر ومجنون ومفتون قراردیا تو صادق و امین وحلیم وکریم بھی تسلیم کرتے تھے۔لیکن مغرب کی نظر یں عرب جاہلیہ کے تعادل سے بھی عاری تھیں۔انھیں سواے قبح کے کوئی حسن نظر نہیں آتا۔اپنی کورچشمی کو وہ ان کی شخصیت کا عکس سمجھے، اپنی ذہنی قبح کو الفاظ میں ڈھالااور اسے سیرت نگاری تصور کرتے رہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۹۱۔۱۹۲)
منصوبہ بند طریقے سے جو اعتراضات سیرتِ نبوی پرکیے گئے،اسے چند لوگوں کی کوشش بھی نہیں کہی جا سکتی،بلکہ ایسے لوگوں کی بڑی تعدا دہے۔خاص طور پراٹھارھویں اور انیسویں صدی عیسوی میں ان بھدے اور دل شکن اعتراضات کو جلی سرخیوں کے ساتھ دہرایاگیا ۔ جوزف وہائٹ، ہمفرے پریڈو، ریسکی،ریلانڈ، ریسکی ،ایڈ منڈ ڈوٹے،سینٹ ہلری،دی انکونا،سائمن اوکلے، ایڈورڈ گبن،جارج سیل، گوئٹے ، تھامس کارلائل،دیون پوٹ، باس ورتھ اسمتھ، اسٹینلے لین پول، رینان،واشنگٹن ارونگ،ایچ جی ویلز،کائتانی، بکر،گرم، ولہاوزن، جان کریمر، نولدیکی، اسپرنگر، دوزی، گولڈ زیہر،وبر،ڈیوڈ مارگو لیتھ،ہنری لیمن،ولیم میور وغیرہ نے کم وبیش سیرتِ رسول کو موضوع بحث بنایا۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں بہت سے لوگوں نے سیرتِ رسول پر گفتگو کرتے ہوئے دانستہ یا غیر دانستہ ٹھوکریں کھائی ہیں اورکہیں نہ کہیں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔ ’’ان کے اعتراضات میں شاطرانہ مہارت پائی جاتی ہے جسے رد کرنا عام انسان کے لیے آسان نہیں۔یہ اعتراضات عیسائی دنیا کے لیے دل خوش کن،عالم اسلام کے لیے کرب انگیز اور غیرجانب دار لوگوں کے لیے گم راہ کن ہیں‘‘۔ یہ سب مغربی معاشرے کے ہی پروردہ ہیں، اس لیے ان سے بہتر توقع نہیں کی جاسکتی۔
بہ قول علامہ اسد: ’’یورپین کا رویہ اسلام کے بارے میں اورصرف اسلام ہی کے بارے میں دوسرے غیر مذاہب اور تمدنوں سے بے تعلقی کی ناپسندیدگی ہی نہیں، بلکہ گہری اور تقریباً بالکل مجنونانہ نفرت ہے ۔یہ محض ذہنی نہیں ہے، بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ بھی ہے۔ یورپ بدھشٹ اور ہندو فلسفوں کی تعلیمات کو قبول کرسکتا ہے اور ان مذہبوں کے متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے،مگر جیسے ہی اسلام کے سامنے آتا ہے، اس کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔بڑے سے بڑے یورپین مستشرقین بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہوے غیرمعقول جانب داری کے مر تکب ہو گئے ہیں ۔۔۔ اس طریقۂ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین کے ادب میں ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بالکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔یہ چیز کسی ایک خاص ملک میں محدود نہیں، بلکہ جرمنی، روس، فرانس، اٹلی،ہالینڈ،غرض ہر جگہ جہاں یورپین مستشرقین نے اسلام سے بحث کی ہے ، انھیں جہاں کہیں بھی کوئی واقعی یا محض خیالی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیا جاسکے ،وہاں ان کے دل میں بدنیتی کی مسرت کی گدگدی ہونے لگتی ہے‘‘۔(محمد اسد،اسلام دوراہے پر،۱۹۶۸ء،ص ۴۶۔۴۷)
عصرِ حاضر میں اعتراضات
۲۰ویں اور رواں صدی میں بھی منفی رجحان کی اشاعت کے لیے مغرب سرگرم عمل ہے۔ یہاں تک کہ مادیت کا لالچ دے کر ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو بھی اس کام کے لیے گھسیٹا جاتا ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے علاوہ کئی مسلمان مردو خواتین ہیں جو مغرب کے منصوبوں کو تقویت پہنچارہی ہیں۔ یہ بات بھی بڑی دل چسپ ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلام اور بانی اسلام پر اعتراضات کیے ہیں وہ خودبھی بعض وقت اس سے ایسے بے زار ہوئے کہ سواے قبول اسلام یا مدافعت اسلام کے ان کے سامنے کوئی دوسری راہ ہی نہ تھی۔اس طرح کے واقعات سے تاریخ وتذکرہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
علومِ اسلامیہ کے مطالعے کے لیے مغرب میں باضابطہ ادارے قائم کیے گئے۔مقصد یہ نہیں کہ اسلام کی خوبیوں کو تلاش کرکے اسے قابل استفادہ بنایاجائے اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے،بلکہ اس غرض سے اس کام کو انجام دیا گیا کہ کم زور پہلوؤں کو تلاش کرکے اور فرضی حوالوں کے ساتھ اسلام اور نبی اکرم پر اعتراضات کیے جاسکیں۔مثال کے طور پرکلیسا کے زیر اثر پیٹر ونیریبل (Peter the Venerable) کے ایماپر ترجمہ قرآن کریم کی ناقص کوشش ۱۱۴۳ء میں سامنے آئی ۔ اس کا سہرا ایک انگریز ’رابرٹ‘ کے سر جاتا ہے۔ اس نے قرآن کریم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔اس کا مقدمہ ونیریبل نے لکھا۔اس گروہ کے بعض لوگوں نے اسے خوب پسند کیا، جب کہ اسی حلقے کے بعض دوسرے افراد نے اسے عیسائیت کے لیے ایک بد نما داغ قرار دیا ، کیوں کہ اس میں حقیقت سے چشم پوشی اور فرضی باتوں کو غیر معمولی اہمیت دی گئی تھی۔
وینریبل نے ان لوگوں کو جس بات کے ذریعہ خاموش کرانے کی کوشش کی اس سے اس کا تعصب اور لائحۂ عمل کھل کر سامنے آجاتاہے۔کم وبیش یہی رویہ مستشرقین نے بعد کے ادوار میں اختیار کیا۔چنانچہ اس نے اپنے مقدمے میں صراحت کی ہے: ’’اگر میری مساعی صرف اس لیے لاحاصل نظر آرہی ہیں کہ دشمن پر اس سے کوئی اثر نہیں ہوگا تو عرض یہ ہے کہ ایک عظیم بادشاہ کے ملک میں کچھ کام ضرورتوں کے پیش نظر اور کچھ کام آرایش وزیبایش کے لیے اور کچھ دونوں کے لیے کیے جاتے ہیں ۔ صاحب امن سلیمان نے دفاع کے لیے ہتھیار بنوائے جن کی ضرورت اس کے دور میں نہیں تھی۔داؤد نے ہیکل کی آرایشی اشیا تیار کروائیں،جب کہ یہ اشیا ان کے عہد میں استعمال نہیں کی جاسکیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرا کا م لاحاصل نہیں کہا جاسکتا ،کیوں اگر گم راہ مسلمان اس سے راہ حق پر نہیں لائے جاسکتے تو وہ محقق جو تلاش حق میں سرگرداں ہیں ،چرچ کے ان کم زور اراکین کو آگاہ کرنے سے ہرگز گریز نہیں کریں گے جو بہ آسانی متزلزل ہوجاتے ہیں یا غیر ارادی طور پر معمولی باتوں سے ہراساں ہوجاتے ہیں‘‘۔ (ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ،پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، ص ۱۳۹۔۱۴۰)
اس طرح کی بے ہودہ کوششوں کا ایک تاریخی سلسلہ ہے۔جارج سیل کا ترجمہ قرآن علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔لیکن اس کے مقدمے میں جس دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ علم وتحقیق کے نام پر انتہائی شرم ناک بات ہے۔ مستشرقین کے علمی کام کی نوعیت کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کار فرماہیں ،اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں ،اس میں پہلے اپنی جگہ طے کرلیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیں ماننا ہے۔ اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر‘‘۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم، دہلی، ج ۱،ص ۴۲۳)
متشرقین کا اعتراف عظمتِ رسول
دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں ،مگر خود انھیں اپنے بانیانِ مذہب اور ان کی تعلیمات کا صحیح علم نہیں ہے، جب کہ نبی اکرم کی شخصیت ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔’مارگو لیتھ‘ نے سیرتِ رسول پر کتاب لکھی۔ اس کی ابتدا ہی وہ اس طرح کرتاہے: ’’حضرت محمد کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ممکن نہیں ،لیکن ان میں جگہ پانا شرف کی بات ہے‘‘۔ (ڈاکٹر ایس مارگولیوتھ، Mohammad and the Rise of Islam Condon, ۱۹۲۳ء، نیویارک، ص ۱۱۱)
۞بیروت کے مسیحی اخبار الوطن نے ۱۹۱۱ء میں لاکھوں عرب عیسائیوں سے سوال کیا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟اس کے جواب میں ایک عیسائی عالم’ داور مجاعض ‘نے مختلف محاسن کے ذریعے ثابت کیا کہ محمد دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہیں ۔
۞ ’مائکل ہارٹ‘ نے دنیا کی ۱۰۰ عظیم ہستی‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔اپنے انتخاب میں اس نے نبی اکرم کو سب سے اونچا مقام دیا ہے اور سب سے پہلے آپ کا ذکر کیا ہے۔وہ اپنے مضمون کی ابتدا ان الفاظ میں کرتا ہے:
محمد تاریخ کے واحد شخص تھے جنھوں نے اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی، مذہبی سطح پر بھی اور دنیاوی سطح پر بھی۔ محمد نے معمولی حیثیت سے آغاز کرکے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی اور اس کو پھیلایا۔وہ انتہائی موثر سیاسی لیڈر بن گئے ۔ان کی وفات کے ۱۳ صدیوں بعد آج بھی ان کے اثرات غالب اور طاقت ور ہیں‘‘۔ (مائیکل ہارٹ، The 100، ۱۹۷۸ء، نیویارک)
۞ مغرب کے دوش بہ دوش یا اس کی برپا کی ہوئی تحریک کے زیر اثر ہندستان میں بھی ایسے غیر مسلم مفکرین کی کمی نہیں، جنھوں نے سیرت رسول کا مطالعہ ہر دو پہلو سے کیا ہے۔موقع ومحل سے فائدہ اٹھاکر انھوں نے بھی محمد پر زبان طعن دراز کی ہے۔گنگا پرساد اوپادھیاے بھی انھی لوگوں میں ایک ہیں۔انھوں نے اسلام کامطالعہ تعصب کی عینک لگاکر کیا ہے۔ان کی معروف کتاب مصابیح الاسلام اس کی آئینہ دار ہے۔اس میں انھوں نے اسلام کے بہت سے موضوعات سے بحث کی ہے اور جگہ جگہ اسلامی اصول واقدار پر نشتر زنی کی ہے۔کتاب کے مقدمے میں اپنی لچھے دار باتوں سے ہر دو فریق کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور خود کو غیر جانب دار بتایا ہے۔ باوجود اپنی عناد کے وہ نبی کے متعلق لکھتا ہے:
’’حضرت محمد صاحب کے لیے یہ کچھ کم عزت کی بات نہیں ہے کہ ان کی حسین حیات میں ان کی عظمت کا سکہ سارے عرب میں بیٹھ گیا اور روے زمین کی آبادی کا ایک حصہ آج بھی حضرت محمد صاحب کا معتقد ہونے میں اپنا فخر سمجھتا ہے۔۔۔ جب میں قرآن شریف پڑھنے لگتا ہوں تو حضرت محمد کے خرد مندی اور حوصلے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، اگرچہ میرے اعتقادات اور مروجہ مسلمانوں کے اعتقادات میں مشرق و مغرب کا بُعد ہے‘‘۔ (گنگا پرساد اوپادھیائے، مصابیح الاسلام، الٰہ آباد،۱۹۶۳ء،ص ۹۔۱۰)
بحث اس سے نہیں کہ اس طرح کی نگارشات میں مثبت یا منفی پہلو کا تناسب کتنا ہے۔ بددیانتی بہر حال مذموم چیزہے۔وہ بھی اس عظیم ہستی کے حق میں جس نے دنیا کو گل زار بنادیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دوپہلو سے نبی کی مقبولیت ہی واضح ہوتی ہے۔کیوں کہ اس کے منفی عزائم سے اسلام اور سیرتِ نبوی کے بعض ایسے گوشے سامنے آئے ہیں جو پردۂ اخفا میں تھے، البتہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ضرور ہوتی ہے۔اس کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ پیغمبر خدا کا نمایندہ ہوتا ہے اور اس کی شخصیت ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی تکریم اور تعظیم ضروری ہے ۔بالخصوص مغرب نے اہانتِ رسول کی جو تاریخ رقم کی ہے، وہ انتہائی شرم ناک ہے۔
۞ مئی ۱۸۴۰ء میں ایک عیسائی دانش ور’کارلائل‘نے اپنے طویل خطبہ سیرت میں خاص طور پر اہلِ مغرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر انگشت نمائی کرتے ہیں،آپ کو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے جھوٹ کا جالا کہاں بُنتے ہیں؟ ان لوگوں کے حسد پر جنھوں نے دوتین صدیوں بعد اس مقدس ہستی کے بارے میں کہانیاں گھڑیں ۔خدا کی قسم!محمد اتنے عظیم انسان تھے کہ اگر انھوں نے کوئی غلطی بھی کی ہوتی تو زمانے بھر کے لیے بھلائی اور خوبی کا معیار بن جاتی۔میں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ نسل درنسل دنیا میں لوگ آتے رہیں گے،جاتے رہیں گے ،صحرا کے اس فرزند کی عظمت کو پوری طرح ایک شخص بھی سمجھ نہ سکے گا ۔ ریت کے سمندر میں پیدا ہونے والی ہستی دنیا بھر کو گلزار بنانے کا درس دے گئی۔(کارلائل کا خطبہ ’ششماہی مجلہ السیرۃ (شمارہ ۱۷،مارچ ۲۰۰۷ء،ص ۳۶۶)
مقبولیتِ رسول میں اضافہ
اہلِ مغرب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کیے ہیں، اس سے دنیا کا ہرسنجیدہ آدمی واقف ہے ۔ اس کی اصلیت بھی بڑی حد تک اس پر آشکارا ہوچکی ہے۔کارلائل نے بھی کہا تھا کہ مغربی تعصب نے نبی کو ایک مکروہ صفت انسان بنانے کی جو جنگ چھیڑ رکھی ہے،اس سے مفید نتیجہ برآمد نہیں کیا جاسکتا،اس طرح تو ان کی مقبولیت میں ہی اضافہ ہواہے: ’’محمد کے بارے میں ہمارے موجودہ خیالات (۱۸۴۰ء) کہ وہ (نعوذ باللہ) ایک جعلی پیغمبر تھے،اور ان کا پیش کردہ مذہب بے سروپا عقیدوں کا مجموعہ ہے،غوروفکر کی روشنی میں یہ خیال صاف پگھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔جس طرح دروغ گوئی کا انبار ہم نے اس مقدس ہستی کے گرد لگادیا ہے وہ عظیم ہستی کے لیے نہیں مسیحیوں کے لیے باعث شرم ہے۔ گذشتہ ۱۲ صدیوں کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اس پیغمبر عالی مقام کا پیغام آج بھی ۱۸کروڑ انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ کیا یہ ۱۸ کروڑ انسان خدا کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟اگر ہم ان تمام افراد کو بھٹکے ہوئے اور گم کردہ راہ سمجھیں تو سوچنے کا مقام ہے۔کیا جعلی پیغام بارہ صدیوں تک اس کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے؟کیا میرے ہم مذہب بھائی بہن یہ بات نہیں جانتے کہ آج بھی کرۂ ارض میں قرآن کریم کے اصول آگے بڑھ رہے ہیں۔ بناوٹ بناوٹی ہوتی ہے اور اسے ظاہر ہونے میں صدیاں نہیں لگتیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۶۵)
ایک نبی جو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اس میں اس قدر تناقص کا جمع ہونا محال ہے۔ چنانچہ مغرب کی طرف سے اب جو اعتراضات اٹھائے گئے ان میں وہ بات نہ رہی جو پہلے سے چلی آرہی تھی، پھربھی اس کی نیت پاک نہیں رہی۔اب ان کے دعووں کے دبدبے طنطنے میں بدل گئے،لے وہی رہی، سُروں میں فرق آگیا۔اس جدا گانہ طریق کار سے بھی جو بات نکل کرسامنے آئی وہ بھی اہانت رسول پر ہی مبنی ہے ۔
ایسا کبھی نہیں ہواکہ قابل ملامت شخصیت پر دنیا کی توجہ ہمیشہ مرکوز رہی ہو۔ اگر (نعوذباللہ) نبی ایسے تھے تو دنیا نے اس کے ذکر میں اپنا وقت کیوں صرف کیا اور نتائج اخذ کرنے میں اپنے صاف وشفاف ذہن پر بوجھ کیوں ڈالا؟اس سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ ایک کامیاب انسان تھے، جس کی کوئی نظیر نہ پہلے تھی اور نہ بعد میں ہوسکتی ہے۔چند لوگوں پر پاگل پن اور دیوانہ پن کا الزام لگایا جاسکتا ہے ،مگر آج دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی جو تعداد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں مغرب کا بہترین دماغ کہا جاسکتا ہے، ان سب پر دیوانہ پن کا الزام کیسے درست ہوسکتا ہے۔تاریخ کے ہر دور میں آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز طریقے سے اضافہ ہی ہوا ہے، کمی کبھی نہیں آئی۔ بڑی تعدا دمیں لوگوں نے سیرتِ رسول کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس پر خاطر خواہ کام کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں: ’’دنیا کی مختلف زبانوں میں بانیِ اسلام کی سوانح پر ہزاروں کتب موجود ہیں۔ان کے مصنفوں میں اسلام کے دوست اور دشمن سبھی شامل ہیں۔تمام مصنف خواہ وہ رسول اسلام کو پسند کریں یا محض اس بات پر نا پسند کریں کہ ان مصنفوں کا تعلق اسلام کے مخالف مذاہب سے ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ محمد ایک عظیم انسان تھے۔ جن مصنفوں نے جان بوجھ کر رسولِ اسلام کی زندگی اور تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ، ایسے مصنفوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔دراصل وہ بھی انھیں بالواسطہ طور پر خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ وہ رسولِ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں ،کیوں کہ وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر انھوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کردی تو ان کے ہم مذہب گم راہ ہوجائیں گے،جنھیں وہ قبولِ اسلام سے روکنے کے لیے بانیِ اسلام کے متعلق بے سروپا کہانیاں گھڑ کر سناتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی ذہنی بددیانتی آج بھی جاری ہے۔ یہ بات تحیر خیز ہے کہ جدید مغرب کے زبر دست مادی اور دوسرے وسائل کے باوجود حضرت محمد کی ذات کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے،جن کی توقع اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کی اشاعت، ریڈیو، ٹی وی نشریات اور فلموں کی نمایش کے بعد کی جاسکتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جتنے وسائل عیسائی مشنریوں اور کمیونسٹوں کو حاصل ہیں ،اگر اسلام اتنے ہی وسائل سے بہرہ ور ہوتا تو دنیا کا کیا رخ ہوتا۔لیکن اس کے باوجود یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ مسیحی کمیونسٹ مغرب دونوں میں اسلام نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ۳۰ سال کے دوران انگلستان میں کوئی ایک ۱۰۰ سے زائد مساجد تعمیر ہوئی ہیں،جرمنی اور فرانس بھی اس میدان میں انگلستان سے پیچھے نہیں ۔امریکی سفید فاموں میں بھی قبول اسلام کے واقعات کی کمی نہیں۔ چنانچہ اسلام کو گلے لگانے والوں میں سفرا،پروفیسر اور دیگر معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر سال سیکڑوں سیاح استنبول میں مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، جہاں اناطولیہ کی نسبت مذہبی جو ش و خروش زیادہ نہیں‘‘۔ (ڈاکٹرمحمد حمیداللہ،محمد رسول اللّٰہ، ۲۰۰۳ء،ص ۲۵۳۔۲۵۴)
ایک خوش آیند پہلو!
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ہر روز کم وبیش ۴لاکھ ۳۲ ہزار افراد اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس میں۳ ہزار۵ سو عیسائی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اچھی خاصی تعداد ان گرجوں کی ہے جومسجدوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور وہاں سے نداے توحید بلند ہورہی ہے۔ برطانیہ میں ۱۹۹۵ء کے اعداد وشمارکے مطابق چرچ جانے والے عیسائیوں کی تعداد ۸ لاکھ ۵۴ہزار تھی ، جب کہ پابندی سے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد۵ لاکھ ۳۶ ہزار ہے۔
کرسچین ایسوسی ایشن کے سروے کے مطابق چرچ سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کی تعداد سالانہ ۱۴ ہزار کم ہورہی ہے، جب کہ مسجد جانے والے مسلمانوں کی تعداد میں سالانہ ۳۲ ہزار کا اضافہ ہورہا ہے (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، شمع فروزاں، ۲۰۰۷ء،ج ۱،ص ۲۲۹)۔ یہ اعدادو شمار بالکل صحیح ہیں تواسلامی دنیا کے لیے یہ بڑاہی خوش آیند پہلو ہے۔
پوری دنیا کوبالعمو م اور خاص طور پرمغربی دنیاکو بالخصوص اپنی تہذیبی اقدار کے فنا ہوجانے کا جس سے خطرہ لاحق ہے ،وہ اسلام اور مسلمان ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کو مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔لیکن کیا اس کے ذریعے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوں گے ؟اس کی نفی کرتے ہوئے کے۔ ایل۔ گابا نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’اسلام اب تک نہ صرف ایک زبردست زندہ قوت کی حیثیت سے موجود ہے،بلکہ روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بلقانیوں کا حسد،یہودیوں کی نفرت،ہندوؤں کا تعصب اور روس کی مخاصمت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے‘‘۔(کے ایل گابا،پیغمبر صحرا (اُردو ترجمہ)،ص ۸)
جارج برناڈشا اپنے زمانے کے مغربی مصنفین کی فہرست میں اول جگہ پانے کا مستحق ہے، اس کے قلم نے کوئی میدان ایسا نہیں چھوڑا ،جہاں اس نے جولان گاہی نہ دکھائی ہو اور اس کے قلم کے حملوں سے شایدہی کوئی مذہب بچا ہو۔اس کے زورِ قلم کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ لکھا دنیا میں پھیل گیا۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس میں تمام مذاہب کے علما کی مجلس کے بحث ومباحثہ کی تفصیل درج ہے۔ اس مجلس کا وہ خود روح رواں اور اس میں شریک تھا۔ سب نے ایک دوسرے کے مذہب کا خوب مذاق اڑایا۔اس کے بعد برناڈشا جس نتیجے پر پہنچتا ہے ،اس کااظہار وہ اس طرح کرتا ہے: ’’۱۰۰ برس کے اندر اندر اور بالخصوص انگلستان کو کوئی ایسامذہب اختیار کرنا پڑے گا جو یاتو اسلام ہوگا یا اسلام سے بہت کچھ ملتا جلتا ہوگا‘‘۔ (ماہ نامہ دارالعلوم، دیوبند، فروری ۲۰۰۱ء،ج ۸۵، شمارہ۲، ص ۴۳۔۴۴)
بالفرض اگر نبوت سے ہٹ کر ایک عام انسان کی طرح نبی اکرم کفار مکہ کو وعظ وپند کرتے اور انھیں برائیوں سے روکنے کی تلقین کرتے تو وہ آپ کی مخالفت کرنے کے بجاے آپ کو دیوتا بناکر آپ کی پوجا شروع کردیتے اور کوئی بعید نہ تھا آپ کا بھی ایک بت تراش کر خانہ کعبہ میں آویزاں ۳۶۰ بتوں کے ساتھ کردیتے اور طواف کے وقت ان کے نام کا ورد کرتے۔یا پھر آپ ان کے عقائد اور ان کے افعال شرک کی مذمت نہ کرتے تو بھی وہ آپ کی مخالفت نہ کرتے۔ لیکن چونکہ اسلام اسی شرک اور برائی کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اس لیے نبی کی ذات سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ آپ مصالحت کرلیتے۔اس کے برخلاف معاندین اسلام نے عقائد وایمان کے باب میں اپنے دماغ کو نہیں کھپایا،کیوں کہ انسان کی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے وہ اس پر واضح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے مگر آپ کی سیرت وشخصیت پر حددرجہ رکیک حملے کیے تاکہ مسلمان اپنے نبی سے برگشتہ ہوجائیں اور دوسرے لوگ بھی اس کے قریب نہ جائیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی ذات کو ہر پہلو سے پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ بنادیا اور ’’آپ کے ذکر کو سارے جہان میں بلند کردیا‘‘(الم نشرح:۴)۔دوست ہوں یا دشمن، کافر ہوں یا مشرک،مسلمان ہوں یا غیرمسلم، ہر کوئی اس سے رہ نمائی حاصل کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کو جنت نشان بناسکتا ہے۔لیکن یہ عمدہ صفات مغرب ہی نہیں ،ہر کسی کو اس لعنت سے دور رکھتی ہیں جس میں گھر کر وہ اپنی انسانیت کو بھول جاتا ہے اور برائیوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔چونکہ انسان کی فطرت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ زیادہ دنوں تک وہ برائیوں کو برداشت بھی نہیں کرسکتی، اور اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی مذہب سے بے گانہ ہونے اور اس کی تعلیمات کو فراموش کردینے کے باوجود ان برائیوں کو قبول کرنے یا تسلیم کرنے سے مانع ہوجاتی ہے۔جب یہ باتیں کسی بھی سنجیدہ انسان کے قلب وذہن میں آسکتی ہیں تو اس بات کو تسلیم کرلینے میں کیا قباحت ہے کہ نبی کا نافذکردہ دین اور آپ کے خصائص اور آپ کی تعلیمات سے دنیا میں انقلاب بر پا ہوسکتا ہے جس کی متقاضی خود فطرت انسانی ہے۔کیا دنیا نے یہ نہیں دیکھا کہ مختصر عرصے میں خاص کر عرب معاشرہ گوناں گوں صفات کا حامل ہوگیا جنھیں دیکھ کر قوموں اور ملکوں کی تقدیر بدل گئی اور خود ان کی زندگی روشن اور تابناک۔ لیکن یہ باتیں تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ان کے مفاد مجروح ہونے لگتے ہیں، اس لیے مغرب نے اپنی عارضی اور بہ ظاہر خوش نما زندگی کو نکھارنے کا پیمانہ ہی بدل دیا،جس پر کوئی دوسرا پورا ہی نہیں سکتا۔ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی: ’’مغرب اپنی عیسائی قدروں پر دیگر عظام کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے نزدیک ہرعظیم آدمی کو گوری رنگت کا ہونا چاہیے۔مذہباً وہ عیسائی ہو اور صرف عیسائی ہی نہیں کیتھولک عیسائی ہو۔ اس کی زبان لاطینی ہو ،اس کی فکر افلاطونی ہو، رہن سہن مغربی ہو ،کردار افسانوی ہو۔ اگر یہ سب اس میں نہ ہوتو اس کی عظمت ناقابل تسلیم رہتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان خودساختہ پیمانوں پر کوئی غیرمغربی اتر ہی نہیں سکتا ۔یہ خامی پیمانے کی ہے اور جب تک پیمانے کی خامی دور نہ ہوگی پیمایش کی صحت کا تصور بھی نہیں پیدا ہوسکتا‘‘۔ (ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ،پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر،ص ۳۲۱)
مغرب اپنے عزائم اور منصوبوں میں کامیاب ہوگا کہ نہیں، اس کا ہلکاسا اشارہ مذکورہ اعدادو شمار میں کیا جاسکتا ہے۔دین اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔مسلمانوں کے پاس جب تک قرآن اور اس کے نبی کی تعلیمات موجود ہیں، اسے کوئی طاقت یا کوئی بھی پروپیگنڈا دبا نہیں سکتا۔ یہی بات نبی آخرالزماں نے اپنے آخری وقت میں فرمائی تھی:’’میں تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑے جارہاہوں ،جب تک اسے مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گم راہ نہ ہوگے۔ایک قرآن اور دوسری اپنی سنت‘‘ (عبدالرؤف المناوی،فیض القدیرشرح جامع الصغیر، ۱۹۳۸ء،ج ۲، ص ۲۴۰)۔ دین کے دشمن خدا کے نور انی چراغ کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں،وہ اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور یہ نورانی چراغ ہمیشہ روشن اور چمکتا رہے گا۔ اللہ نے آپ کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے بلند کردیاہے ،کیوں کہ آپ نبی برحق اور آخرالزماں ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّونَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ اُولٰٓءِکَ فِی الاَذَلِّیْنَ o کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (المجادلہ ۵۸:۲۰۔۲۱) بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کررہے ہیں وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۔بے شک اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔
(مقالہ نگار محقق ہیں اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں)۔
______________

No comments:

Post a Comment